دینی عقاید اور شرعی عبادت کی ترغیب میں اہل ارادت میں سے ایک صالحہ عورت کی طرف صادر فرمایا ہے:۔
الحمد لله الذي انعم علينا و هدانا إلى الإسلام وجعلنا من أمة محمد سيد الأنام عليه وعلى اله الصلوة والسلام الله تعالی کی حمد ہے اس نے ہم پر انعام کیا اور ہم کو اسلام کی ہدایت دی اور حضرت سید الانام کی امت میں سے بنایا)
جاننا چاہئے کہ حق تعالی منعم على الاطلاق ہے۔ اگر وجود ہے تو اس کا بخشا ہوا ہے اور اگر بقا ہے تو اسی کی عطا اور اگر صفات کا ملہ ہیں تو اسی کی رحمت شاملہ سے حاصل ہیں۔ زندگی اور توانائی اور دیکھنے اور سننے اور کہنے کی طاقت سب اسی کی طرف سے ملی ہیں اور ہر طرح کے انعام و اکرام جو حد وشمار سے باہر ہیں سب اسی کی طرف سے پہنچے ہیں۔وہی سختی اورتنگی کو دور کرتا ہے اور وہی دعا کوقبول اور بلاء کو دفع کرتا ہے۔ وہ ایسا رزاق ہے کہ اپنی کمال مہربانی سے گناہوں کے باعث بندوں کی روزی کو بند نہیں کرتا۔ وہ ایساستار ہے کہ اپنی زیادہ عفو اور درگزر سے برائیوں کے ارتکاب کے باعث بندوں کی پردہ دری نہیں کرتا۔ وہ ایسا حلیم ہے کہ ان کے عذاب ومواخذه میں جلدی نہیں فرماتا ۔ وہ ایسا کریم ہے کہ اپنی عام بخشش کو دوست و دشمن سے ہٹا نہیں رکھتا۔ ان نعمتوں میں سے اعظم اوراجل اوراعز وا کرم نعمت اسلام کی طرف دعوت کرنا اور دارالسلام کی طرف ہدایت کرنا اور حضرت سید الا نام علیہ الصلوۃ والسلام کی متابعت کی طرف رہنمائی کرنا ہے۔ جس پر دائمی زندگی اور ہمیشہ کی لذت ونعمت اورلقا و رضائے مولی جل شانہ موقوف ہے۔ غرض حق تعالی کے انعام و اکرام و احسان سورج سے زیادہ ظاہر اور چاند سے زیادہ روشن ہیں۔ دوسروں کے انعام اسی کی اقدار و تمکین اور قدرت وبخشش سے ہیں اور ان کا احسان استعارة من المستعير و سوال من الفقير (ادھار اور عاریتا کسی چیز کے رکھنے والے سے مانگنا اور فقیر سے سوال کرنا) کی قسم سے ہے۔ اس بات کو دانا اور نادان سب جانتے ہیں اور غبی وذ کی ( کند فہم اور تیز فہم یعنی جاہل اور عالم سب اس امر کا اقرار کرتے ہیں ۔
گر برتن من زبان شود ہر موئے یک شکر وے از ہزارنتو انم کرد
ترجمہ: اگر ہر بال میں میرے زبان ہونہ پھر بھی شکر کچھ مجھ سےبیاں ہو
شک نہیں کہ عقل کی بداہت منعم کے شکر کے واجب ہونے کا حکم کرتی ہے اور اس کی تعظیم و تکریم کو لازم جانتی ہے۔ پس حق تعالی کا شکر جومنعم حقیقی ہے۔ عقل کی بداہت سے واجب ہوا اور اس کی تعظیم و تکریم ضروری ہوئی۔ چونکہ حق تعالی کامل تقدیس و تنزہ میں ہے اور بندے نہایت گندگی اور آلودگی میں ہیں۔ کمال بے مناسبتی سے کیا معلوم کر سکتے ہیں کہ حق تعالی کی تعظیم و تکریم کس کا امر ہے۔ بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ بندے بعض امور کا اطلاق اس پاک جناب پر مستحسن اور پسندیدہ جانتے ہیں، لیکن درحقیقت حق تعالی کے نزدیک مکروہ ہوتا ہے اور جس کو عظیم خیال کرتے ہیں وہ توہین ہوتی ہے اور جن کو تکریم تصور کرتے ہیں وہ تحقیر ہوتی ہے۔ پس جب تک حق تعالی کی تعظیم و تکریم اسی کی جناب پاک سے مستفاد نہ ہو تب تک اس کے شکر کے لائق اور اس کی عبادت کے قابل نہیں ہوتی کیونکہ وہ حد جو بندوں کی اپنی طرف سے ہے وہ سراسرہجو ہے اور ان کی مدح نری قدح ہے۔ حق تعالی کی تعظیم و توقیر و تکریم جو اسی کی بارگاہ سے ہمیں پہنچی ہے اوراگر زبانی ثناہے تو وہ بھی ظاہر ہے۔ اعضا کے اعمال و افعال کو بھی صاحب شریعت نے مفصل طور پر بیان فرما دیا ہے۔ پس حق تعالی کے شکر کا ادا کرنا شریعت کے بجالانے میں منحصر ہے خواہ وہ شکرقلبی ہو۔ بدنی اعتقادی ہو یا عملی۔ حق تعالی کی وہ تعظیم وعبادت جو شریعت کے برخلاف ادا کی جائے وہ اعتماد کے لائق نہیں بلکہ بسا اوقات ایسی عبادت سے ضد حاصل ہوتی ہے اور وہمیہ نیکی درحقیقت برائی ہوتی ہے۔ پس بیان مذکورہ کے ملاحظہ سے عقل کے نزدیک بھی شریعت کے موافق عمل کرنا واجب ہے اور اس کے اتباع کے بغیر منعم تعالی کے شکر کا ادا کرنا مشکل ہے۔ شریعت کے دو جزو ہیں۔ ایک اعتقادی دوسراعملی۔ اعتقاد دین کا اصل ہے اور عمل اس کی فروع۔ جوشخص اعتقاد کا منکر ہو وہ اہل نجات میں سے نہیں ہے۔ اس کے حق میں عذاب آخرت سے خلاصی متصور نہیں اور جس شخص میں عمل مفقود ہو اس کے لیے نجات کی امید ہے۔ اس کا معاملہ حق تعالی کی مرضی کے سپرد ہے۔ خواہ معاف کرے، خواہ گناہوں کے موافق عذاب دے، دوزخ میں ہمیشہ رہنا اعتقاد اور ضروریات دین کے منکر پرمخصوص ہے اورعمل کا نہ کرنے والا اگر چہ عذاب میں داخل کیا جائے گا لیکن دوزخ کا دائمی عذاب اس کے حق میں مفقود ہے۔ اعتقادیات چونکہ دین کے اصول اور اسلام کی ضروریات میں سے ہیں۔ اس لیے ان کو بیان کیا جاتا ہے اور عملیات چونکہ فرع ہیں اوران کی تفصیل بھی دراز ہے۔ اس لیے ان کی تفصیل کو کتب فقہ کے حوالے کر کے بعض ضروری عملیات بھی بیان کیے جائیں گے تاکہ طالبوں کو ترغیب ہو۔ انشاء الله تعالی۔
. اعتقادیات
(1) الله تعالی اپنی ذات اقدس میں موجود ہے اور اس کی ہستی اپنی خودی سے ہے۔حق تعالی جیسا تھا اب بھی دیساہی ہے اور ہمیشہ باقی رہے گا۔ عدم سابق اور عدم لاحق کو اس کی پاک بارگاہ کی طرف راستہ نہیں۔ کیونکہ وجوب وجود اس مقدس درگاہ کا کمینہ خادم ہے اور سلب عدم اس بارگاه بزرگ کا کمینہ خاکروب ہے اور حق تعالی ایک ہے۔ اس کا کوئی شریک نہیں۔ نہ وجوب وجود میں نہ الوہیت میں اور نہ عبادت کے استحقاق میں کیونکہ شریک کی اس وقت ضرورت ہوتی ہے جبکہ وہ کافی اور مستقل نہ ہو اور یہ نقص کی علامت ہے۔ جو وجود الوہیت کے منافی ہے اور جب وہ کافی اور مستقل ہے تو شریک بیکار اور عبث ہوگا۔ یہ بھی نقص کی علامت ہے۔ جو وجوب الوہیت کے منافی ہے۔ پس شریک کے ثابت کرنے میں دونوں شریکوں میں سے کسی ایک کانقص لازم آتا ہے۔ جو شرکت کے منافی ہے۔ پس شرکت کا ثابت کرنا شرکت کی نفی کو مستلزم ہے اور یہ محال ہے۔ پس ثابت ہوا کہ حق تعالی کا شریک محال ہے۔
(2) حيات ،علم، قدرت، ارادت،سمع، بصر، کلام، تکوین حق تعالی کی صفات کاملہ ہیں۔ ان آٹھ صفتوں کو صفات حقیقیہ کہتے ہیں۔ یہ صفات قدیم ہیں اورحق تعالی کی ذات پر وجود زائد کے ساتھ خارج میں موجود ہیں۔ جیسے کہ علماء اہل حق شکر اللہ تعالی سعیہم کے نزدیک مقرر ہے۔ اہل سنت و جماعت کے سوا مخالف گروہوں میں سے کوئی گروہ بھی صفات زائدہ کے وجود کا قائل نہیں۔ حتی کہ اس فقہ ناجیہ میں سے صوفیہ متاخرین نے بھی صفات کوذات کا عین کہا ہے اور مخالفوں کے ساتھ موافق ہو گئے ہیں۔ اگر چہ صفات کی نفی سے کنارہ کرتے ہیں، لیکن ان کے اصول اور ظاہر عبارت سے صفات کی نفی لازم آتی ہے۔ مخالفوں نے صفات کاملہ کی نفی کو کمال سمجھا ہے اور اپنی عقل کے پیچھے لگ کر نصوص قرآنی سے جداجا پڑے ہیں، لیکن ان کے اصول اورظاہر عبارات سےصفات کی نفی لازم آتی ہے۔ اللہ تعالی ان کو سیدھے راستے کی ہدایت دے اور دوسری صفات یا اعتبار یہ ہیں یا سلبیہ جیسے قدم أزلیت و وجوب و الوھیت چنانچہ کہتے ہیں کہ حق تعالی جسم و جسمانی نہیں۔ عرض و جوہر نہیں۔ مکانی اور زمانی بھی نہیں،حال محل بھی نہیں، محدود ومتناہی نہیں،جہت سے بے جہت ہے اور نسبت سے بے نسبت ہے۔ کفایت اور مثلیت یعنی ہمسر اور ہم مثل ہونا اس کی جناب پاک سے مسلوب ہے اور ضدیت ندیت اس بارگاه بلند سے مفقود ہے۔ ماں باپ وعورت و بیٹے سے پاک و مبرا ہے۔ کیونکہ یہ سب حدوث کے نشان ہیں اور اس سے نقص لازم آتا ہے اور تمام قسم کے کمالات حق تعالی کی جناب کے لیے ثابت ہیں اور تمام قسم کے نقائص اس درگاہ سے مطلوب ہیں۔ غرض امکان وحدوث کی صفات جوسراسرنقص و شرارت ہیں سب اس کی جناب پاک سے مسلوب سمجھنے چاہئیں۔
(3) حق تعالی کلیات و جزئیات کا عالم ہے اور اسرار و خفیہ چیزوں کا جاننے والا ہے۔ آسمانوں اور زمینوں میں ایک ذره حقیر بھی اس کے احاطہ علم سے باہرنہیں ہے۔ ہاں جب تمام اشیاء کا پیدا کرنے والا وہی ہے تو ان اشیاء کاعالم بھی ضرور ہو گا، کیونکہ خالق کو خلق کے علم سے چارہ نہیں۔ بعض بد بخت لوگ(فلاسفہ یونان اور متبعین) حق تعالی کو جزئیات کا عالم نہیں جانتے اور اس امر کو اپنی عقل ناقص میں کمال سمجھتے ہیں اور اپنی کمال بے وقوفی سے کہتے ہیں کہ واجب الوجود جل شانہ سے صرف ایک ہی چیز صادر ہوسکتی ہے اور وہ بھی اضطراریعنی مجبوری سے نہ کہ اختیار سے اور اس کو بھی کمال خیال کرتے ہیں۔ یہ لوگ بہت ہی جاہل ہیں جو جہل کو کمال تصور کرتے ہیں اور اضطرار کو اختیار سے بہتر جانتے ہیں اور اضطرار و اختیار میں تمیز نہیں کر سکتے اور اپنی جہالت سے دوسری اشیاء کو حق تعالی کےغیر کی طرف منسوب کرتے ہیں اورعقل فعال کو اپنے پاس سے بنا کر محدثات کو اس کی طرف منسوب کرتے ہیں اورزمینوں اور آسمانوں کے خالق کو معطل و بیکار سمجھتے ہیں۔ فقیر کے نزدیک اس گروہ سے زیادہ کمینہ اور بیوقوف گروہ کو ئی جہان میں پیدا نہیں ہوا۔ سبحان اللہ بعض اہل اسلام لوگ ان پلیدوں کو ارباب معقول تصور کرتے ہیں اور ان کو حکمت کی طرف منسوب کرتے ہیں اوران کے جھوٹے احکام کونفس الامر کے مطابق خیال کرتے ہیں رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوبَنَا بَعْدَ إِذْ هَدَيْتَنَا وَهَبْ لَنَا مِنْ لَدُنْكَ رَحْمَةً إِنَّكَ أَنْتَ الْوَهَّابُ یااللہ تو ہدایت دے کر پھر ہمارے دلوں کو ٹیڑھانہ کر اور اپنے پاس سے ہم پر رحمت نازل فرما۔ تو بڑا بخشنے والا ہے۔
(4)حق تعالی ازل سے ابد تک ایک ہی کلام سےمتکلم ہے۔ اگر امر ہے۔ تو اسی ایک کلام سے ہے اوراگرنہی ہے تو بھی اسی سے ہے۔ ایسے یہ اخبار و استخبار (خبر دینا،خبر طلب کرنا)اسی ایک کلام سے پیدا ہیں اور اگر توریت وانجیل ہے تو اسی ایک کلام کی دلیل ہے اور اگر زبوروفرقان ہے تواسی کلام کا نشان ہے۔ اسی طرح تمام کتا ہیں اور صحیفے جوانبیا علیہم الصلوۃ والسلام پر نازل ہوئے ہیں سب اسی کلام کی تفصیل ہیں۔ جب ازل و ابد باوجود اس قدر وسعت اور درازی کے وہاں آن واحد ہے بلکہ وہاں ان کی گنجائش ہی نہیں، کیونکہ آن کا اطلاق اس جگہ عبارت کی تنگی کے باعث ہے۔ تو پھر وہ کلام جو اس آن میں صادر ہوگی وہ ایک کلمہ بلکہ ایک حرف بلکہ ایک نقطہ ہوگی۔ نقطہ کا اطلاق بھی عبارت کی تنگی کے باعث کیا گیا ہے۔ ورنہ وہاں نقطہ گنجائش نہیں رکھتا۔ حق تعالی کی ذات و صفات کی وسعت بیچونی اور بیچگونی کی قسم سے ہے اور اس وسعت تنگی سے جو امکان کی صفات ہیں۔ پاک ومنزہ ہیں۔
(5) مومن حق تعالی کو بیچونی اور بیچگونی کے طور پر دیکھیں گے، کیونکہ وہ رویت جوبيچون کے متعلق ہے وہ بھی بیچون ہوگی۔ بلکہ دیکھنے والا بھی بیچونی سے حظ وافر (پورا پورا حصہ) پائے گا۔ تا کہ بیچون کو دیکھ سکے لا يحمل عطايا الملک إلا مطاياه بادشاہ کے عطیوں کو اسی کے اونٹ اٹھا سکتے ہیں آج اس معما کو اپنے اخص خواص اولیاء پرحل و منکشف کیا ہے۔ یہ مسئلہ پوشیدہ بھی ان بزرگوں کے نزدیک تحقیقی ہے اور دوسروں کے نزدیک تقلیدی۔ اہل سنت و جماعت کے سوا تمام مخالف گروہ کیا مومن کیا کافر اس مسئلہ کے قائل نہیں ہیں اور سب کے سب اہل سنت و جماعت کے سوا حق تعالی کے دیدار کو محال جانتے ہیں۔ مخالفوں کا متشہد یعنی دلیل حاضر پر غالب کا قیاس ہے۔ جس کا فساد ظاہر ہے۔ سنت سنیہ علی صاحبہا الصلوة والسلام کی متابعت کے بغیراس قسم کے پوشیدہ مسئلہ پر ایمان کا حاصل ہونا مشکل ہے۔ بیت
لائق دولت نبود ہر سرے بار مسیحا نکشد ہر خرے
ترجمہ بیت: لائق دولت نہیں ہر ایک سر مرکب عیسی نہیں ہر ایک خر
تعجب آتا ہے کہ جو لوگ دولت رویت کا ایمان نہیں رکھتے۔ وہ اس سعادت کو کس طرح حاصل کریں گے کیونکہ منکر کے نصیب مایوسی اور ناامیدی ہوتی ہے اور اس سے زیادہ تعجب کی بات یہ ہے کہ بہشت میں رہیں اور پھر نہ دیکھیں کیونکہ شرع سے جو کچھ بظاہر مفہوم ہوتا ہے وہ یہی ہے کہ تمام اہل بہشت کو دیدار کی دولت حاصل ہوگی اور یہ کہیں نہیں آیا کہ بعض اہل بہشت دیکھیں گے اور بعض نہ دیکھیں گے۔ ان لوگوں کے حق میں حضرت موسی علیہ الصلوة والسلام کا وہی جواب کافی ہے جو انہوں نے فرعون کے سوال میں فرمایا تھا۔ اللہ تعالی نے حضرت موسی علیہ الصلوة والسلام اور فرعون کا حال بیان کرتے ہوئے فرمایا ہےقَالَ فَمَا بَالُ الْقُرُونِ الْأُولَى قَالَ عِلْمُهَا عِنْدَ رَبِّي فِي كِتَابٍ لَا يَضِلُّ رَبِّي وَلَا يَنْسَى الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ الْأَرْضَ مَهْدًا وَسَلَكَ لَكُمْ فِيهَا سُبُلًا وَأَنْزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً ( کہا کہ پہلی قرنوں کا کیا حال ہے۔ کہا کہ ان کا علم میرے رب کے پاس کتاب میں ہے۔ میراوہ رب جو نہیں بھولتاوہ جس نے زمیں کو تمہارے لیے بچھونا بنایا ہے اور تمہارے واسطے راستے بنائے اورآ سمانوں سے پانی اتارا جاننا چاہئے کہ بہشت اور ماسوائے بہشت سب حق تعالی کے نزدیک برابر ہیں، کیونکہ سب اس کی مخلوق ہیں اور ان میں سے کسی میں حق تعالی کے لیے حلول وتمکین نہیں، لیکن بعض مخلوق کو حق تعالی کے انوار کے ظہور کی لیاقت ہے اور بعض کو نہیں جس طرح کہ آئینہ صورتوں کے ظہور کی لیاقت رکھتا ہے اور پتھر ومٹی یہ قابلیت نہیں رکھتے۔ پس اس بارگاہ جل شانہ کی طرف سے مساوات کی نسبت کے باوجودفرق اسی طرف سے ہے۔ بیت
این قاعده یاد دار آنجا که خداست . نہ جزوکل : ظرف و مظروف است
ترجمہ بیت یادرکھو جس جاده خداوند برین ہے ظرف و مظروف و جز وکل نہیں ہے۔
دنیا میں رویت واقع نہیں۔ کیونکہ یہ مقام اس دولت کے ظہور کی لیاقت نہیں رکھتا۔ جوشخص دنیا میں رویت کے واقع ہونے کا قائل ہے وہ جھوٹا اور مفتری ہے۔ اس نے حق تعالی کے غیر کو جانا ہے۔ یہ دولت اگر اس جہان میں میسر ہوتی تو دوسروں کی نسبت حضرت کلیم الله علیہ الصلوة والسلام زیادہ حقدار تھے اور ہمارے حضرت پیغمبر علیہ وعلی آلہ الصلوة والسلام جو اس دولت سے مشرف ہوئے ہیں۔ تو اس کا وقوع دنیا میں نہیں ہوا ہے بلکہ بہشت میں گئے ہیں اور دیکھا ہے جو عالم آخرت میں سے ہے۔ دنیا میں نہیں دیکھا بلکہ دنیا میں دنیا سے نکل کر آخرت کے ساتھ ملحق ہو گئے ہیں اور پھر دیکھا ہے۔
(6) حق تعالی زمینوں اور آسمانوں اور پہاڑوں اور دریاؤں اور درختوں اور میووں اور کانوں اور نباتات کا پیدا کرنے والا ہے۔ آسمان کو ستاروں کے ساتھ اور زمیں کو انسان کے
ساتھ آراستہ و پیراستہ کیا ہے۔ اگر بسیط ہے تو اسی کی ایجاد سے موجود ہوا ہے اور اگر مر کب ہے تو وہ بھی اسی کے پیدا کرنے سے پیدا ہوا ہے۔ غرض اسی نے تمام اشیاء کو عدم سے وجود میں لا کرحادث کیا ہے۔
حق تعالی کے سوا کسی کے لیے قدیم یعنی ہمیشگی نہیں اور نہ ہی اس کے سوا کوئی چیز قدیم ہو سکتی ہے۔ تمام اہل ملت ماسوی اللہ کے حدوث پر اجماع رکھتے ہیں اور بالاتفاق حق تعالی کے غیرکو قدیم نہیں جانتے اور جو ان کے قدیم کا قائل ہے اس کو گمراہ اور کافر جانتے ہیں۔ امام حجت الاسلام نے رسالہ منقذ عن الضلال میں اس بات کی تصریح کی ہے اور ان لوگوں کے لیے جو حق تعالی کے غیر کو بھی قدیم جانتے ہیں کفر کا حکم کیا ہے اور وہ لوگ جو آسمانوں اور ستاروں وغیرہ کے قِدَم (ہمیشگی)کے قائل ہیں ان کی تکذیب قرآن مجید میں ہے۔ اللہ تعالی فرماتا ہے۔ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوَى عَلَى الْعَرْشِاللہ تعالی وہ ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو اور جو کچھ ان کے درمیان ہے چھ دنوں میں پیدا کیا ہے پھر عرش پر متمکن ہوا) قرآن مجید میں اس قسم کی آیتیں بہت ہیں۔ وہ بہت ہی بیوقوف اور نادان ہے جو اپنی ناقص عقل سے قرآنی نصوص کے برخلاف کرے
وَمَنْ لَمْ يَجْعَلِ اللَّهُ لَهُ نُورًا فَمَا لَهُ مِنْ نُورٍ (جس کے لیے الله تعالی نے کوئی نور نہیں بنایا۔ اس کے لیے کوئی نور ہیں)
(7) جس طرح بندے حق تعالی کی مخلوق ہیں اسی طرح بندوں کے افعال بھی اس کی مخلوق ہیں کیونکہ اس کے غیر کے لیے خلق و پیدا کرنا لائق نہیں اورممکن سے ممکن کا وجود ہونانا ممکن ہے، کیونکہ ممکن ناطاقتی اور بےعلمی کے ساتھ متصف ہے جو ایجاد وخلق کے لائق نہیں اور جو کچھ بندہ اپنے اختیاری افعال میں دخل رکھتا ہے وہ اس کا کسب ہے جو بندے کی قدرت و ارادہ سے واقع ہوا ہے۔ فعل کا پیدا کرنا الله تعالی کی طرف سے ہے اور اس کا کسب بندہ کی طرف سے۔ پس بندہ کافعل اختیار بمعہ بندہ کے کسب کے حق تعالی کی پیدائش ہے اور اگر بنده کے فعل میں اس کےکسب و اختیار کا ہرگز دخل نہ ہو تو مرتعش(رعشہ دار و بلا اختیار)کاحکم پیدا کرے گا۔ جو محسوس و مشاہدہ کے برخلاف ہے۔ ہم بداہتہ یعنی صاف طور پر جانتے ہیں کہ مرتعش (بے اختیار) کافعل اور ہے اور وقار کا فعل اور بندہ کے فعل میں اس کے سب کو دل دینے کے لیے اسی قد رفیق کافی ہے۔ حق تعالی نے اپنی کمال مہربانی سے اپنی خلق کو بندہ کے فعل میں بندہ کے قصد کے تابع بنایا ہے۔ بندہ کے قصد کے بعد بندہ میں فعل کا ایجاد فرماتا ہے۔ اس لیے بندہ مدح و ملامت اور ثواب و عذاب کے لائق ہوتا ہے اور قصد و اختیار جوحق تعالی نے بندہ کو دیا ہے ۔ فعل وترک کی دونوں جہتیں رکھتا ہے اوفعل وترک کی خوبی و برائی کو انبیاء علیہم الصلوة والسلام کی زبان پرمفصل بیان فرمایا ہے۔ اب اگر بندہ ایک جہت کو اختیار کرے تو وہ ضرور ملامت کے لائق ہوگا یا مدح و تعریف کے قابل اور شک نہیں کہ حق تعالی نے بندہ کو اس قدر قدرت و اختیار دیا ہے۔ جس سے اوامر و نواہی کو بجالا سکے۔ یہ ضروری نہیں کہ اس کو قدرت کاملہ عطا کی جاتی اور پورا پورا اختیار دیا جاتا ۔ جو کچھ اور جس قدر چاہئے تھا دے دیا ہوتا ہے۔ اس کا منکر بداہت وصراحت کا مخالف ہے اور اس کا دل بیمار ہے کہ تربیت کے بجا لانے میں عاجز اور درماندہ ہے كَبُرَ عَلَى الْمُشْرِكِينَ مَا تَدْعُوهُمْ إِلَيْهِ (مشرکوں پر وہ امر جس کی طرف تو ان کو بلاتا ہے بہت بھاری ہے)یہ مسئلہ علم کلام کے پوشیدہ مسائل میں سے ہے۔ اس مسئلے کا نہایت شرح و بیان یہی ہے۔ جو ان اوراق میں لکھا جا چکا ہے۔ والله سبحانه الموفق (اللہ تعالی توفیق دینے والا ہے جوکچھ اہل حق نے فرمایا ہے اس پر ایمان لانا چاہئے اور بحث وتکرار کو چھوڑ دینا چاہئے۔ بیت
ہر جائے مرکب تواں تاختن که جاهاسپر بائد انداختن
ترجمہ بیت: ہرایک جا مناسب نہیں حملہ کرناکہ اکثر جگہوں سے مناسب ہے ڈرنا
(8) انبیا علیہم الصلوة والسلام تمام اہل جہان کے لیے سراسر رحمت ہیں۔ اللہ تعالی نے ان کو خلق کی ہدایت کے لیے مبعوث فرمایا ہے اور ان بزرگواروں کے ذریعے بندوں کو اپنی جناب پاک کی طرف بلایا ہے اور دار السلام کی طرف جو اس کی رضا کا مقام ہے، دعوت فرمائی ہے۔ وہ بہت ہی بد بخت ہے جو کریم کی دعوت کو قبول نہ کرے اور اس کی دولت کے دسترخوان سے فائدہ حاصل نہ کرے ۔ ان بزرگواروں نے حق تعالی کی طرف سے جو کچھ پہنچایا ہے سب سچ اور حق ہے۔ اس کے ساتھ ایمان لانا ضروری ہے۔ عقل اگر چہ حجت ہے، لیکن حجیت میں ناقص حجت کاملہ و بالغہ انبیاء علیہم الصلوة والسلام ہی کی بعثت سے حاصل ہوئی ہے جس نے بندوں کے لیے عذر کا کوئی موقع نہیں چھوڑا۔ پیغمبروں میں سے اول حضرت آدم علی نبینا و علیہ الصلوة والسلام ہیں اور ان میں سے اخیر وخاتم النبوت حضرت محمد رسول اللہ ﷺ ہیں۔
تمام انبیاءعلیہم الصلوة والسلام کے ساتھ ایمان لانا چاہئے اور سب کو معصوم یعنی گناہ سے پاک اور راست گو جاننا چاہئیے۔ ان بزرگواروں میں سے کسی ایک پر ایمان نہ لا نا گویا ان تمام پر ایمان نہ لانا ہے، کیونکہ ان کا کلمہ متفق ہے اور ان کے دین کے اصول واحد ہیں۔ حضرت عیسی علی نبینا و علیہ الصلوة والسلام جو آسمان سے نزول فرمائیں گے۔ تو حضرت خاتم الرسول عليه الصلوة والسلام کی شریعت کی متابعت کریں گے۔ حضرت خواجہ محمد پارسا جو حضرت خواہ نقشبند قدس سرہما کے کامل خلفاء میں سے ہیں اور بڑے عالم اور محدث بھی ہیں اپنی کتاب فصول سته میں معتبرنقل بیان کرتے ہیں کہ حضرت عیسی علی نبینا و علیہ الصلوۃ والسلام نزول کے بعد امام ابو حنیفہ رضی اللہ تعالی عنہ کے مذہب پر عمل کریں گے اور ان کے حلال کو حلال اور ان کے حرام کو حرام جانیں گے۔
(9) فرشتے حق تعالی کے بزرگ بندے ہیں اورحق تعالی کی رسالت وتبلیغ کی دولت سے مشرف ہیں اور جس چیز کا ان کو امر ہے بجا لاتے ہیں۔ حق تعالی کی سرکشی اور نافرمانی ان کے حق میں مفقود ہے۔ کھانے، پینے، پہننے اور زن و مرد وتوالد و تناسل سے پاک ہیں۔ حق تعالی کی کتابیں اور صحیفے انہی کے ذریعے نازل ہوئے ہیں اور انہی کی امانت پر محفوظ و مامون رہے ہیں۔ ان سب پر ایمان لانا دین کی ضروریات میں سے ہے اور ان کوسچا جاننا اسلام کے واجبات میں سے ہے۔ جمہور اہل حق کے نزدیک خاص انسان خاص فرشتوں سے افضل ہیں۔ کیونکہ ان کا حصول باوجود عوائق اور موانع کے ہے اور فرشتوں کا قرب بغیر مزاحمت اورممانعت کے ہے۔تسبیح و تقدیس اگر چہ قدسیوں کا کام ہے، لیکن جہاد کو اس دولت کے ساتھ کر کامل انسانوں کا کام ہے۔ اللہ تعالی فرماتا ہےفَضَّلَ اللَّهُ الْمُجَاهِدِينَ بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنْفُسِهِمْ عَلَى الْقَاعِدِينَ دَرَجَةً وَكُلًّا وَعَدَ اللَّهُ الْحُسْنَى (الله تعالی نے مالوں اور جانوں کے ساتھ جہاد کرنے والوں کو بیٹھنے والوں پر کئی درجہ فضیلت دی ہے اور ہر ایک کو حسنی یعنی اعلى جزاکا وعدہ دیاہے)۔
(10) مخبر صادق علیہ الصلوة والسلام نے قبر و قیامت اور حشر و نشر اور دوزخ و بہشت کے احوال کی نسبت جو کچھ خبر دی ہے سب سچ ہے۔ آخرت پر ایمان لانا اللہ تعالی کے ایمان کی طرح اسلام کی ضروریات میں سے ہے۔ آخرت کا منکر صانع کا منکر ہے اورقطعی کافر ہے۔
قبر کا عذاب اور اس کی تنگی وغیرہ حق ہے۔ اس کا منکر اگر چہ کافرنہیں، لیکن بدعتی ضرور ہے کیونکہ احادث مشہورہ کا منکر ہے۔ قبر چونکہ دنیا و آخرت کے درمیان برزخ ہے اس لیے اس کا عذاب بھی ایک لحاظ سے دنیا کے عذاب کے مشابہ ہے۔ جو انقطاع پذير ختم ہونے والا ہے اور ایک اعتبار سے عذاب آخرت کی مانند ہے جو عذاب آخرت کی جنس سے ہے۔ اس عذاب کے زیادہ تر تو وہ لوگ مستحق ہیں جو بول سے پرہیز نہیں کرتے اور نیز وہ لوگ جو لوگوں کی چغلی اورسخن چینی کرتے ہیں۔
(11) قبر میں منکر نکیر کا سوال حق ہے۔ قبر میں یہ بڑا بھاری فتنہ اور آزمائش ہے۔ حق تعالی ثابت قدم رکھے۔ آمین
قیامت کا دن حق ہے اور ضرور آنیوالا ہے۔ اس دن آسمان پارہ پارہ ہو جائیں گے۔ ستارے گر جائیں گے، زمیں و پہاڑ کھڑے کھڑے ہو کر نیست و نابود و معدوم ہو جا ئیں گے جیسے کے نصوص قرآنی ظاہر کرتی ہیں اور تمام اسلامی گروہوں کا اجماع اس پر منعقد ہے اس کا منکر کافر ہے۔ اگر چہ مقدمات موہومہ سے اپنے کفر کو آراستہ کرکے پیش کرے اور نادانوں کو راستہ سے بہکائے۔ اس دن قبروں سے اٹھانا اور بوسیدہ ہڈیوں کا زندہ ہونا ہے اور اعمال کا حساب ہونا اور میزان کا رکھا جاتا اور اعمال ناموں کا اڑ کر آنا اور نیکیوں کو دائیں ہاتھ میں اور بروں کو بائیں ہاتھ میں اعمال ناموں کا ملناسب حق ہے اور پل صراط جو پشت دوزخ پر رکھی جائے گی اور وہاں سے گزر کربہشتی بہشت میں جائیں گے اور دوزخی اس سے پھسل کر دوزخ میں گر جائیں گے۔ حق ہے۔ یہ سب امور ہونے والے ہیں۔ مخبر صادق نے ان کے واقع ہونے کی نسبت خبر دی ہے ان کو بے توقف قبول کر لینا چاہئے اور وہمی باتوں سے شک و تردد نہ کرنی چاہئے اور وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ(اور جو کچھ رسول تمہارے پاس لایا اس کو پکڑ لو ) نص قطعی ہے۔ قیامت کے دن نیکوں کی شفاعت بروں کے حق میں اللہ تعالی کے حکم سے حق ہے پیغمبر علیہ الصلوة والسلام نے فرمایا ہے۔ شَفَاعَتِي لِأَهْلِ الكَبَائِرِ مِنْ أُمَّتِي میری شفاعت میری امت کے کبیرہ گناہ کرنے والوں کے لیے ہے۔ دوزخ کا عذاب اور جنت کا عیش و آرام حق ہے۔ حساب کے بعد کافر ہمیشہ کے لیے دوزخ کے عذاب میں رہیں گے اور مومن ہمیشہ کے لیے جنت کے عیش و آرام میں رہیں گے۔
مومن فاسق اگر چہ اپنے گناہوں کی شامت سے کچھ مدت کے لیے دوزخ میں جائے گا۔ اور گناہوں کے موافق عذاب پائے گا، لیکن دوزخ میں ہمیشہ رہنا اس کے حق میں مفقود ہے جس کے دل میں ذرہ برابر ایمان ہو گا وہ دوزخ میں ہمیشہ نہ رہے گا۔ اس کے کام کا انجام رحمت پر اور اس کا مقام جنت میں ہوگا۔
ایمان و کفر کا مدار خاتمہ پر ہے۔ بسا اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ تمام عمران دونوں صفوں میں سے ایک کے ساتھ متصف رہتا ہے اور آخر کار اس کی ضد سے بدل جاتا ہے۔ وَإِنَّمَا الأَعْمَالُ بِالخَوَاتِيمِاعتبار خاتمہ پر ہےرَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوبَنَا بَعْدَ إِذْ هَدَيْتَنَا وَهَبْ لَنَا مِنْ لَدُنْكَ رَحْمَةً إِنَّكَ أَنْتَ الْوَهَّابُ(اےاللہ تو ہدایت دے کر ہمارے دلوں کو ٹیڑھانہ کر اور اپنے پاس سے ہم پر رحمت نازل فرما۔ تو بڑا بخشنے والا ہے)۔
(12) ایمان سے مراد ہے تصدیق قلبی ان امور کے متعلق جو دین کی ضرورت اور تواتر کے طور پر ثابت ہو چکے ہیں اور زبانی اقرار بھی ان امور کے ساتھ ضروری ہے جیسے کہ صانع کے وجود اور اس کی توحید پر ایمان لانا اور ایمان لانا کہ آسمانی کتابیں اور صحیفے بر حق ہیں اور انبیاء کرام اور ملائکہ عظام پر ایمان لانا اور آخرت پر ایمان لانا جس میں اجساد کا حشر ہوگا۔ دوزخ وبہشت کا دائمی عذاب و آرام ہوگا۔ آسمان پھٹ جائیں گے، ستارے گر جائیں گے، زمیں و پہاڑ ریزہ ریزہ ہو جائیں گے ایسے ہی ایمان لانا کہ پنج وقتی نماز اور ان میں رکعتوں کی تعداد اور مال کی زکوة اور رمضان کے روزے اور راستہ کی توفیق حاصل ہونے پر بیت الله کاحج کرنا فرض ہے اور ایمان لانا کہ شراب کا پیناناحق قتل کرنا، ماں باپ کی نافرمانی، چوری، زنا، یتیم کا مال کھانا، سود کامال کھانا وغیرہ حرام ہیں۔ جو دین کی ضروریات میں سے ہیں اور تواتر کے ساتھ ثابت ہیں۔
(13)مومن گناہ کبیرہ کے کرنے ایمان سے خارج نہیں ہوتا اور کافر نہیں ہوتا۔ کبیرہ کو حلال جانا کفر ہے اور اس کا کرنافسق ہے۔
اپنے آپ کو مومن برحق جاننا چاہئے یعنی اپنے ایمان کے ثبوت وتحقیق کا اقرار کرنا چاہئے اور کلمہ استثنایعنی انشاء اللہ اس کے ساتھ نہ ملانا چاہئے۔ کیونکہ اس میں بھی شک پایا جاتا ہے اور ایمان کے ثبوت کے ساتھ منافات رکھتا ہے۔ اگرچہ استنثاء کوخاتمے کی طرف راجع کرتے ہیں جومبہم ہے۔ لیکن ثبوت حالی کے شبہ سے بھی خالی نہیں پس احتیاط شک وشبہ کے ترک میں ہے۔
(14) حضرت خلفاء اربعہ کی افضلیت ان کی خلافت کی ترتیب کے موافق
ہے کیونکہ تمام امت کا اجماع ہے کہ پیمبروں کے بعد تمام انسانوں میں سے افضل حضرت صدیق رضی الله تعالی عنہ ہیں اور ان کے بعد حضرت فاروق رضی اللہ تعالی عنہ۔ افضلیت کی وجہ جو کچھ اس فقیر نے سمجھی ہے وہ فضائل و مناقب کی کثرت نہیں ہے بلکہ ایمان میں سب سے سابق ہونا اور دین کی تائید اور مذہب کی ترقی کے لیے سب سے زیادہ مال و جان کو خرچ کرنا ہے۔ کیونکہ سابق گویا دین کے امر میں لاحق کا استاد ہے اورلاحق جو کچھ پاتا سابق کی دولت سے پاتاہے۔ یہ تینوں کامل صفتیں حضرت صدیق میں منحصر ہیں اور یہ دولت اس امت میں ان کے سوا کسی اور کو میسر نہیں ہوئی۔ رسول الله ﷺنے مرض موت میں فرمایا کہ لَيْسَ مِنَ النَّاسِ أَحَدٌ أَمَنَّ عَلَيَّ فِي نَفْسِهِ وَمَالِهِ مِنْ أَبِي بكْرِ بْنِ أَبِي قُحَافَةَ، وَلَوْ كُنْتُ مُتَّخِذًا مِنَ النَّاسِ خَلِيلًا لاَتَّخَذْتُ أَبَا بَكْرٍ خَلِيلًا، وَلَكِنْ خُلَّةُ الإِسْلاَمِ أَفْضَلُ، سُدُّوا عَنِّي كُلَّ خَوْخَةٍ فِي هَذَا المَسْجِدِ، غَيْرَ خَوْخَةِ أَبِي بَكْرٍ (لوگوں میں سے کوئی ایسا شخص نہیں جس نے مجھ پر ابوبکر بن ابو قحافہ سے بڑھ کر مال و جان میں احسان کیا ہو۔ اگر میں کسی کو دوست بنانا چاہتا تو ابوبکر کو بناتا ، لیکن اسلامی دوستی افضل ہے۔ اس مسجد میں ابوبکر کے دریچه کے سوا اور جتنے دریچے ہیں سب کو میری طرف سے بند کر دو) رسول الله ﷺنے فرمایا ہے إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ بَعَثَنِي إِلَيْكُمْ فَقُلْتُمْ: كَذَبْتَ، وَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: صَدَقْتَ، وَوَاسَانِي بِنَفْسِهِ وَمَالِهِ، فَهَلْ أَنْتُمْ تَارِكُونَ لِي صَاحِبِي؟ (اللہ تعالی نے مجھے تمہاری طرف بھیجا۔ تم
نے مجھے جھٹلایا اور ابوبکر نے میری تصدیق کی اور اپنی جان و مال سے میری ہمدردی اور غمخواری کی۔ کیا تم میرے لیے میرا دوست نہیں چھوڑتے) رسول ﷺ نے فرمایا ہے۔ لَوْ كَانَ بَعْدِي نَبِيٌّ كَانَ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ (اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو عمرابن خطاب ہوتا ) حضرت امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے کہ حضرت ابوبکر و حضرت عمر اس امت میں سب سے افضل ہیں۔ جو کوئی مجھے ان پر فضیلت دے وہ مفتری ہے میں اس کو اتنے کوڑے لگاؤں گا جتنے مفتری کولگاتے ہیں۔
حضرت خیر البشر علیہ الصلوة والسلام کے اصحاب کے درمیان لڑائی جھگڑوں کو نیک وجہ پر محمول کرنا چاہئے اور ہوا و ہوس اور حب جاہ و ریاست اورطلب رفعت ومنزلت سے دورسمجھنا چاہئے، کیونکہ نفس امارہ(برائی کی طرف بہت امر کرنے والا) کی رذیلہ اور کمینہ خصلتیں ہیں اور ان کے نفس حضرت خیر البشر علیہ الصلوة والسلام کی صحبت میں پاک وصاف ہو چکے تھے۔ البتہ اس قدر کہا جاسکتا ہے کہ ان لڑائی جھگڑوں میں جو حضرت امیر کی خلافت میں واقع ہوئے تھے۔حق حضرت امیر کی جانب تھا اوران کے مخالف خطا پر تھے ، لیکن یہ خطا خطاء اجتہادی کی طرح طعن و ملامت سے دور ہے۔ پھر فسق کی طرف منسوب کرنے کی کیا مجال ہے کیونکہ صحابہ سب کے سب عدول ہیں اور سب کی روایات مقبول ہیں۔ حضرت امیر کے موافقوں اور مخالفوں کی روایات صدق وثوق میں برابر ہیں اور لڑائی جھگڑے کے باعث کسی پر جرح نہیں ہوئی۔ پس سب کو دوست جاننا چاہئے، کیونکہ ان کی دوستی حضرت پیغمبر علیہ السلام کی دوستی کا نتیجہ ہے۔ رسول خدا ﷺنے فرمایا ہے۔ فَمَنْ أَحَبَّهُمْ فَبِحُبِّي أَحَبَّهُمْ جس نے ان کو دوست رکھا اس نے میری محبت کے باعث ان کو دوست رکھا) اور ان کی بغض و دشمنی سے بچنا چاہئے۔ کیونکہ ان کا بغض آنحضرت کا بغض ہے۔ رسول خدا ﷺنے فرمایا ہے وَمَنْ أَبْغَضَهُمْ فَبِبُغْضِي أَبْغَضَهُمْ (جس نے ان کے ساتھ بغض رکھا اس نے گویا میرےبغض کے باعث ان کے ساتھ بغض رکھا) ان بزرگواروں کی تعظیم وتوقیر میں حضرت خیر البشر کی تعظیم وتوقیر ہے اوران کی بیقدری میں رسول الله ﷺ کی بے قدری ہے غرض حضرت خیر البشر علیہ الصلوة والسلام کی محبت کی تعظیم کے باعث سب کی تعظیم وتوقیر بجالانی چاہئے۔ شیخ شبلی نے فرمایا ہے ما امن برسول من لم يوقر أصحابه (جس نے اصحاب کی عزت نہ کی وہ رسول کے ساتھ ایمان نہیں لایا )۔
اعتقاد کے درست کرنے کے بعد اعمال کا بجا لانا بھی ضروری ہے۔ کیونکہ حضرت پیغمبر علیہ علی آلہ الصلوة والسلام نے فرمایا ہے کہ اسلام کی بنیادپانچ چیزوں پر ہے: اول کلمہ طيب لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ یعنی اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ تعالی کے سوا کوئی معبود نہیں اور حضرت محمد اس کے رسول ہیں اور ان تمام باتوں پر ایمان و اعتقاد رکھنا جو حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کی تبلیغ سے ثابت ہے جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا۔دوسرے پانچ وقت کی نمازوں کا ادا کرنا جو کہ دین کا ستون ہے
تیسرے مال کی زکوۃ ادا کرنا چوتھے ماہ رمضان المبارک کے روزے رکھنا پانچویں بیت اللہ شریف کا حج کرنا
اللہ تعالی اور اس کے رسول پر ایمان لانے کے بعدعباتوں میں بہترین عبادت نماز ہے اور اس میں ایمان کی طرح حسن لذاتہ ہے بخلاف تمام عبادات کے کہ ان میں ذاتی حسن نہیں ہے طہارت کاملہ کے بعد جیسا کہ شرعی مبین کی کتابوں میں بیان کیا گیا ہے بغیر کسی سستی و کاہلی کے نماز ادا کرنی چاہیے اور قراءت رکوع و سجود قومہ جلسہ اور باقی تمام ارکان میں احتیاط کرنی چاہیے تا کہ کامل درجہ احتیاط کے ساتھ ادا ہو اور رکوع و سجود قومہ اور جلسہ میں سکون و طمانیت کو لازم سمجھنا چاہیے اور سستی و لا پرواہی نماز نہ ادا کریں اور نماز کو اول وقت میں ادا کریں اور سستی اور جہالت کی وجہ سے تاخیر نہ کرنی چاہئے۔
مقبول بندہ وہی ہے جو اپنے مولا کا حکم ملتے ہی اس کی تعمیل میں لگ جائے کیونکہ حکم کی بجا آوری میں دیر کرنا سرکشی اور سوء ادب ہے اور فقہ کی کتابیں جو فارسی میں لکھی گئی ہیں جیسے ترغیب الصلوۃ اور تیسیر الاحکام اور ان جیسی کتابیں چاہیے کہ ہر وقت اپنے پاس رکھیں اور مسائل کو دیکھ کر عمل کریں کتاب گلستان وغیرہ فقہ کی فارسی کتابوں کے مقابلے میں فضول و بیکار ہے بلکہ ضروری امر کی نسبت لا یعنی ہیں دین میں جس چیز کی ضرورت ہے اسے لازم جاننا چاہیئے اس کے علاوہ کسی اور کی طرف التفات نہیں کرنی چاہیے
نماز تہجد بھی اس راہ کی ضروریات میں سے ہے کوشش کریں کہ بغیر عذرترک نہ ہو اگر شروع میں نماز تہجد دشوار ہو اور اس وقت میں جاگنا میسر نہ ہو تو کسی خدمت گار کو اس کام کے لیے مقرر کر دیں کہ وہ اس وقت میں بیدار کردے خواہ آپ چاہیں یا نہ چاہیں آپ کو نیند میں نہ رہنے دے چند روز کے بعد بیداری کی عادت ہو جائے گی اور اس تکلف وتعمل کی ضرورت نہ رہے گی۔
جو شخص چاہتا ہے کہ آخر شب میں جلد بیدار ہو جائے اس کو چاہیے کہ اوّل شب میں عشاء کی نماز کے بعد جلد سو جائے اور بے کار مشاغل میں جاگتا نہ رہے اور سوتے وقت استغفار و توبہ التجا تضرع کرے اور اپنے عیوب و نقائص میں غور کرے اور عذاب آخرت کے خوف اور دائمی رنج و الم سےڈرے اور اس وقت کو غنیمت جانے اور حضرت حق سبحانہ و تعالی سے عفو و مغفرت کی درخواست کرے اور سو مرتبہ کلمہ استغفار دل کی پوری توجہ کے ساتھ زبان سے ادا کرے
أَسْتَغْفِرُ اللَّهَ الَّذِي لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ الحَيَّ القَيُّومَ وَأَتُوبُ إِلَيْهِمیں اللہ تعالی سے مغفرت چاہتا ہوں جس کے سوا کوئی معبود نہیں وہ زندہ اور قائم رہے گا اور اسی سبحانہ کی طرف توبہ کرتا ہوں اور دیگر عصر کی نماز ادا کرنے کے بعد بھی اس کلمہ استغفار کو سو مرتبہ پڑھے خواہ وضو ہو یا نہ ہو وضونہ ہونے کے باوجود بھی اس کلمہ استغفار کا ورد ترک نہ کریں حدیث شریف میں وارد ہے۔ طُوبَى لِمَنْ وَجَدَ فِي صَحِيفَتِهِ اسْتِغْفَارًا كَثِيرًاوہ شخص بڑا ہی خوش نصیب ہے جس کے نامہ اعمال میں کثرت سے استغفار ہوز
اور اگر نماز چاشت بھی ادا کی جائے تو یہ بہت بڑی دولت ہے کوشش کریں کہ کم از کم دو رکعت چاشت کی دائمی طور ادا کریں نماز چاشت کی زیادہ سے زیادہ رکعتیں نماز تہجد کی طرح بارہ رکعت ہیں وقت اور حالات کے مطابق جس قدر ادا ہوجائے غنیمت ہے.
اور کوشش کریں کہ ہر نماز فرض کے بعد یاد آیت الکرسی پڑھی جائے کیونکہ حدیث شریف میں وارد ہے کہ جو شخص ہر نماز فرض کے بعد بعد آیت الکرسی پڑھتا ہے اس کو بہشت میں داخل ہونے سے سوائے موت کے کوئی چیز روک نہیں سکتی
پنجگانہ نمازوں میں سے ہرنماز کے بعد کلمہ تنزیہہ سبحان اللہ 33 بارکلمہ تحمید الحمد للہ اور کلمہ تکبیر اللہ اکبر 33 بار اور ایک بار یہ کلمہ
لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ، وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ تاکہ سو کی تعداد پوری ہو جائے اور یہ بھی کہ ہر روز اور ہر شب میں سُبْحَانَ اللهِ وَبِحَمْدِهِسو مرتبہ پڑھیں کہ اس کا بہت بڑا ثواب ہے
اور نیز صبح کے وقت ایک بار پڑھیں اللَّهُمَّ مَا أَصْبَحَ بِي مِنْ نِعْمَةٍ أَوْ بِأَحَدٍ مِنْ خَلْقِكَ فَمِنْكَ وَحْدَكَ لاَ شَرِيكَ لَكَ، فَلَكَ الْحَمْدُ وَلَكَ الشُّكْرُ
یا اللہ آج صبح جو نعمت بھی مجھ کو ملی ہے یا تیری مخلوق کو ملی ہے وہ صرف تیری ہی طرف سے ہے اور تو ایک ہے اور تیرا کوئی شریک نہیں بس تمام تعریفیں تیرے ہی لئے ہیں اور تیرا ہی شکر ہے۔
اور شام کے وقت مَا أَصْبَحَ کی بجائے مَا أَمْسَى کہیں اور پوری دعا پڑھیں۔
اور حدیث نبوی علیہ وآلہٖ علیہ الصلاۃ والسلام میں وارد ہے کہ جو کوئی اس دعا کو دن میں پڑھتا ہے وہ اس دن کا شکر بجا لاتا ہے اور جو کوئی رات کو پڑھے وہ گویا رات کا شکر بجا لاتاہے اس کے لئے یہ ضروری نہیں ہے کہ وضو کے ساتھ ہی پڑھا جائے بلکہ تمام اوقات میں اس ورد کو کسی وقت دن میں اور رات میں پڑھ لیا جائے۔
اور مال کی زکوۃ ادا کرنا بھی ضروریات دین میں سے ہے اس کو رغبت اور منت کے ساتھ مصارف زکوۃ میں ادا کرنا چاہیئے جب کہ منعم حقیقی جلا سلطانہ نے اپنے عطیہ اور انعام کے بارے میں خود فرمایا ہے کہ اس کے چالیس حصوں میں سے ایک حصہ فقراء و مساکین کو دے دیں اور میں اس کا اجر جزیل اور جزا جمیل عطا کروں گا تو پھر وہ شخص بہت ہی بے انصاف بلکہ سرکش ہو گا جو اس حقیر رقم کی ادائیگی میں توقف کرے اور اس کے دینے میں بخل اختیار کرے اس قسم کا توقف جو شرعی احکام کی بجا آوری میں ظاہر ہوتا ہے اس کی وجہ یا تو دل کی بیماری ہے یا آسمان سے نازل شدہ احکام پر یقین نہ کرنا ہے صرف کلمہ شہادت پڑھ لینا کافی نہیں یہ کلمات تو منافق بھی پڑھتے تھے۔ اصل کام قلب کے یقین کی علامت اور اوامر شرعیہ کی بجا آوری ہے اور رضا و رغبت کے ساتھ ایک چیتل(دمڑی) کسی فقیر کو زکوۃ کے لیے سے دینا لاکھوں روپے خرچ کرنے سے بہتر ہے جو اس نیت کے بغیر دیئے جائیں کیونکہ وہ فرض کی ادائیگی ہے اور یہ نفل کو بجا لانا ہے اور ادائے نفل کی نسبت کا فرض کی ادائیگی کے مقابلہ میں کوئی شمار نہیں ہے کاش کہ اس کو دریائے محیط کے مقابلے میں ایک قطرہ کی نسبت ہوتی یہ شیطان ملعون کی رنگینی ہے کہ لوگوں کو فرائض سے باز رکھ کر نوافل کی طرف رہنمائی کرتا ہے اور زکوۃ سے باز رکھتا ہے۔
اور رمضان المبارک کے روزے بھی واجبات اسلام اور ضروریات دین میں سے ہیں ان کی ادائیگی کا بھی اہتمام کرنا چاہیے اور شرعی عذر کے بغیر روزہ نہیں چھوڑنا چاہیے پیغمبر علیہ وعلی الہٖ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ روزہ دوزخ کی آگ سے ڈھال ہے اور اگر ضروری موانع کی وجہ سے جیسے مرض وغیرہ میں روزہ قضا ہو جائے تو بلا توقف اس کی قضا کرنا چاہیے اور سستی و کاہلی کی وجہ سے نہ چھوڑنا چاہیے انسان اپنے مولا کا بند ہ و غلام ہے خود مختار نہیں ہے اس کو اپنے مولیٰ جل وعلاکے اوامر و نواہی کے مطابق زندگی بسر کرنے کے بغیر چارہ نہیں ہے تاکہ نجات کی امید متصور ہو اور اگر ایسا نہیں کرے گا تو وہ سرکش بندہ ہے اور اس کی سزا مختلف قسم کے عذاب ہے ۔
اور اسلام کا پانچواں رکن حج بیت الحرام ہے اور اس کی کچھ شرائط ہے جو فقہ کی کتابوں میں بیان کی گئی ہیں ان شرائط کے پورا ہونے کے بعد اس کا ادا کرنا بھی ضروری ہے کیونکہ حضرت پیغمبر علیہ وعلی الہٖ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ حج سابقہ گناہوں کو زائل کر دیتا ہے غرض حلال و حرام شرعی میں بہت زیادہ احتیاط کرنی چاہیے اور جس چیز سے صاحب شریعت علیہ وعلی الہٖ الصلوۃ والسلام نے منع فرمایا ہے اس سے اپنے آپ کو بچانا چاہیے اور حدود شرعیہ کی حفاظت کرنی چاہیئے اگر سلامتی اور نجات مطلوب ہیں۔
آخر خواب خرگوش کب تک اور غفلت کی روئی کان میں کب تک پڑی رہے گی جب قضا و قدر کے کارکنان اس نیند سے بیدار کر دیں گے اور غفلت کی روئی نکال پھینکیں گے اس وقت سوائے ندامت و حسرت کی کچھ ہاتھ نہ آئے گا اورسوائے شرمندگی اور نقصان کچھ حاصل نہ ہوگا موت قریب ہے اور آخرت کے طرح طرح کے عذاب تیار و آمادہ ہیں۔مَنْ مَاتَ فَقَدْ قَامَتْ قِيَامَتُهُ جو شخص مر گیا اس کی قیامت قائم ہوگئی اور اس سے پہلے کہ بیدار کریں اور فائدہ نہ ہو خود بیدار ہو جائیں اور شرعی اوامر و نواہی کے مطابق کام کریں اور اپنے آپ کوآخرت کے طرح طرح عذابوں سے ڈرائیں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے
قُوا أَنْفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ نَارًا وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ اپنے نفسوں کو اور اپنے گھر والوں کواس آگ سے بچاؤ جسکا ایندھن آدمی اور پتھر(بت) ہیں۔
عقائد کی تصحیح اور شریعت حقہ علی صاحبہا الصلوۃ والسلا م والتحیۃ کے مطابق اعمال صالحہ کی بجا آوری کے بعد اپنے اوقات کو ذکر الہی جل شانہٗ سے آباد رکھنا چاہیے اور اللہ تعالی کی یاد سے غافل نہیں رہنا چاہیے ظاہر میں اگر مخلوق کے ساتھ مشغول رہیں تو بھی باطن کو حق جل سلطانہ کے ساتھ رکھنا چاہیے اوراللہ تعالیٰ کی یاد سے لذت حاصل کرنی چاہیے یہ دولت ہمارے حضرات خواجگان قدس اللہ تعالی اسرارھم کے طریقے میں مبتدی کو پہلے ہی قدم میں شیخ کامل مکمل کی صحبت میں اللہ سبحانہ کی عنایت سے میسر ہو جاتی ہے شاید آپ کو بھی اس کا یقین حاصل ہو گیا ہوگا یا کچھ نہ کچھ حصہ ملا ہوگا اگرچہ قلیل ہی ہو غرض جو کچھ کہ حاصل ہوچکا ہے اس کی حفاظت کریں اور اس کا شکر ادا کریں اور زیادہ کے امیدوارر ہیں اور چونکہ حضرات نقشبندیہ قدس اللہ تعالی اسرار ہم کے طریقے میں ’’اندراج نہایت در بدایت‘‘ ابتدا میں انتہا درج ہے اس لئے اس طریقےکا تھوڑا حصہ بھی بہت ہے کیونکہ وہ ابتدا ہی میں انتہا سے خبردار کر دیتا ہے لیکن مبتدی کو چاہیے کہ جس قدر زیادہ سے زیادہ حاصل ہو اس کی نظرمیں تھوڑا معلوم ہو لیکن اس کے شکر سےغافل نہ رہے اس کا شکر ادا کرے اور زیادہ کا طلبگار بھی رہے۔
ذکر قلبی سے اصل مقصود حق سبحانہ و تعالیٰ کے سوا کی گرفتاری سے آزاد ہونا ہے کیونکہ قلبی مرض سے یہی مراد ہے اور جب تک اس گرفتاری کا زوال حاصل نہ ہو جائے ایمان کی حقیقت نصیب نہیں ہوتی اور شرعی اوامر و نواہی کی ادائیگی میں آسانی وسہولت میسر نہیں ہوتی۔
اور چاہیئے کہ کھانا کھانے میں نفس کی لذت مطلوب نہ ہو بلکہ عبادت کے لیے قوت و استطاعت حاصل کرنے کی نیت سے کھانا کھائیں اور اگر ابتدا میں یہ نیت حاصل نہ ہوسکے تو تکلف کے ساتھ اپنے آپ کو اس نیت پر لائیں اور التجا وزاری کرتے رہیں تاکہ اس نیت کی حقیقت میسر ہو جائے اور اسی طرح لباس پہننے میں بھی چاہیئے کہ عبادت کی اور نماز ادا کرنے کے لیے زینت کی نیت ہونی چاہیے جیسا کہ قرآن مجید میں آیا ہے خُذُوا زِينَتَكُمْ عِنْدَ كُلِّ مَسْجِدٍ(مسجد میں جانے کے لیے زینت اختیار کرو) زیب و زینت کا لباس پہننے کا مقصد لوگوں کو دکھاوا نہیں ہونا چاہیے جو ممنوع ہے اور ایسی کوشش کرنی چاہیے کہ تمام افعال وحرکات و سکنات میں اپنے مولا جل سلطانہ کی رضامندی منظور ہو اور اس کی شریعت حقہ کے مطابق عمل کیا جائے تو اس وقت ظاہر و باطن دونوں حق تعالی کی طرف متوجہ ہوں گے اور حق جل و علا کی یاد میں مشغول رہیں گے مثلا سونا (نیند) جو سراسر غفلت ہے جب اطاعت کی ادائیگی اور تھکاوٹ دور کرنے کی نیت سے اختیار کی جائے تو وہ نیند بھی اس نیت کی وجہ سے عین عبادت بن جاتی ہے جب تک آدمی اس نیند میں رہے گاگو یا عبادت میں ہے کیونکہ یہ طاعت کی ادائیگی کی نیت ہے جیسا کہ حدیث شریف میں وارد ہےنو م العلماء عبادۃ علماء کی نیند بھی عبادت ہے۔
اگرچہ فقیر جانتا ہے کہ آج اس معنی کا حصول آپ کے لئے مشکل ہے کیونکہ موانعات کا ہجوم ہے اور رسوم و عادات کا التزام غالب ہے جو ننگ و ناموس کے لئے ضروری ہے اور یہ سب چیزیں روشن شریعت کی ضد ہے کیونکہ شریعت رسوم و عادات کو دور کرنے کے لیے آئی ہے اور ننگ و ناموس کو دفع کرنے کے لئے جو کہ نفس امارہ کی خواہشوں کی پیداوار ہیں لیکن اگر اللہ سبحانہ و کی توفیق سے ذکر قلبی پر دوام( ہمیشگی) حاصل ہو جائے اور پنج وقتہ نمازسستی کے بغیر پوری شرائط کے ساتھ ادا کریں اور شرعی حرام و حلال میں حتی الامکان احتیاط رکھیں تو امید ہے کہ اس معنی کا جمال ظاہر ہو جائے اور آپ خود بخود راغب ہو جائیں اور دوسری وجہ اس قسم کی نصیحتیں لکھنے کی یہ ہے کہ اگرچہ ان نصائح کے مطابق عمل نہ ہو سکے لیکن اپنے قصور و نقص کا اعتراف تو حاصل ہو جائے اور یہ بھی ایک بڑی دولت ہے۔
ہر کس کہ بیافت دولتے یافت عظیم وآنکس کہ نہ یافت درد نایافت بس است
جس کو ملے یہ دولت بے شک بڑی بہت ہے جس کو نہیں تو اس پر بس صبر بھی بہت ہے۔
اس بات سے اللہ سبحانہ کی پناہ کہ جو اس دولت کو نہ پائے اور نہ پانے کیوجہ رنجیدہ بھی نہ ہو اور اس کے حصول کے لئے کوشش بھی کچھ نہ کرے اور اپنے نہ کرنے کی وجہ سے پشیمان بھی نہ ہو ایسا شخص بڑا جاہل و سرکش ہے کہ جس نے بندگی کی رسی کے حلقہ سے اپنے سر کواور غلامی کی قید سے اپنے پاؤں کو باہر نکال لیا رَبَّنَا آتِنَا مِنْ لَدُنْكَ رَحْمَةً وَهَيِّئْ لَنَا مِنْ أَمْرِنَا رَشَدًا (یا اللہ تو اپنے پاس سے ہم پر رحمت نازل فرما اور ہمارے کام سے بھلائی ہمارے نصیب کر)
اگرچہ وقت و حال اور زمان و مکان اس کا تقاضا نہیں کرتے تھے کہ کچھ تحریر کیا جائے لیکن چونکہ آپ کا شوق اور کمال درجہ رغبت دیکھی اس لئے تکلف کے ساتھ اپنے آپ کو اس کام کے لیے تیار کیا اور چند سطریں تحریر کرکے کمال الدین حسین کے سپرد کردی حضرت حق سبحانہ و تعالی ان کے مطابق عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائےوَالسَّلَامُ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَى
مکتوبات حضرت مجدد الف ثانی دفترسوم صفحہ48 ناشر ادارہ مجددیہ کراچی