ذات انسان کی عدمیت اور اس میں حق تعالیٰ کے اسماءصفات کےظلال کے منعکس ہونے اور اس بیان میں کہ انسان کی ذات اس کانفس ناطقہ ہے اورنفس و قلب کے فناء اور علم حصولی اور حضوری کے زوال کے بیان میں پیر زادہ خواجه محمدعبداللہ کی طرف صادرفرمایا ہے:۔
هو الحق المبين فسبحان من لا يتغير بذاته ولا في صفاته ولا في أسمائه بحدوث الأکوان حق تعالیٰ حق اور ظاہر اور پاک ہے جو موجودات کے حادث ہونے سے اپنی ذات و صفات و اسماء میں متغیر نہیں ہوتا کیونکہ موجودات کے حدوث میں جوتغیر تلوین ہوا ہے وہ سب مراتب عدم میں ہے اور حضرت وجودتعالی میں کسی تغیر و تبدل کو نہ خارج میں نہ علم میں کوئی دخل نہیں ۔ اس کا بیان یہ ہے کہ حق تعالیٰ نے جب چاہا کہ اپنی ذاتی و صفاتی و اسمائی کمالات کو ظاہر کرے اور اشیاء کے مظہروں اور آئینوں میں ان کو جلوہ دے تو مراتب عدم میں ہر ایک کمال کے مقابل اس کی پاک نقیض جو اضافت ونسبت میں باقی تمام اعدام سے متمیز ہے۔ اس کمال کے مظہر ہونے کے لیے تعین فرمائی کیونکہ شے کا آئینہ شے کے مقابل اور اس شے کے ظہور کا باعث ہوتا ہے وَبِضِدِّھَا تَتَبَيَّنُ الْأَشْيَاءُ (اور چیزیں اپنی ضدوں ہی سے پہچانی جاتی ہیں)اور ان اعدام کو جوان آلات کے آئینہ بننے کی قابلیت رکھتے ہیں جب چاہا مرتبہ حس وو ہم میں ایجاد فرمایا اور استقرار و استحکام بخشا اور ان سب کمالات کو ان میں منعکس کیا اور اس کے باعث ان اعدام کو اس مرتبہ پر حی(زندہ) و عالم(جاننے والا) وقادر(قدرت والا) ومر ید(اردا کرنے والا)و سمیع (دیکھنے والا) و بصیر(سننے والا) و متکلم بنایا لیکن محسوس ہوا کہ اول عدم میں تصرف فرماتے ہیں ۔ بغیر اس کے کہ اس میں کوئی اور چیز ملائیں اور اس تصرف سے ملائم و نرم کر دیتے ہیں اور بعدازاں وہاں کمال کا ظہور دکھاتے ہیں، جس طرح پہلےنرم و ملائم کر لیں اور پھر اس سے صورتیں اور شکلیں پیدا کریں ۔ جاننا چاہیئے کہ مراد عدم سے اس جگہ عدم خار جی ہے۔ جو وجود خارجی کے مقابل ہے پس اسی کے اس ایجاد کے جو مرتبہ وہم میں واقع ہوتا ہے، منافی نہیں اور ثبوت وہمی اس کے مخالف نہیں یا ہم یہ کہتے ہیں کہ عدم کے منافی وجود ہے جو اس کی نقیض ہے اور عدم موجود نہیں ہوتا ہاں اگر عدم موجود ہو جائے تو اس سے کوئی محذور لازم نہیں آتا جس طرح وجود کے بارہ میں حکماء نے کہا کہ معقولات ثانیہ سے ہے جو خارج میں معدوم ہے اس تحقیق سے معلوم ہوا کہ اشیاء کی حقائق اعدام ہیں جن میں مرتبہ وجود کے کمالات منعکس ہوئے ہیں اور حق تعالیٰ کی ایجاد سے انہوں نے وہمی تحقق وثبوت وہاں پیدا کیا ہے اور مرتبہ وہم و حس میں استقرار واستمرار حاصل کیا ہے گویا اشیاء کے ذوات یعنی اصول و اعدام ہیں اور ان میں کمالات کا انعکاس اعدام کے ہاتھ پاؤں اور قوی اور اعضاء کی طرح ہیں۔
ان مقدمات کی تمہید کے بعد اصلی مقصد کی نسبت چند باتیں جو ولایت خاصہ سے تعلق رکھتی ہیں بیان کی جاتی ہیں ۔ گوش ہوش سے سننی چاہئیں خدا آپ کو سیدھے راستے کی ہدایت دے۔ جاننا چاہیئے کہ انسان کی حقیقت اور اس کی ذات عدم ہے جونفس ناطقہ کی حقیقت ہے جس کو ابتداء میں نفس امارہ(برائی کی طرف بہت امر کرنے والا) سے تعبیر کرتے ہیں اور ہر فرد انسان لفظ انا(میں) سے اس نفس کی طرف اشاره کرتا ہے۔ پس انسان کی ذات نفس امارہ ہے اور انسان کے باقی لطائف اس کےقوی اور اعضاء کی طرح ہیں، جس طرح عدم فی حد ذاتہ شر ہے اور خیریت کی بونہیں رکھتا اسی طرح نفس امارہ بھی شر محض ہے اور اس میں خیریت کی بہو نہیں یہی اس کی شرارت و جہالت ہے کہ کمالات منعکسہ کو جوظلیت کے طور پر اس میں ظاہر ہوئے ہیں اپنی طرف سے جانتا ہے اور ان کے قیام کو جو ان کے اپنے اصل کے ساتھ ثابت ہے اپنی طرف منسوب کرتا ہے اور ان کمالات کے باعث اپنے آپ کو کامل اور بہتر جانتا ہے اور سرداری کا دعوے کرتا ہے اور کمالات میں اپنے آپ کو خدا تعالیٰ کا شریک بناتا ہے اور حول و قوت کو اپنے آپ سے تصور کرتا ہے اور متصرف و قابض اپنے آپ کو ہی خیال کرتا ہے اور چاہتا ہے کہ سب اس کے تابع ہوں اور خود کسی کے تابع نہ ہو اور اپنے آپ کو سب سے زیادہ دوست رکھتا ہے اور دوسروں کو بھی اپنے لیے دوست رکھتا ہے نہ ان کے لیے اور اپنے بے ہودہ تخیلات سے اپنے مولی جل شانہ کے ساتھ ذاتی عداوت پیدا کر لیتا ہے اور حق تعالیٰ کے منزلہ احکام پر ایمان نہیں لاتا اور اپنی خواہشات کی متابعت و پرستش کرتا ہے۔ حدیث قدسی میں آیا ہے عَادِ نَفْسَك فَإِنَّهَا انْتَصَبَتْ لِمُعَادَاتِي (اپنے نفس کو دشمن جان کیونکہ وہ میری دشمنی میں قائم ہے)
حق تعالیٰ نے کمال رحمت و رافت سے انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام کو جو سراسر رحمت عالم ہیں مبعوث فرمایا تاکہ ان کی طرف دعوت فرمائیں اور اس دشمن کے گھر کو ویران کر کے اس کو اس کے مولی و خالق کی طرف بلائیں اور اس جہل وخبث سے اس کو نکالیں اور اس کو اپنےنقص اور شرارت پر اطلاع دیں، جس کے نصیب میں سعادت از لی تھی اس نے ان بزرگواروں کی دعوت کو قبول کرلیا اور اپنی جہل وخبث کو چھوڑ کر احکام منزلہ کا فرمانبردار ہوگیا ۔ جاننا چاہیئے کہ تزکیہ نفس کا طریق دوطرح پر ہے ایک وہ طریق ہے جو ریاضتوں اور مجاہدوں سے تعلق رکھتا ہے اور یہ انابت کا طریق ہے جو مریدوں کے ساتھ مخصوص ہے۔ دوسرا طریق جذب ومحبت کا طریق ہے جو اجتباءیعنی برگزیدہ کرنے کا راستہ ہے اور مرادوں سے تعلق رکھتا ہے ان دونوں طریقوں میں بہت فرق ہے۔ پہلا طریق مطلوب کی طرف چل کر جانے کا ہے اور دوسرا طریق مقصود کی طرف لے جانے کا ہے اوررفتن یعنی جانے اور بردن یعنی لے جانے میں بہت فرق ہے جب سابقہ کرم و عنایت سے کسی صاحب نصیب کو اجتباء کے راستہ پر لے جاتے ہیں تو کوئی ایسا بھی سعادت مند ہوتا ہے جس کو حدفناء تک پہنچاتے ہیں اور ماسوی کی تردید و دانش سے چھڑا دیتے ہیں اور آفاق و انفس سے آگے لے جاتے ہیں۔
آفاق کا نسيان فنائے قلب پر وابستہ ہے اور انفس کا فنا نفس امارہ کے فنا پر موقوف ہے پہلے فناء میں علم حصولی کا زوال ہے۔ دوسرے فناء میں علم حضوری(اپنی ذات کا ادراک) کا زوال جب تک نفس وذات حاضر کا زوال ثابت نہ ہو علم حضوری کا زوال متصور نہیں ہوتا جب تک حاضر قائم ہے علم حضوری بھی قائم ہوتا ہے کیونکہ علم حضوری نفس وذات حاضر سے مراد ہےنہ کوئی اوامرزائد پس زوال شہود ی کے جوفنا نفس میں اس کے زوال وجودی سے مراد ہے۔ برخلاف اس زوال شہود ی کے جوفناء قلب میں اعتبار کیا جاتا ہے کہ وہ قلب کے زوال و جودوی کومستلزم نہیں کیونکہ اس جگہ کا شہود شاہدو حاضر پرزائد ہے ایک کافناء دوسرے کےفنا، کومستلزم نہیں۔
تنبیہ: کوئی بیوقوف یہ خیال نہ کرے کہ نفس حاضر کا زوال مقام بقاء باللہ میں بھی جو توحید و جوی والوں کو میسر ہوتا ہے حاصل ہے کیونکہ حاضر اس مقام میں حق تعالیٰ ہے نہ کہ سالک کا نفس جوفنا پاچکا ہے تو میں کہتا ہوں کہ حاضر اس مقام میں سالک کانفس ہے جس کوحق کے طور پر جانا ہے نہ کہ حق تعالیٰ جو اس تعین وحضور سے منزہ ومبرا ہے یہ بات اس مصرعہ کی مصداق ہے جو کسی نے کہا ہے۔ع
بخواب اندرمگر موشے شترشد ترجمہ خواب میں چوہا بن گیا اونٹ
اس جگہ نفس حاضر کے علم کا زوال ہے جوعلم حصولی کی قسم سے ہے نہ نفس حاضر کا زوال جو علم حضوری کے زوال کو مستلزم ہے اور نہ نفس حاضر کا زوال اس کے عین واثر کے زوال سے مراد ہے نہ کہ نفس حاضر کے علم کے زوال سے شَتَّانِ مَا بَيْنَهُمَا ان دونوں کے درمیان بہت فرق ہے۔
مکتوبات حضرت مجدد الف ثانی دفتر سوم صفحہ175ناشر ادارہ مجددیہ کراچی