ذات جلالت کی تعریف

ذات جلالت کی تعریف

اللہ تعالی اس ذات واجب الوجود کا نام ہے جو تمام صفات کمال کا جامع ہے یہ ذات جلالت کی تعریف کہلاتی ہے۔

ذَاتُ الشَّئْیِ نَفْسَہ وَعَیْنُہ (ترجمہ: کسی شے کی ذات اسکے نفس اور عین کو کہا جاتا ہے) صُوفیاء کی اصطلاح میں “وجُودِ حق بلا اعتبارِ صفات و تعینات” کو ذات کہا جاتا ہے یعنی اللہ تعالیٰ کا وجودِ مطلق جو صفات و تعیّنات کے اعتبارات سے برتر ہے۔( کتاب التعریفات ص 47، علامہ شريف الجرجاني،دار الكتب العلمية بيروت -لبنان )

ذات جلالت کی تعبیرات و اصطلاحات

اہلِ تصوف کے نزدیک ذاتِ حق، ذاتِ ساذج(ساذج ، سادہ کا معرب ہے۔ ذات ساذج اس وجہ سے کہتے ہیں کہ یہاں ذات میں کوئی چیز شامل نہیں ، بلکہ خالص ذات ہی ذات ہے۔)، ذاتِ بحت،ذاتِ صرف، ذاتِ واجب، ذاتِ ھُوھُو، لاتعین معبودیتِ صرفہ، باطن غیب الغیب، مَبداء فیاض، حضرت الجمع، حضرت الوُجود، اَزل الاَزل، مرتبۃ الھویّہ، الغیبُ المسکُوْت عنہ، عینُ الکافور، مجہول التّعت، مرتبہِ ذات ہی کی مُختلف تعبیرات و اصطلاحات ہیں۔

ذات و صفات

حضرت امام ربّانی قُدِس سرہ فرماتے ہیں: ذات آنست کہ قائم بنفسہ باشدوصفات قائم باو(معارفِ لُدنیہ معرفت 21)

ترجمہ: ذات اسکو کہتے ہیں جو خود اپنے نفس کے ساتھ قائم ہو اور صفات جو اسی ذات کیساتھ قائم ہوں) لیکن ذات پر وجودِ زائد کیساتھ خارج میں موجود ہوں۔

صفت

ھِیَ الْاَمَاَرۃُ اللَّاْزِمَۃُ بِذَاتِ الْمَوْصُوْفِ الَّذِی یُعْرَفُ بِھَا

ترجمہ: صفت ایک ایسی علامت ہے جو کہ موصوف کی ذات کیساتھ لازم ہے اور موصوف کی پہچان کا ذریعہ ہے

علماءِ حق اہلسُنت وجودِ صفات کے قائل ہیں اور انکے وجود کو ذات کے وجود پر زائد سمجھتے ہیں۔ معتزلہ، شیعہ اور حکماء صفات کی نفی کے قائل ہیں اور صفات کو عین ذات کہتے ہیں۔ متاخرینِ صوفیاء میں سے بعض حضرات جو وحدت الوجود کے قائل ہیں صفات کی نفی کے مسئلہ میں معتزلہ اور حکماء کے ساتھ مُتفق ہیں۔

جمہور متکلمینِ اہلسُنّت کی تحقیق کے مُطابق لَاھُوَوَلَاَغَیْرُۃ ترجمہ: نہ ذات ہیں نا اسکا غیر) یعنی صفات ذات کیلئے نہ اسکا عین ہیں نہ غیر ہیں لہٰذا ذات و صفات کے درمیان غیریّت اور عینیّیت کا اِطلاق کرنا منع ہے حضرت امام ربّانی قُدِّس سرہ کا بھی یہی مسلک ہے۔ جیسا کہ حضرت امام ربّانی قدس سرہ نے اس مسئلہ کی وضاحت فرمائی ہے ملاحظہ فرمائیں: بعض مشائخ نے جو واجبِ تعالیٰ جلّ شانہ کی صفات کے (الگ) وجُود سے انکار کردیا ہے اور انہوں نے صفات کو خارج میں عین ذات کہہ دیا ہے تو اسکی وجہ یہ ہے کہ یہ حضرات تجلیّاتِ صفاتیہ کے مرتبے میں ہیں صفات انکے لئے ذات جل شانہ کے مشاھدے کے آئینے بن گئی ہیں اور آئینہ کی صورت یہ ہوتی ہے کہ وہ خود دیکھنے والے کی نظر سے مخفی ہوجاتا ہے (اور وہی چیز نظر میں آتی ہے جو آئینے کے بالمقابل ہوتی ہے) لہٰذا صفات لامُحالہ آئینہ بن جانے کے حُکم کی وجہ سے ان کی نگاہوں سے پوشیدہ ہوگئی ہیں اور چونکہ صفات انہیں نظر نہیں آتیں اس لئے وہ فیصلہ دے دیتے ہیں کہ وہ خارج میں عینِ ذات ہیں اور علم کے مرتبہ میں جو انہوں نے ذاتِ تعالیٰ و تقدس کے ساتھ صفات کی مغائرت (غیرہونا) ثابت کی ہے تو وہ محض اس بناء پر ہے تاکہ بالکُلیّہ صفات کی نفی لازم نہ آجائے اور اگر یہ بعض حضرات اس مقام سے اوپر پہنچ جاتے اور انکا شہود صفات کے ان آئینوں سے باہر نکل جاتا تو  وہ حقیقتِ حال کو جو کچھ کہ ہے جان لیتے اور سمجھ جاتے کہ علماء اہلِ سُنت کا یہ فیصلہ صحیح اور واقعہ کے مُطابق اور فانوسِ نبوت علیٰ صابحہا الصّلوٰۃ والسّلام و التحیۃ سے ماخوذ ہے کہ صات الگ موجود ہیں اور وہ ذات پر زائد ہیں


ٹیگز

ذات جلالت کی تعریف” ایک تبصرہ

اپنا تبصرہ بھیجیں