ذکر کے ثمرات کے عنوان سے پچیسویں باب میں حکمت نمبر 255اور256 ہےیہ کتاب اِیْقَاظُ الْھِمَمْ فِیْ شَرْحِ الْحِکَمْ جو تالیف ہے عارف باللہ احمد بن محمد بن العجیبہ الحسنی کی یہ شرح ہے اَلْحِکَمُ الْعِطَائِیَہ ْجو تصنیف ہے، مشہور بزرگ عارف باللہ ابن عطاء اللہ اسکندری کی ان کا مکمل نام تاج الدین ابو الفضل احمد بن محمد عبد الکریم بن عطا اللہ ہے۔
مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے دونوں فریق کا حال بیان فرمایا:
255) ذَاكِرٌ ذَكَرَ لِيَسْتَنِيرَ بِهِ قَلْبُهُ فَكَانَ ذَاكِرًا ، وَذَاكِرٌ اسْتَنَارَ قَلْبُهُ فَكَانَ ذَاكِرًا ، وَالَّذِى اسْتَوَتْ أَذْكَارُهُ وَأَنْوَارُهُ فَبِذِكْرِهِ يُهْتَدَى ، وَبِنُورِهِ يُقْتَدَى .
ایک ذاکر ایسا ہے جو اس لئے ذکر کرتا ہے کہ اس کا قلب نور حاصل کرے ( روشن ہو ) اور ایک ایسا ہے، کہ اس کا قلب (انوار الہٰی کے فیضان سے ) منور ہو جاتا ہے تو وہ ذاکر ہو جاتا ہے۔
میں (احمد بن محمد بن العجیبہ ) کہتا ہوں : جو شخص اس لئے ذکر کرتا ہے کہ اس کا قلب روشن ہو، وہی ہے ، جس کا ذکر اس کے قلب میں نور پیدا ہونے سے پہلے ہوتا ہے۔ لہذاوہ ان لوگوں میں سے ہے، جن کے اذکاران کے قلب میں انوار پیدا ہونے سے پہلے ہوتے ہیں۔ اور جس شخص کا قلب پہلے نور سے روشن ہوتا ہے پھر وہ ذاکر ہو جاتا ہے۔ وہ ہے جس کے قلب میں نور کا فیضان اس کے ذکر سے پہلے ہوتا ہے۔ لہذا وہ ان لوگوں میں سے ہے، جن کے قلب میں انوار کا فیضان ان کے اذکار سے پہلے ہوتا ہے۔ اور وہ لوگ عارفین باللہ ہیں۔ تم ان کو دیکھو گے، کہ وہ نہ بارگاہ الہٰی کی حضوری میں ہیں ۔ اور ذکریا فکر یا نظر میں مشغول ہیں۔ یا بارگاہ الہٰی کی حضوری کے لئے مریدین کی ہدایت اور تربیت میں مصروف ہیں۔ ان کے قلوب انوار الہٰی سے معمور ہیں۔ اور ان کی ارواح ہمیشہ اسرار الہٰی کی بارگاہ میں حاضر ہیں۔ اور بلاشبہ ظاہری ذکر باطنی شہود کا دیباچہ ہے اس لئے کہ اگر وارد نہ ہوتا، تو ورد بھی نہ ہوتا ۔ اسی حقیقت کو مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے اپنے اس قول میں بیان فرمایا ہے:
256) مَا كَانَ ظَاهِرُ ذِكْرٍ إِلاَّ عَنْ بَاطِنِ شُهُودٍ أَوْ فِكْرةٍ .
ذکر کا ظاہر، شہود یا فکر کے باطن ہی سے پیدا ہوتا ہے ۔
میں (احمد بن محمد بن العجیبہ ) کہتا ہوں:۔ جب ظاہر اللہ تعالیٰ کے ذکر میں مشغول ہوتا ہے، تو یہ باطن میں اللہ تعالیٰ کی محبت موجود ہونے کی علامت ہے۔ کیونکہ جب کوئی شخص کسی شخص سے محبت کرتا ہے تو وہ اس کا ذکراکثر کرتا ہے۔ اور محبت ذوق و شوق اور معرفت ہی سے پیدا ہوتی ہے۔ لہذ اذکر کا ظاہر شہود کے باطن ہی سے پیدا ہوتا ہے اگر چہ اس کو اپنے شہود کی خبر نہ ہو۔ لہذا روح جب تک فنا نہیں ہوتی ہے وہ ذکر نہیں کرتی ہے اور وہ جب تک مشاہد ہ نہیں کرتی ہے فنا نہیں ہوتی ہے۔ تو ہر وہ شخص جو اللہ تعالیٰ کے ذکر میں فنا ہو جاتا ہے۔ بے شک اس کی روح بارگاہ الہٰی کے جمال کا مشاہدہ کرتی ہے۔ یا بارگاہ کے جمال اور اس کی رونق کے غور وفکر میں مستغرق رہتی ہے۔ یا اس کے بہترین ثواب اور جزا کی فکر میں محو ہوتی ہے۔
لہذا حاصل یہ ہوا کہ ظاہری ذکر یا تو باطنی شہود سے پیدا ہوتا ہے اور وہ مریدین یا عارفین کا حال ہے۔ یا فکر سے پیدا ہوتا ہے اور وہ تو اب یعنی بدلہ چاہنے والوں کا حال ہے۔ اور ذکر کے اعتبار سے آدمیوں کی تین قسمیں ہیں:۔
ایک قسم : وہ لوگ ہیں جو بدلہ چاہتے ہیں ۔ دوسری قسم: وہ لوگ ہیں جو حضور چاہتے ہیں۔ تیسری قسم وہ لوگ ہیں جو اللہ تعالیٰ تک پہنچ گئے اور حجاب کو دور کر چکے ہیں۔