رسالہ رد روافض از امام ربانی مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندی

رسالہ رد روافض

اَلْحَمْدُ لِلَّهِ حَمْدًا كَثِيْرًا طَيِّبًا مُبَارَكًا عَلَيْهِ كَمَا يُحِبُّ رَبُّنَا وَيَرْضَى وَالصَّلٰوةُ وَالسَّلَامُ عَلٰى سَيّدِنَا مُحَمَّدٍ اَكْرَمِ الْبَشَرَ الْمَبْعُوْثِ إِلَى الْأَسْوَدِ وَالْاَحْمَرِ كَمَا يُنَاسَبِ بِعُلُوِّ شَانِهِ وَيَجْرٰى وَعَلَى الْخُلْفَاءِ الرَّاشِدِيْنَ الْمَهْدِيِّيْنَ وَذُرِّيَتِهِ وَاَهْلِ بَيْتِهِ الطَّيِّبِينَ الطَّاهِرِينَ وَسَائِرِ الصَّحَابَةِ الْمُرضِيِّنَ كَمَا يَلِيْقُ بِمَرَ اتِبهِمُ الْعُظْمٰی وَدَرَجَاتِهِمُ الْعُلْيَا اَمَّا بَعْدُ

ابتدائیہ:

یہ بنده کمترین جو خداوند واحد وصمد کی رحمت کا محتاج ہے اور علماء اہلِ سنت و جماعت کا خادم ہے، احمد بن عبد الاحد عمری و فاروقی نسبا سرہندی مولد اًحنفی ملتاً و مذهبا کہتا ہے کہ دیار ہندوستان ہر چند تمام ممالک سے اسلام میں متاخر ہے اور کوئی صحابی اس اقلیم میں تشریف فرما نہیں ہوا ۔ لیکن پھر بھی اسلام یہاں ظاہر ہوا۔ سلاطین اسلام نے اسے مضبوط کیا اور مشائخ عظام اور اولیاء کرام اطراف و جوانب سے تشریف لائے۔ زمانہ بہ زمانہ دین کے معالم اور اسلام کے اعلام ترقی کرتے رہے کہ اس ملک کو تمام ممالک سے ایک وجہ سے نہیں متعدد وجوہات سے مزیت(برتری) وفضیلت حاصل ہو گئی۔ اس کے تمام اسلامی باشندے عقیدہ حقہ اہل سنت و جماعت پر ہیں ، اور اہل بدعت و ضلالت کا اس دیار میں نشان نہیں۔ سب طریقہ مرضیہ حنفیہ ” رکھتے ہیں۔ حتی کہ اگر کوئی شخص بالفرض مذہب شافعی و حنبلی رکھتا ہو ، ڈھونڈنے سے نہیں ملتا اگر چہ یہ اہل حق کے مذاہب ہیں اور اہلِ ہوا و بدعت سے گریز پا ہیں ، حضرت خواجہ امیر خسرو علیہ الرحمتہ والرضوان ملک ہند کی تعریف میں فرماتے ہیں۔

خوشا ہندوستان و رونق دین شریعت را کمال عزو تمکیں
زبردستان هند و گشته پامال فرودستان همه درد ادن مال
بدیں عزت شده اسلام منصور بداں خواری سران کفر مقہور
بہ ذمت گر نہ بودے رخصت شرع نہ ماندے نام ہندو زاصل تا فرع
زغز نین تالب دریا دریں باب ہمہ اسلام بینی بریکے آب
نہ تر ساے کہ از نا تر سگاری نهد بر بنده داغ کردگاری
نہ از جنس جہوداں جنگ و جوریت کہ قرآن کند دعوی بہ توریت
نہ مغ کز طاعت آتش شود شاد و زو باصد زباں آتش بہ فریاد
مسلمانان نعمانی روش خاص زدل ہر چار آئیں رابہ اخلاص
نہ کیں با شافعی نے مہر بازید جماعت را و سنت را به جال صید
نہ اہل اعتزالے کز فن شوم ز دیدار خد اگر دند محروم
نہ رفض تار سدزاں مذہب بد جفائے بر وفا دارانِ احمد
نہ زاں سگ خارجی کز سینه سازی کند باشیر حق روباه بازی
ز ہے ملک مسلماں خیز و دیں جوئے کہ ماہی نیز سنی خیزد از جوئے

یعنی ہندوستان رونق دین ہے، جہاں شریعت کو عزت و تمکنت کا کمال حاصل ہے، اسلام منصور ہے، کفر مقہور ہے۔ غزنی سے اس لب دریا تک اسلام ہی اسلام ہے، یہاں یہود نصاری، آتش پرست معتزلہ، خارجی، رافضی کوئی نہیں ، سب اہل سنت جماعت مسلمان ہیں۔ یہاں کے دریا کی مچھلی بھی سنی کہلائے گی (ملخصا )
تقریبا پانچ سو سال اسی صرافت (خالص پن)و لطافت میں گزرے، تا آنکہ خاقان اعظم عبداللہ خان کے دور میں شیعہ نے (خراسان ) میں غلبہ وشیوع (پھیلنا)پیدا کر رکھا تھا۔ ( اس نے خراسان پر حملہ کیا) بعض شیعہ قتل ہوئے اور بعض جلا وطن ہو کر ہندوستان آئے اور حکام وسلاطین کا تقرب حاصل کر کے بعض جہلا کو جھوٹے مقدمات اور فریب زدہ مغالطات سے گمراہ کیا اور راہ سے دور لے گئے ۔ ہر چند اقلیم خراسان میں فتنہ و فساد سے سکون ہوا اور مسلمان ان کی شرارت سے آزاد ہوئے۔ لیکن دیار ہند میں ان بدکیشوں کے قدوم بد کی بدولت مسلمانوں میں فتور عظیم واقع ہوا اور فتنہ از سر نو بیدار ہو گیا۔ منقول ہے کہ ایک بزرگ نے اپنے ہمراہیوں کے ساتھ دعا کی الہی اہل خراسان کی جمعیت پر نگاہ رکھ اور تفرقہ سے امان بخش! مریدوں نے کمال تعجب سے پوچھا یا شیخ یہ دعا کیا ہے، جو آپ نے ان بے بختوں کے بارے میں کی ، فرمایا ان کا تفرقہ تمام عالم کے تفرقہ و ضلالت” کا موجب ہے اور فتنہ خفتہ کی بیداری کا سبب ہے۔
اسی دوران عبداللہ خان کے محاربہ مشہد کے وقت شیعہ نے جوابا ماورا ءالنہر کے علماء کرام کو رسالہ لکھا ، اس جوابی رسالہ میں باب “مسلمانوں پر تکفیر شیعہ اور ان کے اخذ اموال کی اباحت میں اس قلیل البضاعت نے اس کے ابلہ فریب (بیوقوف بنانے والا فریب)مقدمات کو بغور پڑھنے سے یہ ( نتیجہ ) حاصل کیا کہ اس میں خلفائے ثلاثہ کی تکفیر ہے اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی ذم و تشنیع ہے۔ بعض طلبہ شیعہ ان حدود سے متردد تھے اور ان مقدمات پر افتخار و مباہات ظاہر کرتے تھے۔ امراء وسلاطین کی مجالس میں ان مغالطات کو شہرت مل رہی تھی ، اگر چہ یہ فقیران ”مجالس و معارک“ میں بالمشافہ ان منقولہ و معقولہ مقدمات کو رد کرتا اور ان کی صریح غلطیوں کی اطلاع دیتارہامگر میری نیت اسلام اور رگ فاروقی نے اس قدر رد والزام پر کفایت نہ کی ۔ اور سینہ بے کینہ کی شورش کو تشفی نہ ہوئی۔ خاطر فاتر کا قرار اس میں ہے کہ ان کے مفاسد کا اظہار اور ان کے بدکیشوں کے مطالب کا ابطال جب تک قید کتابت اورزیر تحریر میں نہ آئے گا فائدہ تمام اور نفع عام نہ ہوگا۔ پس میں نے ان کے مقاصد فاسدہ اور ” عقائد کا سدہ(کھوٹے)” کی تردید کی۔ جو اس رسالہ میں وارد تھے۔
میں نے اللہ صمد و ودود کی مدد سے اپنا مقصود حاصل کیا۔ بے شک وہی حفاظت کرنے والا مولا ہے اور مددگار ہے، اور اسی کی طرف سے توفیق اور تحقیق ہے۔

روافض کے مختلف گروہ:

جان لو! اللہ تعالیٰ نے تمہارا ارشاد اچھا کیا۔ شیعہ ، حضرت پیغمبر ﷺ کے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ کو امام برحق مانتے ہیں، نص جلی سے یا نص خفی سے، اور کہتے ہیں کہ امامت ان کی اولاد سے باہر نہیں جاسکتی ۔ اگر جائے گی تو ظلم سے جو ان کے غیر نے ان پر ڈھایا، یا تقیہ سے جو حضرت علی نے کیا یا ان کی اولاد نے ۔ شیعہ کے کثرت طرق اور تعدد اصناف کے باوجود بائیس گروہ ہیں۔ ہر گروہ نے دوسرے گروہ کا رد کیا ہے اور اس کے قبائح و شنائع کو ظاہر کیا ہے۔
‌وَكَفَى ‌ٱللَّهُ ٱلۡمُؤۡمِنِينَ ٱلۡقِتَالَ(اور اللہ نے مومنین کو لڑائی کی کفایت فرمادی)
ہمیشہ باد خصوصت جہود و تر سارا کہ قتل ہر دو طرف خوب تر بود مارا
یعنی ہمیشہ یہود و نصاری کی دشمنی کی ہوا اور ہر دو طرف کا قتل ہمارے لئے خوب تر رہا۔
اُن کے قدما ءاور اقدمین میں اور اوائل و اواخر میں تفاوت عظیم ہے۔ مگر ان کے جمیع فرقے “کمال تعصب و عناد کے سبب لعن و تکفیر کے مستحق ہیں کہ ان کا بہترین عمل اور فاضل ترین عبادت ہمارے اسلاف کو گالیاں دینا اور خلفائے راشدین پر طعن کرنا ہے۔ بلکہ ان کی تکفیر کرنا ہے۔ ان مباحث کی تحقیق عنقریب مذکور ہو گی۔ انہوں نے ہدایت کے بدلے گمراہی کو خرید لیا۔
حضرت خواجہ حافظ علیہ الرحمہ فرماتے ہیں ۔
ترسم این قوم که بر درد کشاں میخندند بر سر کار خرابات کنند ایماں را
مجھے ان لوگوں سے ڈر لگتا جو مجھ پر ہنستے ہیں وہ کام کے مقابلے میں ایمان کو تباہ کررہے ہیں
ہم اپنے مقصود کے آغاز سے قبل ان کے چند گروہوں کا ذکر کرتے ہیں اور ان کے مقاصد کی حقیقت پر اطلاع کرتے ہیں کہ ان بداندیشوں کے فضائح وشنا ئع مکمل طور پر معلوم ہوسکیں ۔
1۔طائفہ سبائیہ:
یہ عبداللہ بن سبا کے اصحاب ہیں، وہ ان کا قدیم رئیس ہے۔ اس نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو معبود کہا۔ اور انہوں نے اسے شہر مدائن سے نکال دیا۔ وہ کہتاتھا کہ ابن ملجم نے حضرت علی کو شہید نہ کیا بلکہ شیطان کو مارا جو ان کی صورت میں متمثل ہوچکا تھا ، حضرت علی تو بادل میں ہیں۔ چنانچہ رعد ان کی آواز ہے اور برق اُن کا تازیانہ ہے۔ اور اس کے تابع دار آواز رعد کی سماعت کے دوران علیک السلام یا امیر المومنین “ کہتے ہیں ۔
2۔ طائفہ کاملیہ:
یہ ابو کامل کے اصحاب ہیں، یہ حضرت پیغمبر ﷺ کے صحا بہ کرام کی تکفیر کرتے ہیں اس لیے کہ اُنہوں نے حضرت علی کی بیعت نہ کی نیز حضرت علی کی بھی تکفیر کرتے ہیں کہ انہوں نے اپنا حق ترک کیا اور وہ تاریخ کے قائل ہیں۔
3۔ طائفہ بیانیہ:
یہ بیان بن سمعان کے اصحاب ہیں۔ یہ کہتے ہیں کہ خدا نسان کی صورت ہے۔ وہ چہرے کی سو ا سب ہلاک ہو جائے گا، روح خدا نے حضرت علی میں ان کے بعد محمد بن الحنفیہ میں، ان کے بعد ان کے بیٹے ہاشم میں اور ان کے بعد بیان میں حلول کیا۔
4۔ طائفہ مغیریہ:
یہ مغیرہ بن سعیدعجلی کے اصحاب ہیں، یہ کہتے ہیں کہ خدا مر د نورانی کی صورت میں ہے۔ اس کے سر پر نور کا تاج ہے اور اس کا دل حکمت کا منبع ہے۔
5- طائفہ جناحیہ:
یہ عبداللہ بن معاویہ بن عبد اللہ بن جعفر ذی الجناحین کے اصحاب ہیں ، تناسخ ارواح کے قائل ہیں۔ اور کہتے ہیں کہ روح خدا نے پہلے آدم میں پھر شیث میں اور اس طرح انبیاء کرام اور ائمہ میں ، پھر حضرت علی اور ان کی اولاد میں حلول کیا۔ اس کے بعد عبداللہ میں حلول کیا ، یہ گروہ منکر قیامت ہے۔ محرمات کو حلال جانتا ہے ، مثلاً شراب ،مردار اور زنا وغیرہ۔
6۔طائفہ منصوریہ:
یہ ابومنصور عجلی کے اصحاب ہیں۔ وہ حضرت امام محمد باقر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں رہتا تھا۔ حضرت امام اُس سے بیزار ہو گئے اور اس کو نکال دیا ، سو وہ امامت کا دعویدار ہوا۔ اس کے اصحاب کا عقیدہ ہے کہ ابو منصور آسمان پر گیا اور حضرت حق سبحانہ نے اپنے ہاتھ سے اس کے سر پر مسح کیا اور فرمایا بیٹا جا! میرے لئے تبلیغ کر، اس کے بعد وہ زمین پر آیا ، وہی کسف (گہن لگنا)ہے۔ جو اللہ تعالیٰ کا قول ہے، وَإِن يَرَوۡاْ ‌كِسۡفٗا مِّنَ ٱلسَّمَآءِ سَاقِطٗا يَقُولُواْ سَحَاب مَّرۡكُوماور انہی کا قول ہے کہ رسالت غیر منقطع ہے۔ جنت سے مراد امام ہے، جس کی محبت پر ہم مامور ہیں ، اور نار اس شخص کی طرف کنایہ ہے جس کے بغض کا ہمیں حکم ہے۔ جیسے ابو بکر و عمر، اسی طرح فرائض سے مراد وہ جماعت ہے جس کی محبت کا امر فر مایا گیا اور محرمات سے مراد وہ طائفہ ہے جس کی نفرت کا امر فر مایا گیا۔
7۔ طائفہ خطابیہ:
یہ ابو خطاب اسدی کے اصحاب ہیں۔ وہ حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ کی خدمت میں رہتا تھا۔ جب امام کو اپنے بارے میں اس کا غلو معلوم ہوا تو بیزار ہو گئے اور اسے اپنی صحبت سے اُٹھا دیا۔ پھر اُس نے اپنی امامت کا دعوی کیا۔ اس کے گروہ کا کہنا ہے کہ ائمہ، انبیاء ہیں، نیز ابو خطاب نبی ہیں۔ بلکہ اس نے اس قدر گمراہی پر کفایت نہ کی، کہنے لگا ائمہ ، خدا ہیں، جعفر صادق خدا ہے، مگر ابو خطاب ان سے اور حضرت علی سے بھی افضل ہے۔ اس گروہ نے اپنے مخالف پر اپنے موافق کے لئے جھوٹی گواہی کو حلال ٹھہرایا۔ نیز کہتے ہیں کہ جنت دنیا کی نعمتوں کا نام ہے اور نار اُس کے غموں کا نام، دنیا ہرگز فنانہ ہوگی۔ محرمات کو اور فرائض چھوڑنے کو جائز مانتے ہیں۔
8 ۔ طائفہ غُرابیہ:
اس گروہ کا کہنا ہے کہ حضور ﷺ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے مشابہ تر تھے ، جیسے کوے کو کوے سے اور مگس کو مگس سے مشابہت ہوتی ہے۔ حق سبحانہ نے حضرت علی کی طرف وحی بھیجی ، جبریل کو کمال مشابہت کی وجہ سے دھو کہ ہوا۔ انہوں نے وحی حضور ﷺ کو پہنچادی۔ اُن کا شاعر کہتا ہے
غَلَط الامين فجَازه عن حَيُدِره
یعنی جبریل امین نے غلط کیا ، خدا نے اپنے حیدر سے اُس کو جائز قرار دیا ، وہ حضرت جبریل علیہ السلام پر لعن کرتے ہیں ۔
9۔ طائفہ ذمیہ:
یہ حضور محمد مصطفے ﷺ کی توہین کرتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ خدا تھے، انہوں نے حضرت محمد ﷺ کو مبعوث کیا کہ لوگوں کو ان کی طرف بلائیں ، انہوں نے لوگوں کو اپنی طرف بلایا، بعض ذمیہ اُن دونوں کو خدا مانتے ہیں۔ ان میں ایک جماعت حضرت محمد ﷺ کو الوہیت میں مقدم مانتی ہے اور دوسری جماعت حضرت علی رضی اللہ عنہ کو ۔ ان میں ایک جماعت پانچ خداؤں کی قائل ہے، اور وہ ہیں اصحاب عبا۔ یعنی حضرت محمد ﷺ ، حضرت علی ، فاطمہ ، حسن و حسین رضی اللہ عنہم ۔ اس کا عقیدہ ہے یہ پانچوں ہی سے واحد ہیں اور ان میں روح نے برابر حلول کیا ہے۔ اور ایک کو دوسرے پر ہر گز کوئی مزیت وفضیلت نہیں۔ وہ فاطمہ کی تاء تا نیث کو نہیں مانتے کہ شائبہ تانیث سے بچا جا سکے۔
10۔ طائفہ یونسیہ:
یہ یونس بن عبدالرحمن قمی کے اصحاب ہیں۔ یہ کہتے ہیں کہ خدا عرش پر ہے، ہر چند فرشتوں نے اس کو اُٹھایا ہے مگر وہ فرشتوں سے زیادہ قوت والا ہے جیسا کہ کلنگ(سارس ایک پرندہ) کہ وہ اپنے دونوں پیروں پر زور ڈالتا ہے ، وہ اپنے دونوں پیروں کی بدولت بڑا اور زیادہ قوی ہے۔
11۔ طائفہ مفوضہ:
ان کا کہنا کہ خدا تعالیٰ نے دنیا کو تخلیق فرمایا اور حضرت محمد ﷺ کو تفویض کر دی۔ اور ان کے لئے دنیا کی ہر چیز مباح قرار دی بعض کا کہنا ہے، دنیا حضرت علی کو سونپ دی گئی ۔
12۔ طائفہ اسماعیلیہ :
یہ باطن قرآن کے قائل ہیں نہ ظاہر قرآن کے۔ اور کہتے ہیں کہ باطن کی نسبت ظاہر کے ساتھ اس طرح ہے جس طرح مغز کی چھلکے کے ساتھ ۔ اور جو کوئی ظاہر قرآن سے تمسک کرتا ہے وہ اوامر کے امتثال اور نواہی سے اجتناب کے عذاب و مشقت میں گرفتار رہتا ہے۔ اور باطن قرآن اُس کے ظاہر سے ترک عمل تک لے جاتا ہے۔ اس مطلب میں وہ قرآن کی اس آیت سے تمسک کرتے ہیں ۔ حق عزوجل نے فرمایا فَضُرِبَ بَيۡنَهُم ‌بِسُورٖ لَّهُۥ بَابُۢ بَاطِنُهُۥ فِيهِ ٱلرَّحۡمَةُ وَظَٰهِرُهُۥ مِن قِبَلِهِ ٱلۡعَذَابُ
پس ان کے درمیان ایک دیوار ہے جس میں ایک دروازہ ہے اس کے اندر کی طرف رحمت اور باہر کی طرف عذاب ہے
وہ محرمات کو مباح جانتے ہیں اور کہتے ہیں کہ شریعت کے ناطق پیغمبر سات ہیں۔ آدم ، نوح، ابراہیم ، موسیٰ ، عیسی ، حضرت محمد علیہ وعلیہم السلام ، اور محمد مہدی کو رسولوں میں خیال کرتے ہیں۔ ان کی دعوت کی اصل شرائع کا ابطال ہے۔ وہ احکام شریعت میں شکوک ڈالتے ہیں چنانچہ کہتے ہیں حائضہ کے لئے روزے کی قضا نماز کی کیوں نہیں؟ غسل منی سے کیوں واجب ہوتا ہے۔ پیشاب سے کیوں نہیں ۔ بعض نمازوں میں چار رکعت ،بعض میں تین رکعت اور بعض میں دو رکعت کیوں فرض ہوئیں۔ وہ شرائع کی تاویلیں کرتے ہیں ، وضو سے مراد امام کی موالات اور نماز سے مراد رسول ہے۔ اس کی دلیل یہ آیت لیتے ہیں إِنَّ ٱلصَّلَوٰةَ تَنۡهَىٰ عَنِ ٱلۡفَحۡشَآءِ وَٱلۡمُنكَرِۗ
نماز بے حیائی اور برے کاموں سے روکتی ہے
اور کہتے ہیں کہ احتلام کسی نا اہل انسان کے سامنے اسرار کو کھول دینے کا نام ہے، اور غسل تجدید عہد ہے، زکات کو معرفتِ دین کے ساتھ تزکیہ نفس خیال کرتے ہیں ۔ کعبہ نبی ہے اور باب علی ، صفا حضرت محمد ﷺ ہیں اور مر وہ حضرت علی اور طواف ہفتگانہ ائمہ اربعہ کے موالات کو تصور کرتے ہیں۔ جنت ، تکالیف سے جسموں کی راحت ہے، اور نار مزاولت ( مہارت)تکالیف سے جسموں کی مشقت ، وہ اس قسم کی بہت سی خرافات رکھتے ہیں، نیز کہتے ہیں کہ خداوند نہ موجود ہے اور نہ معدوم ہے۔ نہ عالم ہے اور نہ جاہل ہے۔ نہ قادر ہے اور نہ عاجز ہے۔ جب حسن بن صباح ظاہر ہوا اُس نے اس دعوت کی تجدید کی۔ اور خود کو نیابت احکام کا مستحق سمجھا ان کے زعم میں زمانہ امام سے ہر گز خالی نہیں ، یہ عوام کو علوم میں غور کرنے سے اور خواص کو کتب متقدمہ کے دیکھنے سےروکتے ہیں کہ ان کی فضیحتوں اور قباحتوں سے آگاہ نہ ہو سکیں۔ یہ دامانِ فلاسفہ کو تھام کر احکام شریعت کا تمسخر اڑاتے ہیں۔
13۔ طائفہ زیدیہ:
یہ زید بن علی زین العابدین کے ساتھ منسوب ہے۔ اس طائفہ کے تین گروہ ہیں۔ اول جارود یہ جو امامت علی پر نص خفی کے ساتھ قائل ہیں ۔ اور صحابہ کرام کی تکفیر کرتے ہیں کہ انہوں نے حضرت پیغمبر ﷺ کے بعد حضرت علی کی بیعت چھوڑ دی تھی۔ دوم سلیمانیہ جو کہتے ہیں کہ امامت خلائق کے درمیان شوری ہے۔ یہ حضرت ابو بکر و عمر کو امام مانتے ہیں اگر چہ لوگوں سے خطا واقع ہو گئی کہ انہوں نے حضرت علی کے ہوتے ہوئے ان کی بیعت کی۔ ہاں وہ یہ خطاحد فسق تک نہیں لے جاتے. حضرت عثمان، طلحہ، زبیر اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہم کی تکفیر کرتے ہیں۔ سوم تبریہ، جو سلیمانیہ سے موافق ہے، مگر یہ عثمان غنی کے بارے میں توقف کرتے ہیں۔ اکثر زیدیہ اس زمانہ میں مقلد ہیں ، وہ اُصول میں معتزلہ کی طرف اور فروع کے چند مسئلوں میں مذہب ابو حنیفہ علیہ الرحمہ کی طرف راجع ہیں۔
14۔ طائفہ امامیہ:
یہ خلافت علی پرنص جلی کے ساتھ قائل ہیں۔ اور صحابہ کرام کی تکفیر کرتے ہیں امام جعفر صادق کی امامت تک ان کا اتفاق ہے۔ ان کے بعد امام منصوص علیہ (جس پر نص ہو)کے بارے میں اختلاف ہے۔ ان کا مشہور اور مختار جمہور اس ترتیب پر ہے۔ امام جعفر، کے بعد ان کے بیٹے موسیٰ الکاظم (امام) ہیں ، ان کے بعد علی الرضا محمد بن علی التقی ، علی بن محمد النقی حسن بن علی العسکری محمد بن علی المہدی رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو امام منتظر ہیں (امام ہیں ) اس طائفہ کے اولین ان ائمہ کرام کے ہم مذہب تھے ، اور متاخرین تمادی(مدت) ایام کے سبب بعض معتزلہ کی طرف رجوع کر گئے اور بعض مشتبہ طرف۔ یہ ان گمراہ اور گمرہ کن فرقوں کا آخر بیان ہے۔ ان میں دوسرے چند گروہوں کا ذکر نہیں کہ وہ اصول و عقائد میں ان طوائف کے موافق ہیں مگر چند مسائل میں تھوڑا اختلاف رکھتے ہیں۔
(وہ چند گروہ چھ فرقے مجدد رحمۃ اللہ علیہ نے ذکر نہیں فرمائے ان میں سے پہلا گروہ ہشامیہ ہے دوسرا فرقہ زراریہ تیسرا فرقہ شیطانیہ چوتھا زرامیہ پانچواں بدائیہ اور چھٹا نصیریہ یا اسحاقیہ ہے)

عقائد روافض کی حقیقت 

پوشیدہ نہیں کہ جس شخص کو بھی ادنی سی تمیز و درایت حاصل ہے اور ان کے مطالب کی حقیقت سے آگاہ ہے، وہ دلائل کی طرف رجوع کیے بغیر ان کے مقاصد کا فیصلہ کر سکتا ہے، کیونکہ ان کے مقاصد موہومہ بالکل ظاہر ہیں اور ان کا بطلان بدیہی (جس میں غور و فکر کی ضرورت نہ ہو)ہے۔ وہ کمالِ جہالت سے خود کو اہل بیت پیغمبر اور ائمہ اثنا عشر سے منسوب کرتے ہیں. اور ان کی متابعت و موالات کا دعویٰ کرتے ہیں ، حاشاً و كلا ثم حاشا و كلا كہ وہ ان کی محبت مفرطہ (حد سے بڑھی)سے بیزار ہیں۔ اور ان کی متابعت کو قبول نہیں فرماتے ، ان بد کیشوں کی محبت محبت نصاریٰ کے رنگ میں ہے۔ اس کی تائید اس روایت سے ہوتی ہے جو امام احمد نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے نقل کی۔ انہوں نے فرمایا کہ مجھ سے نبی اکرم ﷺ نے فرمایا ” تجھ میں عیسیٰ علیہ السلام کی مثال ہے، ان سے یہود نے بغض رکھا حتی کہ ان کی پاک ماں پر بہتان لگایا ، اور ان سے نصاریٰ نے محبت کی اور ان کو اس مقام پر کھڑا کیا جو ان کے لئے نہیں تھا۔ پھر فرمایا میرے بارے میں بھی دو افراد ہلاک ہونگے۔ ایک افراط کرنے والا محب جو میرے بارے میں افراط کرتا ہے، اور دوسرا مجھ سے بغض رکھنے والا جو مجھ پر بہتان باندھتا ہے۔ اللہ سبحانہ کا ارشاد ہے ، إِذۡ تَبَرَّأَ ٱلَّذِينَ ٱتُّبِعُواْ مِنَ ٱلَّذِينَ ٱتَّبَعُواْ یعنی جب متبوع اپنے تابعداروں سے بیزار ہوں گے، اور ان کی متابعت قبول نہ کریں گے ، اُن کے حال میں نشان ہے۔ رَبَّنَا لَا تُزِغۡ قُلُوبَنَا بَعۡدَ إِذۡ هَدَيۡتَنَا وَهَبۡ لَنَا مِن لَّدُنكَ رَحۡمَةًۚ إِنَّكَ أَنتَ ٱلۡوَهَّابُ
اے ہمارے رب ہمیں ہدایت دینے کے بعد ہمارے دلوں کو ٹیڑھا نہ کرنا ‘ ہمیں اپنے پاس سے رحمت عطا فرما بیشک تو بہت عطا فرمانے والا ہے۔
، لیجئے اب ہم ان کے واہیات اعتراضات کا جواب شروع کرتے ہیں
معتصما بحبل الله الملک الكبيرانه، على ما يشاء قدير و بالاجابة جدير.
صحابہ کرام کا دفاع 
علماء ماورا ءالنہر شکر اللہ سعیم نے فرمایا کہ حضرت پیغمبر ﷺ خلفائے ثلاثہ کی کمال تعظیم و توقیر فرماتے تھے، ہر ایک کی تعریف میں احادیث کثیر ہ وارد ہوئیں ، چونکہ آں حضرت ﷺ کے جمیع اقوال وافعال وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوٰى اِنْ هُوَ اِلَّا وَحْيٌ يُّوْحٰى وہ اپنی خواہش سے کلام نہیں کرتے ان کا کہا ہوا وہی ہے جس کی ان کی طرف وحی کی جاتی ہے۔
کے مطابق موجب وحی ہیں(پس تعظیم و تکریم خلفائے ثلاثہ بھی حکم خداوندی کے تحت ہے) اس لئے شیعہ جو اُن کی مذمت کرتے ہیں ، وحی کی مخالفت کرتے ہیں اور وحی کی مخالفت کفر ہے۔
روافض کا جواب 
شیعہ نے ان کے جواب میں بطریق معارضہ(مخالفت) کہا کہ اس دلیل سے تو خلفائے ثلاثہ کی قدح(عیب) اور اُن کی خلافت کا بطلان لازم آتا ہے۔ کیونکہ شرح مواقف میں آمدی سے جواکابر اہلسنت میں سے ہیں منقول ہے کہ حضور ﷺ کے وصال مبارک کے قریب اہل اسلام کے درمیان مخالفت واقع ہوئی۔
مخالفت اول : یہ تھی کہ حضرت پیغمبر ﷺ نے مرض وصال میں فرمایا کہ إئتونى ‌بقرطاس أكتب لكم كتاباً لا ‌تضلوا بعدى ، میرے پاس کاغذ لاؤ کہ میں تمہارے لئے ایسی چیز لکھوں جس سے بعد میں تم گمراہ نہ ہوگے، حضرت عمر اس امر پر راضی نہ ہوئے اور کہا إن الرجل غلبه الوجع وعندنا كتاب الله حسبنا بے شک حضور پر اللہ نے درد غالب کیا ہے اور ہمارے پاس اللہ کی کتاب ہے جو کافی ہے، پس صحابہ نے اختلاف کیا کہ آواز زیادہ ہوگئی اور حضرت پیغمبر ﷺ اس معنی سے آزردہ ہوئے اور فرمایا اُٹھ جاؤ ! میرے پاس جھگڑا درست نہیں ۔
مخالفت دوم: یہ تھی کہ اس قضیہ مزبورہ ” کے بعد حضرت پیغمبرﷺ نے ایک جماعت مقرر فرمائی کہ وہ اسامہ کے ہمراہ سفر کرے ، بعض جماعت نے اختلاف کیا اور ان سے عرض کی ، آں حضرت ﷺ نے مکرر مبالغہ فرمایا کہ جهزوا جيش أسامة لعن الله من تخلف عنه لشكر أسامہ کی تیاری کرو، اس سے مخالفت کرنے والے پر اللہ کی لعنت ، اور اس پر بھی بعض پیچھے رہے اور متابعت نہ کی۔ پس ہم کہتے ہیں کہ حضور ﷺ نے جو وصیت لکھنے کا حکم فرمایا مذکور آیت کریمہ کے تقاضا بر وحی ہے اور جو حضرت عمر نے منع کیا وہ وحی کا منع اور رد ہے، اور وحی کا رد کفر ہے ۔ جیسا کہ تم پہلے ہی اعتراف کر چکے ہو۔ اس پر حق تعالی کا یہ ارشاد بھی دلالت کرتا ہے ۭوَمَنْ لَّمْ يَحْكُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰهُ فَاُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْكٰفِرُوْنَ جوالله کے اتارے ہوئے کے مطابق فیصلہ نہ کرے تو وہی لوگ ٹھیک کا فر ہیں ۔ اور کا فر خلافت پیغمبر ﷺ کے قابل نہیں۔ نیز لشکر اسامہ کا تخلف(مخالفت) بھی دلیل مذکور کے مطابق کفر ہے۔ باتفاق اس سے پیچھے رہنے والے خلفائے ثلاثہ بھی ہیں اور حضرات ماوراء النہر نے “صحیفہ شریفہ” میں اعتراف کیا کہ فعل آنحضرت ﷺ وحی ہے۔ اور واقعہ بھی ایسا ہے، پس ہم کہتے ہیں کہ آپ کا مروان کو مدینہ طیبہ سے نکالنا ضرورت وحی سے ہے اور حضرت عثمان کا اُسے واپس لانا اور اس کو امور تفویض کرنا اور اس کی تعظیم کرنا دووجہوں سے کفر ہے ، وجہ اول وہی ہے جو علمائے ماوراء النہر نے فرمائی ، وجہ دوم اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے لَا تَجِدُ قَوْمًا يُّؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ يُوَاۗدُّوْنَ مَنْ حَاۗدَّ اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗ وَلَوْ كَانُوْٓا اٰبَاۗءَهُمْ اَوْ اَبْنَاۗءَهُمْ اَوْ اِخْوَانَهُمْ اَوْ عَشِيْرَتَهُمْ الله اور یوم آخر پر ایمان رکھنے والوں کو تو ہر گز نہ پائے گا کہ وہ اللہ اور اس کے رسول کے دشمنوں سے محبت کریں اگر چہ وہ ان کے باپ، بیٹے ، بھائی اور رشتہ دار ہی کیوں نہ ہوں۔
حضرت مجدد کا محاکمہ 
اقول وبالله العصمة والتوفیق ہمیں تسلیم نہیں کہ آنحضرت ﷺ کےجمیع اقوال و افعال بموجب وحی ہیں اور اس آیت کریمہ ( وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوٰى ) سے ان کا استشہاد نا تمام ہے۔ کیونکہ وہ قرآن کے ساتھ مختص ہے ، قاضی بیضاوی نے فرمایا اللہ سبحانہ کے فرمان کا معنی ہے وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوٰى یعنی قرآن سے جو کلام صادر ہوتا ہے وہ اپنی خواہش سے نہیں ۔ اسی طرح اگر آن سرور ﷺ کے جمیع افعال و اقوال بہ موجب وحی ہوتے تو ان کے بعض افعال و اقوال پر اللہ تعالی کی طرف سے اعتراض وارد نہ ہوتا اور عتاب نہ آتا۔ جیسا کہ قول تعالیٰ ہے يٰٓاَيُّهَا النَّبِيُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَآ اَحَلَّ اللّٰهُ لَكَ تَبْتَغِيْ مَرْضَاتَ اَزْوَاجِكَ اے نبی ! آپ اس کو حرام کیوں کرتے ہیں جو اللہ نے تمہارے لئے حلال کیا، اپنی ازواج کی مرضی چاہتے ہوئے۔ اور قول تعالیٰ ہے عَفَا اللّٰهُ عَنْكَۚ لِمَ اَذِنْتَ لَهُمْ ، اللہ نےآپ کو معاف فرمایا آپ نے ان کو کیوں حکم دیا۔ اور قول تعالیٰ ہے مَا كَانَ لِنَبِيٍّ اَنْ يَّكُوْنَ لَهٗٓ اَسْرٰي حَتّٰي يُثْخِنَ فِي الْاَرْضِ ۭتُرِيْدُوْنَ عَرَضَ الدُّنْيَا کسی نبی کو نہ چاہیے کہ اُس کے قیدی ہوں یہاں تک کہ زمین پر خون بہائے ، تم دنیا کا سامان چاہتے ہو۔
اور قول تعالیٰ ہے وَلَا تُصَلِّ عَلٰٓي اَحَدٍ مِّنْهُمْ مَّاتَ اَبَدًا اور آپ ان میں سے کسی کے مرنے پر نماز( جنازہ) نہ پڑھیں ۔
ایک روایت میں وارد ہے کہ یہ نہی اس وقت وارد ہوئی جب آن سرور ﷺ ابی منافق کی نماز جنازہ ادا کر چکے تھے۔ اور ایک روایت میں ادا سے پہلےا ورارادہ نماز کرنے کے بعد ہوئی ۔بہر تقدیر نہی فعل محقق سے ہے۔جوارح کا فعل اور دل کا فعل برابر ہے ( یعنی ایسے فعل سے نہی ہے جو واقع ہو چکا ہے۔ پہلی روائت کے مطابق نماز جنازہ پڑھنے کے بعد منع فرمایا ۔ اور دوسری روایت کے مطابق ارادہ جو دل کا فعل ہے۔ اس سے منع فرمایا کہ ایسوں پر نماز پڑھنے کا ارادہ بھی نہ کیا کیجیے) اور اس کی امثال قرآن میں بہت ہیں۔ پس ہو سکتا ہے کہ آنحضرت ﷺ کے بعض اقوال و افعال، رائے و اجتہاد کے باعث ہوں، قاضی بیضاوی نے اپنی تفسیر میں فرمایا قوله عز وجل ما كان لنبي اس پر دلیل ہے کہ انبیاء کرام اجتہاد بھی کرتے ہیں ، اور وہ کبھی ( تعلیم امت کے بطور ) خطا بھی ہوسکتا ہے لیکن اس پر اُن کا قرار نہیں ہوتا۔ صحابہ کرام کی امور عقلیہ ” اور ” احکام اجتہاد یہ ” میں ” مجال اختلاف اور مساغ (جواز)خلاف رکھتے تھے اور بعض اوقات وحی صحابہ کرام کی رائے کے موافق نازل ہوئی ۔ چنانچہ اسیران بدر کے بارے میں امیر المومنین حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی رائے کے مطابق وحی آئی۔ کہ حضور ﷺ امور عقلیہ میں کم توجہ فرماتے ۔ قاضی بیضاوی نے فرمایا روایت ہے کہ حضور ﷺ کے پاس یوم بدر سے ستر قیدی پیش کئے گئے ۔ ان میں عباس اور عقیل بن ابو طالب بھی تھے۔ آپ نے ان کے متعلق مشورہ طلب فرمایا تو حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا یہ آپ کی قوم اور اہل ہیں ، ان کو بچا ئیں شاید اللہ ان کو معاف فرمادے اور ان سے فدیہ لے لیں تا کہ آ پ کے صحابہ کو قوت ملے ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کی ان کی گرد نیں ماریں کہ یہ کفر کے امام ہیں، اللہ تعالیٰ نے آپ کو ان کے فدیہ سے بے نیاز کیا ہے۔ مجھے فلاں فلاں دے دیں کہ میں اسے قتل کر دوں ، حضرت علی اور حمزہ کو ان کے بھائی دے دیں، کہ ان کو قتل کر دیں ۔ اس مشورے کو رسول اللہ ﷺ نے نا پسند فرمایا۔ اور فرمایا اللہ تعالیٰ لوگوں کے دلوں کو نرم فرماتا ہے کہ وہ دودھ سے بھی زیادہ نرم ہو جاتے ہیں اور لوگوں کے دلوں کو سخت کرتا ہے کہ وہ پتھر سے بھی زیادہ سخت ہو جاتے ہیں۔ اے ابو بکر تیری مثال ابراہیم کی طرح ہے انہوں نے کہا فَمَن تَبِعَنِي فَإِنَّهُۥ مِنِّيۖ وَمَنۡ ‌عَصَانِي فَإِنَّكَ غَفُور رَّحِيم جو میری اتباع کرتا ہے، وہ میرا ہے اور جو نافرمانی کرتا ہے، (اے اللہ ) تو غفور رحیم ہے۔ اور اے عمر تیری مثال نوح کی طرح ہے۔ انہوں نے کہا لَا تَذَرۡ عَلَى ٱلۡأَرۡضِ مِنَ ٱلۡكَٰفِرِينَ دَيَّارًا اے رب کسی کا فرکوزمین پر سلامت نہ چھوڑ ۔ پس آپ نے صحابہ کرام کو اختیار عطا فرمایا تو انہوں نے فدیہ لے لیا۔ اس پر آیت (مَا كَانَ لِنَبِيٍّ) نازل ہوئی ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ حضور ﷺ کے پاس آئے تو ( دیکھا ) کہ حضور اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ رورہے ہیں۔ انہوں نے عرض کی یا رسول اللہ مجھے بھی خبر دیجئے ، اگر رونا آئے تو رولوں نہیں تو ویسی صورت بنالوں، آپ نے فرمایا میں اپنے صحابہ کے فدیہ لینے پر رورہا ہوں کہ ان کا عذاب میرے سامنے پیش ہوا جتنا کہ یہ قریبی درخت ہے۔ اور قاضی بیضاوی نے فرمایا مزید روایت ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا لَوْ نَزَلَ عَذَابٌ مِنَ السَّمَاءِ مَا ‌نَجَا ‌مِنْهُ ‌غَيْرُ ‌عُمَرَ وَسَعْدِ بْنِ مُعَاذٍ اگر عذاب نازل ہوتا تو عمر اور سعد بن معاذ کے سوا کوئی نہ نجات حاصل کرتا۔ اور اس لئے کہ یہ بھی ایک قسم کا ایثار بالا ثخان ہے (یعنی عذاب سے وہ خون گرائے جاتے جو فدیہ سے بچائے گئے تھے)۔ پس ہم کہتے ہیں کہ ہو سکتا ہے. کاغذ منگوا نے لشکر اسامہ کی تیاری کا حکم ، اور اسی طرح اخراج مروان کا حکم، حضور ﷺ نے طریق وحی سے نہ فرمایا ہو بلکہ اجتہاد و رائے کے طریقے سے فرمایا ہو ۔ اور ہمیں تسلیم نہیں کہ اس کا خلاف کفر ہے۔ کیونکہ اس قسم کا خلاف صحابہ کرام سے وارد ہوا جیسا کہ اوپر گزرا۔ وہ نزول وحی کا زمانہ تھا اس کے باوجود اس خلاف پر کوئی انکار وعتاب نہ نازل ہوا۔ جبکہ حال یہ تھا اگر حضور ﷺ کی نسبت کوئی معمولی سی بے ادبی بھی صحابہ کرام سے صادر ہو جاتی تو حق سبحانہ اسی وقت وحی کے ذریعہ اس فعل سے روک دیتا۔ اور اس فعل پر وعید فرما دیتا۔ جیسا کہ اس نے فرمایا يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْٓا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ وَلَا تَجْـهَرُوْا لَهٗ بِالْقَوْلِ كَجَــهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَــطَ اَعْمَالُكُمْ وَاَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ اے ایمان والو اپنی آوازیں نبی اکرمﷺ کی آواز سے بلند نہ کرو اور ان کے لئے اونچا نہ بولو جس طرح ایک دوسرے سے بولتے ہو، کہ تمہارے اعمال ضبط ہو جائیں اور تمہیں شعور بھی نہ ہو ۔(جب یہ قاعدہ ظاہر ہو گیا کہ آنحضرت ﷺ کا ہر فعل اور ہر قول وحی نہیں بلکہ اس میں سے بعض اقوال وا فعال رائے اور اجتہاد کی وجہ سے بھی ہو سکتے ہیں خصوصا وہ اقوال و افعال جو انتظام ظاہری سے متعلق ہوں ۔ اوراخبار غیب کو اس میں دخل نہ ہو۔ پس قرطاس کا حکم اورلشکر اسامہ کا حکم اور اخراج مروان کا حکم بھی انہی اجتہادی احکام میں سے ہے برخلاف اصحاب کرام اور خلفائے ثلاثہ جن کو جنت کی خوش خبریاں دی گئیں۔ ہور اخبار غیبات میں سے ہے۔ اور اس میں پیغمبر کی اپنی ذاتی رائے کو کوئی دخل نہیں ہو سکتا ۔ بلکہ وہ ایک وحی خفی ہے اور وحی خفی اور وحی جلی دونوں اخبار غیب ہیں جس میں اجتہاد اور رائے کو دخل نہیں ۔)
شارح المواقف نے آمدی سے نقل فرمایا کہ مسلمان وصالِ نبی ﷺ کے وقت ایک ہی عقیدہ پر تھے ۔ مگر جو دل میں نفاق رکھتا اور ظاہر میں موافقت کرتا (اس کا اور طریقہ تھا ) پھر اُن میں امور اجتہادیہ میں خلاف پیدا ہوا جن سے نہ ایمان واجب ہو اور نہ کفر، اس سے ان کی غرض صرف “مراسم دین” کی اقامت اور مناہج شرع کی پائداری تھی۔ ان میں سے ایک خلاف یہ تھا جو مرض وصال میں قول نبی ایتونی بقر طاس، (میرے پاس کاغذ لا ؤ) پر ہوا۔ اور اس کے بعد اس اختلاف کی طرح جو لشکر اسامہ کے تخلف (مخالفت) سے متعلق تھا۔ ایک جماعت نے حضور ﷺ کے فرمان جهزوا جيش أسامة لَعَنَ الله من تخلف عنه کو سامنے رکھ کر اتباع کو واجب سمجھا (یاد ر ہے کہ لعن الله من تخلف عنہ کے الفاظ اہلِ سنت کے ہاں نہیں ملتے اور ایک جماعت نے رسول اللہ ﷺ کی صحت طبع کے انتظار میں تخلف (مخالفت) فرمایا۔
اگر کوئی کہے اور مقدمہ ممنوعہ کا اثبات کرے کہ آن سرور ﷺ کا اجتہاد بھی وحی تھا۔ پس صادق آیا کہ ان کے جمیع افعال و اقوال بموجب وحی تھے ، اس طرح احکام اجتہاد یہ بھی بموجب وحی تھے ، ہم کہتے ہیں کہ یہاں فرق ہے۔ ہر ایک فعل اور ہر ایک قول وحی سے صادر ہوا تو اس جگہ وحی سے اجتہاد کا جواز ثابت ہوا ۔ ( کہ امت میں وحی تو جاری نہ رہے گی ، اجتہاد جاری رہے، بلکہ رسول اللہ ﷺ کی سنت ٹھہرے۔ ) اور احکام اجتہاد یہ ان کی تفاصیل کے ساتھ تفصیلی دلائل اور فکری مقدمات سے مستنبط ہوئے۔ اگر تم دیکھتے ہو کہ مجتہدین کے اقوال وحی سے نہیں اور ان کا اجتہاد وحی سے ثابت ہے تو وہ قول تعالیٰ ہے فاعتبرو یا اولی الابصار، ہم مزید کہتے ہیں کہ اس مقدمہ ممنوعہ کو تسلیم کرنا ( یہاں ) بے فائدہ ہے۔ کیونکہ ہمارے لئے بنیادی مقدمہ قائلہ یہ ہے کہ (اجتہادی امور میں ) اُن کا خلاف کفر ہے (یا نہیں ) اس کی سند گزرچکی ہے پس غور کرنا چاہیے ۔
علمائے ماوراء النہر کی عبارات میں یہ واقع ہونا کہ آنحضرت ﷺ کے جمیع اقوال و افعال بموجب وحی ہیں تو اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے کہ یہاں اُن کی مراد امور اجتہادیہ کے سوا ہوگی جو آں سرور ﷺ سے صادر ہوئے۔ یہ برابر ہے کہ وحی جلی سے ہوکہ وحی خفی سے ہو، اور ان کے مدعا کی اس قدر تقسیم ہی کافی ہے۔ جو احادیث ،خلفائے ثلاثہ کی تعریفوں میں وارد ہوئیں وہ غیبی اخبار کے قبیلے سے ہیں اور وہ طریق وحی سے ہیں جس میں رائے اور اجتہاد کو کوئی دخل نہیں، اللہ عز وجل نے فرمایا وَعِنْدَهٗ مَفَاتِحُ الْغَيْبِ لَا يَعْلَمُهَآ اِلَّا هُوَ ، غیب کی کنجیاں تو اللہ کے پاس ہیں جن کو وہی جانتا ہے، اور فرمایا عٰلِمُ الْغَيْبِ فَلَا يُظْهِرُ عَلٰي غَيْبِهٖٓ اَحَدًا اِلَّا مَنِ ارْتَضٰى مِنْ رَّسُوْلٍ وہ عالم غیب کسی پر اپنا غیب ظاہر نہیں کرتا مگر جس رسول کو چا ہے۔ اس تقدیر پر لازم آتا ہے کہ آیت کریمہ وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوٰى ، كى مراد قرآن اور وحی خفی کو عام ہے۔ یہ پوشیدہ نہیں۔ اور شک نہیں کہ ان اقوال و افعال ( توہین خلفاء ثلاثہ جو حدیث و آیات کی صریح خلاف ورزی ہیں)کے انکار اور مخالفت سے وحی کا انکار اور مخالفت لازم آتی ہے ۔ اور مخالفت وحی کفر ہے۔ ان کی تعریفوں میں جو احادیث مبارکہ وارد ہیں وہ اللہ سبحانہ کے اعلام سے بکثیر ہیں اور کثرت طرق اورتعد دروایت سے حد شہرت کو، بلکہ معنا حد تواتر کو پہنچتی ہیں ۔ لہذا ہم ان میں سے چند ذکر کرتے ہیں ۔
شانِ خُلفائے ثلاثہ  
حميد امام ترمذی نے حضور نبی اکرم ﷺ سے روایت کیا کہ آپ نے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ سے فرمایا تم غار میں میرے صاحب ہو اور حوض میرے صاحب ہو ۔
انہی سے ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا میرے پاس جبریل امین آئے اور میرا ہاتھ پکڑا اور مجھے جنت کا دروازہ دکھایا جس میں سے میر ی امت داخل ہو گی ۔ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے عرض کی یا رسول اللہ ، ( میری آرزو ہے ) کہ میں آپ کے ساتھ اس میں داخل ہوتا اور اسے دیکھتا حضور ﷺ نے فرمایا اے ابو بکر تم پہلے جنت میں داخل ہو گے۔
بخاری و مسلم نے روایت کیا ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا کہ میں جنت میں داخل ہوا۔ یہاں تک فرمایا کہ میں نے ایک محل دیکھا جس کے صحن میں ایک کنیز تھی ، میں نے کہا کس کے لئے ، کہا گیا کہ عمر بن خطاب کے لئے ۔ میں نے ارادہ کیا کہ اس میں داخل ہو جاؤں اور اُسے دیکھوں مگر میں نے (اے عمر ) تمہاری غیرت یاد کی ۔ حضرت عمر نے عرض کی میرے ماں باپ آپ پر قربان کیا میں آپ پر غیرت کروں گا۔
ابن ماجہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا وہ شخص جو جنت میں میری اُمت کے اعلیٰ درجہ پر ہوگا، حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ نے فرمایا اللہ کی قسم ہم عمر بن خطاب کے سوا کسی کو وہ شخص تصور نہ کرتے حتی کہ وہ وصال فرما گئے۔
بخاری نے روایت کیا کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا میں نے ابو بکر و عمر کو آگے نہیں بڑھایا لیکن اللہ تعالیٰ نے انہیں آگے بڑھایا ہے۔
ابو یعلی نے عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ میرے پاس جبریل آئے اور میں نے کہا اے جبریل مجھے عمر بن خطاب کے فضائل بیان کریں ، انہوں نے کہا اگر میں بیان کروں جتنی دیر نوح علیہ السلام اپنی قوم میں رہے تو بھی ان کے فضائل ختم نہ ہوں ۔ اور بیشک عمر، ابو بکر کی نیکیوں میں سے ایک نیکی ہے۔
ترمذی نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے اور ابن ماجہ نے حضرت علی ابن ابو طالب رضی اللہ عنہ سے روایت کیا کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا ابو بکر اور عمر ، نبیوں اور رسولوں کے علاوہ جنت میں اولین و آخرین کے تمام ادھیڑ عمروں کے سردار ہیں ۔
بخاری و مسلم نے ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ، انہوں نے فرمایا میں نبی اکرم ﷺ کے ہمراہ باغات مدینہ میں سے ایک باغ میں تھا۔ پس ایک شخص آیا اور دروازہ کھلوایا ، نبی اکرم ﷺ نے فرمایا اس کے لئے کھول دو اور اسے جنت کی بشارت سناؤ۔ میں نے کھولا تو وہ ابوبکر تھے ، پس میں نے انہیں بشارت سنائی ۔ جو حضور نے فرمائی تھی ، انہوں نے اللہ کی تعریف کی۔ پھر ایک شخص آیا۔ اور دروازہ کھلوایا ۔ حضور ﷺ نے فرمایا اس کے لئے کھول دو اور اسے جنت کی بشارت سناؤ۔ میں نے اس کے لئے کھولا تو وہ عمر تھے ، پس میں نے انہیں خبر سنائی جو حضور نے فرمائی تھی ، انہوں نے اللہ کی تعریف کی۔ پھر ایک شخص نے دروازہ کھلوایا۔ حضور نے فرمایا اس کے لئے کھول دو اور اُسے جنت کی بشارت سناؤ اس مصیبت کے ساتھ جو اُسے پہنچے گی۔ وہ عثمان تھے، میں نے انہیں خبر سنائی جو حضور نے فرمائی تھی۔ انہوں نے اللہ کی تعریف کی اور پھر کہا اللہ مددکرنے والا ہے۔
مسئلہ اخراج مروان
مزید یہ کہ اگر تسلیم کیا جائے اخراج مروان” بطریق وحی تھا تو ہمیں تسلیم نہیں کہ آنحضرت ﷺ کی مراداس کا نکالنا اور جلاوطنی ہمیشہ کیلئے ہو۔ یہ کیوں نہیں ہو سکتا کہ (اسکا ) اخراج اور جلا وطنی ایک مقررہ وقت اور مدت کیلئے تھی ۔ جیسا کہ آنحضرت ﷺ نے حد زنا کے متعلق فرمایا الْبِكْرُ بِالْبِكْرِ جَلْدُ مِائَةٍ وَتَغْرِيبُ سَنَةٍ (یعنی ایک سال جلا وطنی ہے ہو سکتا مروان کی جلا وطنی بھی اسی طرح معین وقت تک ہو ) چونکہ حضرت امیر المومنین عثمان علیہ الرضوان اس کے اخراج کی مدت کو جانتے تھے ، اس سزا اور جلاوطنی کی مدت ختم ہونے پر اسے مدینہ طیبہ لے آئے ( یہ بھی روایت ہے کہ انہوں نے اس کی اجازت حضور ﷺ سے لے لی تھی ) اس میں کوئی قباحت نہیں۔ اورآ یت لا تجد قوما مودت کفار سے منع کرتی ہے اور کفر مروان ثابت نہیں کہ اس کی مودت ممنوع ہو، پس غور کرو اور انصاف کر وہٹ دھرمی سے باز آؤ کہ پاگل اونٹنی کی طرح پاگل بن جاؤ۔
شیعہ حضرات نے دوبارہ منع و مناقضہ (اعتراض و توڑ)کی صورت میں کہا کہ حضور ﷺ سے مدح خلفاء ثلاثہ کا وارد ہونا فریقین کا متفق علیہ نہیں ۔ کیونکہ کتب شیعہ میں اس کا اثر نا پید ہے۔ اور جو بات ان کی مذمت پر دلالت کرتی ہے، مذکورہ دو روایتوں کی طرح، فریقین کی کتابوں میں لکھا ہے۔ نیز بعض اہلِ سنت برائے مصلحت وضع حدیث کی تجویز کرتے ہیں ، پس غیر متفق علیہ حدیث پر اعتماد نہیں ۔
ہم دفع اشکال میں ” مقدمہ ممنوعہ کے اثبات کے طریق پر کہتے ہیں، واللہ سبحانہ و تعالیٰ اعلم ، چونکہ شیعہ کمال تعصب و عناد سے سلف پر طعن کرنا اور خلفاء ثلاثہ کو گالیاں دینا بلکہ ان کی تکفیر کرنا اپنا اسلام اور عبادت خیال کرتے ہیں، ان کی مدائح و مناقب میں واردا حادیث صحاح پر بے سند و دلیل جرح کرتے ہیں اور ان میں تحریفات و تصرفات سے کام لیتے ہیں، حتی کہ کلام اللہ کہ جس پر اسلام کا مدار ہے اور صدر اول سے بتواتر منقول ہے اور جس میں کوئی شبہ نہیں پایا جاتا اور وہ کوئی زیادت و نقصان قبول نہیں کرتا ، اس میں بھی آیات محرفہ ” (جھوٹی آیات)اور ” کلمات مزخرفہ(ملمع دار کلمات) داخل کر دیتے ہیں ، اور قرآنی آیات میں تحریفات و تصرفات کرتے ہیں، چنانچہ آیت کریمه اِنَّ عَلَيْنَا جَمْعَهٗ وَقُرْاٰنَه ٗ فَاِذَا قَرَاْنٰهُ فَاتَّبِعْ قُرْاٰنَهٗ کو اس طرح تصحیف و تحریف کا نشانہ بناتے ہیں اِنَّ عَلَيَا جَمْعَهٗ وَقُرْاٰنَه ٗ فَاِذَا قَرَاْنٰهُ فَاتَّبِعْ قُرْاٰنَهٗ اور کمال ضلالت سے کہتے ہیں کہ بعض آیات قرآنی کو حضرت عثمان نے پوشیدہ رکھا ہے کہ وہ اہلِ بیت طہارکی مدائح میں (وارد ) تھیں اور ان کو قرآن میں داخل نہ کیا۔
پہلے گزر چکا ہے کہ ان کا ایک گروہ اپنے نفع وصلاح “ کے لئے جھوٹی گواہی تجویز کرتا ہے۔ لہذا ان مفاسد کے سبب شیعہ موردِطعن ہو گئے۔ اور ان کا ” اعتماد و عدالت سرے سے برطرف ہو گئی۔ اور ان کی کتب مدونہ درجہء اعتبار سے ساقط ٹھہر یں ، اور تورات و انجیل کی صورت محرفہ ثابت ہوئیں ، (جبکہ ) کتب اہل سنت مثل صحیح بخاری جو کتاب اللہ کے بعد اصح الکتب” ہے اور صحیح مسلم و غیر ہما میں خلفاء ثلاثہ کی مدائح وتعظیم کے علاوہ کچھ ( منقول ) نہیں ، جن (مباحث ) کو شیعہ اپنے ”فسادطبعیت اور انحراف مزاج سے مذمت خیال کرتے ہیں (یہ انکا ) تصور باطل اور خیال فاسد ہے۔ ( یہ عادت ) وجدانِ صفراوی (زیادہ صفرا سے مزاج کا بگڑنا)کے قبیل سے ہے کہ ( آدمی ) شکر کو بھی تلخ کہتا ہے۔
فَاَمَّا الَّذِيْنَ فِيْ قُلُوْبِهِمْ زَيْغٌ فَيَتَّبِعُوْنَ مَا تَشَابَهَ مِنْهُ ابْتِغَاۗءَ الْفِتْنَةِ
سو جن لوگوں کے دلوں میں کجی ہے، وہ فتنہ جوئی کے لیے اور متشابہ کا محمل (کسی معنی کے سچا ہونے کی جگہ) نکالنے کے لیے آیت متشابہ کے درپے رہتے ہیں
اس کی تحقیق جو شیعہ کہتے ہیں کہ بعض اہل سنت ، برائے حدیث کی تجویز کرتے ہیں، پس غیر متفق علیہ حدیث پر اعتماد نہیں تو یہ تو اس صورت میں ہے کہ اہل سنت نے اُن کے بعض کلام کو رد نہیں کیا اور اس کا انکار نہیں کیا، اور ان کا جھوٹ ظاہر نہیں کیا ، واقعہ تو ایسا نہیں ہے۔ بلکہ انہوں نے اپنی کتابوں میں اس کے کذب و افترا کی تصریح کی ہے، اور اسے اعتبار و اعتماد کے درجہ سے ساقط ٹھہرایا ہے۔ پس ان کی طرف کوئی اعتراض نہیں آتا ، اور وہ حق جس کی برہان واضح و بین ہے اس کو اس باطل سے نہ ملاؤ جس کا بطلان ظاہر و مبین ہو چکا ہے۔
ایک اشکال کا جواب:
پھر شیعہ نے جواب میں بطریق منع کہا کہ ہم نہیں مانتے کہ خبر واحد کی مخالفت کفر ہے۔ کہ اخبار آحاد کی مخالفت تو مجتہدین سے بھی واقع ہوئی۔ پوشیدہ نہ رہے کہ جو احادیث خلفا ثلاثہ کی توصیف و تعظیم میں وارد ہوئیں ا گر چہ از روئے الفاظ ” آحاد ہیں مگر ” کثرت روات اور تعدد طرق سے معنا حد تواتر تک پہنچتی ہیں۔ جیسا کہ ثابت ہوا۔ اور اس میں شک نہیں کہ ان کے مدلول (دلیل سے ثابت کیا ہوا) کا انکار کفر ہے۔ اور مجتہدین سے ایسی اخبار آحاد(ایک راوی کی حدیث) کی مخالفت ( ہرگز ) واقع نہیں ہوئی۔ بلکہ امام ابوحنیفہ جو اہل سنت کے رئیس ہیں تو مطلق خبر واحد بلکہ اقوال صحابہ کو قیاس پر مقدم جانتے اور ان کی مخالفت تجویز نہ فرماتے ۔
ایضاً شیعہ نے خلفاء ثلاثہ کی مدح وارد کو تسلیم کر کے جواب میں کہا اور مقدمہ صحیحہ کو منع کیا کہ خلفائے ثلاثہ کی نسبت حضرت پیغمبر ﷺ کی تعظیم و توقیر ، ان کی مخالفت کے صدور سے قبل تھی ۔ وہ ان کے حسن خاتمہ اور سلامت آخرت پر دلالت نہیں کرتی ۔ کیونکہ صدور عصیاں سے پہلے سزا دینا درست نہیں جیسا کہ اگرچہ اس کا صدور معلوم ہو جیسا کہ حضرت امیر رضی اللہ عنہ ابن ملجم کے عمل سے خبر دار تھے مگر اُسے سزا نہ دی۔ پوشیدہ نہ رہے کہ ان کی مدائح میں وارد احادیث ( ان کے ) حسنِ خاتمہ اور سلامتی عاقبت پر دلالت کرتی ہیں۔ اور امن خاتمہ کی خبر دیتی ہیں۔ چنانچہ احادیث مذکورہ سے بھی یہ دلالت سمجھ آ سکتی ہے۔ اس کی امثال ” حدیث صحیح وحدیث حسن” کی حدیثوں میں بہت زیادہ ہیں۔ اور یہ کہنا کہ صدور عصیاں سے پہلے عقوبت درست نہیں اگر چہ اس کا صدور معلوم ہو ، اسی طرح کسی معلوم الذم ( جس کا ذم معلوم ہو ) اور مستوجب عقوبت کی تعریف بھی جائز نہیں پس ان کی تعریف کا ورود حالا و مالا اُن کے حُسن ( خاتمہ ) پر دلیل ہے، لہذا حضرت امیر رضی اللہ عنہ نے جو ہر چند ابن ملجم کو سزا نہ دی تو اس کی مدح و توصیف بھی تو کسی طرح نہیں کی۔ ان مباحث کی تحقیق آیت کریمہ لَقَدْ رَضِيَ اللّٰهُ عَنِ الْمُؤْمِنِيْنَکے تحت مذکور ہوگی۔
سَبِ صحابہ کرام کفر ہے 
علمائے ماوراء النہر رحمہم اللہ سبحانہ نے فرمایا کہ خلفاء ثلاثہ آیت کریمہ لَقَدْ رَضِيَ اللّٰهُ عَنِ الْمُؤْمِنِيْنَ اِذْ يُبَايِعُوْنَكَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ (بے شک اللہ ایمان والوں سے راضی ہوا جب انہوں نے درخت کے نیچے آپ کی بیعت کی ) کے مطابق اللہ مالک ومنان کی رضا سے مشرف ہوئے ہیں پس ان کو گالی دینا کفر ہے۔
(یعنی اللہ تعالیٰ کی رضا ان لوگوں سے کبھی نہیں ہوسکتی جن کا نا فرمان ہونا اللہ کو معلوم ہوا ور یہ کلیہ قاعدہ ہے کہ نا فرمان یعنی کافر سے کسی فعل سے خدا راضی نہیں ہو سکتا ان کے اعمال کو قرآن میں وَالَّذِيْنَ كَفَرُوْٓا اَعْمَالُهُمْ كَسَرَابٍۢ بِقِيْعَةٍ يَّحْسَبُهُ الظَّمْاٰنُ مَاۗءً ۭ حَتّيٰٓ اِذَا جَاۗءَهٗ لَمْ يَجِدْهُ شَـيْــــًٔـاجن لوگوں نے کفر کیا ان کے اعمال کی مثال ایسی ہے جیسے صحرا میں سراب کہ پیاسا اسے پانی سمجھے یہاں تک کہ جب وہ اس کے پاس پہنچا تو کچھ نہ پایا
فرمایا ہے۔ یاپھر یہ کہنا پڑے گا کہ اللہ تعالی کو خلفاء ثلاثہ اور باقی صحا بہ کے انجام کا نعوذ باللہ علم نہ تھا یہ توشیعوں کا ہی عقیدہ ہوسکتاہے۔ جس کو ان کے فرقہ بدائیہ نے تسلیم بھی کیا ہے اہل اسلام اس کےہرگز قائل نہیں ہو سکتے)
روافض کا جواب:
شیعہ حضرات نے بطریق مناقضہ (اعتراض و توڑ)جواب دیا اور اُن سے امر رضوان” کے استلزام کو منع کیا کہ عند التحقیق آیت کا مدلول(دلیل سے ثابت کیا ہوا) اس فعل خاص (بیعت) کے ساتھ حضرت اللہ تعالیٰ کی رضا ہے اور اس کا کوئی منکر نہیں کہ بعض افعال حسنہ مرضیہ بھی ان واقع ہوئے۔ کلام اس میں ہے کہ بعض افعال قبیحہ اُن سے وجود میں آئے جو اس عہد و بیعت کے مخالف ہیں۔ جیسا کہ انہوں نے امر خلافت میں نص پیغمبر کی مخالفت کی ، اور خلافت غصب کی، اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو آزردہ کیا، چنانچہ صحیح بخاری میں مذکور ہے اور مشکوۃ میں اُن کے مناقب میں منقول ہے ‌مَنْ ‌آذَاهَا ‌فَقَدْ ‌آذَانِي، وَمَنْ ‌آذَانِي ‌فَقَدَ آذَى اللَّهَ، جس نے اُن کو اذیت دی اس نے مجھے اذیت دی اور جس نے مجھے اذیت دی اُس نے اللہ کو ناراض کیا۔ کلام صادق میں بھی یہ مضمون ناطق ہے، اِنَّ الَّذِيْنَ يُؤْذُوْنَ اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗ لَعَنَهُمُ اللّٰهُ فِي الدُّنْيَا وَالْاٰخِرَةِجنہوں نے الله اور اس کے رسول کو ستایا ان پر دنیا و آخرت میں اللہ کی لعنت ۔ حاصل ہوا کہ ان افعال ستایا میں برے افعال ( مثلا ) حضرت پیغمبر کی وصیت کی تردید اور لشکر اسامہ سے تخلف (مخالفت) کی وجہ سے یہ لوگ مور د طعن و مذمت ہوئے اس لئے کہ عاقبت کی سلامتی اعمال کے حسن خاتمہ پر اور عہد و بیعت جو کہ نبی ﷺ کے ساتھ تھا اس کے پورا کرنے پر موقوف ہے۔
حضرت مجدد کا محاکمہ :
میں کہتا ہوں جس مقدمہ کو وہ منع کرتے ہیں اسی کو ہم ثابت کرتے ہیں اور استلزام(کسی شے میں اس بات کا خواہشمند ہونا کہ دوسری شے اس کو لازم ہو جائے) کے بیان میں ہم کہتے ہیں کہ آیت کریمہ کا مدلول ، بہ تحقیق دقیق اُن مومنوں کے ساتھ رضائے حق ہے جنہوں نے اس وقت آن سرور ﷺ کی بیعت کی۔ یہ تو بالکل ثابت ہے۔ تدقیق کا بھی یہی تقاضا ہے کہ ان کی بیعت اللہ سبحانہ کی خوشنودی کی علت ہے جو ان پر ہوئی ۔ ہاں بیعت کا پسندیدہ ہونا اس سے ہی ذہن نشین ہوتا ہے وہ رضا کی علت ہے۔ وہ لوگ اس کے سبب پسندیدہ ہو چکے ہیں تو بیعت بطریق اولی پسندیدہ ہوگی لیکن بیعت کا اصالتا بغیر اس کے پسندیدہ موصوفین کے پسندیدہ ہونا جس طرح کہ شیعہ حضرات کا زعم ہے۔ اصلا خلاف فہم ہے جیسا کہ جس کو اسالیب کلام کی ادنیٰ سی درایت بھی ہے، اُس پر یہ بات پوشیدہ نہیں ۔ جب حق کا اُن پر التباس ہو گیا تو انہوں نے اپنا خطا کا نام تدقیق رکھ لیا۔ پس ہم کہتے ہیں، جس جماعت کے ساتھ حق سبحانہ و تعالیٰ راضی ہو چکا ہو اور وہ ان کے سرائر و بواطن کو جانتا ہو اور ان پر سکینہ وطمانیت نازل فرما چکا ہو جس پر اس کے قول نے دلالت کی فَعَلِمَ مَا فِيْ قُلُوْبِهِمْ فَاَنْزَلَ السَّكِيْنَةَ عَلَيْهِمْ اس نے ان کے دلوں کو جانا اور ان پر سکینہ نازل فرمائی اور آنحضرت ﷺ نے انہیں جنت کی خوشخبری سنائی ہوتو وہ ضرور سوء خاتمہ کے خوف اور عہد و بیعت کے نقض سے محفوظ ومامون ہوگی۔
جو ہم نے نقل کیا اس پر اگر آیت سے مراد رضائے حق تعالیٰ ہو اور وہ فعل خاص بیعت ہے جیسا کہ وہ گمان بھی کرتے ہیں تو ہم کہتے ہیں کہ ہر گاہ کہ حق سبحانہ و تعالیٰ ان کی بیعت سے راضی تھا اور اس فعل کو مستحسن بنایا تو جو جماعت اس سے موصوف ہے وہ پسندیدہ اور محمود العاقبت (اچھےانجام والی)ہوگی کہ اللہ تعالیٰ افعال کفار سے۔ اور اسی طرح مذموم العاقبت( برے انجام والی) جماعت کے اعمال سے راضی نہیں ہوتا۔ اور ان کے افعال کو مستحسن نہیں بنا تا اگر چہ وہ فی نفسہا حسنہ وصالحہ ہی ہوں ، وہ کافروں کے اعمالِ صالحہ کے باب میں فرماتا ہے۔ وَٱلَّذِينَ كَفَرُوٓاْ أَعۡمَٰلُهُمۡ ‌كَسَرَابِۭ بِقِيعَةٖ يَحۡسَبُهُ ٱلظَّمۡـَٔانُ مَآءً حَتَّىٰٓ إِذَا جَآءَهُۥ لَمۡ يَجِدۡهُ شَيۡـٔٗا کافروں کے اعمال سراب کی طرح ہیں جیسے صحرا میں پیاسا پانی تصور کرتا ہے یہاں تک کہ وہ اس کے قریب آتا ہے تو کچھ نہیں پاتا۔ دوسرے مقام پر فرماتا ہے۔ وَمَنْ يَّرْتَدِدْ مِنْكُمْ عَنْ دِيْنِهٖ فَيَمُتْ وَھُوَ كَافِرٌ فَاُولٰۗىِٕكَ حَبِطَتْ اَعْمَالُهُمْ فِي الدُّنْيَا وَالْاٰخِرَةِ اور جو تم میں سے اپنے دین سے پھر جائے ، پس مر جائے اور کافر ہو ، وہی ہیں جن کے اعمال دنیا و آخرت میں تباہ ہو گئے ۔ پس وہ جو آخرت میں کارآمد نہ ہو اور نا چیز ہو ، اس فعل کے ساتھ رضائے حق سبحانہ وتعالی کا ہر گز کوئی معنی نہیں۔ اس لئے کہ رضا ، مرتبہ قبول کی نہایت ہے اور خدا تعالیٰ کے رد و قبول کا اعتبار انجام کار کے ساتھ ہے ، اَلْعِبْرَة بِالْخَوَاتِيمِ ۔ عبرت تو خاتموں سے ہے۔ اور یہ کہ امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ کی خلافت کے لئے حضرت پیغمبر ﷺ سے نص کا ورود ثابت نہیں ، بلکہ اس کے امتناع ورود(یعنی خلافت علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں کوئی نص وارد نہیں ہوئی۔ اگر ہوتی تو متواتر منقول ہوتی ۔ یا حضرت علی رضی اللہ عنہ خود اس کو صحابہ کے سامنے پیش فرماتے ) پر دلیل قائم ہو چکی ہے۔ کیونکہ اگر دلیل ورود ہوتی تو بہ تو اتر منقول ہوتی ۔ اس لئے کہ اس کے نقل پر بہت سے دواعی ہوتے كقتل الخطيب على المنبر منبر پر خطیب کے قتل کی طرح ) کہ وہ مشہور ہوتا ہے ) نیز حضرت علی رضی اللہ عنہ اس دلیل کے ساتھ احتجاج کرتے اور حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کو خلافت سے روکتے ۔ جیسا کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے انصار کو اس خبر کے ساتھ امامت سے روکا کہ الائمة من قريش ، امام قریش سے ہیں۔ اور انصار نے اس کو قبول کیا اور امامت کو چھوڑ دیا تھا۔ شارح تجرید نے فرمایا ” جو ( دین سے ) ادنی سا تعلق بھی رکھتا ہے وہ کیسے سوچ سکتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے صحابہ کرام جنہوں نے اپنی جانیں قربان کر ڈالیں۔ اور اپنے اموال خرچ کر دیئے۔ اور اپنے اقارب کو قتل کیا ۔ اپنے قبیلوں کو قتل کیا۔ صرف پیغمبرﷺ کی مدد کے لئے اور آپ کی شریعت قا ئم کرنے کے لئے اور آپ کے حکم کی تابعداری کے لئے اور آپ کے طریقہ کی اتباع کے لئے کیا یہ ممکن ہے کہ انہوں نے آنحضرت ﷺکے دفن کرنے سے پہلے ہی نبی اکرمﷺ کی خلاف کر دیا ہو ( ہرگز یہ گمان نہیں ہو سکتا ) حالانکہ وہ نصوص قطعیہ یعنی حضرت علی رضی اللہ عنہ کی امامت پر بقول شیعہ جو نص جلی یا خفی کہتے ہیں ) اس ظاہر الدلالت مطلب پر دلالت کرنے والی موجود ہوں ۔ بلکہ اس جگہ اشارات اور روایات (اور بھی) ہیں۔ بہت دفعہ ان کے جمع ہونے سے علم قطعی حاصل ہو جاتا ہے جبکہ وہ ان نصوص قطعیہ(یعنی وہ نصوص جو خلافت علی کے متعلق اہل تشیع بیان کرتے ہیں ایسے مقامات ضرورت میں بھی ان کو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے خود پیش نہیں فرمایا) کی مثل نہ ہوں۔ اور وہ یہ کہ وہ نصوص قطعیہ (جو امامت حضرت علی کے متعلق ہیں) محدثین میں سے کسی ثقہ شخص سے ثابت نہیں باوجود یکہ ان کی امیر المومنین سے شدید محبت ہے اور باوجودیکہ انہی محدثین نے حضرت امیر رضی اللہ عنہ کے مناقب میں اور ان کے کمالات دینوی اور اخر وی میں بے شما را حادیث نقل کی ہیں ۔ (وہ نصوص ان کے ) خطبوں ، رسالوں ، مخاصموں اور مفاخروں اور تاخیر بیعت کے وقت بھی بیان نہیں ہوئی۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے شوری کو چھ اشخاص کے درمیان مقرر فرمایا اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کو شوریٰ میں داخل کیا تو حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے حضرت علیؓ سے کہا اپنا ہاتھ دو، میں تمہاری بیعت کروں یہاں تک کہ لوگ پکار اُٹھیں کہ یہ رسول اللہ ﷺ کے چچا ہیں جنہوں نے ان کے عم زاد کی بیعت کر لی۔ پس تم سے دو آدمی بھی اختلاف نہ کریں گے ۔ تو انہوں نے کہا ہم ابوبکر سے تنازعہ نہیں کرتے۔ اس امر میں رسول اللہ ﷺ سے پوچھا ہوتا۔ اب امام کوئی ہو ، ہم اس سے تنازعہ نہیں کریں گے ۔ خود حضرت علی رضی اللہ عنہ نے امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی بیعت کرنے پر لوگوں سے مجادلہ کیا۔ جس میں نبی اکرم ﷺ کی کوئی نص پیش نہ فرمائی۔
آزار فاطمہ رضی اللہ عنہا کی توجیہ 
آزار فاطمہ علیھا الرضوان کی ممانعت جو حدیث میں وارد ہوئی ظاہر ہے کہ وہ بہ مروجہ مطلق ، مراد نہیں ہو سکتی، کیونکہ حضرت زہرا رضی اللہ عنہا بعض اوقات، حضرت امیر سے بھی آزردہ ہو ئیں جیسا کہ اخبار و آثار میں آیا ہے۔ نیز حضرت پیغمبر ﷺ نے اپنی بعض ازواج مطہرہ کو فرمایا لَا ‌تُؤْذِينِي فِي عَائِشَةَ، فَإِنَّ الْوَحْيَ لَمْ يَأْتِنِي وَأَنَا فِي ثَوْبِ امْرَأَةٍ إِلَّا عَائِشَةَ تم مجھے عائشہ کے متعلق اذیت نہ دو مجھے عائشہ کے سوا کسی زوجہ کے پردے میں وحی نہیں آتی ۔ یہاں حضور نے آزار عائشہ کو اپنا آزار قرار دیا اور اس میں شک نہیں کہ حضرت صدیقہ رضی اللہ عنہا حضرت امیر سے آزردہ ہو ئیں. پس ہم کہتے ہیں کہ یہ ممکن ہے کہ جس ایذاء کی ممانعت احادیث میں وارد ہوئی ہے وہ ایذائے مخصوص ہو جو ہوائے نفسانی اور ارادہ شیطانی سے پہنچائی جائے۔ جو حدیث ونص کے مطابق ہونے والے اظہار کلمہ حق سے آزارحاصل ہو وہ ممنوع اور منہی عنہ نہیں ، یہ معلوم ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے حضرت زہرا رضی اللہ عنہا کے آزار کا باعث ورثہ فدک کی رکاوٹ تھی ۔ اور حضرت صدیق رضی اللہ عنہ نے اس رکاوٹ میں اس حدیث نبوی سے تمسک کیا تھا کہ إِنَّا ‌مَعَاشِرَ الْأَنْبِيَاءِ ‌لَا ‌نُوَرَّثُ مَا تَرَكْنَا، فَهُوَ صَدَقَةٌہم معاشر انبیاء وارث نہیں بناتے ، جو ہم چھوڑیں وہ صدقہ ہے۔ اس مضمون کی روایت شیعہ حضرات کی کتاب اصول کافی میں بھی موجود ہے ) وہ ہوائے نفسانی کے تابع نہ تھی لہذا وعید میں داخل نہیں۔
اگر کوئی کہے کہ جب حضرت صدیق علیہ الرضوان حدیث سے متمسک ہو ۔ اور وہ حکم بیان کیا جو آں سر ور ﷺ سے سنا تھا تو پھر حضرت زہرا علیہا الرضوان کیوں ناراض اور آزردہ ہو ئیں کہ وہ آزار فی الحقیقت آن سرور ﷺ کا آزار تھا اور وہی منہی عنہ ہے۔ جواب میں ہم کہتے ہیں کہ یہ غضب و آزار اختیاری و قصدی نہ تھا بلکہ طبع بشری اور جبلت عصری کے سبب تھا۔ اور یہ قدرت و اختیار کے تحت داخل نہیں اور اس کے ساتھ نہی و منع کا کوئی تعلق نہیں پس غور کرنا چاہیئے۔ ( یہ یادر ہے کہ یہاں حضرت زہرا کا آزردہ ہو نا راوی حدیث کا خیال ہے جو محل نظر ہے۔ حضرت زہرا نے حدیث مبارک سنی اور تقاضائے فدک چھوڑ دیا۔ خاندان اہل بیت اور خاندان صدیق اکبر کے درمیان خوشگوار تعلقات بدستور قائم تھے، یہاں تک کہ حضرت زہرا کو آخری غسل حضرت صدیق کی زوجہ حضرت اسماء نے دیا، حضرت صدیق نے اُن کی نماز جنازہ کی امامت کرائی جیسا کہ فریقین کی کتابوں سے ثابت ہے )
صدیق اکبر کی صحابیت
علماء ماوراء النہر نے فرمایا کہ اللہ تعالی نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کوحضرت پیغمبر ﷺ کا صاحب کہا اور صاحب پیغمبر قابل ذم ولعن نہیں ہوتا ۔
روافض کا جواب:
شیعہ حضرات نے بطریق منع کہا کہ آیت قَالَ لَهٗ صَاحِبُهٗ وَهُوَ يُحَاوِرُهٗٓ اَكَفَرْتَ اس نے اپنے صاحب تھے کہا ( جہاں تک کہ وہ اس سے لڑتا تھا (کہ) تو نے کفر کیا۔ ) ( اس پر ) دال ہے کہ مسلم و کافر کے درمیان مصاحبت واقع (ہو سکتی ہے۔ اور آیت يٰصَاحِبَيِ السِّجْنِ ءَاَرْبَابٌ مُّتَفَرِّقُوْنَ خَيْرٌ اَمِ اللّٰهُ الْوَاحِدُ الْقَهَّارُ (اے میرے اسیر ساتھیو! کیا متفرق رب بہتر ہیں یا اللہ واحد قہار ) اس مقصود کی موید ہے۔ پس ہم کہتے ہیں کہ حضرت یوسف علیہ السلام پیغمبر ہیں اور انہوں نے دو بت پرستوں کو صاحب کہا، ظاہر ہوا کہ مجرد صاحب پیغمبر ہونا کوئی دلیل خوبی نہیں ۔
ہر کرا روئے بہ بہبود نه داشت دیدن روئے نبی سُود نه داشت
جو آدمی صلاحیت نہیں رکھتا، اُسے نبی کا چہرہ دیکھنے سے بھی کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔
حضرت مجدد کا محاکمہ :
ہم مقدمہ ممنوعہ کو ثابت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ البتہ مصاحبت ، بہ شرط مناسبت موثر ہے اور اس کی تاثیر کا انکار بداہت سے متصادم اور عرف و عادت سے معارض ہے۔ ایک بزرگ نے فرمایا ہے ۔
هر که از آثار صحبت منکر است جہل او برما مقرر می شود
جس نے صحبت کے اثرات کا انکار کیا اس کی جہالت کا اعلان ہم پر فرض ہے
اور جب مسلم و کافر کے درمیان مناسبت متحقق نہ تھی تو ایک دوسرے کی تاثیر صحبت کو قبول کرنے سے محروم رہ گئے ۔ اس کے ساتھ منقول ہے کہ وہ دو بت پرست حضرت یوسف علیہ السلام کی محبت کی برکت سے مسلمان ہوئے اور مشرکوں کی عادت سے بیزار ہو گئے ۔ پس حضرت صدیق رضی اللہ عنہ آنحضرت ﷺ کی صحبت کی سعادت سے مناسبت تمام رکھنے کے باوجود کیوں ( سعادت مند ) نہ ہوئے۔ اور اُن کے کمالات و معارف سے کیوں محروم رہے۔ حال تو یہ ہے کہ آنسر و ر ﷺ نے فرمایامَا ‌صَبَّ ‌اللَّهُ فِي صَدْرِي شَيْئًا إِلَّا صَبَبْتُهُ فِي صَدْرِ أبي بكراللہ نے جو چیز میرے سینے میں رکھی میں نے اس کو ابو بکر کے سینے میں رکھ دیا۔ اور ہر چند مناسبت پیشتر ہو، فوائد صحبت افزوں تر ہوتے ہیں) لہذا حضرت صدیق رضی اللہ عنہ جمیع اصحاب سے افضل ہوئے اور اُن میں سے کوئی بھی اُن کے مرتبہ کو نہ پہنچا اس لئے کہ ان کی سرورِ عالم ﷺ کے ساتھ مناسبت سب سے زیادہ تھی ۔ حضور نے فرمایا مَا ‌فَضَلَ أَبُو بَكْرٍ النَّاسَ ‌بِكَثْرَةِ صَلَاةٍ وَلَا ‌بِكَثْرَةِ صِيَامٍ، وَلَكِنْ بِشَيْءٍ ‌وَقَرَ ‌فِي ‌قَلْبِهِ یعنی ابو بکر نماز وروزہ کی کثرت کی وجہ سے افضل نہیں بلکہ ایک اور چیز کی وجہ سے افضل ہیں جو ان کے دل میں ڈالی گئی ہے۔ ( یہ حدیث شیعہ کتاب مجالس المومنین میں بھی ہے) علماء کرام فرماتے ہیں کہ وہ چیز محبت پیغمبر ہے اور اس میں فنا ہے۔ پس انصاف کرنا چاہیے کہ ایسا مصاحب پیغمبر کیوں قابل ذم ولعن ہوگا ۔ كَبُرَتْ كَلِمَةً تَخْرُجُ مِنْ اَفْوَاهِهِمْ ۭ اِنْ يَّقُوْلُوْنَ اِلَّا كَذِبًا ، ان کے مونہوں سے بہت بڑی بات خارج ہوتی ہے، وہ جھوٹ کے سوا اور کچھ نہیں کہتے ۔
حضرت امیر کی بیعت
علماء ماوراء النہر نے فرمایا کہ حضرت امیر علی رضی اللہ عنہ نے کمال شجاعت کے با و جود خلفاء ثلاثہ کی بیعت کرتے وقت لوگوں کو منع نہ فرمایا اور خود بھی (اُن کی متابعت و مبایعت فرمائی یہ دلیل حقیقت بیعت ہے وگر نہ حضرت امیر پر اعتراض لازم ہوگا۔
روافض کا جواب:
شیعہ حضرات نے جواب میں بطریق نقض (توڑ)کہا اور الزام مشترک سے اس کا رد کیا۔ اور اس کی توجیہ بھی بطریق منع ممکن ہو سکتی ہے جیسا کہ مناظرہ میں تھوڑی سی درایت رکھنے والے پر بھی پوشیدہ نہیں۔ انہوں نے یہ ظاہر کیا کہ قبل اس کے کہ حضرت امیر تجہیز و تکفین سے فارغ ہوتے خلفاء ثلاثہ نے سقیفہ بنی ساعدہ میں اکثر اصحاب کو جمع کیا کہ حضرت ابوبکر کی بیعت کی جائے۔ حضرت امیر (اپنے متبعین کی قلت پر اطلاع ( پانے اور اہل حق کے بیم ہلاک‘ کے سبب ) یا باعث دیگرلڑائی پر آمادہ نہ ہوئے۔ یہ (وجہ ) حقیقت بیعت پر دلالت نہیں کرتی کیونکہ حضرت امیر با کمال شجاعت حضرت پیغمبر کی ملازمت میں رہتے تھے۔ اور حضرت پیغمبر بھی اُن سے شجاعت و قوت میں کمتر نہیں تھے۔ اور ہمارے پیغمبر ﷺ نے حضرت امیر اور تمام صحابہ کے ساتھ ہوتے ہوئے کفار قریش سے جنگ نہ فرمائی اور مکہ معظمہ سے ہجرت فرمائی ۔ پھر ایک مدت کے بعد مکہ کی طرف متوجہ ہوئے اور حدیبیہ میں صلح کی اور مراجعت فرمائی۔ پس قریش مکہ سے ) حضرت پیغمبر ﷺ، حضرت امیر اور تمام صحابہ کے جنگ نہ کرنے کی جو بھی وجہ ہو سکتی ہے تنہا حضرت امیر کے جنگ نہ کرنے کی بھی ہوسکتی ہے۔ اس پر زائد یہ بات کہ کفار قریش کا حق ہونا تو اصلا متصور نہیں اور اہل تحقیق کے نزدیک یہ نقض تو او پر بھی جاسکتا ہے کہ فرعون چار سو سال تک دعوی خدائی میں مسندِ سلطنت پر رہا اور شدا دو نمرود و غیر ہم سے ہر کوئی بھی کئی سال اس باطل کا مدعی ہوا اور حضرت اللہ تعالیٰ نے کمال قدرت سے اُن کو ہلاک نہ کیا۔ ہر گاہ دفع خصم میں حق تعالیٰ نے جوتا خیر فرمائی بندہ تنہا کے مادہ میں (وہ تاخیر ) بطریق اولی ہو سکتی ہے۔ اور جو علماء کرام نے فرمایا کہ حضرت امیر نے ان کی بیعت کی اس کا وقوع اکراہ و تقیہ کے بغیر ممنوع ہے۔ (یعنی اکراہ و تقیہ کے ساتھ جائز ہے)
حضرت مجدد کا محاکمہ :
ہم اشکال کے حل میں کہتے ہیں اور اللہ سبحانہ ہی حقیقت حال کو زیادہ جانتا ہے۔ علمائے ماوراء النہر نے حضرت ابوبکر سے حضرت امیر کی تاخیر حرب” اور اُن کی متابعت کرنے کو خلافت ابو بکر کی حقانیت پر دلیل ٹھہرایا ہے۔ اور بے شک وہ (دلیل کفار قریش کے ساتھ حضرت پیغمبر کی تاخیر حرب سے اور فرعون و شداد و نمرود کے اہلاک میں ، اللہ تعالیٰ کی تاخیر سے متقض نہیں ہو سکتی ۔ (اس لئے ) کہ دلیل کی دوسری شق اس جگہ سرےسے متحقق نہیں بلکہ اس کی نقیض ثابت ہے۔ کیونکہ حضرت پیغمبر اور حضرت اللہ تعالیٰ نے ان کی مذمت و تشنیع کے علاوہ کچھ نہیں فرمایا ، اور ان کو ” بدی و بد عملی کے سوا یاد نہ کیا۔ فاين هذا ان من ذاک اس سے بھلا اس کا کیا رشتہ ، اور جب شیعہ حضرات کو حضرت امیر کی بیعت صدیق سے مجال انکار نہ رہی کہ یہ خبر حد تواتر تک پہنچی تھی اور اس کا انکار بدیہی عقل سے متصادم تھا۔ تو (نظریہ ضرورت کے تحت) اکراه وتقیہ کے قائل ہو گئے ۔ اُنہوں نے خلافت صدیق کے ابطال میں اس سے بہتر مجال سخن نہ پائی اور وہ اس کے بغیر اپنے لئے کوئی خلاصی ( کی راہ ) پیدا نہ کر سکے۔ خلافت صدیق رضی اللہ عنہ کی حقانیت کے بیان میں اور اکراہ و تقیہ کے احتمال کو دور کرنے کے لئے ہم کہتے ہیں کہ حضرت پیغمبر ﷺ کے وصال کے بعد صحابہ کرام تدفین سے پہلے نصب امام میں مشغول ہو گئے۔ اور انہوں نے (ظاہری) زمان نبوت گزر جانے کے بعد امام کا تقر ر واجب سمجھا۔ بلکہ اہم ترین واجب تصور کیا۔ کیونکہ حضور ﷺ نے (ان کو ) حدود کی ا قامت ، دروں کی رکاوٹ، جہاد اور اسلام کی حفاظت کے لئے لشکروں کے بندوبست کا حکم دیا تھا۔ اور جو واجب مطلق پورا نہیں ہوتا مگر جس کے ساتھ وہ مقدور ہوا تو وہ واجب ہے۔ لہذا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے فرمايا ايها الناس من كان يعبد محمداً فان محمداً قدمات ومن كان يعبد الله فان الله حي لا يموت لابد لهذا الأمر ممن يقوم به فانظرو و هاتوا رايكم فقالو صدقت ، اے لوگو ، جو کوئی محمد مصطفے ﷺ کی عبادت کرتا تھا ( سن لے ) وہ وصال فرما گئے ، اور جو اللہ کی عبادت کرتا تھا ( وہ بھی سن لے ) کہ اللہ زندہ ہے، کبھی نہ مرے گا ، اس امر کے لئے ضروری ہے کہ کوئی (بطور حاکم ) کھڑا ہو پس دیکھ لو اور اپنی رائے پیش کرو ، سب نے کہا آپ نے سچ فرمایا۔ پھر سب سے پہلے حضرت عمر نے حضرت صدیق کی بیعت کی بعد ازاں مہاجرین و انصار رضی اللہ عنہم میں سے جمیع صحابہ کرام نے بیعت کی۔ ان کی بیعت کے بعد حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ بر سر منبر تشریف لائے اور قوم کی جانب ملاحظہ کیا تو حضرت زبیر کو نہ پایا فرمایا کہ ان کو حاضر کیا جائے۔ جب وہ حاضر ہوئے تو حضرت صدیق نے فرمایا کہ مسلمانوں کے اجماع کو توڑنا چاہتے ہیں۔ حضرت زبیر نے کہا لَا ‌تَثْرِيبَ يَا ‌خَلِيفَةَ ‌رَسُولِ اللَّهِ، اے رسول اللہ کے خلیفہ ایسا ہر گز نہیں۔ پس انہوں نے صدیق کی بیعت کی (ا یکبار ) پھر حضرت صدیق نے قوم کو ملاحظہ فرمایا تو حضرت امیر کو نہ پایا، فرمایا ان کو طلب کیا جائے ۔ جب وہ حاضر ہوئے تو صدیق نے فرمایا کیا آپ ( بھی ) مسلمانوں کے اجماع کو توڑنا پسند کرتے ہیں۔ حضرت امیر نے کہا‌لَا ‌تَثْرِيبَ يَا ‌خَلِيفَةَ ‌رَسُولِ اللَّهِ فَبَايَعَهُ، اے رسول اللہ کے خلیفہ ایسا ہر گز نہیں۔ پس انہوں نے (بھی) ان کی بیعت فرمائی۔ پھر حضرت امیر اور حضرت زبیر نے اپنی بیعت کی تاخیر کا عذر بیان کیا کہ ہمیں تو مشورہ میں پیچھے رکھنے کا غصہ تھا۔ (اب) ہم نے دیکھا کہ ابو بکر سب لوگوں سے زیادہ (خلافت) کے حقدار ہیں، بے شک وہ صاحب غار ہیں ، اور ہم ان کے شرف وخیر کو پہچانتے ہیں اور یہ کہ سب لوگوں میں سے حضور ﷺ نے انہی کو نماز پڑھانے کا حکم دیا ہے۔ امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا خلافت ابوبکر پر سب لوگ جمع ہوئے۔ اس طرح وہ ہی رسول اللہ ﷺ کے بعد افضل تھے، اور لوگوں نے آسمان کے نیچے کسی کو ان سے بہتر نہ دیکھا۔ سو انہوں نے اپنی گردنیں اُن کو پیش کر دیں۔ ایضاً حضرت ابوبکر ، حضرت علی اور حضرت عباس کی خلافت کی حقانیت پر اجماع واقع ہو چکا تھا۔ حضرت علی اور حضرت عباس نے حضرت ابوبکر سے تنازعہ نہ کیا بلکہ انہوں نے بیعت کی ، پس حضرت ابوبکر کی امامت پر اجماع تمام ہو گیا۔ اگر حضرت ابوبکر برحق نہ ہوتے تو حضرت علی و عباس اُن سے تنازعہ کرتے ۔ جیسا کہ حضرت علی نے امیر معاویہ سے منازعت کی ۔ شوکت معاویہ کے باوجود (اپنا) حق طلب کیا تا آں کہ خلق کثیر قتل ہوگئی ۔ مزید یہ کہ اس وقت حق طلب کرنا بہت ہی مشکل تھا۔ ابتدائی طور پر تو بہت آسان تھا کہ ان کا زمانہ نبی اکرم ﷺ کے ( دور ظاہری کے ) بہت قریب تھا۔ اور اُن کی ہمت اُن کے احکام کو نافذ کرنے کے لئے بہت ہی راغب تھی۔ ایضا یہ کہ حضرت عباس نے حضرت امیر سے بیعت کی خواہش کی، حضرت امیر نے قبول نہ فرمائی۔ اگر وہ ان کی جانب حق دیکھتے تو ضرور قبول کر لیتے اور حال یہ تھا کہ حضرت زبیر با کمال شجاعت ان کے ساتھ اور بنو ہاشم اور جمع کثیر بھی اُن کے ساتھ متفق تھا ، لہذا خلافت ابو بکر حق ہونے کے لئے اجماع کافی ہے۔ اگر چہ ان کی خلافت پر نص ( قطعی) وارد نہیں ہوئی ہے۔ جیسا کہ جمہور علماء کرام نے فرمایا۔ بلکہ نصوص غیر متواترہ سے اجماع زیادہ مضبوط ہے۔ اس لئے کہ اجتماع کا مدلول(دلیل سے ثابت کیا ہوا) قطعی ہوتا ہے اور ان نصوص(غیر متواترہ) کا مدلول ظنی ہوتا ہے۔ پھر بھی ہم کہتے ہیں کہ ان کی خلافت کے حق ہونے پر نصوص بھی وارد ہوئیں۔ جیسا کہ محقق محدثین و مفسرین نے ذکر فرمایا۔ بعض محققین کے ذکر کرد ہ جمہور علمائے اہل سنت کے قول کا معنی یہ ہے کہ حضور ﷺ نے کسی کے لئے خلافت منصوص نہیں فرمائی اور نہ کسی کے لئے اس کا حکم دیا ہے۔ جو ہم نے بیان کیا اس سے خلافت صدیق کی حقیقت ظاہر کر دی اور ا کراہ و تقیہ کا احتمال باطل کر دیا۔ مزید یہ کہ اکراہ و تقیہ کا احتمال تو اس زمانے میں ہو سکتا ہے جس زمانے کے لوگ تابع حق نہ ہوں۔ اور خیر القرون قرنی کی سعادت سے مستعد نہ ہوں۔ ابنِ صلاح اور منذری نے فرمایا الصحابة كلهم عدول صحابہ کرام سب کے سب عدول ہیں۔ اور ابن حزم نے کہا الصحابة كلهم من اهل الجنة، صحابہ کرام سب کے سب اہل جنت ہیں کہ اللہ سبحانہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ۭ لَا يَسْتَوِيْ مِنْكُمْ مَّنْ اَنْفَقَ مِنْ قَبْلِ الْفَتْحِ وَقٰتَلَ ۭ اُولٰۗىِٕكَ اَعْظَمُ دَرَجَةً مِّنَ الَّذِيْنَ اَنْفَقُوْا مِنْۢ بَعْدُ وَقٰتَلُوْا ۭ وَكُلًّا وَّعَدَ اللّٰهُ الْحُسْنٰى یعنی تم میں سے فتح مکہ سے پہلے مال خرچ کرنے والے اور جہاد کرنے الے جو اونچے درجے والے ہیں ان لوگوں کے برابر نہیں جنہوں نے فتح مکہ کے بعد مال خرچ کیا اور جہاد کیا، اور اللہ نے سب سے بھلائی کا وعدہ فرمالیا۔ تو اس ارشاد کے (وہ) سب ) مخاطب ہیں اور ان سب کے لئے الحسنی ثابت ہے، اور وہ ہے جنت ، یہ نہ سوچا جائے کہ انفاق اور جہاد کی تقیید سے وہ صحابہ خارج ہو گئے جو ان سے متصف نہیں ، کیونکہ یہ قیود بطور غالب احوال کی ہیں ، ان کا مفہوم اس کے خلاف نہ لیا جائے ۔ اس سے مراد یہ بھی ہو سکتا ہے جو عزم و قوت کے ساتھ (انفاق و جہاد سے ) متصف ہوا۔ اور یہ ہے کہ اکراہ و تقیہ حضرت امیر کرم اللہ وجہ کے نقض کو مستلزم ہے، کیونکہ اکراہ میں ترک عزیمت ہے۔ اور تقیہ میں کتمان حق ہے جس سے منع کیا گیا ہے۔ ہر گاہ عام مومن بھی طاقت رکھتے ہوئے ترک اولیٰ سے راضی نہیں ہوتا۔ اور امر ممنوع کا ارتکاب نہیں کرتا تو خدا کے شیر، اور بنتِ رسول کے شوہر جو شجاعت و صفدریت میں بے نظیر تھے ، کے متعلق کیسے سوچا جائے کہ وہ ان ناشائستہ امور کے مرتکب ہوئے تھے۔ شیعہ حضرات کمال جہالت اور فرط ضلالت سے ان کی قدح کو مدح خیال کرتے ” ” ہیں۔ اور ان کے نقصان کو کمال سمجھتے ہیں اَفَمَنْ زُيِّنَ لَهٗ سُوْۗءُ عَمَلِهٖ فَرَاٰهُ حَسَـنًا جس کے لئے اس کے برے عمل اچھے دکھائے گئے تو وہ اس کو واقعی اچھادیکھتا ہے۔
شیعہ کا قتل اور اخذ اموال
علمائے ماوراء النہر نے فرمایا جب شیعہ حضرات شیخین اور ذوالنورین اور بعض ازواج مطہرات رضوان اللہ علیہم اجمعین کے سب ولعن جو کہ کفر ہے کو تجویز کرتے ہیں تو مالک حقیقی کے حکم کے مطابق دین حق کی بلندی کے لئے ان کا قتل و قمع بادشاہ اسلام کے بلکہ تمام رعایا پر واجب و لازم ہے۔ اُن کے مکانات کی تخریب اور ان کے اموال و امتعہ کا حاصل کرنا جائز ہے۔
روافض کا جواب
شیعہ حضرات سے جواب میں بطریق منع کہا کہ شارح عقاید النسفی نے سب شیخین کے کفر ہونے پر اشکال (ظاہر ) کیا ہے اور صاحب جامع اصول نے شیعہ کو اسلامی فرقوں میں شمار کیا ہے اور صاحب مواقف نے بھی یہی کہا ہے۔ امام غزالی کے نزدیک سب شیخین کفر نہیں اور شیخ اشعری، شیعہ بلکہ سب اہل قبلہ کو کا فر نہیں جانتے۔ پس ان حضرات نے تکفیر شیعہ میں جو فر مایا سبیل مومناں” کے موافق اور قرآن وحدیث کے مطابق نہیں ہے۔
حضرت مجدد کا محاکمہ :
مقدمہ ممنوعہ کے اثبات کے لئے ہم کہتے ہیں کہ شیخین کو گالی دینا کفر ہے اور اس پر احادیث صحیحہ دال ہیں۔ جیسا کہ المحالمی وطبرانی اور حاکم نے عویمر بن ساعدہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا کہ حضور ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے میرے لئے اصحاب اختیار کئے تو ان میں سے وزیر بنائے اور مددگار بنائے اور رشتہ دار بنائے۔ جس نے اُن کو گالی دی تو اس پر اللہ کی اور تمام فرشتوں کی اور تمام انسانوں کی و لعنت اللہ اس کے کسی صرف و عدل کو قبول نہ کرے گا۔
دارقطنی نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت کیا کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا کہ میرے بعد ایک قوم آئے گی جسے رافضی کہا جائے گا پس اگر ، تم اُسے پاؤ تو قتل کر دو بے شک وہ مشرک ہیں ، میں نے کہا یا رسول اللہ اُن کی علامت کیا ہے۔ فرمایا وہ ( تمہاری شان ) میں افراط کریں گے جو تم میں نہیں۔ اور سلف پر اعتراض کریں گے۔ ایک روایت میں یہ بھی آیا ہے کہ وہ ابو بکر و عمر کو گالیاں دیں گے۔ جس نے اصحاب کو گالی دی اس پر اللہ فرشتوں اور تمام انسانوں کی لعنت۔
اس قسم کی بہت سی احادیث ہیں مگر یہ رسالہ ان کے ذکر کی گنجائش نہیں رکھتا۔ اور یہ کہ گالی ان کے بغض کا موجب ہے۔ اور اُن کا بغض کفر ہے اس خبر کے ساتھ ) کہ حضور ﷺ نے فرمایا ) مَنْ ‌أَبْغَضَهم فَقَدْ أَبْغَضَنِيْ، وَمَنْ آذَاهم فَقَد ‌آذَانيِ وَمَنْ ‌آذَانِيْ فَقَدْ آذَى الله جس نے ان سے بغض رکھا اس نے مجھ سے بغض رکھا اور جس نے اُن کو تنگ کیا اس نے مجھے تنگ کیا اور جس نے مجھے تنگ کیا اُس نے اللہ کو تنگ کیا۔ اور اسی طرح ابن عسا کرنے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ابوبکر و عمر کی محبت ایمان ہے اور اُن کا بغض کفر ہے۔ عبد اللہ بن احمد حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مرفوع روایت کیا۔
میں اپنی اُمت کے لئے ابو بکر وعمر کی محبت ( جو اس میں ہے ) میں اس طرح پر امید ہوں جیسے اُس کے قول لا الہ الا اللہ میں پُر امید ہوں اور ان کے بعض کو ان کی محبت پر قیاس کرنا چاہیے۔ کیونکہ وہ دونوں ایک دوسرے پر نقیض( متضاد) ہیں ۔ نیز تکفیر مومن کفر ہے جیسے حدیث صحیح میں وارد ہے، جس نے کسی آدمی کو کافر کہ یا اللہ کا دشمن کہا اور وہ نہیں ہے تو (وہ حکم ) اس پر لوٹ آیا۔ ہم یقین سے جانتے ہیں کہ ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما (عظیم ) مومن ہیں، خدا کے دشمن نہیں اور جنت سے مبشر میں پس ان کی تکفیر اس حدیث کے مطابق قائلین تکفیر کی طرف راجح ہو گی تو (اس لئے ) شیعہ کی تکفیر کا حکم ہے۔ یہ حدیث اگر چہ خبر واحد(ایک راوی کی حدیث) ہے لیکن اس سے حکم تکفیر معلوم کیا جائے گا ، اگر چہ اس کا منکر کا فرنہ ہوگا۔
اپنے زمانے کے امام، شیوخ اسلام میں اجل حضرت ابو زرعہ الرازی رضی اللہ عنہ نے فرمایا اگر تو دیکھے کہ کوئی شخص کسی ایک صحابی رسول کی تنقیص کر رہا ہے تو جان لے کہ وہ زندیق ہے وہ اس لیے کہ قرآن حق ہے ، رسول حق ہے اور جو ان کے ساتھ آیا وہ حق ہے۔ یہ تمام( باتیں) ہم تک صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے سوا کسی نے نہیں پہنچائیں۔ پس جس نے ان پر جرح کی اس نے کتاب وسنت کے ابطال کا ارادہ کیا، پس اس شخص پر جرح کرنی چاہیے اور اُس پر زندقہ ، ضلالت، کذب اور عناد کا حکم لگایا ، جائے کہ یہی سب سے قوی اور سب سے بہتر ہے۔
حضرت سہل بن عبدالله التستری علیہ الرحمہ نے فرمایا کہ ان کا علم و زھد اور معرفت و جلالت تمہیں (ان کی گستاخی سے منع کرتی ہے، جس نے صحابہ کرام کا احترام نہ کیا گویا کہ وہ رسول اللہ ﷺ پر ایمان ہی نہ لایا۔
مقام امیر معاویہ 
حضرت عبد اللہ بن مبارک رضی اللہ عنہ جن کا علم و جلالت تمہیں کافی ہے سے پوچھا گیا کہ حضرت امیر معاویہ افضل ہیں یا عمر بن عبد العزیز ، انہوں نے فرمایا ، رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ جو غبار امیر معاویہ کے گھوڑے کے ناک میں داخل ہوا عمر بن عبد العزیز سے بہتر ہے۔ (امیر معاویہ کا تو ذکر ہی کیا ) اس طرح انہوں نے رسول اللہ ﷺ کی صحبت و زیارت کی فضیلت کی طرف اشارہ فرمایا کہ اس سے کوئی چیز نہیں بڑھ سکتی۔ یہ مقام اُن کا ہے جو لوگ مجردزیارتِ رسول سے معزز ہوئے تو اُن کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے جنہوں نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ اللہ کی راہ میں ہجرت کی اور (کافروں سے ) جہاد کیا۔ اور اپنے اموال وذخائر خرچ کیے، ا پنی جان نثار کی یا بعد والے کے لئے شریعت کی کوئی چیز پہنچائی ۔ تو یہ ہے (وہ شان) جس کے فضل کا ادراک اصلا ممکن نہیں ۔
اور شک نہیں کہ شیخین اکابر صحابہ سے ہیں بلکہ ان سے بھی افضل ہیں۔ پس ان کی تکفیر بلکہ تنقیص کفر وزندقہ اور گمراہی کا موجب ہوگی جیسا کہ پوشیدہ نہیں ۔ حضرت امام محمد علیہ الرحمہ نے محیط میں (کہا) کہ رافضہ کے پیچھے نماز جائز نہیں اس لیے کہ انہوں نے خلافت صدیق رضی اللہ عنہ کا انکار کیا۔ ان کی خلافت پر صحابہ کرام کا اجماع ہو چکا ہے۔ اور خلاصہ میں ہے جس نے خلافت صدیق رضی اللہ عنہ کا انکار کیا وہ کافر ہے اور مرغینانی میں ہے کہ صاحب ہوی و بدعت کے پیچھے نماز مکروہ ہے۔ رافضہ کے پیچھے جائز نہیں۔ پھر فرمایا جس کا یہ حاصل ہے کہ ہر اُس شخص کے پیچھے نماز نا جائز ہے جو ہوائے ( نفسانی سے ) کفر کرتا ہے۔ ورنہ جائز ہے لیکن مکروہ ہے۔ صحیح قول میں خلافت عمر کے منکر کابھی یہی حکم ہے۔ ہر گاہ ان کی خلافت کا انکار کفر ہوگا۔ تو اس کا کیا حال ہے جس نے ان کو گالی دی یا لعنت کی ۔ ظاہر ہوا کہ تکفیر شیعہ احادیث صحاح کے مطابق اور طریق سلف کے موافق ہے، اور جو بعض اہل سنت سے عدم تکفیر شیعہ’ نقل کرتے ہیں اُس کی صحت و دلالت کی تقدیران کی عدم تکفیر میں کسی توجیہہ و تاویل پر محمول ہے تا کہ وہ احادیث اور جمہور علماء کرام کے مذہب کے مطابق ہو جائے ۔
شان صدیقہ پراعتراض 
.اور یہ کہ شیعہ حضرات نے عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے سب ولعن سے انکا رکیا مگر وہ ان کے بارے میں (حکم قرآن کی مخالفت کے باعث طعن و تشنیع ثابت ( کرتے ہیں۔ اور کہا کہ لوگ اُن کے بارے میں جو خبث وفحش شیعوں سے منسوب کرتے ہیں حاشا ثم حاشا (یعنی یہ سب درست نہیں) مگر حضرت عائشہ نے وَقَرْنَ فِيْ بُيُوْتِكُنَّ (اپنے گھروں میں رہیں ) کے امر ( قرآنی) کی بصرہ میں آکر مخالفت کی۔ اور حضرت امیر سے جنگ کا اقدام کیا ، اور حربک و حربی ، ( تم سے لڑائی مجھ سے لڑائی) کےحدیث کے مطابق حضرت امیر سے جنگ ، حضرت پیغمبر سے جنگ ہے، اور حضرت پیغمبر سے لڑنے والا یقینا مقبول نہیں، اس بنا پر وہ مور د طعن ہوئیں۔ ہم کہتے ہیں کہ پوشیدہ نہ رہے، ملازمت بیوت کا حکم اور اُن سے خروج کی ممانعت کہ مطلق جمیع حالوں اور زمانوں کے شامل ہو ، (یہاں مراد نہیں۔ اور بعض ازواج آں سرور کا ان کے ساتھ بعض سفروں میں ( جانا ) اس پر دلالت کرتا ہے۔ لہذا گھروں میں رہنے کا حکم ایک وقت و حال کے ساتھ دوسرے وقت و حال کے بغیر مخصوص تھا۔ اور عام مخصوص البعض کے رنگ میں تھا۔ اور عام مخصوص البعض مدلول (دلیل سے ثابت کیا ہوا) کی رو سے ظنی ہوتا ہے۔ مجتہد کو جائز ہے کہ دوسرے افراد کو بھی علت مشترکہ کے ساتھ اس سے خارج کر لے، شک نہیں کہ حضرت صدیقہ رضی اللہ عنہا عالمہ مجتہد تھیں ، ترمذی نے ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا کہ انہوں نے فرمایا کہ ہم اصحاب رسول کو کوئی حدیث مشکل میں ڈالتی تو ہم عائشہ صدیقہ سے پوچھتے تو ہم (اس کا ) علم اُن کے پاس ضرور دیکھتے۔ پس ہو سکتا ہے کہ حضرت عائشہ نے اپنے خروج کو بعض اوقات یا بعض احوال میں منافع و مصالح کے لئے اس (حکم) سے مخصوص کر لیا ہو۔ اس میں کوئی عیب اور طعن نہیں۔ اس پر ہم نقل کرتے ہیں کہ یہ فرمان باری کے سیاق سے ظاہر ہے۔ فرمايا وَلَا تَبَرَّجْنَ تَــبَرُّجَ الْجَاهِلِيَّةِ الْاُوْلٰى پہلی جہالت کی زینت کی طرح زینت نہ کریں، اس سے مرا دستر و حجاب کے بغیر نکلنے کی ممانعت ہے۔ ستر و حجاب کے ساتھ نکلنا اس ممانعت سے خارج ہے۔ اور حضرت صدیقہ کا خروج جنگ کے لئے نہیں تھا، اصلاح (احوال) کے لئے تھا۔ جیسا کہ بعض محققین نے فرمایا۔ اور اگر جنگ کے لئے بھی ہوتا جیسا کہ مشہور ہے تو اس میں بھی اعتراض نہیں کیونکہ وہ اجتہاد سے تھا نہ کہ ہوائے (نفسانی) ہے۔ شارح مواقف نے آمدی سے نقل کیا ہے کہ جمل و صفین کے واقعات اجتہاد کی رُو سے تھے۔ اور اگر مجتہد خطا بھی کرے تو اس پر کوئی مواخذہ نہیں ۔ قاضی بیضاوی نے اپنی تفسیر میں فرمایا، اللہ کا فرمان ہے لَوْلَا كِتٰبٌ مِّنَ اللّٰهِ سَبَقَ لَمَسَّكُمْ اگر اللہ کی طرف سے پہلے نہ لکھا ہوتا تو و تمہیں عذاب ملتا، یعنی اگر لوح میں پہلے سے یہ حکم نہ ہوتا اور وہ حکم یہ ہے کہ خطا کرنے والے مجتہد کو عذاب نہ ہوگا یا ہم کہتے ہیں کہ مجتہد کی خطا بھی خدا تعالیٰ کے ہاں داخل ہدایت ہے۔(خطا کار وہ شخص ہوتا ہےجو نیکی کے ارادے سے کام کرےاور ارادہ کے خلاف انجام ظاہر ہو)
حضرت رزین نے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے نقل کیا ، انہوں نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا کہ فرمایا میں نے اپنے اور اپنے صحابہ کے اختلاف کے متعلق اپنے رب سے سوال کیا تو اللہ نے وحی فرمائی اے محبوب! تمہارے صحابہ میرے نزدیک آسمان میں ستاروں کی طرح ہیں ، جن کے بعض بعض سے قوی ہیں، اور سب کے لئے نور ہے۔ پس جس نے ان میں سے کوئی چیز اخذ کی وہ میرے نزدیک ہدایت پر ہے، پھر فرمایا میرے صحابہ ستاروں کی طرح ہیں ہم کسی کی بھی پیروی کرو گے، ہدایت حاصل کرو گے۔
حدیث حربک حربی ہوسکتا ہے حضرت عائشہ صدیقہ کے نزدیک ثبوت کو نہ پہنچی ہو ۔ یا مخصوص جنگ سے مخصوص ہوگی کہ ہو سکتا ہے کہ اضافت برائے عہد ” ہو ۔ ( یعنی کوئی مخصوص جنگ جو حضرت علی سے کرے وہ جنگ مجھ سے کرے گا )
اور یہ کہ حضرات شیعہ نے اپنی باطل کتابوں کی ترویج اور اہل سنت کی کتابوں کی تزییف(سکے کو کھوٹا بنانا) کے لئے کہا ہے کہ کتب شیعہ میں (یہ واقعہ ) یوں ہے، ابنِ مکتوم نابینا (صحابی) حضور اقدس ﷺ کی خدمت میں موجود تھے کہ ان کے اہل حرم میں سے کسی (زوجہ ) کا گزر ہوا حضرت پیغمبر نے بایں معنی اعتراض فرمایا ، اس نے عرض کی رسول اللہ یہ شخص نابینا ہے۔ حضرت پیغمبر نے فرمایا تو تو نا بینا نہیں۔ اور علماء اہل سنت نے اپنی کتابوں میں لکھا ہے کہ حضرت پیغمبر نے حضرت عائشہ کو اپنے شانہ اقدس پر اٹھایا کہ میں ایک جماعت کا تماشا دیکھوں جو گلی میں ساز بجا رہی تھی۔ کچھ مدت بعد فرمایا اےحمیرا کیا تم سیر ہو گئیں ۔ پس اس عمل کو کسی کمترین آدمی بھی نسبت نہیں دے سکتے ۔ (یعنی دونوں میں تضاد ہے اور شیعہ حضرات یہ بتانا چاہتے ہیں کہ اہل سنت کی کتابوں میں جناب رسالت کی تو ہین والے واقعات ہیں لہذا انہیں نہ دیکھا جائے )
پوشیدہ نہ رہے کہ ہو سکتا ہے یہ واقعہ آیت حجاب کے نزول سے پہلے متحقق ہوا ہو اور ابن مکتوم سے ممانعت ( والا واقعہ ) نزول کے بعد پیش آیا ہو، اور یہ بھی ہو سکتا ہے؟ کہ وہ کھیل بھی مشروع ہو، ممنوع نہ ہو، چنانکہ اخبار صحاح میں وارد ہے اور عنقریب مذکور ہوا چاہتا ہے کہ مسجد حضرت پیغمبر میں حبشی لوگ، نیزہ بازی کر رہے تھے وہ تیر اندازی کی طرح ہے۔ در حق وہ دونوں جہاد کے ہتھیار ہیں تیر اندازی مشروع ہے تو اس کی مثل بھی مشروع ہے۔ نیز اس کھیل کا مسجد میں وقوع اس کی مشروعیت پر دلالت کرتا ہے جیسا کہ مخفی نہیں۔ اگر کہا جائے کہ ( یہ واقعہ ) آیت حجاب کے نزول کے بعد ہوا تو ہم کہتے ہیں کہ حضرت صدیقہ اس وقت صغیرہ تھیں ، ( اس حکم کی ) مکلفہ(جس پر شرعی احکام کی پابندی لازم ہو) نہیں تھیں جیسا کہ بخاری و مسلم کی روایت سے دکھائی دیتا ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا خدا کی قسم میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا کہ وہ میرے حجرے کے دروازے پر کھڑے ہیں اور حبشی (لوگ) مسجد میں ہتھیاروں کے ساتھ کھیل رہے ہیں ۔ حضور نے مجھے اپنی چادر میں ڈھانپ لیا کہ میں حضور کے شانوں اور کانوں کے درمیان سے ان کا کھیل دیکھ لوں ۔ پھر آپ میری رضا کے لئے کھڑے رہتے حتی کہ میں واپس ہوتی تو چھوٹی عمر کی اس لڑکی کا اندازہ لگاؤ جسے کھیل (دیکھنے کا شوق تھا۔ اور یہ اس پر دلالت کرتا ہے کہ وہ اُس دوران صغیرہ غیر مکلفہ تھیں ۔ اور کھیل مشروع تھا، ممنوع نہیں تھا۔ جب اعداد میں جہاد کے لئے تیز اندازی کی مانند ہتھیاروں کے ساتھ کھیل ، کیا تم نہیں دیکھتے کہ وہ مسجد میں ہو رہا تھا پس ظاہر ہوا کہ ان کا بیان ( درست نہیں)
کیا تم نہیں دیکھتے کہ مسجد میں بمنزلت تیراندازی یعنی ہتھیاروں سے جہاد کے لئے کھیلنا نے ظاہر کیا کہ ان کا قول حضرت عائشہ کو اُٹھایا اور اُن کا قول يضربون ‘ لمعازف ، ( ساز بجارہے تھے ، ان کی تحریفات میں سے ہے۔ اللہ اُن کو برباد کرے۔
مشاجرات(اختلاف) صحابہ 
جاننا چاہیے کہ صحابہ کرام کے درمیان آنا اور اُن کے کوئی فیصلہ دینا ” کمال بے ادبی اور فرط بے سعادتی“ ہے۔ اور بہترین طریقہ یہ ہے کہ جو منازعات و اختلافات ان کے درمیان واقع ہوئے ان کو علم حق سبحانہ پر رہنے دیا جائے۔ اور ان تمام کو نیکی کے سوا یاد نہ کیا جائے۔ ان کی محبت کو پیغمبر اسلام کی محبت سمجھا جائے فَمَنْ أَحَبَّهُمْ، ‌فَبِحُبِّي أَحَبَّهُمْ، جس نے ان سے محبت کی میری محبت کی وجہ سے کی۔ حدیث صحیح ۔ امام شافعی نے فرمایا یا عمر بن عبد العزیز نے فرمایا یہ وہ خون ہیں جن سے اللہ نے ہمارے ہاتھوں کو پاک رکھا، ہم اپنی زبان کو اُن سے پاک رکھتے ہیں، مگر شیعہ شنیعہ (برے)صحابہ عظام کو برائی کے ساتھ یاد کرتے ہیں اور اُن کے سب ولعن کی جرات دکھاتے ہیں ، علمائے اسلام کو واجب و لازم ہے اُن کا رد کریں اور ان کے مفاسد کو ظاہر کریں، اس باب میں اس حقیر سے جو بعض سخن تحریر میں آئے وہ اسی قبیل سے ہیں جیسا کہ رسالہ کے آغاز میں ذکر ہوا۔
ۭرَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَآ اِنْ نَّسِيْنَآ اَوْ اَخْطَاْنَا رَبَّنَا وَلَا تَحْمِلْ عَلَيْنَآ اِصْرًا كَمَا حَمَلْتَهٗ عَلَي الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِنَا رَبَّنَا وَلَا تُحَمِّلْنَا مَا لَا طَاقَةَ لَنَا بِهٖ وَاعْفُ عَنَّا وَاغْفِرْ لَنَا وَارْحَمْنَا اَنْتَ مَوْلٰىنَا فَانْــصُرْنَا عَلَي الْقَوْمِ الْكٰفِرِيْنَ
اور ہم اس رسالہ کو خاتمہ حسنہ کے ساتھ اور اہل بیت کے مناقب ، مدائح اور فضائل کے ذکر کے ساتھ ختم کرتے ہیں ۔
مناقب اہل بیت
اللہ تعالیٰ نے فرمایا ” اِنَّمَا يُرِيْدُ اللّٰهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ اَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيْرًابے شک اللہ کا ارادہ تو یہی ہے کہ وہ اے اہل بیت تم سے آلودگی کو دور کر دے اور تمہیں پاک کر دے جیسے اس کا حق ہے، اکثر مفسرین کرام اس پر ہیں کہ یہ آیت حضرت علی ، فاطمہ حسن اور حسین رضی اللہ عنہم کی شان میں نازل ہوئی۔ کیونکہ ضمیر عنکم اور اس کے بعد بھی ضمیر مذکر ہے۔ اور کہا گیا ہے، حضور ﷺ کی ازواج مطہرہ کی شان میں اتری کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا واذکرن ما يُتلى في بيوتكن، یعنی ان کو یاد کریں جو ان کے گھروں میں تلاوت کی جاتی ہیں ) یہ تفسیر حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کی طرف منسوب ہے۔ اور کہا گیا ہے اس سے مراد واحد نبی اکرم ﷺ کی ذات گرامی ہے۔ امام احمد نے ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ یہ آیت حضور نبی اکرم حضرت علی و فاطمہ، حسن و حسین ان پانچوں کے بارے میں نازل ہوئی ، اور ثعلبی نے کہا اس کی مراد تمام بنو ہاشم ہیں، جس سے مراد ہے گناہ اور ایمان کے واجبات میں شک کرنا ۔ بعض طرق میں آگ پر اُن کی تحریم کو ثابت کیا۔ سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے ہے کہ انہوں نے فرمایا جب یہ آیت مباہلہ “نَدْعُ اَبْنَاۗءَنَا وَاَبْنَاۗءَكُمْ نازل ہوئی تو حضور اکرم ﷺ نے حضرت علی فاطمہ ، حسن و حسین رضی اللہ عنہم کو بلایا اور عرض کیا اے اللہ یہ ہیں میرے اہل بیت ،
مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا فاطمہ میری جگر گوشہ ہے جس نے اس سے بغض رکھا، اس نے مجھ سے بغض رکھا ایک روایت میں ہے وہ مجھے تکلیف دیتا ہے جس نے اُسے تکلیف دی۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا میں حضور رسول اکرم ﷺ کے ہمراہ دن کے کسی حصے میں باہر نکلاحتی کہ حضور کا شانہ فاطمہ پر تشریف لائے ۔ اور فرمایا کیا یہاں بچہ ہے، کیا یہاں بچہ ہے۔ یعنی حسن ہے۔ کچھ دیر بعد حسن دوڑتے ہوئے آئے اور دونوں آپس میں لپٹ گئے ۔ اس وقت کے حضور اقدس نے کہا اے اللہ میں اس سے محبت کرتا ہوں، تو بھی اس سے محبت کر ، اور اس سے محبت کر جو اس سے محبت کرے۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کوئی بھی حضرت حسن سے زیادہ حضور سے مشابہ نہیں تھا ، اور امام حسین کے بارے میں بھی انہوں نے یہی فرمایا۔ وہ بھی رسول اللہ کے سب سے زیادہ مشابہ تھے۔ رضی اللہ عنہما۔
حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا بے شک میں تم میں دو چیزیں چھوڑ رہا ہوں ، اگر تم اُن کو پکڑ لو گے تو میرے بعد کبھی گمراہ نہ ہو گے ، ان میں ایک دوسری سے بڑی ہے (وہ) اللہ کی کتاب ہے آسمان سے زمین کی طرف سیدھی رہی ہے۔ اور میری عترت، میرے اہل بیت ، یہ دونوں کبھی جدا نہ ہوں گے جہاں تک کہ حوض پر ملیں، پس دیکھو، میرے بعد تم ان سے کیا کرتے ہو،
انہی سے ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے حضرت علی ، فاطمہ ، حسن و حسین رضی اللہ عنہماسے فرمایا کہ میں ان سے جنگ کرنے والے کا دشمن ہوں، اور ان سے دوستی رکھنے والے کا دوست ہوں ۔
جميع ابن عمیر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں اپنی پھوپھی کے ساتھ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس گیا، اس نے حضرت عائشہ سے سوال کیا ، کہ لوگوں میں سب سے زیادہ کون حضور ﷺ کا محبوب ہے ، انہوں نے فرمایا فاطمہ، کہا گیا مردوں سے، فرمایا ان کا شوہر،
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ حسن اور حسین دنیا سے میرے پھول ہیں۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا بیشک حسن سینے سے لے کر سر تک حضور ﷺ کے سب سے زیادہ مشابہ ہیں اور حسین سینے سے قدموں تک سب سے زیادہ مشابہ۔
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت حسن کو اپنے شانہ اقدس پر اٹھا رکھا تھا ، ایک آدمی نے کہا اے بیٹے تیری سواری کتنی ہی اچھی ہے، نبی اکرم ﷺ نے فرمایا اور سوار بھی کتنا ہی اچھا ہے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ بے شک لوگ رسول اللہ ﷺ کی رضا چاہنے کے لئے میری باری کے دن زیادہ ہدئیے بھیجا کرتے تھے، حضور کی ازواج مطہرہ کے دو گروہ تھے، ایک گروہ میں عائشہ حفصہ صفیہ اور سودہ تھیں اور دوسرے گروہ میں ام سلمہ اور ساری از واج، امِ سلمہ کے گروہ نے اُم سلمہ سے کہا کہ وہ حضور سے بات کریں کہ حضور لوگوں کو ارشاد فرما ئیں کہ وہ وہاں ہدئیے بھیجا کریں جہاں وہ موجود ہوں۔ حضور نے ان سے فرمایا مجھے عائشہ کے بارے میں اذیت نہ دو، بے شک مجھے عائشہ کے سوا کسی زوجہ کے پردے میں وحی نہیں آتی ۔ انہوں نے کہا کہ یا رسول اللہ میں آپ کو اذیت دینے سے اللہ کے ہاں تو بہ کرتی ہوں۔پھر اس گروہ نے حضرت فاطمہ کو اس معاملہ کے لئے حضور کے پاس بھیجا، حضور نے ان سے فرمایا اے بیٹی کیا تو اس سے محبت نہیں کرتی جس سے میں محبت کرتا ہوں۔ انہوں نے عرض کی کیوں نہیں ، حضور نے فرمایا تو مجھے عائشہ سے محبت ہے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا میں نے ازواج رسول میں سے کبھی کسی پر اتنی غیرت نہ کھائی جتنی حضرت خدیجہ پر ، حالانکہ میں نے ان کو دیکھا بھی نہیں تھا ۔ لیکن حضور اُن کا اکثر ذکر فرمایا کرتے تھے۔ بہت مرتبہ بکری ذبح فرماتے تو اُس کے اعضاء کاٹ کر ان کی سہیلیوں کو بھیجتے ۔ میں نے کئی بار اُن سے عرض کی حضور! کیا دنیا میں حضرت خدیجہ کے سوا کوئی اور عورت نہیں؟ فرمایا جو وہ تھیں سو وہی تھیں، اُن سے میری اولا د ہوئی۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا عباس مجھ سے ہے اور میں اُس سے ہوں ۔
انہی سے روایت ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا اللہ سے محبت کرو کہ وہ تمہیں کھلاتا ہے۔ اور اللہ کی محبت کے لئے مجھ سے محبت کرو، اور میری محبت کے لئے میرے اہل بیت سے محبت کرو۔
حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ انہوں نے کعبہ کے دروازہ کو تھام رکھا تھا جب نبی اکرم ﷺ سے سنا کہ خبر دار میرے اہل بیت کی مثال تم میں کشتی نوح کی (طرح) ہے جو اس میں سوار ہوا نجات پا گیا اور جو اس سے پیچھے رہ گیا ہلاک ہو گیا۔
یہی بیان اس رسالہ کا آخر ہے

الہی بحق بنی فاطمه که برقول ایمان کنی خاتمہ
اے اللہ حضرت فاطمہ کی اولاد کے صدقے میرا خاتمہ ایمان پر کرنا
اگر دعوتم رد کنی ور قبول من و دست و دامانِ آلِ رسول
چاہے تو میری دعا کو رد کر دے یا قبول کر، کہ میں آلِ رسول کے دامن سے لپٹا ہوا ہوں
الحمد لله سبحانه على الاختتام والصلوة والسلام على حبيبه محمد النبى الامى سيّد الانام إلى يوم القيام
دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ مصنف مذکور کو جزائے خیر عطا فرمائیں اور ہماری اس ادنی کاوش کو اپنی بارگاہ میں شرف قبولیت عطا فرمائیں ،اور سب مسلمانوں کے لئے اس کو دنیاو آخرت کی صلاح وفلاح کا ذریعہ بنائیں ۔


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں