زہدکمال دنیا ،باطن شرف آخرت

حضرت شیخ المشائخ، قطب ربانی، غوث صمدانی ، محبوب سبحانی، سیدنا عبد القادر جیلانی رضی اللہ تعالی عنہ وارضاہ نے تصوف و طریقت پر مشتمل کتاب” آداب السلوک والتواصل الی منازل الملوک“ میں فرمایا :

ترک دنیا لذت ہائے دنیاپر دو مرتبہ ثواب ملتا ہے۔ 

ایک تو اس وقت جب وہ دنیا کو ترک کر تا ہے۔ اور دنیا کی کسی چیز کو اپنی خواہش اور ارادے سے حاصل نہیں کرتا بلکہ اس کو صرف اللہ تعالی کے حکم کی اطاعت میں قبول کرتا ہے۔ پس جب وہ اپنے نفس کا دشمن بن جاتا ہے اور خواہش نفس کی مخالفت کرتا ہے تو اہل تحقیق اور ابل ولایت میں شمار ہونے لگتاہے۔ اور ابدال وعار فین کے زمرے میں شامل ہو جاتا ہے۔ ایسے میں اسے اخذ دنیا کا حکم ملتا ہے ۔ اور اس پر دنیاوی نعمتوں سے لطف اندوز ہونا لازم ہو جاتا ہے۔ کیونکہ بارگاہ خداوندی سے دنیا کی نعمتیں اس کی قسمت ٹھہرتی ہیں اور بندے پر لازم ہو جاتا ہے کہ وہ ان سے محظوظ ہو۔ کیونکہ کسی دوسرے کاان پر حق نہیں رہتا۔ اب اس کے بر عکس ہو ناممکن نہیں۔ کیونکہ قلم نے جو لکھنا تھا وہ لکھ چکی اور اللہ کریم کے علم سابق میں بندے کا حصہ اس کے لیے مقرر ہو چکا ہے۔ 

پس بندہ اللہ تعالی کے حکم کی بجا آوری کرتے ہوئے دنیا کی نعمتوں کو قبول کر تا ہے ا سے یہ علم دیا جاتا ہے اور وہ تقدیر کے ہاتھوں مجبور ان نعمتوں سے لطف اندوز ہوتا ہے۔ وہ یہ سب کچھ اپنی خواہش اور ارادے سے نہیں کرتابلکہ فعل خداوندی اس میں جاری ہو تا ہے اس لیے اسے دگنا ثواب ملتا ہے۔ کیونکہ یا تو وہ اللہ کے علم کی پیروی کر رہا ہو تا ہے۔ یا فعل خداوندی کی موافقت کر رہا ہوتا ہے جو بندے میں جاری و ساری ہے۔ 

اگر کوئی یہ سوال کرے کہ اس آدمی کو دگنا ثواب کیسے مل سکتا ہے حالانکہ بقول آپ کے وہ بلند ترین مقام پر فائز ہے۔ اس کا شمار ابدال وعار فین میں ہوتا ہے۔ جن کے اندر فعل خداوند ی جاری و ساری ہے۔ جو خلق، ہوا وہوس اور ارادے، تمنادوں۔ آرزؤوں اور نیک اعمال پر کسی معاوضے سے فانی ہیں۔ جن کی نظر میں سب عبادتیں ساری اطاعتیں محض اللہ عزوجل کا فضل و کرم ، اس کی رحمت اور توفیق ہے۔ اور وہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ وہ اللہ تعالی کے بندے ہیں اور بندہ اپنے آقا پر کوئی حق نہیں رکھتا۔ کیونکہ بندہ اپنی تمام حرکات و سکنات میں اور اپنے ہر عمل میں اپنے مالک کی ملکیت ہوتا ہے۔ ایسے شخص کے بارے یہ کہنا کیونکر صحیح ہو سکتا ہے کہ اس کو ثواب ملتا ہے حالانکہ وہ اپنے فعل پر کسی ثواب اور معاوضے کا طالب نہیں۔ اس کی اپنے عمل پر نظر ہی نہیں۔ بلکہ وہ اپنے آپ کو کار خلائق اور اعمال سے تہی دست خیال کرتا ہے؟

تو اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ کسی حد تک تو یہ صحیح ہے کہ بندہ کسی ثواب کا مستحق نہیں مگر اللہ تعالی کریم ہے وہ اپنے فضل و کرم سے بندے کو اپنا قرب بخشتا ہے۔ اسے نعمتوں سے نوازتا ہے۔ خود ہی اس کی تربیت فرماتا ہے اور لطف و کرم اور رحمت ورافت کرتے ہوئے اس کی نگہداشت کرتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ بندہ دنیاوی حا جتوں اور نفسانی مصلحتوں سے ہاتھ روک لیتا ہے اور آخرت کی نعمتوں کا طالب بن جاتا ہے اور شیر خوار بچے کی طرح اپنی ضروریات کے لیے تگ و دو نہیں کرتا اور دفع شر میں اپنی ذات پر بھروسہ نہیں کر تا تو اللہ تعالی محض اپنے فضل سے اس کی تمام ضرورتوں کو پورا کر تا ہے۔ اور جس طرح مخلوق کے دل میں اپنے اس بندے کی محبت ڈال دیتا ہے۔ ہر شخص اس پر مہربان ہو جاتا ہے۔ اس سے رافت و ر حمت کا سلوک کرتا ہے اس کی بھلائی کا خواہاں ہو تا ہے۔ 

اسی طرح دنیا کی ہر فانی چیز کو اللہ تعالی کے امر اور فعل کے بغیر حرکت نہیں ہوتی۔ اللہ کریم دنیا و آخرت میں اپنے بندے کو نواز تا ہے۔ اس سے تمام تکالیف کو اپنے فضل و کرم سے دور کر تا ہے۔ اور یہ سب بلا استحقاق محض فضل خداوندی سے ہو تا ہے۔ رب قدوس کا ارشاد ہے۔ 

إِنَّ وَلِيِّيَ اللَّهُ الَّذِي نَزَّلَ الْكِتَابَ وَهُوَ يَتَوَلَّى الصَّالِحِينَ یقینا میرا حمایتی اللہ ہے جس نے اتاری یہ کتاب ۔ اور وہ حمایت کیا کر تا ہے نیک بندوں کی“۔ 

اسکانہ دینا عطا اور اس کی ابتلاء رحمت ہے

حضرت شیخ عبد القادر جیلانی رضی اللہ تعالی عنہ وارضاه نے فرمایا : الله تعالی اہل ایمان میں سے اپنے محبوب بندوں اولیاء و عارفین کو مصائب و آلام سے دوچار کر تا ہے تا کہ یہ لوگ اس کی بارگاہ میں دست سوال دراز کریں اور وہ کریم پروردگار ان کی دعاؤوں کو شرف قبولیت بخشے۔ پس جب یہ لوگ اللہ تعالی کی بارگاہ میں سوال کرتے ہیں تو اللہ تعالی ان کی دعا کی قبولیت کو پسند فرماتا ہے تاکہ صفت جودو کرم کو ان کا حق عطا کرے کیونکہ جب بنده مؤ من اللہ تعالی سے سوال کرتا ہے تو یہ دونوں صفتیں مطالبہ کرتی ہیں کہ ان کی دعا قبول ہو۔کبھی ایسا بھی ہو تا ہے کہ اللہ تعالی کی بارگاہ میں اہل اللہ سوال کرتے ہیں لیکن فوری طور پر اس کی مقبولیت کا اندازہ نہیں ہوتا۔ اس کی وجہ عدم قبولیت اور محرومی نہیں بلکہ تقدیر ایزدی اسے کسی دوسرے وقت کے لیے مخصوص کر چکی ہے۔ اس لیے مصیبت کے وقت بندے کو آداب خداوندی کا لحاظ رکھنا چاہیئے۔ اور اپنے گناہوں پر نظر رکھنی چاہیئے کہ کہیں ظاہر میں یاباطن میں اس سے کوئی خطا سرزد نہ ہو جائے۔ اور امر خداوندی کو ترک نہ کر بیٹھے اور اس سے مناہی کا ارتکاب نہ ہو جائے۔ اسے خیال رکھنا چاہیئے کہ اللہ تعالی کے فیصلے کے خلاف کوئی سوال نہ کر بیٹھے۔ کیونکہ بندہ اپنے گناہوں کے باعث مبتلائے مصیبت ہو تا ہے۔ پس اسے چاہیئے کہ دعا کرے۔ اگر مصیبت سے نجات مل جائے تو بہت اچھا ورنہ اس کی بارگاہ میں دست دعا دراز کیے رکھے کیونکہ ممکن ہے یہ مصیبت محض اس لیے ہو کہ بندہ اس کی بارگاہ میں سوال کرتا رہے۔ اگر دعا کی قبولیت میں تاخیر ہو جائے تو اس کو الزام نہیں دینا چاہیئے جیسا کہ ہم نے بالتفصیل بیان کیا ہے۔

آداب السلوک شیخ عبد القادر الجیلانی صفحہ 146 ،مکتبہ دارالسنابل دمشق شام


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں