سالک کے اپنے احوال پر اطلاع نہ پانے کے بھید میں اور اس کو مسترشدوں اور مریدوں کے آئینوں میں مشاہدہ کرنے کے بیان میں مولانا احمددبینی کی طرف صادر فرمایا ہے:۔
اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ وَسَلَامٌ عَلٰی عِبَادِہِ الَّذِیْنَ اصْطَفٰی (الله تعالی کی حمد ہے اور اس کے برگزیدہ بندوں پر سلام ہو) آپ کا مکتوب شریف پہنچا۔ آپ نے لکھا تھا کہ میں اپنے آپ میں اس گروہ کے احوال ومواجید اور علوم و معارف کچھ نہیں پاتا۔ باوجود اس بات کے دو طالبان راہ کو طریقہ بتایا۔ وہ بہت متاثر ہوئے اور ان سے عجیب وغریب احوال ظاہر ہوئے۔ اس کی وجہ کیا ہے۔ واضح ہو کہ جو احوال ان دونوں شخصوں میں ظاہر ہوئے ہیں آپ کے احوال کے عکس ہیں۔ جو ان کی استعداد کے آئینوں میں ظاہر ہوئے ہیں۔ چونکہ وہ دونوں شخص صاحب علم تھے انہوں نے اپنے احوال کو معلوم کر لیا اور آپ کو بھی اس حال مستور کے حاصل ہونے کے علم کی طرف رہنمائی کی جس طرح کہ آئینہ شخص کے خفیہ کمالات کے حاصل ہونے کی طرف دلالت کرتا ہے اور اس کے پوشیدہ ہنروں کو ظاہر کر دیا ہے۔ مقصود احوال کا حاصل ہونا ہے اور ان احوال کا جاننا ایک علیحدہ دولت ہے۔بعض کو یہ علم دیتے ہیں اور بعض کو نہیں دیتے،لیکن دونوں صاحب ولایت اور قرب میں برابر ہوتے ہیں۔ منامن علم ومنا من جهل (ہم میں سے ہے جو جانتا ہے اور ہم میں سے ہے جو نہیں جانتا) اس گروہ کے نزدیک مقرر اور مانی ہوئی بات ہے اپنے احوال کا علم نہ ہونے سے آزردہ نہ ہوں۔ کوشش کریں کہ احوال حاصل ہوں۔ بلکہ احوال سے گزر کر احوال کے پھیرنے والے (حق تعالی )کے ساتھ واصل ہوں۔ احوال کا علم اگر مریدوں کے واسطہ کے بغیر میسر نہ ہو تو اسی پر قناعت کریں کہ ان کےآئینوں میں مطالعہ کریں اور مظہروں کے ذریعےحظ حاصل کریں۔ احوال حاصل ہونے چاہئیں اور ان احوال کا عمل اگر بالواسطہ میسر نہ ہو تو امید ہے کہ وسیلہ سے حاصل ہو جائے گا۔ نیز آپ نے لکھا تھا کہ دوام آگاہی سے کیا مراد ہے۔ اکثر اوقات بعض کاروبار میں اس آگاہی سے دل کی غفلت محسوس ہوتی ہے۔ آگاہی اور دوام آگاہی کی تشخیص کرنی چاہئے۔
واضح ہو کہ آ گاہی حق تعالی کی جناب پاک میں حضور باطن سے مراد ہے۔ جس طرح کے علم حضوری جس کو دوام لازم ہے۔ کیا آپ نے کبھی سنا ہے کہ کبھی کوئی شخص اپنے نفس سے غافل ہوا ہے یا اپنی نسبت اس کو غفلت ونسیان پیدا ہوا ہے۔ غفلت وذ ہول علم حصولی میں متصور ہے۔ جس میں مغائرت پائی جاتی ہے۔ علم حضوری میں سب حضور در حضور ہے۔ اگر چہ نادان اور بیوقوف آدمی اس حضور سے دور اور نفور ہے اور اس کے حاصل ہونے سے مغرور ہے۔ آگاہی کے لیے دوام لازم ہے اور جس میں دوام نہیں وہ مطلوب کی نگرانی ہے۔ جو اس آگاہی مذکور کے مشابہ ہے۔ اس کا دوام مشکل ہے۔ کیونکہ علم حصولی کے ساتھ مشابہت رکھتی ہے۔ جو دوام سے بے نصیب ہے۔ وَلِلَّهِ الْمَثَلُ الْأَعْلَى (مثال اعلى اللہ تعالی کے لیے ہے) حق تعالی کی پاک بارگاہ کی نسبت علم حصولی اور علم حضوری کا اطلاق کرنا تشبیہ اور تنظیر کے طور پر ہے۔ کیونکہ وہ ذات پاک جو اپنے آپ سے زیادہ نزدیک ہے۔ علم حصولی اورعلم حضوری کے احاطہ سے باہر ہے۔ ارباب معقول اگر چہ اس کو تصورنہیں کر سکتے اور اپنے سے زیادہ نزدیک کونہیں پا سکتے ، لیکن علوم لدنی والوں کے نزدیک یہ بات واضح ہے اور حق تعالی کی عنایت سے آسانی کے ساتھ حاصل ہے۔ رَبَّنَا آتِنَا مِنْ لَدُنْكَ رَحْمَةً وَهَيِّئْ لَنَا مِنْ أَمْرِنَا رَشَدًا (یا اللہ تو اپنے پاس سے ہم پر رحمت نازل فرما اور ہمارے کام سے بھلائی ہمارے نصیب کر)
دوسرے یہ کہ سیادت پناه برادرم میر محمدنعمان آپ پر بہت حقوق رکھتے ہیں۔ آپ کے بے اجازت آنے سے دل آزردہ ہیں۔ آپ کو چاہئے کہ بلا توقف ان کی خدمات میں حاضرہو جائیں اور ان کی آزار کی تلافی کریں۔ اگر آپ ان سے رخصت لے کر آتے تو کچھ مضائقہ نہ تھا۔ آپ کو مناسب ہے کہ ان کی مرضی کے موافق عمل کیا کریں اور رخصت سے آیا جایا کریں۔ اس سے کیا زیادہ کہا جائے ۔ والسلام
مکتوبات حضرت مجدد الف ثانی دفتر سوم صفحہ46 ناشر ادارہ مجددیہ کراچی