سرکار دوعالم ﷺ کاطہارت نسب

انا محمد بن عبداﷲ بن عبدالمطلب ان اﷲ خلق الخلق فجعلنی فی خیرھم ثم جعلھم فرقتین فجعلنی فی خیرھم فرقۃ ثم جعلھم قبائل فجعلنی فی خیرھم قبیلۃ ثم جعلھم بیوتا فجعلنی فی خیرھم بیتا و خیرھم نفساً

 (جامع الترمذی ۲:۲۰۱)

’’میں محمد بن عبداﷲ بن عبدالمطلب ہوں بے شک اﷲ تعالیٰ نے مخلوق کو پیدا کیا پھر جو بہترین مخلوق تھی مجھے اس میں رکھا۔ پھر اﷲ تعالیٰ نے مخلوق کے اس حصے کو دو گروہوں میں تقسیم کیا۔ جو بہترین گروہ تھا مجھے اس میں رکھا۔ پھر اس گروہ کو قبائل میں تقسیم کیا جو بہترین قبیلہ تھا مجھے اس میں رکھا ۔ پھر اس قبیلے کو گھرانوں میں تقسیم کیا جو بہترین گھرانہ تھا مجھے اس میں رکھا سو میں ذات اور گھرانہ دونوں حوالوں سے سب سے بہتر ہوں ‘‘۔

سرکار دوعالم ﷺ جس وقت دنیا میں تشریف لائے یہ وہ وقت تھا جب جاہلی معاشرے حسب و نسب کو بہت اہمیت دیتے تھے ۔ کسی بے حیثیت اور نسبی اعتبار سے کم تر شخص کو انسان سمجھنے کے لئے بھی تیار نہیں تھے ۔ اس شخص کو عام معاشرے میں کوئی مقام نصیب نہیں ہوتا تھاجس کا شجرہ نسب مشکوک ہو اور جو لوگوں کی نظروں میں مجہول النسب ہوتا وہ جدھر جاتا تھا لوگ انگلیاں اٹھاتے اور اس پر آواز کستے ۔ عزت و تکریم نام کا کوئی جذبہ اس کے لئے دلوں میں پیدا نہیں ہوتا تھا۔

اس لئے جتنے بھی انبیاء کرام اس دنیا میں مبعوث ہوئے اور جتنے بھی جلیل المرتب رسول تشریف لائے وہ سب خاندانی اور اعلیٰ حسب و نسب کے مالک تھے ۔ قدرت نے ایسے بلند مرتبہ خاندانوں میں انھیں پیدا فرمایا جن کی عظمت و فوقیت کو اس دور کے لوگ نہ صرف تسلیم کرتے تھے بلکہ اپنے سے برتر و اعلیٰ سمجھتے تھے۔

حدیث نبوی ﷺ میں ہے ۔ اﷲ تعالیٰ معاشرے میں سے بہترین افراد ہی کو نبی بنا کر بھیجتا تھا۔ حضرت قتادہ رضی اﷲ عنہ کہتے ہیں ہمیں حضور ﷺ نے بتایا بے شک اﷲ تعالیٰ جب ارادہ فرماتا تھا کہ نبی مبعوث فرمائے تو زمین پر سب سے بہترینب قبیلے پر نظر فرماتا تھا اور پھر اس بہترین آدمی کو نبی بنا کر مبعوث فرماتا تھا ۔ (طبقات ۲۵۱۱)

سر زمین عرب میں تو خاندانی و جاہت اور نسبی شرف کو کچھ زیادہ اہمیت دی جاتی تھی اہل عرب اس بارے میں بڑے حساس واقع ہوئے تھے وہ اپنے آباؤ اجداد کی خوبیاں اور کارنامے اس طرح بیان کرتے کہ جیسے دنیا میں کرنے کے لئے یہی ایک کام رہ گیا ہو ۔ پھر جو شخص آبائی بڑائی ثابت کرنے میں کامیاب ہو جاتا اسے سب عظمت کے تخت پر بٹھا دیتے اور دل و جان سے اس کی سیادت و آقائی تسلیم کرنے کیلئے تیار ہو جاتے تھے۔

یہی وجہ ہے کہ جب سرور کائنات فخر موجودات صاحب لولاک امام الانبیاء جناب حضرت محمد ﷺ کی بعثت کی باری آئی تو آپ کو ایک ایسے معزز گھرانے میں تولد بخشا گیا جس کی شرافت و نجابت اور وقار جلال کا سارے عرب میں شہرہ تھا سب اس خاندان کی خوبیوں اور نیکیوں کے گیت گاتے تھے اور سب کو اعتراف تھا کہ بنو ہاشم ایک ایسا گھرانہ ہے جو سخاوت و شجاعت ، علم و فضل ، تقویٰ و طہارت ، خلوص و ایثار ، عدل و دیانت ، استقلال و جرائت اور صورت و سیرت غرض یہ کہ ہر اعتبار سے بے مثال ہے اور یہ گھرانہ اپنے اوصاف کے حوالے سے پورے عرب کا جھومر ہے ۔

حضور نبی کریم ﷺ نے خود بھی اپنے اعلیٰ حسب و نسب کی پاکیزگی اور طہارت کو بڑے اہتمام کے ساتھ معنی خیز انداز میں بیان فرمایا ہے ۔ حضرت انس رضی اﷲ عنہ سے مرسلاً روایت کرتے ہیں :امام بیہقی اور حافظ ابن کثیر فرماتے ہیں کہ یہ روایت بالکل جید و عمدہ ہے جسمیں حضور اکرم ﷺ نے فرمایا : جب یعنی نسل انسا نی کو دو طبقات میں تقسیم کیا گیا تو مجھے (یعنی میرے نور کو) ان میں سے بہتر طبقہ میں رکھا گیا۔ پس میرے نسب کو ہر جگہ ایسے والدین (کی صلبوں اور رحموں ) میں رکھا گیا اور نکالا گیا کہ میرے نسب کو دور جاہلیت کی کسی برائی نے چھوا تک نہیں میرے سلسلہ نسب میں ہمیشہ نکاح قائم رہا ہے کبھی بھی میرے تولد (یعنی نور کی منتقلی ) میں غلط کاری کا دخل نہیں ہوا۔ یہ پاکیزگی اور طہارت حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر میرے حقیقی والدین (حضرت عبداﷲ اور حضرت آمنہ ) تک بر قرار رہی ہے حتیٰ کہ ( اسی طہارت نسبی کیساتھ ) میری ولادت ہوئی ۔ پس میں اپنے ذاتی شرف اور نسبی شرف دونوں میں تم سے بہتر ہوں ۔علاوہ ازیں قرآن پاک سے بھی آپ ﷺ کے نسب کی عظمت کے زریں اشارات ملتے ہیں جیسا کہ ارشاد خداوندی ہے : لقد جآء کم رسول من انفسکم بے شک تمہارے پاس تمہیں میں سے ایک عظیم رسول تشریف لائے

حضرت انس بن مالک رضی اﷲ عنہ روایت کرتے ہیں : حضور نبی کریم ﷺ نے یہ آیت کریمہ تلاوت فرمائی اور حرف ’’فا‘‘ کو نربر کے ساتھ’’من انفسکم ‘‘پڑھا اور فرمایا میں حسب و نسب اور خاندانی قرابت کے حوالے سے تم سب سے افضل ہوں میرے آباؤ اجداد میں حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر آج تک کوئی بھی غلط راستہ پر نہیں نکلا سب نکاح کرتے رہیں ہیں ۔قرآن مجیدمیں مذکور ہے :

وتوکل علی العزیز الرحیم ہ الّذی یراک حین تقوم ہ وتقلبک فی الساجدین ہ (سورۃ الشعراء ۲۶۔۲۱۷:۲۱۹)

’’غالب و مہربان رب پر توکل کیجئے جو آپ کو دیکھتا ہے جب آپ قیام فرماتے ہیں اور ساجدین میں آپ کا اٹھنا بیٹھنا بھی ( دیکھتا ہے )‘‘۔ حضرت ابن عباس رضی اﷲ عنہ سے اس آیت کریمہ کا ایک یہ مفہوم بھی مروی ہے کہ اس میں حضور نبی کریم ﷺ کے نورانی سلسلہ نسب کی کیفیت بیان کی گئی ہے اور اس کی طہارت و عظمت اور نورانیت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے یعنی یہ بتایا گیا ہے کہ نبوت کے سلسلہ نسب میں تمام ہستیاں ساجد و عابد رہی ہیں ان کے کردار و عمل میں کوئی کجی اور ان کی ذات میں کوئی اخلاقی کمزوری نہیں تھی ۔ نور نبوت کی امین یہ پاکباز ہستیاں جائز و حلال طریقہ سے اور شریعت خداوندی کے مطابق نور محمدی کو امانت ایک دوسرے کو منتقل کی ہیں حتیٰ کے حضرت آمنہ رضی اﷲ عنہا کو تفویض ہوئی اور انہوں نے منشائے خداوندی کے مطابق اسے دنیا والوں کو عطا کیا۔

حضرت ابن عباس رضی اﷲ عنہ سے ایک اور روایت اسطرح سے ہے کہ حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا : اﷲ تبارک و تعالیٰ بڑی ہی پاکیزہ اور مہذب و شستہ حالت میں میرے نور کو طیّب و طاہر پشتوں سے پاکیزہ شکموں میں منتقل فرماتا رہا، جونہی کوئی خاندان دو حصوں میں تقسیم ہوتا تھا مجھے بہترین خاندان میں رکھ دیا جاتا تھا۔ (دلائل النبوۃ ۔ ابو نعیم ۲۴)

امام فخر الدین رازی رحمتہ اﷲ علیہ نے اسی امر کی تائید میں حضور نبی کریم ﷺ کی اس حدیث مبارکہ سے استدلال کیا ہے لم ازل انقل من اصلاب الطاہرین الی ارحام الطاہرات یعنی میں ہمیشہ بلا انقطاع پاک صلبوں سے پاک رحموں کی طرف منتقل ہوتا ہوا آیا ہوں ۔ (الحاوی للفتاوی ، للسیوطی ۔ ۲: ۳۶۷)

مروی ہے کہ کچھ لوگوں نے ایک دفعہ اس بارے میں کوئی غلطی کی حضرت عباس رضی اﷲ عنہ نے بارگاہ رسالت ﷺ میں آکر اس کا ذکر کر دیا جس پر حضور نبی کریم ﷺ نے فوراً لوگوں کو حاضر ہونے کا حکم دیا اور نسبی طہارت واضح کرنے کے لئے آپ خصوصی طور پر منبر پر تشریف فرماہوئے اور فرمایا ۔ بتاؤ میں کون ہوں سب نے بیک زبان عرض کیا انت رسول اﷲ آپ اﷲ تعالیٰ کے سچے رسول ہیں پھر آپ ﷺ نے فرمایا : میں محمد بن عبداﷲ بن عبدالمطلب ہوں بے شک اﷲ تعالیٰ نے مخلوق کو پیدا کیا پھر جو بہترین مخلوق تھی مجھے اس میں رکھا پھر اﷲ تعالیٰ نے مخلوق کے اس حصے کو دو گروہوں میں تقسیم کیا جو بہترین گروہ تھا مجھے اس میں رکھا پھر اس گروہ کو قبائل میں تقسیم کیا اور جو بہترین قبیلہ تھا مجھے اس میں رکھا پھر اس قبیلے کو گھرانوں میں تقسیم کیا جو بہترین گھرانہ تھا مجھے اس میں رکھا سو میں ذات اور قبیلہ و گھرانہ دونوں حوالوں سے افضل ہوں ۔

ابن عباس رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے اس موقع پر لوگوں کو اپنا نسب مبارک بیان کرنے کا حکم فرمایا اور ارشاد فرمایا : ان لوگوں کا کیا حشر ہو گا جو میرے نسب اور اصل میں طعن کرتے ہیں ارشاد فرمایا : فواﷲ انی لا فضلھم اصلاً و خیرھم موضعاً ’’پس خدا کی قسم میں ان سب سے اپنی اصل و نسب اور اپنے مقام و منصب ہر وہ اعتبار سے افضل ہوں ‘‘۔ معلوم ہوا کہ حضور نبی کریم ﷺ کے نسب مبارک میں آپ کے جملہ آبائے اطہار اور امہات طاہرات میں سے کسی پر بھی زبان طعن درازکرنا اور ان کی عزت تکریم کے خلاف بات کرنا براہ راست حضور نبی کریم ﷺ پر طعن کے مترادف ہے اور آپ ﷺ کی ناراضگی کا باعث ہے ۔

حضرت واثلہ بن الاسقع رضی اﷲ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور ﷺ نے فرمایا بے شک اﷲ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم خلیل اﷲ علیہ السلام کی اولاد سے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو چنا اور اسماعیل علیہ السلام کی اولاد سے ’’بنو کنانہ ‘‘ کو چنا اور بنو کنانہ سے قریش کو چنا اور قریش سے بنو ہاشم کو چنا اور بنو ہاشم سے مجھے منتخب فرمایا ۔ (طبقات ابن سعد ۱:۲۰)

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا سے مروی ہے حضور ﷺ نے فرمایا جبریل علیہ السلام نے فرمایا میں نے مشرق و مغرب چھان ڈالے ہیں لیکن اﷲ کے حبیب حضرت محمد مصطفی ﷺ سے افضل و اعلیٰ کسی کو نہیں پایا اسی طرح زمین کا چپہ چپہ کھنگال ڈالا ہے لیکن کسی خاندان کو بنی ہاشم سے افضل نہیں پایا ۔

یہی بولے سدرہ والے چمن جہاں کے تھالے

سبھی میں نے چھان ڈالے تیرے پائے کا نہ پایا

تجھے یک نے یک بنایا

وہ کنواری پاک پریم وہ نفخت فیہ کا دم

ہے عجب نشان اعظم مگر آمنہ کا جایا

وہی سب سے افضل آیا

جن خاندانوں اور قبیلوں کو حضور نبی کریم ﷺ کے نور مبارک کا امین اور آباؤ اجداد ہونے کا شرف حاصل ہوا آپ کے نور مبین کے صدقے انہیں بھی اﷲ تعالیٰ نے اپنے اپنے دور میں ایسی انفرادیت و عظمت عطا کر دی تھی کہ جو انہیں دیکھتا ان کی خاندانی وجاہت و عظمت اور ان کی ذاتی شرافت و نجابت کا قائل ہو جاتا ۔ ان حقائق و شواہد اور پہلے بیان کی گئی آیات و احادیث مبارکہ سے یہ بات واضح ہوئی کہ اﷲ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر حضور ﷺ کے والد گرامی حضرت عبداﷲ رضی اﷲ عنہ تک جن سعادت مند اور خوش بخت خواتین و حضرات کو اپنے محبوب کریم نبی آخرالزماں ﷺ کے نور مبارک کا امین بنایا وہ سب اعلیٰ اور پاکیزہ اخلاق اور مضبوط کردار کے مالک تھے وہ تمام نازیبا اور غیر اخلاقی حرکات سے پاک تھے جو دور جاہلیت میں کثرت سے پائی جاتیں تھیں آپ کے نسب نامہ میں اس مثالی پاکیزگی اور بلند پایہ طہارت کی ضرورت بھی تھی تاکہ کوئی زبان طعن دراز نہ کر سکے ۔

لیکن بدقسمتی سے دور حاضر میں اختلافات کی بوچھاڑ اس قدر بڑھی کہ بغض عناد کی بنا پر اﷲ تعالیٰ کے پیارے محبوب ﷺ کے پاکیزہ نسب اور آپ ﷺ کے والدین کریمین پر انگلیاں اٹھانی شروع کر دیں حالانکہ قرآن پاک کے حوالے سے دیکھا جائے تو جب عیسیٰ علیہ السلام کی امانت حضرت بی بی مریم کو سونپی گئی تو اﷲ تبار ک وتعالیٰ نے ان کی شان کو بیان کرتے ہو ئے فرمایا یمریم ان اللّٰہ اصطفک اطھرک واصطفک علٰی نساء العلمین ’’ائے مریم بے شک اﷲ نے تجھے چن لیا اور خوب ستھرا کیا اور آج سارے جہان کی عورتوں سے تجھے پسند کیا‘‘

اس سے پتہ چلا کہ جس والدہ کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی امانت سونپی گئی وہ اس وقت کی تمام عورتوں سے بہتر تھیپھر جن والدین کو سرکار دوعالم ﷺ کا نور اقدس عطا کیاگیا وہ کس قدر پاکیزہ ہو نگے اﷲ تبارک وتعالیٰ سے دعا ہے کہ اﷲ تعالیٰ ان کو ہدایت عطا فرمائے جو اس پاکیزہ نسب کی طرف اپنی میلی آنکھ سے دیکھتے ہیں ۔ اﷲ تبارک وتعالیٰ اس نور اقدس کا صدقہ ہمارے قلوب و اذہان کو روشن و منور فرمائے اور اپنے انعام یافتہ بندوں کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین۔


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں