خواجہ حسام الدین کی طرف اس کے خط کے جواب میں جس میں اس نے متعلقین کے ساتھ کے ساتھ حج کےسفر کے مشورہ طلب کیا تھا:۔
اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ وَسَلَامٌ عَلٰی عِبَادِہِ الَّذِیْنَ اصْطَفٰی (اللہ تعالی کی حمد ہے اور اس کے برگزیدہ بندوں پر سلام ہو)اس طرف کے فقراء کے احوال و اوضاع حمد کے لائق ہیں اور آپ کی سلامتی اور عافیت اللہ تعالی سے مطلوب ہے۔ آپ کا صحیفہ شریفہ جو از روئے شفقت و مہربانی کے اس فقیر کے نام لکھا تھا اس کے مطالعے سے مشرف ہوا۔ آپ نے اس امر کا اشتیاق ظاہر فرمایا تھا کہ حرمین شریفین(مکہ مکرمہ مدینہ منورہ) میں سے کسی ایک میں متعلقوں کے وطن اختیار کر لیں اور وہیں دفن ہوں۔ میرےمخدوم و مکرم (میری نظر میں)متعلقین کا جانا نظر نہیں آتا۔ بلکہ نزدیک ہے کہ منع مفہوم ہو۔ اگر آپ تنہا چلے جائیں تو پسندیدہ نظر آتا ہے اور امید ہے کہ سلامت پہنچ جائیں گے۔ والأمر إلى الله سبحانه (آگے جو الله تعالی کو منظور ہے) دوسرے جو آپ نے سیادت مآب کے بارہ میں لکھا تھا کہ طبیب ان کے ضرر کا حکم دیتے ہیں۔ اے میری شفقت کے نشان والے۔ جہاں تک غور کیا جاتا ہے کوئی ضرر نہیں آتا۔ البتہ ایک ظلمت محسوس ہوتی ہے۔ جواس ضرر کے ماسوا ہے۔ دیکھیئے اس کی وجہ کیا ہوتی ہے۔ غرض طبیبوں کا ضرر کہنامفقود ہے۔ والله سبحانہ ا علم (اللہ تعالی جانتا ہے والسلام
مکتوبات حضرت مجدد الف ثانی دفتر سوم صفحہ127ناشر ادارہ مجددیہ کراچی