جب حق تعالی کی رحمت و عنایت سلطان ابراہیم بن ادهم کی طرف متوجہ ہوئی تو ان پر عشق حقیقی کا ایسارنگ چڑھا کہ بلخ کی سلطنت چھوٹ گئی۔
مگر باطنی سلطنت ایسی ملی جس کے سامنے ہفت اقلیم کی سلطنت بلکہ زمین و آسمان کے خزانے بھی بے حقیقت ہو گئے ۔ شاہ کو خود بھی خود کی خبر نہ تھی کہ سلطنت کا سرسبز و شاداب باغ آتش حقیقی کی نظر ہونے والا ہے………… کوڑیاں چھین کر جواہرات عطا ہونے والے ہیں ۔ خارستان سوختہ ہو کر چمنستان بے خزاں بنے والا ہے۔ جب کسی کے بھلے دن آتے ہیں تو اسی طرح ہوتا ہے۔ حضرت ابراہیم بن ادهم رات کو بالا خانہ پر سورہے تھے کہ اچانک پاؤں کی آہٹ محسوس ہوئی ۔ گھبرائے کہ رات کے وقت شاہی بالا خانہ پر کون لوگ ایسی جرأت کر سکتے ہیں۔ دریافت فرمایا :
اےوار دین کرام آپ کون لوگ ہیں؟‘یہ فرشتے تھے جوحق تعالی کی طرف سے غفلت زدہ دل پر چوٹ لگانے آئے تھے۔ فرشتوں نے جواب دیا ” ہم یہاں اپنا اونٹ تلاش کر رہے ہیں ۔‘ بادشاہ نے کہا:’’ حیرت ہے کہ شاہی بالا خانہ پر اونٹ تلاش کیا جارہا ہے۔
ان حضرات نے جواب دیا کہ ہمیں اس سے زیادہ حیرت آپ پر ہے کہ اس
نازپروری اور عیش میں خدا کو تلاش کیا جارہا ہے‘‘
پس بگفتندش که تو بر تخت شاه چون همی جوئی ملاقات از اله
انہوں نے بادشاہ سے کہا کہ تو شاہی تخت پرحق تعالی کی ملا قات کو کیوں تلاش کر رہا ہے۔ یہ کہہ کر وہ رجال الغیب تو غائب ہو گئے لیکن بادشاہ کے دل پرایسی چوٹ لگ گئی کہ ملک و سلطنت سے دل سرد ہوگیا۔
مولا ناروم رحمۃ اللہ علیہ بیان فرماتے ہیں:
اے لوگو! سلطنت کومثل ابراہیم ابن ادهم رحمۃ اللہ علیہ کے جلد خیر باد کہد و تا کہ ان کی طرح تم بھی سلطنت باطنی سے مشرف ہوجاؤ عشق حقیقی جب اغلب ہوا تو حضرت ابراہیم بن ادھم رحمۃ اللہ علیہ سلطنت ترک کرنے پرمجبور ہو گئے عشق کائنات کی تمام لذتوں سے دل کو بے زار کردیتا ہے۔
آدھی رات کا وقت ہوا بادشاہ اٹھا کمبل اوڑھا اور اپنی سلطنت سے نکل پڑا۔ سوز عشق کی ایک آہ نے زندان سلطنت کو پھونک دیا اور دست جنون کی ایک ضرب نے گریبان ہوش کے پرزے اڑادیئے سلطنت بلخ ترک کر کے حضرت ابراہیم بن ادهم رحمۃ اللہ علیہ نیشاپور کے صحرا میں ذکرحق میں مشغول ہوگئے۔
حزبه ذکر خویش مشغولم مکن از کرم از عشق معزولم مکن
اے محبوب حقیقی !اپنے ذکر کے علاوہ مجھے کسی کام میں مشغول نہ کیجئے اور اپنے کرم
کے صدقے میں اپنے عشق سے مجھے معزول نہ فرمایئے۔
حق تعالی کا ذکر ہی اس روح کی غذا ہے اور الله تعالی کی محبت سے زخمی دل کے لئے ذکرحق ہی مرہم ہے۔ آپ دس برس تک صحرائے نیشا پور میں دیوانہ وار عبادت میں مصروف رہے۔ سلطان ابراہیم بن ادھم رحمۃ اللہ علیہ نے جب اپنے باطن میں نسبت اور تعلق باللہ کا بدر کامل روشن دیکھ لیا تو تمام خواہشات نفسانیہ اور ظاہری آرائشوں سے مستغنی ہو گئے ۔ کہاں تاج وتخت شاہی اور کہاں اب دریا کے کنارے بیٹھے ہوئے گدڑی سی رہے ہیں۔ سلطنت بلخ کا وزیر اس طرف سے گزر رہا تھا۔ اس نے بادشاہ کو اس حال میں دیکھ کر ……….. اس کور باطن نے دل میں سوچا یہ کیا حماقت ہے ہفت اقلیم کی سلطنت ترک کر کے مثل گداگروں کے گدڑی سی رہے ہیں۔ حضرت ابراہیم بن ادهم رحمۃ اللہ علیہ کو معلوم ہوگیا کہ یہ کیا سوچ رہا ہے آپ نے فورا اپنی سوئی دریا میں پھینک دی اور بآواز بلند دعا فرمائی کہ اے اللہ تعالی میری سوئی مجھے واپس عطا فرمائی جائے۔ دریا سے فورا ہزاروں مچھلیوں نے اپنے لبوں میں ایک ایک ’’سونے کی سوئی‘‘ لے کر پانی سے منہ باہر نکالا۔ جب اس امیر نے یہ کرامت بھی تو اپنے فاسد خیالات پر اور اپنی بے خبری پر سخت نا دم ہوا۔
شرمندگی اور ندامت سے ایک آہ کھینچی اور کہنے لگا کہ افسوس مچھلیاں اس مرد کامل کے مقام سے آگاہ ہیں اور میں انسان ہو کر ناواقف ہوں میں بد بخت اس دولت سے محروم ہوں مگرمچھلیاں اس معرفت سے آگاہ ہیں۔
اس کے بعد سلطان ابراہیم بن ادهم رحمۃ اللہ علیہ نے ارشاد فرمایا کہ اے امیر! یہ سلطنت دل کی بہتر ہے یا وہ حقیرفانی سلطنت بلخ کی۔
آزمودم عقل دور اندیش را بعد ازیں دیوانه سازم خویش را |
عاشقم من بر فن ديوانگی سیرم از فرهنگ و از فرزانگی
عقل اور دور اندیشی کو بہت آزمایا لیکن جب اس سے کام نہ بن سکا تو اس وقت میں نے خود کو دیوانہ بنا لیا اور کام اسی سے بنا۔ جب دیوانگی ہی کام آئی اور اسی سے محبوب حقیقی تک رسائی ہوئی تو میں اس فن دیوانگی پر عاشق ہو گیا، اور عقل و ہوش کو خیر باد کہہ دیا۔
ثمرات: جو خدا کو ہو جاتا ہے، خدا اس کا ہو جا تا ہے۔