سیر انفسی اور سیر آفاقی

سیر انفسی اور سیر آفاقی

سالک کے ایک حال سے دوسرے حال ایک تجلی سے دوسری تجلی ایک مقام سے دوسرے مقام میں منتقل ہونے کا نام سیر ہے

سیر دو قسم پر ہے سیر آفاقی اور سیر انفسی جیسا کے آیت قرآنی ہے

سَنُرِيْهِمْ اٰيٰتِنَا فِي الْاٰفَاقِ وَفِيْٓ اَنْفُسِهِمْ یعنی ہم انہیں دکھاتے ہیں اپنی نشانیاں آفاق و انفس میں

آفاق سے مراد کائنات ہے اور انفس سے مراد اپنی ذات ہے آفاق اور انفس کے درمیان اجمال و تفصیل کا فرق ہے دونوں اللہ تعالی کی نشانیوں کے محل وہ منظر ہیں جن سے حق تعالی کا پتہ چلتا ہے۔

قرب در قرب بعد در بعد 

سلوک سیر انفسی کا نام ہے جسے قرب در قرب کہا گیا ہے اور جذبہ سیر آفاقی کا نام ہے جسے بعد در بعد کہا گیا ہے

  سیر آفاقی اس لئے کہتے ہیں کہ اپنے سے باہر انوار و تجلیات مشاہدہ میں آئیں اور اس میں رنگ برنگ کی بے شمار دلکش اور قسم قسم کی دل آویز صورتیں نظر آتی ہیں۔

سیرا نفسی سے مراد سفر در وطن ہے اس کو جذبہ بھی کہتے ہیں سلسلہ نقشبندیہ کے بزرگوں کی ابتدا اسی سیر سے ہوتی ہے اور سیر آفاقی اسی سیر کے ضمن میں طے ہو جاتی ہے اور دوسرے سلسلے میں سیر آفاقی سے کام کی ابتدا ہوتی ہے اور ان کی انتہا سیر انفسی کے ساتھ ہوتی ہے سیر انفسی سے کام کی ابتدا ہونا سلسلہ نقشبندیہ کی خصوصیت ہے اور اندراج نہایت در بدایت کے یہی معنی ہے کہ سیر انفسی جو کے دوسروں کی نہایت ہے وہ اس سلسلہ کے اکابر کی ہدایت ہے سیرآفاقی مطلوب کو اپنے سے باہر ڈھونڈنا ہے اور سیر انفسی اپنے آپ میں آنااور اپنے دل کے گرد پھر نا ہے

تجلیات اسماء و صفات کا ظہور

سیر آفاقی میں تجلیات اسماء و صفات کا ظہور ہوتا ہے اور سیر انفسی میں تجلیات ذات کا ظہور ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ سیر آفاقی میں اسم ظاہر کے معارف و تجلیات سالک کی تعبیر و ادراک میں سما سکتے ہیں لیکن سیرا نفسی میں اسم باطن کے معارف و تجلیات سے وراء ہوتے ہیں کیونکہ ذات کے معارف و تجلیات بے رنگی و بے کیفی کے سبب سالک کے فہم سے بلند ہوتے ہیں اسی لیے عارفین نے اسم ظاہر کے معارف کے متعلق فرمایا

مَنْ عَرَفَ اللَّهَ ‌طَالَ ‌لِسَانُهُ یعنی جس نے اللہ کو پہچان لیا اس کی زبان دراز ہو گئی۔

اور اسم باطن کہ معارف کے بارے میں فرمایا

مَنْ عَرَفَ اللَّهَ ‌كَلَّ ‌لِسَانُهُ جس نے نے اللہ کی معرفت حاصل کی اس کی زبان گنگ ہوگئی۔


ٹیگز

سیر انفسی اور سیر آفاقی” ایک تبصرہ

اپنا تبصرہ بھیجیں