شرائط ذکر کا بیان فصل8

ذکر کرنے والے کے لیے ضروری ہے کہ اچھی طرح وضو کرے۔ ذکر کرتے ہوئے (نفی و اثبات کی) ضرب سخت لگائے اور آواز میں قوت پیدا کرے تاکہ انوار ذکر اس کے باطن میں پہنچ جائیں۔ اور ان انوار کے ذریعے اس کا دل حیات ابدی اخروی حاصل کرلے۔ جیسا کہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے۔ 

لَا يَذُوقُونَ فِيهَا الْمَوْتَ إِلَّا الْمَوْتَةَ الْأُولَى (الدخان:56( نہ چکھیں گے وہاں موت کاذا ئقہ بجز اس پہلی موت کے“ 

اسی طرح حضور ﷺکا ارشاد گرامی ہے۔ الانبياء والا ولياء يصلون في قبورهم كما يصلون في بيوتهم 

انبیاء و اولیاء اپنی قبروں میں اسی طرح نماز ادا کرتے ہیں جس طرح اپنے گھروں میں نماز اداکرتے تھے“ 

یعنی وہ ہمیشہ اپنے رب سے مناجات کرتے رہتے ہیں۔ یہاں ظاہری نماز مراد نہیں ہے۔ جس میں قیام ۔ رکوع، سجود اور قعدہ ہو تا ہے بلکہ اس سے مرادبندہ کا اپنے رب سے مناجات کرنا اور رب کی طرف سے مناجات کے صلہ میں اپنی معرفت عطا کرتا ہے۔ پس عارف اپنی قبر میں احرام باندھے اپنے رب کی طرف محو سفر رہتا ہے جیسا کہ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے۔ 

إِنَّ الْمُصَلِّيَ ‌يُنَاجِي ‌رَبَّهُ نمازی اپنے رب سے مناجات کرتا ہے“ 

پس جس طرح زندہ دل نہیں سوتا اسی طرح وہ مرتا بھی نہیں ہے تو حضور ﷺکا ارشاد گرامی ہے۔ 

تَنَامُ عَيْنَايَ وَلَا ‌يَنَامُ ‌قَلْبِي میری آنکھیں سوتی ہیں اور میرادل نہیں سوتا۔

 من مات في طلب العلم بعث الله في قبره ملكين يعلمانه علم المعرفة وقام من قبره عالما وعارفا 

جو علم حاصل کرتے ہوئے فوت ہو جائے اللہ تعالی اس کی قبر میں دو فرشتے بھیجتا ہے جو اسے علم معرفت کی تعلیم دیتے ہیں اور ایسا شخص اپنی قبر سے عالم اور عارف بن کر اٹھے گا“ 

دو فرشتوں سے مراد نبی کریم ﷺاور ولی علیہ الرحمتہ کی روحانیت ہے کیونکہ فرشتے عالم معرفت میں داخل نہیں ہو سکتے اور نہ وہ تعلیم دے سکتے ہیں۔ نبی کریم ﷺکا ارشاد گرامی ہے۔ 

کم من رجل مات جاهلا وقام يوم القيامة عالما وعارفا. وكم من رجل مات عالما وقام يوم القيامة جاهلا ومفلسا

کتنے ہی ایسے آدمی ہیں جو جاہل مریں گے لیکن قیامت کے دن عالم اور عارف بن کر اٹھیں گے اور کتنے ہی عالم مرنے والے قیامت کے دن جاہل اور کنگال بن کر اٹھیں گے“ اسی طرح الله تعالی کا ارشاد گرامی ہے : أَذْهَبْتُمْ طَيِّبَاتِكُمْ فِي حَيَاتِكُمُ الدُّنْيَا وَاسْتَمْتَعْتُمْ بِهَا فَالْيَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذَابَ الْهُونِ بِمَا كُنْتُمْ تَسْتَكْبِرُونَ (الاحقاف :20 )

تم نے ختم کر دیا تھااپنی نعمتوں کا حصہ اپنی دنیوی زندگی میں اور خوب لطف اٹھا لیا تھا تم نے ان سے۔ آج تمہیں رسوائی کا عذاب دیا جائے گابو جہ اس گھمنڈ کے جو تم کیا کرتے تھے“ حضور نبی کریم ﷺکا ارشاد ہے۔ إِنَّمَا ‌الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ ، اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے“ حضورﷺکی ایک اور حدیث مبارکہ ہے۔ إِنَّ ‌نِيَّةَ ‌الْمُؤْمِنِ خَيْرٌ مِنْ عَمَلِهِ، وَنِيَّةَ ‌الْفَاسِقِ شَرٌّ مِنْ عَمَلِهِ مومن کی نیت اس کے عمل سے بہتر ہے اور فاسق کی نیت اس کے عمل سے بھی بری ہے“ 

کیونکہ نیت اعمال کی بنیاد ہے جیسا کہ ابھی حدیث گزری ہے۔ ظاہر ہے صحیح بنیاد ہوگی تو اس پر جو عمارت کھڑی ہوگی وہ بھی صحیح ہوگی اور اگر بنیاد میں فساد ہو گا تو پوری عمارت میں یہ فساد آئے گا۔ اللہ تعالی کا ارشاد پاک ہے 

مَنْ كَانَ يُرِيدُ حَرْثَ الْآخِرَةِ نَزِدْ لَهُ فِي حَرْثِهِ وَمَنْ كَانَ يُرِيدُ حَرْثَ الدُّنْيَا نُؤْتِهِ مِنْهَا وَمَا لَهُ فِي الْآخِرَةِ مِنْ نَصِيبٍ (الشوری:20 )

جو طلب گار ہو آخرت کی کھیتی کا تو ہم اپنے فضل و کرم سے اس کی کھیتی کو اور بڑھا دیں گے اور جو شخص خواہشمند ہے (صرف) دنیا کی کھیتی کا ہم اسے دیں گے اس سے اور نہیں ہو گا اس کے لیے آخرت میں کوئی حصہ۔

 انسان کیلئے ضروری ہے کہ وہ اس دنیا میں اہل تلقین (مرشد) سے حیات قلبی اخروی طلب کرے۔ قریب ہے کہ وقت گزر جائے۔ حضور ﷺ ‌مَنْ ‌طَلَبَ ‌الدُّنْيَا بِعَمَلِ الْآخِرَةِ فَمَا لَهُ فِي الْآخِرَةِ مَنْ ‌نَصِيبٍ

جس نے اعمال آخرت کے ذریعے دنیا طلب کی اس کا آخرت کی نعمتوں میں کوئی حصہ نہیں ہو گا ۔

دنیا آخرت کی کھیتی ہے۔ جو یہاں نہیں بوئے گاوہاں کچھ حاصل نہیں کر پائے گا یہاں کھیت سے مراد وجود کی زمین ہے آفاق کی نہیں۔

سرالاسرار ،شیخ عبد القادر جیلانی صفحہ64 سلطان الفقر پبلیکیشنز لاہور


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں