شریعت کا روزہ :۔دن کے وقت کھانے پینے اور جماع سے رکنا شریعت کا روزہ ہے۔
طریقت کا روزہ :۔ظاہر اور باطن میں تمام اعضاء کو محرمات، مناہی اور ذمائم سے روکنا
طریقت کا روزہ کہلاتا ہے محرمات و مناہی اورذمائم مثلا خود پسندی، تکبر، بخل وغیرہ طریقت کے روزے کو باطل کردینے والی چیزیں ہیں۔
شریعت کے روزے کے لیے وقت مقرر ہے جبکہ طریقت کاروزہ پوری عمر کے لیے ابدی ہے ۔ اسی لیے حضور ﷺنے فرمایا :
رُبَّ صَائِمٍ لَيْسَ لَهُ مِنْ صِيَامِهِ إِلَّا الْجُوعُ
کئی روزہ دار ایسے ہیں جنہیں بھوک کے سواء روزوں سے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔
اسی لیے یہ مقولہ مشہور ہے کہ کئی روزہ دار مفطر (روزہ نہ رکھنے والے) ہوتے ہیں اورکئی مفطر روزہ دار ۔ یعنی اپنے تمام اعضاء کو گناہوں سے بچاتے ہیں اور کسی شخص کو تکلیف نہیں دیتے۔ حدیث قدسی ہے۔
وَالصَّوْمُ لِي وَأَنَا أَجْزِي بِهِ بے شک روزہ میرے لئے ہے اور میں ہی اس کی جزادوں گا
رب قدوس نے فرمایا( حدیث قدسی) يَصيرُ لِلصَّائِمِ فَرْحَتَانِ : فَرْحَةٌ عِنْدَ الإفْطَارِ، وفَرْحَةٌ عِندَ رُؤيَةِ جَمَالي
روزہ دار کے لیے دو خوشیاں ہیں۔ ایک خوشی تو افطار کے وقت کی ہے اور دوسری خوشی میرے جمال کی دید کے وقت کی ہے۔
اہل شریعت کے نزدیک افطار غروب آفتاب کے وقت کچھ کھاپی لینا ہے اور عید کی رات چاند کا نظر آنا ہے لیکن اہل طریقت کہتے ہیں۔ افطار جنت کی نعمتوں سے ہو گا جبکہ رب قدوس کے فضل سے انسان جنت میں داخل ہو گا۔ دیدار کے وقت کی مسرت سے مراد یہ ہے کہ بند مؤ من قیامت کے روز اللہ کریم سے ملاقات کرے گا اور اسے باطن کی آنکھ سے روبرو دیکھے گا تو اسے خوشی و مسرت حاصل ہوگی۔
روزے کی ایک تیسری قسم بھی ہے جسے حقیقت کا روزہ کہتے ہیں۔
حقیقت کا روزہ :۔اس سے مراد جان کا محبت غیر سے رکنا ہے اور سرّ کا مشاهده غیر کی محبت سے رکنا ہے۔ حدیث قد سی ہے۔
الإنسانُ سرّي وأنا سرُّهُ انسان میر اراز اور میں اس کا راز ہوں
یہ سر نور خداوندی سے ہے یہ کسی غیر کی طرف مائل نہیں ہو تا۔ اور اللہ کے سواء اس کا کوئی اور محبوب مرغوب اور مطلوب بھی نہیں ہے۔ نہ دنیا میں اور نہ آخرت میں۔ جب غیر کی محبت آگئی تو حقیقت کا روزہ فاسد ٹھہرا۔ اس روزے کی قضا صرف ایک صورت میں ہوسکتی ہے کہ انسان اللہ کریم کی طرف لوٹ آئے اور اس سے ملا قات کرنے کی کوشش کرے اس روزے کا صلہ آخرت میں اللہ تعالی کی ملا قات ہے۔
سرالاسرار ،شیخ عبد القادر جیلانی صفحہ99 سلطان الفقر پبلیکیشنز لاہور