شطحیات

شطحیات یہ ایک تصوف کی اصطلاح شطحی یا شطح کی جمع ہے

صوفیاء کرام کے یہاں ایک باب ہے جس کو شطحیات کہتے ہیں۔ اصطلاح صوفیاء میں شطح کی تعریف یہ ہے کہ وہ عجیب و غریب عبارات جو غلبہ حال اورغلبہ وجد و مستی کی انتہائی کیفیت میں بے اختیار زبان سے نکل جائیں اور بظاہر قواعد شریعت کے خلاف معلوم ہوتی ہے اس کو شطح کہتے ہیں۔ ایسے شخص پر نہ کوئی گناہ ہے اور نہ دوسروں کو اس کی تقلید جائز ہے۔
خود حضرات صوفیاء نے اس کی تصریح فرمادی ہے کہ ان شطحیات پر کسی کو عمل پیرا ہونا جائز نہیں بلکہ جس شخص پر یہ احوال نہ گزرے ہوں وہ ہماری کتابوں کا مطالعہ بھی نہ کرے، تاکہ فتنہ میں مبتلا نہ ہو۔

اس سے مراد ایسی باتیں ہیں جس میں بڑائی کا اظہار اور دعویٰ پایا جائے او ریہ سالکین کی لغزشوں میں سے ایک لغزش ہے۔سیر السلوک الی ملک الملوک ،

بعض صوفیا کے نزدیک ’’شطحیات‘‘ سے مراد وہ اقوال ہیں جو شرع کے خلاف ہوں اور کسی صوفی سے حالت وجد میں اُن کا اظہار ہوا ہو۔ صوفیاء کی ایک جماعت اِن اقوال کی عجیب وغریب تاویلات کر کے اُنہیں شرع کے مطابق بتلانے کی کوشش کرتی ہے۔

شیخ ابو نصر سراج طوسی نے شطح پر اپنی کتاب ’’اللمع‘‘ میں مفصل بحث کی ہے ۔

’’صوفی کے قلب پر حالت وجد میں جو انوار و تجلیاتِ الٰہی کا ورود ہوتا ہے ان کے غلبہ کی کیفیت کو وہ ایسی غیر معروف زبان میں ادا کرتا ہے جو سننے والوں کے فہم میں نہیں آسکتے۔ البتہ جو اس کے اہل ہوتے ہیں وہ اسے سمجھ جاتے ہیں مگر جو شخص سلوک و معرفت اور اس کی واردات کی حقیقت سے بے خبر ہو اس کی سلامتی اسی میں ہے کہ وہ ان کلمات پر گفتگو نہ کرے اور اس معاملہ کو اللہ کے سپرد کر دے ‘‘۔کتاب اللمع فی التصوف ،ابونصرسراج ،ص 537،پیر محمد حسن، ادارہ تحقیقاتِ اسلامی، اسلام آباد


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں