شکر سے نعمتوں کی بارش

حضرت شیخ المشائخ، قطب ربانی، غوث صمدانی ، محبوب سبحانی، سیدنا عبد القادر جیلانی رضی اللہ تعالی عنہ وارضاہ نے تصوف و طریقت پر مشتمل کتاب” آداب السلوک والتواصل الی منازل الملوک“ میں فرمایا :

تجھے دوحالتوں سے مفر نہیں۔ مصائب و آلام میں مبتلا ہو گایا نعمت و آسائش میسر ہو گی۔ اگر حالت مصیبت میں ہے تو تجھ سےبہ تکلف صبر کا مطالبہ کیا جائے گا۔ اور یہ ادنی درجہ ہے۔ اور (بلا تكلف) صبر اس سے اگلا درجہ ہے۔ اس کے بعد تسلیم ورضاکا درجہ ہے۔ پھر محوو فنا ہے۔ اور یہی آخری حالت ابدال وعار فین کی ہے جو اللہ کریم کی معرفت رکھتے ہیں۔ . اگر حالت نعمت میں ہے توتجھ سے شکر کا مطالبہ کیا جائے گا۔ اور شکر زبان، دل اور اعضاء جسمانی کے ذریعے کیا جاتا ہے۔ 

شکر لسانی یہ ہے کہ انسان نعمتوں کا اعتراف کرے اور انہیں اللہ کی عطا یقین کرے۔ مخلوق کی طرف ان کی نسبت نہ کرے۔ نہ ہی اپنے نفس، اپنی قوت و طاقت اپنے کسب و کمال کا نتیجہ سمجھے۔ اور نہ ہی ان لوگوں کی عطاخیال کرے جن کے ہاتھوں یہ نعمت اسےپہنچ رہی ہے۔ کیونکہ تیری اور ان کی حیثیت اسباب و آلات کی ہے اور ان کا قاسم، جاری کرنے والا ، موجد، فاعل اور سبب الله عزوجل ہے۔ اور جب قاسم، جاری کرنے والا اور پیدا کرنے والا اللہ ہے تو وہی ہے کہ اس کا شکر ادا کیا جائے۔ 

اس غلام کو نہ دیکھے جو تحفہ اٹھا کر لا رہا ہے۔ بلکہ مالک کو دیکھے جس کے حکم اور عطا سے یہ تحفہ تجھے مل رہا ہے۔ 

جو لوگ ایسی نظر سے محروم ہیں اللہ تعالی ان کے بارے ارشاد فرماتا ہے۔

يَعْلَمُونَ ظَاهِرًا مِنَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَهُمْ عَنِ الْآخِرَةِ هُمْ غَافِلُونَ ۔ وہ جانتے ہیں دنیوی زندگی کے ظاہری پہلو کو اور وہ آخرت سے بالکل غافل ہیں“ 

پس جو ظاہر پر نظر رکھتا ہے اور سب کو دیکھتا ہے مگر موجد اور مسبب کو نہیں دیکھتاوہ جاہل، ناقص اور قاصر العقل ہے۔ عاقل کو عاقل صرف اس وجہ سے کہا جاتا ہے کہ وہ عواقب پر نظر رکھتا ہے۔ 

دوسرا ہے شکر قلبی ۔ تو اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان ہمیشہ یہ اعتقاد کامل اور نہ زائل ہونے والا یقین رکھنے کے سب ظاہری اور باطنی نعمتیں۔ منافع اور حرکات و سکنات میں پوشیدہ لذات اللہ تعالی کی طرف سے ہیں کسی غیر کی طرف سے نہیں ۔ شکرلسانی شکر قلبی کی تعبیر ہوتی ہے۔ رب قدوس کا ارشاد ہے۔ 

وَمَا بِكُمْ مِنْ نِعْمَةٍ فَمِنَ اللَّهِ اور تمہارے پاس جتنی نعمتیں ہیں وہ تو الله تعالی کی دی ہوئی ہیں“ 

وَأَسْبَغَ عَلَيْكُمْ نِعَمَهُ ظَاهِرَةً وَبَاطِنَةً اور تمام کردی ہیں اس نے تم پر ہر قسم کی نعمتیں ظاہر ی بھی اور باطنی بھی‘‘ 

وَإِنْ تَعُدُّوا نِعْمَةَ اللَّهِ لَا تُحْصُوهَااور اگر تم شمار کرنا چاہواللہ تعالی کی نعمتوں کو تو تم انہیں گن نہیں سکو گے“ 

اللہ تعالی کے علاوہ بندہ مومن کے نزدیک کوئی دوسرا نعمت عطا کرنےوالا کوئی نہیں بچتا۔ 

تیسری صورت ہے شکر بالجوارح کی ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اعضاء جسمانی کو اللہ تعالی کی اطاعت و فرمانبرداری میں استعمال کیا جائے اور اس کی رضاکے مطابق انہیں حرکت دی جائے۔ ایسا کوئی کام نہ کیا جائے جس میں مخلوق کی فرمانبرداری اور خالق کی نافرمانی ہو۔ یہ چیز نفس، خواہش، ارادہ، تمناؤں اور تمام مخلوق کو عام ہے۔ اللہ عزوجل کی اطاعت و فرمانبرداری کو اصل ، قابل اتباع اور رہنمابنا لے اور باقی ہر چیز کو فرع، تابع اور تقلید کندہ سمجھے۔ اگر اس کے الٹ کیا توظالم، ستم شعار اللہ کا نافرمان ، مخلوق کے علم کا تابع اور نیک لوگوں کی راہ کو چھوڑ کر دوسری راہ پر چلنے والا ٹھہرے گا۔ رب قدوس کا ارشاد ہے۔ 

وَمَنْ لَمْ يَحْكُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ فَأُولَئِكَ هُمُ الْكَافِرُونَ اور جو فیصلہ نہ کریں اس (کتاب)کے مطابق جسے نازل فرمایا اللہ نے تو وہی لوگ کافر ہیں۔

 وَمَنْ لَمْ يَحْكُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ فَأُولَئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ اور جو فیصلہ نہ کریں اس کتاب کے مطابق جسے اتارا اللہ نے تو وہی لوگ ظالم ہیں

وَمَنْ لَمْ يَحْكُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ فَأُولَئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ اور جو فیصلہ نہ کریں اس کے مطاب ق جسے اللہ تعالی نے اتارا ہے تو وہی لوگ فاسق ہیں“

 نافرمانی کی صورت میں تیرا ٹھکانا جہنم ہو گا جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہیں اور توجو ایک گھڑی کے لیے دنیا میں بخار کی شدت پر صبر نہیں کر سکتا ہمیشہ ہمیشہ کیلئے اہل جہنم کے ساتھ آگ میں صبر کیسے کرے گا۔ حالانکہ بخار کی گرمی دنیاوی آگ کا ایک کمزور ترین شرارہ کے سوا کچھ نہیں۔ 

جلدی کیجئے جلدی بچئے اور اپنی ذات کو اس گرداب بلاسے محفوظ کیجئے۔ اللہ کریم سے پناہ طلب کیجئے اور اس کی جناب سے امان مانگئے۔ 

دونوں حالتوں اور ان کی شروط کا خیال رکھئے۔ اپنی ساری عمر میں لامحالہ ان دو میں سے ایک حالت سے واسطہ ضرور رہے گا۔ یا مصیبت میں مبتلا ہو گا یا نعمت سے لطف اندوز 

ہر حالت کا حق ادا کر۔ مصیبت پر صبر کر اور نعمت پر شکر بجا لا جیسا کہ میں نے ابھی بیان کیا ہے۔ 

مصیبت میں کسی سے شکایت نہ کیجئے اور کسی انسان کے سامنے بے صبری کا اظہار نہ کیجئے اور نہ ہی دل میں اپنے رب کریم پر تہمت دھرئیے۔ 

اس کی حکمت اور اختیار کا شکوہ بے جا ہے۔ کیونکہ دنیاو آخرت میں یہی تیرے لیے بہتر ہے۔ عافیت کیلئے مخلوق کا دروازہ نہ کھٹکھٹا کیونکہ یہ شرک ہے اور اس کی بادشاہی میں کوئی اس کا شریک نہیں۔ کوئی نہیں جو نفع و نقصان کا مالک ہو۔ کوئی نہیں جو مصیبت سے نجات دے اور کشائش عطا کرے۔ صحت و تندرستی اس کے ہاتھ میں ہے۔ وہی ہے جو آزمائش میں مبتلا کر تا ہے۔ ظاہر اور باطن میں مخلوق میں مشغول نہ ہو۔ کیونکہ مخلوق اللہ تعالی کے مقابلے میں کوئی فائدہ نہیں دے سکتی۔ تعلیم ورضااور صبر و موافقت کی راہ اختیار کر۔ اور اللہ تعالی کے فیصلے کے سامنے اپنے آپ کو فنا کر دے۔ ہر نعمت سے محرومی کی صورت میں بھی عجز و نیاز ضروری ہے۔ اس کی چوکھٹ پر سر نیاز جھکائے رکھ ۔ اس کی جناب میں آہ و زاری کیے جا اپنے گناہوں کا اعتراف کر اور اس کی کارستانیوں پر آنسوبہا۔ اپنے رب کی پاکی بیان کر۔ اس کی توحید اور نعمتوں کا اعتراف کر۔ اسے شرک سے پاک یقین کر۔ اور اس کی جناب میں عرض کر کہ وہ تجھے صبر ورضاو موافقت عطا کرے حتی کہ مصیبت کے دن اختتام کو پہنچیں۔ غم و اندوہ کی تاریکیاں چھٹ جائیں۔ کرب وبلا کی گھٹائیں ناپید ہو جائیں اور نعمت و کشائش، فرحت و سرور کی بارش برسے جیسا کہ اللہ تعالی کے نبی حضرت ایوب علیہ السلام کے حق میں ہوا۔ جب رات کی تاریکی چھٹتی ہے تو صبح کا اجالا پھیلتا ہے۔ سردیوں کی برودت صبح بہاری کا پیغام لاتی ہے۔ کیونکہ ہر چیز کی ضد ہے۔ ایک غایت اور انتہاء ہے۔ صبر کشائش و نعمت کی کلید، ابتداء ، انتہاء اور جمال ہے۔ جیسا کہ حدیث شریف میں ہے۔ 

الصَّبْرُ ‌مِنَ ‌الْإِيمَانِ بِمَنْزِلَةِ الرَّأْسِ مِنَ الْجَسَدِ صبر ایمان کیلئے ایسے ہی اہم  ہے جیسے جسم کے لیے سراہم ہے “

دوسری روایت میں یہ الفاظ ہیں۔ 

الصبر الايمان كلہ صبر پورا ایمان ہے“ 

حدیث نعمت بھی شکر کا ایک طریقہ ہے یہ نعمتیں تیری قسمت کا چونکہ نوشتہ ہیں اس لیے تجھ پر ضروری ہے کہ شکر کے طور پر توان سے لطف اندوز ہو۔ مگر یہ صرف حالت فنا اور زوال حرص و ہوامیں جائز ہے جبکہ ایک انسان سب کچھ اپنی حفاظت اپنے بارے سوچناللہ تعالی کے سپرد کر دیتا ہے۔ یہ حالت ابدال کی ہے اور یہی انتہاء ہے۔ 

جو کچھ میں نے بیان کیا ہے اسے ملحوظ خاطر رکھ انشاء اللہ رہنمائی پائے گا۔ 

آداب السلوک شیخ عبد القادر الجیلانی صفحہ 159 ،مکتبہ دارالسنابل دمشق شام


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں