صحو و سکر کی تعریف
اَلسُّکْرُ غَیْبَۃُُ بِوَارِدِِ قَوِیِِّ وَ الصَّحْوُ رُجُوْعُُ اِلیٰ الْاِحْسَاسِ بَعْدَ الْغَیْبَۃِ بِوَارِدِِ قَوِیِِّ[کتاب التعریفات ص114]
(ترجمہ: قلب پر کسی واردِ قوی کا غلبہ ہوجانے سے غیبت طاری ہوجانا سکر ہے اور غَیبت کے بعد کسی وارد قوی کے سبب اِحساس کا عَود کر آنا صحو ہے)
صاحب سکر
صفاتِ الٰہیہ کی تجلی یا ثواب و عذاب کے خیال کا غلبہ ہو کر سالک کے حواس معطّل ہوجائیں اور خلق سے بے خبر ہوجائے تو اس کو غَیبت کہتے ہیں یہی سکر ہے
صاحب صحو
اور جب حواس درست ہوجائیں اور سالک ہوش میں آجائے تو اسکو حضور کہتے ہیں جو صحوکہلاتا ہے
انوارِ غیب کے غلبے سے ظاہری و باطنی احکام میں اِمتیاز اُٹھ جانا سکر ہے اور غَیبت کے بعد کسی وارد قوی کے سبب اِمتیاز و احساس کا واپس لوٹ آنا صحو ہے
اصحاب صحو و سکر
حالتِ سُکر میں غلبہِ احوال میں اہلِ سُکر سے جو اَقوال و اَفعال صادر و سَرزَد ہوں وہ پایہ اعتبار سے ساقط اور ناقابل سند ہوتے ہیں ایسی حالت میں صادر ہونے والے کلمات کو شطحیات کہتے ہیں اور حالت صحومیں انکا تدارُک لازم ہوتا ہے۔
صاحب صحوذات حق کی طرف مشغول ہونے کے باوجود حکم الہی سے مخلوق کی طرف بھی مشغول ہوتا ہے پی مشغولیت ایک گونہ غفلت کو مستلزم ہے اور صاحب سکر مخلوق سے بالکل غافل ہوکر ذات حق میں کلی طور پرمستغرق ہوتا ہے اس کے باوجود صاحب صحو کو اس پر فضیلت ہے کیونکہ وہ امرالہی سے مخلوق کی اصلاح وتربیت میں مشغول ہو کر خلیفہ اللہ ہونے کا فرض انجام دیتا ہے ۔
سُکر اولیاء کے مرتبے سے تعلق رکھتا ہے اور صحو انبیاء کے مرتبے سے متعلق ہے یہی حقُ الیقین کا مرتبہ ہے جہاں سالک ممکن و ممکن اور واجب کو واجب جانتا ہے اور اس مقام پر عبدیت اور مقام بقاء کی حقیقت ظاہر ہوتی ہے صوفیائے کرام نے آیت مبارکہ ثُمَّ بَعَثْنَـٰهُمْ لِنَعْلَمَ أَىُّ ٱلْحِزْبَيْنِ أَحْصَىٰ لِمَا لَبِثُوٓا۟ أَمَدًۭا [ الکہف 12](ترجمہ: پھر ان کو جگا اُٹھایا تاکہ معلوم کریں کہ جتنی مدّت وہ (غار میں) رہے دونوں جماعتوں میں سے اس کی مقدار کس کو خوب یاد ہے) کو صحو بعدَ السُّکر کی کیفیّت پر محمول فرمایا ہے (