اس بیان میں کہ حق تعالی جس طرح اپنی ذات کے ساتھ موجود ہے نہ کہ وجود کے ساتھ اس طرح اپنی ذات کے ساتھ حی و عالم اور صفات ثمانیہ اور صفات زائدہ کے ساتھ موصوف ہے۔ سیادت پناه میرمحمدنعمان کی طرف صادر فرمایا:۔
اَلْحَمْدُ لِلَّهِ وَسَلَامٌ عَلٰی عِبَادِهِ الَّذِينَ اصْطَفٰى سب تعریف اللہ ہی کے لئے ہے اور اس کے برگزیدہ بندوں پر سلام ہو۔
حق تعالی نفس وجود اور وجود کے تمام توابع کمالات یعنی حیات وعلم و قدرت دسمع و بصر و اراده کلام و تکوین میں اپنی ذات پاک کے ساتھ کافی ہے اوران کمالات کے حاصل ہونے میں ان صفات زائدہ کا محتاج نہیں۔ اگر چہ صفات زائده کاملہ بھی اس کے لیے ثابت ہیں۔ پس حق تعالی جس طرح اپنی ذات اقدس کے ساتھ موجود ہے نہ وجود کے ساتھ اسی طرح اپنی ذات کے ساتھ زندہ ہے نہ حیات کے ساتھ جو اس کی صفت ہے اور اپنی ذات کے ساتھ دانا ہے ۔ صفت علم کے ساتھ اور اپنی ذات کے ساتھ بینا ہے۔ نہ صفت بصر کے ساتھ اور اپنی ذات کے ساتھ سننے والا ہے نہ صفت سمع کے ساتھ اور اپنی ذات کے ساتھ توانا ہے نہ صفت قدرت کے ساتھ اور اپنی ذات کے ساتھ مریدیعنی ارادہ کرنے والا ہے۔ نہ صفت ارادہ کے ساتھ اور اپنی ذات کے ساتھ کلام کرنے والا ہے۔ نہ صفت كلام کے ساتھ اور اپنی ذات کے ساتھ کائنات کی ایجاد کا مبدأ ہے نہ کہ تکوین کی صفت کے ساتھ۔ اگر چہ عالم کا وجود تکوین اور باقی تمام صفات کے ذریعہ سے ہے۔ چنانچہ اس مضمون کی تحقیق (مکتوب نمبر 27 دفتر سوم )آئے گی۔
یہ تکوین قدرت سے الگ ہے، کیونکہ قدرت میں فعل کی صحت اور ترک(فعل دونوں) ہے اورتکوین میں فعل کی سمت متعین ہے۔ نیز قدرت ارادہ سے پہلے ہے اور تکوین ارادہ کے بعد یہ تکوین بندہ کو اس استطاعت کے مشابہ ہے۔ جس کو علماء اہل حق نے بندہ کے فعل کے ساتھ مقرر کیا ہے اوراس کوصفت قدرت و ارادت سے الگ سمجھا ہے، کیونکہ قدرت ہر دوطرف یعنی فعل وترک کو درست کرتی ہے اور ارادت ایک طرف کو ترجیح دیتی ہے اور ایجاد اراده کی ترجیح کے بعدتکوین سے تعلق رکھتا ہے۔ اگر قدرت کو ثابت نہ کیا جائے جو دونوں طرفوں کی صحبت . کرنے والی ہے تو ایجاب لازم آتا ہے اور اگر تکوین کو ثابت نہ کریں تو ایجاد بغیر مستند کے ره جاتا ہے کیونکہ قدرت ایجاد کی صحت کرنے والی ہے اور تکوین ایجاد کو اختیار کرنے والی۔ پس تکوین کے ثابت کرنے سے چارہ نہیں۔ جس کی طرف علماء ماتریدیہ نے ہدایت کی ہے اور اشعریوں نے چونکہ اشیاء کے ساتھ کاتعلق واضافت زیادہ تر معلوم کیا ہے۔ اس واسطے اس وصفات اضافیہ سے خیال کیا ہے۔ وَاللَّهُ يَقُولُ الْحَقَّ وَهُوَ يَهْدِي السَّبِيلَ (اللہ تعالی ثابت کرتا ہے ان کو اور وہی سیدھے راستے کی ہدایت دیتا ہے) پیدا کرنا اور رزق دینا اور زنده کرنا اور مارنا تکوین کی طرف راجع کرنا بہتر ہے۔ بہ نسبت اس کے کہ ہر ایک کو مستقل طور پر صفت قدیمہ کہا جائے اور بے ضرورت بیشمار صفات قدیمہ ثابت کی جائیں۔ پس ظاہر ہوا کہ جو کچھ دوسروں کوحق تعالی کی ایجاد سے صفات کے سبب حاصل ہے۔ حق تعالی کو صفات کے وسیلہ کے بغیر بذات خود حاصل ہے، کیونکہ حق تعالی کی ذات بلا لحاظ کسی امر اور اعتبار کے تمام کمالات کی جامع بلکہ ہر کمال کا عین ہے، کیونکہ تبعض اور تجزی یعنی بعض بعض اور جزو جزو ہونا اس بارگاہ میں مفقود ہے۔ ہمہ تن دانائی ہے اور سر بسر شنوائی ہے اور تمام کی تمام بینائی ہے۔ اسی طرح دوسری صفات کا حال ہے اس کے علاوہ حق تعالی کے لیے صفات سبعہ بلکہ صفات ثمانیہ بھی کہ علماء اہل حق جن کے وجود کے قائل ہیں ثابت ہیں اور یہ صفات کاملہ جو قدیم ہیں ان کمالات ذاتیہ کے ظلال اور مظہر ہیں بلکہ کہہ سکتے ہیں کہ ان کمالات کے روپوش اور ان پوشیده انوار کے جواب ہیں۔
سوال: جب حق تعالی کی ذات تمام کمالات کے حصول میں کافی ہے تو پھر صفات کس لیے ثابت کی جاتی ہیں اور قدیموں کے بے شمار وجود ہونے کا قول کیوں کیا جاتا ہے۔ اسی واسطے فلاسفہ اور معتزلہ نے ذات پراکتفا کی ہے اور قدیموں کے بکثرت ہونے سے بھاگ کر صفات کی نفی کے قائل ہوئے ہیں۔
جواب:حق تعالی کی ذات اگر چہ حصول کمالات میں کافی ہے لیکن اشیاء کی تکوین تخلیق کے لیے صفات زائدہ کا ہونا ضروری ہے، کیونکہ حق تعالی کی ذات نہایت تنزہ اور تقدس اور عظمت و جلال و کبریا میں ہے اور کمال غنا اس کے لیے ثابت ہے اور اشیاء کے ساتھ اس کو کمال بے مناسبتی ہے۔ إِنَّ اللَّهَ لَغَنِيٌّ عَنِ الْعَالَمِينَالله تعالی تمام جہان والوں سے غنی اور بے پروا ہے اور حکمت و عادت کے موافق افادہ اور افاضہ کے لیے مستفید اورمستفیض کے ساتھ مناسبت کا ہونا ضروری ہے اور وہ صفات ہیں جنہوں نے ایک درجہ تنزل کر کے ظلیت پیدا کی ہے اور اشیاء کے ساتھ کچھ نہ کچھ مناسبت حاصل کی ہے۔ اگر صفات کا واسطہ نہ ہوتا تو اشیاء سے کسی شے کا حاصل ہونا متصور نہ ہوتا، کیونکہ اشیاء کو حق تعالی کے ذاتی انوار کی شعاعوں کے غلبہ میں ہلاک اورفانی اور نیست و نابود ہونے کے سوا کچھ حاصل نہ ہوتا۔ یہ بڑے بے سمجھ لوگ ہیں جو صفات کو ثابت نہیں کرتے اور اشیاء کے ایجادکو حق تعالی کی ذات بحت کی طرف منسوب کرتے ہیں۔صادراول ہے ہی کیا جو صفات کے پردہ کے بغیر حق تعالی کی ذات کے انوار میں فانی اورناچیزنہ ہو۔
سوال: فلاسفہ اور معتزلہ صفات کو اگرچہ خارج میں ثابت نہیں کرتے لیکن علمیہ اعتبارات کی رو سے ان کے قائل ہیں اور مرتبہ علم میں کمالات ذاتیہ کو ایک دوسرے سے الگ جانتے ہیں۔ پن اشیاء کا موجود ہواذات کسی کی طرف منسوب نہ ہوا، کیونکہ درمیان میں اعتبارات کا واسطہ پیدا ہوگیا۔
جواب: عالم کا ایجاد خارج میں ہے اور عالم خارج میں موجود ہے۔ پس خارجی حجابوں کا ہونا ضروری ہے تا کہ اشیاء کے خارجی وجود کا وسیلہ ہو کر خارج میں ان کو فانی اور نیست و نابود ہونے سے بچا سکیں۔ علی اعتبارات و جودات خارجیہ کے کام نہیں آ سکتے اور علمی جواب موجودات خارجی کی حفاظت میں کفایت نہیں کر سکتے ۔ ہاں بعض صوفیاء جو عالم کو مرتب علم کے سوا موجود ہیں جانتے ان کو اگر اعتبارات علمی نفع دے سکیں اور وجودات علمیہ کا وسیلہ ہوئیں تو بجا ہے۔ لیکن عالم خارج میں موجود ہے۔ اگرچہ یہ خارج اس خارج کامل ہے اور یہ وجود اس وجود کامل ہے۔ پس خارجی حجابوں کا ہونا ضرورت ہے تا کہ عالم کے وجود خاری کا وسیلہ ہو سکیں۔ اس لیے صفات دقیقیہ کا خارج میں موجود ہونا ضروری ہے، تا کہ اشیاء کی ترتیب کریں اور اپنے وسیلہ سے کمالات ذاتیہ کو عالم کے آئینوں میں جلوہ گر اور ظاہر کریں۔ صفات اگر چہ ذات کے حجاب ہیں، لیکن کمالات ذاتیہ کا ظہور انہی کے وجود پر وابستہ ہے۔ ان کاحجاب عینک کے حجاب کی طرح ہے جو زیادہ نمائش کا سبب ہے اور یہ ظہور اور یہ نمائش اگرچہ ظلی ہے مگر کیا کریں کہ ہمارے وجود کوظل کے ساتھ ملا دیا ہوا ہے اور ہماری ہستی کو حجاب کے حوالہ کر دیا ہے۔ ما بالذات لا ینفك عن الذات (جو چیز ذاتی ہے وہ ذات سے الگ نہیں ہوتی) – مصرع
سیاہی ازحبشی کے رود که خود رنگ است
ترجمہ: سیاہی دورحبشی کی نہیں ہوتی کہ ہے ذاتی
بیت ومن بعد هذا ما يدق صفاته و ما کتمه أحطى لديه وأجمل
ترجمه بیت بعدازاں وہ چیز ہے جس کا نہیں لگتا پتااس کا پوشیدہ ہی رکھنا اور چھپانا ہے بھلا
بندہ حق نہیں ہو جاتا لیکن اللہ تعالی کے فضل سے ان سےحق جدا بھی نہیں ہوتا۔ المَرْءُ مَعَ مَنْ أَحَبَّ (آدمی اسی کے ساتھ ہو گا۔ جس کے ساتھ اس کو محبت ہوگی) حق تعالی کو اگر چہ اشیاء کے ساتھ معیت کی نسبت حاصل ہے لیکن یہ معیت جس کا منشاء محبت ہے اور ہے جب تک محبت پیدا نہ کریں۔ اس معیت کونہیں جان سکتے، چونکہ محبت میں بھی مختلف درجات ہیں۔ اس لیے اس کے اندازہ کے موافق معیت میں بھی تفاوت حاصل ہےیہی معیت ہے جو ظلیت سے خلاصی کا سبب ہے اور یہی معیت ہے جو کہ نیست و نابود ہونے کا واسطہ ہے اور یہی معیت ہے جو بندگی و غلامی کو دور کرنے والی ہے اور عین عبدیت یعنی غلامی میں حریت و آزادی کو ثابت کرنے والی ہے۔ یہی معیت ہے جو انانیت اور خودی کو گرانے والی ہے اور یہی معیت ہے جو انانیت کو کمالیت کے درجات تک بلند کرنے والی ہے۔ جاننا چاہیئے کہ ان کے ساتھ اپنی معیت عامہ کے بارہ میں فرمایا ہے وَهُوَ مَعَكُمْ (وہ تمہارے ساتھ ہے) اور معیت خاصہ میں المَرْءُ مَعَ مَنْ أَحَبَّ (آدمی اسی کے ساتھ ہو گا۔ جس کے ساتھ اس کو محبت ہوگی) کے بموجب محبت کے لحاظ سے بندے اس کے ساتھ ہیں ان دونوں معیتوں میں بہت فرق ہے۔ کیونکہ معیت خاصہ میں دونوں طرف کی معیت ثابت ہے اور معیت عامہ میں معیت اسی طرف سے ہے۔ پس اس کے لیے عین وجدان میں حرمان و ناامیدی لازم ہے يَاحَسْرَتَا عَلَى مَا فَرَّطْتُ فِي جَنْبِ اللَّهِ ہائے افسوس ! اللہ تعالی کے حضور میں نے کیوں کوتاہی کی عالم اگر چہ صفات کے ظلال ہیں اور اس نے صفات کے ذریعہ سے وجودو بقا حاصل کیا ہے لیکن حضر ت ذات کا محب محبت ذاتیہ کے باعث جو اس کو حضرت ذات کے ساتھ ہے اور صفات سے جو اس کے اصول ہیں۔ بے کیفی عروج (عروج سے مراد سالک کا حق تعالی کی ذات و صفات عالیہ کے مشاہدہ میں مستغرق ہو جانا اور مخلوق سے منقطع ہونا ہے) کے ساتھ اوپر گیا ہے اور اصول کو چھوڑ کر اصل اصول سے مل گیا ہے لیکن یہ ملنا بھی ہے کیف ہے اور اگر اصل سے اوپر نہ جائے تو پھر آنے کا کیا فائدہ اور محبت کی کیا ضرورت ہے۔ اس کو اصل کے ساتھ اتصال ہر وقت حاصل تھا اور وصل ظلی اس کو ہمیشہ میسر تھا۔ اصل مقصود یہ ہے کہ اپنے اصل کوظل کی طرح زینہ بنانا چاہیئے اورمحبت کے پروں سے اوپر اڑنا چاہئے۔ یہ عروج ہرشخص کی سمجھ میں نہیں آ سکتا اور اپنے آپ کو چھوڑ کر اپنے آپ سے اوپر جانا ارباب نظروفکر (یعنی فلسفی اورمنطقی) کو پسند نہیں آتا۔ بلکہ صوفياء میں بھی ہزاروں میں سے کوئی ایک اس دولت سے مشرف ہوتا ہے اور اس معما کا بھیداس پرکھلتا ہے۔ بیت
ہزار نکته باریک تر ز مو ایں جاست نہ ہر کہ سربتراشد قلندری داند
ترجمہ بیت: ہزاروں نکتے ہیں بالوں سے بھی باریک تر اس جا منڈائےسر اگر کوئی قلندر بن نہیں جاتا
سوال:یہ سیرآفاقی ہے یا انفسی؟
جواب :نہ آفاقی ہےنہ ا نفسی۔ کیونکہ آفاق وانفس باہر اور اندر کو چاہتے ہیں اور یہ معاملہ دخول وخروج اور اندر و باہر سے وراء الوراء ہے۔ گوارباب نظر یعنی اہل فلسفہ کے نزدیک نازیبا ہے لیکن جب مطلوب دخول وخروج سے اقدس اور برتر ہے تو وہ نسبت بھی جو اس کے ساتھ پیدا ہو۔ ضرورہی دخول وخروج سے منزہ ہوگی۔ یہ سیر باوجود اس قدر مشکل اورسخت ہونے کے اس سیر کے کرنے والوں کے نزدیک جو صاحبان علم ہیں دہلی اورآ گرہ کےسیر کی طرح ہے۔ جو ہر ایک کو معلوم ہے اور ہر ایک کے نزدیک متمیز ہے اور اس کی ہر ایک منزل دوسری منزل سے جدا ہے۔
تنبیہ: عالم اگرچہ صفات کے ظلال ہیں اور صفات حق تعالی کی ذات کے ظلال، لیکن اس ظلیت کے بہت سے درجے اور مرتبے ہیں جن میں سے ہر ایک مطلوب کا حجاب ہے۔ آپ نے سناہی ہوگا کہ ان لله سبعين الف حجاب من نور وظلمة تحقیق الله تعالی کے لئے ستر ہزار پردے نور اور ظلمت کے ہیں۔ جب تک حجاب سب کے سب دور نہ ہوجائیں۔ ظلیت سے نہیں نکل سکتے۔ اس جگہ خرق حجاب یعنی پردہ کے دور ہونے سے مراد شهودی پردوں کا دور ہونا ہے اور یہ جو اس حدیث کے اخیر میں تمام پروں کا دور نہ ہونا آیا ہے۔ مراد اس سے وجودی پردے ہیں۔ جن کا دور ہوتا ممتنع ہے، کیونکہ اس سے صفات قدیمہ کا رفع ہونا لازم آتا ہے۔ جومحال ہے لیکن چونکہ معیت غیرمتکیفہ حاصل ہے اس لئےخر ق وجودی کا حکم رکھتا ہے اور باوجود حجابوں کے بےحجاب ہے، کیونکہ معیت نقد وقت ہے جوحائل و حجاب کی طاقت نہیں رکھتی۔ رَبَّنَا أَتْمِمْ لَنَا نُورَنَا وَاغْفِرْ لَنَا إِنَّكَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ یا اللہ ہمارے نور کو کامل کر اور ہم کو بخش۔ تو سب شے پر قادر ہے) الحمد لله رب العالمين و الصلوة والسلام على سيد المرسلين علي و عليهم وعلى اله الطاهرين أمين اللہ رب العالمین کی حمدہے اور حضرت سید المرسلین اور ان کی آل پاک پر صلوۃ وسلام ہو۔
مکتوبات حضرت مجدد الف ثانی دفتر سوم صفحہ94 ناشر ادارہ مجددیہ کراچی