صلہ میں دیر ہونا (باب  دہم)

صلہ میں دیر ہونا کے عنوان سے  باب  دہم میں  حکمت نمبر 89 ہےیہ کتاب اِیْقَاظُ الْھِمَمْ فِیْ شَرْحِ الْحِکَمْ جو تالیف ہے عارف باللہ احمد بن محمد بن العجیبہ الحسنی کی یہ شرح ہے اَلْحِکَمُ الْعِطَائِیَہ ْجو تصنیف ہے، مشہور بزرگ عارف باللہ ابن عطاء اللہ اسکندری کی ان کا مکمل نام تاج الدین ابو الفضل احمد بن محمد عبد الکریم بن عطا اللہ ہے۔

باب دہم

اعمال کے صلہ کی کیفیت، اعمال کا صلہ طلب کرنے پر تنبیہ، اور عطا ومنع میں اللہ تعالیٰ کی معرفت، اور اس کی طرف سبقت و قبولیت کے لئے آمادہ ہونے ، اور اس کے سامنے ہمیشہ بے قراری ، اور اس کی نعمت کے لئے محتاجی ، اور اس کی محبت میں اس کی مخلوق سے وحشت کے بیان میں حضرت مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
89) جَلَّ رَبُّنَا أَنْ يُعَامِلَهُ الْعَبْدُ نَقْدًا فَيُجَازِيهِ نَسِيئَةً.
ہمارے رب سبحانہ تعالیٰ کی شان اس سے پاک اور بلند ہے کہ بندہ اس سے نقد معاملہ(سودا) کرے اور وہ اس کو اس کا صلہ دیر میں عطا کرے یعنی قرض رکھے ۔
میں (احمد بن محمد بن العجیبہ ) کہتا ہوں:۔ کریم کی شان یہ ہے کہ جب کوئی چیز خریدے تو اس کی قیمت نقد عطا کرے۔ اور قیمت کے علاوہ بخشش اور انعام عطا کرے۔ اور اللہ تعالیٰ نے ہم سے ہماری جانوں، اور مالوں کو خرید لیا ہے۔ اور اس کی قیمت میں ہم کو جنت عطا کی ہے۔ تو جس شخص نے اپنی جان اور مال کو بیچ دیا ۔ اور نقد اس کے سپرد کر دیا۔ تو اللہ تعالیٰ نے اس کے صلے میں اس کو معرفت کی جنت فوراً عطا کی۔ اور خوشنما جنت کی بخشش آخرت میں عطا فرمائے گا۔ اور اس کے ساتھ قسم قسم کی نعمتوں کا ، اور اپنے دیدار کے ہمیشہ مشاہدے کا تحفہ عطا فرمائے گا۔
پس ہمارا رب اس سے پاک اور بلند ہے کہ بندہ اس سے نقد سودا کرے۔ اور وہ اس کا صلہ ادھار رکھ دے۔ بلکہ ضروری ہے کہ جو کچھ اس کے لئے اس دنیائے فانی میں لائق اور مناسب ہے۔ وہ اس کو فور انقد عطا کرے اور جو کچھ اس کی آخرت کے لئے لائق اور موزوں ہو وہ وہاں جمع کرے ۔ اور اللہ تعالیٰ جو چیزیں اس دنیا میں اس کو نقد عطا فرماتا ہے وہ مندرجہ ذیل چند امور ہیں ۔ ان میں سے ایک امر یہ ہے کہ وہ نقصانات کو بندے سے دفع کرتا ہے اور فوائد اور مسرتیں اس کے لئے مہیا کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:۔
(وَهُوَ يَتَوَلَّى الصَّالِحِينَ) اور اللہ تعالیٰ صالحین کی سرپرستی فرماتا ہے ۔ اور دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا: (وَمَنْ يَتَّقِ اللَّهَ يَجْعَلُ لَهُ مَخْرَجًا وَّ يَرُزُقُهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ) – جو شخص اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہےاللہ تعالیٰ اس کے لئے مشکلات سے نکلنے کا راستہ پیدا کرتا ہے۔ اور اس کو اس طریقے پر روزی دیتا ہے جس کو وہ سمجھ بھی نہیں سکتا ہے۔
اور تیسرے مقام پر ارشاد فرمایا: (الا إِنَّ اَولِيَاءَ اللَّهِ لَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمُ يَحْزَنُونَ) خبر دار ہو۔ اولیاء اللہ کے اوپر نہ کوئی خوف ہے نہ وہ رنجیدہ ہوتے ہیں۔ نہ رنجیدہ ہوں گئے۔
اور یہ سلسلہ اس کی اولاد میں نسلاً بعد نسل جاری رہتا ہے جیسا کہ پہلے بیان ہو چکا۔
ان امور میں سے دوسرامر: یہ ہے کہ اس کے اوپر انوار چمکتے ہیں، اور اس کے قلب پر اسرار منکشف ہوتے ہیں اور یہ توجہ اور مواجہت کے انوار ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: (يَا يُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِن تَتَّقُوا اللهَ يَجْعَلْ لَكُم فُرْقَانًا) اے ایمان والو! اگر تم اللہ تعالیٰ سے ڈرو گے تو وہ تمہارے لئے فرقان بنائے گا ۔
فرقان:۔ وہ نور ہے۔ جو حق اور باطل کے درمیان تمیز کرتا ہے۔
اور اللہ تعالیٰ سے اور دوسری جگہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے ۔ (وَاتَّقُوا اللَّهَ وَيُعَلِّمُكُمُ اللهُ) ڈرو۔ اور اللہ تعالیٰ تم کو علم عطا کرتا ہے ۔ اور تیسری جگہ ارشاد فرمایا:
اللَّهُ وَلِيُّ الَّذِينَ آمَنُو يُخْرِجُهُم مِّنَ الظُّلُمَتِ إِلَى النُّورِ) اللہ تعالیٰ ایمان والوں کا دوست اور سر پرست ہے۔ وہ ان کو ظلمتوں سے نکال کر نور کی طرف لاتا ہے۔ یعنی ان کو کفر کی ظلمت سے نکال کر ایمان کے نوری طرف لاتا ہے۔ اور معصیت کی ظلمت سے نکال کر طاعت کے نور کی طرف لاتا ہے۔ اور ظاہر محسوس کی ظلمت سے نکال کر باطن کے نور کی طرف لاتا ہے اور غفلت کی ظلمت سے نکال کر بیداری کے نور کی طرف لاتا ہے ۔ اور مخلوق کی ظلمت سے نکال کر خالق کے نور کی طرف لاتا ہے۔


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں