اس سوال کے جواب میں کہ صوفياء حق تعالیٰ کے کلام کو سنتے ہیں اور اس سے ہم کلام ہوتے ہیں۔ فقیرمحمد ہاشم کشمی کی طرف صادر فرمایا ہے۔
آپ نے پوچھا تھا کہ بعض عارفوں نے فرمایا ہے کہ ہم حق تعالیٰ کے کلام کو سنتے ہیں اور ہم اس کے ساتھ ہم کلام ہوتے ہیں۔ چنانچہ امام جعفر صادق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے منقول ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ میں ایک آیت کو بار بار پڑھتا رہا حتی کہ میں نے اس کو اس کے متکلم(حق تعالیٰ) سے سن لیا اور رسالہ غوثیہ سے بھی جو حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی قدس سرہ کی طرف منسوب ہے۔ اسی طرح مفہوم ہوتا ہے۔ اس کے کیا معنی ہیں اور اس کی تحقیق کیا ہے۔
اللہ تعالیٰ آپ کو ہدایت دے۔ جاننا چاہیئے کہ حق تعالیٰ کا کلام بھی اس کی ذات و صفات کی طرح بیچون وبیچگون(بے مثل و بے کیف) ہے اور اس کلام بیچون کا سنتا بھی بیچون ہے کیونکہ چون(مثل) کو بیچون کی طرف کوئی راستہ نہیں۔ وہ سننا سمع کی حس پر وابستہ نہیں ہے کیونکہ وہ سراسر چون ہے۔ وہاں اگر بندہ سے استماع ہے تو تلقی(قلب سالک پر جو واردات وارد ہوں ان پر مستقیم رہنا) روحانی سے جوبیچونی کا حصہ رکھتا ہے اور حروف و کلمات کے واسطہ کے بغیرہے اور اگر بندہ سے کلام ہے تو وہ بھی القائے روحانی کے طور پر ہے جو بغیر حروف و کلمات کے واسطہ کے بغیر بیچونی سماع سے استماع فرماتا ہے اور تقدیم و تاخیر کے بغیرسن لیتا ہے۔اذ لا يجرى عليہ تعالی زمان يسع فيه التقديم والتاخير ( کیونکہ حق تعالیٰ پر زمانہ کے احکام جاری نہیں ہو سکتے تا کہ تقدیم وتاخیر کی گنجائش ہو ) اور اس مقام میں اگر بندہ سےسماع ہے تو کلی طور پر سامع ہے اور اگر کلام ہے تو کلی طور پر متکلم ہے۔ یعنی ہمہ تن کان اور ہمہ تن زبان ہے۔ روز میثاق میں ذات مخرجہ نے قول أَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ کو بالواسطہ اپنی اپنی کلیت کے طور پر سن لیا اور اپنی کلیت کے طور پر جواب میں بَلیٰ کہا یعنی ہمہ تن کان اور ہمہ تن زبان تھے کیونکہ اگرکان زبان سے متمیز ہوتے تو سماع و کلام بیچونی حاصل نہ ہوتے اوربیچونی ارتباط کے لائق نہ ہوتے۔ لَا يَحْمِلُ عَطَايَا الْمَلِکِ إِلَّا مَطَايَاهُ بادشاہ کے عطیوں کو اسی کے اونٹ اٹھا سکتے ہیں۔
حاصل کلام یہ ہے کہ وہ معنی متلقیٰ جو روحانیت کے طور پر اخذ کئے جاتے ہیں ۔ دوباره عالم خيال میں جو انسان میں عالم مثال کی تصویر ہے۔ حروف و کلمات مترتبہ کی صورت میں متمثل ہوتے ہیں اور وہ تلقی و القا سماع وكلام لفظی کی صورت میں مرتسم (نقش)ومتنقش ہوجاتا ہے کیونکہ اس عالم میں ہر ایک معنی کی ایک صورت ہے اگر چہ وہ معنی بیچون ہیں لیکن وہاں بیچون کا ارتسام(نقش) اور انتقاش چون کی صورت پر ہے جس پرفہم وافہام وابستہ ہے جو اس ارتسام و انتقاش کا اصلی مقصود ہے جب سالک متوسطہ اپنے آپ میں حروف و کلمات مترتبہ پاتا ہے اور کلام لفظی سماع محسوس کرتا ہے تو خیال کرتا ہے کہ ان حروف و کلمات کو اصل سے سنا ہے اور بلا تفاوت وہاں سے اخذ کیا ہے۔ نہیں جانتا کہ یہ حروف و کلمات اس معنی متلقی کی خیالی صورتیں ہیں اور یہ لفظی سماع و کلام بیچونی سماع و کلام کی تصویر ہے۔ عارف تام المعرفت ہونا چاہیئے تاکہ ہر مرتبہ کے حکم کو جدا کر دے اور ایک کو دوسرے کے ساتھ نہ ملائے۔ پس ان بزرگواروں کا سماع و کلام جو مرتبہ بیچونی پر وابستہ ہے تلقی اور القاء روحانی کی قسم سے ہے اور کلمات وحروف جن کے ساتھ اس معنی متلقی کی تعبیر کرتے ہیں۔ مثالی صورتوں کی قسم سے ہیں اور وہ لوگ جو یہ گمان کرتے ہیں کہ ہم اس بارگاہ جل شانہ سے حروف و کلمات کے ساتھ استماع کرتے ہیں۔ دوفریق ہیں جن میں ایک گروہ کے لوگ جن کا حال بہتر اور اچھا ہے۔ کہتے ہیں کہ یہ حروف و کلمات حادثہ مسموعہ اس كلام نفسی قدیم پر دلالت کرنے والے ہیں اور دوسرے گروہ کے لوگ حق تعالیٰ کے کلام کے سماع پر قول کا اطلاق کرتے ہیں اور انہیں حروف و کلمات مترتبہ کوحق تعالیٰ کا کلام جانتے ہیں اور اس بات میں کچھ فرق نہیں کرتے کہ کونسا كلام حق تعالیٰ کی شان کے لائق ہے اور کونسا نہیں۔ وهم الجهال البطال لم يعرفوا ما يجوزعلیہ ولا مالا يجوز عليه (یہ لوگ جاہل و مکار ہیں۔ نہیں جانتے کہ کونسی چیز کا اطلاق اس پر جائز ہے اور کونسی چیز کا ناجائز ہے۔) سُبْحَانَكَ لَا عِلْمَ لَنَا إِلَّا مَا عَلَّمْتَنَا إِنَّكَ أَنْتَ الْعَلِيمُ الْحَكِيمُ (یا اللہ تو پاک ہے ہم کو کوئی علم نہیں مگر جس قدر کہ تو نے ہم کو سکھایا بیشک تو جانے والا ہے) والصلوة والسلام على خير البشر واله وأصحابه ألاطهر (حضرت خیر البشر اور ان کے آل واصحاب پاک صلوۃ والسلام)
مکتوبات حضرت مجدد الف ثانی دفتر سوم صفحہ273ناشر ادارہ مجددیہ کراچی