حسن صوری یعنی ظاہری حسن سے بکثرت لذت پانے کے سر میں حاجی عبد اللطيف خوارزمی کی طرف صادر فرمایا ہے۔
خیروکمال اور حسن و کمال جہاں کہیں کہ ہے وجود کا اثر ہے جومحض خیر اور واجب الوجود جل شانہ کے ساتھ مخصوص ہے ممکن میں جس طرح وجود اس بارگاہ جل شانہ سے ظلیت کے طور پر منعکس ہوا ہے اسی طرح حسن و جمال بھی اسی مرتبہ مقدسہ سے ظلیت کے طور پر اس میں آیا ہے۔ممکن کا ذاتی اس کے عدم ذاتی کے باعث محض شر اور سراسرقبح و نقص ہے لیکن یہ حسن و جمال جوممکن میں مشہود ہوتا ہے اگر چہ وجودہی سے آیا ہے لیکن چونکہ عدم کے آئینہ میں ظاہر ہوا ہے اس لئے آئینہ کا رنگ پکڑ کر قبح و نقص حاصل کر چکا ہے اور ممکن جوذاتی قبح و نقص رکھتا ہے اس حسن سے اس قدر حظ ولذت پاتا ہے جو حسن خالص یعنی اس حسن کے مبدء سے نہیں پاتا کیونکہ اس کے ساتھ اس کی مناسبت زیادہ تر ہے جس طرح خاکروب کو بد بودار چیزوں سے وہ لذت آتی ہے جو پاکیزہ اور خوشبودار چیزوں سے نہیں آتی ۔ مشہور قصہ ہے کہ ایک خاکروب عطاروں کے محلے سے گزرا جونہی خوشبو اس کے دماغ میں پہنچی بیہوش ہوکر گر پڑا۔ ایک بزرگ بھی اسی راہ سے گزر رہا تھا جب اس معاملہ سے واقف ہوا، فرمایا کہ اس کی ناک کے آگے نجاست لاکر رکھ دوتا کہ اس کی بدبو سے خوش ہو کر ہوش میں آ جائے جب انہوں نے ایسا ہی کیا تو اس کو ہوش آ گیا۔.
مکتوبات حضرت مجدد الف ثانی دفتر سوم صفحہ290ناشر ادارہ مجددیہ کراچی