ہر عمل کا ایک ظاہری اور ایک باطنی پہلو ہوتا ہے۔ ظاہری پہلو عمل اور عبادت کا وہ حصہ ہے جو ہماری حرکات و سکنات سے وجود پذیر ہوتا ہے۔ اگر ہم نے کوئی عمل کیا جو پہلو ہمیں نظر آ رہا ہے وہ اس عمل اور عبادت کا ظاہری پہلو ہے اور باطنی پہلو وہ ہے جو نظر نہیں آتا اور جس کی تشکیل دل میں ہوتی ہے
۔اعمال ظاہرہ ظاہری اعضاء کے اعمال کا نام ہے جن کا ظہور ظاہری جوارح سے ہوتا ہے۔ جیسے عبادات، بیع، قصاص وغیرہ۔باطنی اعمال دل سے متعلق اعمال ہیں جنہیں مقامات و احوال کہا جاتا ہے، مثلا تصدیق، ایمان، اخلاص، معرفت، توکل، محبت، رضا، ذکر، شکر، خشیت، تقوی، مراقبہ، ذکر، خوف، رجا وغیرہ۔ پس جب ہم علم باطن کہتے ہیں تو اس مراد باطنی اعمال کا وہ علم ہے جو باطنی اعضاء سے وقوع پزیر ہوتے ہیں جو قلب ہے۔ اللہ تعالی نے فرمایا:وَأَسْبَغَ عَلَيْكُمْ نِعَمَهُ ظَاهِرَةً وَبَاطِنَةً (اللہ نے اپنی ظاہری اور باطنی نعمتیں تمہیں عطا کیں۔ لقمان: 20)نیز وَذَرُوا ظَاهِرَ الْإِثْمِ وَبَاطِنَهُ (اور ظاہری و باطنی گناہوں کو ترک کردو۔ انعام: 121) (ظاہر ہے اس باطنی علم پر غور و فکر اور اسکے بارے میں استنباط کلام و فقہ والوں نے نہیں بلکہ جماعت صوفیاء نے کیا)۔ ان باطنی مقامات و احوال پر غور و فکر کرنا احکامات طلاق، عتاق، قصاص وغیرہ سے کم فائدہ مند نہیں کہ یہ ظاہری اعمال تو ایسے ہیں کہ ہوسکتا ہے فرد کو عمر بھر کوئی ایسا واقعہ ہی پیش نہ آئے جس میں اس علم کی ضرورت پڑے اور اگر کوئی واقعہ پیش آبھی جائے تو مسئلہ پوچھ کر عمل کرنے والا عام آدمی تقلید ہی کرے گا۔ اس کے برعکس جن احوال، مقامات اور مجاہدات کے بارے میں صوفیاء غور کرتے ہیں انکی تمام مسلمانوں کو ضرورت ہے اور انکا جاننا سب پر لازم ہے اور انکا کوئی مخصوص وقت بھی نہیں کہ ایک وقت میں انکی ضرورت ہو مگر ایک میں نہیں جیسے صدق، اخلاص، ذکر وغفلت وغیرہ۔
علمِ ظاہر عارضی بارش کی طرح ہے اور علمِ باطن اصلی چشمہ کی مثل ہے کیونکہ یہ علومِ ظاہر کی نسبت زیادہ نفع رساں ہے۔
علمِ باطن کے بغیر علمِ ظاہر فرقہ پرستی، مسلک پرستی اور جھگڑے پیدا کرتا ہے۔
ظاہری علم پر زور کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ انسان آفاق میں گم ہے۔ اگر وہ علمِ باطن کے ذریعے اپنی ہستی کو پہچان لے تو آفاق اس کو اپنے اندر دکھائی دے۔
علمِ باطن ہمچو مسکہ علمِ ظاہر ہمچو شِیر کی بود بی شِیر مسکہ کی بود بی پیر پیر
’’علمِ باطن مکھن کی مانند ہے اور علمِ ظاہر دودھ کی مانند، دودھ کے بغیر مکھن کہاں بنتاہے؟ اور پیر کے بغیر بزرگی کہاں نصیب ہوتی ہے؟