اس بیان میں کہ عارف کا معاملہ یہاں تک ہو جاتا ہے کہ کسی معلوم کی صورت اس میں حاصل نہیں ہوتی ۔ اس وقت ہر ایک ذرہ اس کیلئے مطلوب کی طرف شاہراہ ہوتا ہے اور اس بیان میں کے اس عارف کی حب حق تعالیٰ کی حب تک پہنچا دیتی ہے اور اس کا بغض حق تعالیٰ کے بغض کا باعث ہوتا ہے اسی طرح اس کی تعظیم و اہانت کا حال ہوتا ہے۔ آنحضر ت ﷺ کی آل و اصحاب کو بھی آنحضرتﷺکے ساتھ یہی نسبت ہے۔ یہ معارف معنی سے نقل کیے گئے ہیں۔ حضرت مخدوم زاده محمد معصوم سلمہ اللہ کی طرف صادر فرمایا ہے:۔
جب عارف مقامات ظل کو طے کر کے معاملہ کے اصل تک پہنچاتا ہے اس وقت اس کا ده علم جو اشیاء سے تعلق رکھتا ہے ظلیت کی قید سے پاک ہو جاتا ہے۔ یعنی اشیاء اس کو اس طرح معلوم ہوتی ہیں کہ اس میں سے کچھ بھی اس میں حاصل نہیں ہوتا کیونکہ اس وقت جو کچھ اس میں حاصل ہوگا وہ شے کی صورت ظل ہوگا نہ اس شے کا عین جیسے کہ علم کی تعریف میں کہا گیا ہے کہ وہ عقل میں شے کی صورت کا حصول ہے کیونکہ اس میں کچھ شک نہیں کہ شے کی وہ صورت جو عقل میں حاصل ہے وہ اس شے کا شج ہے نہ کہ اس کا عین جیسے کہ کشف صریح اور الهام صحیح اس پر شاہد ہے۔ اس وقت عارف عالم کی حق تعالیٰ کے ساتھ صانعیت و مصنوعیت کی نسبت کے سوا اور کوئی نسبت ثابت نہیں کرتا اور ظلیت و عینیت ومراتیت کی نسبت سے برطرف ہوتا ہے کیونکہ یہ معاملہ کمالات ذاتیہ پر وابستہ ہے اور حق تعالیٰ کی ذات کو عالم سے غناء ذاتی ہے۔ إِنَّ ٱللَّهَ لَغَنِيٌّ عَنِ ٱلۡعَٰلَمِينَ اللہ تعالیٰ تمام جہاں والوں سے غنی ہے ) برخلاف بعض اسماء و صفات کے مراتب کے جن میں یہ نسبت متصور ہے پس جب تک ان مقامات سے نہ گزریں اور اصل الاصل تک نہ پہنچیں۔ اس نسبت سے بے نصیب رہتے ہیں ۔ اس مقام میں عارف کیلئے ہر ایک ذره حق تعالیٰ کی جناب پاک کی طرف شاہراہ بن جاتا ہے۔ برخلاف علم حصولی کے کہ جس میں عالم کی صورت ہر شے کو اپنی طرف کھینچتی ہے اور عالم خود تمام اشیاء کا آئینہ بن جاتا ہے ایسے ہی ظلیت اور مراتیت کی صورت میں ہر شے اس علم والے کو اپنی طرف کھینچتی ہے اور اس کی نظر بصیرت کو اپنے باہر نہیں رہنے دیتی جب اللہ تعالیٰ کے فضل سے حصول ظلیت کی قید سے نکل جاتا ہے تو موجودات کے ذرات میں سے ہر ایک ذرہ یعنی عرض و جواہر اور آفاق و انفس اس کیلئے گویا غیب الغیب کا دروازہ کھل جاتا ہے۔
جاننا چاہیئے کہ جس طرح پہلے وہ شخص تمام اشیاء کا آئینہ تھا اور جو کچھ کرتا تھا اپنے لیے کرتا تھا اور جو کچھ اس سے صادر ہوتا تھا اسی شخص کی طرف راجع ہوتا ہے۔ خواہ نیت کرتا تھا یا نہ کرتا تھا اب جبکہ اپنے آئین کو آئینہ داری سے ہٹا چکا ہے اورظل کی قید سے نکل چکا ہے اور ناودان یعنی پر نالہ کی طرح ہوگیا ہے کہ جو کچھ اس میں آپڑتا ہے اس کو اپنے اندر نہیں رہنے دیتا اور باہر ڈال دیتا ہے تو اب جو کچھ کرتا ہے اپنے لیے نہیں کرتا بلکہ حق کیلئے کرتا ہے خواہ نیت کرے یا نہ کرے کیونکہ نیت احتمال میں ہوتی ہے نہ یقین میں اس وقت اس عارف کی حب حق تعالیٰ کی حب کی طرف لے جاتی ہے اور اس کابغض حق تعالیٰ کے بغض کا باعث ہوتا ہے ۔ اسی طرح اس کی تعظیم وتوقیرحق تعالیٰ کی تعظیم وتوقیر ہوتی ہے اور اس کی اہانت و بے ادبی حق تعالیٰ کی اہانت اور بے ادبی ۔ آنحضرت ﷺکے اصحاب کو بھی آنحضرت ﷺ کے ساتھ اپنے اپنے درجات کے مطابق یہی نسبت ہے کہ ان کا حب وبغض آنحضرت ﷺکے حب وبغض تک پہنچا دیتا ہے۔ رسول الله ﷺنے فرمایا ۔ فَمَنْ أَحَبَّهُمْ، فَبِحُبِّي أَحَبَّهُمْ، وَمَنْ أَبْغَضَهُمْ، فَبِبُغْضِي أَبْغَضَهُمْ جس نے ان کو دوست رکھا، اس نے میری محبت کے باعث ان کو دوست رکھا اور جس نے ان سے بغض کیا، اس نے میرے بغض کے باعث ان سے بغض رکھا۔
آنحضرت ﷺکے اہل بیت کو بھی آنحضرت ﷺکے ساتھ یہی نسبت ہے لیکن اس نسبت علیہ کا ظہور حضرت مرتضی اور حضرت فاطمۃ الزہرا اور حضرات حسنین رضی اللہ تعالیٰ عنہم میں کامل طور پر ہے اور باقی بارہ اماموں میں بھی اس کا اثر مشہود ہوتا ہے ان کے سوا اور کسی میں یہ نسبت محسوس نہیں ہوتی ۔ والسلام
مکتوبات حضرت مجدد الف ثانی دفتر سوم صفحہ331ناشر ادارہ مجددیہ کراچی