عارف کو حاصل علم حضوری مکتوب نمبر 49دفتر سوم

 اس بیان میں کہ وہ علم حضوری جوعارف کو اپنے آپ سے ہوتا ہے۔ حق تعالیٰ  کے ساتھ تعلق پکڑتا ہے۔ جناب حضرت میر نعمان کی طرف صادر فرمایا ہے:۔ 

اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ وَسَلَامٌ عَلٰی عِبَادِہِ الَّذِیْنَ اصْطَفٰی (اللہ تعالیٰ  کی حمد ہے اور اس کے برگزیدہ بندوں پر سلام ہو) جب حق تعالیٰ  کی قربت کا معاملہ عارف تام المعرفت پر ظاہر ہوتا ہے اور اس بلند مقام پر ترقی کرتا ہے تو انفس(اپنی ذات کے علم) اس کے حق میں آفاق(باہر کی چیزوں کا علم) کا حکم پیدا کرتا ہے اور اس کا علم حضوری علم حصولی سے بدل جاتا ہے۔ اس وقت حق تعالیٰ  کی اقربیت(نہایت درجہ قرب) انفس کا حکم پیدا کر لیتی ہے اور وہ علم حضوری جو پہلے انفس سے تعلق رکھتا تھا اسی اقربیت سے تعلق پیدا کر لیتا ہے۔ نہ اس طرح پر کہ اپنے آپ کوعین واجب تعالیٰ  جانتا ہے اور وہ علم جو اس کے اپنے نفس کے متعلق ہے۔ بعینہ واجب تعالیٰ  کے متعلق خیال کرتا ہے کیونکہ یہ معاملہ توحید شہود ی کا ہے اور مقامات قرب سے تعلق رکھتا ہے۔ جس کی نہایت اتحاد(شہودی کیفیت)تک ہی ہے اقربیت اور چیز ہے اور اس کا معاملہ بھی اورہی ہے۔ اس اتحاد سے گزر کر اثنینیت یعنی دوئی میں آنا پڑتا ہے۔ پھر اقربیت متصور ہوتی ہے۔ کوئی بےسمجھ دوئی کے لفظ سے شک و شبہ میں نہ پڑ جائے اور اتحاد کو اس سے بڑھ کر نہ جانے، کیونکہ وہ دوئی جو اتحاد سے کمترہے۔ وہ عوام کا الانعام کا مقام ہے اور یہ دوئی جو اتحاد پر ہزار ہا درجہ زیادتی رکھتی ہے انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام کا مقام ہے۔ جس طرح کہ وہ صحو جوسکر سے پہلے ہے۔ عوام کا حال ہے اور وہ صحو جو سکر(مستی)  کے بعد ہے۔ خواص بلکہ اخص خواص کا مقام ہے یا جس طرح کہ وہ اسلام جو کفر طریقت سے پہلے ہے عام مسلمانوں کا اسلام ہے اور وہ اسلام جو کفر طریقت کے بعد ہے اخص الخواص کا اسلام ہے۔ عجب معاملہ ہے اگرچہ  عارف اپنے آپ کو واجب تعالیٰ  نہیں جانتا، لیکن وہ علم حضوری جو عارف کے اپنے نفس سے تعلق رکھتا تھا ۔ واجب تعالیٰ  کے ساتھ تعلق پیدا کر لیتا ہے اور عارف کے اپنے نفس کا علم جو حضوری تھا علم حصول ہو جاتا ہے۔ 

در عشق چنیں بوالعجبيها باشند  ترجمہ  عشق میں ہوتی ہیں ایسی ہی بہت باتیں عجب 

عقل عقیل اس دقیقہ کونہیں پا سکتی۔ بلکہ جمیع ضدین کی طرف راجع کرتی ہے۔ ایک عارف کہتا ہے عرفت ربى بجمع الأضداد (میں نے رب کو اضداد کے جمع ہونے سے پہچانا ۔ رَبَّنَا آتِنَا مِنْ لَدُنْكَ رَحْمَةً وَهَيِّئْ لَنَا مِنْ أَمْرِنَا رَشَدًا (یا اللہ تو اپنے پاس سے ہم پر رحمت نازل فرما اور ہمارے کام سے بھلائی ہمارے نصیب کر)) وَالسَّلَامُ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَى (سلام ہو اس شخص پر جس نے ہدایت اختیار کی )

مکتوبات حضرت مجدد الف ثانی دفتر سوم صفحہ154ناشر ادارہ مجددیہ کراچی


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں