عارف کی ذات موہوب کی طرف اشیاء کے منسوب ہونے کے بیان میں حضرت مخدوم زادہ خواجہ معصوم سلمہ بیان کی طرف صادر فرمایا ہے
الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي هَدَانَا لِهَذَا وَمَا كُنَّا لِنَهْتَدِيَ لَوْلَا أَنْ هَدَانَا اللَّهُ لَقَدْ جَاءَتْ رُسُلُ رَبِّنَا بِالْحَقِّ (الله تعالیٰ کے لیے حمد ہے جس نے ہم کو ہدایت دی اور اگر وہ ہم کو ہدایت نہ دیتا تو ہم بھی ہدایت نہ پاتے، بیشک ہمارے اللہ تعالیٰ کے رسول حق کے ساتھ آئے ہیں)۔ ہرایک ظل سے اصل کی طرف سید هاشاہراہ جاتا اور کوئی خارو خس ان کے درمیان حائل نہیں اور اگر خاروخس درمیان حائل ہوتو اس کی توجہ اپنی طرف ہی ہے اور اصل کی طرف سے روگردان ہے۔ ظل صرف اصل کاامانتدار ہے کیونکہ جو کچھ وہ وجودو توابع وجود کا حسن و کمال رکھتا ہے سب اس کو اصل ہی سے ملا ہے۔ شاید عدم ہے جو اصل کے وسیلہ کے بغیر اس کے نصیب ہوا ہو اور وہ لاشے محض اور مجرد اعتبار ہے۔ اس ظل نے اپنی کمال نادانی سے اپنے اصل کو فراموش کر دیا اور اس کی امانتوں کو اپنی طرف سے خیال کر کے امانت میں خیانت کی اور باوجود ذاتی برائی کے جو عدم کے باعث رکھتا ہے اپنے آپ کو بہتر وکامل جانا لیکن اپنی طرف متوجہ ہونے اور اصل کی طرف سے روگردانی کرنے کے باوجود اس کو اپنے اصل کے ساتھ طبعی میلان و محبت حاصل ہے خواہ اس کو خود جانے یا نہ جانے بلکہ وہ محبت جو اپنے آپ کے ساتھ رکھتا ہے درحقیقت اس کا تعلق بھی اصل کے ساتھ ہے کیونکہ وہ حسن و کمال جس سے محبت کا تعلق ہے اصل ہی کی طرف سے ہے نہ کہ اس کی اپنی طرف سے وہ اپنی طرف سے سوائے عدم اور قبح کے کچھ نہیں رکھتا جس کے ساتھ محبت کا تعلق ہو سکے جیسے کہ کئی دفعہ تحقیق ہو چکی ہے جب اللہ تعالیٰ کے کرم سے اس کی اس خودبینی کا مرض اس سے دور ہو جاتا ہے اور جہل مرکب کو چھوڑ دیتا ہے اور امانت کو امانت والوں کی طرف سے جانتا ہے اور اپنی طرف متوجہ ہونے کے بجائے اپنی طرف سے منہ پھیر لیتا ہے اور اس کا وہ اعراض جو اصل کی طرف سے تھا اقبال کے ساتھ بدل جاتا ہے تو اس وقت اس کو رشتہ سعادت ہاتھ آجاتا ہے اور اصل تک پہنچنے کی امید حاصل ہو جاتی ہے حاصل کلام یہ ہے کہ چونکہ عالم حق تعالیٰ کے اسماء وصفات کے ظلال ہیں اس لیے اس کے اصول بھی اسماء صفات ہیں اور یہ ظلال اعراض ہیں جن کا قیام اپنے اصول یعنی اسماء وصفات کے ساتھ ہے اور ان کے درمیان کوئی ایسا جو ہر قائم نہیں جس کے ساتھ قائم ہوں نظام معتزلہ نے اِنَّ الْكَذُوْبَ قَدْ يَصْدَقُ (جھوٹاکبھی کبھی سچ بھی کہتا ہے) کے موافق اس بھید سے آگاہ ہو کر کہا ہے کہ عالم سب کا سب اعراض ہے اور کوئی جو ہر درمیان نہیں جس کے ساتھ قائم ہو لیکن اس نے خطا کی ہے کہ اس نے ان اعراض کے قیام کو خود بخود کہا ہے اور ان کے اصول سے غافل رہا ہے جن کے ساتھ قیام رکھتے ہیں اور صوفیاء میں سے شیخ محی الدین ابن عربی قدس سرہ نے عالم کو اعراض مجتمعہ فرمایا ہے اور ان کا قیام حق تعالیٰ کے ساتھ رکھا ہے نہ کہ اسماء و صفات کے ساتھ جو ان کے اصول ہیں۔ فياليت شعري ما معنى القيام بالذات المجردة عن جميع الوجوہ و الإعتبارات و لا معني للقيام ثم إلا الإختصاص الناعت ولانعت ثم فلا قيام وايضا إن القيام من جملة الوجوه والاعتبارات المنفية فلا معنی لاثباته في تلك المرتبة القدسہ
( کاش میں جانتا کہ تمام وجود و اعتبارات سے مجردذات کے ساتھ قیام کے کیا معنی ہیں حالانکہ وہاں اختصاص ناعت کے سوا قیام کے کچھ معنی نہیں لیکن نہ وہاں نعت ہے نہ قیام اور نیز قیام وجود اعتبارات منفیہ کی قسم سے ہے اس لیے اس مرتبہ مقدسہ میں اس کا ثابت کرنا بے فائدہ ہے ) چونکہ افراد عالم اسماء و صفات کے ظلال ہیں اس لیے ان کا وصول بھی ان کے اصول تک ہوگا جو اسماء وصفات ہیں اور اگر اصول کے اصول تک پہنچ جائیں ‘ تو پھر بھی ذات مجردو مقدس تک منتہی ہوں گے اور وہاں سے آگے نہ گزاریں گے کیونکہ اسماء کی اصالت بھی وہاں گنجائش نہیں رکھتی وہاں اسم وصفت و شان و اعتبار سے غنائے ذاتی ہے ۔ پس عالم کو مرتبہ مقدسہ ذات سے مایوسی اور حر مان کے سوا کچھ نصیب نہیں اوروصل و اتصال کی وہاں گنجائش نہیں لیکن عادت اللہ اسی طرح جاری ہے کہ بہت قرنوں اور بے شمار زمانوں کے بعد کسی صاحب دولت کوفتاء اتم کے بعد بقاء اکمل بخشتے ہیں اور ذات مقدس کا نمونہ اس کو عطا فرماتے ہیں جس کے ساتھ اب اس کا قیام ہوتا ہے جس طرح کہ پہلے اس کا قیام اپنے اصل کے ساتھ تھا جو اسماء وصفات ہیں اور وہ تمام اعراض سابقہ جو رکھتا تھا اور یہ ذات موہوب دونوں مل کر اس کی حقیقت ہوتی ہے یہاں پہنچ کر اس کا کمال انسانی ختم ہوجاتا ہے اور نعمت اس کے حق میں تمام ہو جاتی ہے میں ایک بات کہتا ہوں اس کو اچھی طرح سننا چاہیئے کہ اس ذات موہوب کے ساتھ صرف عارف ہی کا قیام مخصوص نہیں ہوتا بلکہ تمام افراد عالم جواعراض مجتمعہ ہیں جس طرح پہلے اسماء وصفات کے ساتھ قیام رکھتے تھے اسی طرح اب ان کا قیام اس ذات موہوب پر وابستہ کیا ہے اور سب کو اس ایک ذات کے ساتھ قائم کیا ہے۔
خاص کند بنده مصلحت عام را ترجمہ ۔ خاص کر لیتا ہے اک کوتا بھلا ہو عام کا
انسان کی خلافت کا سرجو آیت کریمہ إِنِّي جَاعِلٌ فِي الْأَرْضِ خَلِيفَةً (میں زمین میں خلیفہ بنانا چاہتا ہوں میں آیا ہے اس جگہ متحقق ہوتا ہے اور حدیث ۔ فَإِنَّ اللهَ خَلَقَ آدَمَ عَلَى صُورَتِهِ (اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو اپنی صورت پیدا کیا) کی حقیقت اس مقام میں واقع ہوتی ہے اور یہ جو ہم نے کہا ہے کہ ذات اقدس کا نمونہ اس کو عطا فرماتے ہیں میدان عبارت کی تنگی کے باعث ہے ورنہ نمونہ کی وہاںمجال نہیں جاننا چاہیئے کہ اس قسم کے بزرگ ایک زمانہ میں متعدد و بے شمار نہیں ہوتے جب بے شمار قرنوں کے بعد ایک پیدا ہوتا ہے تو پھر ایک زمانہ میں متعدد کس طرح ہو سکتے ہیں اگر اس قسم کی دولت کے ظہور کی مدت مقرر کی جائے تو شاید ہی کوئی اعتبار کرے۔ رَبَّنَا آتِنَا مِنْ لَدُنْكَ رَحْمَةً وَهَيِّئْ لَنَا مِنْ أَمْرِنَا رَشَدًا (یا اللہ تو اپنے پاس سے ہم پر رحمت نازل فرما اور ہمارے کام سے بھلائی ہمارے نصیب کر)
جاننا چاہیئے کہ جب عارف کو بقاء ذات سے مشرف فرمائیں تو اس کی وہ ذات موہوب بیچوں اور وجود اعتبارات کےوراء ہوگی کیونکہ جو چون ہے وہ وجہ و اعتبار کے ساتھ مقید ہے جب تک بیچون نہ ہووجہ و اعتبار سے نہیں چھوٹ سکتا۔ اس ذات کیلئے جوبیچونی سے حصہ رکھتی ہے۔بیچون حقیقی کی ذات کی طرف شاہراہ ہے جس طرح ظل کی وجہ واعتبارکواصل کے وجہ واعتبار کی طرف راستہ ہے اسی طرح ظل کی عطا فرمائی ہوئی ذات مجردکوذات مجردبیچون کی طرف شاہراہ ہے اور یہ ذات موہوب عارف کی کُنْہ ہے کیونکہ کُنْہ وہ ہے جو تمام وجوه و اعتبارات کے ماوراء ہو اور یہ ذات بھی تمام وجوه و اعتبارات کے ماوراء ہے اور عالم کے باقی تمام افراد کی کوئی کُنٌہ نہیں کیونکہ ان کے تمام وجود سراسر وجوه و اعتبارات ہیں۔ اعتبارات کے سوا ان کی کوئی ذات نہیں جس کو کنہ کہا جائے ۔ پس جب ان کی کنہ نہیں تو ان کو اصل کی کُنْہ ( ماہیتِ الٰہی جو ادراک سے پرے ہے۔انتہا، غایت) سے کیا نصیب ہوگا۔ ہاں کنہ کوکنہ کی طرف راستہ ہے لیکن وجہ کوکنہ کے ساتھ کچھ مناسبت نہیں کنہ گویا کنہ کے مقابل واقع ہے اور وجہ کوکنہ کی طرف سے انحراف ہے پھر کنہ تک کس طرح پہنچے بلکہ جوں جوں دور جائے گا اس سے دور ہوتا جائے گا۔ بیت
ترسم نرسی بکعبہ اے اعرابی کیں راہ کہ تو می ر وی بہ ترکستان است
ترجمہ بیت: کعبہ کب جائیگا ا اعرابی راہ ترکی کی تو نے پکڑی ہے
کنہ کا کُنْہ کےمحاذی اور مقابل ہونے کا اطلاق میدان عبارت کی تنگی کے باعث کیا گیا ہے ورنہ اس بارگاہ میں محاذات متصورنہیں لیکن چونکہ وہ معنی بیچون صورت مثالی میں محاذات کے طور پرمتمثل ہوتے ہیں اس لیے مجاز کے طور پر مجاذات کا اطلاق کیا جاتا ہے ۔ رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَا إِنْ نَسِينَا أَوْ أَخْطَأْنَاتو ہماری بھول چوک پر ہمارا مواخذہ نہ کر)سنو سنو، جب افراد عالم کو جواعراض مجتمعہ ہیں عارف کی ذات موہوب کے ساتھ قیام حاصل ہو گیا جیسے کہ گزر چکا ہے تو ان کو اس ذات عارف کے ذریعے ذات اقدس جل شانہ کے ساتھ نسبت ظاہر ہوگئی اور ان میں سے ہر ایک کو اس وسیلہ سے اس مرتبہ مقدسہ کا کچھ کچھ حصہ بھی مل گیا کیونکہ ان کی ذات ہی عارف کی ذات ہے گویا اپنی ذات کے وسیلے سے ذات بیچون کے ساتھ بیچون رابطہ پیدا کیا ہے باوجود یکہ ذات اقدس کی طرف ان کا منسوب ہونا عارف کے واسطے سے ہے کیونکہ وہ ذات درحقیقت عارف کی ذات ہے ایک اور عجیب بات سنو کہ جس شخص کو بذات خود ذات اقدس کی طرف انتساب حاصل ہے اور اس مرتبہ میں بیچون وصول کے ساتھ واصل ہے وہ شخص اس مرتبہ مقدسہ سے فیوض و برکات کے حاصل کرنے میں اصالت و استقلال رکھتا ہے۔ کوئی واسطہ درمیان نہیں ہوتا کیونکہ واسطے اور وسیلے اس مرتبہ مقدسہ سے نیچے نیچے ہیں ۔ واصلوں میں سے ہر ایک شخص کو اپنی اپنی استعداد کے موافق اصالت کے طور پر اس جگہ سے حصہ حاصل ہوتا ہے۔ ۔ وَاَللَّهُ سُبْحَانَهُ وَتَعَالَى بِحَقَائِقِ الْأُمُورِ كُلِھَا تمام امور کی حقیقت کو اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے وَالسَّلَامُ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَى (سلام ہو اس شخص پر جس نے ہدایت اختیار کی )
مکتوبات حضرت مجدد الف ثانی دفتر سوم صفحہ235ناشر ادارہ مجددیہ کراچی