دعوی مرغابی کردہ است جاں کہ زطوفان بلادارد جاں فغاں
جان نے جب مرغابی ہونے کا دعوی کر دیا ہے تو پھر طوفان بلا سے اس کو کب گلہ فریاد ہے۔ مرغابی طوفان سے مغلوب نہیں ہوتی بلکہ موجوں کے نشیب و فراز پر غالب رہتی ہے
اسی طرح جان عاشق طوفان و حوادث سے متاثر ہوئے بغیر اپنے دلبر کی یاد میں مست رہتی ہے۔ عاشق صادق، کشته محب رسول ﷺ حضرت بلال رضی اللہ عنہ از لی سعادت مندوں میں سے تھے۔
آپ امیہ بن خلف نامی ایک یہودی کے غلام تھے۔ امیہ کی اسلام دشمنی یہ کب برداشت کرسکتی تھی کہ اس کا زرخرید………… غلام مسلمان ہو گیا ہو۔ میخانہ وحدت کایہ مستانہ کیف مستی میں کھویا رہتا تھا۔ حق تعالی کی محبت نے کلمہ توحید ظاہر کرنے پر انہیں مجبور کر دیا۔ جان عاشق نے جب محبوب کے ہاتھ میں خنجرعشق دیکھ لیا تو بے خوف و خطر قتل کی جانب دوڑ پڑی۔
خنجرش چو سوئے خود راغب بدید سر نهادن آن زمان واجب بدید
اے محبوب حقیقی ! آپ رضی اللہ عنہ کی یاد میں نعرہ ہائے عشق مجھے اچھے لگتے ہیں اور قیامت تک اے محبوب اسی طرح مستانے نعرے لگانا چاہتا ہوں۔
بر سر مقطوع اگر صد خندق است پیش درد او مزاح مطلق است
سر بریده عشق حق کے سامنے اگر سوخندقیں بھی ہوں اس کے دردعشق کے سامنے ان کی حیثیت ایک مزاح سے زیادہ نہیں۔ اس کی ایک تڑپ تمام خندقوں کو عبور کر لیتی ہے اس کا درد باطن ظاہری تکالیف سے بے نیاز ہو جاتا ہے۔
حضرت بلال رضی اللہ عنہ کا نعرہ احد لگانا تھا کہ اس یہودی کا غیظ وغضب ان پرظلم اور زدوکوب کی صورت میں برس پڑا۔ آپ رضی اللہ عنہ کو اتنا مارا کر لہولہان کر دیا پھر گرم ریت پر لٹا کر گھسیٹتا اور کہتا کہ آئندہ وحدانیت کا نعرہ لگانے کی جرأت نہ کرنا۔ حضرت بلال رضی اللہ عنہ بزبان حال عرض کرتے۔
ہجرم عشق تو هم میکشند وغوغا ئيست تو نیز بر سر بام آکه خوش تماشا ئیست
آپ ﷺکی محبت کے جرم میں یہ کفارمجھ کوقتل کر رہے ہیں اور شور برپا کر
رہے ہیں۔
اے محبوب حقیقی! آپ بھی آسمان دنیاپر تشریف لائیے اور اپنے عاشق کے اس تماشہ کو دیکھئے کہ کیسا اچھا تماشہ ہے۔
ایک دن حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کوچہ یار امتحان گاہ عشق سے گزر رہے تھے۔ حضرت بلال رضی اللہ عنہ خستہ حال اور لہولہان حالت میں احداحد کا نعرہ لگارہے تھے۔ عاشق کی آواز میں حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو بوئے محبوب حقیقی محسوس ہوئی جس سے آپ رضی اللہ عنہ محولذت ہو گئے ۔ حضرت بلال رضی اللہ عنہ کی اس مظلومیت کو دیکھ کر حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کا دل تڑپ گیا اور آنکھوں میں آنسو آ گئے۔
آپ رضی اللہ عنہ عاشق زار کو کہنے لگے کہ تم دل میں اللہ کو یاد کر لیا کرو اس موذی کے سامنے ظاہر مت کیا کرویہ ملعون ناحق تجھے ستاتا ہے۔ چند دنوں کے بعد پھر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا ادھر سے گزر ہوا دیکھتے ہیں کہ پھر وہی ماجرا ہے۔ یہودی ان کو بری طرح زدو کوب کررہا ہے۔
تن به پیش زخم خار. آن جهود جاني أو مست و خرابان و دودر
حضرت بلال رضی اللہ عنہ کا جسم تو اس ظالم یہودی کے سامنے زخم خوردہ تھا لیکن ان کی روح حق تعالی شانہ کی بارگاه قرب میں مست و خواب عشق ہورہی تھی اور بہارلازوال لوٹ رہی تھی۔
حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے پھر نصیحت فرمائی کہ بھائی کیوں اس ظالم کے سامنے نعرہ مست لگاتے ہو۔ دل میں خاموشی کے ساتھ احد احد کہتے رہا کرو۔ حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے عرض کیا اچھا پھر میں توبہ کرتا ہوں کہ اب آپ رضی اللہ عنہ کے مشورہ کے خلاف نہ کروں گا۔
اس مقام پر مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:۔
باز پندش داد باز او توبه کرد عشق آمد توبه او را بخورد
جب پھر حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے ان کو سکوت واخفا کی نصیحت فرمائی تو حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے پھر توبہ کی لیکن جب عشق آیا تو ان کی توبہ کو کھا گیا یعنی تو بہ ٹوٹ گئی۔ عاشق کو ذکر محبوب کے بغیر کب سکون ملتا ہے۔
حضرت بلال رضی اللہ عنہ ہزارہا مصائب و آلام کے باوجود رازعشق کومخفی نہ رکھ سکے۔
عشق خونی چوں کند زه بر کماں صد هزاران سر بپولےآن زماں
عشق خونی جب اپنا چلہ کمان پر چڑھاتا ہے اس وقت ہزاروں سرایک پیسے کے عوض بک جاتے ہیں۔
حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے متعدد با رنصیحت فرمانے کے باوجود جب ہر بار ہی ماجرا دیکھا کہ وہ یہودی ظلم کر رہا ہے اور حضرت بلال رضی اللہ عنہ احداحد کا نعرہ مستانہ لگا رہے ہیں تو اس صورت حال کو رحمت اللعالمین ﷺ کے سامنے پیش کیا۔ حضرت بلال رضی اللہ عنہ کے مصائب سن کر آپ ﷺ کی آنکھیں اشکبار ہوگئیں … حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے عرض کیا حضور اگرحکم ہو تو آپ کا یہ خادم انہیں خرید لے۔ حضورﷺنے فرمایا حضرت بلال رضی اللہ عنہ کی خریداری میں میری بھی شرکت ہوگی۔ اس کالے جسم میں اللہ تعالی اور اس کے رسول ﷺ کی محبت کا ایسا نورجلوہ گر ہو گیا تھا کہ حضورﷺ بھی اس کے خریدار ہو گئے۔ ایمان اورعشق نے انہیں انمول بنا دیا۔
حضرت بلال رضی اللہ عنہ کیف و مستی سے سرشار نیم مدہوشی کے عالم میں احداحد کے نعرے لگا رہے تھے، اور وہ ظالم یہودی آپ رضی اللہ عنہ پر ظلم وستم کے پہاڑ توڑ رہاتھا۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا۔ یہ کالے رنگ والا حبشی غلام مجھے دے یہ سفید فام اور خوبصورت غلام قسطاس جس کی قیمت کئی ہزار دینار ہے تم لے لو اس یہودی نے غلام کے ساتھ رقم بھی مانگی حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اسے منہ مانگی رقم ادا کی ……. اور حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو ساتھ لے کر بارگاہ رسالت مابﷺ میں حاضر ہوئے۔
مصطفی اش در کنار خود کشید کس چه داند لذتے کو را چشید
حضور ﷺ نے اپنے عاشق زار کو آغوش رحمت میں لے لیا۔ حجرو فراق کے لمحے بیت گئے بلال رضی اللہ عنہ کی پیاسی جان نے جو لطف اس وقت محسوس کیا………….. اس کا اندازہ کون لگا سکتا ہے۔
دکھ درد کے ماروں کو غم یاد نہیں رہتے جب سامنے آنکھوں کے غم خوار نظر آئے
حضور انور ﷺ کی آنکھوں میں محبت کے آنسو تھے، اور فرمانے لگے:
تو چرا تنها خریدی بهر خویش باز گو احوال کے پاکیزه کیش
گفت اے صديق آخر گفمت که مرا انباز کن در مکرمت
آپ ﷺ نے فرمایا اے صدیق رضی اللہ عنہ کیا میں نے تجھے کہا نہیں تھا کہ مجھے بلال رضی اللہ عنہ کو آزاد کرانے کے شرف میں شریک کرنا تو نے اس کو کیوں تنہا خریدا اے پاکیزه فطرت آدمی۔
حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے عرض کیا یا رسول اللہﷺ میرے ماں باپ آپﷺ پر قربان۔ میں اور بلال رضی اللہ عنہ آپﷺ کے ادنی غلام ہیں، اور میراسب کچھ تو ہے ہی آپ اﷺکا۔ میں حضرت بلال رضی اللہ عنہ کوآپ ﷺ کی خدمت اقدس میں پیش کرتا ہوں آپ ﷺ قبول فرمائیں۔
الہی! کیا شان ہے تیرے نام کی ۔کن ناقابل تسخیر قوتوں کا مخزن ہے تیری ذات پر ایمان کیا عظمتیں ہیں تیرے محبوب ﷺ کے طوق غلامی کی جن کو یہ سرمدی نعمتیں تو ارزانی فرماتا ہے، وہ ذرے ہوں تو رشک آفتاب بن جاتے ہیں۔
وہ قطرے ہوں تو سمندر کی بیکرانیوں کے امین بن جاتے ہیں، وہ غلام ہوں تو دنیا کے کج کلاہ ان کے باج گزار بن جاتے ہیں
بجھ گئیں جس کے آگے بھی مشعلیں شمع وہ لے کر آیا ہمارا نبی
کون دیتا ہے دینے کو منہ چاہیے دینے والا ہے سچا ہمارا نبی
غم زدوں کو رضا مژده دیجے کہ ہے بے کسوں کا سہارا ہمارا نبی
ثمرات: * حضور ﷺ کی محبت میں اگر جان بھی چلی جائے تو یہ گھاٹے کا سودا نہیں۔ دین کے راستے میں جب مشکلات آئیں تو ہمیں حضرت بلال رضی اللہ عنہ جیسی ہستیوں کی زندگیوں پر نگاہ ڈال لینی چاہئے۔