عالم امثال ( تنزلات ستہ کا مرتبہ خامسہ)

عالم امثال ( تنزلات ستہ کا مرتبہ خامسہ)

تنزل رابع

پانچواں مرتبہ تعین چہارم، اَنْ اُعْرَفَ( میں پہچانا جاؤں ) کا مقام ہے۔ یہ عالم ملکوت ہے جہاں روح سلطانی نے خود کو روح سیرانی یا روح روحانی میں مخفی کیا اور مثالی صورتوں میں ظاہر ہوئی۔ اس مرتبہ سے قبل روح کی کوئی صورت ہی تھی اور اس کو پہچاننا ممکن تھا کیونکہ مرتبہ احدیت ، وحدت اور واحدیت میں اللہ تعالی باطن میں پوشیدہ تھا اور اظہار کے عمل سے گزر رہا تھا۔ عالم امثال یا عالم ملکوت میں روح کا ظہور مثالی صورتوں میں ہوا البتہ یہاں صورت تو آگئی مگر ابھی کثافت نہیں آئی یعنی انہیں دیکھا تو جاسکتا ہے مگر چھوا نہیں جا سکتا جیسے کہ خواب میں نظر آنے والی صورتیں۔ سچے خواب بھی عالم ملکوت سے آتے ہیں۔

اس عالم کی مثال سایہ ہے جو نظر تو آتا ہے مگر پکڑنے سے پکڑا نہیں جاتا۔ یہ عالم امثال (عالم ملکوت ) اشیائے کو نیہ مرکبہ لطیف ہے یعنی وہ اشیا جو ٹکڑے ٹکڑے ہونے اور پھٹنے جڑنے کو قبول نہیں کرتی ہیں۔

حیوانات ، نباتات اور جمادات کی ارواح کوعالم ملکوت میں تخلیق کیا گیا۔

چوتھا تنزل ، (اس کو حق تعالیٰ نے ارواح اور اجسام کے درمیان رابطہ کے لئے برزخ بنایا ہے )عالم مثال ہے ۔ یہ عالم لطیف برزخ اور واسطہ ہے اجسام وارواح کے درمیان ۔ اس کو عالم برزخ(لغت  میں ہر اس چیز کو ہر رخ کہتے ہیں جو دو چیزوں کے درمیان اس طور سے حائل ہو کہ وہ دونوں سے واصل بھی ہو اور فاصل بھی ۔ ایک جہت سے ایک چیز سے اور دوسری جہت سے دوسری چیز سے متصل ہو۔ صوفیہ کرام کی اصطلاح میں عالم مثال کو عالم برزخ اس وجہ سے کہتے ہیں کہ یہ اجسام کثیفہ اور ارواح مجردہ کے در میان عالم وسطی ہے ۔) عالم خیال (اس وجہ سے کہتے ہیں کہ یہ علم کا با منشا حقیقی اور صحیح خیال  یعنی خیال منفصل یا خیال مقید ہوتا ہے ) عالم دل( اس وجہ سے کہتے ہیں کہ مثال خیال ہے اور خیال کا تعلق دل سے ہے ۔ لہذا عالم مثال عالم دل ہوا ) کہتے ہیں۔ یہ عالم روحانی ہے ، جوہر نورانی ہے۔ محسوس اور مقداری ہونے میں جوہر جسمانی کے مماثل ہے(کیونکہ عالم مثال میں مدت اور شکل وصورت ہوتی ہے اور مدت کی وجہ سے مکان کے مثل ہوتا ہے لیکن فی الواقع مکان سے پاک ہے) اور خود نورانی ہونے کی وجہ سے جوہر مجرد عقلی کے مماثل ہے۔ یعنی طول و عرض اور جسم کے مشابہ نظر آنے کے با وجود اور نہ کٹنے ، نہ جڑنے اور گرفت میں نہ آنے کی وجہ سے ، روح کی مانند ہے۔

(عالم امثال میں کچھ خصوصیات  و مشابہات عالم اروا ح کی اور  اور کچھ عالم اجسام کی پائی جاتی ہیں  اور اسی دو جہتی کی وجہ سے وہ عالم برزخ کہلاتا ہے ۔ مراتب کو نیہ تین ہیں ارواح،،امثال، اجسام)

عالم مثال کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ یہ عالم ، عالم اجسام کی مانند ہے اور ہر چیز میں ہر چیزکی مثال موجود ہے ، اس لیے کہ حضرت علمی میں اولا ہر چیز کی ایک صورت ہے ۔

عالم مثال کی دو قسمیں ہیں

1:  ایک عالم مثال تو وہ ہے جس کی یافت کے لیے دماغی قوت کی شرط نہیں اس کوخیال منفصل،۔مثال منفصل ، مثال مطلق اور خیال مطلق (حقیقی اور صحیح خیال) کہتے ہیں

2:دوسرا عالم مثال وہ ہے جس کی یافت کے لئے دماغی قوت کی شرط ہے ۔ اس کو خیال متصل ،مثال متصل ، مثال مقید اور خیال مقید (بے مقصد  بے اصل اورمن گھڑت  خیال)کہتے ہیں

مثال منفصل عالم لطیف موجود ہے جس میں اجسام کو ارواح ملتی ہیں اور ارواح کو اجسام ملتے ہیں۔ اسی عالم میں حضرت جبرئیل علیہ السلام ، حضرت دحیہ کلبی رضی اللہ تعالی عنہ کی صورت میں متشکل ہو کر ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آتے تھے ۔ خضر علیہ السلام، انبیائے کرام اور اولیا ء اللہ اس میں نظر آتے ہیں کہ حضرت عزرائیل علیہ السلام بھی مرنے والے  کو مرتے وقت اسی عالم میں نظر آتے ہیں اور مرنے کے بعد روح اسی عالم میں جسد اختیار کرتی ہے۔ منکر نکیر کے سوالات بھی اسی عالم میں ہوتے ہیں اور میت کو قبر کی راحت اور قبر کا عذاب بھی اسی عالم میں ہوتا ہے ، اسی لیے اس عالم کو ” عالم قبر بھی کہتے ہیں ۔ قیامت کے بعد جب حشر برپا ہو گا تو یہی اجسام عنصری محشور ہوں گے اور یہ اجسام لطیف ہوں گے ۔ اسی عالم میں اہل جنت اپنے اعمال کی صورتوں میں مزے لیں گے اور اسی عالم میں اہل دوزخ اپنے اعمال کی صورتوں میں عذاب پائیں گے ۔ اگرچہ اس عالم میں اعمال عرض ہیں لیکن ان کی حقیقتیں جوہر ہو کر باقی رہیں گی۔ مثال منفصل میں جنت میں نیک اعمال حور اور محلات بن جائیں گےاور بد اعمال دوزخ میں آگ ، سانپ اور بچھو بن کر باقی رہیں گے ۔ بعض بد اعمال مثلاً زنا جو اگرچہ دنیا میں غفلت کے سبب جسم کو لذت دیتا ہے لیکن اس کی حقیقت جلانے والی آگ ہے۔

اس عالم میں اعمال کا ظہور مختلف صورتوں کے ساتھ ہے مثلاً نیک اعمال جنت میں جانے سے قبل سواریوں کی شکل اختیار کر کے اپنے عامل کو اپنے اوپر سوار کر لیں گے اور برے اعمال بوجھل ہو کر اپنے عامل کی پیٹھ پر خود سوار ہو جائیں گے ۔ نیک اعمال ، مقام شفاعت میں کھڑے ہو کر حق تعالیٰ کی بارگاہ میں سفارش کریں گے اور برے اعمال اپنے عاملوں کو مزید ڈرائیں گے ۔اسی طرح عقائد فاسدہ آگ ہو کر دل کو جلائیں گے ۔

خواب کی صورتیں

مثال مقید اس عالم میں قوت متخیلہ کے عمل کرنے سے موجود ہوتی ہے اور دکھائی دیتی ہے ، مثلاً خواب کی صورتیں

1:۔ یہ صورتیں کبھی اپنے حقائق موجودہ کے مطابق ہوتی ہیں ، تب ان کو تعبیر، تاویل اور تفسیر کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ جو کچھ دیکھا گیا ہے وہ بعینہ واقع ہوتا ہے ، یہ رویائے صادقہ ہیں۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ابتدائے نبوت کے زمانے میں جو بھلی چیز حاصل ہوئی ، وہ رویائے صادقہ تھی ۔ لہذا آپ جو بھی خواب دیکھتے وہ صبح کی روشنی کی مانند سامنے آتا یعنی اس خواب میں کوئی خِفا یا شبہ نہ ہوتا اور تعبیر و تاویل کی ضرورت ہی نہ ہوتی ۔ سچے خوابوں کو ” رویائے صالحہ” رویائے صادقہ ” اور ” مبشرات ” کہتے ہیں

2:اور کبھی خواب اپنے حقائق موجودہ کے مناسب و مطابق ہونے کے باوجود ، بظاہر ان سے مختلف نظر آتے ہیں، لہذا ان خوابوں کو تعبیر کی ضرورت ہوتی ہے، چنانچہ صورت متشکلہ کی حقیقت، اُن کی تعبیر ہوگی مثلا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے علم کو دودھ کی صورت میں اور ایمان کوپیراہن کی صورت میں ملاحظہ فرمایا اور حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے صاحبزادے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو ذبح کرتے ہوئے دیکھا، جس کی تعبیر دنبہ کو ذبح کرنا تھی ، یہ بھی رویائے صادقہ ہی ہیں ۔

اور رویائے معبرہ مثلا وہ خواب جو حضرت یوسف علیہ السلام نے دیکھا تھا کہ گیارہ تارے اور آفتاب و ماہتاب، آنجناب کو سجدہ کر رہے ہیں۔ چنانچہ گیارہ ستاروں کی تعبیر گیارہ بھائی تھی اور آفتاب و ماہتاب کی تعبیر، ماں باپ اس خواب کا اتنا حصہ تو معبر ہوا لیکن سجدہ معبر نہیں بلکہ بعینہ واقع ہوا ، کیونکہ فی الواقع وہ سب آنجنا ب کے مطیع و منقاد ہوئے ۔

3- کبھی خواب کی یہ صورتیں واقع سے بالکل مختلف ہوتی ہیں۔ نہ ظاہر میں کوئی مطابقت ہوتی ہے اور نہ باطن میں کوئی مناسبت مثلا دیوانوں ، سرسام کے مریضوں اور عوام الناس کے خوابوں کی صورتیں ۔ یہ سب جھوٹے خواب ہوتے ہیں اس لیئے کہ عالم ارواح ، وجود  اور مرتبہ میں عالم اجسام پر مقدم ہے اور امداد ربانی جو اجسام کو پہنچتی ہے، موقوف ہے اجسام اور حق تعالیٰ کے درمیان ارواح کی وساطت پر – ارواح کو اجسام کی تدبیر سونپی گئی ہے اور مغایرت ذاتی کی وجہ سے اجسام کے ساتھ ارواح کا ربط محال ہے جو مرکب اور بسیط کے درمیان ثابت ہے کیونکہ تمام اجسام مرکب ہیں اور تمام ارواح ، بسیط ۔ چونکہ ارواح اور اجسام میں مناسبت نہ ہونے کی وجہ سے ان میں ربط بھی نہیں لہذا تأثیر و تاثر اور امداد و استمداد حاصل نہیں ، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اسی لیے عالم ارواح اور عالم اجسام کے درمیان عالم امثال کو برزخ جامع بنایا ہے تاکہ ایک کا دوسرے سے رابطہ قائم ہو، تأثیر و تا ثراور امداد و استمداد ہو سکے ۔

روح مفارق

اسی طرح روح انسانی اور جسم انسانی میں مغایرت ہے اور ارتباط ، ممتنع ۔ کیونکہ ارتباط موقوف ہے جسم کو امداد و تدبیر کے پہنچنے پر، اس لئے اللہ تعالیٰ نے روح مفارق اور بدن کے درمیان نفس حیوانی کو برزخ جامع بناکر پیدا فرمایا ہے۔ چونکہ قوت عقل بسیط ہے ،اس لیئے نفس حیوانی ، روح مفارق کے مناسب ہے اور اس لیے کہ وہ بالذات مشتمل ہے اُن بہت سی قوتوں پر جو اطراف بدن میں پھیلی ہوئی ہیں اور مختلف تصرفات کے ساتھ متصرف ہے اور جسم بخاری کا معمول ہے اور مرکب عنصری کے مزاج کے مناسب ہے۔ مخفی نہ رہے کہ وہ برزخ ، جس میں دنیا سے جدا ہونے کے بعد روحیں رہتی ہیں۔ اس برزخ کے علاوہ ہے جو ارواح مجردہ اور اجسام کے درمیان ہے ۔ اور وجود کے مراتب نزول وعروج دوری ہیں ، جو مرتبہ دنیا سے پہلے تھا پس وہ مراتب تنزلات میں سے ایک مرتبہ ہے، جس کو اولیت ، کہتے ہیں اور جو مرتبہ ، دنیا کے بعد ہے ، وہ مراتب معارج میں سے ایک مرتبہ ہے جس کو آخریت ” کہتے ہیں ۔

غیب امکان

برزخ آخر میں ارواح کو صورتیں لاحق ہوں گی، وہ ان اعمال کی صورتیں، اور ان افعال کے نتائج ہوں گے جو دنیا میں گزر چکے ہوں گے، بخلاف برزخ اول کی صورتوں کے ۔ لہذا ایک دوسرے کے عین ہوئے ، لیکن مثالیت میں دونوں مشترک ہیں ۔ برزخ اول کو غیب امکان “ کہتے ہیں کیونکہ اس میں جو چیز ہے ، اس کا ظہور شہادت میں ممکن ہے اور دوسرے برزخ کو غیب محال کہتے ہیں۔ اس لیے کہ جو چیز اس میں ہے ، آخرت کے علاوہ شہادت کی طرف اس کا رجوع ممتنع ہے ۔ پہلا برزخ بہت ساروں پر منکشف ہوتا ہے لیکن دوسرا بہت کم لوگوں پر ۔


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں