اس بیان میں کہ عالم کا ایجاد مرتبہ وہم میں ہے لیکن ایجاد کے استقرار تعلق کے باعث نفس امری(اصل حقیقت) ہوگیا ہے اور یہ مرتبہ علم و خارج کے مرتبہ کے ماسوا ہے اور اس بیان میں کہ وحدت بھی نفس امری ہے اور کثرت بھی اور اس بات کی تحقیق میں کہ باوجود ثبات و استقرار کے سالک کی فناء کیونکر ہے۔ حضرت مخدوم زادہ خواجہ محمد معصوم سلمہ اللہ تعالیٰ کی طرف صادر فرمایا ہے:.
یہ مکتوب حوادث ایام کے باعث ناتمام رہا ہے ) مرتبہ وہم اس مرتبہ سے مراد ہے جہاں نمود بے بود ہے جس طرح کہ زید کی صورت جو آئینہ میں متوہم ہو نمود بےبود ہے کیونکہ آئینہ میں ہرگز کوئی صورت موجود نہیں ۔ اس میں صرف نمود و ہمی ثابت ہے اور کشف صحیح اور شہود(مشاہدہ) صادق سے ظاہر ہوا ہے کہ حق تعالیٰ نے اپنی کمال قدرت سے عالم کو اس مرتبہ میں پیدا فرمایا ہے اور اپنی کامل صنعت (کاریگری) سے محض نمود کو بود بخشا ہے۔ اس مرتبہ میں اگر چہ نمودبے بود ہے لیکن چونکہ عالم اس مرتبہ میں مخلوق ہوا ہے اس لیے نمود بے بود ہو چکا ہے کیونکہ حق تعالیٰ کا ایجاد بود و جود کو ثبوت بخشنے والا ہے اور جب نمود بابود ہوا تو نفس امری ہوگیا اور احکام و آثار صادقہ اس پر مترتب ہوئے یہ مرتبہ وہم مرتبہ علم وخارج سے الگ ہے۔ یہ مرتبہ وہم مرتبہ علم کی نسبت مرتبہ خارج کے ساتھ زیادہ شباہت و مناسبت رکھتا ہے اور اس کا ثبوت خارجی ثبوت کی مانند ہے۔ برخلاف ثبوت علمی کے کہ جس کو وجودذہنی کہتے ہیں جو وجود خارجی(وجود جس کا خارج میں ادراک ہو سکے) کے مقابل ہے اور وہ ظہور بھی جو مرتبہ وہم میں ہے ۔ ظہور خارجی کے ساتھ پوری پوری مشابہت رکھتا ہے۔ برخلاف مرتبہ علم کے کہ وہاں بطون و کمون ہے گویا مرتبہ وہم میں مرتبہ خارج کاظل ڈال کر اس میں عالم کو ایجاد فرمایا ہے اور وجود خارجی کےظل سے عالم کوظل خارج کے مرتبہ میں موجود کیا ہے۔ پس نفس خارج میں ذات احدیت جل شانہ کے سوا کچھ موجودنہیں اورظل خارج میں ظل وجود کے ساتھ عالم باوجود اس قدر تعد دو کثرت کے حق تعالیٰ کے ایجاد سے موجود ہے یعنی خارج میں نفس امر کثرت ہے ۔ پس وحدت بھی نفس امری ہے اور کثرت بھی اور ہر ایک کا اعتبار الگ الگ ہے۔ ولا محذور فيه (اس میں کوئی ڈر نہیں ) جس طرح عالم کا یہ خارج اور وجودظلی ہے اسی طرح باقی تمام صفات یعنی حیات وعلم و قدرت وغیرہ بھی اس میں صفات واجبی جل شانہ کےظلال ہیں بلکہ نفس امر جو ثبوت عالم میں ثابت کیا جاتا ہے وہ بھی مرتبہ خارج کے نفس امر کاظل ہے۔ بیت
نیاوردم از خانہ چیزے نخست تو دادی ہمہ چیزو من چیز تست
ترجمہ بیت:۔ نہیں لایا میں کچھ بھی اپنے گھر سے مجھے سب کچھ ملا ہے تیرے در سے
الله تعالیٰ فرماتا ہے أَلَمۡ تَرَ إِلَىٰ رَبِّكَ كَيۡفَ مَدَّ ٱلظِّلَّ ( کیا تو نے اپنے رب کونہیں دیکھا کہ اس نے کسی طرح سایہ دراز کیا ہے )۔
سوال: تم نے اپنے رسالوں میں لکھا ہے کہ ظل جو کچھ رکھتا ہے اپنے اصل سے رکھتا ہے اور ظل اپنے اصل کا صرف امانت دار ہے اگر سالک مستعد سب کچھ خیر و کمال جوظلیت کے طور پر رکھتا ہے یعنی وجود اور توابع وجود کے کمالات سب اپنے اصل کو دیدے اور اپنے آپ کو تمام کمالات سے خالی پائے تو فناء نیستی سے متحقق ہو جائے گا اور اس کا کوئی نام ونشان نہ رہے گا۔ اس کلام کا حاصل کیا ہے اور کمالات کو اصل کی طرف دینے کے کیا معنی ہیں اور سالک نے ثبوت و استقرار کے باوجود اس کوفناء ونیستی (فنائیت) کس اعتبار سے ہے؟۔
جواب : اس فنا کی مثال ایسی ہے جیسے کسی شخص نے عاریت کے کپڑے پہنے ہوں اور اس کو معلوم ہو کہ یہ کپڑے سے میرے اپنے نہیں ہیں بلکہ کسی اور کے ہیں جو عاریت کے طور پر پہنے ہیں جب یہ دید بہت ہی غالب آجائے تو ہوسکتا ہے کہ باوجود کپڑے پہننے کے ان تمام کپڑوں کو ان کے مالک کی طرف منسوب کرے اور اپنے آپ کو برہنہ اور ننگا معلوم کرے۔ حتی کہ اپنے برہنہ ہونے کے باعث ہمنشینوں سے شرمندگی اٹھائے اور حیاء کے مارے اپنے آپ کو گوشہ میں چھپائے چونکہ سالک کا وجود مرتبہ وہم و تخیل میں مخلوق ہوا ہے اس لیے فناتخیلی بھی اس کیلئے کافی ہے کیونکہ اس تخیل کا غلبہ اس کو یقین قلبی تک پہنچا دیتا ہے اورذوقی و وجدانی کردیتا ہے اور جو کچھ فناو نیستی (فنائیت) سے مقصود ہے ظاہر کردیتا ہے کیونکہ فناء سے مقصود یہ ہے کہ ظل کی گرفتاری دور ہو جائے اور اصل کی گرفتاری حاصل ہو جائے جب ظل کا اصل کی طرف رجوع کرنا یقینی اور ذوقی و وجدانی ہو جاتا ہے تو ظل کی گرفتاری زائل ہو جاتی ہے اور بجائے اس کے اصل کی گرفتاری آجاتی ہے اگریہ تخیل حاصل نہ ہوتا توظل کی گرفتاری کے دور ہونے کی دولت میسر نہ ہوتی بلکہ اس راہ کے سلوک کا مدار تو ہم وتخیل پر ہے احوال ومواجيد جواس راہ کے جزئی امور ہیں وہم ہی سے ادراک میں آتے ہیں اور سالکوں کی تجلیات وتلوينات خیال کے آئینہ میں شہود ی ہوتی ہیں۔ فَلَوْلَا الْوَهْمُ لَقَصَرُ الْفَهْمُ وَلَوْلَا الْخِيَالُ لَسَتَرَ الْحَالُ (اگر وہم نہ ہوتا تو فہم قاصر رہتا اور اگر خیال نہ ہوتا تو حال پوشیدہ رہتا) اس راہ میں وہم و خیال سے زیادہ فائدہ مند کوئی چیز نہیں ۔ ان کے ادراک و انکشاف اکثر واقع کے مطابق ہیں وہم ہی ہے جو پچاس ہزار سال کا راستہ جو بندہ اور رب کے درمیان ہے۔ اللہ تعالیٰ کے کرم سے تھوڑی مدت میں طے کر لیتا ہے اور درجات وصول تک پہنچا دیتا ہے اور خیال ہی ہے جو غیب الغیب کےدقائق واسرار کو اپنے آئینہ میں منکشف کرتا ہے اور سالک مستعد کو ان پر اطلاع بخشا ہے یہ وہم کی شرافت کے باعث ہے کہ حق تعالیٰ نے عالم کو اس مرتبہ میں پیدا کرنا اختیار فرمایا ہے اور اس کو اپنے کمالات کے ظاہر ہونےکامحل بنایا ہے اور یہ خیال ہی کی بزرگی کے سبب سے ہے کہ حضرت واجب الوجود جل شانہ نے اس کو عالم مثال کا نمونہ بنایا ہے جو تمام عالموں سے زیادہ وسیع ہے حتی کہ اس عالم میں مرتبہ وجوب جل شانہ کی صورت بھی بیان کی ہے اورحکم کیا ہے کہ . حق تعالیٰ کی مثل نہیں لیکن مثال ہے ۔ وَلِلَّهِ الْمَثَلُ الْأَعْلَى مثال اعلى الله تعالیٰ کے لیے ہے)یہ احکام و جو بیہ ہی کی صورتیں ہیں جن کو عارف اپنے خیال کے آئینہ میں محسوس کرتا ہے اور ان کو دریافت کرنے کے ذوق پرترقی فرماتا ہے۔
سوال:پہلی تحقیق سے واضح ہوا کہ فناونیستی تخیل کے اعتبار سے ہے اگر چہ وہ تخیل یقین قلبی تک پہنچا دیتا ہے او وجدانی اور ذوقی بنادیتا ہے اور احکام صادقہ اس پر مترتب ہوتے ہیں لیکن تحقق و وجود کے اعتبار سے نہیں اور تم نے بعض رسالوں میں لکھا ہے کہ یہ فنا باعتبار وجود کے ہے اور اس میں عین واثر(ذات و صفات) کا زوال ہے اس معاملہ کی حقیقت کیا ہے؟
جواب: چونکہ ظل کے وجود کا اصل کی طرف رجوع کرنا یقین تک پہنچ جاتا ہے اور وجدانی اور ذوق ہو جاتا ہے اس لیے وجود کے زوال کاحکم کیا گیا ہے اور عین واثر کا زوال کہا گیا ہے۔
سوال:فانی کے ثبوت اور استقرار کے باوجودفناء وجودی کا یہ حکم صادق ہے یا کاذب؟ (باقی ناتمام)
مکتوبات حضرت مجدد الف ثانی دفتر سوم صفحہ328ناشر ادارہ مجددیہ کراچی