عالم کے موہوم ہونے کے سر میں صوفی قربان جدید کی طرف صادر فرمایا ہے۔
صوفیہ نے جو عالم کو موہوم کہا ہے اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ عالم محض وہم کا اختراع و تراش ہے کیونکہ یہ سوفسطائی کم عقل کا مذہب ہے بلکہ موہوم اس اعتبار سے ہے کہ حق تعالیٰ کے خلق سے مرتبہ وہم میں مخلوق ہوا ہے اور اس مرتبہ میں حق تعالیٰ کی صنعت سے ثبوت و استقرار پیدا کیا ہے لیکن خیر وکمال جو اس میں ثابت ہے سب مرتبہ حضرت وجود تعالیٰ سے عاریت کے طور پر یا گیا ہے اور اس مرتبہ مقدسہ کے کمالات کے ظلال میں سے ایک ظل ہے اورشرونقص جو اس میں موجود ہے وہ عدم سے اس کو عاریت کے طور ملا ہے اور ان شرورو نقائص کے ظلال میں سے ایک ظل ہے جو اس عدم میں کہ ہر شرو نقص کا مبدأ منشاء ہے، پائے جاتے ہیں جب سالک الله تعالیٰ کی تربیت کے موافق ان امانتوں کو بالکل امانت والوں کے حوالہ کردیتا ہے اور خیروکمال اورشرونقص کوان کے اپنے اپنے مالکوں کو واپس دے دیتا ہے تو اس وقت ان کی دولت سے متحقق ہوجاتا ہے اور اس کا کوئی نام و نشان نہیں رہتا نہ اس میں خیر کا اثر رہتا ہے نہ شرکا ضرر کیونکہ جو کچھ خیروشر اس کو حاصل تھا۔ سب وجود و عدم کی طرف سے عاریت کے طور پر تھا اور اپنے باپ کے گھر سے کچھ نہیں لایا تھا۔ یہ سب ہنر اس میں صرف امانت کے طور پر تھے جب امانتوں کو امانت والوں کے حوالہ کر دیتا ہے تومیرےو میں (خودی) کی زحمت سے چھوٹ جاتا ہے اورفنا و نیستی سے مل جاتا ہے۔
مکتوبات حضرت مجدد الف ثانی دفتر سوم صفحہ289ناشر ادارہ مجددیہ کراچی