عذاب قبر کے منکروں کے شبہات مکتوب نمبر 36دفتر سوم

 عذاب قبر کے منکروں کے شبہات دور کرنے میں میرمحمد نعمان کی طرف صادر فرمایا ہے:۔ 

اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ وَسَلَامٌ عَلٰی عِبَادِہِ الَّذِیْنَ اصْطَفٰی  (اللہ تعالی کی حمد ہے اور اس کے برگزیدہ بندوں پر سلام )بعض لوگ عذاب قبر میں جومشہورصحیح  حدیثوں بلکہ آیات قرآنی کے ساتھ بھی ثابت ہو چکا ہے۔ تردد اور شک ر کھتے ہیں بلکہ قریب ہے کہ اس کے محال ہونے اور اس کے انکار پر یقین کریں۔ ان کے اس اشتباه کامقتدا ایک طرح پر غیر مدفون مردوں (غرق ہونے اور آگ میں جلنے والے )کے احوال محسوس کرنا ہے اور دوسرے دوام اور استقامت کے طور پر جو عذاب و ایلام کے منافی ہے اور تذبذب واضطراب اس کے لوازم سے ہے۔

 جواب: اس اشکال کا حل یہ ہے کہ عالم برزخ یعنی مقام قبر کی زندگی دنیاوی زندگی کی قسم سے نہیں ہے جس کے لیےحرکت ارادی اور احساس دونوں لازم ہیں کیونکہ اس جہان کا انتظام انہی دو امروں پر موقوف ہے۔ عالم برزخ کی زندگی میں حرکت کی ضرورت نہیں، بلکہ یہ حرکت عالم برزخ کے منافی ہے وہاں صرف احساس ہی کافی ہے تا کہ رنج و عذاب کو پالے گویا عالم برزخ کی زندگی دنیاوی زندگی کانصف حصہ ہے اور وہاں جو روح کا بدن کے ساتھ تعلق ہے روح و بدن کے اس تعلق سے نصف ہے جو دنیاوی زندگی میں ہوتا ہے جس کے سبب غیرمدفون مردے عالم برزخ کی زندگی میں درد و عذاب محسوس کرتے ہیں اور برزخ کی زندگی میں کوئی حرکت و اضطراب ان سے ظاہرنہیں ہوتی۔ جو کچھ مخبر صادق علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے۔یہ  سب سچ ہے۔ اس کا دوسرا جواب یہ ہے کہ ہم اس اشکال اور اس جیسے اور اشکال کو اس طرح حل کرتے ہیں کہ طور نبوت عقل و فکر کے طور سے برترہے اور وہ امور جن کے ادراک میں  عقل قاصر ہے ان کو طور نبوت سے ثابت کیا جاتا ہے۔ اگر صرف عقل ہی کافی ہوتی تو پیغمبر کیوں مبعوث ہوتے اور آخرت کے عذاب کو ان کی بعثت پر کیوں موقوف کرتے۔ اللہ تعالی فرماتا ہے  وَمَا كُنَّا ‌مُعَذِّبِينَ حَتَّى نَبْعَثَ رَسُولًا (ہم جب تک رسول نہ  بھیج لیں عذاب نہیں دیتے (عقل بیشک حجت ہے لیکن حجت بالغہ اور کاملہ نہیں۔حجت کاملہ و بالغہ انبیاءعلیہم الصلوۃ والسلام کی بعثت سے ثابت ہوئی ہے۔ جس نے مکلف کے عذر کی زبان بند کر دی ہے۔ الله تعالی فرماتا ہے رُسُلًا مُبَشِّرِينَ وَمُنْذِرِينَ لِئَلَّا يَكُونَ لِلنَّاسِ عَلَى اللَّهِ ‌حُجَّةٌ بَعْدَ الرُّسُلِ وَكَانَ اللَّهُ عَزِيزًا حَكِيمًا(ہم نے رسولوں کو خوشخبری دینے والے اور ڈرانے والے بھیجا ہے تا کہ ان کے بعد لوگ الله تعالی پرکوئی حجت نہ لائیں اور الله تعالی غالب ہے حکمت والا ہے جب عقل کا ادراک بعض امور میں قاصر ثابت ہو چکا تو پھر تمام احکام شرعیہ کوعقل کی میزان پر وزن کرنا اچھا نہیں۔ تمام احکام شرعیہ کو عقلی میزان کے مطابق کرنا درحقیقت عقل کو مستقل ماننا اور طور نبوت کا انکار کرنا ہے۔ اعاذنا الله سبحانہ عن ذلک (اللہ تعالی اس سے ہم کو بچاۓ) اول رسول پر ایمان لانے کافکر کرنا چاہیئے اور اس کی رسالت کی تصدیق کرنی چاہیئے تا کہ تمام احکام میں اس کو صادق جانیں اور اس کے وسیلہ سے تمام شکوک وشبہات کے اندھیروں سے خلاصی میسر ہو۔ اصل کے متعلق سوچنا چاہیئے تا کہ فروع بے تکلف معقول و معلوم ہوجائیں۔ اصل کے ثبوت کے بغیر فرع کا معلوم کرنا بہت مشکل ہے۔ اس تصدیق اور دل کے اطمینان کے حاصل  ہونے کے لیے سب سے آسان طریقہ ذکرالہی جل شانہ ہے۔ اللہ تعالی فرماتا ہے أَلَا ‌بِذِكْرِ اللَّهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ طُوبَى لَهُمْ وَحُسْنُ مَآبٍ (خبردار! الله تعالی کے ذکر سے دل مطمئن ہوتے ہیں۔ وہ لوگ جو ایمان لائے اور نیک عمل کیے۔ ان کے لیے خوشخبری اور اچھی جگہ ہے) نظر واستدلال کے ذریعے  اس اعلی مطلب  تک پہنچنابہت دور ہے۔ بیت

پائے پائے استد لالیاں چوبیں بود پاۓے چوبیں سخت بے تمکیں بود

ترجمہ: چوب کے پاؤں ہیں استدلال کے ایسے پاؤں کب ہیں استقلال کے

جاننا چاہیئے کہ انبیاء کرام علیہم السلام کا مقلد ان کی نبوت کے اثبات اور ان کی رسالت کی تصدیق کے بعد صاحب استدلال ہے اور ان بزرگواروں کے احکام کی تقلید اس وقت اس کے ان میں عین استدلال ہے۔ مثلا ایک شخص نے اصل کو استدلال سے ثابت کیا۔ اس وقت وہ فروع جواس اصل سے پیدا ہوتے ہیں سب اسی استدلال کی طرف منسوب ہوں گے اور وہ شخص اصل کے استدلال سے تمام فروع کے اثبات میں صاحب استدلال ہوگا۔ الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي هَدَانَا لِهَذَا وَمَا كُنَّا لِنَهْتَدِيَ لَوْلَا أَنْ هَدَانَا اللَّهُ لَقَدْ جَاءَتْ رُسُلُ رَبِّنَا بِالْحَقِّ (الله تعالی کے لیے حمد ہے جس نے ہم کو ہدایت دی اور اگر وہ ہم کو ہدایت نہ دیتا تو ہم بھی ہدایت نہ پاتے، بیشک ہمارے اللہ تعالی کے رسول حق کے ساتھ آئے ہیں)۔ وَالسَّلَامُ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَى (سلام ہو اس شخص پر جس نے ہدایت اختیار کی )

مکتوبات حضرت مجدد الف ثانی دفتر سوم صفحہ122ناشر ادارہ مجددیہ کراچی


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں