عروج (عروج سے مراد سالک کا حق تعالیٰ کی ذات و صفات عالیہ کے مشاہدہ میں مستغرق ہو جانا اور مخلوق سے منقطع ہونا ہے) اور نزول کے بیان میں مخدوم زادہ خواجہ سعید مدظلہ العالی کی طرف صادر فرمایا ہے:۔
نحمده ونستعینہ ونصلى على سيدنا و مولانا و شفيع ذنوبنا محمد و اله وأصحابه ونسلم (ہم الله تعالیٰ کی حمد کرتے ہیں اور اسی سے مدد مانگتے ہیں اور اپنے سید اور مولا اور گناہوں کے بخشوانے والے حضرت محمدﷺ اور ان کی آل واصحاب پر صلوۃ وسلام بھیجتے ہیں)
واضح ہو کہ اللہ تعالیٰ نے مجھ پر ظاہر کیا کہ موجودات میں ایک نقطہ ہے جو اس عالم ظلی کا مرکز ہے اور یہ نقطہ تمام عالم کا اجمال ہے اور تمام عالم اس اجمال یعنی نقطہ کی تفصیل ہے۔
یہ نقطہ آسمان کے سورج کی طرح ہے جس سے تمام آفاق روشن ہوتا ہے اور جو فیض الله تعالیٰ کی طرف سے کسی کو پہنچتاہے اک نقطے کے ذریعے پہنچتا ہے۔ یہ نقطہ غیب ہویت(ذات مجرد) کے نقطے کے برابر اور مقابل ہے اور یہ نقطہ مرتبہ نزول میں ثابت ہے جب تک ہبوط(نیچے اترنا) اور اسفلیت(سب سے نیچے) کے اس مرتبہ میں نزول نہ ہو اس مرتبہ کی طرف جس کو غیب ہویت کہتے ہیں عروج نہیں ہوتا اور یہی نزدل دعوت و تکمیل میں ہے اس نزول میں جو اس نقطہ کے مرتبہ میں ہوتا ہے ایسا خیال میں آتا ہے کہ گویا منہ عالم کی طرف ہے اور پیٹھ حق تعالیٰ کی طرف اور یہ بھی ظاہر ہوا کہ یہ عالم کی طرف متوجہ ہونا اور حق تعالیٰ کی طرف سے منقطع رہنا موت تک رہتا ہے۔ جب وصال کا وقت آ جاتا ہے تو معاملہ برعکس ہو جاتا ہے۔ گویا اس جہان میں فراق اور شوق دونوں طرف سے ہوتا ہے اور ملاقات موت کے بعد ہوتی ہے۔ اس وقت اس حدیث قدسی کے معنی بھی ظاہر ہو گئے أَلا قَدْ طَالَ شَوْقُ الأَبْرَارِ إِلَى لِقَائِي وإِنِّي إِلَيْهِمْ لَأَشَدُّ شَوْقًا (خبردار ابرار کا شوق میرےلقاء کے لیئے حد سےبڑھ گیا اور میں ان سے بھی بڑھ کر ان کا شائق ہوں) جاننا چاہیئے کہ اس مرتبہ میں نزول کے ساتھ متحقق ہونے کے باوجود سالک اور حق تعالیٰ کے درمیان کوئی حجاب نہیں ہوتا۔
حجاب سب کے سب مفقود ہوتے ہیں بلکہ توجہ الی اللہ بھی نہیں ہوتی اس وقت بالکل خلق کی طرف توجہ ہوتی ہے یہی مقام دعوت ہے۔ کبھی اس نقطہ سے جو دائرہ عالم ظلی کا مرکز ہے اس نقطہ کی طرف نزول واقع ہوتا ہے جو دائرہ عدم کا مرکز ہے جو اللہ تعالیٰ اور اس کی آیات اور اس کے انبیاء سے کفر و انکار کا مقام ہے اور اس نقطہ سے دائره اصل یعنی دائرہ مقامات انبیاء کے مرکز کی طرف عروج واقع ہوتا ہے اور یہ نقطہ جس کا ابھی ذکر ہو چکا ہے نہایت ہی ظلمانی ہے اس مقام میں اس کو نورانی اور روشن کرنے کے لیے نزول کرنا بڑا عظیم الشان امر ہے۔ اس نقطہ کے مقابل نقطہ اسلام ہے جس کی طرف اس نزول ظلمانی کے بعد عروج واقع ہوتا ہے۔ اس ظلمانی نقطہ کا چراغ روشن لا إله إلا الله ہے۔ والسلام
مکتوبات حضرت مجدد الف ثانی دفتر سوم صفحہ147ناشر ادارہ مجددیہ کراچی