عینیت کا مفہوم
اصطلاح تصوف میں سالک کا اپنی ہستی کو ذات حق میں گم کر دینا، ہستی حق میں گم ہونے کی حالت کو عینیت کہتے ہیں: ایک کا مفہوم دوسرے میں بعینہ ہونا عین اور عینیت ایک ہوتے ہیں ۔ یہ دو طرح پر ہے ، لغوی اور اصطلاحی ،
لغوی معنی
لغوی یہ ہے کہ دو چیزیں باہم ایک ہوں جیسے کہ آب اور موج اور بحر
اصطلاحی معنی
، اصطلاحی عینیت ہے جیسے کہ شخص اور عکس ، حرف اور سیاہی ، واحد اور عشر شخص اور اس کے لئے آئینہ کا ہونا ضروری ہے
عینیت کے کئی معنی ہیں
(1)حقیقت میں بھی ایک ہونا اور مفہوم کا بھی ایک ہونا جیسے کہا جاتا ہے عین الشی نفسہ اور انسان عین انسان ہے ۔
معنی اول : دو چیزوں کا ہر طرح سے ایک ہونا ، جیسے انسان اور حیوان ناطق، زید اورذات زید، یہ کیفیت ہے اور دونوں میں امتیاز اور غیر یت ہونا، غیریت ہے۔ اس معنی سے دونوں میں تضاد ہے، اس لئے اس معنی سے کوئی چیز خواہ وہ حادث ومخلوق ہو یا صفات باری تعالی ، ذات حق کا عین نہیں ہے اور صفات باری تعالی کے متعلق اہل سنت و جماعت کا عقیدہ یہ ہے کہ لاهو ولا غيره یعنی نہ اس کا عین ہیں نہ غیر -یہ معنی لغوی ہیں۔
(2) حقیقت اور مفہوم ایک ہو لیکن الفاظ میں غیریت ہو جیسے ذات حق عین صفات حق ہے اور واجب عین وجوب اور محدود عین حدہے
معنی ثانی: عینیت کے معنی تو وہی ہیں جو معنی اول میں بیان ہوئے ہیں اور غیر یت کے معنی یہ ہیں کہ ایک کا دوسرے کے بغیر وجود ہو سکتا ہو، اس میں تناقض نہیں تضاد ہے۔ یعنی دونوں ایک موقع پر صادق نہیں آ سکتے مگر دونوں مرتفع ہو سکتے ہیں۔ اس معنی سے ذات حق اور مخلوق میں عینیت نہیں غیریت ہے کہ اللہ تعالی بغیرمخلوق کے تھا اور مخلوق بغير الله تعالی کے نہیں ہوئی ، لیکن ذات و صفات حق میں نہ عینیت ہے نہ غیریت جیسا کہ ظاہر ہے، یہ قول متکلمین کا ہے۔
(3) وجود میں ایک ہونا اس کے معانی کی بنا پر مطلق اور مقید و مظہر ایک دوسرے کے عین ہیں۔
معنی ثالث: عینیت کے معنی ایک چیز کا دوسری چیز کی طرف محتاح فی الوجود ہونا۔ اگرچہ دوسری چیز اس پہلی کی محتاج نہ ہو اور غیر یت کے معنی وہی ہیں جو معنی اول میں مذکور ہوئے اور اس میں تناقض ہے نہ تضاد ۔ یہ ا صطلاح صوفیائے کرام کی ہے۔
الغرض جملہ موجودات بنظر حقیقت عین ذات حق سبحانہ ہیں
عمدۃ السلوک سید زوار حسین شاہ ،حصہ دوم صفحہ 269،زوار اکیڈمی پبلیکیشنز کراچی
ذات حق اور ذوات خلق میں عینیت بھی ہے لیکن من کل الوجوہ نہیں کیونکہ ذوات خلق ذات حق کی محتاج ہیں، اگر چہ ذات حق احتیاج سے بری ہے۔
باعتبار وجود ، عبد ورب ایک دوسرے کاعین ہونے کے باوجود عبد ، عبد ہی رہے گا اور رب ، رب ہی۔ اور غیریت بھی ہے کیونکہ ذات حق اور ذوات خلق میں لاکھوں طرح کا فرق ہے ۔
عینیت محض کی غلط فہمی سے دور رکھنے کے لیے صوفیائئے کرام بعض اوقات علم ومعرفت کی شرط کا اضافہ کر دیتےہیں یعنی وہ کہتے ہیں کہ عینیت کا اثبات صرف عارف کے لیئے درست ہے اور بعض اوقات علم و معرفت کے ساتھ استغراق ” کی شرط بھی بڑھا دیتے ہیں یعنی معرفت میں اس قدر استغراق ہو جائے کہ خلق کی طرف حتی کہ خود اپنی مہستی کی طرف بھی التفات نہ رہے۔ علم و معرفت اور استغراق کی شرطوں کو جمع کر دیا جائے تو یہ مفہوم مستفاد ہوگا کہ عینیت کا اثبات من وجہ ہے اور وہ بھی عارف مستغرق کے لیئے، نہ کہ ہر کس و ناکس کے لیے ” اور یوں عالم ذات سے الگ نہیں ۔