وجودی اور شہودی طور پرعین اوراثرکے زائل ہونے کے بیان میں مخدوم زاده خواجہ معصوم مد ظلہ کی طرف صادر فرمایا ہے:۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ هَلْ أَتَى عَلَى الْإِنْسَانِ حِينٌ مِنَ الدَّهْرِ لَمْ يَكُنْ شَيْئًا مَذْكُورًا ( کیا انسان پر وہ وقت نہیں آیا کہ جب کچھ بھی مذکور نہ تھا ) ہاں اے میرے رب! بیشک انسان پر ایک ایسا وقت تھا کہ یہ کچھ بھی نہ تھا۔ نہ اس کاعین (ذات) تھا نہ اثر(صفت)، نہ اس کا شہود(مشاہدہ) تھانہ وجود۔ پھر جب تو نے چاہا اس کو تو نے اپنی زندگی سے زندہ اور اپنی بقا سے باقی اور اپنے اخلاق سےمتخلق کیا کہ تیرے ہی فضل سے عین فنا میں تیرے ساتھ باقی اور عین بقا میں تجھ میں فانی ہوا، کیونکہ ایک دوسرے وجود کے سبب اس کے لیے یہ فنا و بقا لازم ہیں اور ان دونوں میں سے ہر ایک کے کمال کا حاصل کرنا واجب ہے۔ اس کی مثال اس انسان کی سی ہے جس کو نمک کی کان میں ڈال دیں اور وہ آہستہ آہستہ نمک کا رنگ پکڑتے پکڑتے سب نمک ہی بن جائے اور اس کا کچھ عین یا اثر باقی نہ رہے۔ تب اس کا قتل کرنا اور توڑنا مباح ہے اور اس کا کھانا اور اس کی خرید وفروخت کرنا حلال ہے اور اگر اس کا کچھ عین یا اثر باقی رہتا تو یہ باتیں جائز نہ ہوتیں۔ کسی نے کیا اچھا کہا ہے۔ بیت
سگےکاندر نمک زار اوفتدگم گر دواند روے من ایں دریائے پرشور ونمک کمتر نمیدانم
ترجمہ بیت پڑے کتانمک میں گرنمک بن جائے وہ یکسر مرے نزدیک یہ دریا نمک سے کچھ نہیں کمتر
اگر کوئی سوال کرے تو اپنے مکتوبوں اور رسالوں میں لکھا ہے کہ عین واثر کا زائل ہونا صرف شہودی طور پر ہے نہ کہ وجودی طور پر۔ کیونکہ اس سے الحاد و زندقہ اور عبودیت (بندگی) اور ربوبیت کے درمیان دوئی کا دور ہونا لازم آتا ہے تو پھر یہاں وجودی طور پر عین و اثر کے زائل ہونے کے کیا معنی ہیں تو میں اس کے جواب میں کہتا ہوں کہ دونوں چیزوں میں سے کسی ایک کا اس طرح پر رنگا جانا کہ ان میں سے ایک چیز اپنے احکام سے خالی ہو کر دوسری چیز کے احکام میں رنگی جائے ۔ ان دونوں چیزوں سے دوئی کے دور ہونے کا موجب نہیں تا کہ الحاد و زندقہ ہو، کیونکہ انسان جونمک کی کان میں ڈالا جائے ۔ وہ نمک کے ساتھ متحد نہیں ہوتا اور نہ اس کی دوئی دور ہوتی ہے بلکہ اس کو نمک کے قریب اور غلبہ کے باعث اپنےنفس وصفات سے فنا حاصل ہو جاتی ہے اور نمک اور اس کے احکام کے ساتھ بقا پا لیتا ہے اور دو ئی بھی درمیان میں باقی رہتی ہے۔ حاصل کلام یہ ہے کہ یہ دوئی اس دوئی کی مانند ہے۔ جوظل کی اصل کے ساتھ ہوتی ہے۔ جس کو کچھ استقلال نہیں، لیکن عوام کی نظر میں اس زائل ہو جانے والی دوئی کے لیے ایک قسم کا استقلال نظر آتا ہے جس کے سبب دوئی باقی رہتی ہے اور اس میں کوئی الحاد و زندہ نہیں اور میں نے جو کتابوں اور رسالوں میں وجودی زوال سے منع کیا ہے۔ وہ عوام کے قصورو فہم پرمحمول ہے، کیونکہ عوام اس سے دوئی کا دور ہونا سمجھ لیتے ہیں اور الحاد وزندقہ میں پڑ جاتے ہیں۔ تعالى الله ما يقول الظالمون علوا كبيرا الله تعالیٰ اس سے برتر ہے جو ظالم کہتے ہیں باقی رہا وہ شج (گندھا ہونا)جوحکمی طور پر نمک ہو جانے کے بعد اس انسان سے باقی رہا ہے۔ وہ درحقیقت نمک کی صورت ہے جس نے اپنے سنگ سے اس انسان کورنگ دیا ہے، نہ کہ انسان کی صورت ہاں یہ ہوسکتا ہے کہ اس نمک حکمی کو اس انسان کی شج پر قیاس کریں اور اس کی صورت پر تصور کریں نہ یہ کہ انسان کا شج باقی ہے جس کے سبب اس کا اثر ابھی باقی ہے۔ تنبیہ: یہ نمکی شج یعنی نمک کے رنگ میں رنگی ہوئی صورت کو صورت انسان کے مقیاس پر قیاس کیا گیا ہے۔ اس کا زائل ہونا ممکن بلکہ واقع ہے لیکن جس کا ہم ذکر کر رہے ہیں وہ ایسا نہیں ہے۔ وَلِلَّهِ الْمَثَلُ الْأَعْلَى مثال اعلى الله تعالیٰ کے لیے ہے حق تعالیٰ کسی شے کے ساتھ متحد نہیں ہوتا اور کوئی شے اس کے ساتھ متحد ہوتی ہے نہ وہ اشیاء کے ساتھ متصل ہے۔ نہ مفصل اور نہ اشیاء اس کے ساتھ متصل ہیں نہ اس سے منفصل فسبحان من لا يتغير بذاته ولا بصفاته ولا باسمائه بحدوث ألأكوان (پاک ہے وہ مالک جو موجودات کے حدوث سے اپنی ذات و صفات و افعال واسماء میں تغیر نہیں ہوتا ) الله تعالیٰ اب بھی اسی طرح اپنی خالص تنزیہ و تقدیس پر ہے جس طرح کہ پہلے تھا حق تعالیٰ عالم کے قریب اور اس کے ساتھ ہے۔ اس قرب ومعیت کے ساتھ جن کی کیفیت معلوم نہیں۔ یہ قرب ایسا نہیں جیسے جسم کو جسم کے ساتھ یا جسم کوعرض کے ساتھ ہوتا ہے۔ غرض امکان کی تمام صفتیں اور حدوث کے تمام نشان حق تعالیٰ کی پاک جناب سے مسلوب ہیں۔ اولیاء کے عروج (عروج سے مراد سالک کا حق تعالیٰ کی ذات و صفات عالیہ کے مشاہدہ میں مستغرق ہو جانا اور مخلوق سے منقطع ہونا ہے) سے بندوں کے ساتھ اس کا قرب زیادہ نہیں ہوتا اور اصفیاء کے وصول سے الله تعالیٰ کے ساتھ اتصال حاصل نہیں ہوتا ۔ فناء و بقاء عادتوں کے احوال ہیں ۔ جو معقولیوں کی سمجھ سے برتر ہیں اور عین و اثر کے زائل ہونے کا مطلب سوائے اس شخص کے کہ جس کویہ فنا و بقاو زوال حاصل ہو۔ دوسرا نہیں سمجھ سکتا ہےجیسا کہ ابھی اس کی تحقیق کی جائے گی ان بزرگواروں کے کلام کو حسن ظن اور قبولت سے سننا چاہیئے اور اس کا مدلول ظاہری اور معنی مطالبی نہ سمجھنا چاہئیں کیونکہ اس میں اکثر اوقات اس قسم کی فاحش غلطی واقع ہوتی ہے۔ جس سے انسان خود بھی گمراہ ہوتا ہے اور دوسروں کو بھی گمراہ کرتا ہے۔ والله سبحانہ الموفق للصواب ( الله تعالیٰ بہتری کی توفیق دینے والا ہے)
سوال:اگر انسان کے عین واثر کا زائل ہونا جائز ہے تو پھر قرآن مجید میں اور حدیث میں جو حضرت خاتم الرسل علیہ الصلوة والسلام کی شان میں وارد ہے۔ اس کا کیا جواب ہے قرآن مجید میں اس طرح آیا ہے۔ قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ يُوحَى إِلَيَّ ( میں بھی تمہاری طرح ایک انسان ہوں میری طرف وحی آتی ہے۔ یہ امر انسانیت کے اثر باقی رہنے کا نتیجہ ہے۔
جواب: ایسانہیں ہے اور نہ ہی اس میں کوئی بقاءاثر پر دلالت پائی جاتی ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ جب انسان کا فناء و بقاء کے بعد حق تعالیٰ کی طرف دعوت کرنے کے لیے عالم کی طرف رجوع کرتا ہے تو وہ صفات بشریت اور خصائص انسانی جو پہلے اس سے دور ہوئی ہوتی ہیں مغلوب اور کمزور ہو کر پھر اس کی طرف رجوع کر آتی ہیں ۔ تا کہ انسان کامل اور عالم کے در میان وہ مناسبت جو پہلے زائل تھی، حاصل ہو جائے اور الله تعالیٰ اسی مناسبت کے ذریعے انسان کامل اور عالم کے درمیان افادہ اور استفادہ کا دروازہ کھول دیتا ہے۔ ان صفات بشری کے رجوع کرنے اور زوال کے بعد ان کے حق ہونے اور ملنے میں دوسری حکمت مکلفین کا ابتلاء و امتحان اور دعوت کرنے والوں کا برگزیدہ کرنا ہے تا کہ پاک اور ناپاک اور سچے اور جھوٹے کے درمیان تمیز ہو اور ان صفات کے رجوع کرنے سے ایمان بالغیب جو پہلے مشتبہ اور پوشیدہ تھا حاصل ہو۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ وَلَوْ جَعَلْنَاهُ مَلَكًا لَجَعَلْنَاهُ رَجُلًا وَلَلَبَسْنَا عَلَيْهِمْ مَا يَلْبِسُونَ (اگر ہم اپنے رسول ﷺ کو فرشتہ بنا کربھیجتے تو انسانی صورت میں ہی بھیجتے۔ پھر بھی یہ لوگ وہی شبہ کرتے جواب کرتے ہیں)
سوال: انسان کامل کےعین اور اثر کے زائل ہونے کے کیا معنی ہیں ۔ حالانکہ اس کا ظاہر ہمیشہ صفات بشریت پر رہتا ہے۔ یعنی وہ کھاتا، پیتا، سوتا اور آرام لیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ انبیا ءعلیہم الصلوة والسلام کی شان میں فرماتا ہے وَمَا جَعَلْنَاهُمْ جَسَدًا لَا يَأْكُلُونَ الطَّعَامَ (ہم نے ان کو ایسے جسم نہیں بنائے جو کھانا نہ کھائیں)
جواب : فناء اور بقاء صفات باطنی میں سے ہیں۔ ظاہرکوان سے کچھ تعلق نہیں کیونکہ ظاہر ہمیشہ اپنے احکام پرر ہتا ہے اور باطن کبھی ان احکام سے خالی ہو جاتا ہے اور کبھی ان کے ساتھ متلبس ہو جاتا ہے اور اگر کوئی کہے کہ باطن یالطائف بہت سے ہیں، سب کے سب فنا و بقا سے متحقق ہوتے ہیں یا صرف ایک ہی اور وہ کون سا لطیفہ ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ وہ لطیفہ جو اس فناو بقا کے ساتھ متحقق ہوتا ہے لطیفہ نفس ہے۔ جو اصل میں انسان کی حقیقت ہے اور جس کی طرف قول انا کے ساتھ اشارہ کیا جاتا ہے۔ یہی پہلے نفس امارہ(برائی کی طرف بہت امر کرنے والا) ہوتا ہے پھر مطمئنہ ہو جاتا ہے۔ یہی پہلے خدا تعالیٰ کی دشمنی پر قائم ہوتا ہے اور یہی آخر کار راضیہ و مرضیہ بن جاتا ہے۔ یہی تمام بروں میں سے برا ہے اور یہی تمام نیکوں میں سے نیک ہے۔ اس کا شر ابلیس کے شر سے بڑھ کر ہے اور اس کا خیر تمام تسبیح وتقدیس کرنے والوں یعنی فرشتوں کے خیر سے برتر ہے۔
تنبیہ: فنا و زوال وجودی اور بقا کے یہ معنی نہیں۔ کہ ممکن سے امکان بالکل زائل ہو جائے اور اس کو وجوب حاصل ہو جائے، کیونکہ یہ محال عقلی ہے اور اس کے قائل ہونے سے کفر لازم آتا ہے بلکہ اس کے معنی امکانیت کے باقی رہنے کے باوجودخلع لبس کے ہیں۔ (یعنی صفات بشریت سے نکلنا اور صفات الہی سے موصوف ہونا) جس طرح کہ معقول والوں نے بھی عناصر میں کون وفساد کے طریق پر اس کو ثابت کیا ہے۔ مگر انہوں نے نوعیہ صورت کے تغیر و تبدل کے باوجود دونوں حال یعنی کون و فساد میں عناصر کے ہیولی یعنی مادہ کا ثابت رہنا بحال رکھا ہے۔ لیکن ہم ہیولی اور اس کے ثبوت کے قائل نہیں۔ بلکہ ہم کہتے ہیں کہ فنا و بقا قادر مختار جل شانہ کی طرف سے اعدام اور ایجاد ہے۔ حدیث میں آیا ہے کہ لن يلج ملكوت السموات والأرض من لم يولد مرتين )جو دو دفعہ پیدا نہ ہو وہ آسمانوں کے ملکوت میں داخل نہیں ہو سکتا ( اس میں ولادت ثانیہ سے ایجاد ثانی کی طرف اشارہ ہے جسے یہ بزرگوار صفات رذیلہ کے زائل ہونے اور اخلاق حمیدہ کے حاصل ہونے کے باعث مجاز او تشبیہ کے طور پر بقا اللہ کہتے ہیں ۔ اس لیے کہ گویا مرتبہ وجوب کے صفات کے مشابہ ہے۔ میں نے کئی جگہ اس امر کی تحقیق کی ہے کہ ممکن کی ذات عدم محض ہے۔ پھر اس کے زوال کے کیا معنی ہیں کیونک ممکن تمام احوال میں خواہ فناء کا حال ہو یا بقا کا حال اسی طرح ممکن ہے جس طرح کہ ان دونوں کے نہ ہونے کی حالت میں تھا اور واجب تعالى استمراری اور دائمی طور پر واجب ہے۔ اس کی پاکی بارگاہ کے ساتھ کوئی چیز نہیں مل سکتی اور نہ کوئی شے اس سے جدا ہوسکتی ہے۔ کسی نے کیا اچھا کہا ہے۔ بیت
سیاه روئی زممکن در دو عالم جدا ہر گز نشد واللہ اعلم
ترجمہ بیت: سیاں روئی نہ مکین کی ہوئی دور وہ عالم میں رہا ویسا ہی بے نور
پوشیدہ نہ رہے کہ ممکن میں امکان کے باقی رہنے سے یہ مرادنہیں کہ ممکن کا اثر اور اس کا ثبوت مراتب ثبوت کے کئی مرتبہ میں باقی رہتا ہے کیونکہ یہ امرفناءاتم کے منافی ہے اور اس فنا کا فانی امانتوں کو امانت والوں کے حوالہ کر کے اور وجود اور اس کی توابع یعنی صفات کاملہ اورنعوت فاضلہ کے ظلال کو ( جو اس میں منعکس ہوتے ہیں) ان کے اصل کی طرف واپس دے کر محض عدم کے ساتھ جو اپنی عدمیت میں کامل ہے۔ اس طرح مل جاتا ہے کہ اس میں کسی شے کی طرف اضافت ونسبت نہیں پائی جاتی۔ نہ ہی اس کا کوئی نام ونشان باقی رہتا ہے، کیونکہ عدم میں اضافت کا وجود کچھ نہ کچھ ثبوت کی خبر دیتا ہے۔
مکتوبات حضرت مجدد الف ثانی دفتر سوم صفحہ159ناشر ادارہ مجددیہ کراچی