حضرت شیخ المشائخ، قطب ربانی، غوث صمدانی ، محبوب سبحانی، سیدنا عبد القادر جیلانی رضی اللہ تعالی عنہ وارضاہ نے تصوف و طریقت پر مشتمل کتاب” آداب السلوک والتواصل الی منازل الملوک“ میں فرمایا :
نبی کریم ﷺکی حدیث : كَادَ الْفَقْرُ أَنْ يَكُونَ كُفْرً “۔ قریب ہے کہ فقر کفر کا سبب ہو جائے گا مطلب یہ ہے کہ : ایک انسان اللہ عزوجل پر ایمان لاتا ہے۔ پھر تمام امور اس کے سپرد کر دیتا ہے اور اعتقاد رکھتا ہے کہ رزق صرف اسی کی درگاہ سے بآسانی مل سکتا ہے۔ اور یہ سمجھتا ہے کہ جو کچھ اسے مل گیا ہے (یا جو مصیبت اس پر نازل ہو گئی ہے اس کاٹلنا ممکن نہیں تھا۔ اور جو نہیں ملا وہ کسی صورت مل نہیں سکتا تھا۔ اور وہ بندہ اللہ تعالی کے اس ارشاد گرامی پر یقین رکھتا ہے۔
وَمَنْ يَتَّقِ اللَّهَ يَجْعَلْ لَهُ مَخْرَجًا وَيَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ وَمَنْ يَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ فَهُوَ حَسْبُهُ ”اور جو (خوش بخت) ڈرتا رہتا ہے اللہ تعالی سے بنا دیتا ہے اللہ اس کے لیے نجات کا راستہ اور اسے وہاں سے رزق دیتا ہے جہاں سے اس کو گمان بھی نہیں ہوتا۔ اور جو (خوش نصیب اللہ پر بھروسہ کر تا ہے تو اس کے لیے وہ کافی ہے“
بندہ مومن اس بات کا اقرار بھی کرتا ہے اور تصدیق بھی تو وہ عافیت و بے نیازی کی حالت میں ہے۔ پھر اللہ تعالی اسے مصیبت اور فقر میں مبتلا کر دیتا ہے۔بنده التجا کرتا ہے اور آہ و زاری کرتا ہے لیکن اللہ تعالی مصیبت اور فقر سے اے نجات نہیں دیتا۔ تو ایسے میں الله تعالی کے محبوب کایہ ارشاد گرامی متحقق ہو جاتا ہے کہ فقر بھی کفر کا موجب بن جاتا ہے۔
جس پر اللہ کریم لطف و کرم فرمادے اس کی مصیبت ٹل جاتی ہے اور اسے عافیت اور غنی عطا کر دیتا ہے۔ اور اسے توفیق بخشتا ہے کہ وہ اللہ کی حمد و ثنا کرے اور نعمتوں پر اس کا شکر بجا لائے۔ سواسے اللہ تعالى لقاء کی گھڑی تک اسی طرح رکھتا ہے۔ یہ پہلا آدمی ہے۔
اور جسے اللہ کریم آزمانا چاہے تو اس کی مصیبت اور فقر کو دوام دے دیتا ہے۔ ایمان کی مدد اس سے دور کر دیتا ہے۔ وہ حق تعالی پر تہمت لگاتا ہے اور اعتراض کرتا ہے۔ اللہ کریم کے وعدہ پر شک کرتا ہے اور کافر ہو کر اللہ کی آیات کا منکر بن کر اپنے رب سے ناراض ہو کر مرتا ہے۔ یہ دوسرا آدمی ہے۔ رسول کریم نے اسی قبیل کے آدمی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : .
إِنَّ أَشْقَى الأَشْقِيَاءِ مَنِ اجْتَمَعَ عَلَيْهِ فَقْرُ الدُّنْيَا وَعَذَابُ الْآخِرَةِ قیامت کے دن سب سے زیادہ عذاب دیا جانے والا شخص ده ہو گا جس کو اللہ تعالی نے دنیا میں فقر میں مبتلا رکھا اور آخرت میں (جہنم کے عذاب میں مبتلا کیا
نعوذ بالله من ذالك یہی وہ فقر ہے جس سے نبی کریم ﷺنے اللہ تعالی کی پناہ مانگی ہے۔ تیسرا آدمی وہ ہے جسے اللہ تعالی مقام اصطفاء اور منزل اجتباء پر فائز کر نا چاہتا ہے۔ اس کا شمار اللہ کے خاص محبوب بندوں اور دوستوں میں ہوتا ہے۔ وہ انبیاء و اولیاء کا وارث ہے۔ اللہ تعالی کے عظیم بندوں ، علماء و علماء امت ، شفعاء و مشائخ، معلم وھادی، مرشد و متنوع انسانوں میں وہ گنا جاتا ہے۔ اور لوگوں کو سنن هدیٰ کی تلقین کرتا ہے اور برائی سے اجتناب کی نصیحت فرماتا ہے۔
ایسے بندے کو الله تعالی صبر کے پہاڑ، رضا کے سمندر اور فعل مولی میں فنا و موافقت کی سعادت عطا فرمادیتا ہے۔ اور پھر اسے طرح طرح کی نعمتوں اور برکتوں سے نوازتا ہے۔ رات دن خلوت و جلوت میں اس پر خصوصی کرم فرماتا ہے۔ ظاہری وباطنی کئی لحاظ سے اس پر لطف و کرم کرتا ہے۔ طرح طرح کی اے نعمتیں دیتا ہے۔ اور اس وقت تک اسے نوازتا رہتا ہےجب تک کے وصال حق نہیں آجاتا۔
آداب السلوک شیخ عبد القادر الجیلانی صفحہ 107 ،مکتبہ دارالسنابل دمشق شام