فلسفہ وحدۃ الوجود اور وحدۃ الشہود کا نظریہ

فلسفہ وحدۃ الوجود اور وحدۃ الشہود

 Pantheism  وحدت الوجود

فلسفہ وحدۃ الوجود   وحدت الوجود یعنی ہمہ اوست  لغوی معنی ہیں  (سب کچھ وہ(اللہ) ہے) کا سادہ مطلب یہ ہے کہ خدا کائنات ہے اور کائنات خدا ، اس سے زیادہ نہ کم۔اسے توحید عینی بھی کہا جاتا ہے اس فلسفے کے بانی شیخ محی الدین ابن عربی کو جانا جاتا ہے

Panenthesm  وحدت الشہود

فلسفہ وحدت الشہود یعنی ہمہ از اوست  لغوی معنی ہیں (ہر شے کا وجود حق(اللہ) سے ہے) اس کا مطلب یہ ہے کہ کائنات خدا کا پر تو ہے۔ اسے توحید ظلی بھی کہا جاتا ہے اس فلسفے کے بانی  مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندی ہیں نے وحدت الوجود میں اصلاح کی خاطر وحدت الشہود کا نظریہ پیش کیا جو  یقینا کافی حد تک  کامیاب ہے ان  کا کہنا تھا کہ:
’’ کائنات وعالم چونکہ مرتبہ و ہم میں بہرحال موجود ہے اس لئے نفی صرف شہود کی ہونی چاہیے، یہ وہ مقام ہے کہ جب سالک اللہ کے سوا کچھ نہیں دیکھتا چنانچہ اس وقت اس کی توحید یہ ہے کہ وہ مشہود صرف اللہ کو مانے اور انہیں صرف اللہ دکھائی دے رہا ہو۔‘‘

وحدت الوجود

وحدت الوجود کا صحیح مطلب یہ ہے کہ اس کائنات میں حقیقی اور مکمل وجود صرف ذات باری تعالیٰ کا ہے ، اس کے سواہر وجود بے ثبات ، فانی، اور نامکمل ہے  ایک تو اس لئے کہ وہ ایک نہ ایک دن فنا ہو جائے گا ۔ دوسرا اس لئے کہ ہر شے اپنے وجود میں ذات باری تعالی کی محتاج ہے ، لہذا جتنی اشیاء ہمیں اس کائنات میں نظر آتی ہیں انہیں اگرچہ وجود حاصل ہے ، لیکن اللہ کے وجود کے سامنے اس وجود کی کوئی حقیقت نہیں ، اس لئے وہ کالعدم ہے ، اس کی نظیر یوں سمجھیئے جیسے دن کے وقت آسمان پر سورج کے موجود ہونے کی وجہ سے ستارے نظر نہیں آتے، وہ اگر چہ موجود ہیں، لیکن سورج کا وجودان پر اس طرح غالب ہو جاتا ہے کہ ان کا وجود نظر نہیں آتا ۔ اسی طرح جس شخص کو اللہ نے حقیقت شناس نگاہ دی ہو وہ جب اس کا ئنات میں اللہ تعالی کے وجود کی معرفت حاصل کرتا ہے تو تمام وجودا سے ہیچ، ماند ، بلکہ کا لعدم نظر آتے ہیں ، 

وحدت الوجود کا یہ مطلب صاف ، واضح اور درست ہے ، اس سے آگے اس کی جو تعبیرات کی گئی ہیں وہ بڑی خطر ناک ہیں ، اور اگر اس میں غلو ہو جائے تو اس عقیدے کی سرحدیں کفر تک سے جاملتی ہیں ۔  

وحدت الشہود

نظریہ وحدت الشہود  کی رو سے ایک صوفی کے مطابق ذات خداوندی اور اشیائے کائنات ایک دوسرے کے عین نہیں بلکہ غیر ہیں۔ خدا کی ذات ہماری عقل و فہم کی رسائی سے باہر ہے، اشیائے کائنات، خدا کی ذات یا صفات کا مظاہر نہیں بلکہ موجود بالذات ہیں۔ وحدت الشہود کے نظریے کی رو سے اگر سالک کو حالت جذب میں خدا اور کائنات کے درمیان عینیت کا تعلق نظر آتا ہے تووہ حقیقی نہیں بلکہ نفسیاتی ہوتا ہے۔ جب سالک راہ دیدار محبت سے سرشار ہو کر ماسوا سے نظریں ہٹا لیتا ہے اور صرف ۔ خدا ہی کے تصور کو اپنے ذہن میں قائم رکھتا ہے تو اس کو ذات خداوندی کے سامنے اپنی ذات اور کائنات معدوم نظر آنے لگتی ہے اور وہ اس کیفیت میں کبھی انا الحق ، کہہ اٹھتا ہے اور کبھی ‘سبحانک شانی ۔ در حقیقت کیفیت اپنے جذبہ اور مشہود کی کارفرمائی ہے اور واقعیت اور اصلیت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ 

دونوں نظریات کا فرق یاتقابل


وحدت الوجود (ھوالکل )                             وحدت الشہود (ھوالھادی)
(1) نظریہ ہمہ است یا اندرہمہ اوست               (1) نظریہ ہمہ ازاوست
(2) رحجان تصوف، سکون کی طرف  مائل           (2) جوش کی طرف مائل
(3) میں اور وہ جدا نہیں وہ دریا تو میں قطرہ ہوں  (3) اس کے ساتھ میں اور میرے ساتھ وہ ہے
(4) وصل                                     (4) عشق
(5) اعتقاد : میں کون ہوں ؟ اَ ناَ الحق (عارف )       (5) میں کون ؟ اناَ عَبدُہُ  (عاشق)  

اصطلاحِ صوفیہ میں ’’وحدت الوجود‘‘ کے دیگر عنوانات توحید، عینیت اور مظہریت بھی ہیں۔ اس کا حاصل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا وجود کامل ہے اور اس کے مقابلہ میں تمام ممکنات کا وجود اتنا ناقص ہے کہ کالعدم ہے، عام محاورہ میں کامل کے مقابلہ میں ناقص کو معدوم سے تعبیر کیا جاتا ہے جیسےکسی بہت بڑے علامہ کے مقابلہ میں معمولی تعلیم یافتہ کو یا کسی مشہور پہلوان کے مقابلہ میں معمولی شخص کو کہا جاتا ہے کہ یہ تو اس کے سامنے کچھ بھی نہیں، حالانکہ اس کی ذات  اور صفات موجود ہیں مگر کامل کے مقابلہ میں انھیں معدوم قرار دیا جاتا ہے، فلسفی اور ملحدین کی طرف سے اس عقیدے کی ایسی تشریحات بھی کی گئی تھیں جن کی بناء پر ہر نظر آنے والی شے پر اللہ تعالیٰ کا اطلاق درست ہے۔

چنانچہ ایسی ملحدانہ تعبیر کے مقابلے میں شیخ مجدد الف ثانی رحمہ اللہ نے اس نظریے کی اصلاح کے لیے اس کے مد مقابل ایک نیا نظریہ پیش فرمایا جسے وحدت الشہود کہا جاتا ہے۔ اس کے دیگر عنوانات ظل و عکس ہیں اس نظرئیے کی رو سے خالق اور مخلوق دونوں کا وجود بالکل الگ الگ ہے، البتہ مخلوق اپنے وجود کے لیے ہر لحظہ خالق کی محتاج ہے۔ اس کی مثال ایسے ہے جیسے سورج اور اس کی روشنی، کہ روشتی کا وجود ہر لمحہ سورج ہی کے دم سے ہے مگر اس کے باوجود روشنی سورج سے علیحدہ وجود کی حامل ہے۔


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں