قرینہ اس بات کو کہتے ہیں کسی کام کی اصل منشاء کی طرف رہنمائی کرے ۔
اور صارفہ “ پھیرنے والی کو کہتے ہیں ۔
قرینہ صارفہ کے معنی ہیں : ” پھیر نے والی بات *
قرینہ صارفہ سے اصطلاحاًوہ بات مراد ہوتی ہے جو کسی حکم کی فرضیت کواستحباب کی طرف پھیر دے۔ یعنی قرینہ صارفہ “ وہ بات ہے جس سے حکم دینے والے کی منشاء ظاہر ہوجائے کہ وہ اس حکم کو فرض قرار نہیں دے رہا ہے بلکہ صرف اس کی فضیلت بیان کر رہا ہے یا اس کی اجازت دے رہا ہے۔ مثلاً اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :۔
وَحُرِّمَ عَلَيْكُمْ صَيْدُ الْبَرِّ مَا دُمْتُمْ حُرُمًا اور (اے ایمان والو تم پرخشکی کا شکار حرام کر دیا گیا جب تک تم احرام کی حالت میں ہو
اللہ تعالی فرماتا ہے :۔
غَيْرَ مُحِلِّي الصَّيْدِ وَأَنْتُمْ حُرُمٌ
اے ایمان والو جب تم احرام کی حالت میں ہو تو شکار کو حلال نہ سمجھنا ۔
اس سے اگلی آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :۔
وَإِذَا حَلَلْتُمْ فَاصْطَادُوا
اور (اے ایمان والو جب تم احرام اتارو تو شکار کیا کرو ۔
اس آیت میں حکم ہے کہ احرام اتارنے کے بعد شکار کرو۔ اس حکم سے بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ احرام اتارنے کے بعد شکارکرنا فرض ہے حالانکہ حقیقت میں ایسانہیں ہے بلکہ حالت احرام میں شکار کی جو بندش تھی اس حکم سے اس بندش کو ختم کیا جارہا ہے یعنی یہ حکم اس بات کی اجازت ہے کہ اب شکار کر سکتے ہو پہلے جو بندش تھی وہی اس حکم کو فرضیت سے اجازت کی طرف پھیر رہی ہے یعنی حالت احرام میں شکار کی بندش قرینہ صارفہ “ہے جو احرام اتارنے کے بعد شکارکرنے کے حکم کی فرضیت کو اجازت کی طرف پھیر رہا ہے یعنی احرام اتارنے کے بعد شکار کرنے کے حکم سے شکار کرنے کی اجازت مراد ہے نہ کہ شکار کی فرضیت ۔
رسول اللہ ﷺنے فرمایا :۔
صَلُّوا قَبْلَ صَلَاةِ الْمَغْرِبِ). قَالَ فِي الثَّالِثَةِ: (لِمَنْ شَاءَ). كَرَاهِيَةَ أَنْ يَتَّخِذَهَا النَّاسُ سنة
نماز مغرب سے پہلے نماز پڑھو ( تین مرتبہ آپ نے اس کلمہ کو دہرایا پھر اس بات کو ناپسند کرتے ہوئے کہ کہیں لوگ اس کو سنت
نہ بنائیں تیسری مرتبہ میں آپ نے یہ بھی فرمایا جو پڑھنا چاہے
رسول اللہ ﷺ نے مغرب سے پہلے نماز پڑھنے کاتین مرتبہ حکم دیا کیونکہ حکم کی تعمیل فرض ہوتی ہے لہذا آپ نے اپنے حکم کی فرضیت کو استحباب کی طرف پھیرنے کے لئے فرمایا : ” جو چاہے ۔ یہ الفاظ جو چاہے اس بات پر قرینہ ہیں کہ حکم سے مراد آپ کی استحباب بتا نا تھا نہ کہ فرض کرناگو یا یہ الفاظ ” جو چاہے ، قرینہ صارفہ ہیں جو اس نماز کے وجوب کو ساقط کر کے اس کے استحباب کو ثابت کر رہے ہیں۔ واضح ہوکہ اس حدیث میں سنت کا لفظ فرض کے قائم مقام واقع ہوا ہے جس سے صاف نتیجہ نکلتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ اس نماز کوسنت یعنی لازمی نہیں بنانا چاہتے تھے لہذا آپ نے لمن شاء فرماکر اس کی فرضیت کو استحباب کی طرف پھیر دیا ۔ اس پھیرنے کو قرینہ صارفہ کہا جاتا ہے۔