حضرت شیخ المشائخ، قطب ربانی، غوث صمدانی ، محبوب سبحانی، سیدنا عبد القادر جیلانی رضی اللہ تعالی عنہ وارضاہ نے تصوف و طریقت پر مشتمل کتاب” آداب السلوک والتواصل الی منازل الملوک“ میں فرمایا :
اپنے چہره سے حجاب اور پردہ نہ اٹھا حتی کہ تو خلق سے نکل جائے (جلوت میں بھی خلوت کی کیفیت حاصل ہو جائے) اور تمام احوال میں اپنے دل کی پیٹھ ان سے پھیر لے۔ اگر تو خلق سے لا تعلق ہو گیا اور دل سے انہیں نکال باہر کرنے میں کامیاب ہوا تو خواہش نفسانی زائل ہوئی۔ ارادے اور تمناؤں نے ساتھ چھوڑ دیا اور تو دنیاو آخرت کی ہر چیز سےفانی ٹھہرا۔
اب تو گویا ایک شکستہ بر تن ہے کہ تجھ میں اللہ عزوجل کے ارادے کے بغیر کوئی ارادہ نہیں ٹھہر سکتا۔ یوں تیرا دل تیرے رب سے بھر گیا کہ اس کے سواء کسی دوسرے کے لیے اس میں جگہ ہی نہیں۔ تجھے دل کے دروازے پر دربان بنادیا گیا ہے۔ تیرے ہاتھ میں توحید اور جرات کی تلوار تھما دی گئی۔ پس جو سینے کےصحن میں قدم رکھے اس کا سر قلم کر دے اور اپنے نفس ، خواہش، ارادے اور دنیاو آخرت کی کسی چیز کو سر نہ اٹھانے دے۔ کسی کی بات نہ سن، کسی کی رائے کی اتباع نہ کر اپنے رب کے حکم کی پیروی کر، اسی کی اتباع میں استقلال پیدا کر جو فیصلے وہ کر دے اس کے آگے سر جھکا دے بلکہ قضاو قدر کے سامنے فنا ہو جا۔ اس طرح تو اپنے رب کا بندہ اس کےحکم کاپابند بن جائے گا۔ مخلوق کی غلامی اور ان کی رائے کی اتباع کا قلادہ گلے سے اتر جائے گا۔ اگر اس میں تجھے دوام و مداومت حاصل ہو گئی تو تیرے دل کے ارد گرد غیرت خداوندی کی دیواریں بلند ہو جائیں گی۔ عظمت کی خندقیں کھد جائیں گے ، غلبہ و قہرالہی کے پہرے بٹھادیئے جائیں گے۔ حقیقت اور توحید کے لشکر اس کو ڈھانپ لیں گے۔ اور حق کے پہرہ دار کھڑے کر دیئے جائیں گے۔ اس طرح،ہواوہوس۔ اراده و تمنا ادعاء باطلہ و . ہوائے نفسانی اور دوسری گمراہیاں تیرے دل تک نہیں پہنچ سکیں گی۔ اگر مقدر میں یہ ہے کہ خلق خدا تیرے پاس آئے، یکے بعد دیگرے تیری زیارت کریں اور تیرے فضل و ولایت پر اتفاق و یک زبان ہو جائیں تاکہ تیرے انوار معرفت نشانہائے روشن و تاباں اور حکمتہائے نیکیور ساں سے مستفیض ہوں۔ تیری کرامات اور خرق العاده امور کو دیکھیں جو تیرے ہاتھ پر مسلسل ظہور پذیر ہورہے ہیں تا کہ اس طرح ان کی اطاعت گزار اور قربتوں میں اضافہ ہو۔ اللہ تعالی کی عبادت کا ذوق و شوق فزوں تر ہو تو اللہ تعالی ان تمام لوگوں سے تجھے محفوظ فرما دے گا۔ تیر انفس حرص و ہوا کی طرف مائل نہیں ہو گا۔ توعجب، فخر و مباہات اور اس ازدحام پر غرور سے بچ جائے گا۔ ان کی عقیدت اور توجہ تیرے لیے نقصان دہ ثابت نہیں ہو گی۔
اسی طرح اگر تیرے مقدر میں کسی حسین و جمیل عورت کی شادی ہوئی جو تجھ پر بوجھ نہ ہو اور خود ہی اپنی کفیل ہو تو اللہ تعالی تجھے اس کے شر سے محفوظ فرمادے گا۔ اللہ تعالی اس کے بوجھ اور اس کی قرابت داروں کے بوجھ کو اپنے ذمہ کرم پرلے لے گا۔ اور وہ عورت تیرے لیے عطیہ ربانی ثابت ہو گی۔ نہ تجھے اس کی کفالت کی مشقت اٹھانا پڑے گی اور نہ اس کے کسی تعلق دار کی ضرورت کا خیال رکھنا پڑے گا۔ وہ بھی تیری لیے باعث خیر وبرکت، لطیف و پاکیزہ ہر خیانت سے پاک ہر خبث سے مصفی فساد ، حسد، غضب اور بدکرداری سے پاک بیوی ثابت ہو گی۔ وہ تیری فرمانبردار ہو گی۔ اس کے تعلق دار تیرے سامنے سر جھکا دیں گے پر تجھ پر سے اپناو جھ اور ذمہ داریاں لیکر خود اٹھائے گی۔ اورتجھے ہر قسم کی اذیت سے بے خوف کر دے گی۔ اگر اس کے بطن سے بچہ مقدر میں ہوا تو وہ بھی صالح آنکھوں کی ٹھنڈک اور ہر قسم کی برائی سے پاک ہوگا۔ رب قدوس کا ارشاد ہے۔
وَأَصْلَحْنَا لَهُ زَوْجَهُ اور ہم نے تندرست کر دیا ان کی خاطر ان کی اہلیہ کو“
رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ أَزْوَاجِنَا وَذُرِّيَّاتِنَا قُرَّةَ أَعْيُنٍ وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ إِمَامًا اے ہمارے رب !مرحمت فرماہمیں ہماری بیویوں اور اولاد کی طرف سے آنکھوں کی ٹھنڈک اور بنا ہمیں پرہیز گاروں کے لیے امام“۔
وَاجْعَلْهُ رَبِّ رَضِيًّا اور بنادے اسے اے رب !پسندیدہ(سیرت والا)
پس یہ دعائیں جو ان آیات میں ہیں معمول بھا اور اس کے حق میں قبول ہو جائیں گی۔ چاہے اس نے یہ دعائیں کی ہوں یانہ کی ہوں۔ کیونکہ ان دعاؤں کایہی محل ہے اور ان کا اصل اہل یہی ہے۔ جسے یہ باطنی نعمت میسر ہو وہ زیادہ حقدار ہے کہ اسے ان نعمتوں سے بھی سرفراز کیا جائے۔
اسی طرح اگر دنیا کی نعمتیں اس کے مقدر میں ہیں تو دنیاداری اسے کوئی نقصان نہیں دے سکتی کیونکہ وہ فانی عن الدنیاکی صفت سے متصف ہو چکا ہے۔ پھردنیاکی جونعمتیں تیرے مقدر میں لکھی ہوئی ہیں وہ تجھے ملیں گی اور اللہ تعالی کے فضل اور ارادے سے وہ تیرے لیے ہر کدورت (آرزو، طلب ، مشقت)سے پاک ہونگی۔ اور تو انہیں اپنی مرضی سے نہیں اللہ کے حکم کی تعمیل میں لے گا اور تجھے اس کے حصول پر اسی طرح ثواب ملے گا جس طرح نماز اور روزے کی ادائیگی پر ملتا ہے جو فرض ہیں۔ اور دنیا کی وہ چیزیں جو تیرے مقدر میں نہیں ان کے بارے تجھےحکم باطن مل جائے گا کہ وہ فلاں مستحق کو پہنچا دو۔یعنی دوستوں پڑوسیوں، بھائیوں کو جو ضرورت مند اور تیرے مال میں استحقاق رکھتے ہوں گے۔یا دوسرے مستحقین جو مصارف زکوة شمار ہوتے ہیں۔ کیونکہ ان کے حال کا یہ تقاضا ہے کہ ان کی مدد کی جائے اور اس کا اندازہ تجھے ان کے احوال سے ہو گا۔ ان کی حالت خود تجھےبتادے گی کہ یہ مستحق ہیں۔
. بہر حال خبر مشاہدہ کے برابر نہیں ہو سکتی۔ تب تیرا معاملہ صاف و شفاف ہو جائے گا اور اس میں کوئی شک و شبہ کا غبار نہیں رہے گا۔ وہ ظاہر وباہر ہر قسم کے شک وارتیاب سے پاک ہو جائے گا۔
اتباع ہوائے نفس سے صبر کر اور امتثال امر حق پر صبر کر۔ تعلیم و رضا کی خواپنالے حال کی حفاظت کر اور باطنی کیفیات پر پردہ ڈال۔ شہرت و نامور ی کو چھوڑ اور گمنامی اختیار کر آرام، آہستگی، سکوت اور خاموشی اختیار کر۔
بچ اور پرہیز کر تسامح و درگزر کر ہاں ہاں خیال کر کہ عذاب الہی کا سزاوار نہ ہو جائے) اللہ تعالی سے ڈر، اس کے احکام کی پیروی کر۔ اس کی بارگاہ میں التجا کر۔ سر جھکادے اور اغماض برت حتی کہ لکھا ہوا اپنی مدت کو پہنچے۔ تیرے ہاتھ سے پکڑ کر تجھے آگے لے جایا جائے اور ہر قسم کی سختی تجھ سے دور کر دی جائے۔ پھر تجھے فضیلتوں کے سمندروں میں سیر کرائی جائے. فضل ورحمت سے تجھے بہره مند کیا جائے۔ پھرتجھے نکال کر انوار ، اسرار علوم لدنی کی خلعتیں پہنائی جائیں۔
تجھے قرب بخشاجائے،تجھ سے راز و نیاز کی باتیں ہوں، تجھے نعمتیں عطا کی جائیں اور تیرا دامن مراد بھر دیا جائے۔تجھے جرأت بخشی جائے۔ تیرےمرتبے کو بلند کیا جائے اور تجھے ہمکلامی خدا کا شرف بخشاجائے ۔ کہ آج سے آپ ہمارے پاس بڑے محترم اور قابل اعتماد ہیں۔
ایسے میں اپنی حالت کو یوسف علیہ السلام کی حالت پر قیاس کر کہ جب بادشاه مصر نے آپ سے کہا تھا کہ اے یوسف آج سے آپ ہمارے پاس بڑے محترم اور قابل اعتماد درباری ہیں۔ تو اس گفتگو کا معبر اور گفتگو کرنے والا تو بادشاه تھا لیکن حقیقت میں مخاطب اللہ تعالی خود تھا۔
ظاہری بادشاہی یعنی مصر کی بادشاہی بھی آپ کے حوالے کر دی گئی اور علم و معرفت قربت و مخصوصیت اور اللہ کے ہاں بلند مقام بھی انہیں عطا کر دیا گیا۔ رب قدوس نے ظاہری بادشاہی کے بارے فرمایا :
وَكَذَٰلِكَ مَكَّنَّا لِيُوسُفَ فِي الْأَرْضِ یوں ہم نے تسلط (واقدار)بخشایو سف کو سرزمین مصر میں“
يَتَبَوَّأُ مِنْهَا حَيْثُ يَشَاءُ تا کہ رہے اس میں جہاں چاہے“ باطن کی بادشاہی کے بارے فرمایا۔
كَذَلِكَ لِنَصْرِفَ عَنْهُ السُّوءَ وَالْفَحْشَاءَ إِنَّهُ مِنْ عِبَادِنَا الْمُخْلَصِينَ
یوں ہوا تا کہ ہم دور کر دیں یوسف سے برائی اور بے حیائی کو بیشک وہ ہمارے ان بندوں میں سے تھاجو چن لیے گئے ہیں ۔
علم و معرفت کی بادشاہی یوسف علیہ السلام کو دی تو اس کے بارے قدرت نے فرمایا۔
ذَٰلِكُمَا مِمَّا عَلَّمَنِي رَبِّي ۚ إِنِّي تَرَكْتُ مِلَّةَ قَوْمٍ لَا يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَهُمْ بِالْآخِرَةِ هُمْ كَافِرُونَ یہ ان علموں میں سے ہے جو سکھایا ہے مجھے میرے رب نے۔ میں نے چھوڑ دیا ہے دین اس قوم کا جو نہیں ایمان لاتے اللہ تعالی پر نیز وہ آخرت کا انکار کرنے والے ہیں“۔
اے صدیق اکبر ! (بندہ مومن) جب تجھے بھی اسی طرح خطاب کیا گیا توتجھے علم لدنی سے حظ وافر عطا کیا گیا۔تجھے توفیق، قدرت ، ولایت عامہ ، ضبط نفس اور امور تکونیہ سے نوازا گیا اور بہرہ مند کیا گیا۔ یہ سب عطا اور توفیق قادر مطلق اور خالق کائنات کی طرف سے ہے۔ اور یہ دنیوی نعمتیں ہیں۔ رہا آخرت میں یعنی سلامتی کے گھر جنت العلیاء میں تو وہاں دیدار جمال خداوندی کی نعمت عطا کر کے تجھ پر لطف و کرم کیا جائے اور یہی وہ آرزو ہے جس کی کوئی غایت و انتہاء نہیں ہے۔
آداب السلوک شیخ عبد القادر الجیلانی صفحہ 97 ،مکتبہ دارالسنابل دمشق شام