لطائفِ عشرہ
حضرت امام ربانی قدس سرہ فرماتے ہیں انسان کی ساخت دس 10 اجزاء سے ہوئی ہے ان میں سے پانچ عالمِ خلق کے اجزاء ہیں اور پانچ عالمِ امر کے اجزاء ہیں ان ہی اجزائے عشرہ کو لطائفِ عشرہ کہا جاتاہے۔
لطائفِِ عشرہ اور اجزائے عشرہ
انسان لطائفِ عشرہ سے مرکب ہے ان میں پانچ لطائف عالمِ خلق سے ہیں جو عرش کے نیچے کی مخلوقات سے تعلق رکھتے ہیں اور وہ عناصرِ اربعہ (ہوا،پانی،آگ، مٹی) نفس ناطقہ ، قلب ، روح، سر، خفی اور اخفیٰ ہیں۔ اسے مجموعہ اجزائے عشرہ کہتے ہیں
دوسرے پانچ لطائف عالمِ امر سے ہیں جو عرش سے اُوپر کی مخلوق سے تعلق رکھتے ہیں ان کا وطنِ اصلی فوق العرش (عالمِ ارواح) ہے لیکن ان کے تعینات انسان کے جسم میں جُدا جُدا مقام رکھتے ہیں جنہیں قلب، روح، سِرّ، خفی، اخفیٰ کہتے ہیں۔
جسمِ انسانی میں یہی وہ مواضع ہیں جن پر انوار و اسرار اور فیوض و برکاتِ الٰہیہ کا نزول ہوتا رہتا ہے گویا یہ لطائف اللہ تعالیٰ تک پہنچانے کے مختلف راستے ہیں اور ہر راستہ ایک اُولوالعزم رسُول کے زیرِ قدم ہے انسانی جسم میں آکر انکی نورانیت زائل ہوگئی ہے اسلئے سالکین ذِکر کرنے کے ذریعے دوبارہ انکو نُورانی بنا لیتے ہیں۔
لطیفہ
انسان کے جسم میں محلِ نور کو لطیفہ کہتے ہیں اور اس کو نفسِ ناطقہ بھی کہتے ہیں یہ وہ جوہر ہے جو مادہ سے خالی ہوتا ہے۔ وَھِیَ الْجَوْھَرُ الْمُجَرَّدُ عَنِ الْمَادَّۃِ کتاب التعریفات(ترجمہ: اور یہ جوھر مادہ سے مبرا ہوتا ہے) ان لطائف کا اصلی مقام عرش کے اوپر ہے لیکن جسمِ انسانی کے ساتھ ان کا ایک لطیف تعلق قائم ہے جسکی تطہیر سے سالکین کو عالمِ امر میں روحانی سیر نصیب ہوتی ہے۔
لطائف کے نام قُرآن میں
صوفیائے کرام نے لطائف کے اصطلاحی نام قرآنِ حکیم سے لئے ہیں۔
مثلاً قلب، روح، سر، خفی، اخفیٰ اور نفس کا ذکر درج ذیل آیات میں ہے۔
إِنَّ فِى ذَٰلِكَ لَذِكْرَىٰ لِمَن كَانَ لَهُۥ قَلْبٌ [ق:37](ترجمہ: جو شخص دلِ (بیدار) رکھتا ہے یا دل سے متوجہ ہو کر سنتا ہے)
قُلِ ٱلرُّوحُ مِنْ أَمْرِ رَبِّى [بنی اسرائیل: 85](ترجمہ: کہہ دو کہ روح میرے پروردگار کا ایک حکم ہے)
فَإِنَّهُۥ يَعْلَمُ ٱلسِّرَّ وَأَخْفَى [طٰہٰ: 7](ترجمہ: تو پھر بے شک وہ چھپے بھید اورنہایت پوشیدہ بات تک کوجانتاہے)
ٱدْعُوا۟ رَبَّكُمْ تَضَرُّعًۭا وَخُفْيَةً [الاعراف 55](ترجمہ:(لوگو!) اپنے پروردگار سے عاجزی سے اور چپکے چپکے دعائیں مانگا کرو)
وَنَفْسٍۢ وَمَا سَوَّىٰهَا [لشمس:7](ترجمہ: اور انسان کی اور اس کی جس نے اس (کے اعضا) کو برابر کیا)
صوفیائے محققین کے نزدیک لطائف کے انوار میں جو اختلاف ہے وہ مکشوفات کے اعتبار سے اختلاف ہے لہٰذا لطائف کے انوار کو رنگوں کے ساتھ مخصوص و مقیّد جاننا لازمی نہیں کیونکہ مقصود، دائمی ملکہ ذکر ہے نہ کہ رنگ و نُور، البتہ اگر لطائف کے رنگ کبھی ظاہر بھی ہوں تو مضائقہ نہیں۔
مقاماتِ لطائفِ عالمِ اَمر
لطیفہِ قلب
لطیفہِ قلب کا مقام انسان کے جسم میں بائیں پستان کے نیچے دو 2انگشت کے فاصلے پر مائل بہ پہلو ہے اسکی فناء قلب پر اللہ تعالیٰ کی تجلی فعل کا ظہور ہے اسکی علامت ذکر کے وقت ماسویٰ اللہ کا نسیان اور ذاتِ حق کیساتھ محوّیت ہے (اگرچہ تھوڑی دیر کیلئے ہو) اسکی تاثیر رفعِ غفلت اور دفعِ شہوت کی صورت میں ظاہر ہوتی ہے اسکا نور زرد ہے۔
قلب کا خاصہ ہے ذکر کرنا۔دھیان کرنا، شاہد رہنا اوراسم ذات باری تعالٰی اللہ اللہ کرنا، (یعنی وہ ایک ایسی ذات مبارکہ ہے جو تمام اوصاف کاملہ کے
ساتھ موصوف ہے اور ہر قسم کے نقائص سے پاک ہے اور اس پر سہارا تکیہ ہے،
لطیفہِ روح
اس کا مقام انسان کے سینے میں دائیں پستان کے نیچے دو انگشت کے فاصلے پر مائل بہ پہلو ہے۔ اسکی فناء روح پر اللہ تعالیٰ کی تجلی صفات کا ظہور ہے۔ اسکی علامت ذکر کے وقت کیفیاتِ ذکر (قلبی و روحی) میں اضافہ و غلبہ ہے۔ اسکی تاثیر غصّہ و غضب کی کیفیّت میں اعتدال اور طبیّعت میں اصلاح و سکون کی کیفیت کا ظہور ہے اُسکا نُور سرخ ہے۔ لطیفہ روح حیات قلبی کا باعث ہے
لطیفہِ سر
اس کا مقام انسان کے سینے میں بائیں پستان کے برابر دو انگشت کے فاصلے پر مائل بہ وسطِ سینہ ہے اس کی فناء لطیفہِ سرّ پر اللہ تعالیٰ کی صفات کے شیونات و اعتبارات کا ظہور ہے۔
اسکی علامت ہر دو سابقہ لطیفوں کی طرح اس میں ذکر کا جاری ہونا اور کیفیات میں ترقی رونما ہونا ہے۔ (یاد رہے کہ یہ مشاہدہ اور دیدار کا مقام ہے) اس کی تاثیر طمع اور حرص کے خاتمے نیز دینی اُمور کے معاملے میں بلا تکلّف مال خرچ کرنے اور فکرِ آخرت کے جذبات کی بیداری سے ظاہر ہوتی ہے۔ اس کا نور سفید ہے۔
لطیفہِ خفی
اس کا مقام انسان کے سینے میں دائیں پستان کے برابر دو 2 انگشت کے فاصلے پر مائل بوسطِ سینہ ہے۔ اسکی فنا صفاتِ سلبیہ تنزیھیہ کا ظہور ہے۔ اسکی علامت اس میں ذِکر کا جاری ہونا اور عجیب و غریب احوال کا ظھور ہے۔ اسکی تاثیر حسد و بخل اور کینہ و غیبت جیسی امراض سے مکمل نجات حاصل ہوجانے سے ظاہر ہوتی ہے۔ اسکا نور سیاہ ہے۔
لطیفہِ اخفیٰ
اس کا مقام انسان کے جسم میں وسطِ سینہ ہے۔ اسکی فنا مرتبہ تنزیہہ اور مرتبہِ احدیّتِ مجردہ کے درمیان ایک برزخی مرتبے کے ظھور و شہود سے وابستہ ہے اور یہ ولایتِ محمد علیٰ صاحبہَا الصلوات کا مقام ہے اس کی علامت اس میں بلاتکلف ذکر کا جاری ہونا اور قربِ ذات کا احساس و شہود ہے اسکی تاثیر تکبر، فخر و غرور اور خودپسندی جیسی مُہلک روحانی امراض سے رہائی پانے اور مکمل حضور و اطمینان کے حصول سے ظہور پذیر ہوتی ہے اسکا نُور سبز ہے۔
لطیفہ نفسی
اس کا مقام پیشانی کے درمیان ہے ۔ اس لطیفہ میں بھی سابقہ لطائف کی طرح ذکر کا خیال ہی کرنا ہے۔
لطیفہ نفس کی اصلاح کی علامت یہ ہے کہ سالک ذکر کی لذت میں اس قدر محو ہوجاتا ہے کہ نفس کی رعونت و سرکشی بالکل ختم ہوجاتی ہے۔
لطیفہ قالبی
اس لطیفہ کا دوسرا نام سلطان الاذکار ہے۔ اسکا مقام وسط سر ہے، اس لئے اسکی تعلیم دیتے وقت مشائخ وسط سر یعنی دماغ پر انگلی رکھ کر اللہ، اللہ کہتے ہوئے توجہ دیتے ہیں، جس سے بفضلہ تعالی تمام بدن ذاکر ہوجاتا ہے اور جسم کے روئیں روئیں سے ذکر جاری ہوجاتا ہے۔
اسے حقیقت جامعہ ،حقیقت انسانیہ،ہیئت انسانیہ اور ترکیب روحی بھی کہا جاتا ہے
لطائف عالم امر کی جڑیں عرش کے اوپر ہیں اور جسم انسانی میں ان کے ٹھکانے ہیں
اصل قلب جو فوق العرش ہے، تجلی افعال ہے۔
اصل روح جو فوق العرش ہے، صفات ثبوتیہ ہیں۔
اصل سر جو فوق العرش ہے، شیونات ذاتیہ ہیں۔
اصل خفی جو فوق العرش ہے، صفات سلبیہ ہیں۔
اصل اخفی جو فوق العرش ہے، شان جامع ہے۔