مبدأ کسی چیز کےشروع ہونے کی جگہ کو کہتے ہیں ، مزید ظاہر ہونے کی جگہ، جائے ظہور، منبع، بنیاد، اصل، جڑ، آغاز، ابتدا
ذات واجب تعالٰی اور اسمائے کلی کو کہتے ہیں
مبدأ فیاض صرف ذات باری تعالیٰ ہے اور ہر انسان اپنی استطاعت و صلاحیت کے مطابق عالم وجوب میں اپنے مبدأ فیض سے تربیت و پرورش پاتا ہے مبدأ فیض عالم وجوب میں جس اسم شان صفت یاظل کے توسط سے سالک کو فیض آتا ہے اس کو مبدأ فیض کہتے ہیں
مبدأ فیض
جب اللہ تعالی کسی مخلوق کو پیدا کرنے کا ارادہ فرماتا ہے تو جو چیز کی ابتدا
جس جگہ سے ہوتی ہے اس کو تعین کہتے ہیں یہ وہ مقام ہے جہاں مخلوق اپنے خالق سے جدا ہوتی ہے اور اپنے وجود میں مستقل ہو کر اس مقام سے فیض حاصل کرتی ہے اور جس مقام ( اسم یا صفت) سے وہ مخلوق فیض حاصل کرتی ہے اس کا مربی( تربیت کرنے والا) اور مبداءفیاض کہلاتا ہے بقول خواجہ معصوم مبدأ تعیُّن(مبدأ فیض )عاشق اور معشوق کے درمیان برزخ ہے
مبدأ فیاض
ذاتِ حق تعالیٰ مبداء فیاض ہے کیونکہ کائنات کی ہر شے اسی ذات سے ہر قسم کا فیض حاصل کررہی ہے اور ہر چیز کی اِبتداء و انتہیٰ اسی کی طرف لوٹتی ہے۔
جب انسان سے یہ منسوب ہو تو مراد ہے اس کی ابتدا کہاں سے اور کیسے ہوئی
مبدأ تعیُّن
فیض کی مُختلف صورتوں اور قسموں کے اعتبار سے اللہ تعالیٰ کو مختلف اسموں اور صفتوں سے پُکارا جاتا ہے ان میں سے ہر اسم اور صفت کو کسی نہ کسی مخلوق کے ساتھ خاص مناسبت ہوتی ہے اور وہ مخلوق اسی کے فیض سے دوسرے اسموں اور صفتوں کا فیض حاصل کرتی ہے اور وہی اصطلاحِ طریقت میں اسکے مربّی کہلاتے ہیں۔ بس یہی اسماء و صفات اس مخلوق کے مبادئِ تعیّنات ہیں لیکن یہ فرق ملحوظ رہنا چاہئیے کہ اللہ تعالیٰ کے اسماء و صفات نبیوں اور فرشتوں کے مبادئ تعینات ہیں اور ان اسماء و صفات کے ظِلال دُوسرے انسانوں اور باقی مخلوقات کے مبادئ تعینات ہیں۔
صوفیائے عظام نے اسی حدیث کی روشنی میں فرمایا ہے کہ مومنوں کے مَبادئ تعینات نُور کے حجاب ہیں جو اسم الھادی کے ظِلال ہیں اور کافروں کے مَبادئ تعینات ظُلمت کے حجاب ہیں جو اسم المُضِلُّ کے ظِلال ہیں۔