مبدأ و معاد تصنیف حضرت مجدد الف ثانی

مبدأ و معاد

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ اَحْمَدُ اللهَ فيِ الْمَبْدَأِ وَالْمَعَادِوَاُصَلِّیْ عَلىٰ حَبِیْبِہٖ مُحَمَّدٍ وَاٰلِهِ الْاَمْجَادِ یعنی میں ابتدا، اور انتہا میں اللہ تبارک و تعالی کی حمد کرتا ہوں اور اس کےحبیب محمد  مصطفے ﷺ اور آپ کی بزرگ اولادپر درود بھیجتا ہوں ۔ حمد و صلاۃ کے بعد عرض ہے کہ یہ ایک پر فضیلت رسالہ ہے جولطیف و خوش آئندا شارات اور دقیق وبلند مرتبہ اسرار پرمشتمل ہے۔ اس کے مصنف بہت بڑے امام، بندوں پر اللہ  کی حجت، اقطاب اور اوتاد کے پیشواء ابدال اورافراد کے قبلہ سبع مثانی (یعنی سورۂ فاتحہ) کے اسرار ورموز کو وضاحت کے ساتھ بیان فرمانے والے ، حضرت مجدد الف ثانی، اویسی رحمانی، عارف ربانی اسلام اور مسلمانوں کے شیخ ہمارے شیخ اور ہمارے امام شیخ احمدجونسبا فاروقی ، مذہبا حنفی اور مشربا نقشبندی ہیں، حق سبحانہ و تعالی ان کی ہدایت کے آفتاہوں کو بلندی کے افق پر ہمیشہ تاباں رکھے اور لوگ ان کے فیوض وبرکات کے چمنستان میں ہمیشہ مصروف گلگشت رہیں۔ وَاللهُ الْمُسْتَعَانُ وَعَلَيْهِ التُّكْلَانُ۔  

منها: 1۔اپنے احوال کا بیان :

جب مجھے راہ سلوک کی ہوس پیدا ہوئی تو اللہ تعالی جل شانہ کی عنایت نے مجھے خانوادہ نقشبندیہ کے ایک خلیفہ کی خدمت میں پہنچایا جن کی توجہ کی کرامت سے خواجگان کرام کا جذبہ جو بلحاظ  فنا صفت قومیت میں جا ملتا ہے ، حاصل ہوا اور اندراج النہایہ فی البدایۃ کے طریقے سے بھی ایک گھونٹ حاصل ہوا ، اس جذ بہ کے  حاصل ہو جانے کے بعد سلوک شروع ہوا اور یہ راہ میں نے اسد اللہ الغالب حضرت علی کرم اللہ وجہ کی روحانیت کی تربیت سے اس انجام تک طے کی ، یعنی اس اسم سے جو میرا پرورش کنندہ ہے بعد ازاں اس اسم سے حضرت خواجہ نقشبند رحمۃ اللہ کی روحانیت کی مدد سے قابلیت اولی تک جس کو حقیقت محمدیہ سے تعبیر کرتے ہیں ترقی کی ، وہاں سے اوپر حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کی روحانیت کی مدد سے عروج حاصل ہوا، وہاں سے آگے حضرت ختم المرسلین ﷺ کی روحانیت کی مدد سے مقام اقطاب محمدیہ تک ترقی کی، یہ مقام قابلیت کے مقام سے اوپر ہے اور یوں سمجھو کہ یہ مقام قابلیت اولی کا اجمال ہے اور قابلیت اولی اس کی تفصیل ہے، اس مقام میں پہنچتے وقت حضرت خواجہ نقشبند رحمۃ اللہ کے خلیفہ حضرت خواجہ علاؤ الدین عطار قدس اللہ اسرار ہ کی روحانیت سے بھی ایک طرح کی مدد مجھے ملی ، قطب کا انتہائی عروج اسی مقام و اقطاب محمد یہ تک ہوتا ہے، دائرہ ظلیت بھی اس مقام پر ختم ہو جا تا ہے ، بعد ازاں یا تو خالص اصل ہے یا اصل اور ظل ملے ہوئے ہیں، یہ مقام افراد کیلئے مخصوص ہے، ہاں بعض قطب بھی افراد کی ہمنشینی کے سبب مقام ممتزج ( جہاں اصل اور ظل ملے جلے ہیں)  تک ترقی کرتے ہیں اور اس اصل و سا یہ کو ملے ہوئے دیکھتے ہیں لیکن محض اصل خالص تک پہنچنا یا اسے دیکھنا حسب درجہ افراد کا خاصہ ہے کہ اللہ تعالی کا فضل ہے جسے چاہے عنایت کرے، اللہ تعالی صاحب فضل عظیم ہے ، اور مقام اقطاب پر پہنچ کر جناب سرور کائنات ﷺ سے مجھے قطبیت ارشاد کی خدمت عنایت ہوئی اور اس منصب سے مجھے سرفراز فرمایا، بعدازاں پھر عنایت الہی جل شانہ میرے شامل حال ہوئی اور اس مقام سے اوپر کی طرف ترقی نصیب ہوئی حتی کہ مجھے عنایت الہی نے اصل ممتزج( اصل وسا یہ ملا ہوا ) تک پہنچایا اور وہاں بھی فناو بقا نصیب ہوئی جیسا کہ گذشتہ مقامات میں ہوتی آئی تھی ، وہاں سے آگے مقامات اصل میں ترقی عنایت فرمائی اور اصل الاصل تک پہنچادیا ، اس آخری عروج میں جو مقامات اصل کا عروج ہے ، حضرت غوث اعظم محی الدین شیخ عبد القادر رحمۃ اللہ علیہ کی روحانیت کی مد دنصیب ہوئی جس نے اپنی قوت تصرف سے ان مقامات سے عبور کرا کے اصل الاصل میں پہنچادیا ، وہاں سے پھر جہان کی طرف لوٹایا، چنانچہ لوٹتے وقت ہر مقام سے عبور حاصل ہوا۔

مجھےیہ نسبت فرد یہ جس سے عروج اخیر مخصوص ہے اپنے والد ماجد(شیخ عبدالاحد بن زین العابدین علیہما الرحمہ )سے حاصل ہوئی ، انہیں ایک بزرگ ( حضرت شاہ کمال قادری رحمۃ اللہ  علیہ ) سے جن کو جذ بہ قوی حاصل تھا اور جو خوارق عادات میں شہرہ آفاق تھے، ہاتھ آئی لیکن مجھے شروع میں ضعف بصیرت اور اس نسبت کی قلت کے ظہور کے باعث اپنے آپ میں اس نسبت فردیہ کا ہونا معلوم نہ تھا ، جب سلوک کی منزلیں طے کیں تو مجھے معلوم ہوا کہ یہ نسبت شروع ہی سے مجھ میں تھی ، نیز عبادات نافلہ کی توفیق خصوصاً نماز نافلہ کا ادا کر نا بھی اپنے والد ماجد سے حاصل ہوا اور انہیں یہ سعادت اپنے شیخ ( شیخ عبد القدوس رحمۃ اللہ علیہ) سے جو سلسلہ چشتیہ سے منسوب تھے حاصل ہوئی ، جب تک میں مقام اقطاب سے عبور نہ کر چکا مجھے علوم لدنی حضرت خضر علیہ السلام کی روحانیت سے حاصل ہو تے رہے،جب اس مقام سے عبور کر کے مقامات عالیہ میں ترقی کی تو پھر اپنی حقیقت سے علوم اخذ کر نے لگا ، اس وقت کسی غیر کی مجال نہ تھی کہ بیچ میں دخل دیتا نیز مجھے نزول کے وقت جس سے مراد سیر عن الله باللہ ہے دوسرے سلسلوں کے مشائخ کے مقامات میں عبور واقع ہوا اور ہر ایک مقام سے کافی حصہ لیا اور ان مقامات کے مشائخ نے میرے کام میں میری مد دواعانت کی اور اپنی نسبتوں کے خلاصے مجھے عنایت فرماۓ ، پہلے پہل اکابر چشتیہ  رحمۃ اللہ علیہم  کے مقام میں عبور واقع ہوا، اس مقام سے کافی حصہ حاصل ہوا، ان مشائخ عظام میں سے حضرت خواجہ قطب الدین  رحمۃ اللہ علیہ کی روحانیت نے دوسروں کی نسبت زیادہ امدادفرمائی ، واقعی اس مقام میں ان کی شان نہایت اعلی ہے اور آپ اس مقام کے سردار ہیں ، بعد ازاں اکابر کبرویہ رحمۃ اللہ علیہہم کے مقام میں گزر ہوا، یہ دنوں مقام یعنی چشتیہ و کبرویہ بلحاظ عروج برابر ہیں لیکن یہ مقام ( کبرویہ ) نزول کے وقت شاہراہ کی دائیں طرف پڑتا ہے اور پہلا (چشتیہ ) بائیں طرف ، یہ شاہراہ وہی ہے جس سے بعض بڑے بڑے اقطاب ارشاد ہوکر مقام فردیت میں جاتے ہیں اور وہاں سے نہایت النہایہ میں پہنچتے ہیں ،صرف افراد کی راہ اور ہے بغیر قطبیت کے اس راہ سے نہیں گزر سکتے یہ مقام( کبرویہ ) مقام صفات اور اس شاہراہ کے مابین واقع ہے گو یا یہ دونوں مقاموں کا رخ ہے ، دونوں طرف سے اسے حصہ ملتا ہے ، پہلا مقام( چشتیہ ) شاہراہ کی دوسری طرف واقع ہے جو صفات سے بہت کم مناسبت رکھتا ہے، اس کے بعد مجھے اکابر سہروردیہ کے مقام میں جو شیخ شہاب الدین رحمۃ اللہ علیہ سے اس طرف ہیں ،عبور واقع ہوا، یہ مقام سنت نبویﷺ کی اتباع کے نور سے آراستہ اور مشاہدہ فوق الفوق(برتر از برتر) کی نورانیت سے مزین ہے ، توفیق عبادات اس مقام کی رفیق ہے، بعض سا لک جو ابھی اس مقام تک نہیں پہنچے اور عبادات نافلہ میں مشغول ہیں اور اس سے مطمئن ہیں ، انہیں بھی اس مقام کی مناسبت کی وجہ سے اس مقام سے کچھ حصہ نصیب ہوتا ہے ، عبادات نافلہ اصالتاً اس مقام کے مناسب ہیں ، دوسرے کیا مبتدی اور کیا منتہی سب اس مقام کی مناسبت کی وجہ سے بہرہ ور ہیں، یہ مقام و سہروردیہ کے نہایت عجیب و بزرگ ہے ، جونورانیت اس مقام میں دیکھنے کو آئی ہے ، دوسرے مقامات میں بہت کم دکھائی دیتی ہے، اس مقام کے مشائخ بہ سبب کمال اتباع عظیم الشان اور رفیع القدر ہیں ، اپنے ہم جنسوں میں پورے طور پر ممتاز ہیں ، جو کچھ ان بزرگوں کو اس مقام میں نصیب ہوا ہے ، دوسرے مقامات میں گو وہ بلحاظ عروج اوپر ہی ہیں ، میسر نہیں ہوتا ، بعد ازاں مجھے مقام جذ بہ میں اتار لاۓ ، اس مقام میں بیشمار جزئیات کے مقامات شامل ہیں ، پھر وہاں سے بھی نیچے لاۓ ، نزول کا آخری مرتبہ و مقام قلب ہے جو حقیقت جامع ہے اور ارشاد و تکمیل اس مقام پر نزول کر نے کے متعلق ہے ، جب اس مقام میں لائے تو پیشتر اس کے کہ مجھے اس مقام پر استقرار حاصل ہو پھر عروج نصیب ہوا ، اس وقت اصل کو سائے کی طرح پیچھے چھوڑا اور اس عروج سے جو مقامات قلب میں ہوا استقرار حاصل ہوا۔

. منها:2 قطب الارشاد کا فیض:

قطب ارشاد جس میں فردیت کے جامع کمالات بھی پائے جاتے ہیں قلیل الوجود ہوتا ہے، کئی صدیوں بلکہ بے شمار زمانوں کے بعد اس قسم کا موتی ظاہر ہوتا ہے ، جس کے نورظہور سے تاریک دنیاروشن ہو جاتی ہے ، اس کی ہدایت وارشاد محیط عرش سے لے کر مرکز زمین تک تمام جہان کو حاصل ہوتا ہے ، جس شخص کو رشد و ہدایت اور ایمان ومعرفت حاصل ہوتے ہیں ، اس کی وساطت سے ہوتے ہیں اس کے وسیلے کے بغیر براہ راست کسی کو یہ نعمت حاصل نہیں ہو سکتی گویا اس کا نور ہدایت سمندر کی طرح تمام جہان کو گھیرے ہوتا ہے اور وہ ایک منجمد سمندر ہے جو بالکل حرکت نہیں کرتا ، جوشخص اس بزرگ کی طرف متوجہ ہوتا ہے اور اس کا مخلص ہوتا ہے یاوہ بزرگ کسی طالب کی طرف متوجہ ہوتا ہے تو توجہ کے وقت طالب کے دل میں گویا ایک سوراخ کھل جا تا ہے جس کی راہ سے وہ اس دریا سے توجہ اور اخلاص کے مواقف سیراب ہوتا ہے ، اسی طرح جوشخص ذکر الہی میں مشغول ہے لیکن اس بزرگ( قطب ارشاد ) کی طرف متوجہ نہیں مگر انکار کی وجہ سے نہیں بلکہ اس واسطے کہ وہ اسے جانتا نہیں تو بھی اسے اس قسم کا فائدہ پہنچتا ہے مگر پہلی صورت میں بہ نسبت دوسرے کے زیادہ فائدہ حاصل ہوتا ہے، لیکن جوشخص قطب ارشاد کا منکر ہے یا وہ بزرگ اس سے ناراض ہے خواہ وہ کتنا ہی ذکر الہی میں مشغول رہے پھر بھی رشد و ہدایت کی حقیقت سے محروم رہتا ہے اور اسکا انکار اس کے فیض کا سد راہ ہوتا ہے، خواہ قطب ارشادا سے فائدہ نہ پہنچانے کیلئے یا نقصان پہنچانے کیلئے توجہ نہ ہی کرے، ایسے شخص کو ہدایت کی حقیقت میسر نہیں ہوسکتی گویا اسے رشد کی صورت حاصل ہوتی ہے لیکن محض صورت سے کیا کام نکل سکتا ہے ،بصورت بے معنی سے بہت تھوڑ افائدہ حاصل ہوتا ہے ، جولوگ قطب ارشاد کے محب ومخلص ہوتے ہیں گو وہ ذکر الہی اور توجہ مذکور سے خالی ہی ہوں تو بھی محض محبت کی وجہ سے رشد و ہدایت کا نور پالیتے ہیں، وَالسَّلَامُ عَلَى ‌مَنِ ‌اتَّبَعَ الْهُدَى ۔

منها:3۔مقام کمال و تکمیل :

پہلے پہل جو دروازہ میرے لئے کھولا گیا وہ یافت کا ذوق تھا نہ کہ یافت ، بعد ازاں دوسرے درجے پر یافت نصیب ہوئی تو ذوق یافت(پالینے کا ذوق) مفقود ہو گیا، تیسرےدر جے پر یافت(پالینا) بھی ذوق یافت کی طرح مفقود ہوگئی ، دوسری حالت حالت کمال اور ولایت خاصہ کے درجے کا حاصل کرنا ہے، تیسرا مقام تکمیل اور دعوت کیلئے خلقت کی طرف لوٹنا ہے، پہلی حالت صرف بلحاظ جذ بہ کمال ہے ، جب اس کے سلوک کو پورے طور پر حاصل کر لیا جا تا ہے تو دوسری حالت حاصل ہوتی ہے، بعد ازاں تیسری حالت ، لیکن مجذوب کو سلوک سے یہ دوسری اور تیسری حالت بالکل نصیب نہیں ہوتی جو کامل مکمل ہے وہ مجذوب سالک ہے ، اس سے دوسرے درجے پر سالک مجذوب ہے، جو ان دونوں کے بغیر ہے وہ نہ کامل ہے نہ مکمل ہے، تم کم ہمت نہ بننا ۔والسلام على خير البشر سيد نا محمد و آله الاطهر

منها:4اندراج النہایہ فی البدایہ:

 ماہ ربیع الآخر کے آخری حصے میں بزرگ خانوادہ کے ایک بزرگ خلیفہ(خواجہ باقی باللہ ) کی خدمت میں حاضر ہوا اور ان بزرگوں کا طریقہ اخذ کیا ، اس سال ماہ رجب کے نصف کے قریب حضور نقشبندیہ کی سعادت جو اس مقام میں اندراج نہایت در بدایت ہے حاصل ہوئی ، ان بزرگ نے فرمایا کہ نسبت نقشبندیہ سے مراد یہی حضور ہے ، پورے دس سال کچھ مہینے اوپر ماہ ذوالقعدہ کے نصف میں وہ نہایت جو بدایت میں بدایات(ابتداء) واوساط(درمیانی درجوں) کے اتنے پردوں کے پیچھے سے جلوہ گر ہوئی تھی ، نقاب اتار کر نمودار ہوئی ، اس وقت یقین ہو گیا کہ بدایت میں اس اسم کی صورت تھی اور اس پیکر کا سخن تھا اور اس مسنمی کا اسم تھا، ان دونوں میں بڑا بھاری فرق ہے، کام کی حقیقت یہاں آ کر کھلی اور معاملہ راز اس جگہ ظاہر ہوا ، جس نے چکھا نہیں اسے معلوم نہیں ہوا والصلوة والسلام على سيد الانام و آله الكرام واصحابه العظام ۔

منها:5تحدیث نعمت اور اظہار واقعہ:

وَأَمَّا بِنِعْمَةِ رَبِّكَ فَحَدِّثْاپنے پروردگار کی نعمت کا ذکر  کرو (کے حکم کے  تحت بیان کرتا ہوں کہ )میں ایک روز اپنے یاروں کے حلقے میں بیٹھا تھا اور اپنی خرابیوں کو دیکھ رہا تھا ،  اوریہ دید یہاں تک غالب آئی کہ میں نے اپنے آپ کو اس وضع سے بالکل مناسب نہ پایا اسی اثنا میں ‌مَنْ ‌تَوَاضَعَ لِلَّهِ رَفَعَهُ اللَّهُجس نے اللہ تعالی کی خاطر تواضع کی اللہ تعالی نے اس کا درجہ بلند کر دیا، کے موافق اس دور پڑے ہوۓ کو رسوائی کی خاک سے اٹھا کر یہ آواز سر میں دی ، غفرت لك ولمن توسل بك الي بواسطة او بغير واسطة الى يوم القيمة، میں نے تجھے اور اس شخص کو بھی جو تجھے میری بارگاہ کا وسیلہ با لواسطہ یا بلا واسطہ بنائے گا بخشا اور یہ سلسلہ قیامت تک یونہی جاری رہے گا اور از راہ بندہ نواز ی بار بار مجھے یہ فرمایا حتی کہ شک وشبہ کی گنجائش نہ رہی ، اس بات کیلئے اللہ تعالی کا بہت بہت شکر ہے ، اللہ تعالی اس میں برکت دے، والصلوة والسلام على رسوله سيدنا محمد واله كمایجری بعد ازاں اس واقعہ کے ظاہر کرنے کا مجھے حکم ہوا

اگر بادشاه بر دپیر زن بیاید تواے خواجہ سبلت مکن

إِنَّ رَبَّكَ ‌وَاسِعُ الْمَغْفِرَةِ ، بے شک تیرے پروردگار کی مغفرت بہت وسیع ہے ۔

 منها6  روحانی سیروں کی داستان :

سیر الی اللہ (اللہ کی طرف سیر)سے مراد کسی ایک اسم الہی تک کی سیر ہے جو سا لک کا مبدأتعین (جہاں سے متعین طور پر سالک کے متعلق فیصلہ کیا جاتا  ہے کہ وہ حق تعالیٰ  کی کونسی صفت میں سیر کررہا ہے)ہے اور سیر فی اللہ سے مراد اس اسم میں یہاں تک سیر کرنا ہے کہ اسماء وصفات اور شیون واعتبارات کے لحاظ سے مجردذات احدیت کی بارگاہ میں پہنچ جاۓ ، یہ تقریر اس وقت درست معلوم ہوتی ہے جب کہ اسم مبارک اللہ سے مراد مرتبہ وجوب لیا جاۓ جو اسماء وصفات کا جامع ہے لیکن اگر اس اسم مبارک سے مراد ذات محض لی جاۓ تو پھر سیر فی اللہ بھی سیر الی اللہ میں داخل ہوتی ہے اور اس طرح سیر فی اللہ بالکل حاصل نہیں ہوتی کیونکہ آخری سے آخری نقطہ میں سیر کرنا وہم و خیال میں بھی نہیں آ سکتا، اس نقطے پر پہنچ کر بلا توقف جہان کی طرف لوٹنا ہوتا ہے جسے(اصطلاح صوفیہ میں ) سیر عن الله باللہ کہتے ہیں ، یہ شناخت آخری سے آخری نقطہ تک واصلوں کیلئے مخصوص ہے، میرے سوا کسی ولی اللہ نے اس شناخت کے بارے میں کچھ نہیں کہا۔ اللہ تعالی جسے چاہتا ہے اپنی طرف چن لیتا ہے، اللہ تعالی کا شکر ہے، والسلام علی سيد المرسلين محمد و آله اجمعین۔

منها:7۔کمالات ولایت کے مدارج:

کمالات ولایت کی سیر میں اولیاۓ کرام کے مختلف مراتب ہیں ، بعض میں صرف ایک درجہ ولایت کی استعداد ہوتی ہے بعض میں دو کی بعض میں تین کی اور بعض میں چار کی ، خال خال ایسے ہوتے ہیں جو ولایت کے پانچویں درجے کو حاصل کرتے ہیں ،ان پانچ درجوں میں سے پہلا درجہ تجلی افعال سے وابستہ ہے،دوسراتجلی صفات سے اور باقی کے تین حسب مرتبہ تجلیات ذاتی سے وابستہ ہوتے ہیں ، میرے اکثر یار تیسرے درجہ سے مناسبت رکھتے ہیں اور ان میں تھوڑے ایسے ہیں جو چو تھے درجے کے قابل ہیں اور خال خال ایسے بھی ہیں جو ولایت کے آخری یعنی پانچو یں درجے سے  مناسبت رکھتے ہیں لیکن جس کمال کو میں معتبر سمجھتا ہوں وہ ان پانچوں سے بڑھ کر ہے ، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے زمانے کے بعد اس کمال کا ظہور نہیں ہوا جو جذ بہ وسلوک کے کمال سے بڑھ کر ہے ، انشاء اللہ یہ کمال آخری زمانے میں حضرت مہدی موعود ہی میں ظاہر ہوگا ، و الصلوة والسلام على خير البريۃ

 منها: 8نزول تام کا بیان :

نہایت النہایت ( آخری مقام ) کے اصل رجوع قہقری (الٹے پاؤں واپس آتے ) وقت نچلے سے نچلے مقام میں اتر آتے ہیں ، یہی نچلے سے نچلے مقام میں اتر آنا ہی اس بات کی تصدیق کرتا ہے کہ وہ اعلی سے اعلی اور آخری سے آخری مقام تک ترقی کر چکے ہیں، جب نزول اس خصوصیت سے وقوع میں آتا ہے تو صاحب رجوع ہمہ تن عالم اسباب کی طرف متوجہ ہوتا ہے ، یہ نہیں ہوتا کہ اس کا کچھ حصہ بارگاہ الہی کی طرف متوجہ ہو اور کچھ خلقت کی طرف، کیونکہ ایسی حالت اس بات کو ظاہر کرتی ہے کہ وہ آخری سے آخری مقام تک نہیں پہنچا، نیز اسے نچلے سے نچلے مقام تک نزول بھی حاصل نہیں ہوا، اب میں اصل بات کو بیان کرتا ہوں وہ یہ کہ نماز پڑھتے وقت جو کہ مومن کیلئے معراج ہے صاحب رجوع کے تمام لطائف بارگاہ الہی کی طرف متوجہ ہوتے ہیں اور نماز سے فارغ ہو کر بالکل خلقت کی طرف لیکن فرائض وسنن ادا کر تے وقت چھ لطیفے بارگاہ والہی کی طرف متوجہ ہوتے ہیں اور نفل ادا کر تے وقت صرف عمدہ سے عمدہ لطیفے متوجہ ہوتے ہیں ممکن ہے کہ حدیث لِي ‌مَعَ ‌اللَّهِ وَقْتٌکا اشار ہ اس خاص وقت کی طرف ہو جو نماز سے مخصوص ہے اور اس اشارہ کے تعین پرقرینہ حدیث ‌قُرَّةَ عَيْنِي فِي الصَّلَاةِہے یعنی مجھے نماز میں آنکھوں کی ٹھنڈک حاصل ہوتی ہے ، اس قرینے کے علاوہ کشف صحیح اور الہام صریح بھی اس بارے میں مجھے ہوا ہے، یہ جو معارف مجھ سے ہی مخصوص ہیں ان میں سے ایک یہ بھی ہے، دوسرے مشائخ نے اس کمال کو جمع بین التوجہین(دونوں توجہوں کو جمع کرنے) میں جانا ہے، میں اپنا کام اور معاملہ اللہ تعالی کے سپردکرتا ہوں ، اس شخص پر سلامتی ہو جس نے ہدایت کی پیروی کی اور جناب سرور کائنات ﷺ کی فرمانبرداری اور تابعداری کی ۔

منها:  9،نفسی اور آفاقی مشاہدہ:

مشائخ نے فرمایا ہے کہ اہل اللہ مرتبہ ولایت پر پہنچ  کر اپنے اندر ہی مشاہدہ کرتے ہیں، بیرونی مشاہدہ جو سیر الی اللہ کے وقت اثناۓ راہ میں حاصل ہوتا ہے ، معتبر نہیں ، جو کچھ مجھ پر منکشف ہوا ہے وہ یہ ہے کہ مشاہدہ اندرونی بھی مشاہد ہ بیرونی کی طرح قابل اعتبار نہیں ، اس واسطے کہ وہ مشاہد ہ دراصل حقیقت حق سبحانہ و تعالی کا مشاہدہ نہیں کیونکہ جب حق تعالی بیچون و بیچگون ہے تو پھر چون کے آئینہ میں کیونکر سما سکتا ہے ، خواہ آئینہ اندرونی ہو یا بیرونی ، اللہ تعالی نہ جہان کے اندر ہے اور نہ اس سے باہر ہے ، نہ جہان سے ملا ہوا ہے ، نہ ہی الگ ہے ، اسی واسطے جو رؤیت حق آخرت میں حاصل ہوتی ہے ، اسے بھی بلا کیف ہی لکھا ہے جو عقل و وہم کے احاطہ سے باہر ہے ، دنیا میں بھی یہ بھید خواص الخواص پر منکشف کیا ہے ، اگر چہ اسے رؤیت تو نہیں کہہ سکتے پھر بھی رؤیت ہی کی طرح ہے ، یہ دولت عظمی ایسی ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم  کے زمانے کے بعد بہت کم اشخاص کو نصیب ہوئی ہے، گویا یہ بات آج کل بعید از قیاس معلوم ہوتی ہے اور اکثر لوگ اس پر یقین نہیں کرتے لیکن میں اس نعمت عظمی کا اظہار کیے بغیر نہیں رہ سکتا ۔ خوا و کوتاہ اندیش لوگ اسے مانیں یا نہ مانیں ، یہ  نسبت اس خصوصیت سے انشاء اللہ آخری زمانے میں حضرت مہدی موعود ہی میں ظاہر ہو گی ، اس شخص پر سلامتی ہو جس نے ہدایت کی پیروی کی اور جناب سرور کائنات ﷺ کی فرمانبرداری کی اور آنحضرت ﷺ کی متابعت کو لا زم جانا ۔

منها:10۔طریق توبہ کی ابتدا :

جب کوئی طالب کسی شیخ کی خدمت میں حاضر ہو تو شیخ پہلے اس سے تین سے لے کر سات  دن تک استخارہ کرائے اگر استخاروں کے بعد طالب میں کسی قسم کا تذبذب پیدا نہ ہو تو اس کے کام کو شروع کرے، سب سے پہلے اسے توجہ کا طریقہ سکھلائے اور دورکعت نماز تو بہ پڑھنے کیلئے کہے، کیونک تو بہ کیے بغیر اس راہ میں قدم رکھنا مفیدنہیں پڑتا لیکن توبہ کے حصول میں مجمل پر ہی اکتفا کرے، یہ نہ کرے کہ طالب اسی وقت ہی تو بہ نصوحی کرے بلکہ یہ کرے کہ طالب آہستہ آہستہ تمام بری باتوں سے تو بہ کر سکے گا کیونکہ آج کل ہمتیں بالکل پست ہو گئیں ہیں ، اگر پہلے ہی مفصل تو بہ کی تکلیف دی جاۓ تو اس کیلئے عرصہ درکار ہے ممکن ہے اس عرصہ میں طالب اس کام سے ہمت ہار جاۓ بلکہ تو بہ ہی کو سرانجام نہ دے سکے جب تو بہ مجملا ہو چکے تو پھر طالب کی استعداد کے موافق خاص طریقہ کی تعلیم کرے اور جو ذ کر اس کی قابلیت کے مناسب ہوتلقین کرے اور اس کے کام میں اپنی توجہ صرف کرے اور اس کے حال کو مد نظر رکھے اور راستے کے آداب وقواعد اور شرائط اسے بتادے، کتاب وسنت کی اور آثار سلف صالحین کی متابعت کی ترغیب دلائے اور اس کے ذہن نشین کر دے کہ اس متابعت کے بغیر مطلوب حاصل نہیں ہوتا اور اس کو جتلا دے کہ جو کشف و خواب کتاب وسنت سے بال بھر بھی اختلاف رکھتا ہو وہ قابل اعتبار نہیں بلکہ اس سے استغفار کرنی چاہیئے اور اس بات کی نصیحت کرے کہ عقائد کو فرقہ ناجیہ یعنی اہل سنت و جماعت کی رائے کے موافق صحیح  کرے اور اس بات کی تاکید کرے کہ وہ فقہ کے ضروری احکام دیکھ کران پرعمل کرے کیونکہ اس راہ میں بغیران دو بازوؤں یعنی اعتقاد اور علم کے اڑ نا محال ہے، نیز اس بات کی سخت تاکید کرے کہ مشتبہ اورحرام لقمہ میں نہایت احتیاط سے کام لے جو کچھ یا جہاں سے مل جاۓ نہ کھاۓ ، تاوقتیکہ اس کا کھانا شرعاً جائز نہ ہو مختصر یہ کہ تمام کاموں میں اس آیت کریمہ کوملحوظ ومد نظر رکھے وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوا جوکچھ رسول خداﷺ نے کر نے کیلئے فرمایا ہے اسے کرواور جس سے منع فرمایا ہے اس سے باز آجاؤ، طالب دو حالتوں سے خالی نہیں ، یا اہل کشف و کرامت ہے یا صاحب جہل و حیرت لیکن جب پردے اٹھ جاتے ہیں اور منزلیں طے ہو جاتی ہیں تو اس وقت دونوں برابر ہوتے ہیں ، یعنی پہنچ جانے میں یکساں ہوتے ہیں ، مثلا دو شخص دور دراز کی منزلیں طے کر کے جب کعبے پہنچ جائیں ، ایک راہ میں ہر منزل پر نظارے دیکھتا آۓ اور دوسرا آنکھوں پرٹھیکری رکھ کر آۓ تو دونوں شخص کعبہ پہنچنے میں برابر ہیں کسی کو دوسرے پر فوقیت نہیں ، گوراہ کے نظاروں کے لحاظ سے ان میں فرق ہے، مطلوب کے پاس پہنچ جانے کے بعد دونوں کیلئے جہل لازم ہے کیونکہ ذات الہی کی معرفت یہی ہے کہ اس کی معرفت سے جہل وعجز کیا جائے۔

واضح رہے کہ سلوک کی منزلیں طے کرنے سے مراد دس مقامات کا طے کرنا ہے اور ان دس مقامات کا طے کر نا ان تین قسم کی تجلیات سے وابستہ ہے، یعنی افعال ، تجلی صفات اور تجلی ذات، ان مقامات سے سواۓ مقام رضا کے سب تجلی افعال اور تجلی صفات کے متعلق ہیں ، مقام رضا تجلی ذات سے وابستہ ہے، نیز محبت ذاتیہ کے متعلق ہے جس میں محب کی یہ حالت ہوتی ہے کہ محبوب کی طرف سے خواہ اسے تکلیف ہو یا آرام دونوں کو برابر سمجھے، جب ایسی حالت ہو جاتی ہے تو فی الواقع رضا حاصل ہوتی ہے اور کراہت اٹھ جاتی ہے ،اسی طرح باقی مقامات پر بدرجہ کمال ۔ پہنچنا بھی تجلی ذات کے وقت نصیب ہوتا ہے جس سے فناۓ اتم وابستہ ہے لیکن نو مقامات کا نفس حصول تجلی افعال اورتجلی صفات میں ہو جا تا ہے، مثلاً جب یہ د یکھتا ہے کہ اللہ تعالی مجھ پر اور تمام اشیا پر قادر ہے تو بے اختیارتو بہ کرتا ہے ، ڈرتا ہے اور تقوی کو اپنی عادت بنالیتا ہے، اس کی تقدیروں پر صبر کرنے لگتا ہے، بے طاقتی و بے صبری چھوڑ دیتا ہے اور کسی نعمت کا دینایا روکنا اس سے یقین کرتا ہے ، جب جانتا ہے کہ نعمتوں کا مولا وہی ہے اور چاہے دے چا ہے نہ دے تو نا چار شکر گزار بنتا ہے اور تو کل میں راسخ قدم ہو جا تا ہے، جب مہربانی اور نرمی متجلی ہوتی ہے تو مقام رضا آ جا تا ہے، جب اس کی عظمت اور کبریائی کا مشاہدہ کرتا ہے اور دنیاۓ دوں اس کی نگاہوں میں خوار و بے اعتبار دکھائی دینے لگتی ہے تو مجبوراً دنیا سے دل ہٹالیتا ہے، فقر اختیار کرتا ہے اور زہد کو اپنا طریقہ بنالیتا ہے، یہ یاد رکھنا چاہیئے کہ یہ مقامات مفصل وترتیب وار صرف سالک مجذوب کو حاصل ہوتے ہیں مجذوب سا لک ان مقامات کو مجمل طور پر طے کرتا ہے کیونکہ عنایت الہی نے اسے ایسی محبت میں گرفتار کیا ہے کہ وہ بالتفصیل ان مقامات میں مشغول نہیں ہوسکتا، اس محبت کے ضمن میں اسے ان مقامات کا وہ لب لباب اور ان منازل کا وہ خلاصہ پورا پورا حاصل ہو جا تا ہے جو صاحب تفصیل کو بھی نصیب نہیں ہوتا ، وَالسَّلَامُ عَلَى ‌مَنِ ‌اتَّبَعَ الْهُدَى ۔

منها: 11۔اس طریقے میں بے حاصلی :

 طالب کو چاہیئے کہ اندرونی و بیرونی باطل معبودوں کی نفی کی کوشش کرے  معبود حقیقی کے اثبات کیلئے جو کچھ اس کے وہم و خیال میں آئے اسے بھی برطرف کر دے ، صرف اس کی موجودیت پر اکتفا کرے اگر چہ اس مکان میں وجود کی بھی گنجائش نہیں ، اسے وجود کے علاوہ تلاش کر نا چاہیئے ،اہل سنت نے کیا خوب کہا ہے کہ واجب تعالی کا وجوداس کی ذات اقدس پر زائد ہے ، وجودکوعین ذات کہنا اور وجود کے سوائے کسی اور بات کا ثابت نہ کر نا نظر کی کوتاہی کی وجہ سے ہے، شیخ علاوؤالدولہ رحمۃ اللہ  فرماتے ہیں کہ عالم وجود کے اوپر ملک و دود کا عالم ہے، میں( حضرت مجدد الف ثانی) عالم وجود سے اوپر گزرا تو کچھ عرصہ میں مغلوب الحال رہا اور اپنے آپ کو علم تقلید کی رو سے مسلم خیال کرتا رہا مختصر یہ کہ جو کچھ ممکن کے حوصلہ میں آتا ہے وہ بدرجہ اولی ممکن ہوتا ہے ، وہ ذات پاک ہے جس نے اپنی طرف خلقت کی راہ سواۓ اس کے اور کوئی نہیں بنائی کہ اس کی معرفت سے عاجزی ظاہر کی جاۓ اس سے یہ خیال نہ کرنا اس فنافی اللہ اور بقا باللہ سے ممکن واجب ہو جا تا ہے کیونکہ ایک تو ایسا ہونا محال ہے اور دوسرا اس سے قلب حقائق لازم آتا ہے ، پس جب ممکن واجب نہیں ہو سکتا تو ممکن کو واجب تعالی کے ادراک سے سوائے عجز کے اور کیا حاصل ہوسکتا ہے ۔

عنقا شکار کس نشود دام باز چین کایں جاہمیشہ باد بدست است دام را

اٹھا لے جا ل عنقا بھلا  کب کسی کے ہاتھ آتا ہے یہاں  ہر جال لگانے والا خالی ہاتھ جاتا ہے۔

بلند ہمت اشخاص اس طرح مطلب کو چاہتے ہیں کہ اس سے کچھ بھی ہاتھ نہیں آتا اور اس کا نام ونشان تک پیدا نہیں ہوتا، بعض ایسے ہیں کہ کسی خاص مطلب کے متوالے ہوتے ہیں تو اس کو اپناعین پا کر اس سے قرب ومعیت پیدا کرتے ہیں

آن ایشانندمن چنینم یارب          وہ کہاں میں کہاں اے رب

منها: 12۔خواجہ نقشبند کے فرمان کی تشریح :

 حضرت خواجہ نقشبند رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ہر ایک شیخ کے آئینے کے دورخ ہوتے ہیں لیکن میرے آئینے کے چھ رخ ہیں، اس میں کلام نہیں کہ آج تک اس بزرگ خانوادے کے کسی خلیفے نے اس کلمہ قدسیہ کی شرح بیان نہیں کی ، بلکہ اشارتاً اور کنایتاً بھی اس بارے میں کوئی بات نہیں کی ، مجھے حقیر قلیل البضاعت کی کیا حیثیت کہ اس کی شرح کی جرات کر سکے اور اس کے کشف کیلئے زبان کھولے لیکن چونکہ حق تعالی نے محض اپنے فضل و کرم سے اس معما کا بھید بھی منکشف فرمایا ہے اور کما حقہ اس کی حقیقت مجھ پر ظاہر فرمائی ہے، اس واسطے اس پوشیدہ بھید کو بیان کی انگلیوں سے رشتہ تحریر میں پروتا ہوں اور زبان ترجمان سے بھی تقریر میں لاتا ہوں ، استخارہ کے بعد اور اللہ تعالی سے غلطی سے بچنے اور توفیق کی دعا کر کے شروع کرتا ہوں ، واضح رہے کہ آئینہ سے مراد عارف کا دل ہے جو روح اور نفس کے مابین برزخ ( وسیلہ ) ہے ، آئینے کے دورخوں سے مراد ایک رخ روح کا اور دوسرا رخ نفس کا لیا ہے، جس وقت مشائخ مقام قلب پر پہنچتے ہیں تو ان پر دونوں رخوں سے وہ علوم و معارف جو قلب کے مناسب ہوتے ہیں منکشف ہونے لگتے ہیں برخلاف  اس کے حضرت خواجہ نقشبند رحمۃ اللہ علیہ  کے طریقہ میں بدایت ہی میں نہایت مندرج ہے، اس طریقہ میں آئینہ کے چھ رخ ہو جاتے ہیں ، اس کی مفصل حقیقت یہ ہے کہ اس طریقہ عالیہ کے بزرگوں پر منکشف ہوا کہ جو کچھ تمام افراد انسانی میں ثابت ہے وہ چھ لطیفوں سے اکیلے دل میں متحقق ہے، ان چھ طرفوں سے مرادنفس ، قلب ،روح ، سرخفی ، اخفی لئے ہیں ، باقی تمام مشائخ کی سیر قلب کے ظاہر تک محدود ہے لیکن نقشبندی بزرگوں کی سیر قلب کے باطن تک بلکہ اس سیر کے ذریعے اس کے اندرونی سے اندرونی نقطے تک ہے اور انہیں ان چھ لطیفوں کے علوم و معارف مقام قلب میں منکشف ہوتے ہیں لیکن وہ علوم منکشف ہوتے ہیں جو مقام قلب کے مناسب ہیں یہ ہے حضرت خواجہ نقشبند رحمۃ اللہ علیہ  کے کلمہ قدسیہ کا بیان ، مجھ حقیر کو ان بزرگوں کی برکت سے اور زیادہ تحقیق وتدقیق معلوم ہوئی ،سو میں اس تحقیق و تدقیق میں سے کچھ اشارتا اس آیہ کریمہ کے بموجب، وَأَمَّا بِنِعْمَةِ رَبِّكَ فَحَدِّثْاپنے پروردگار کی نعمت کا ذکر  کرو بيان کرتا ہوں ، واضح رہے کہ قلبِ قلب میں بھی قلب کی طرح لطائف پاۓ جاتے ہیں لیکن قلبِ قلب میں یا دائرہ کی تنگی یا کسی اوربھید کی وجہ سے مذکورہ بالا چھ لطیفوں میں سے دو لطیفے بطریق جز ویعنی لطیفہ نفس اور لطیفہ اخفی ظاہر نہیں ہوتے اور یہی حالت اس دل کی ہے جو تیسرے مرتبے میں ہو کیونکہ اس میں خفی بھی ظاہر نہیں ہوتا اور یہی حالت اس دل کی ہے جو چوتھے رتبہ میں ہو کیونکہ اس میں صرف قلب و روح کا ظہور ہوتا ہے ، سر کا نہیں ہوتا، پانچویں مرتبے میں لطیفہ روح کا بھی ظہور نہیں ہوتا صرف قلب ہی قلب رہ جا تا ہے جو بسیط محض اور نا قابل اعتبار ہے ، اس موقع  پر بعض معارف عالی معلوم کرنا ضروری ہے، تا کہ ان کے ذریعے واضح ہو جائے کہ نہایت النہایت اور غایت الغایت سے کیا مراد ہے، میں ان معارف کو بتو فیق الہی بیان کرتا ہوں ، وہ یہ کہ جو کچھ عالم کبیر میں مفصل طور پر ظاہر کیا گیا ہے وہ عالم صغیر میں مجمل طور پر ظاہر ہوتا ہے، عالم صغیر کو صیقل کر کے منور کر لیا جا تا ہے تو اس میں آئینے کی طرح عالم کبیر کی تمام چیز یں مفصل دکھائی دینے لگتی ہیں کیونکہ صیقل اور منور کرنے سے اس کا احاطہ وسیع ہو جا تا ہے ، اس وقت صغیر کا لفظ اس پر عائد نہیں ہوتا اور یہی حالت اس دل کی ہے جس کو عالم صغیر سے وہی نسبت ہے جو عالم صغیر کو عالم کبیر سے ہے ، جب دل کو صیقل کیا جا تا ہے اور اس سے تاریکی دور ہو جاتی ہے تو اس میں بطریق آئینہ عالم صغیر کی تمام چیز یں مفصل دکھائی دینے لگتی ہیں اور یہی نسبت قلب القلب اور قلب میں ہوتی ہے جو قلب اور عالم صغیر میں ہوتی ہے، جب قلب القلب کا تصفیہ کر لیا جا تا ہے تو اس میں تمام چیزیں مفصل طور پر دکھائی دینے لگتی ہیں علی ہذا القیاس دل تیسرے اور چوتھے اور پانچویں مرتبے میں بہ سبب صقالت و نورانیت سابقہ مراتب کی تمام چیزوں کو مفصلا دکھلانے لگتا ہے ، اس طرح جو دل پانچو یں مرتبے میں بسیط محض اور نا قابل اعتبار ہوتا ہے ، جب اسے پورے طور پر منتقل کیا جا تا ہے تو اس میں عالم کبیر ، عالم صغیر اوراصغر اور بعد کے باقی تمام عوالم کی چیزیں مفصلا دکھائی دینے لگتے ہیں ، سو وہ تنگ لیکن سب سے فراخ اور بسیط سے بسیط ہے، نہایت چھوٹا لیکن سب سے بڑا ہے، اس وصف کی کوئی اور چیز اللہ تعالی نے پیدا نہیں کی ، اس لطیفہ بدیعہ سے بڑھ کر کوئی چیز اللہ تعالی سے مناسبت نہیں رکھتی ، اس واسطے اللہ تعالی نے حدیث قدسی میں فرمایا ہے، ‌لَا ‌يَسَعُنِي ‌أَرْضِي، وَلَا سَمَائِي، وَلَكِنْ يَسَعُنِي قَلْبُ عَبْدِي الْمُؤْمِنِ ، میرے آسمان اور میری زمین میں میری گنجائش نہیں، میں صرف اپنے مومن بندے کے دل میں سما سکتا ہوں ۔ عالم کبیر اگر چہ بلحاظ ظہور نہایت وسیع ہے اور اس کی کثرت و تفصیل کی وجہ سے اسے اس چیز کے ساتھ جس میں کثرت وتفصیل بالکل نہ ہو کوئی مناسبت نہیں ، وہ تنگ لیکن بہت وسیع ہے اور بسیط الابسط ہے، بہت ہی تھوڑا ہے لیکن ساتھ ہی بہت ہی کثیر بھی ہے ، جب وہ عارف جو بلحاظ معرفت مکمل اور از روۓ شہود اکمل ہو اس مقام پر پہنچتا ہے جوعزیز الوجود اور شریف الرتبہ ہے تو وہ عارف تمام جہان اور اس کے ظہورات کیلئے بمنزلہ دل ہو جا تا ہے ، تب اسے ولایت محمدیہ حاصل ہوتی ہے اور دعوت مصطفویہ سے مشرف ہوتا ہے ، قطب ، اوتا داور ابدال بھی اس کی ولایت کے دائرہ کے تحت داخل ہوتے ہیں اور ہر قسم کے اولیاء اللہ مثلا افراد و آحاد بھی اس کے انوار ہدایت کے تحت مندرج ہوتے ہیں ، کیونکہ وہ جناب رسول خدا ﷺ کا نائب مناب اور حبیب الہی کی ہدایت سے ہدایت یافتہ ہوتا ہے، یہ عزیز الوجود اور شریف النسبۃ مرادوں میں سے کسی ایک سے مخصوص ہوتی ہے ، مریدین کو یہ کمال نصیب نہیں ہوتا ، یہ بڑی نہایت اور آخری غایت ہے ، اس کے اوپر کوئی کمال نہیں اور اس سے عمد و کوئی بخشش نہیں خواہ اس قسم کا عارف ہزار سال بعد پا یا جاۓ تو بھی غنیمت ہے ، اس کی برکت مدت مدید اور عرصہ بعید تک جاری رہتی ہے، ایسے عارف کا کلام بمنزلہ دوا اور اس کی نظر بمنزلہ شفا ہوتی ہے ، اس آخری امت میں سے انشاء اللہ حضرت مہدی موعود ہی اس نسبت شریفہ پر پائے جائیں گے ، یہ اللہ تعالی کا فضل ہے، جسے چاہے عطا فرماۓ اور اللہ تعالی صاحب فضل عظیم ہے ، یہ دولت عظمی سلوک و جذبہ کے دونوں راستے بالترتیب اور بالتفصیل طے کرنے سے وابستہ ہے، نیز فناۓ اتم اور بقاۓ اکمل کو ایک ایک درجہ کر کے حاصل کر نے پر منحصر ہے ،سو یہ باتیں جناب سرور کائنات ﷺ کی فرمانبرداری کے بغیر نصیب نہیں ہوسکتیں ، اللہ تعالی کا شکر ہے جس نے ہمیں آنحضرت ﷺ کی فرمانبرداری و پیروی عنایت فرمائی ، ہم اللہ تعالی سے آنحضرت ﷺ کی متابعت کا کمال ، اس پر ثابت قدم رہنا اور آنحضرت ﷺ کی شریعت کی استقامت مانگتے ہیں ، آمین کہنے والے بندے پر اللہ تعالی رحم کرے ، یہ معارف پوشید و اسرار اور مخفی رموز سے ہیں، بڑے بڑے اولیا میں سے کسی نے بھی ان کا ذکر نہیں کیا اور بڑے بڑے اصفیاء میں سے کسی نے بھی ان کی طرف اشارہ نہیں کیا ، اللہ تعالی نے اپنے اس بندے کو اپنے حبیب اکرم ﷺ کے صدقے ان اسرار سے مطلع فرما کران کے ظاہر کر دینے کا حکم فرمایا کسی نے کیا اچھا کہا ہے

اگر بادشاه بر در پیر زن      بیاید تو اے خواجہ سبلت مکن

اللہ تعالی کی قبولیت کسی شے یا سبب پر منحصر نہیں ، جو چاہتا ہے کرتا ہے اور جو چاہتا ہے حکم کرتا ہے، اللہ تعالی جسے چاہتا ہے اپنی رحمت سے مخصوص کر تا ہے اور اللہ تعالی صاحب فضل عظیم ہے، وصـلـى الـلـه تـعـالـى عـلـى سيدنا محمد و اله واصحابه وسلم وبارك على جميع الانبياء والمرسلين وعلى الملئكة المقربين وعلى عباده الصالحين والسلام على من اتبع الهدى والتزم متابعة المصطفى عليه الصلوة والسلام۔

منها:13۔مقام روح اور کمال عروج:

روح بھی چونکہ عالم بیچونی (عالم بے کیف)سے ہے اس واسطے اس کیلئے بھی لا مکان ہونا متحقق ہے، لیکن اس کی بیچونی (بے کیفی )بمقابلہ وجوب ذات حق عین چون(کیف) ہے اور اسکا لامکان ہو نا حقیقی لامکان کی لامکانیت کے سامنے عین مکانیت ہے، گویا عالم ارواح اس عالم اور مرتبہ بیچونی کے مابین برزخ ہے ، چونکہ روح میں دونوں رنگ پاۓ جاتے ہیں ،اس واسطے عالم بیچون  کی نسبت سے  اسے بے چون جانتے ہیں لیکن اصلی بیچون کے مقابلہ میں عین چون ہے، یہ برزخ ہونے کی نسبت اسے اس کی اصلی فطرت کے اعتبار سے حاصل ہے لیکن جب اس روح کا تعلق اس کے ایک ہیکل اور قفس عنصری سے ہو جاتا ہے تو عام برزخیت سے نکل کر بالتمام عالم چون میں اتر آ تا ہے ، اس واسطے بچونی کا رنگ اس سے نکل جاتا ہے ، اس کی مثال ہاروت و ماروت  کی سی ہے جیسا کہ مفسرین نے بیان کیا ہے کہ ارواح ملائکہ بعض خاص مصلحت کیلئے بشریت کی پستی میں اترے ہیں ، پس اگر عنایت الہی مددکرے اور اس سفر سے لوٹ کر اپنی اصلی جگہ جاۓ جو درحقیقت تنزل سے عروج ہے تو تاریک نفس اور بدن عنصری بھی اس کی متابعت سے ضرور عروج حاصل کر لیں گے اور منزلیں طے کر لیں گے ، اس ضمن میں وہ مقصود بھی ظاہر ہو جاۓ گا جوروح کے تعلق اور اس کے نزول سے مطلوب تھا نفس امارہ نفس مطمئنہ بن جائے گا اور ظلمانی نورانی سے بدل جاۓ گا ، جب روح اس سفر کوختم کر لیتا ہے اور نزول کے مقصود کو انجام تک پہنچا لیتا ہے تو اصلی برزخیت پر پہنچتا ہے اور نہایت بدائیت کی طرف لوٹتے وقت حاصل کرتا ہے، چونکہ قلب بھی عالم ارواح سے ہے اس واسطے اسے بھی برزخیت میں وطن نصیب ہوتا ہے اور نفس مطمئنہ بھی جو عالم امر کا رنگ رکھتا ہے کیونکہ وہ قلب و بدن کے مابین برزخ ہے اس جگہ ا قامت کرتا ہے اور بدن عنصری جوار بعہ عناصر کا بنا ہوا ہے عالم کون و مکان میں قرار پکڑتا ہے اور اطاعت وعبادت میں مشغول ہو جا تا ہے ، بعد ازاں اگر سرکشی اور مخالفت واقع ہوتی ہے تو اسے عناصر کی طبیعتوں سے منسوب کیا جا تا ہے ،مثلا جز و ناری جو بالذات سرکش اور مخالفت طلب ہے ابلیس لعین کی طرح انا خیر منہ میں اس سے اچھاہوں پکارے گا نفس مطمئنہ سرکشی سے باز آ چکا ہے کیونکہ وہ اللہ تعالی سے راضی ہوتا ہے اور اللہ تعالی اس سے ، سو جو ایک دوسرے سے راضی ہوں ان میں سرکشی کا خیال تک نہیں ہوتا ،اگر سرکشی ہے بھی تو قالب سے، شاید جناب سرور کائنات ﷺ نے اس شیطانی سر کشی کے خلاف جہاد کو جہادا کبر سے تعبیر فرمایا ہو کیونکہ اس کی پیدائش بھی جزو قالبی ہے اور یہ جوفر مایا، اسلم شیطانی ، اس سے مراد ہے میرے شیطان نے اسلام قبول کیا (حضور اکرم ﷺ کی شان تخصیص ہے کہ آپ کا شیطان( قرین) مسلمان ہو گیا اس لیے اس کے اثرات و تصرفات کا آپ ﷺ پر کوئی اثر نہیں ہوتا۔)، یا تو مرادشیطان آفاقی ہے جو آنحضرت ﷺ کا قرین ہے لیکن جہادا کبر والی حدیث میں انفسی شیطان مراد ہے ،اگر چہ سالک نے  اس شیطان کی شان وشوکت کو بھی تو ڑا ہوا ہے اور وہ سرکشی سے باز آیا ہوا ہے لیکن پھر بھی جو شے کسی کی ذات میں داخل ہواس سے جدا نہیں ہوسکتی ،

سیاسی از حبشی کے رود که خودر نگ است

حبشی کے رنگ سے سیاہی کیسے دور ہوسکتی ہے

یا اس سے مراد انفسی شیطان ہے ،اس کے اسلام قبول کرنے سے لازم نہیں آتا ہے کہ اس نے سرکشی بالکل ترک کر دی ہو، باوجوداسلام کے اگر عزیمت کو ترک کر کے رخصت کا مرتکب ہو تو جائز ہے اور اگر کوئی ایسا صغیرہ سرزد ہو جس میں نیکی نہ ہوتو بھی اس کی گنجاش ہے، بلکہ نیکوں کی نیکیاں مقربوں کے نزدیک برائی میں داخل ہیں، بھی اسی قسم سے ہے ، یہ سب سرکشی کی قسمیں ہیں، یہ سرکشی جو تھوڑی بہت اس میں باقی رہتی ہے وہ اس کی اصلاح وترقی کیلئے ہے کیونکہ ان امور کے حاصل ہو جانے کے بعد جن میں کمی کا انتہائی درجہ ترک کے حصول سے بہتر ہے ایسی ، پشیمانی ، تو بہ اور استغفار ہاتھ آتی ہے جو بے نہایت ترقیوں کا موجب ہوتی ہے، جب بدن عنصری اپنی جاۓ قرار میں آجاتا ہے تو لطائف ستہ کی جدائی اور ان کے عالم امر میں چلے جانے کے بعد اس جہان میں ان کا خلیفہ بلاشک وشبہ یہی بدن رہ جا تا ہے اور یہی ان سب کے کام کرتا ہے ، بعدازاں اگر الہام ہوتا ہے تو گوشت کے اس ٹکڑے کو جو حقیقت جامعہ قلبیہ کا خلیفہ ہے اور اس حدیث نبوی ، مَنْ أَخْلَصَ لِلَّهِ أَرْبَعِينَ صَبَاحًا ظَهَرَتْ ‌يَنَابِيعُ ‌الْحِكْمَةِ مِنْ قَلْبِهِ عَلَى لِسَانِهِجوشخص اخلاص سے چالیس دن اللہ تعالی کی عبادت کرتا ہے حکمت کے چشمے اس کے دل سے اس کی زبان پر جاری ہو جاتے ہیں ، میں قلب سے مراد اللہ اعلم یہی گوشت کا ٹکڑا ہے، دوسری حدیثوں میں بھی یہی مراد مقرر ہے جیسا کہ جناب سرور کائنات ﷺ فرماتے ہیں ، أَنَّهُ ‌لَيُعَانُ ‌عَلَى ‌قَلْبِي ، بے شک میرے دل پر پردہ کیا جا تا ہے(قلب پر غبار آنے کی ایک وجہ یہ ہے کہ امت کے حال پر انتہائی شفقت و مہربانی سے پیش آنے کی وجہ سے ان کی کثافت کو اپنی طرف کھینچ لیتے جو غبار کی طرح نظر آتا تھا، جیسے غین سے تعبیر فرمایا گیا ، یہاں قلب سے مراد قلب القلب نہیں وہ تو ہمہ وقت لاہوتی جلووں میں محورہتا ہے اور غبار سے محفوظ ہے غین جس قلب آتا ہے اس سے مرادمضغہ گوشت ہے جوغم  امت میں بے قرار ہوتا ہے۔)، اس سے صاف ظاہر ہے کہ پردہ اگر ڈھانپا ہوا ہے تو اس گوشت کے ٹکڑے پر نہ کہ حقیقت جامعہ پر کیونکہ وہ تو بالکل پردے سے بری ہے، دوسری حدیثوں میں دل کے پلٹنے کا ذکر آیا ہے، چنانچہ جناب سرور کائنات ﷺ فرماتے میں قَلْبُ ‌الْمُؤْمِنِ ‌بَيْنَ ‌أُصْبُعَيْنِ ‌مِنْ ‌أَصَابِعِ ‌الرَّحْمَنِ مؤمن کا دل اللہ تعالی کی دوانگلیوں کے مابین ہے نیز آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہے، مثلُ القلب ‌كريشة ‌في ‌أرض ‌فلاة تُقَلِّبُها الرياحُ ظهرًا لبطنِ، مؤمن کا دل بیابان کے گھاس کی طرح ہے ، نیز آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہے ، اللهُمَّ ‌ثَبِّتْ ‌قَلْبِي ‌عَلَى طَاعَتِكَ ،اے معبود میرے دل کو اپنی اطاعت پر ثابت رکھنا ، پلٹنا اور عدم اس گوشت کے ٹکڑے کیلئے ہے کیونکہ حقیقت جامعہ ہرگز نہیں پلٹتی ،اس واسطے کہ وہ راسخ ومطمئن ہے، جب حضرت ابراہیم خلیل اللہ  نے دل کے واسطے اطمینان کی درخواست کی تو اس وقت آپ کی مراداسی گوشت کے ٹکرے سے تھی نہ کہ کسی اور چیز سے کیونکہ آپ کا حقیقی دل تو بلا شک و شبہ مطمئن تھا بلکہ آپ کا نفس بھی آپ کے حقیقی قلب کی سیاست کی وجہ سے مطمئن تھا ،عوارف المعارف کے مصنف شیخ شہاب الدین سہروردی رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں کہ الہام اسی نفس مطمئنہ کی صفت ہے جو مقام قلب تک عروج کر گیا ہو بے شک تلون وتقلب نفس مطمئنہ کی صفات ہیں اور یہ قول جیسا کہ تم دیکھتے ہو مذکورہ  بالا حدیثوں کے خلاف ہے، اگر شیخ کو اس وقت  اس مقام نفس مطمئنہ  سے اوپر عروج میسر ہوتا ہے تو حقیقت معاملہ کو جان لیتے اور میری دی ہوئی خبر کا صدق ظاہر ہو جا تا اور کشف و الہام احادیث نبویہ سے مطابقت پیدا کر لیتے اور پھر یہ بھی تمہیں معلوم ہو گیا ہو گا کہ اس گوشت کے ٹکڑے پر الہام ہوتے ہیں اور یہی خلیفہ ہے اور اس کے احوال بدلتے رہتے ہیں، اگر میرا کہنا بالفرض ہٹ دھرم اور اصل حقیقت سے قاصر و جاہل لوگوں کو نا گوار گزرے تو حدیث نبوی ﷺ کا ان کے پاس کیا جواب ہے ،خود جناب سرور کائنات ﷺ فرماتے ہیں ، أَلَا وَإِنَّ فِي الْإِنْسَانِ مُضْغَةً إِذَا صَلُحَتْ صَلُحَ الْجَسَدُ كُلُّهُ، وَإِذَا فَسَدَتْ فَسَدَ الْجَسَدُ كُلُّهُ. ‌أَلَا ‌وَهِيَ ‌الْقَلْبُ اس میں شک نہیں کہ بنی آدم کے جسم میں گوشت کا ایک ٹکڑا ہے جب وہ سنورا ہوا ہوتو سارا جسم سنورا ہوتا ہے  جب اس میں بگاڑ ہو تو تمام جسم میں بگاڑ ہو تا ہے اور وہ دل ہے ، آنحضرت ﷺ نے مبالغہ کے طور پر فرمایا ہے کہ دل وہ ہے اور سارے جسم کا سنورنا بگڑ نا اسی کے سنور نے بگڑ نے پر منحصر ہے ،سوسنوار بگاڑ گوشت کے ٹکرے کے لیے ہے نہ کہ قلب حقیقی کیلئے خواہ نیابت اور خلافت کے طریق پر ہی ہو، واضح رہے کہ جب روح جسم سے موتـو اقبل ان تموتوا مرنے سے پہلے مر جاؤ والی موت کے سبب جدا ہو جاتی ہے تو عارف کامل اپنی روح کو نہ جسم میں داخل اور نہ اس سے خارج ، نہ ملی ہوئی اور نہ اس سے جدا پا تا ہے ،اسے اتنا معلوم ہو جا تا ہے کہ روح اور جسم کا تعلق اس واسطے ہے کہ جسم کی بھی اصلاح ہو جائے اور روح بھی اپنے اصلی کمال پر پہنچ جاۓ اور اس تعلق کا منشا یہی ہے کہ نیکی اور بہتری ہو جاۓ ، اگر تعلق نہ ہوتا تو جسم سارے کا سارا شریر اور ناقص رہ جا تا اور یہی حالت ہے واجب تعالی کی روح وغیرہ کے ساتھ کہ ذات حق نہ عالم میں داخل ہے اور نہ خارج ہے، نہ اس سے ملی ہوئی ہے اور نہ اس سے جدا ہے، اللہ تعالی کا جہان کو پیدا کرنے ، باقی رکھنے، کمالات کا فیض پہنچانے اور نعمت اور نیکیوں کے لئے مستعد بنانے کا تعلق ہے ،اگر تم یہ کہو کہ علماء اہل حق نے روح کے بارے میں اس قسم کا کلام نہیں کیا بلکہ ایسا کرنے کو جائز ہی نہیں فرمایا اور آپ ہر چھوٹی بڑی بات میں ان کی موافقت کو لازم جانتے ہیں پھر آ پکے اس طرح کلام کرنے کی کیا وجہ ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ روح کی حقیقت جاننے والے عالم بہت کم ہیں، انہوں نے کمالات روح کے کشف کے متعلق مفصل کچھ نہیں لکھا، بلکہ مجمل طور پر لکھنے پر اس واسطے اکتفا کی ہے  کہ عوام الناس چونکہ اس کو اچھی طرح نہیں سمجھ سکتے ،ایسا نہ ہو کہ الٹا گمراہی میں پڑ جائیں، بیشک کمالات روحی کمالات و جوبی کی شبیہ اور صورت ہیں ، ان میں ایک بار یک فرق ہے، جسے صرف علماۓ راسخ ہی جانتے ہیں ،اس لئے انہوں نے مصلحت اس میں دیکھی کہ اس کی حقیقت کو مجمل بیان کیا جائے یا بالکل بیان نہ کیا جاۓ ، لیکن وہ روح کے مذکورہ بالا کمالات کے منکرنہیں ، میں نے جو روح کے بعض خواص منکشف کیے ہیں تو اس کی وجہ یہ ہے کہ مجھے اللہ تعالی کی مد د وتو فیق اور جناب سرور کائنات ﷺ کے صدقے کشف صریح اور علم صحیح حاصل ہے اور ساتھ ہی مجھ سے وہ شبہ دور کر دیا گیا ہے جو بیان کرنے سے روکتا ہے ، اب غوروفکر کرو، یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ جس طرح جسم کو روح سے بے شمار فوائد حاصل ہوئے ہیں اسی طرح روح کو بھی جسم سے بڑے بڑے فوائد پہنچے ہیں ، چنانچہ جسم ہی کی برکت سے اسے سننے، دیکھنے ، بات کرنے مجسم ہونے مختلف افعال کرنے اور عالم اجساد سے مناسب ہونے کی طاقت نصیب ہوئی ، جب نفس مطمئنہ روحانیوں سے مل جاتا ہے جیسا کہ اوپر بیان ہو چکا ہے تو عقل اس کے بجاۓ اس کا خلیفہ بن کر عالم اجساد میں بیٹھتی ہے اور اس کا نام عقل معاد ہو جا تا ہے ،اس وقت اس کی تمام سوچ بیچارصرف آخرت کیلئے محدود ہو جاتی ہے ، دنیاوی زندگی کے اسباب کی طرف سے فارغ ہو جاتی ہے اور جونو را سے عطا ہوا ہے اس کے سبب فراست کے لائق ہو جاتی ہے، یہ مرتبہ کمالات عقل کا انتہائی مرتبہ ہے، ناقص یہاں پر یہ اعتراض نہ کرے کہ کمالات عقل کا انتہائی مرتبہ نسیان معاش و معاد میں متحقق ہونا چاہیئے کیونکہ شروع میں اسے سواۓ حق سبحانہ وتعالی کے اور کسی کا خیال واندیشہ نہیں ہوتا وہ کیا دنیا کیا آخرت دونوں کی طرف سے فارغ ہوتی ہے، اس کا جواب یہ ہے کہ یہ نسیان و فراموشی اسے اثنائے راہ میں مرتبہ فنا فی اللہ پر پہنچ کر حاصل ہوئی اور یہ کمال اس سے بدر جہا متجاوز ہے، یہاں حصول جہل کے بعد رجوع علم ہے اور تحقق جمع کے بعد فرق کا لوٹ آتا ہے اور مرتبہ جمع کے کفر طریقت کے بعد اسلام حقیقی کا حاصل ہوتا ہے ،کوتاہ اندیش اور احمق فلسفیوں نے عقل کے چار مراتب ثابت کر کے انہیں پر اس کے کمالات کا انحصار رکھا ہے ، یہ ان کی کمال نادانی ہےعقل کی حقیقت اور اس کے کمالات کا اندازہ عقل و و ہم سے نہیں ہوسکتا بلکہ اس مطلب کیلئے کشف صحیح اور الہام صریح درکار ہے جوانوار نبوت کی مشکوۃ سے مقتبس(لیا گیا) ہو، اگر یہ پوچھیں کہ مشائخ نے جوعقل کو روح کا تر جمان لکھا ہے اس کا کیا مطلب ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ وہ علوم و معارف جو روحانی تلقی (لینے، اخذ کرنے)کے باعث مبدا فیاض سے حاصل ہوتے ہیں انہیں قلب جو کہ عالم ارواح سے ہے ،اخذ کرتا ہے ، ان کا ترجمان عقل ہے کہ ان کو چھانٹ کر عالم خلق کے گرفتاروں کی سمجھ کے لائق بنا تا ہے، کیونکہ اگر وہ ترجمانی نہ کرے تو ان کا سمجھنا مشکل بلکہ محال ہو جا تا ہے، چونکہ دل گوشت کا لوتھڑا قلبی حقیقت جامعہ کا خلیفہ ہے اس واسطے وہ اصل کی طرح ہو گیا ہے، اس کی تلقی بھی روحانی تلقی ہوگئی ہے، اس واسطے اسے تر جمان کی ضرورت ہوئی ہے، واضح رہے کہ عقل معاد پر ایک ایسا وقت بھی آتا ہے جو نفس مطمئنہ کی ہمسائیگی کے شوق کا باعث ہوتا ہے، یہاں تک کا نفس مطمئنہ کو اس کے مقام تک پہنچاتا ہے اور جسم کو خالی  چھوڑتا ہے ، اس وقت تعلق تذکر وتعقل بھی قلبی ٹکڑے میں قرار پکڑتا ہے إِنَّ فِي ذَلِكَ لَذِكْرَى لِمَنْ كَانَ ‌لَهُ ‌قَلْبٌ صاحب قلب کیلئے اس میں ذکر ہے، وہی قلب خود آپ ہی اپنا تر جمان ہو جا تا ہے، اس وقت عارف کو قالب سے پالا پڑتا ہے، ناری جز وجس کے وجود سے اناخیر منہ میں اس سے اچھا ہوں کی آواز نکلتی تھی فرمانبردار ہونے لگتا ہے اور ہوتے ہوتے اسلام حقیقی کے شرف سے مشرف ہو جا تا ہے ، تب ابلیسی جامہ اس سے اتار کر نفس مطمئنہ کے اصلی مقام میں پہنچاتے ہیں اور اس کا نائب مناب بنا دیتے ہیں ، پس قالب میں قلب حقیقی کا خلیفہ یہی گوشت کا ٹکڑا ہے اور نفس مطمئنہ کا نائب مناب جز و ناری ہے ۔

مصرع زرشدمس و جو دمن از کیمیاۓ عشق (کیمیائے عشق کے چھونے سے وجود کی خاک زر بن گئی)

جز و ہوائی روح سے مناسبت رکھتا ہے یہی وجہ ہے کہ سالک جب مقام ہوا تک عروج کر جاتا ہے تو اس ہوا کو حقانیت کا عنوان جاننے لگتا ہے اور اسی میں گرفتار رہتا ہے، چنانچہ مقام روح میں بھی شہود ہاتھ آتا ہے اور اس میں گرفتار رہتا ہے ،ایک شیخ نے فرمایا ہے کہ میں تیس سال روح کو خدا سمجھ کر اس کی پرستش کرتا رہا لیکن جب اس مقام سے مجھے عبور حاصل ہوا تو حق و باطل میں تمیز ہوگئی ، یہ جز و ہوائی مقام روحی کی مناسبت کے سبب اس قالب میں روح کا قائم مقام ہوتا ہے اور بعض امور میں روح ہی کا کام دیتا ہے، جز و آبی حقیقت جامعہ قلبیہ سے مناسبت رکھتا ہے ، اسی واسطے اس کا فیض تمام اشیاء کو پہنچتا ہے، وَجَعَلْنَا ‌مِنَ ‌الْمَاءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيٍّ  ہم نے پانی سے تمام چیزوں کو زندہ کیا ہے ، اس کی بازگشت بھی یہی قلبی گوشت کا لوتھڑا ہے ، جزو خا کی جو اس قالب کا جزو اعظم ہے اپنی ذات صفات کی آلودگی کمینگی اور خست سے پاک ہوکر اس قالب میں غالب و حاکم بن جا تا ہے ، قالب میں ہر طرح کا حکم اس کو حاصل ہوتا ہے اور اس کا رنگ اختیار کرتا ہے، یہ بات اسے خاک کی جامعیت تامہ کے سبب حاصل ہوتی ہے ، تمام اجزاۓ قالب در حقیقت اس کے اجزاء ہیں ، یہی وجہ ہے کہ کرہ زمین تمام عناصر افلاک کا مرکز ہے اور کرہ زمین کا مرکز تمام جہان کا مرکز ہے، اس وقت قالب کا معاملہ بھی انجام تک پہنچ جاتا ہے اور عروج ونزول کا انتہائی درجہ حاصل ہو جا تا ہے اور اعلی درجہ کی تکمیل نصیب ہو جاتی ہے، یہ ہے وہ نہایت جو ہدایت کی طرف رجوع رکھتی ہے، واضح رہے کہ روح مع اپنے توابع و مراتب کے گوبطریق عروج اپنی جاۓ قرار پر پہنچ  چکی ہولیکن چونکہ ابھی اسے قالب کی تربیت کرنا ہوتی ہے اس واسطے اس جہان کی طرف اس کیلئے متوجہ ہونا ضروری تھا سو جب قالب کا معاملہ انجام تک پہنچ جا تا ہے تو روح معہ سرخفی ،اخفی ، قلب نفس اور عقل جناب باری کی طرف متوجہ ہوتی ہے اور اس قالب سے بالکل منہ پھیر لیتی ہے ، اس وقت قالب بھی ہمہ تن مقام عبود یت کی طرف متوجہ ہو جا تا ہے ، پس روح مع اپنے مراتب کے شہود و حضور کے مقام میں جگہ پکڑتی ہے اور غیر حق کی دید و دانش سے بالکل منہ پھیر لیتی ہے اور قالب سر بسر مقام اطاعت و بندگی میں راسخ ہو جا تا ہے ، اس مقام کو’’ فرق بعد الجمع‘‘ وصال کے بعدجدائی کہتے ہیں، اللہ تعالی اس کی لذت کی توفیق عنایت کرتا ہے، مجھے اس مقام میں خاص قدم حاصل ہے اور اس خاص قدم سے مراد روح کا مع اپنے مراتب کے عالم خلق کی طرف لوٹنا ہے تا کہ حق سبحانہ و تعالی کی طرف بلاۓ ، اس وقت روح بمنزلہ قالب ہوتی ہے اور اس کی تابع ہوتی ہے ، یہاں تک نوبت پہنچ جاتی ہے کہ اگر قالب حاضر ہے تو روح بھی حاضر ہے ، اگر قالب غافل ہے تو روح بھی غافل ہے مگر نماز کے وقت خواہ قالب غافل ہی ہوروح مع اپنے مراتب کے بارگاہ قدس کی طرف متوجہ ہوتی ہے، اس واسطے نماز مومن کی معراج ہے، واضح رہے کہ یہ ر جوع واصل جو بالتمام واقع ہوتا ہے دعوت کا سب سے کامل مقام ہے ، یہ غفلت جمع کثیر کے حضور کا سبب ہے، غافلوں کو اس غفلت کی خبر نہیں اور حاضروں کو اس رجعت کا علم نہیں ، یہ مقام بظاہر برالیکن باطن اچھا ہے، ہر ایک کوتاہ اندیش اسے نہیں سمجھ سکتا ،اگر میں اس غفلت کے کمالات بیان کروں تو کوئی شخص بھی حضور کی آرزو نہ کرے ، یہ غفلت ہے جس نے خواص بشر کو خواص ملک پر فضیلت دی ، یہ غفلت ہے جس کے سبب جناب سرور کائنات کی رحمت عالمیان ہے ، یہ وہ غفلت ہے جو ولایت سے نبوت تک پہنچاتی ہے ، یہ وہ غفلت ہے جو نبوت سے رسالت تک لے جاتی ہے ، یہ وہ غفلت ہے جو اولیاۓ عشرت کو اولیاۓ عزلت پر زیادتی بخشتی ہے، یہ وہ غفلت ہے جو جناب سرور کائنات ﷺ کوصدیق اکبر  رضی اللہ عنہ  پر سبقت دیتی ہے ، یہ وہ غفلت ہے جو ہوش کو مستی پرترجیح دیتی ہے، یہ وہ غفلت ہے جو نبوت کو ولایت سے افضل بناتی ہے ، یہ وہ غفلت ہے جس کے سبب قطب ارشاد قلب ابدال سے افضل سمجھا جا تا ہے ، یہ وہ غفلت ہے ہے جس کی آرزو صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کیا کرتے تھے، چنانچہ فرما تے ہیں یا ليتني كنت ‌سهو ‌محمد صلى الله تعالى عليه وسلم کاش محمد مصطفی ﷺ جیسا سہو مجھے نصیب ہوتا ، یہ وہ غفلت ہے کہ حضور اسکا ایک ادنی خادم ہے ، یہ وہ غفلت ہے کہ وصول اس کے حصول کا پیش خیمہ ہے، یہ وہ غفلت ہے کہ بظاہر تنزل ہے لیکن حقیقت میں عروج ہے، یہ وہ غفلت ہے جس سے خواص پر عوام کا شبہ پڑتا ہے اور وہ ان کے کمالات کے قبوں میں پھرتی  ہے……….. اگر بگویم شرح این بیحد شود… یہ مشتے نمونه از خروارے اور سمندر سے قطرہ کیمطابق لکھا گیا ہے، والسـلام عـلـى مـن اتبـع الهـدى والتـزم متـابـعـة الـمـصـطـفـى عليـه ،وعلى الله من الصلوات و التسليمات اتمها وأكملها.

منها:14۔حضور پیغمبر اعظمﷺ کا امتیاز خاص:

حضرت ختم المرسلین ﷺ تمام انبیاء کرام  میں تجلی ذاتی سے ممتاز ہیں اور اس دولت سے جو تمام کمالات سے بڑھ کر ہے مخصوص ہیں، آنحضرت ﷺ کے کامل تابعین کو بھی اس خاص مقام سے مفاد حاصل ہوتا ہے لیکن یا درکھنا اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ امت محمدی کے کامل باقی تمام انبیاء سے افضل ہیں ، یہ اہل سنت و جماعت کے اعتقاد کے سراسر خلاف ہے، یہ فضیلت جزئی نہیں کہ اس سے شبہ رفع ہو سکے بلکہ کلی ہے کیونکہ مردان خدا کو بسبب قرب الہی فضیات حاصل ہوتی ہے اور جوفضیلت بھی ہے اس فضلیت سے کم ہے، اس کا جواب یہ ہے کہ یہ کہنے سے کہ اس امت کے کامل آدمیوں کو اس فضیلت سے نصیبہ حاصل ہے یہ لازم نہیں آتا کہ و واس مقام کے واصل ہیں کیونکہ نصیبہ حاصل ہونے اور واصل ہونے میں بڑافرق ہے، فضیلت واصل ہونے پر حاصل ہوتی ہے، اس امت کے کاملوں کا انتہائی عروج اقدام انبیاء ﷺ کے نیچے تک ہے ، چنانچہ امیر المومنین صدیق اکبر ﷺ جو انبیاء کے بعد تمام بنی نوع انسان سے افضل ہیں کا انتہائی عروج قدم نبی کے تلے تک ہے ، جو تمام انبیاء سے ادنی ہے ، آمد بر سر مطلب، اس امت کے کامل تابعین کو مقام تحت میں پیغمبروں کے مخصوصہ مقام فوق الفوق کے کمالات سے نصیبہ حاصل ہوتا ہے ، خادم خواہ کہیں ہوا سے مخدوم کا پس خوردہ پہنچ  رہتا ہے ، دور کا خادم مخدوم کے طفیل سے وہ چیز حاصل کر سکتا ہے جو خدمت کی دولت کے بغیر نز دیکوں کے بھی ہاتھ نہیں آتی

درقافله که اوست دانم نرسم این بس که رسد ز دور بانگ جرسم

اس قافلہ تک میں جانتا ہوں کہ نہیں پہنچ سکتا یہی کافی ہے کہ گھنٹیوں کی آواز آتی رہے

واضح رہے کہ کبھی مریدوں کو اپنے پیروں کے حق میں و ہم پیدا ہوتا ہے ، چنانچہ جب وہ پیروں کے مقامات حاصل کر لیتے ہیں تو خیال کرنے لگتے ہیں کہ ہم اور ہمارے پیر برابر ہیں لیکن معاملہ کی اصل حقیقت وہی ہے جو اوپر بیان ہوئی ہے، برابری اس واسطے ہوئی جب ان مقامات واصل ہو  جائیں نہ کہ حصول  سے برابر ہو جائیں گے کیونکہ حصول  تو خود طفیلی ہے اس سے یہ بھی خیال کرنا چاہیئے کہ مرید اپنے پیر کے مساوی نہیں ہوتا ہے، ایسا نہیں ہوتا بلکہ مساوی ہونا جائز ہے اور ایسا ہوتا ہے لیکن کسی خاص مقام کے حصول اور اس کے وصول میں بڑا بار یک فرق ہے ہر مرید کو یہ دولت نصیب نہیں ہوتی ، اس فرق کو معلوم کرنے کیلئے کشف صیح اور الہام صریح درکار ہے،واللہ سبحانه الملهم بالصواب وَالسَّلَامُ عَلَى ‌مَنِ ‌اتَّبَعَ الْهُدَى ۔

 منها: 15راہ سلوک میں پیش آنے والے حالات:

ایک درویش نے پوچھا، اس کا کیا سبب ہے کہ سالک طریقت پرایسی حالت بھی آتی ہے کہ عرصہ نہ آگے بڑھتا ہے نہ پیچھے ہٹتا ہے ، بعد ازاں پوشیدہ ہو جاتا ہے ، مدت بعد پھر وہی حالت ظاہر ہوتی ہے، پھر عرصے بعد پوشیدہ ہو جا تا ہے اور جب تک اللہ تعالی کو منظور ہوتا ہے ایسا ہی ہوتا رہتا ہے، اس کا جواب یہ ہے کہ آدمی میں سات لطیفے ہیں ، ہر ایک لطیفے کی مدت سلطنت جدا جدا ہے ، پس اگر کوئی قوی حالت ان میں سے نہایت لطیف پر نزول فرماۓ تو سالک کی کلیت اس لطیفے کے رنگ میں رنگی جاتی ہے اور وہ حال تمام لطائف میں سرایت کر جا تا ہے اور جتنی اس لطیفے کی مدت سلطنت مقرر ہوتی ہے اتنا عرصہ وہ حالت قائم رہتی ہے، جب وہ عرصہ گز رجا تا ہے تو وہ حالت بھی زائل ہو جاتی ہے، مدت بعد اگر پھر وہی حالت طاری ہو جاۓ تو دوحال سے خالی نہیں ، یا پھر اسی پہلے لطیفے پر لوٹ آتا ہے، اس وقت راہ ترقی سالک کیلئے مسدود ہو جاتی ہے ، یا دوسرے لطیفے پر وارد ہو تو اس صورت میں ترقی کی راہ کھل جاتی ہے اور دوسرے لطیفے میں بھی پہلے لطیفے کی سی  حالت طاری ہوتی ہے، پھر اس حالت کے زائل ہونے کے بعد اگر وہی حالت طاری ہوتو مذکورہ بالا دو حالتوں سے خالی نہیں ، اسی طرح سارے لطائف میں یہ حالت ہوتی ہے، پس اگر وہ  وارد تمام لطائف میں بطریق اصالت سرایت کرے تو ایک مقام سے دوسرے میں منتقل ہوتا ہے اور زوال سے محفوظ رہتا ہے، اللہ تعالی حقیقت حال کو اچھی طرح جانتا ہے ، والسلام على سيد البشر واله الاطهر

منها : 16آیت قرآنی کی تعبیر لطیف:

قـال الـلـه تـعـالى: يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُلُوا مِنْ طَيِّبَاتِ مَا رَزَقْنَاكُمْ وَاشْكُرُوا لِلَّهِ إِنْ كُنْتُمْ إِيَّاهُ تَعْبُدُونَ اے ایمان والو! جو کچھ ہم نے تمہارارزق مقرر کیا اس میں سے پاکیزہ کھاؤ اور اللہ تعالی کا شکر بجالاؤ، اگر تم اس کی پرستش کرتے ہو ممکن ہے کہ یہ کھانے کے حکم کی قید من طيبات مارزقنا کم یعنی لذيذ چیز یں کھاؤ جو ہم نے تمہارے لئے بطور رزق مقرر کی ہیں ، بشرطیکہ تم بذر یعہ عبادت اسے مخصوص اور درست کرلو ، اگر تم اسے درست نہ کرو بلکہ لہوولعب میں مشغول ہوتو ملذذ اشیاء کا استعمال نہ کرو کیونکہ تم مرض باطنی میں مبتلا ہو اور ملذذ اشیاء تمہارے لئے زہر قاتل ہیں ، جب تم سے باطنی مرض زائل ہو جاۓ تو پھر تمہارے لئے ملذذ اشیاء کا استعمال درست ہوسکتا ہے ، صاحب کشاف نے لکھا ہے کہ طلب شکر کوملحوظ رکھتے ہوۓ طیبات سے مرادلذ یذاشیاء ہیں ۔

منها: 17۔مشائخ کے ایک قول کی تشریح:

بعض مشائخ رحمۃ اللہ علیہم نے فرمایا ہے مـن عـرف الله لا يضره ذنب جوشخص اللہ تعالی کو پہچان لیتا ہے اسے گناہ نقصان نہیں پہنچا سکتا ، یعنی وہ گناہ جو خدا شناسی حاصل ہونے سے پہلے سرزدہوۓ تھے کیونکہ اسلام تمام ان باتوں کو قطع کر دیتا ہے جو اس سے پہلے ظہور میں آئی ہوں ، اسلام کی حقیقت سے مراد صوفیا کے طریقے کے موافق فنا و بقا حاصل ہونے کے بعد اللہ تعالی کی شناخت کا حاصل ہونا ہے، سو ایسی خدا شناسی ان تمام گناہوں کو جو اس سے پہلے سرزد ہوئے ہیں ، زائل کر دیتی ہے ، یہ بھی ممکن ہے کہ یہاں گناہ سے مراد وہ گناہ ہوں جو اس معرفت کے بعد سرزد ہوۓ ہوں اور ان سے مراد گناہ صغیرہ ہوں کیونکہ اولیاءاللہ کبیرہ گناہوں سے محفوظ ہوتے ہیں صغیرہ گناہ اس واسطے نقصان نہیں دے سکتے کہ ان پر اصرارنہیں کر تا ہے ۔ اور جس وقت کوئی صغیر ہ ظہور میں آتا ہے اسی  وقت تو بہ واستغفار سے اس کا تدارک کیا جا تا ہے اور یہ بھی جائز ہے کہ اس کے معنی ہوں کہ خداشناسی کے بعد اس سے کوئی گناہ سرزدہی نہیں ہوتا کیونکہ جب گناہ صادر ہی نہ ہوگا تو نقصان کیونکر پہنچے گا ، یوں سمجھو کہ لازم کا ذکر کر کے ملزوم مرادلیا ہے ملحدوں نے اس عبارت کے جو معنی نکالے ہیں کہ عارف کیلئے گناہوں کا ارتکاب وسیع ہو جا تا ہے کیونکہ وہ اسے نقصان نہیں پہنچا سکتے یہ محض باطل اور صریح بے دینی ہے، یہ لوگ شیطانی گروہ ہیں ،سنو شیطانی گروہ ہمیشہ نقصان اٹھاتے ہیں ،اے پروردگار ہدایت عطا کر نے کے بعد ہمارے دلوں کو معرفت عنایت فرما اور اپنی طرف سے رحمت عطا کر واقعی تو بہت بخشنے والا ہے صلى الله تعالى على سيدنا محمد واله وسلم و بارك وسيع مغفرت والے کریم اللہ تعالی سے امید کرتے ہیں کہ حقیقت اسلام سے واقف عارف کو خداشناسی حاصل ہونے سے پہلے کے گناہ نقصان و تکلیف نہیں پہنچاسکیں گے خواہ گناہ مظالم وحقوق العباد کے متعلق ہی کیوں نہ ہوں کیونکہ اللہ تعالی مالک علی الاطلاق ہے اور بندوں کے دل اس کی دوانگلیوں کے مابین ہیں جس طرح چاہتا ہے انہیں الٹنا پلٹتا ہے ، ظاہر ہے کہ مطلق اسلام سے مظالم وحقوق العباد کے سوا باقی گناہ منقطع ہو جاتے ہیں کسی چیز کی حقیقت اور اس کی کمالیت کیلئے زیادتی ہوتی ہے نہ کہ اس کے مطلق کیلئے ۔

منها: 18۔وجود باری کے متعلق معرفت خاص:

حق سبحانہ و تعالی اپنی ذات سے موجود ہے نہ کہ وجود سے، اس کے برخلاف تمام موجودات وجود سے موجود ہیں ، پس اللہ تعالی کے موجود ہونے کیلئے وجود کا ہونا لازم نہیں ، اگر حق سبحانہ و تعالی اپنی موجودیت کیلئے وجود کا محتاج ہوتا تو ہمیں وجود کی عینیت کا قائل ہونا پڑتا اور اس کے ثبوت کیلئے بڑی لمبی چوڑی دلیلیں دینی پڑتیں اور ایسا کرنے میں ہم جمہور اہل سنت و جماعت کی مخالفت کرتے ، کیونکہ یہ بزرگ عینیت وجود کے قائل نہیں بلکہ وجودکوزائد خیال کرتے ہیں اور یہ ظاہر ہے کہ وجود کی زیادتی سے واجب الوجود کو غیر احتیاج لازم آتی ہے، اگر زائد وجود سے واجب تعالی کو موجود کہیں اور خواہ بذات خود موجودکہیں اور اس وجود کوعرض عام فرض کریں تو بھی اہل حق جمہورمتکلمین کی بات درست ہوتی ہے اور احتیاج کا اعتراض جو مخالف لوگ کرتے ہیں بالکل دور ہو جا تا ہے ، واجب تعالی کو اپنی ذات سے موجودرکھنے اور اس میں وجود کو بالکل دخل نہ دینے میں اور اس وجودکوعین ذات ثابت کر نے میں بڑا واضح فرق ہے، یہ معرفت وہ ہے جس سے اللہ تعالی نے مجھے مخصوص فرمایا ، اس بات کیلئے اللہ تعالی کا شکر ہے،والصلوة والسلام علی رسولہ۔

منها:19۔وجود باری تعالیٰ کی مزید توضیح:

حضرت واجب الوجود کی ایک یہ بھی خصوصیت ہے کہ وہ اپنی ذات سے موجود ہے اور اس موجودیت میں وجود کا مطلق محتاج نہیں خواہ وجود کو عین ذات فرض کریں، خواہ ذات پر زائد، برابر ہے ، دونوں طرح ہی عینیت اور زیادتی خطرناک لازم آتی ہے، چونکہ اللہ تعالی کی عادت یونہی جاری ہے کہ جو چیز مرتبہ وجوب میں ہے اس کا نمونہ ہر مرتبہ امکان میں ظاہر کرتا ہے، خواہ وہ کسی کو معلوم ہو یا نہ ہو، اسی طرح اس خاصہ کانمونہ عالم امکان میں وجود کو بنایا ہے کیونکہ وجود گوموجود نہیں لیکن تا ہم معقولات ثانویہ سے ضرور ہے لیکن اگر ہم اس کے وجود کو فرض کر بھی لیں تو بھی وہ اپنی ذات سے موجود ہوگا نہ کہ کسی اور وجود سے ، جیسا کہ عام طور پر مخلوق ہے، یعنی عام مخلوق موجودیت کیلئے وجود کی محتاج ہے کیونکہ مخلوق کی موجود بیت کیلئے اس کی ذات ہی کافی نہیں بلکہ وجود کی ضرورت پڑتی ہے پس جبکہ ایساوجود جسے چیزوں کی موجودیت میں دخیل بنایا ہے اگر وہ موجود ہو گا تو اپنی ذات سے موجود ہوگا اور کسی اور وجود کا محتاج نہ ہوگا تو کیا تعجب ہے کہ موجودات کا خالق مستقل طور پر اپنی ذات سے موجود ہو اور وجود کا بالکل محتاج نہ ہو، دور افتادوں کا اس بات کو بعید از عقل خیال کرنا خارج از بحث ہے،و اللہ تعالی ملہم بالصواب ہے۔

ایک اعتراض:۔ اگر کوئی یہ کہے کہ امام ابوالحسن اشعری کے پیرو وحکماء اور بعض صوفی ذات الہی کیلئے عینیت وجود کے قائل نہیں ان کی مراد بھی وہی ہے جو آپ نے بیان فرمائی ہے کہ واجب الوجود اپنی ذات سے موجود ہے نہ کہ وجود سے تو اس کا جواب میں دوں گا کہ اس لحاظ سے تو وہ اہلسنت سے متنفق الرائے ہیں کیونکہ اگر مخالف ہوتے تو اہل حق یہ کہتے کہ حق تعالی وجود سے موجود ہے نہ کہ ذات سے ، اس پہلو سے تو زیادتی وجود کا اثبات زائد ہے ، اس زیادتی وجود کا اثبات اس پر دلالت کرتا ہے کہ دونوں فریق نفس وجود کے بارے میں مختلف الراۓ ہیں مگر ان کا اختلاف راۓ ہے تو حق تعالی کے وصف کے بارے میں ہے جو عینیت وزیادتی ہے ، یعنی دونوں فریق اس بات کے قائل ہیں کہ اللہ تعالی وجود سے موجود ہے ، صرف اختلاف ہے تو عینیت وزیادتی کا ہے ،اگریہ نہیں کہ جب واجب الوجود اپنی ذات سے موجود ہے تو پھر واجب تعالی کو موجود کہنے کے کیا معنی ،موجوداسی کو کہتے ہیں جس کے ساتھ وجود قائم ہواور یہاں وجود ہر گز نہیں ، جواب یہ ہے کہ واقعی وہ وجود جس سے ذات حق موجود ہو واجب تعالی میں مفقود ہے لیکن جو وجود بطور عرض عام ذات حق کیلئے کہا جا تا ہے اور بطریق اشتقاق گمان کیا جا تا ہے اگر اس کے قیام کے لحاظ سے واجب الوجود کو موجود کہیں تو اس میں گنجائش ہے اور اس سے کسی قسم کا استحالہ(ناممکن) لازم نہیں آتا، والسلام .

 منها:20۔خداتخیل وتصور سے ماوراء ہے:

 ہم ایسے خدا کی ہرگز پرستش نہیں کرتے جو شہود کے احاطہ میں آجاۓ ، دکھائی دے ، معلوم ہوجاۓ، اور وہم و خیال میں سما سکے کیونکہ ظاہر ہو نے والا ، دکھائی دینے والا ، معلوم ہو جانے والا ، وہم و قیاس اور خیال میں آنے والا دیکھنے والے اور جاننے والے اور وہم و خیال کرنے والے کی طرح مخلوق ومحدث ہوتا ہے۔آں  لقمہ کہ در دہاں گنجد طلبم میں وہ لقمہ طلب کر رہا ہوں جو منہ میں نہ سما سکے کے سیر وسلوک کی اصلی غرض پر دوں کا چاک کرتا ہے، خواہ وہ حجاب وجوبی ہوں یا امکانی حتی کہ بلا پردہ وصل میسر ہو جاۓ نہ یہ کہ مطلوب کوقید میں لا کرشکارکریں۔

عنقا شکار کس نشود دام باز چین کایں جاہمیشہ باد بدست است دام را

اٹھا لے جا ل عنقا بھلا  کب کسی کے ہاتھ آتا ہے یہاں ہر جال لگانے والا خالی ہاتھ جاتا ہے۔

باقی رہا کہ آخرت میں دیدارحق ہوگا سواس پر ہمارا ایمان ہے لیکن ہم اس کی کیفیت اس واسطے بیان نہیں کر تے کہ عوام الناس اسے نہیں سمجھ سکتے ،خواص اسے سمجھ سکتے ہیں کیونکہ انہیں اس مقام سے دنیا میں بھی کچھ نصیب ہوتا ہے گواسے دیدار نہ ہی کہا جاۓ ، وَالسَّلَامُ عَلَى ‌مَنِ ‌اتَّبَعَ الْهُدَى ۔

منها: 21۔اس مطلب کی مزید توضیح :

جو چیز دید و دانش میں آسکتی ہے وہ مقید ہے اور اطلاق کے معیار سے گری ہوئی ہے لیکن مطلوب وہ ہے جو تمام قیود سے منزہ اور مبرا ہو، بس اسے دید و دانش کے علاوہ ڈھونڈ نا چاہیئے ، یہ معاملہ نظر عقل کے طور سے پرے ہے کیونکہ عقل دید و دانش کے پرے ڈھونڈ نا محال جانتی ہے

راز درون پرده زرندان مست پرس کیں حال نیست صوفی عالی مقام را

اندر کےپردہ  کاراز تو مستوںسے پوچھو  یہ حال عالی مقام صوفی کوکب میسر ہے۔

منها: 22۔صرافت مطلق کا بیان :

مطلق اپنے اطلاق کے معیار پر ہے کسی قسم کی قید کا اس میں دخل نہیں لیکن چونکہ مقید کے آئینے میں ظاہر ہوتا ہے اس واسطے اس کا عکس اس آئینے کے موافق رنگا جا تا ہے اور مقید و محدود دکھائی دیتا ہے ، اس واسطے وہ دید و دانش میں آتا ہے اگر ہم دید و دانش پر اکتفا کریں تو گویا ہم اس مطلوب کے ایک عکس پر اکتفا کرتے ہیں ، بلند اشخاص اخروٹ اور منقے سے سیر نہیں ہوتے ،اللہ تعالی عالی ہمت آدمیوں سے پیار کرتا ہے، اے پروردگار! ہمیں بھی جناب سید البشر ﷺ کے صدقے عالی ہمت بنا ۔

منها:23۔انسان افضل ہے یا فرشتہ؟:

 شروع حال میں ایک روز میں کیا دیکھتا ہوں کہ میں ایک مکان میں طواف کر رہا ہوں اور کچھ اور لوگ بھی میرے ساتھ اس طواف میں شریک ہیں لیکن وہ اس قدرسست رو ہیں کہ جتنے عرصہ میں ، میں ایک دفعہ طواف کرتا ہوں وہ صرف دو تین قدم اٹھاتے ہیں ،اس اثنا میں معلوم ہوا کہ یہ مکان فوق العرش ہے اور باقی کے طواف کرنے والے ملائکہ کرام ہیں ، صلى الله على نبينا و عليهم اجمعين ، الله تعالى جسے چاہتا ہے اپنی رحمت سے مخصوص کرتا ہے، واقعی اللہ تعالی صاحب فضل عظیم ہے۔

منها: 24۔عوام کے ساتھ اولیا کی ہم رنگی کی حقیقت :

اولیاء اللہ کے حجاب( پردے ) ان کی بشری صفات ہیں جن چیزوں کی باقی تمام لوگوں کو ضرورت ہوتی ہے ، ان بزرگوں کو بھی ہوتی ہے ، ان کا ولی ہونا انہیں احتیاج سے بری نہیں کر سکتا ، ان کی ناراضگی بھی عام آدمیوں کی ناراضگی کی طرح ہوتی ہے اور تو اور خود جناب سید الانبیاء ﷺ فرماتے ہیں أَغْضَبُ ‌كَمَا يَغْضَبُ الْبَشَرُ ، میں بھی عام انسانوں کی طرح ناراض ہوتا ہوں ، جب آنحضرت ﷺ کی یہ کیفیت ہے تو اولیاء اللہ کیونکر اس سے بری ہو سکتے ہیں ، کھانے پینے اور اہل وعیال سے زندگی بسر کر نے اور ان سے انس کرنے میں اولیاء اللہ اور باقی آدمی شریک ہیں ، مختلف تعلقات جو لازمہ بشریت میں خواص و عوام سے زائل نہیں ہو سکتے ، اللہ تعالی جل شانہ نے انبیا کرام ﷺ کے حق میں فرمایا ہے وَمَا جَعَلْنَاهُمْ ‌جَسَدًا لَا يَأْكُلُونَ الطَّعَامَ ہم نے ان کے جسم بھی کھانا کھانے والے بناۓ ہیں ، ظاہر میں کفار کہتے ہیں کہ یہ کیسا رسول ہے کہ کھانا کھا تا ہے اور بازاروں میں چلتا پھرتا ہے ، پس جس کی نگاہ اولیاء اللہ کے صرف ظاہر پر پڑتی ہے وہ نعمت الہی سے محروم رہتا ہے اور دنیا و آخرت کا نقصان اٹھا تا ہے ، اس ظاہر بینی نے ابوجہل اور ابو لہب کو دولت اسلام سے محروم رکھا اور ابدی نقصان میں ڈالا ، با سعادت وہی شخص ہے جو اہل رتبہ کے ظاہر کا چنداں خیال نہیں کرتا بلکہ اس کی نظر کی تیزی ان بزرگوں کے باطنی اوصاف تک پہنچتی ہے اور صرف ان کے باطن کو ہی دیکھتا ہے ، اولیا اللہ در یاۓ نیل کی طرح ہیں کہ محجوبوں کیلئے بلا اور محبوبوں کیلئے پانی ہیں ، یہ عجیب معاملہ ہے کہ جس قد رصفات بشریت کا ظہور اہل اللہ میں ہوتا ہے باقی آدمیوں میں نہیں ہوتا ، اس کی وجہ یہ ہے کہ ہموار اور مصفا مقام پر میل کچیل اور تاریکی خواہ تھوڑی بھی ہو تو بھی زیادہ ظاہر ہوتی ہے اور نا ہموار اور غیر مصفا مقام پر میل کچیل اور تاریکی خواہ زیادہ  ہی ہو کم دکھائی دیتی ہے ، صفات بشریت کی تاریکی عوام الناس کے قلب و قالب اور روح ونفس میں سرایت کرتی ہے لیکن خواص میں صرف قالب اور نفس تک محدود رہتی ہے اور خواص الخاص میں نفس بھی اس تاریکی سے بری ہوتا ہے صرف قالب تک محد و درہتی ہے، نیز یہ تار یکی عوام الناس کیلئے باعث نقصان و خسارہ ہے خواص میں موجب کمال و تر و تازگی ہے ،خواص ہی کی تاریکی عوام الناس کی تاریکیوں کو زائل کرتی ہے ، ان کے دلوں کو صاف اور ان کے نفوس کو پاک کرتی ہے اگر یہ تاریکی نہ ہوتی تو خواص کو عوام سے کوئی مناسبت نہ ہوتی اور فائدہ اٹھانے اور پہنچانے کی راہ بند ہو جاتی ،یہ تار یکی خواص میں اتنا عرصہ نہیں رہتی کہ انہیں میلا کر دے بلکہ اس کے بعد جو ندامت واستغفار ہاتھ آتی ہے وہ کئی کدورتوں اور تاریکیوں کو زائل کرتی ہے اور ترقی دیتی ہے ، یہی تاریکی ہے جو فرشتوں میں نہ ہونے کے باعث وہ ترقی نہیں کر سکتے ، اس تاریکی پر لفظ تاریکی کا اطلاق ایسا ہے جو بظاہر باعث مذمت ہے لیکن حقیقت موجب مدح ہے ،عوام الناس جو ڈھور ڈنگروں کی طرح ہیں ، وہ اہل اللہ کی صفات بشری کو اپنی صفات بشریت کی طرح خیال کرتے ہیں ، اس واسطے محروم و خوار رہتے ہیں ، یوں سمجھو کہ وہ غائب کو باطل موجود پر قیاس کرتے ہیں لیکن یاد رکھو ہر مقام کی خصوصیتیں علیحدہ ہوتی ہیں اور ہرمحل کے لوازمات جداء والسـلام عـلـى مـن اتبع الهـدى والتـزم متابعة المصطفى عليه، وعلى اله الصلوات والتسليمات

 منها: 25۔علوم امکانی اور معارف و جوبی:

جب تک انسان علم و دانش میں گرفتار ہے اور ماسوا اللہ کے نقوش سے منقش ہے تب تک خوار و بے اعتبار ہے، ماسوا اللہ کو بھلا دینا راہ سلوک کی شرط ہے اور ماسوا کافنا کر دینا قدم بڑھانا ہے، جب تک باطنی آئینہ امکان کے زنگار سے صاف نہ ہو جاۓ حضرت وجوب کا ظہور محال ہے، کیونکہ علوم امکانی اور معارف و جوبی کا جمع ہونا گو یا جمع اضداد ہے ، یہاں پر ایک زبردست سوال پیدا ہوتا ہے ، وہ یہ کہ جب عارف کو بقا سے مشرف کر کے ناقصوں کی تعلیم کیلئے واپس لوٹاتے ہیں تو جو علوم زائل ہو گئے تھے وہ پھر عود کر آتے ہیں تو اس صورت میں علوم امکانی اور معارف و جوبی باہم جمع ہو جاتے ہیں ، حالانکہ یہ جمع ضدین ہیں ، اس کا جواب یہ ہے کہ عارف باقی باللہ اس وقت بز رخ ہوتا ہے، گویا وجوب اور امکان کے مابین وسیلہ ہے اور دونوں مقام کے رنگ سے رنگا ہوا ہوتا ہے گو ایسی صورت میں اگر دونوں مقاموں کے علوم و معارف جمع ہوجائیں تو کوئی مشکل نہیں کیونکہ ضدین کے اجتماع کا مقام ایک نہیں رہتا بلکہ کئی مقام ہو جاتے ہیں ،سودونوں جمع نہیں کہلا سکتے ۔

منها:26۔علم اشیاء کار جوع :

چیزوں کے علوم جو مرتبہ فنا میں زائل ہو گئے تھے، بقا کے بعد اگر پھرلوٹ آئیں تو اس سے عارف کے کمال میں نقص لازم نہیں آتا بلکہ ان کا لوٹ آنا کمال پر دلالت کرتا ہے بلکہ اس کا کمال اس لوٹ آنے سے وابستہ ہے کیونکہ عارف بقا کے بعد اخلاق الہی سے متخلق ہو جاتا ہے، اس واجب تعالی میں اشیاء کا علم عین کمال ہے اور اس کی ضد موجب نقصان ہے سو یہی حال عارف کا ہے جو تخلق با خلاق اللہ ہوتا ہے ، اس میں بھید یہ ہے کہ ممکن کا علم معلوم کی صورت میں موجود ہونے سے حاصل ہوتا ہے، پس ضروری ہے کہ معلوم کی صورت کا حصول عالم پر اثر کرتا ہے، جس قدر علم زیادہ ہوگا اسی قدر عالم میں تاثر بھی زیادہ ہوگا اور اس میں تغیر وتلون بھی زیادہ وسیع و بسیط ہوگا ، یہ واقعی نقص ہے ، اس واسطے طالب کیلئے زیادہ ضروری ہے کہ ان تمام علوم کی نفی کرے اور تمام چیزوں کو فراموش کر دے لیکن واجب تعالی کے علم کی یہ کیفیت نہیں ، کیونکہ ذات الہی اس بات سے منزہ ہے کہ اس میں اشیاۓ معلومہ کی صورتیں حلول کریں ، ان کے ساتھ مجرد تعلق علم ہی سے اللہ تعالی پر وہ (اشیاء) منکشف ہیں ، پس وہ ذات پاک ہے جو حدوث مخلوق سے بلحاظ ذات وصفات اور افعال بالکل نہیں بدلتی جو عارف متخلق باخلاق اللہ ہو جا تا ہے ، اس کا علم بھی اسی طرح کا مظہر ہوتا ہے ، اس میں بھی اشیا کے معلومات کی صورتیں حلول نہیں کرسکتیں ، نہ اس کے حق میں تاثر ہوتا ہے نہ تغیر و تبدل اور نہ ہی یہ بات اس کیلئے نقصان کا باعث ہوتی ہے بلکہ موجب کمال ہوتی ہے، یہ اسرارالہی میں سے ایک پوشیدہ راز ہے ، اللہ تعالی جسے چاہتا ہے اپنے بندوں میں سے اپنے حبیب اکرم ﷺ کی حرمت سے اس سے مخصوص کرتا ہے ۔

منها:27۔مقام رضا کا حصول اور اطمینان نفس:

جب میں اپنے پیر کے وسیلے سے راہ حق کی طرف متوجہ ہوا تو بار ہویں سال مجھے مقام رضا سے مشرف فرمایا گیا، پہلے نفس کو اطمینان عنایت فرمایا ، بعد ازاں بتدریج فضل الہی سے یہ سعادت و مقام رضا نصیب کی اور اس دولت سے اس وقت تک مشرف نہ ہوا جب تک رضاۓ الہی حاصل نہ ہوئی ، پس نفس مطمئنہ اپنے مولی سے راضی ہوا اور اس کا مولی اس سے راضی ہوا ، اس بات کے لیے اللہ تعالی کا لاکھ لاکھ شکر ہے،مبارک مبارک ،والصلوة والسلام على رسوله محمد و آله ، اگر یہ کہیں کہ جب نفس اپنے مولی سے راضی ہو گیا تو پھر دعا اور دفع بلا کی طلب کا کیا مطلب ، اس کا جواب یہ ہے کہ مولی کے راضی ہونے سے اس کی مخلوق کی رضا لازم نہیں آتی بلکہ بہت دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ مخلوق سے رضا بصورت کفر و معاصی بری ہوتی ہے ، پس خلق قبیح سے راضی ہونالازم اور نفس قبیح سے کراہت کرنا واجب ہے ،مولی نفس قبیح  سے راضی نہیں ہوسکتا بلکہ بندہ اس صورت میں شدت وغلظت کے لیے مامور ہے ، پس مخلوق سے کراہت کرنا اس کے خلق کی رضا کا منافی نہیں ہوسکتا ،اسی واسطے دفع بلا کی طلب ضروری ہے ، جن لوگوں نے رضا حاصل ہوجانے کے بعد وجود کراہت میں مفعول سے کراہت اور فعل سے راضی ہونے میں فرق نہیں کیا وہ شبہ میں رہے ہیں ،اسی شبہ کو دور کرنے کے لیے انہوں نے طرح طرح کے تکلفات سے کام لیا ہے اور کہا ہے کہ وجود کراہت حال رضا کا منافی ہے نہ مقام رضا کا سوحال اور مقام میں بڑا فرق ہے حق بات وہی ہے جو میں نے بذریعہ الہام الہی تحقیق کر دی ہے، وَالسَّلَامُ عَلَى ‌مَنِ ‌اتَّبَعَ الْهُدَى ۔

منها: 28۔امام کے پیچھے قرأت کا کیا حکم ہے:

مدت تک میری ی آ رز ور ہی کہ حنفی مذہب میں کوئی معقول وجہ ہوتا کہ امام کے پیچھے سورۃ فاتحہ پڑھی جاۓ کیوں کہ نماز میں قرآن شریف کا پڑھنا فرض ہے تو حقیقی قرأت سے اعراض کر کے حکمی قرأت قرار دینا قرین قیاس معلوم نہیں ہوتا ، حالانکہ حدیث نبوی ﷺ میں بھی ہے، لا صلوة الا بفاتحة الكتب الحمد کے بغیر نماز نہیں ہوتی لیکن بپاس مذہب مجبورا ترک کرتا رہا اور اس ترک کور یاض و مجاہدہ خیال کرتا رہا، آخر کار اللہ تعالی نے مذہب کے پاس کی برکت سے کہ مذہب سے خروج الحاد ہے، اس بات کی حقیقت مجھ پر ظاہر کر دی کہ مذہب حنفی میں مقتدی کو امام کے پیچھے سورۃ فاتحہ کیوں نہیں پڑھنی چاہیئے نیز مجھے قرأت حقیقی سے قرأت حکمی زیادہ اہم معلوم ہوئی ،حقیقت یہ ہے کہ امام اور مقتدی دونوں مقام مناجات میں کھڑے ہوتے ہیں جیسا کہ ‘ لان المصلى يناجي ربه نمازی اپنے پروردگار سے مناجات کرتا ہے سے ظاہر ہے، امام کو اس کام میں پیشوا بناتے ہیں ، پس جو کچھ لوگ کسی عظیم الشان بادشاہ کی خدمت میں کسی ضرورت کیلئے حاضر ہوں اور ایک کوا پنا پیشوا بنائیں تا کہ سب کی طرف سے وہ بادشاہ کی خدمت میں صورت حال عرض کرے، اس صورت میں اگر دوسرے پیشوا کے ساتھ ہی بولنے لگ جائیں تو سخت بے ادبی ہے اور بادشاہ کی ناراضگی کا باعث ہے ، پس ان لوگوں کی حکمی بات چیت پیشوا کی زبانی عرض کر نا حقیقی بات چیت سے بہتر ہے، بعینہ یہی حال ہے ، امام اور مقتدیوں کا کہ امام کی قرأت کے وقت مقتدیوں کا پڑھنا شور وفساد میں داخل اور دور از ادب ہے اور جدائی کا موجب ہے جو اجتماع کے منافی ہے، اکثر مسائل حنفی و شافعی جن میں اختلاف ہے اس قسم کے ہیں کہ ظاہر میں شافعی پہلوکوتر جیح ہوتی ہے لیکن باطن وحقیقت میں حنفی پہلوز بردست ہوتا ہے ، مجھ پر یہ بھی ظاہر کیا گیا ہے کہ کلام حق میں جہاں جہاں فریقین کا اختلاف ہے اس میں حنفی حق بجانب ہیں بہت کم مسائل ایسے ہیں جن میں فریق ثانی کو ترجیح حاصل ہے، مجھے تو سط حال میں ایک رات جناب پیغمبر خدا ﷺ نے فرمایا کہ تم علم کلام کے ایک مجتہد ہو ، اس وقت سے لے کر مسائل کلامیہ میں میری رائے خاص اور میر اعلم مخصوص ہے ، اکثر مسائل خلافیہ جن میں ماتر ید یہ اوراشاعرہ کا خلاف ہے شروع مسئلہ میں اشاعرہ حق بجانب معلوم ہوتے ہیں لیکن جب نورفراست سے دیکھا جاۓ تو واضح ہو جا تا ہے کہ ماترید  یہ حق بجانب ہیں علم کلام کے متعلق تمام مسائل خلافیہ میں میری راۓ علماۓ ماتریدیہ کی رائے کے موافق ہے ، واقعی ان بزرگوں کی شان بہ سبب پیروی سنت نبوی ﷺ نہایت عظیم ہے ، ان کے مخالفوں کوفلسفی مسائل میں مشغول ہونے کے سبب وہ شان حاصل نہیں ، گو دونوں فریق  اہل حق ہیں ، دیکھوان بزرگوں میں سے سب سے بڑے بزرگ اور سب سے بڑے پیشوا ابوحنیفہ ﷺ کی بابت کیا شافعی کیا مالک اور کیا احمد بن حنبل ، بھی اعلی رائے رکھتے ہیں ، چنانچہ امام شافعی فرماتے ہیں الـفـقـهـاء كـلـهـم عيال ابی حنيفة ، تمام فقہا ابوحنیفہ کے عیال میں منقول ہے کہ جب امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ  انکی قبر کی زیارت کرنے جاتے تو اپنے اجتہادکوترک کر دیتے اور ان کے مذہب پر عمل کرتے اور فرماتے مجھے شرم آتی ہے کہ ان کے حضور میں اپنے لئے ایساعمل کروں جوان کی راۓ کے خلاف ہو ، چنانچہ آپ نہ ہی امام کے پیچھے سورہ فاتحہ پڑھا کرتے اور نہ ہی فجر کے وقت قنوت ، واقعی امام ابوحنیفہ ان کی شان کو امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ  ہی اچھی طرح جانتے ہیں ، آخری زمانے میں جب حضرت عیسی علیہ السلام  نزول فرمائیں گے تو مذہب حنفی کے مطابق عمل کر یں گے ، جیسا کہ خواجہ محمد پارسا فصول ستہ میں فرماتے ہیں اور یہی ان کی بزرگی کی کافی علامت ہے کہ ایک پیغمبر اولوالعزم ان کے مذہب پر عمل کرے گا، کسی اور کی سینکڑوں بزرگیاں بھی اس ایک بزرگی کے برابر نہیں ہوسکتیں ، ہمارے حضرت خواجہ باقی باللہ رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے تھے کہ میں بھی کچھ عرصہ امام کے پیچھے سورۂ فاتحہ پڑھا کرتا تھا ، آخر ایک رات خواب میں ، میں نے امام اعظم  رحمۃ اللہ علیہ کو دیکھا کہ اپنی مدح میں ایک نہایت اعلی درجے کا قصیدہ پڑ ھار ہے ہیں جس کے مضمون سے ظاہر ہوا کہ بہت سے اولیا میرے مذہب کے پابند ہوۓ ہیں ،تب سے میں نے امام کے پیچھے سورہ فاتحہ کا پڑھنا ترک کر دیا ۔

منها: 29۔تعلیم طریقہ کی اجازت:

کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ کوئی کامل کسی ناقص کو تعلیم طریقہ کی اجازت دے دیتا ہے اور جب اس کے مرید بہت ہو جاتے ہیں تو اس ناقص کے مریداس کا کام مکمل کر دیتے ہیں، چنانچہ حضرت خواجہ نقشبند رحمۃ اللہ علیہ  نے مولانا یعقوب چرخی رحمۃ اللہ علیہ  کو درجہ کمال پر پہنچنے سے پیشتر تعلیم طریقہ کی اجازت عنایت فرمائی اور حکم دیا کہ یعقوب جو کچھ مجھ سے تجھے ملا ہے وہ لوگوں کو پہنچا دینا ،مولا نا یعقوب کا کام بعد ازاں خواجہ علاء الدین عطار رحمۃ اللہ علیہ  کی خدمت میں سرانجام ہوا، اس واسطے مولانا عبدالرحمن جامی نفحات الانس میں لکھتے ہیں کہ مولانا یعقوب پہلے خواجہ علاالدین عطار کے مرید تھے بعد میں خواجہ نقشبند کے مرید ہوئے ،اسی طرح جب کوئی کامل اپنے مرید کو جس نے ولایت کا ایک درجہ طے کر لیا تعلیم طریقہ کی اجازت دے تو وہ مریدا ایک لحاظ سے کامل ہے اور ایک لحاظ سے ناقص ، یہی حال اس مرید کا ہے جس نے ولایت کے دو یا تین درجے طے کئے ہوں ، وہ ناقص بھی ہے اور کامل بھی کیونکہ جب تک آخری درجہ طے نہ کر لے وہ کامل بھی ہوتا ہے اور ناقص بھی ، جب کامل اپنے مرید کوتعلیم طریقت کی اجازت دینے کا مختار ہے تو یہ ضروری نہیں کہ مرید انتہائی درجہ طے کر چکا ہو، واضح رہے کہ گو نقص اجازت کا منافی ہے لیکن جب کوئی کامل ومکمل کسی ناقص کو نائب بنا تا ہے اور اس کے ہاتھ کواپنا ہاتھ جانتا ہے تو نقص کا ضرر تجاوزنہیں کرسکتا، واللہ اعلم بالصواب۔

منها: 30۔مراتب ثلاثہ اور یادداشت :

 یادداشت سے مراد دائمی حضور ذات حق ہے اور یہ بات کبھی ارباب قلوب کو بھی دل کی جمعیت کی وجہ سے خیال میں آ جاتی ہے ، اس واسطے کہ جو کچھ سارے انسان میں ہے وہ اکیلے دل میں ہے ، گوان میں مجمل ومفصل کا فرق ہے، پس مرتبہ قلب میں بھی حضور ذات دائمی طور پر حاصل ہوسکتا ہے لیکن یہ بات یادداشت کے طور پر ہے نہ کہ یادداشت کی حقیقت ، ہوسکتا ہے کہ بزرگوں نے جسے بدایت میں نہایت فرمایا ہے ، اس سے مراد یہی یادداشت ہولیکن یادداشت کی حقیقت اس وقت حاصل ہوتی ہے جب نفس کا تزکیہ اور قلب کا تصفیہ ہو سکے، اگر ان کی مراد ذات حق کے مرتبہ وجوب سے ہو کیونکہ ذات اس مرتبہ میں صفات وجو بیہ کی جامع ہے تو پھر تمام مراتب امکانی طے کرنے کے بعد اس مرتبہ کے شہود میں پہنچتے ہی یا داشت حاصل ہو جاتی ہے تجلیات صفاتی میں بھی یہ بات حاصل ہوسکتی ہے کیونکہ اشارے میں صفات کا ملاحظہ حضور ذات حق کا منافی نہیں ہوتا اگر ان کی مراد حضرت ذات تعالی سے مرتبہ احدیت مجردہ ہو جو اسماء وصفات اور نسبت و اعتبارات سے مبرا ہے تو پھر اسمائے صفاتی نسبتی اور اعتباری تمام مراتب طے کرنے کے بعد یادداشت حاصل ہوتی ہے، میں نے جہاں کہیں یا دداشت کا بیان کیا ہے اس سے مراد آخری معنی لئے ہیں گو اس مرتبہ میں حضور کا اطلاق کچھ  نا مناسب معلوم ہوتا ہے جیسا کہ ارباب یا داشت سے مخفی نہیں ، کیونکہ وہ غیبت و حضور سے اعلی و ارفع ہے،حضور کے اطلاق کیلئے کسی ایک صفت کا ملاحظہ درکار ہے جو کچھ لفظ حضور کے مناسب ہے یادداشت کی تفسیر دوسرے معنوں میں ہے، اس لحاظ سے یادداشت کو نہایت کہنا باعتبار شہود وحضور ہے کہ اس مرتبہ کے آگے شہودو حضور کی گنجائش نہیں ، وہاں یا حیرت ہے یا جہل یا معرفت لیکن وہ معرفت نہیں جسے تم معرفت جانتے ہو کیونکہ جس کو تم معرفت خیال کر تے ہو وہ افعالی و صفاتی معرفت ہے اور یہ مقام اسماء وصفات سے بدر جہا اوپر ہے، والصلوة والسلام على سيدالبشر وعلى اله الاطهر

منها: 31۔مقامات عشرہ کے بغیر وصول نہایت:

یہ راستہ طے کرنا اور نہایت النہایت پر پہنچنا دس مقامات مشہورہ کے طے کرنے سے وابستہ ہے جن میں سے پہلا تو بہ ہے اور آخری رضا ، مراتب کمال میں کوئی مرتبہ ومقام مقام رضا سے بڑھ کر نہیں حتی کہ آخرت میں رؤیت اخروی بھی اس کا مقابلہ نہیں کر سکتی ،مقام رضا کی اصلی حقیقت پورے طور پر آخرت میں ظاہر ہوگی ، باقی مقامات آخرت میں سیر نہیں ہو سکتے ،تو بہ کے وہاں کچھ معنی نہیں ، زہد کی وہاں گنجائش نہیں تو کل ہو ہی نہیں سکتا،صبر کا احتمال نہیں ، ہاں شکر وہاں سیر ہوسکتا ہے لیکن وہ شکر بھی رضا کی ایک شاخ ہے، رضا سے علیحدہ نہیں، اگر یہ پوچھیں کہ کبھی  کامل ومکمل میں دنیاوی رغبت پائی جاتی ہے اور بعض ایسی باتیں دیکھنے میں آتی ہیں جو تو کل کی منافی ہیں اور بے طاقتی جومنافی صبر ہے ظاہر ہوتی ہے اور کراہت جورضا کی ضد ہے پائی جاتی ہے اس کی کیا وجہ ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ان مقامات کا حاصل ہونا قلب وروح سے مخصوص ہے ، خاص الخاص کو یہ مقامات نفس مطمئنہ میں بھی حاصل ہو جاتے ہیں لیکن قالب اس بات سے محروم و بے نصیب ہے ،اگر چہ جسم تیزی اور قوت کی وجہ سے مقتضی ہوتا ہے ، ایک شخص نے شیخ شبلی رحمۃ اللہ علیہ  سے پوچھا کہ آپ محبت کا دعوی کرتے ہیں لیکن آپ کا موٹا پا منافی محبت ہے ، آپ نے جواب میں یہ شعر پڑھا

احـب قـلبـي ومـا درى بـدنـی ولـــودرى مـاقـام فـي الـسـمـن محبوب سے میرے دل نے محبت کی میرے بدن کو دہ معلوم نہ ہوا ۔اگر وہ بھی جانتا تو اتنا موٹا نہ ہو جا تا ۔

 پس اگر کوئی ایسی بات جو مقامات مذکورہ کے منافی ہو کسی کامل کے قالب میں ظاہر ہوتو د وضرر نہیں دے سکتی اور وہ اس بزرگ کے باطن کیلئے ان مقامات کے حصول میں حارج نہیں ہوسکتی، غیر کامل میں ان مقامات کے نقائص پورے طور پر ظاہر و باطن میں ظہور کر تے ہیں ، اس لئے وہ ظاہر و باطن میں دنیا کی طرف راغب ہو جا تا ہے اور وہ صورت وحقیقت میں منافی تو کل ہوتا ہے، اس قلب و قالب میں بے طاقتی اور گھبراہٹ ظاہر ہوتی ہے ، روح اور بدن میں کراہت کا ظہور ہوتا ہے ، یہی باتیں ہیں جنہیں حق تعالی نے اپنے اولیا کا پردہ بنایا ہے اور انہیں باتوں کی وجہ سے اکثر لوگ ان بزرگوں کے کمالات سے محروم رہتے ہیں ۔ اولیاء اللہ میں جو یہ باتیں پائی جاتی ہیں تو اس میں یہ حکمت ہے کہ ان کے بغیر حق و باطل میں تمیز نہیں ہوسکتی جو اس دنیا کی لازم بات ہے، جو امتحان کا مقام ہے ، دوسری حکمت اس میں یہ ہے کہ ان کیلئے ترقی کا باعث ہے، اگر اولیاء اللہ سے یہ باتیں بالکل مفقود ہو جائیں تو ان کی ترقی مسدود ہو جائے اور فرشتوں کی طرح مقید رہ جا ئیں، والسلام عـلـى مـن اتبع والتـزم متابعة المصطفى عليه ، وعلى اله الصلوات والتعليمات اتمها وأكملها۔

منها:32۔اولیاۓ باری اور اسباب کی گرفتاری:

الہی یہ کیا بات ہے کہ تو نے اپنے اولیاء کے باطن کو آب حیات بنارکھا ہے کہ جس نے ایک قطرہ چکھا اسے حیات ابدی نصیب ہوگئی اور ان کے ظاہرکوز ہر قاتل بنارکھا ہے کہ جس نے اس کو دیکھا وہ ابدی موت میں گرفتار ہو گیا یہ ا یسے لوگ ہیں کہ ان کا باطن رحمت اور ان کا ظاہر زحمت ہے ان کے باطن کو دیکھنے والا انہیں میں سے ہے اوران کے ظاہر کو دیکھنے والا بدکیش ہے، بظاہر جو ہیں اور حقیقت گیہوں بظاہر عوام بشر ہیں اور باطن خواص ملک، ظاہر میں زمین پر ہیں اور حقیقت میں آسمان پر ان کا ہم نشین بدبختی سے بچا ہوا ہے اوران کا غم خوار سعادت مند ہے، یہ لوگ گروہ الہی ہیں اور یہی لوگ اہل نجات و  فلاح میں وصلى الله تعالى على سيدنا محمد واله وسلم

 منها: 33 ۔شان اولیا پوشیدہ کیوں ہے؟

حق سبحانہ وتعالی نے اپنے اولیا ء کو اس طرح پوشید ہ کیا ہے کہ ان کے ظاہر کو بھی ان کے باطنی کمالات کی خبر نہیں ، چہ جاۓ کہ غیران سے واقف ہوں ، ان کے باطن کو جونسبت بے چونی و بے چگونی کے مرتبہ سے حاصل ہے وہ بھی چون ہے ، ان کا باطن چونکہ عالم امر سے ہے، اس واسطے پیچونی سے انہیں بھی حصہ حاصل ہے اور ظاہر جو سراسر چون ہے ان کے باطن سے کیونکر واقف ہوسکتا ہے ، بلکہ قریب ہے کہ بسبب نہایت جہالت اور عدم مناسبت اس نسبت کے نفس حصول سے بھی انکار کر لے، ہوسکتا ہے کہ حصول نسبت کے نفس کو جانے لیکن یہ نہ جانے کہ اس کا متعلق کون ہے، بلکہ بہت دفعہ ایسا ہوا ہے کہ اس کے حقیقی متعلق کی نفی کرتا ہے اور یہ ساری باتیں اس واسطے ہیں کہ یہ نسبت بہت اعلی ہے اور ظاہر بہت ادنی ہے، خود باطن اس نسبت کا مغلوب ہوتا ہے اور دید و دانش سے گیا گزرا ہوتا ہے ،اسے کیا معلوم کہ کون رکھتا ہے اور کس سے رکھتا ہے، اس واسطے معرفت سے بجز کے سوا اور کوئی معرفت کی راہ نہیں ، یہی وجہ ہے کہ امیر المومنین صدیق اکبر ﷺﷺ نے فرمایا : العجز عن درک الا دراک ادرک معلوم کرنے سے عاجز آنا ہی معلوم کرنا ہے اور ادراک کے نفس سے مراد وہ نسبت خاصہ ہے کہ جس کے ادراک سے عجز لازم ہے، کیونکہ صاحب ادراک مغلوب ہوتا ہے، نہ ا سے ادراک معلوم ہوتا ہے اور نہ اس کا غیر معلوم ہوتا ہے اور نہ ا سے حال کی خبر ہوتی ہے ، جیسا کہ اوپر بیان ہو چکا ہے۔

منها: 34۔بدعت اعتقادی کا نقصان :

ایک شخص صوفیوں کے لباس میں رہ کر بدعت اعتقادی میں مبتلا تھا، مجھے اس کے حق میں ترددتھا، اتفاقا کیا دیکھتا ہوں کہ تمام انبیاء کرام علیہم السلام  جمع ہیں اورمتفق ہوکر اس شخص کے حق میں فرماتے ہیں کہ وہ ہم سے نہیں ، اس اثنا میں مجھے ایک اور شخص کا بھی خیال آیا جس کے بارے میں میں متر دد تھا ، اس کے بارے میں تمام نے فرمایا کہ وہ ہم میں سے ہے، اللہ تعالی انبیا کرام عالم کے طعن اور ان کے حق میں بداعتقاد ہونے سے بچاۓ۔

منها: 35 ۔متشابہات کی تاویل:

مجھ پر ظاہر کیا گیا کہ قرآن شریف میں جو قرب معیت اور احاطہ حق سبحانہ وتعالی کے الفاظ آتے ہیں یہ متشابہات قرآنی ہیں ، جیسے ہاتھ اور چہرہ وغیرہ، اسی طرح لفظ اول و آخر ، ظاہر و باطن وغیرہ کو اللہ تعالی کو قریب کہتے ہیں لیکن قریب کے معنی نہیں جانتے کہ قرب کیا ہے ،اسی طرح ہم اسے اول کہتے ہیں لیکن نہیں جانتے کہ اول سے کیا مراد ہے ،قرب واولیت کے جو معنی ہمارے علم وفہم میں آتے ہیں اللہ تعالی ان سے منزہ و برتر ہے اور جو کچھ ہمارے کشف و شہود میں آ سکتا ہے اللہ تعالی اس سے پاک ہے، اللہ کا قرب ومعیت جو بعض صوفیا نے بطریق کشف دریافت کیا ہے اور ان کشفی معنوں کے لحاظ سے اللہ تعالی کو قریب ومع جانتے ہیں ٹھیک نہیں ، بلکہ وہ مذہب مجسمہ میں قدم رکھتے ہیں بعض علما نے جو اس کی تاویل کی ہے اور قرب سے مرادعلمی قرب لی ہے یہ ایسے ہے جیسے ید کی تاویل قدرت و وجہ سے کریں گو یہ مجوز ان تاویل کے نزدیک جائز ہے لیکن ہم تاویل کو جائز قرارنہیں دیتے ، اس کی تاویل علم حق کے حوالے کرتے ہیں ، اس کا علم اللہ تعالی ہی کو حاصل ہے،وَالسَّلَامُ عَلَى ‌مَنِ ‌اتَّبَعَ الْهُدَى

 منها:36۔متابعت پیغمبر خداﷺ کی نیت :

میں وتر کی نماز بھی رات کے پہلے حصے میں ادا کر تا تھا اورکبھی پچھلے حصے میں ، ایک رات مجھ پر ظاہر کیا کہ تاخیر کی صورت میں ادائے وتر کی نیت سے جو نمازی سوجا تا ہے کہ رات کے آخری حصہ میں ادا کروں گا تو کراماً کاتین رات بھروتر ادا کرنے تک اس کی نیکیاں درج کرتے رہتے ہیں ، پس وتر کی نماز جتنی دیر سے ادا کر یں گے اتناہی اچھا ہے باوجوداس بات کے مجھے وتر کی قبل و تاخیر سے سواۓ متابعت نبوی ﷺ کے اور کچھ مقصود نہیں ، میں کسی فضیلت کو متابعت نبوی ﷺ کے برابر نہیں سمجھتا ، جناب سرور کائناتﷺ وتر کی نماز بھی رات کے پہلے حصے میں ادا کر تے  تھے اور کبھی آخری حصے میں ، میں اپنی سعادت اس بات میں جانتا ہوں کہ کسی کام میں آنحضرت ﷺ سے تشبیہ حاصل کروں ،اگر چہ تشبیہ بحسب صورت ہی ہو ، لوگ بعض سنتوں میں شب بیداری کی نیت کر تے ہیں اور دوسری باتوں کو دخل دیتے ہیں مجھے ان کی کوتاہ اندیشی پر تعجب آتا ہے، ہم تو جو بھر متابعت کے بدلے ہزار شب بیداری کو بھی نہ خریدیں ، جب ہم ماہ ر مضان کے آخری دس دنوں میں معتکف ہوۓ تو یاروں کو بلا کر کہا کہ سواۓ متابعت کے اور کچھ نیت نہ کرنا کیونکہ ہماری قطع تعلقی کچھ وقعت نہیں رکھتی ، ہم ایک متابعت کوسوگرفتاری سے قبول کرتے ہیں لیکن غیر متابعت سے ہزار قطع تعلق کو بھی قبول نہیں کرتے

آن را که در سراۓ نگاریست فارغ است از باغ و بوستان و تماشائے لالہ زار

اللہ تعالی جناب سرور کائنات ﷺ کی متابعت ہمارے نصیب کرے۔

منها: 37۔محبت ذاتی اور محبت صفاتی :

ایک دفعہ میں چند درویشوں سمیت بیٹھا تھا، میں نے اس محبت کے غلبہ کی وجہ سے جو مجھے جناب سرور کائنات ﷺ سے ہے کہا کہ آنحضرت ﷺ کی محبت مجھ پر اس طرح غالب ہے کہ میں حق تعالی کو صرف اس واسطے پیار کرتا ہوں کہ وہ محمد مصطفے ﷺ کا رب ہے، حاضر میں یہ سن کر حیران رہ گئے لیکن مخالفت نہ کر سکتے تھے ، یہ بات رابعہ بصری پیڈیا کی بات کا بالکل نقیض ہے کہ فرماتی ہیں کہ میں نے جناب سرور کائنات ﷺﷺﷺ کی خدمت میں خواب میں عرض کیا کہ اللہ تعالی کی ۔ محبت مجھ پر اس درجہ غالب ہے کہ آپ کی محبت کی گنجائش نہیں رہی ، می دونوں باتیں سکر سے ہیں لیکن میری بات اصلیت رکھتی ہے مگر رابعہ نے محض سکر ہی کی حالت میں کہی ہے اور میں نے ہوش کے آغاز میں ، ان کی بات صفات کے مرتبہ کے متعلق ہے اور میری بات مرتبہ ذات سے رجوع کرنے کے بعد کی ،اس واسطے کہ مرتبہ ذات میں اس قسم کی محبت کی گنجائش نہیں ،تمام نسبتیں اس مرتبہ سے نیچے ہی رہ جاتی ہیں ، وہاں پر سر پسر یا حیرت ہے یا جہل ، بلکہ اس مرتبہ میں سالک کے بڑے ذوق سے محبت کی نفی کرتا ہے اور کسی طرح سے بھی اپنے آپ کو اس محبت کے لائق نہیں جانتا، محبت اور معرفت صرف صفات میں ہوتی ہے، جسے محبت ذاتی کہتے ہیں اس سے مراد ذات احدیت نہیں بلکہ ذات معہ بعض اعتبارات ذات ہے، پس رابعہ بصری پیا کی محبت مرتبہ صفات میں ہے، والـلـه اعـلـم بـالـصـواب ، والصلوة والسلام على سيد البشر واله الاطهر

 منها: 38۔علم باطن کی علم ظاہر پر فضیلت :

علم کی شرافت معلوم کے شرف ورتبہ کے موافق ہوا کرتی ہے ،معلوم جس قد رشریف ہو گا علم اسی قدر عالی ہوگا ، پس باطنی علم جس سے صوفیا ممتاز ہیں ، ظاہری علم سے جوعلا ظاہر کے نصیب ہے اشرف ہے ، جس طرح کہ علم ظاہری علم حجامت اور کپڑا بننے سے اشرف ہے، پس پیر کے آداب کاملحوظ رکھنا جس سے علم باطن اخذ کیا ہو علم ظاہری کے استاد کے آداب ملحوظ رکھنے سے بدر جہاز یادہ ہے، اسی طرح ظاہری علم کے استاد کا ادب نجام اور جولا ہے سے بدر جہا زیادہ کرنا چاہیئے ، یہی فرق ظاہری علوم میں باہمی ہے، چنانچہ صرف ونحو کے استاد سے علم کلام اور فقہ کا استاد افضل ہے اور علوم فلسفہ کے استاد سے صرف ونحو کا استاد افضل ہے کیونکہ علوم فلسفی معتبر علوم میں داخل نہیں ، اس واسطے کہ ان کے اکثر مسائل بیہودہ اور بے حاصل ہیں اور جوتھوڑے مسائل اسلامی کتابوں سے اخذ کئے ہیں ان میں بھی ایسے تصرفات کئے ہیں جو جہل مرکب سے خالی نہیں ،عقل میں ان کی بو تک نہیں ، نبوت کا طور اور ہے اور عقل نظری کا اور واضح رہے کہ پیر کے حقوق تمام حقوق سے فائق ہیں بلکہ اللہ تعالی اور اس کے رسول کے حقوق کو چھوڑ کر دوسرے حقوق کو پیر کے حقوق سے کوئی نسبت ہی نہیں بلکہ سب کے حقیقی پیر جناب پیغمبر خدا ﷺ ہیں ۔ ظاہری ولادت اگر چہ والدین سے ہوتی ہے لیکن معنوی پیدائش پیرسے مخصوص ہے، ظاہری ولادت کی زندگی چند روزہ ہوتی ہے اور حقیقی ولادت کی زندگی ابدی ہوتی ہے ،مرید کی باطنی پلیدی کو صاف کرنے والا پیرہی ہے جو اپنے قلب وروح سے مرید کے باطن کی پلیدی کو صاف کرتا ہے اور اس کے معدے کو پاکیزہ بنا تا ہے ، بعض طالبوں کو جب توجہ دی جاتی ہو تو واقعی محسوس ہوتا ہے کہ ان کی باطنی نجاستوں کو صاف کرتے ہوۓ صاحب توجہ پر بھی آلودگی اثر کرتی ہے اور دیر تک مکد رکھتی  ہے، پیر ہی کے وسیلے سے انسان خدارسیدہ ہوتا ہے، بی خدارسیدگی تمام دنیاوی اور اخروی سعادتوں سے افضل ہے، پیراہی کے وسیلے سے نفس امارہ جو بالذات خبیث ہے پا کیزہ ہو جا تا ہے اور امارگی کو چھوڑ کر اطمینان حاصل کرتا ہے اور ذاتی کفر ترک کر کے حقیقی اسلام اختیار کرتا ہے ……. گر گویم شرح ای بی و……….پس اپنی سعادت پیر کی قبولیت میں خیال کرنی چاہیئے اور اپنی بدبختی اس کے ردکر نے میں نعوذ بالله سبحانه من ذالك رضاۓ حق پیر کے پردہ کے پیچھے رکھی ہوئی ہے، جب تک مرید اپنے آپ کو پیر کی مرضیات میں گم نہیں کر تا حق تعالی کی مرضیات تک نہیں پہنچتا،مرید کی آفت پیر کو ناراض کر نے میں ہے ،اس کے بغیر جو خواری ہے اس کا تدارک ہوسکتا ہے لیکن پیر کی ناراضگی کا تدارک ناممکن ہے، پیر کی نا رائسگی مرید کیلئے بدبختی کی جڑ ہے نعوذ باللہ سبحانہ من ذالک اس ناراضگی سے اسلامی معتقدات میں خلل اور احکام شرعیہ کے بجالانے میں فتور آ جا تا ہے، باطنی احوال ومواجید کا تو کچھ پوچھو ہی نہیں ، اگر پیر کوستانے کے بعد بھی احوال کا کچھ اثر رہے تو اسے استدراج سمجھنا چاہیئے کیونکہ آخر اس کا نتیجہ خراب ہوتا ہے، سواۓ نقصان کے اور کچھ نتی نہیں نکلتا، وَالسَّلَامُ عَلَى ‌مَنِ ‌اتَّبَعَ الْهُدَى ۔

منها : 39۔موت قبل از موت کی حقیقت:

قلب عالم امر سے ہے ، اسے عالم خلق سے تعلق اور تعشق دے کر عالم کی طرف نیچے لایا گیا اور گوشت کے ٹکڑے سے جو بائیں طرف ہے خاص تعلق بخشا ہے ، اس کی مثال ایسی ہے جیسے بادشاہ کسی خاکروب پر عاشق ہو اور اس کے سبب سے اس خاکروب کے گھر رہے اور روح جو قلب سے زیادہ لطیف ہے اصحاب کمین سے ہے اور تین لطیفوں سے جواطیفہ روح سے اوپر ہیں ، خیر الامور اوسطھا کے شرف سے مشرف ہیں ، جتنے زیادہ لطیف ہیں ، اتنے ہی وسط سے زیاد و مناسب ہیں ،صرف اتنی بات ہے کہ سر اور فی اخفی کے دونوں طرف ہیں ، ایک دائیں طرف اور دوسرا بائیں طرف واقع ہے نفس حواس کا محاسبہ مجاور ہے، اس کا تعلق دماغ سے ہے ، قلب کو ترقی اس وقت ہوتی ہے جب وہ مقام روح اور اس کے روبرو کے مقام میں پہنچتا ہے ، اسی طرح روح اور اس کے مافوق کی ترقی ان سے بالائی مقامات سے وابستہ ہے لیکن ابتدا میں یہ وصول بطریق احوال ہوتا ہے اور انتہا میں بطریق مقام نفس کو اس وقت ترقی ہوتی ہے جب وہ مقام قلب میں ابتدا میں بطریق احوال اور انتہا میں بطریق مقام پہنچ  جاۓ ، آخر کار یہ چھ لطائف مقام اخفی میں پہنچ جاتے ہیں اور تمام مل کر عالم قدس کی طرف پرواز کر نے کا قصد کر تے ہیں اور لطیفہ قلب کو خالی چھوڑ جاتے ہیں لیکن پرواز بھی ابتدا میں بطریق احوال ہوتی ہے اور انتہا میں بطریق مقام ہوتی ہے اور اس وقت فنا حاصل ہوتی ہے ،مرنے سے پہلے جس موت کی بابت کہا ہے اس سے مراد قلب سے انہیں کچھ لطائف کی جدائی ہے ، قالب میں ان کی مفارقت کے بعد بھی حس وحرکت رہتی ہے ، اس بات کا بیان اور جگہ لکھا گیا ہے وہاں سے مطالعہ کرنا چاہیئے اس کتاب میں اس کی تفصیل کی گنجائش نہیں ، اس کتاب میں صرف اشارتا اور کتابیتا باتیں درج ہیں، یہ ضروری نہیں کہ تمام لطائف ایک مقام میں جمع ہو کر وہاں سے پرواز کر میں بھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ قلب اور روح دونوں متفق ہو کر یہ کام کرتے ہیں، کبھی تین بھی چارمل کر یہ کام کرتے ہیں لیکن جب چھیل کر پرواز کر میں تو یہ نہایت اعلی و اکمل درجہ ہے اور ولایت محمدی ﷺ سے مخصوص ہے ، اس کے سوا جو ہے وہ ولایت کی ایک قسم ہے، اگر وہ کچھ لطائف قالب سے جدا ہونے کے بعد مقام وصول میں پہنچ کر اسی رنگ سے رنگے جائیں اور پھر قالب میں لوٹ آئیں اور جبی تعلق کے سوا اور کوئی تعلق پیدا کریں ، قالب کا حکم پیدا کر یں ، ملنے کے بعد ایک قسم کی فنا پیدا کریں اور بطور مردہ ہو جائیں تو اس وقت خاص تجلی سے متجلی ہو جاتے ہیں ، از سرنو زندگی پیدا کر کے مقام بقاء باللہ حاصل کرتے ہیں اور اخلاق الہی سے متعلق ہو جاتے ہیں ، ایسے وقت میں اگر وہ ضلعت بخش کر پھر عالم میں بھیجے جائیں تو معاملہ نزد یک سے دور جا پڑتا ہے اور مقدمہ تکمیل پیدا ہوتا ہے ، اگر پھر جہان میں نہ بھیجیں اور قرب کے بعد بعد حاصل نہ ہو تو وہ اولیاۓ عزلت سے شمار ہوگا اور اس کے ہاتھ سے طالبوں کی تربیت اور ناقصوں کی تعمیل نہ ہو گی ، یہ ہے کہانی ہدایت ونہایت کی طریق رمز و اشارہ سے لیکن اس کا سمجھنا بغیر ان منزلوں کو ملے کئے محال ہے،وَالسَّلَامُ عَلَى ‌مَنِ ‌اتَّبَعَ الْهُدَى  والتزم متابعة المصطفى عليه وعلى اله الصلوة والسلام۔

منها:40۔کلام الہی کا سر بستہ راز :

 حضرت حق سبحانہ وتعالی ازل سے ابد تک ایک ہی کلام سے متکلم ہے ، اس کلام کے اجز انہیں ہیں کیونکہ حق تعالی کے حق میں خاموشی یا گونگا پن کا ہونا محال ہے ، کوئی عجب نہیں کہ ازل سے ابد تک وہاں ایک ہی ساعت ہو کیونکہ وہاں زمانے کا دخل نہیں ، ایک گھڑی میں سواۓ کلام واحد اور بسیط کے اور کیا وقوع میں آ سکتا ہے، اس کلام واحد سے کئی قسم کے کلام پیدا ہوتے ہیں جو بلحاظ تعلقات مختلف قسم کے ہیں ، مثلا اگر مامور کے متعلق ہے تو امر پیدا ہوا ہے اور اگر رکاوٹ کے متعلق ہے تو نہی نام پایا ہے، اگر رضا کے متعلق ہے تو خبر ہوگئی ہے، آمدم بر سر مطلب، ماضی و مستقبل کی خبر دینا بہت سارے لوگوں کو شک میں ڈال دیتا ہے ، دلالت کرنے والے کا تقدم و تاخر مدلول کے تقدم و تاخر کو ظاہر کرتا ہے، سو یہ کوئی شبہ نہیں کیونکہ ماضی مستقبل دلالت کرنے والوں کی مخصوصہ صفات ہیں جواس گھڑی کے انبساط کے لحاظ سے پیدا ہوئی ہیں ، جب مرتبہ مدلول میں وہ گھڑی اپنی اصلی حالت پر ہے اور کسی قسم کا انبساط اس میں نہیں آیا تو پھر ماضی ومستقبل کی گنجائش کیسے ہوسکتی ہے ، ار باب معقول نے کہا ہے کہ ایک ہی ماہیت کیلئے بلحاظ وجود خارجی لوازمات علیحدہ ہیں اور بلحاظ وجود پانی صفات جدا ، پس جبکہ ایک ہی شے میں صفات ولوازمات کا فرق بلحاظ وجود وہو میت کے تخائر کے جائز ہے تو دال و مدلول میں جو فی الحقیقت  ایک دوسرے سے جدا میں بطریق اولی جائز ہے اور یہ جو کہا ہے کہ ازل سے ابد تک ایک ہی گھڑی ہے یہ عبارت کی تنگی کی وجہ سے کہا گیا ہے ورنہ وہاں تو اس کی بھی گنجائش نہیں ، وہ بھی زمانے کی طرح یہاں ثقیل ہے۔ واضح رہے کہ جوممکن مقامات قرب الہی میں دائرہ امکان سے قدم باہر رکھتا ہے تو ازل ابد کو ملا ہوا پاتا ہے ، جناب سرور کائنات ﷺ نے شب معراج مقامات عروج میں حضرت یونس علی کو مچھلی کے پیٹ میں پایا اور نوح علیہ کے طوفان کوموجودد یکھتا، اہل بہشت کو بہشت میں دیکھا اور اہل دوزخ کو دوزخ میں، پانچ سوسال بعد جو آدھے دن کے برابر ہے بہشت میں داخل ہونے کے بعد ایک غنی صحابی عبد الرحمن بن عوف ﷺ کو بہشت میں آتے ہوۓ دیکھ کر آنحضرت ﷺ نے اس سے دیر سے آنے کی وجہ پوچھی تو اس نے اپنے دشوار گزار راستوں کا ذکر کیا، یہ سب کچھ ایک گھڑی میں مشہود ہوا ، اس میں ماضی ومستقبل کی گنجائش نہ تھی ، مجھ پر بھی حبیب خدا ﷺ کے صدقے ایک وقت میں یہ حالت طاری ہوئی تھی کہ میں نے فرشتوں کو دیکھا کہ حضرت آدم عالم کوسجدہ کر رہے ہیں اور ابھی انہوں نے سجدہ سے سرنہیں اٹھاۓ کہ ملائکہ علمین کو ان سجدہ کرنے والوں سے الگ دیکھا، جنہیں سجدے کا حکم نہیں ہوا تھا، وہ اپنے مشہود میں مستغرق تھے اور جن حالات آخرت میں گزرنے کا وعدہ کیا گیا ہے وہ بھی اس گھڑی میں دکھائی دیئے ، چونکہ اس واقعہ کو مدت گزرچکی ہے اس احوال آخرت کو فصل بیان نہیں کیا کیونکہ مجھے اپنی قوت حافظہ پر پورا بھروسا نہیں رہا لیکن اتناسمجھ لینا چاہیئے کہ یہ حالت آنحضرت ﷺ کے وجودا در روح دونوں پر طاری ہوئی تھی اور آپ نے بصارت و بصیرت دونوں سے دیکھا تھا، دوسرے جوفیلی ہیں ان پراگر بطریق تبعیت می حالت طاری ہو تو فقط روح پر ہوگی اور صرف بصیرت سے مشاہدہ کر یں گے ،ظاہری آنکھوں سے نہیں دیکھیں گے قافله که اوست دانم نریم این بسکہ رسد زوار با تگ جرم علیه و على اله من الصلوات والتسليمات اتمها واكملها

منها:41۔ تکوین صفت حقیقی ہے:

محکومین واجب الوجود کی ایک حقیقی صفت ہے ،امام ابو الحسن اشعری پینے کے پیرو کار تکوین کو ایک اضافی صفت جانتے ہیں ، جہان کو وجود میں لانے کیلئے قدرت اور ارادہ ہی کو کافی خیال کرتے ہیں لیکن حق یہ ہے کہ تکوین ایک الگ صفت ہے جو قدرت اور ارادت کے علاوہ ہے، اس کا بیان یہ ہے کہ قدرت در حقیقت فعل وترک کی صحت ہے اور ارادہ قدرت کے دونوں پہلوؤں مینی فعل وترک کی تخصیص ہے، پس قدرت کا مرتبہ ارادہ کے مرتبہ سے مقدم ہے، تکوین کا مرتبہ جسے ہم ایک حقیقی صفت خیال کرتے ہیں قدرت دارادت کے مرتبہ کے بعد ہے، اس کا کام طرف تخصیص شدہ کو وجود میں لانا ہے ، پس قدرت فعل کی مصحیح ہے اور ارادت اس کی تخصیص کر نے والی ہے اور تکوین اس کی موجود ہے ، پس قدرت اور ارادت کے علاوہ تکوین بھی ضروری ہے ، اس کی مثال استطاعت مع الفعل کی طرح ہے جسے اہل سنت کے علماء نے بندوں میں ثابت کیا ہے ، اس میں شک نہیں کہ یہ استطاعت قدرت کے ثبوت کے بعد ہے بلکہ ارادت کے متعلق اور ایجاد کی تحقیق کے بعد اسی استطاعت سے وابستہ ہے بلکہ وہ استطاعت ہی موجب فعل ہے اور ترک کا پہلو وہاں مفقود ہے ،صفت تکوین کی بھی یہی حالت ہے کہ ایجاد اس کے ساتھ بطریق ایجاب ہے لیکن یہ ایجاب واجب تعالی کو نقصان نہیں پہنچا سکتا کیونکہ وہ قدرت کے حاصل ہونے کے بعد ثابت ہوتا ہے، اصل میں قدرت ہی فعل و ترک کی صحت ہے نیز ارادہ کی تخصیص کے بعد تکوین ہے اور یہ بات حکماۓ فلسفہ کی راۓ کے خلاف ہے کیونکہ وہ کہتے ہیں کہ یہ پہلا شرطیہ (اگر چا ہے تو پیدا کر سکتا ہے ، واجب الصدق ہے اور دوسرا شرطیہ ( اگر نہ چاہے تو نہیں پیدا کرتا ممتنع الصدق ہے ،انہوں نے ارادت کی نفی کی ہے ، جوصر بیجا ایجاب میں ہے، اللہ تعالی اس سے بہت برتر ہے، وہ ایجاب جوارادت کے تعلق اور دونوں مقدوروں میں سے ایک کی تخصیص کے بعد پیدا ہوا ہے اس کیلئے اختیار لازمی امر ہے ، اس کی تاکید کرنے والا اختیار کا منافی نہیں ، صاحب فتوحات یعنی شیخ محی الدین ابن عربی ﷺ کا کشف بھی حکما کی رائے کے موافق واقع ہوا ہے یعنی قدرت میں پہلے شرطیہ کو واجب الصدق اور دوسرے شرطیہ کو متنع الصدق جاتا ہے اور یہ جانتا ایجاب ہے ایسی صورت میں ارادہ فضول معلوم ہوتا ہے کیونکہ یہاں فعل با ترک کی تخصیص کوئی بھی نہیں، ہاں اگر تکوین میں اس بات کو ثابت کر میں تو گنجائش ہے کیونکہ وہ ایجاب کی ملاوٹ سے مبرا ہے، میفرق بہت ہی بار یک ہے، اس کے بیان کی جرات وسبقت بہت کم اشخاص نے کی ہے ، گو علمائے ماتریدیہ نے اس صفت کو ثابت کیا ہے لیکن اس قد رغور وخوض سے کام نہیں لیا ، سنت نبوی ﷺ کی پیروی کے سبب وہ تمام متکلمین میں اس معرفت سے ممتاز ہیں، یہ حقیر بھی ان بزرگوں کا خوشہ چین ہے ، اے اللہ! ہمیں اپنے حبیب اکرم ﷺ کے صدقے ان کے معتقدات پر ثابت قدم رکھنا ۔

 منها: 42۔باری تعالی کا دیدار :

اللہ تعالی جل شانہ کا دیدار آخرت میں مومنوں کو نصیب ہوناحق بات ہے، یہ وہ مسئلہ ہے جس کو سواۓ اہلسنت و جماعت کے کسی اسلامی فرقہ یا حکماۓ فلسفہ نے جائز نہیں مانا ، ان کے انکار کا باعث حاضر پر غائب کا قیاس ہے اور ایسا قیاس برا ہے، دکھائی دینے والی چیز جب بے مثل و بے مانند ہو گی تو اس کی متعلقہ رؤیت بھی بے مثل و بے مانند ہوگی ، اس پر ایمان لانا چاہیئے ، اس کی کیفیتوں میں مشغول نہیں ہونا چاہیئے ، یہ بھید دنیا میں بھی خاص خاص اولیا پر ظاہر کیا گیا ہے اگرچہ اسے رؤیت تو نہیں کہہ سکتے لیکن پھر بھی رؤیت ہی ہے گویا کہ تو اسے دیکھتا ہے، انشاء اللہ قیامت کے دن تمام مومن اسے ظاہری آنکھوں سے دیکھ لیں گے لیکن انہیں ادراک نہ ہوگا کیونکہ اسے آنکھیں نہیں دیکھ سکتیں ، صرف دو چیزیں دریافت کریں گے، ایک علم یقین کہ دیکھتے ہیں اور دوسرا حظ ولذت جو رؤیت سے حاصل ہوگا سواۓ ان دو چیزوں کے باقی تمام لوازمات دید مفقود ہوں گے ، یہ مسئلہ علم عقائد کا نہایت ہی دقیق مسئلہ ہے ،عقل اس کے اثبات و تصور میں عاجز ہے ، صرف انبیا کرام  کے پیرو کار علما و صوفیا نے اس نورفراست سے جو انوار نبوت سے مقتبس (لیا گیا) ہے دریافت کیا ہے ، اسی طرح سے علم کلام کے اور مسائل کا حل ہے جن کے ثابت کرنے میں عقل عاجز ومتحیر ہے  ان میں  علمائے اہل سنت کو صرف نور فراست حاصل ہے، صوفیا کو نور فراست بھی ہے اور کشف و شہود بھی ، کشف و فراست میں وہی فرق ہے جو بدیہی(بغیر غور و فکر) اور حدسی(اندازہ اور تخمینہ  کے متعلق چیزیں) میں ہے ،فراست نظریات کو جن کیلئے دلیل کی ضرورت ہے بد یہات بناتی ہے اور کشف نظریات کو حدسیات بنا تا ہے اور جن مسائل کے اہلسنت قائل ہیں اور ان کے مخالف جن کا دار و مدار صرف عقل پر ہے ان مسائل کے منکر ہیں ، وہ تمام مسائل اسی قسم کے ہیں جو نور فراست سے معلوم ہوتے ہیں اور کشف صحیح سے دیکھنے میں آتے ہیں مگر ان مسائل کو واضح طور پر بیان کیا جاۓ تو اس سے مقصود تصویر و تنبیہ ہے نہ کہ نظر و دلیل سے ان کا اثبات ، کیونکہ عقلی نظر ان کے اثبات و تصویر میں اندھی ہے ، مجھے ان علماء پر تعجب آتا ہے جو ان مسائل کو دلائل سے ثابت کرنا اور مخالفوں کیلئے حجت قائم کرنا چاہتے ہیں ، نہ ہی یہ ان سے ہوسکتا ہے اور نہ ہی وہ اسے سرانجام دے سکتے ہیں ، اس واسطے مخالف خیال کر تے ہیں کہ ان کے مسائل بھی ان کے استدلات کی طرح بود ے اور ادھورے ہیں مثلا علمائے اہلسنت نے استطاعت مع الفعل(فعل کے ساتھ طاقت بھی رکھنا) کو ثابت کیا ہے ، یہ  مسئلہ ایک سچا مسئلہ ہے جونو رفراست اور کشف صیح سے معلوم ہوتا ہے لیکن جو دلائل اس کے ثبوت میں بیان کئے ہیں وہ سراسر بودے اور نامکمل ہیں ، ان کی سب سے ز بر دست دلیل یہ ہے کہ جو ہر کے مقابلہ میں عرض کو دوز مانوں میں عدم بقا ہے کیونکہ اگر عرض باقی ہوتو لازم آتا ہے کہ عرض عرض سے قائم ہو اور یہ حال ہے چونکہ اس دلیل کو مخالفوں نے بودی او را دھوری خیال کیا ہے اس واسطے ان کا یقین ہو گیا ہے کہ یہ مسئلہ بھی ادھورا ہے لیکن مخالفوں کو یہ معلوم نہیں کہ اہل سنت کا رہنما اس مسئلہ اور اسی قسم کے اور مسائل میں نورفراست ہے جو انوار نبوت سے حاصل کیا گیا ہے لیکن یہ ہماری کو تا ہی ہے کہ ہم حدسی و بد یہی کو مخالفوں کی نظروں میں نظری بناتے ہیں اور تکلف سے اس کے ثابت کر نے کی کوشش کر تے ہیں ، آمدم بر سر مطلب ، ہماری حدسی و بدیہی مخالفوں کیلئے حجت نہیں اور نہ بھی ہو تو بھی مضائقہ نہیں ، ہمارا کام صرف اطلاع دینا اور پہنچانا ہے ، جس میں مسلمانی کی علامات ہیں وہ خود بخود اختیار اور قبول کرے گا اور جو بے نصیب ہے وہ انکار کرے گا ، علماء اہلسنت میں شیخ الاسلام شیخ ابومنصور ماتریدی ﷺ کے اصحاب کا طریقہ کیا ہی عمد ہ  ہے جنہوں نے صرف مقاصد پر اکتفا کیا ہے اور فلسفی باریکیوں اور نکتہ چینیوں سے بالکل روگردانی کر لی ہے فلسفیوں کی طرح نظر واستدلال کا طریقہ علماء اہل سنت و جماعت میں شیخ ابوالحسن اشعری ﷺ سے شروع ہوا ہے ، ان کا یہ مدعا تھا کہ کسی طرح اہل سنت کے معتقدات کو فلسفی دلائل سے ثابت کر یں ، ایسا کرنا مشکل ہے بلکہ ایک طرح سے مخالفوں کوا کا بر دین پر طعن کرنے کی جرات دلانا اور طریق سلف کو ترک کرنا ہے، اللہ تعالی ہمیں اہل حق کے معتقدات کی متابعت پر ثابت قدم رکھے، جنہوں نے انوار نبوت على صاحبها الصلوات والتسليمات اتمها و اکملھا سے نور حاصل کیا ہے ۔

 منها : 43۔حواس کے بغیر مرتبہ یقین:

میں اس آمد کریمہ وَأَمَّا بِنِعْمَةِ رَبِّكَ فَحَدِّثْ(اور بہر حال  اپنے پروردگار کی نعمت کو بیان  کیا کریں) کے مطابق اس نعمت عظمی کا اظہار کرتا ہوں کہ مجھے علم کلام کے متعلقہ معتقدات کا یقین اہل سنت و جماعت کی رائے کے موافق عطا ہوا ہے اور یقین آ گیا ہے کہ اس کے مقابلے میں یقینی یقین بھی جوسب سے بہتر اور ظاہرتر بدیہیات کی نسبت حاصل ہوا ہے ظن بلکہ و ہم معلوم ہوتا ہے ،مثلا جب میں علم عقائد کے مسائل سے متعلق حاصل شدہ یقین کا مقابلہ اس یقین سے کرتا ہوں جو وجود آفتاب کی نسبت مجھے حاصل ہے تو اول الذکر کو موخر الذکر کی نسبت یقینی جانتا ہوں ، ارباب عقل خواہ اس بات کو قبول کر یں یا نہ کر یں بلکہ بالضر ورقبول نہیں کر یں گے کیونکہ یہ بات عقل سے پرے ہے، ظاہر میں عقل کو اس مقام سے سواۓ انکار کے اور کچھ حاصل نہیں ، اس معاملہ کی حقیقت یہ ہے کہ یقین دل کا کام ہے اور وہ یقین جو دل کو آفتاب کے وجود کی طرح حاصل ہوتا ہے وہ حواس خمسہ کے وسیلے سے ہوتا ہے جو بمنزلہ جاسوس ہیں اور جو یقین دل کو علم عقائد کے مسائل کے متعلق حاصل ہوا ہے اس میں ان حواس خمسہ میں سے کسی ایک کا بھی دخل نہیں بلکہ یہ یقین جناب باری تعالی سے بطریق الہام بلا واسطہ ہوا ہے ، پس پہلا یقین بمنز لہ علم الیقین ہے اور دوسرا بمنز لہ عین الیقین ،سوعلم الیقین اور عین الیقین میں بڑا فرق ہے

۔ شنیدہ کے بود مانند دیدہ۔دیکھے ہوئے کے برابر سنا کیسے ہوسکتا ہے۔

منھا 44:ارادے کی فنا :

جب محض فضل الہی سے طالب کا سینہ تمام مرادات سے خالی ہو جا تا ہے اور سواۓ حق کے اور کوئی اسے خواہش نہیں رہتی تو اس وقت وہ مقصود حاصل ہو جا تا ہے جو اس کے پیدا کرنے سے تھا اور وہ حقیقی بندگی بجالاتا ہے ، بعد ازاں اگر چاہتے ہیں تو اسے ناقصوں کی تربیت کیلئے واپس کرتے ہیں اور اپنے پاس سے اسے ارادہ عطافرماتے ہیں اور اختیار عنایت کرتے ہیں جس کے سبب سے وہ قولی اور فعلی تصرفات میں مجاز ومختار ہوتا ہے جیسا کہ اذن دیا ہوا غلام، مقام خلق با خلاق اللہ میں صاحب ارادہ جو کچھ چاہتا ہے دوسروں کے واسطے چاہتا ہے نہ کہ اپنے لئے اور دوسروں کی مصلحتیں اس کے مدنظر ہوتی ہیں نہ کہ اپنے نفس کی جیسا کہ واجب تعالی کے ارادے کا حال ہے کہ جو کچھ کرتا ہے مخلوق کی خاطر کرتا ہے، بلکہ بلند ترین مثال اللہ کے لیے ہے، یہ نہ ضروری ہے اور نہ جائز کہ جو کچھ یہ صاحب ارادہ چاہے ظہور میں آۓ کیونکہ ایسا ہونا شرک ہے اور بندگی اس کی برداشت نہیں کر سکتی چنانچہ اللہ تعالی جل شانہ نے اپنے حبیب کریم ﷺ کو فرمایا: إِنَّكَ ‌لَا ‌تَهْدِي مَنْ أَحْبَبْتَ وَلَكِنَّ اللَّهَ يَهْدِي مَنْ يَشَاءُ ، جسے تو چاہے(بالذات) ہدایت نہیں کر سکتا جسے اللہ تعالی چاہے اسے ہدایت کرتا ہے ، جب آنحضرت ﷺ کا ارادہ توقف میں پڑے تو دوسروں کی کیا ہستی ہے نیز یہ بھی ضروری نہیں کہ صاحب ارادہ کی تمام مراد یں(جنکا وہ رادہ کرے) مرضی حق کے مطابق ہوں اگر ایسا ہوتا تو جناب باری تعالی سے آنحضرت ﷺ پر اعتراض نازل نہ ہوتا جیسا کہ فرمایا مَا كَانَ لِنَبِيٍّ أَنْ يَكُونَ لَهُ أَسْرَى حَتَّى يُثْخِنَ فِي الْأَرْضِ ور معافی کی گنجائش نہ ہوتی عَفَا اللَّهُ عَنْكَ لِمَ أَذِنْتَ لَهُمْ ، اللہ تعالی نے تجھے معاف کیا، معافی ہمیشہ تقصیرات  (یہاں تقصیرات سے مراد اگر اولیا کرام کی تقصیرات   ہیں تو بات اور ہے اور اگر ان کی نسبت حضور سراپا نور ﷺ کی طرف ہے تو ان کا مطلب گناہ کبیر اور صغیرہ نہیں کیونکہ اس پر اجماع ہے کہ انبیا کرام  کبیرہ اور صغیرہ گناہوں سے معصوم ہوتے ہیں ، یہاں تقصیرات سے مراد وہ د نیوی احکام ہیں جن میں آپ کو اجتہاد کا اختیار دیا جاتا تھا اور بسا اوقات امت کی بہتری کے لیے آپ افضل اور اولی کام کو ترک کر کے امر فاضل کا اکتساب کر تے تھے،بنا بریں اللہ تعالی کی طرف سے صورتا عتاب ہوتا تھا جو حقیقی محبت الہی کا ایک حسین باب ہوتا تھا کیونکہ انبیا کرام کا ترک افضل غیر انبیا کے ترک واجب کےبمنزلہ ہے ، ( شرح فقہ اکبر ۲) حدیث پاک میں ہے کہ حضور سراپا نور ﷺ نے حضرت عبداللہ ابن ام مکتوم کی آمد پر فرمایا مرحبا بمن عاتبني فيه ربی و مرحبا اس کی وجہ سے میر ےرب نےمجھ پر عتاب فرمایا               )میں ہوتی ہے، اس سے یہ بھی معلوم ہواکہ اللہ تعالی تمام مرادات حق بھی مرضیات حق نہیں ،مثال کفرو گناہ۔

منها:45۔قرآن اور مقام ہدایت:

 اس کام میں میرا امام کلام اللہ اور میرا پیر قرآن مجید ہے ،اگر قرآن شریف کی ہدایت نہ ہوتی تو حقیقی معبود کی عبادت کی راہ نہ کھلتی ، اس راہ میں ہر ایک لطیف و الطف انا اللہ پکار کر سالک راہ کو اپنی پرستش میں مصروف کر لیتا ہے اگر چون ہے تو اپنے آپ کوبیچون ظاہر کرتا ہے ، اگر تشبیہ ہے تو تنزیہ کی صورت میں جلوہ گر ہوتی ہے ، یہاں امکان و وجوب آپس میں خلط ملط دکھائی دیتے ہیں اور حدوث و قدم گڈمڈ محسوس ہوتے ہے ہیں ،اگر باطل ہے تو حق کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے ، اگر گمراہی ہے تو ہدایت کی شکل میں نمودار ہوتی ہے، بیچارہ سالک اند ھے مسافر کی طرح ہے کہ ہر ایک کو ھذار بی یہی میرا پروردگار ہے، کہتا آتا ہے، اللہ تعالی جل شانہ اپنے آپ کو زمین و آسمان کا پیدا کرنے والا اور مشرق ومغرب کا پروردگار بتا تا ہے، جب مجھے عروج کے وقت یہ خیالی معبود پیش کئے گئے تو میں نے سب سے انکار کیا اور سب زائل ہو گئے ،اس واسطے میں نے الا احب الافلین میں غروب وزائل ہونے والوں سے پیار نہیں کرتا ، کہتے ہوۓ سب سے منہ پھیرا اور سواۓ ذات واجب الوجود کے اور کسی کو قبلہ توجہ نہ بنایا، اللہ تعالی کا شکر ہے کہ اس نے ہمیں اس بات کی ہدایت کی ،اگر اللہ تعالی ہمیں ہدایت نہ کرتا تو کبھی سیدھی راہ پر نہ آتے ، ہمارے پروردگار کے رسول سب  سچے ہیں جو کچھ وہ اللہ تعالی کی طرف سے لاۓ ہیں سچ اور حق ہے ۔

منها : 46۔خواجہ باقی رحمۃ اللہ علیہ سے عقیدت مجدد:

 ہم چار شخص اپنے خواجہ صاحب ﷺ کی ملازمت میں باقی تمام یاروں سے ممتاز تھے، ہم چاروں کا اعتقادخواجہ صاحب ﷺ کی نسبت الگ الگ تھا اور ہمارا معاملہ بھی ایک دوسرے سے نرالا تھا ، میرا یہ یقین تھا کہ اس قسم کی صحبت و اجتماع اور اس طرح کی تربیت اور ارشاد جناب سرور کائنات ﷺ کے زمانے کے بعد کبھی میسر نہیں ہوئی، اس نعمت کا شکر بجا لا یا کرتا تھا کہ مجھے جناب سرور کائنات ﷺ کی صحبت کا شرف تو حاصل نہیں ہوا لیکن اس صحبت کی سعادت سے محروم نہیں رہا ، ہمارے خواجہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے باقی تین کے احوال کی نسبت یوں فرمایا کہ فلاں شخص مجھے صاحب تکمیل جانتا ہے لیکن صاحب ارشاد خیال نہیں کرتا ۔ اس کے نزدیک ارشاد کا مرتبہ تکمیل کے مرتبے سے زیادہ ہے ، دوسرے کی نسبت فرمایا کہ اس کا ہم سے کچھ سروکار نہیں ، تیسرے کی نسبت فرمایا کہ وہ ہمارا منکر ہے ، ہم میں سے ہر ایک کو اعتقاد کے موافق حصہ ملا ، واضح رہے کہ مرید کو اپنے پیر سے جو محبت ہوتی ہے اور فائدہ اٹھانے اور پہنچانے کے سبب کی مناسبت کا نتیجہ پیر کو فضل اور اکمل جانتا ہے، لیکن یہ ضروری ہے کہ پیر کو ان لوگوں سے افضل نہ جانے جن کی فضیلت شرع میں مقرر ہے کیونکہ ایسا کرنا افراط میں داخل ہے اور اچھا نہیں ، شیعہ لوگوں کی خرابی محض اہل بیت سے محبت کی افراط سے ہوئی ہے اور عیسائیوں کو حضرت عیسی علیہ السلام کی افراط محبت سےیہ خرابی ملی ہے کہ انہیں اللہ تعالی کا بیٹا کہتے ہیں ، اس واسطے ابدی نقصان میں مبتلا ہیں لیکن اگر ان کے سوا فضیلت دے تو جائز ہے بلکہ طریقت میں واجب ہے، یہ فضیلت دینا مرید کے اختیار میں نہیں بلکہ اگر مرید سعادت مند ہے تو خود بخود بے اختیار اس میں یہ اعتقاد پیدا ہو جا تا ہے اور اس کے وسیلے سے پیر کے کمالات کو حاصل کرتا ہے، اگر یہ فضیلت دینا مر یداپنے اختیار وتکلف سے پیدا کرے تو جائز نہیں اور نہ اس کا کچھ نتیجہ برآمد ہوتا ہے۔

 منها:  47۔نفی و اثبات کا ذکر :

نفی واثبات میں اعلی درجہ لا الہ الا اللہ کے کلمہ طیبہ میں یہ ہے کہ جو کچھ دیدو دانش اور کشف و شہود میں آۓ خواہ وہ محض تنز یہ دبے کیف ہوسب کچھ لا کے تحت میں داخل ہو اور اثبات کی جانب میں سواۓ اللہ کہنے کے جو دل کی موافقت سے کہا جاۓ اور کچھ نصیب نہ ہو

عنقا شکار کس نشود دام باز چین کایں جاہمیشہ باد بدست است دام را

اٹھا لے جا ل عنقا بھلا  کب کسی کے ہاتھ آتا ہے یہا ہر جال لگانے والا خالی ہاتھ جاتا ہے۔

وَالسَّلَامُ عَلَى ‌مَنِ ‌اتَّبَعَ الْهُدَى والتزم متابعة المصطفى عليه وعلى اله الصلوت والتسليمات

منها: 48 ۔حقائق ثلاثہ کا بیان :

 قرآنی حقیقت اور کعبہ ربانی کی حقیقت دونوں حقیقت محمدی سے اوپر ہیں ، یہی وجہ ہے کہ قرآنی حقیقت حقیقت محمدی کی امام اور کعبہ ربانی کی حقیقت حقیقت محمدی کا مسجود ہے، باوجود اس بات کے کہ کعبہ ر بانی کی حقیقت قرآنی حقیقت سے بڑھ کر ہے، وہاں سر بسر بے صفتی اور بے رنگی ہے اور شیون واعتبارات کی وہاں گنجائش نہیں، تنزیہ و تقدیس کی وہاں مجال نہیں………. آنجا ہمہ آنست کہ برتر زبان است(وہاں ہر چیز ایسی ہےجو بیان سے بالا تر ہے)..یہ ایسی معرفت ہے جس کے بارے میں کسی اہل اللہ نے لب کشائی نہیں کی اور رمز اور اشارہ کے طور پر بھی اس کے متعلق بات نہیں کی ، مجھے اس معرفت عظمی سے مشرف کیا ہے اورا بناۓ جنس میں ممتاز فرمایا ہے ، یہ سب کچھ حبیب خدا ﷺ کے صدقے نصیب ہوا ہے ۔ واضح رہے کہ جس طرح چیزوں کی صورتوں کا مسجودصورت کعبہ ہے اسی طرح ان اشیاء کے حقائق کا مسجود حقیقت کعبہ ہے، میں ایسی عجیب بات بیان کرتا ہوں کہ جسے نہ کسی نے کہا نہ سنا، مجھے اللہ تعالی نے خبر دی اس واسطے میں لوگوں کو اس سے آگاہ کرتا ہوں، یہ سب کچھ اس کے فضل و کرم سے ہے، جناب سرور کائنات ﷺکے عہد مبارک سے کچھ اوپر ہزار سال بعد ایسا زمانہ آ رہا ہے کہ حقیقت محمدی اپنے مقام سے عروج فرماۓ اور حقیقت کعبہ کے مقام سے مل کر ایک ہو جاۓ ، اس وقت حقیقت محمدی کا نام حقیقت احمدی ہواور وہ ذات احد کا مظہر بنے اور دونوں مبارک نام مسمی (مجموعہ حقیقت محمدی و حقیقت کعبہ)کو حاصل ہوں اور پہلا مقام حقیقت محمدی سے خالی ہو جاۓ جب تک حضرت عیسی علیہ السلام  نزول فرمائیں اور شریعت محمدی پر عمل کریں ، اس وقت حقیقت عیسوی اپنے مقام سے عروج کر کے حقیقت محمدی کے خالی شدہ مقام میں قرار کرے گی۔

منها:49۔کلمہ طیبہ کی فضیلت :

اگر کلمہ لا الہ الا اللہ نہ ہوتا تو جناب باری کی راہ کون دکھا تا اور توحید کے چہرہ پر سے نقاب کون اٹھا تا اور جنت کے دروازے کون کھولتا ،  صفات بشریت کے پہاڑ اس لا کے کدال سے اکھیٹرے جاتے ہیں اور بے شمار تعلقات اس نفی کے تکرار کی برکت سے دور ہوتے ہیں ، اس کلمہ کی نفی باطل معبودوں کو مات کرتی ہے اور اس کلمہ کا اثبات معبود حقیقی کو ثابت کرتا ہے ، سالک اس کی مدد سے امکانی مدارج طے کرتا ہے اور عارف اس کی برکت سے وجوبی معارج پر چڑھتا ہے ، یہ کلمہ طیبہ ہی ہے جو تجلیات صفات میں پہنچا تا ہے اور پھر تجلیات صفات سے تجلیات ذات تک لے جاتا ہے ۔

تا بجا روب لا نروبی راہ        نرسی  در سراۓ الا اللہ

لا کے جھاڑو سے جب تک اس راہ کی صفائی نہ ہو گی  اس وقت تک تو الا اللہ کی سرائے تک نہ پہنچے گا

وَالسَّلَامُ عَلَى ‌مَنِ ‌اتَّبَعَ الْهُدَى والتزم متابعة المصطفى عليه وعلى اله الصلوات والتسليمات

منها:50۔کیا معوذتین داخل قرآن نہیں

 مخددی شیخ شرف الدین منیری  اپنے مکتوبات میں لکھتے ہیں کہ معوذ تین کو نماز میں نہیں پڑھنا چاہیئے ، کیونکہ ابن مسعود ان دونوں سورتوں کی قرآنیت میں جمہور کے مخالف ہیں، پس ان دونوں سورتوں کی قرأت کو فرض قطعی میں شمار نہیں کرنا چاہیئے ، میں بھی نہیں پڑھتا تھاحتی کہ ایک روز اس فقیر پر ظاہر کیا گیا کہ گویا معوذتین موجود ہیں اور مخدوم شرف الدین کی شکایت کرتے ہیں کہ انہوں نے فرض میں ان کی قرأت کو کیوں ترک کیا گویا ہمیں قرآن شریف سے نکالا ہے، تب سے میں نے ان کا پڑھنا شروع کیا، چنانچہ نماز فریضہ میں پڑھنے لگا، جب ان دونوں سورتوں کو نماز فریضہ میں پڑھتا ہوں تو عجیب وغریب احوال کا مشاہدہ کرتا ہوں ، واقعی جب علم شریعت کی طرف رجوع کیا جائے تو ان دوسورتوں کو نماز فریضہ میں نہ پڑھنے کیلئے کوئی معقول وجہ نظر نہیں آتی بلکہ اس متفق علیہ حکم کی قطعیت میں شبہ ڈالنا ہے کہ جو کچھ دفتین (دو جلدوں)کے اندر ہے وہ قرآن ہے ، جب سورۂ فاتحہ سے سورہ کا ملانا واجب ہے تو پس دونوں سورتوں کا پڑھنا خواہ وہ بالفرض المحال خوا ہ ظنی ہی ہوں کوئی وجہ نہیں کہ انہیں فاتحہ کے ساتھ ملا کر نہ پڑھا جائے ، مجھے تو شیخ منیری  کے اس کلام پرسخت تعجب آتا ہے( شرح مواقف میں ہے کہ قرآن کریم کی بعض سورتوں میں بعض صحابہ کرام کا جو اختلاف منقول ہے دو اخبار آحاد سے ہے اور ان سورتوں کا قرآن ہونا تو اتر سے ثابت ہے ، آحاد میں اتنا قوت نہیں کہ وہ تواتر کے معارض ہوسکیں اور نہ ہی ظن یقین سے مزاحم ہو سکتا ہے ( تفسیر روح المعانی ) امام نووی فرماتے ہیں کہ حضرت ابن مسعود  سے جومعوذتین کی عدم قرآنیت کی نقل منقول ہے دوباطل ہے اور امام رازی نے بھی اس کو باطل قرار دیا ہے ۔)، والسلام علی سیدالبشر واله الاطهر –

منها:51۔شیخ کامل کی اتباع :

صوفیوں کے طریق بلکہ مذہب اسلام سے حظ وافراسی شخص کو حاصل ہو سکتا ہے جس میں تقلید کی فطرت اور متابعت کی جبلت زیادہ ہو، یہاں کام کا دارومدار تقلید پر ہے، اس مقام پر کام متابعت سے وابستہ ہے ، انبیا کرام کی تقلید اعلی درجات پر پہنچاتی ہے اور نیک لوگوں کی متابعت اعلی عروج پر پہنچاتی ہے، امیر المومنین حضرت ابو بکر صدیق  میں چونکہ یہ فطرت زیادہ تھی اس لئے بلا توقف تصدیق نبوت کی سعادت حاصل کی اور صدیقوں کے سردار بن گئے ، ابو جہل لعین میں چونکہ تقلید اور متابعت کا مادہ کم بلکہ نا پید  تھا اس واسطے اس سعادت سے مشرف نہ ہوا اور ملعونوں کا پیشوا بن گیا ،مرید کو جو کمال حاصل ہوتا ہے اپنے پیر کی تقلید سے حاصل ہوتا ہے، پیر کی خطامر ید کے صواب سے بہتر ہے، یہی وجہ ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق جناب سرور کائنات ﷺ کےسہو کوطلب کرتے  تھے’ باليتني كنت سهو محمد ،( حدیث پاک ہے کہ میں بھولتا نہیں بھلا یا جا تا ہوں تاکہ امت کے لیے بہت سے احکام وسیع کر دئیےجائیں قرآن پاک میں بھی ہے ہم آپ کو پڑھائیں گے، پس آپ نہ بھولیں گے مگر اس کے  جواللہ چاہے یادر ہے کہ عوام کا پ سہو مبنی برغفلت ہوتا ہے اور خواص کا سہومبنی بر حکمت ہوتا ہے۔) کاش! میں حضرت محمدمصطفی ﷺﷺ کا سہو بن جاتا ، جناب سرور کائنات ﷺ نے حضرت بلال کے حق میں فرمایا ہے۔ سین بلال عند الله شین حضرت بلال عجمی تھے، اس لئے اذان میں بجاۓ اشھد کے اسہد کہا کرتے تھے ، اللہ تعالی کے ہاں ان کا اسہد اشہد ہے، پس حضرت بلال کی خطا دوسروں کی درستی سے بہتر ہے۔. براشہد تو خندہ زند اسہد بلال میں نے ایک بزرگ سے سنا ہے جو فرماتے تھے کہ بعض دعائیں جو مشائخ سے منقول ہیں اور جن میں مشائخ سے اتفاقا غلطی ہوگئی ہے اور تلفظ بگڑ گیا ہے اگر ان کے تابعین اور پیروکار اپنے مشائخ کی طرح پڑھیں تو تاثیر ہوتی ہے اگر درست کر کے پڑھیں تو تاثیر نہیں ہوتی ، یا اللہ ہمیں انبیا کرام کی تقلید اور اولیا کرام کی متابعت پر بحرمت حبیب خداﷺ ثابت قدم رکھنا۔

 منها:52۔انبیا کے درجات اور تجلی ذات:

عوام الناس تو در کنار تمام مرسلوں کے جناب سرور کائنات ﷺ سردار ہیں ، اگر چہ حضرت عیسی اور حضرت موسی علیہما السلام کو حسب درجہ مقام تجلی ذات سے کچھ  حاصل ہے، اللہ تعالی نے حضرت موسی کومخاطب کر کے فرمایا ہے اصطنعتك لنفسى اى لـذاتـی اور حضرت عیسی روح اللہ ہیں اور اس کا کلمہ ہیں اور آنحضرت ﷺ سے بہت زیادہ مناسبت رکھتے ہیں لیکن حضرت ابراہیم حالانکہ مقام تجلی صفات میں ہیں ، پھر بھی تیز چشم اور دور بین ہیں ، جو خاص شان ہمارے پیغمبر ﷺ کوتجلی ذات کے مقام میں نصیب ہوئی وہ حضرت ابراہیم کو تجلی صفات کے مقام میں حاصل ہوگئی لیکن استعداد دونوں کی مختلف ہے ، پس اس لحاظ سے حضرت ابراہیم  دونوں یعنی حضرت موسیٰ اور حضرت عیسی   سے افضل ہیں اور حضرت عیسی   حضرت موسی  سے افضل ہیں ، حضرت عیسی  کا رتبہ حضرت موسی  سے بڑھ کر ہے،( مکتوبات کی عبارت سے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت موسی افضل ہیں ان دوقولوں کے درمیان تطبیق اس طرح ہے کہ حضرت عیسی  نزول کے بعد حضورﷺ کی اتباع فرمائیں گے تو یہ ان کی جامعیت حضرت موسی کی نسبت زیادہ ظاہر ہے۔ مجموعہ ر سائل 129) آپ ان کی نسبت تیز نظر اور دور بین ہیں ، ان کے بعد حضرت نوح ہیں ، آپ کا مقام مقام صفات میں اگر چہ حضرت ابراہیم  کے مقام سے اوپر ہے لیکن حضرت ابراہیم  کو اس مقام میں خاص شان حاصل ہے اور آپ کی نظر کو وہ تیزی حاصل ہے جو دوسروں کو میسر نہیں لیکن آپ کی اولاد کرام کو بھی بطورتبعیت وفرعیت اس مقام سے حصہ حاصل ہے ، حضرت نوح  کے بعد حضرت آدم ہیں، اللہ تعالی نے اپنے فضل وکرم سے مجھے ان باتوں کے الہام سے سرفراز فرمایا علم اللہ تعالی ہی کو حاصل ہے ۔

منها:53۔اسما ءاور صفات کی سیر :

جس سالک کی سیر اسما اور صفات کی تفصیل میں ہو اس کا ذات حق تک پہنچنا بند ہو جا تا ہے کیونکہ اسما اور صفات کی کوئی انتہانہیں ، نہ یہ ختم ہوتے ہیں نہ وہ منزل مقصود پر پہنچتا ہے ، مشائخ نے اس مقام کی خبر دی ہے کہ مراتب وصول کی کوئی انتہا نہیں اس واسطے کہ محبوب کے کمالات کی کوئی انتہا نہیں ، یہاں وصول سے مراداسمائی وصفاقی وصول ہے ، سعادت مند وہ شخص ہے جس کی سیرا سما اور صفات میں بطریق اجمال واقع ہوئی ہے اور جلدی خدا رسیدہ ہو گیا ہے ، واصلان ذات جب نہایت النہایت پر پہنچتے ہیں تو دعوت کیلئے ان کا واپس آنا لازم ہے اور وہاں سے واپس نہ آ نا محال ہے برخلاف اس کے متوسط جب اپنی استعداد کے موافق آخری مقام پر پہنچ جاتے ہیں تو ان کیلئے واپس آنا لازم نہیں ، ہوسکتا ہے کہ واپس آئیں یاوہیں ٹھہرے رہیں ، پس منتہی کے وصول کے مراتب ختم ہو جاتے ہیں بلکہ لازم ہے کہ پورے ہو جائیں لیکن متوسطوں کے وصول کے مراتب کی جوا سمائی وصفاتی تفصیل میں سیر کرتے ہیں کوئی انتہا نہیں ، یہ علم بھی میرا مخصوص علم ہے، والعلم عند الله سبحانه –

منها :54۔مقام رضا کی برتری:

مقام رضا مقامات و لایت سے بڑھ کر ہے ، یہ مقام تمام سلوک و جذ بہ طے کر لینے کے بعد حاصل ہوتا ہے، اگر یہ پوچھیں کہ اللہ تعالی کی ذات، اس کی صفات اور اس کے افعال سے رضا واجب ہے اور نفس ایمان میں ماخوذ ہے لہذا جس سے عام مومنوں کو چارہ نہیں تو پھر سلوک و جذ بہ کے تمام پر اس کے حصول کے کیا معنی؟ اس کا جواب یہ ہے کہ جس طرح ہر رکن ایمان کی صورت وحقیقت ہے اسی طرح رضا کی بھی صورت و حقیقت ہے،شروع میں صورت کا وجود ہوتا ہے اور آخر میں حقیقت حاصل ہوتی ہے، جب منافی رضا ظاہر نہ ہوتو ظاہر شریعت حصول رضا کا حکم فرماتی ہے لیکن تصد یق قلبی کے طور پر کہ جب کوئی بات منافی تصدیق نہ پائی جاۓ تو تصدیق حاصل ہو جاتی ہے اور ہم حقیقت رضا کے حصول کے در پے ہیں نہ کہ صورت رضا کے اللہ سبحانہ اعلم۔

منها: 55۔سنت اور بدعت :

اس بات کی کوشش کرنی چاہیئے کہ سنت نبوی ﷺ کے موافق عمل حاصل ہو اور بدعت سے بچنا نصیب ہو، خاص کر ایسی بدعت سے جس سے سنت رفع ہوتی ہو، جناب سرور کائنات ﷺ فرماتے ہیں مَنْ ‌أَحْدَثَ فِي ‌دِينِنَا  فَهُوَ رَدٌّ جونئی بات اس دین میں نکالی جاۓ وہ رد ہے، ان لوگوں پر مجھے تعجب آ تا ہے کہ دین میں حالانکہ وہ مکمل اور پورا ہے نئی شاخیں نکالتے ہیں اور ان سے دین متین کی تکمیل کرنا چاہتے ہیں اور اس بات سے نہیں ڈرتے کہ کہیں ان بدعتوں سے سنت رفع نہ ہو جاۓ مثلا شملہ دونوں کندھوں کے نیچے رکھنا سنت ہے لیکن بہت سے لوگوں نے شملے کو بائیں طرف لٹکانا اختیار کیا ہے، اس عمل سے وہ مردوں سے مشابہت پیدا کرنا چاہتے ہیں ، بہت سے لوگوں نے اس معاملہ میں ان کی پیروی کی ہے، یہ فعل سنت سے بدعت اور بدعت سے حرمت تک پہنچا تا ہے ، کیا جناب سرور کائنات ﷺ سے مشابہ ہونا اچھا ہے یا مردوں سے ، جناب سرور کائنات ﷺ موت سے پہلے موت سے مشرف ہوئے ہیں ،اگر فوت شدہ ہی سے تشبیہ درکار ہے تو پھر بھی ) آنحضرت ﷺ سے کرو اور عجب بات یہ ہے کہ مردے کو عمامہ پہنانا ہی بدعت ہے چہ جاۓ کہ شملہ چھوڑ اجاۓ بعض متاخرین نے جو عالم کی میت کیلئے عمامہ کو جائز قرار دیا ہے ، میری راۓ میں زیادتی ہے اور زیادتی نسخ سے ہے اور نسخ عین رفع ہے، اللہ تعالی ہمیں متابعت سنت نبوی ﷺ پر ثابت قدم رکھے اور . آمین کہنے والے بندے پر رحم کرے۔

منها: 56۔جنوں کے بارے میں کشف :

 ایک روز جنوں کا حال مجھ پر منکشف فرما یا تو کیا دیکھتا ہوں کہ جن گلی کوچوں میں عام آدمیوں کی طرح چلتے پھرتے ہیں اور ہر ایک جن کے سر پر ایک فرشتہ مقرر کیا ہوا ہے کہ وہ جن اس موکل کے ڈر کے مارے سرنہیں اٹھا سکتا اور دائیں بائیں نہیں دیکھ سکتا ، قیدیوں اور گرفتاروں کی طرح چل رہے ہیں ، ان میں مخالفت کی مجال بالکل نہیں ، ہاں جب اللہ تعالی چاہے تو ان سے کچھ ظہور میں آتا ہے ،اس وقت مجھے ایسا معلوم ہوا کہ گویا موکل کے ہاتھ میں لوہے کا گرز ہے کہ اگر رجن ذرا بھی مخالفت کرے تو ایک ہی چوٹ سے اس کا کام تمام کر دے

خدائے کہ بالا وپست آفرید         زبردست ہر دست دست آفرید .

خدا تعالیٰ نے بلند و بست  کو بنایا ہر زبردست کے اوپرہے جس کے زیر دست بنا رکھا

منها: 57۔ولی کی جزئی فضیلت :

ولی کو جو کمال حاصل ہوتا ہے یا جس درجے پر پہنچتا ہے اپنے نبی کے طفیل پہنچتا ہے ،اگر متابعت نبوی نہ ہوتی تو نفس ایمان ظاہر نہ ہوتا اور اعلی درجات کی راہ نہ کھلتی ، پس اگر ولی کوکوئی جزوی فضل حاصل ہو جو نبی کو حاصل نہیں تھا اور کوئی ایسا خاص درجہ مل جاۓ جو نبی کو میسر نہیں تھا تو نبی کو بھی اس جزوی فضل اور اس خاص درجہ سے حصہ ملتا ہے کیونکہ ولی کو وہ کمال اس نبی کی متابعت سے حاصل ہوا ہے اور یہ اس کی سنت کی پیروی کا نتیجہ ہے، پس لامحالہ نبی کو اس کمال سے پورا حصہ حاصل ہوتا ہے جیسا کہ سرور کائنات ﷺﷺ فرماتے ہیں مَنْ سَنَّ سُنَّةً حَسَنَةً فَلَهُ أَجْرُهَا وَأَجْرُ مَنْ عَمِلَ بِهَا جس نے کوئی نیک طریقہ جاری کیا اسے اس طریقے پرعمل کرنے والے کا بھی اجر ملتا ہے، لیکن ولی اس کمال کےحصول میں سابق ہے اور اس درجہ کے وصول میں مقدم ہے اس قسم کی فضیلت ولی کو نبی پر جائز ہے جو جزئی ہو ، جو کلیتاً معارض نہ ہو، صاحب فصوص شیخ محی الدین ابن العربی ﷺ نے جوفر مایا ہے کہ خاتم النبوت علوم و معارف کو خاتم الولایت سے اخذ کرتا ہے اس سے مراد یہی معرفت ہے جس سے مجھے ممتاز فرمایا گیا ہے اور جو سراسر شریعت کے موافق ہے ،فصوص کے شارحین نے اس کی تصحیح میں تکلف سے کام لیا ہے اور کہا ہے کہ خاتم ولایت خاتم نبوت کا خزانچی ہوتا ہے اگر بادشاہ اپنے خزانچی سے کچھ لے تو نقص لازم نہیں آتا، اصل حقیقت وہی ہے جو میں نے تحقیق کی ہے ،انہوں نے یہ تکلف اس واسطے کیا ہے کہ معاملہ کی حقیقت کو نہیں پہنچ سکے ،اللہ تعالی امور کی اصل حقیقت سے اچھی طرح واقف ہے، والصلوۃ والسلام على سيد البشر واله الاطهر ۔

منها: 58۔نبی کی کلی فضیلت :

ولی کی ولایت اس کے نبی کی ولایت کا جزو ہوتی ہے ، ولی کو خواہ کتنے ہی اعلی درجات حاصل ہو جائیں پھر بھی وہ درجات اس نبی کے درجات کا جزو ہوتے ہیں، جزو خواہ کتنا ہی بڑا ہو جائے پھر بھی کل سے کم ہی رہے گا کیونکہ(الکل  اعظم من الجزء) کل ہمیشہ اپنے جز وسے بڑا ہے ایک بدیہی قضیہ ہے، وہ شخص احمق ہے جو یہ خیال کرتا ہے کہ جز وکل سے بڑا ہوتا ہے حالانکہ کل دیگر اجزا کے علاوہ اس جزو سے بھی عبارت ہے ۔

منها 59۔صفات باری کا تعارف:

اللہ تعالی کی صفات واجبی تین قسم کی ہیں ، پہلی قسم کی صفات اضافی ہیں ، مثلا خالقیت اور رازقیت ، دوسری حقیقی لیکن اضافت کی جھلک لیے ہوۓ ہیں مثلاًعلم، قدرت ،ارادہ ، سمع ، بصر، کلام ، تیسری محض حقیقی مثلا حیات ، اس میں اضافی ہرگز ملاوٹ نہیں ، اضافت سے ہماری مراد ہے جہان کا لگاؤ تیسری قسم تمام اقسام سے افضل ہے اور اس میں تمام اقسام جمع ہیں ، یہ امہات صفات سے ہے علم کی صفت باوجود جامعیت کے صفت حیات کی تابع ہے، صفات وشیونات کا دائرہ حیات پر جا ختم ہوتا ہے، وصول مطلوب کا دروازہ یہی ہے چونکہ صفت حیات صفت علم سے بڑھ کر ہے اس واسطے ضروری ہے کہ مراتب علم طے کرنے کے بعد اس تک پہنچیں علم یا ظاہری ہوتا ہے یا باطنی یا شریعت کا ہوتا ہے یا طریقت کا بہت ہی کم اشخاص اس دروازے میں داخل ہوئے ہیں صرف گلی کو چوں کے پیچھے سے اندر دیکھتے ہیں ایسے دیکھنے والے بھی نہایت ہی کم ہیں اگر اس بھید کی رمز ظاہر کر دوں تو گلا کٹ جاۓ ۔

ومن بعد هذا مايدق صفاته      وما كتمه احظى لدى اجمل

بیان کرنا ہی ان اسرار کا مشکل ہےاور ان کا چھپانا ہی زیادہ صحیح ہے

 والسلام على من اتبع الهدى والتزم متابعة المصطفى عليه وعلى اله الصلوة والسلام

 منها :60۔حق تعالی بے مثل و بے مثال ہے:

حضرت حق سبحانہ تعالی مثل سے منزہ ہے ، کوئی چیز اس کی مانندنہیں لیکن مثال کو جائز قرار دیا ہے اور مثل تجویز کی ہے، اللہ تعالی کیلئے مثل اعلی ہے، ارباب سلوک اور اصحاب کشوف کو مثال سے تسلی دیتے ہیں اور خیال سے آرام بخشتے ہیں ،بیچون کو چون کی مثال سے دکھاتے ہیں اور وجوب کو امکان کی صورت میں جلوہ گر کرتے ہیں ، بے چارہ سالک مثال کو عین صاحب مثال خیال کرتا ہے اور صورت کوعین ذی صورت سمجھتا ہے، یہی وجہ ہے کہ حق سبحانہ وتعالی کے احاطہ کی صورت کو چیزوں میں دیکھتا ہے اور اس احاطہ کی مثال کو جہان میں مشاہدہ کرتا ہے اور خیال کرتا ہے کہ احاطہ میں حق کی کیفیت دکھائی دے رہی ہے لیکن در اصل ایسا نہیں بلکہ حق تعالی کا احاطہ بیچون و بیچگون ہے اور نہ وہ شہود میں آ سکتا ہے اور نہ کسی پر ظاہر ہوسکتا ہے، اس بات پر ہمارا ایمان ہے کہ اللہ تعالی ہر شے پر محیط ہے لیکن یہ ہم نہیں جانتے کہ اس کا احاطہ کیا ہے اور جو کچھ ہمیں معلوم ہے وہ اس احاطہ کی شبہ اور مثال ہے نہ کہ حقیقت بلکہ اس کی حقیقت کی کیفیت نا معلوم ہے، یہ ہمارا ایمان ہے کہ اللہ تعالی قریب ہے اور ہمارے ساتھ ہے لیکن یہ ہم نہیں جانتے کہ اس کا قرب ومعیت کس طرح کے ہیں ممکن ہے کہ جو حدیث نبوی ﷺ میں آیا ہے  یتجـلـى ربنا ضاحكا ہمارا پروردگار ہنستا ہوا ظا ہر ہوا، یہ ممکن ہے کہ  آنحضرت ﷺ نے بلحاظ صورت مثالی فرمایا ہو یعنی کمال رضا کے حصول کو مثال میں بصورت خندہ  دکھایا ہو اور ہاتھ ، چہرے، قدم اور انگلیوں کا اطلاق بھی صورت مثالی کے لحاظ سے ہو، مجھے اللہ تعالی نے اسی طرح سکھایا ہے، اللہ تعالی جسے چاہتا ہے اپنی رحمت سے مخصوص کر تا ہے اور اللہ تعالی صاحب فضل عظیم ہے ، وصـلی الله تعالى على سيدنا محمد واله وسلم وبارك

 منها : 61۔عرفان مجدد  کو سمجھنے کا اسلوب:

 اگر حضرت مجدد الف ثانی قدس سرہ کی عبارات میں جو آپ نے احوال و مواجید اور علوم و معارف کے بیان میں لکھی ہیں کسی قسم کا تناقض(ضد) یا اختلاف معلوم ہو تویہ گمان نہیں کرنا چاہیئے کہ واقعی ایک دوسرے کے نقیض ہیں بلکہ یہ خیال کرنا چاہیئے کہ مختلف اوقات میں مختلف وضع پر یہ عبارات لکھی گئی ہیں کیونکہ ہر وقت احوال و مواجید مختلف ہوا کر تے ہیں اور ہر ایک وضع میں علوم و معارف جدا ہیں ، پس در حقیقت یہ تناقض اور تدافع نہیں ، اس کی مثال احکام شرعیہ کی طرح ہے کہ نسخ و تبدیل کے بعد متناقض احکام جاری ہوتے ہیں، جب اوقات و اوضاع (طریقے)کے اختلاف کوملحوظ رکھا جائے تو وہ تناقض وتدافع اٹھ جا تا ہے، اللہ تعالی ہی کیلئے حکمت  عملی ہے، اس میں عین حکمت ومصلحت ہے تو کسی قسم کا شک نہ کرنا وصلى الله تعالى على سيدنا محمد والہ وسلم وبارك، ان عجیب وغریب بلندنکات کا جامع محمدصدیق  بدخشی کشمی ملقب بہ ہدایت کہتا ہے کہ مبدأ و معاد کے ان معارف شریفہ عالیہ کی تسوید سے مجھے ماہ رمضان المبارک 1019 ھ کے آخر میں دوران اعتکاف فراغت ہوئی

این نسخه که مبدأء و معاد است بنام

زانفاس نفیس حضرت فخر کرام

چوں کرد ہدایت اقتباس از سر صدق

در سال ہزار و نوز ده گشت و تمام

 قاضی ثنا اللہ ﷺ پانی پتی کا ارشاد

 جب پہلا ہزارہ گزر گیا اور ایک اولوالعزم مرد کامل کی باری آئی تو اللہ تعالی نے اپنی عادت قدیمہ کے تحت دوسرے ہزارے کے لیے ایک مجدد پیدا فرمایا کہ تمام اولیا کرام میں ان حیسا اولوالعزم مجد دکوئی نہ ہو گا اس کو نبیوں رسولوں اور رسول کریم ﷺ کی طینت سے پیدا فرمایا ، وہ مقامات وکمالات عطا فرمائے گئے جو کسی نے نہ دیکھے تھے اور آخر زمانے میں اس کے طفیل یہ کمالات عام اور ظاہر کئے گئے ۔ (ارشادالطالبین: 63)


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں