مجدد پاک کی ولایت کے مخصوص اسرارمکتوب نمبر 95دفتر سوم

 ان اسرار کے بیان میں جو حضرت ایشاں مدظلہ العالی کی ولایت کے ساتھ مخصوص ہیں ۔ مولانامحمد صالح کو لابی کی طرف صادر فرمایا ہے۔ 

اس فقیر کی ولایت اگر چہ ولایت محمدی اور ولایت موسوی کی تربیت یافتہ ہے اور ان دو بزرگواروں کے طفیل نسبت محبوبی اور نسبت محبی سے مرکب ہے کیونکہ محبوب کے رئیس حضرت محمد رسول ﷺہیں اورمحبوں کے سردار حضرت موسی کلیم الله على نبينا وعلیہ الصلوة والسلام ۔ لیکن حضرت خاتم الرسل عليه وعليهم وعلى كل ال الصلوات والتسليمات کی متابعت کے باعث میری ولایت کے ساتھ اور ہی کاروبار متعلق ہے اور الگ ہی معاملہ اس پروابستہ ہے اگرچہ اس ولایت کا اصل اپنے پیغمبر علیہ الصلوة والسلام کی ولایت ہے جو ولایت محمدی ہے جس کا منشاء بالاصالت محبوبیت(محبوب ہونے کی کیفیت)  صرف کی نسبت ہے لیکن چونکہ ولایت موسی کا اصل بھی جو بالاصالت (براہ راست) محبت صرف سے پیدا ہے۔ اس ولایت کے ساتھ مل گیا ہے اس لئے اس کے رنگ سے بھی رنگین ہو کر اور ہی ہئیت پیدا کر لی ہے بلکہ کہہ سکتے ہیں کہ ایک اور حقیقت بن گئی ہے اور علیحدہ ہی ثمرہ دیا ہے اور علیحدہ نتیجہ پیدا کیا ہے۔ کسی نے کیا اچھا کہا ہے۔ بیت 

از میں افیون کو ساتی درے افگند حریفال رانہ سرماندونہ دستار 

ترجمہ: بیت ملا دی مے میں ساقی نے جو افیوں حریفوں کی رہی سدھ بدھ نہ باتی 

۔ رَبَّنَا آتِنَا مِنْ لَدُنْكَ رَحْمَةً وَهَيِّئْ لَنَا مِنْ أَمْرِنَا رَشَدًا (یا اللہ تو اپنے پاس سے ہم پر رحمت نازل فرما اور ہمارے کام سے بھلائی ہمارے نصیب کر)) وَالسَّلَامُ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَى (سلام ہو اس شخص پر جس نے ہدایت اختیار کی )

فصل الخیر 

وہ کاروبار جو اس ولایت پر وابستہ ہے اگر تھوڑا سا بھی ظاہر کیا جائے یا وہ معاملات جو ان دونوں ولایتوں کے متعلق ہیں۔ اگر اشارہ کے طور پر بھی ان کا کچھ بیان کیا جائے۔ تو اورقُطِعَ  ‌الْبَلْعُومُ وَذبِحَ الْحُلْقُوْمُ (رگ بلعوم قطع کی جائے اور رگ حلقوم کاٹ دی جاۓ) یعنی قتل کردیا جائے جب حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بعض ان علوم کے اظہار میں جو حضرت پیغمبر علیہ الصلوة والسلام سے اخذ کئے تھے۔ قطع البلعوم کہا۔ تو پھر اوروں کی نسبت کیا کہتا ہے۔حق تعالیٰ کے پوشیدہ اسرار ہیں جو اپنے اخص خواص بندوں پر ظاہر فرماتا ہے اور نامحرم کو ان کے گردنہیں پھٹکنے دیتا۔ حضرت خاتم الرسل علیہ الصلوة والسلام نے جو رحمت عالمیان ہیں۔ کمال معرفت و قدرت سے ان اسرار کو حضرت ابو ہریرہ وغیرہ کے سامنے بیان کیا اور ان میں سننے والوں کی قابلیت اور استعدادسمجھ کران بیش قیمت اور نایاب موتیوں کو ان پر تصدق اور ایثار فرمایا ہے لیکن مجھ جیسا بے سروسامان مفلس ان اسرار کے ذکر و اظہار سے ڈرتا اور خوف کرتا ہے اور باوجود اس خواری اور آوارگی کے ان بلند مطالب کے ساتھ کسی طرح اپنی مناسبت نہیں پاتا۔ لیکن جانتا ہے کہ ع 

برکریماں کا رہا دشوار نیست                     کریموں پر نہیں مشکل کوئی کام

ہاں اللہ تعالیٰ کا فضل وکرم ایسا ہی ہونا چاہیئے۔ یہ کرم ہمارے حق میں آج ہی سے نہیں ہے بلکہ اس دن سے ہے جبکہ ہماری مشت خاک کو زمین سے لے کر اپنا خلیفہ بنایا ہے اور اپنا نائب بنا کر تمام اشیاء کا قیوم (قائم رہنے والا)کیا اور اس کو بلا واسطہ تمام اشیاء کے نام سکھائے اور فرشتوں کو جو اس کےمکرم و بزرگ بندے ہیں ۔ اس کا شاگرد بنایا اور باوجود اس بزرگی کے اس کے آگے سجدہ کرنے کا حکم فرمایا اور ابلیس جومعلم ملکوت کے لقب سے ملقب تھا اور طاعت و عبادت میں بڑی اعلی شان رکھتا تھا جب اس نے سجدہ سے انکار کیا ہے اور اس کی تعظیم وتوقیر بجا نہ لایا تو اس کو اپنی درگاہ معلی سے دھتکار دیا اور ملعون ومردود کردیا اور طعن و ملامت کا مستحق بنا دیا اور اس مشت خاک کو اس قدر ہمت وقدرت بخشی کہ اس نے اس کی امانت کے بوجھ کو اٹھا لیا جس کے اٹھانے سے زمین و آسمان اور پہاڑوں نے انکار کیا اور ڈر گئے اور نیز اس کو وہ قوت عطا فرمائی ہے جس کے باعث اس نے باوجود اپنی چوں اورچگوں ہونے کے زمین و آسمان کے پیدا کرنے والے بیچوں وبیچگوں مولی کی رؤیت کی قابلیت پیدا کی ۔ حالانکہ پہاڑ باوجود اس قدر سخت اور مضبوط ہونے کے حق تعالیٰ کی ایک ہی تجلے سے پارہ پارہ اور خاکستر ہوگیا۔ وہ خدائے قدیم الاحسان اور ارحم الراحمین اس بات پرقادر وتوانا ہے کہ مجھ جیسے پسماندہ کو سابقین کے درجات تک پہنچانے اور ان کے طفیل ان کی دولت کا شریک بنائے ۔ بیت 

اگر پادشہ بردر پیر زن بیاید تو اے خواجہ سبلت مکن

 ترجمہ: اگر بڑھیا کے در پر آئے سلطان تو اے خواجہ نہ ہو ہرگز پریشان

تنبیہ:

حضرت حق سبحانہ وتعالیٰ ہمیشہ اپنی تنزیہ و تقدیس پر ہے اور حدوث کے صفات اورنقص کے نشانات سے منزہ اور مبرا ہے۔ اس درگاہ جل شانہ میں تغیر وتبدل کا دخل نہیں اور اس بارگاه اعلی میں اتصال و انفصال کی گنجائش نہیں۔ وہاں حالیت(اس کا کسی میں سرائیت کرنا ) ومحلیت( اس میں کسی کا سرایت کرنا ) کا تجویز کرنا کفر ہے اور اتحادوعینیت کا حکم کرنا عین الحادوزندقہ ہے۔ حق تعالیٰ کے خاص بندے اس بارگاہ میں خواہ کتنا ہی قرب ووصل پیدا کریں۔ پھر بھی جسمانی قرب اور جوہروعرض کے اتصال کی قسم سےنہیں ہوگا۔ وہاں قرب بھی بیچون ہے اوروصل بھی بیچون ان بزرگواروں کا کاروبار اس حضرت جل شانہ میں عالم بیچونی سے ہے اور عالم چون کو عالم بیچون کے ساتھ وہ نسبت ہے جو قطرہ کو دریائے محیط کے ساتھ ہوتی ہے کیونکہ وہ ممکن ہے اور یہ واجب نیز عالم چون زمان و مکان کی تنگی میں محدود ہے اور عالم بیچون اس تنگی سے آزاد اور زمان و مکان سے وراء الوراء ہے۔ ہاں عبارت تعبیر کا میدان عالم چوں میں وسیع ہے اور عالم بیچون میں تنگ و تاریک لِعُلُوِّہٖ مِنَ الْعَبَارَةِ وَبُعْدِهٖ عَنِ الْإِشَارَةِ ( کیونکہ وہ عبارت سے برتر اور اشارہ سے بعید ہے) یعنی کسی عبارت و اشارہ میں نہیں آ سکتا۔ اس ارحم الراحمین نے اپنے خاص بندوں کوبیچونی کا حصہ دے کر عالم بیچوں میں داخل کیا ہے اور بیچونی کے معاملات سے مشرف فرمایا ہے اگر بالفرض اس بیچون کو چون   کے ساتھ تعبیر کریں تو اس سے بھی بعیدتر ہے کہ بالغ لوگ نابالغوں کے آگے جماع کی لذت کو قند وشکر کی لذت سے تعبیر کریں کیونکہ یہ دونوں لذتیں ایک ہی عالم چون سے ہیں لیکن وہ تعبیر معتبر و مختلف اور متبائن عالموں سے ہیں۔ پس اگر کوئی بیچوں کو چون کے ساتھ تعبیر کرے اوربیچون پرچوں کا حکم لگاۓ تو واقعی طعن وطردو اور الحا دو زندقہ کے ساتھ متہم ہونے کا مستحق ہے۔ اس سے ثابت ہوا کہ ان اسرار کا دقیق اور پوشیدہ ہوتا عبارت کی تعبیر کی وجہ سے ہے۔ نہ کہ تحقق وحصول کی وجہ سے کیونکہ ان اسرار سے متحقق ہونا کمال ایمان ہے لیکن بیچوں کو چون کی عبارات میں تعبیر کرنا عین کفر اور الحاد ہے۔ ۔ مَنْ عَرَفَ اللَّهَ ‌كَلَّ ‌لِسَانُهُ (جس نے الله تعالیٰ کو پہچانا اس کی زبان گنگ ہوگئی) پر عمل کرنا چاہیئےرَبَّنَا ‌أَتْمِمْ لَنَا نُورَنَا وَاغْفِرْ لَنَا إِنَّكَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ  يااللہ تو ہمارے نور کو کامل کر اور ہمیں بخش تو تمام باتوں پر قادر ہے۔)  اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ  أَوَّلاً وَّاٰخِرًا وَالصَّلٰوةُ وَالسَّلَامُ عَلٰى رَسُولِهٖ   اول و آخر الله تعالیٰ کی حمد ہے اور ہمیشہ اس کے رسول پرصلوة وسلام ہو ۔

مکتوبات حضرت مجدد الف ثانی دفتر سوم صفحہ283ناشر ادارہ مجددیہ کراچی


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں