محبوب صرف ایک ہوتا ہے

حضرت شیخ المشائخ، قطب ربانی، غوث صمدانی ، محبوب سبحانی، سیدنا عبد القادر جیلانی رضی اللہ تعالی عنہ وارضاہ نے تصوف و طریقت پر مشتمل کتاب” آداب السلوک والتواصل الی منازل الملوک“ میں فرمایا :

تعجب ہے تو اکثر کہتا ہے میں جس کو پسند کر تا ہوں اس کی صحبت ہمیشہ میسر نہیں رہتی۔ کوئی نہ کوئی چیز ہماری جدائی کا سبب بن جاتی ہے۔ یا تو محبوب غائب ہو جاتا ہے یا موت یا عداوت اسے مجھ سے الگ کر دیتی ہے۔ میرا پسندیدہ مال تلف ہو جاتا ہے اور میرے ہاتھ سے چھن جاتا ہے۔ (نہ کسی انسان کا وصال میسر رہتا ہے اور نہ پسندیدہ مال کا) پس اس کا جواب یہ ہے کہ کیا تو نہیں جانتا کہ تو حق تعالی کا محبوب و مطلوب اور منظور نظر ہے۔ اسے غیرت آتی ہے کہ تو دوسروں سے مراسم رکھے۔ جانتا نہیں کہ اللہ تعالی غیور ہے اس نےتجھے اپنے لیے پیدا کیا اور تو غیر کابنناپسند کرتا ہے؟ . 

کیا تو نے اللہ تعالی کا یہ فرمان نہیں سنا : يُحِبُّهُمْ وَيُحِبُّونَهُ

محبت کرتا ہے اللہ ان سے اور وہ محبت کرتے ہیں اس سے۔

 وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ اور نہیں پیدا فرمایا میں نے جن وانس کو مگر اس لیے کہ وہ میری عبادت کریں کیا تو نے نبی کریم ﷺ کا یہ ارشاد گرامی نہیں سنا: 

إِذا أحب الله عبدا ابتلاه، فَإِذا أحبه الْحبّ الْبَالِغ اقتناه» قيل: وَمَا اقتناه قَالَ لم يتْرك لَهُ أَهلا وَلَا مَالاجب اللہ تعالی کسی انسان سے محبت کرتا ہے تو اسے آزمائش میں ڈال دیتا ہے۔ اگر وہ صبر کرے تو اسے ہر چیز سے بے نیاز کر کے اپنا بنا لیتا ہے عرض کیا گیا یا رسول اللہ بے نیاز کر کے اپناکیسےبنالیتا ہے۔ فرمایا اس کے مال کو باقی چھوڑتا ہے اور نہ بچے کو زندہ چھوڑتا ہے 

اور یہ اسے لئے کر تا ہے کہ مال و دولت اور اولاد ہو گی تو میرابندہ ان کی محبت میں پھنس جائے گا اور اس طرح اپنے رب کے ساتھ اس کی محبت بٹ جائے گی۔ کم ہو جائے گی اور پارہ پارہ ہو جائے گی۔ وہ بیک وقت اللہ اور غیر اللہ کی محبت کا دم بھرنے لگے گا۔ حالانکہ اللہ تعالی شر یک کو قبول نہیں کر تا۔ وہ غیور اور قاہر ہے۔ ہر چیز اس کے قبضہ قدرت میں ہے۔ ہر چیز اس کے حکم کے سامنے ! سرافگندہ ہے۔ پس وہ شرک کو اولاد کی صورت میں ہو یا مال کی صورت میں ہلاک اور تلف کر دیتا ہے تا کہ اس کےبندہ کے دل میں کسی اور کی محبت نہ رہے اور وہ خالصتا اپنے رب کی محبت میں سرشار رہے۔ پس یوں اللہ تعالی کا یہ ارشاد پورا ہو جاتا ہے کہ وہ اللہ سے محبت کرتے ہیں اور اللہ ان سے۔ جب دل تمام شرکا ءو اندادسے خالی ہو جائے گا یعنی بندہ مومن کے دل میں نہ اہل و عیال کی محبت رہے گی اور نہ مال و دولت کی چاہت نہ لذات و شہوات کی طلب رہے گی اور نہ حکومت ریاست کا شوق نہ کرامات احوال کی تمنارہے گی اور نہ منازل و مقامات کی آرزو نہ جنت و درجات جنت کی خواہش اور نہ قرب وصول الی اللہ کا خیال۔ پس بند ه مومن کا دل ہر ارادے اور ہر خواہش سے جب اس طرح پاک ہو جائے جیسے ٹوٹا ہوابرتن کہ جس میں کوئی مائع نہیں ٹھہر سکتا کیونکہ اللہ کےفعل اور اللہ کی غیرت اور ہیبت کی دیوار یں بلند کر دی جاتی ہیں اور کبریائی اور سطوت کی خندقیں کھود دی جاتی ہیں۔ دل میں نہ کسی چیز کا ارادہ پیدا ہو سکتا ہے اور نہ کسی چیز کی خواہش سر اٹھا سکتی ہے۔ ایسے میں دل کو مال دولت ، اہل و عیال ، دوست احباب جیسے اسباب اور کرامات و حاکم اور عبادات کوئی نقصان نہیں دے سکتیں۔ کیونکہ یہ تمام چیزیں دل سے باہر ہوتی ہیں۔ ول پرالہی پہرے ہوتے ہیں پس اللہ تعالی غیرت نہیں فرماتا۔ بلکہ یہ سب چیزیں اللہ تعالی کی طرف سے بندے کیلئے باعث عزت و کرامت لطف، کرم اور نعمت بن جاتی ہیں۔ اللہ کے اس بندے کی خدمت میں حاضر ہونے والے ان سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ اللہ تعالی کے ہاں چونکہ اس بندے کا خاص رتبہ اور مقام ہو تا ہے اس لیے اس کے طفیل آنے والے بھی عزت و تکریم سے نوازے جاتے ہیں ۔ ان کی بھی مصائب و آلام سے حفاظت کی جاتی ہے۔ یوں یہ بندہ مومن بندگان خدا کا نگہبان، کفایت کند و، اور ملجاو ماوی بن جاتا ہے۔ اس کے صدقے لوگوں کی تمنائیں پوری ہوتی ہیں مصائب سے خلاصی پاتے ہیں اور یہ بندہ  خدادنیا اور آخرت میں اللہ تعالی کے حضور ان کی شفاعت کرتا ہے۔ 

آداب السلوک شیخ عبد القادر الجیلانی صفحہ 111 ،مکتبہ دارالسنابل دمشق شام


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں