اس بیان میں کہ محبوب کا رنج اس کے انعام سے اور اس کا جلال اس کے جمال سے زیادہ محبوب ہوتا ہے۔ معارف آگاہی شیخ بدیع الدین کی طرف صادرفرمایا ہے۔
اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ وَسَلَامٌ عَلٰی عِبَادِہِ الَّذِیْنَ اصْطَفٰی (الله تعالی کی حمد ہے اور اس کے برگزیدہ بندوں پر سلام ہو) ۔
آپکاصحیفہ شریفہ جوشیخ فتح اللہ کےمعرفت ارسال کیا تھا پہنچا۔ آپ نے خلق کی جفاوملامت کے بارہ میں جولکھاتھایہ(ملامت خلق) خوداس گروه(صوفیہ) کاجمال اور ان کے زنگار کا صیقل ہے پھر قبض وکدورت کا باعث کیوں ہو؟۔
ابتدا حال میں جب یہ فقیر بحکم جہانگیر قلعہ ( گوالیار) میں پہنچا تو ایسا محسوس ہوتا تھا کہ مخلوق کی ملامت کے انوار شہروں اور بستیوں سے نورانی بادلوں کی طرح پے درپے میری طرف پہنچ رہے ہیں اور کام کو پستی سے بلندی کی طرف لے جا رہے ہیں ، کارکنان قضا و قدر جو سالہا سال سے جمالی تربیت کے ساتھ مراحل طے کرا رہے تھے اب جلالی تربیت کے ساتھ مسافت طےکرا رہے ہیں لہذا آپ مقام صبر بلکہ مقام رضا میں رہیں اور جمال و جلال کو مساوی جانیں۔
آپ نے لکھا تھا کہ فتنہ کے ظاہر ہونے کے وقت (یعنی آپ کی قید ہونے کے وقت )سے نہ ذوق باقی رہا نہ حال چاہیئے تو یہ تھا کہ ذوق و حال دوگنا ہو جاتا کیونکہ محبوب کی جفا(محبوب کا رنج) اس کی وفا سے زیادہ لذت بخش ہوتی ہے ۔تعجب ہے آپ عام لوگوں کی طرف باتیں کر رہے ہیں اور محبت ذاتیہ سے دور نکل گئے ہیں گذشتہ کے برخلاف آپ جلال کو جمال سے زیادہ سمجھیں اور درد و الم کو انعام سے زیادہ تصور کریں کیونکہ جمال و انعام میں محبوب (یعنی حق تعالی )کی مراد اپنی مراد کے ساتھ ملی ہوئی ہوتی ہے اور جلال و ایلام میں خالص محبوب ہی کی مراد ہے جو ہماری مراد کے بالکل خلاف ہے، یہاں پر (بحالت قید) جو وقت اور حال وارد ہے وہ سابقہ وقت اور حال سے مختلف ہے اور ان دونوں میں بہت فرق ہے۔
آپ نے حرمین شریفین کی زیارت کے بارے میں لکھا تھا تو اس میں کیا مانع ہے؟ حَسْبُنَا اللَّهُ وَنِعْمَ الْوَكِيلُ (ہم کو الله تعالی کافی ہے اور وہی اچھاوکیل ہے)۔
مکتوبات حضرت مجدد الف ثانی دفتر سوم صفحہ34 ناشر ادارہ مجددیہ کراچی