حضرت شیخ المشائخ، قطب ربانی، غوث صمدانی ، محبوب سبحانی، سیدنا عبد القادر جیلانی رضی اللہ تعالی عنہ وارضاہ نے تصوف و طریقت پر مشتمل کتاب” آداب السلوک والتواصل الی منازل الملوک“ میں فرمایا :
تعجب ہے کہ تو اکثر کہتا ہے فلاں عزت کے قریب ہوا اور میں دور کیا گیا۔ فلاں کو عطا گیا اور مجھے محروم ٹھہرایا گیا۔ فلاں کو دولت مند بنا دیا گیا اور مجھے فقیر۔ فلاں کو امن و عافیت سے نوازا گیا اور مجھےبیماری دی گئی۔ فلاں کی تعظیم کی گئی اور مجھے حقارت کی نظر سے دیکھا گیا۔ فلاں کی تعریف و توصیف ہوئی اور میری مذمت کی گئی۔ فلاں کی بات کو بھی مان لیا گیا اس کی تصدیق ہو گئی جب کہ مجھے جھوٹا گردانا گیا۔ : کیا تو نہیں جانتا کہ الله تعالی ایک ہے۔ اور وہ محبت میں بھی یکتائی کو پسند کرتا ہے۔ اور چاہتا ہے کہ مجھے چاہنے والے بھی کسی کی طرف نظر محبت سے نہ دیکھیں۔
جب وہ غیر کے واسطے سے تجھے قرب عطا کرے گا تو تیرے دل میں اللہ تعالی کی محبت کم ہو جائے گی۔ اور محبت تقسیم ہو جائے گی۔ اور عین ممکن ہے کہ جس شخص کے ہاتھ اور واسطے سے تجھے یہ نعمت مل رہی ہے تیرا باطن اس کی طرف مائل ہو جائے اور تیرے دل میں اللہ تعالی کی محبت کم ہو جائے۔ اللہ کریم غیور ہے۔ وہ شر یک کو پسند نہیں کرتا۔ اس لیے وہ دوسروں کے ہاتھ کو روک دیتا ہے کہ تجھے کچھ دیں۔ وہ ان کی زبان کو خاموش کر دیتا ہے کہ تیری تعریف و توصیف کریں۔ وہ ان کے پاؤں کو روک لیتا ہے کہ تیری طرف چل کر جائیں۔ کیونکہ وہ نہیں چاہتا کہ میرا بندہ کسی اور میں مشغول ہو کر مجھ سے ذرا بھی غافل ہو۔ کیا تونے نبی کریم ﷺکا ارشاد گرامی نہیں سنا۔
جُبِلَتِ الْقُلُوبُ عَلَى حُبِّ مَنْ أَحْسَنَ إِلَيْهَا وَبُغْضِ مِنْ أَسَاءَ إِلَيْهَا ۔
”فطر تادل اس سے محبت رکھتے ہیں جو ان سے اچھا سلوک کرتا ہے اور اس شخص سے بغض رکھے ہیں جو ان سے برائی سے پیش آتا ہے ۔
اللہ تعالی مخلوق کو روک دیتا ہے کہ تیرے ساتھ کسی طرح کا حسن سلوک کریں۔ اور یہ سلسلہ جاری رہتا ہے یہاں تک کہ تو اسے واحد لاشریک سمجھنے لگتا ہے صرف اس سے محبت کرنے لگتا۔ اور ظاہر وباطن ہر لحاظ سے اپنی تمام حرکات و سکنات میں اسی کا ہو جاتا ہے۔تجھےسوائے اس کے کسی کی طرف سے نہ خیر دکھائی دیتی ہے اور نہ شر دکھائی دیتا ہے تو پوری خلق سے،نفس، حرص و ہوا، ارادوں اور تمناؤں سے بلکہ جمیع ماسواء اللہ سے فانی ہو جاتا ہے۔ پھر وہ لوگوں کے ہاتھ کو تیری طرف پھیلنے۔ تیری منت کرنے اور تجھے عطاکرنے کے لیے کھول دیتا ہے۔ زبانیں تیری تعریف و توصیف کرنے کے لیے آزاد ہو جاتی ہیں اور تو اس دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی اللہ تعالی کی نعمتوں سے ہمیشہ کیلئے لطف اندوز ہونے لگتا ہے۔
سوئے ادبی کا ارتکاب نہ کر جوتجھے دیکھ رہا ہے تو بھی اسے دیکھ جو تیری طرف بڑھ رہا ہے توبھی اس کی طرف بڑھ۔ جوتجھے پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھ رہا ہے تو بھی اس سے محبت کر۔ جو تجھے دعوت دے رہا ہے اس کی دعوت کو قبول کر۔ جو تیری دستگیری کرنا چاہتا ہے اسے اپنا ہاتھ تھمادے۔ جو تجھے تیرے نفس کی جہالت کی تاریکیوں سے نکالنا چاہتا ہے تجھے بربادی سے بچانے کا خواہاں ہے اور چاہتا ہے کہ تجھے تیرے نفس کی نجاستوں سے پاک کرے اس کے ہاتھ میں اپنا ہاتھ دے۔ جو شخض تجھے تیری گندگیوں سے پاک کرنا چاہتا ہے تیرے مردار اور بدبو سے خلاصی دیناچاہتا ہے۔ تیرے پست ارادوں سے، نفس امارہ سے ، گمراہ اور گمراه کن دوستوں سے شیطان اور حرص و ہواسے ، جاہل اور رب کے راستے سے روکنے والےہمنیشنوں سے ہر قیمتی نفیس اور عزیز چیز اور تیرے در میان حائل ہونے والوں سے نجات دینے کا ارادہ رکھتا ہے اس کے ہاتھ میں اپنا ہاتھ دے دے۔
رسوم اور طبیعت کی غلامی کب تک ؟کب تک تو حق کی مخالفت کرتارہے گاحرص و ہوا کی تابعداری کب تک۔ کب تک یہ رعونت رہے گی۔ دنیاپرستی کےتصور میں کب تک گم رہے گا۔ کب تک تیری محنت آخرت کی بہتری کیلئے نہیں ہو گی۔ کب تک تو اپنے مولا کے علاوہ غیروں سے محبت کرتا پھرے گا۔
تو کہاں ہے۔ دیکھ کون ہے اشیاء کا خالق کائنات کے ذرے ذرے کووجودبخشنے والا کون ہے اول و آخر ، ظاہروباطن، کون ہے مرجع و مصدر۔ کس کی یاد سے قلوب اور ارواح تسلی پاتے ہیں۔ کون زندگی کے بوجھ دور کر تا ہے۔ کون ہے جو احسان جتلائے بغیر عطاکر تا ہے؟
معرفت کی ایک بات
حضرت شیخ عبد القادر جیلانی رضی اللہ تعالی عنہ وارضاہ نے فرمایا : میں خواب میں کیا دیکھتا ہوں کہ میں کسی سے کہہ رہا ہوں۔ اے اپنے دل میں اپنی ذات کو رب کا شریک ٹھہرانے والے اور ظاہر میں مخلوق کو شریک خدابنانے والے اور عمل میں ارادے کو شریک بنانے والے۔ میرے پہلوسے کسی نے پوچھا یہ کیسی گفتگو ہے ؟ میں نے کہایہ معرفت کی گفتگو ہے۔
آداب السلوک شیخ عبد القادر الجیلانی صفحہ 167 ،مکتبہ دارالسنابل دمشق شام