محراب (لغت میں) صدر مقام سب سے اونچی اور اعلیٰ نشست گاہ کو کہتے ہیں وہ جگہ جن میں عبادت گاہ کے مجاور، خدام اور معتکف لوگ رہا کرتے ہیں،
محراب کا لغوی معنی ہے ” اَکْرَمُ مَوْضَعٍ فِی الْمَجْلِسِ “ مجلس میں جو سب سے باعزت جگہ ہو اس کو محراب کہتے ہیں۔ عموماً اس حجرہ عبادت کو محراب کہا جاتا ہے۔ جو سطح زمین سے کچھ بلند بنایا جاتا ہے اور جس میں جانے کے لیے سیڑھیوں کی ضرورت پڑتی ہے
المحراب اکرم مجالس الملوک. ’’محراب بادشاہوں کی سب سے بڑی عزت والی نشست‘‘۔
، محراب بلند جگہ کو کہتے ہیں، جو جگہ زمین سے بلند ہو وہ اس جگہ محراب بنایا کرتے تھے، (الجامع لاحکام القرآن ج ١١ ص 13)
محراب کا لفظ حرب سے بنا ہے گویا نماز پڑھنے کیلئے کھڑا ہو نے کو اپنے نفس امارہ، شہوات اور شیطان سے جنگ کرنا ہے۔ بعض کے نزدیک محراب البیت صدر مجلس کو کہتے ہیں اسی بنا پر جب مسجد میں امام کی جگہ بنائی گئی تو اسے بھی محراب کہہ دیا گیا ۔ (تفسیر مفردات القرآن)
رسول اللہ ﷺ کے دور میں کسی مسجد میں محراب نہیں بنائی گئی۔ سب سے پہلے امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے حفاظتی نکتہ نظر سے محراب تعمیر فرمائی۔
علامہ ابن عابدین شامی فرماتے ہیں :
’’ان کے زمانے میں مقصورہ اس کمرے کو(محراب) کہتے تھے جو مسجد کی قبلہ والی دیوار کے اندر کی طرف ہوتا تھا۔ جس میں حکمران نماز جمعہ ادا کرتے تھے۔ اور دشمن کے خطرے کی وجہ سے لوگوں کو اس کمرے میں نہیں جانے دیتے تھے۔(فتاوی شامی ص 569 ج 1)
محراب مسجد سے مراد کیا ہے
فقہائے کرام جس محراب میں نماز مکروہ فرماتے ہیں جس کیلئے حکم دیتے ہیں کہ امام مسجد کے پاؤں محراب سے باہر ہونے چاہئیں ورنہ امام اور مقتدیوں میں فاصلہ ہوجائے گا اور مقتدیوں کی اقتداء درست نہ ہوگی وہ محراب مسجد سے زائد ہوتا تھا۔ مسجد میں داخل نہ تھا۔ لہذا آج کل مسجد میں جو محراب ہے وہ مسجد کا حصہ ہے مسجد سے خارج نہیں لہذا نماز میں فرق نہیں پڑتا۔ قرآن کریم میں درج محراب کا مطلب مسجد اور کمرہ ہے۔ محراب کا وہ معنی نہیں جو ہم آج مراد لیتے ہیں اور جسے محراب مسجد کہتے ہیں۔
محراب کا لغوی اور اصطلاحی معنی
ملا علی بن سلطان محمد القاری متوفی 1014 ھ لکھتے ہیں :
قرآن مجید میں محراب سے مراد وہ ہئیت مخصوصہ ہے جس کو اب لوگ قبلہ کہتے ہیں کیونکہ مساجد کی یہ محرابیں ان چیزوں میں سے ہیں جن کو رسول اللہ ﷺ کے بعد بنایا گیا ہے اور اسی وجہ سے سلف کی ایک جماعت نے محراب بنانے کو مکروہ کہا ہے او اس میں نماز پڑھنے کو بھی مکروہ کہا ہے۔ قضاعی نے کہا سب سے پہلے عمر بن عبدالعزیز نے محراب بنائی وہ اس وقت ولید بن عبدالملک کی طرف سے مدینہ میں گورنر تھے، جب انھوں نے مسجد نبوی کو منہدم کر کے دوبارہ تعمیر کی اور اس میں اضافہ کیا اور مسجد میں امام کے کھڑا ہونے کی جگہ کو محراب کہتے ہیں کیونکہ وہ مسجد میں اشرف المجالس ہے۔ (مرقات ج 1 ص 224، مطبوعہ مکتبہ امداد یہ ملتان، 1390 ھ)
امام کے محراب میں کھڑے ہونے کی تحقیق
علامہ ابوالحسن علی بن ابی بکرا المرغینانی الحنفی المتوفی 593 ھ لکھتے ہیں :
اس میں کوئی حرج نہیں ہے کہ امام کے پیر مسجد میں ہوں اور اس کا سجدہ محراب میں ہو اور اس کا محراب میں کھڑا ہونا مکروہ ہے کیونکہ یہ اہل کتاب کے طریقہ کے مشابہ ہے کہ ان کے ہاں امام کی مخصوص جگہ ہوتی ہے۔ بخلاف اس کے کہ اس کا سجدہ محراب میں ہو۔ (ھدایہ اولین ص 141، مطبوعہ مکتبہ شرکتہ علیہ ملتان)
علامہ کمال الدین محمد بن عبدالواحد ابن الھمام الحنفی المتوفی 861 ھ لکھتے ہیں :
محراب میں کھڑے ہونے کے دو طریقے ہیں ایک طریقہ یہ ہے کہ وہ لوگوں سے ممتاز ہوتا کہ اس کے دائیں اور بائیں کے لوگوں پر اس کا حال مشتبہ نہ ہو حتی کہ محراب کی دونوں طرف دو ستون ہوں اور اس کے سامنے کشادہ جگہ ہو اور اس کی دونوں طرف والے اس کے حال پر مطلع ہوں تو اس کا محراب میں کھڑا ہونا مکروہ نہیں ہے اور مکروہ ہونا عراق میں ہوتا ہے جن کی محرابیں کھوکھلی اور طاق کے اندر ہوتی ہیں اور یہ بات مخفی نہ رہے کہ جگہ کے اعتبار سے امام کا ممتاز ہونا شرع میں مطلوب ہے حتی کہ امام کا صفوں پر مقدم ہونا واجب ہے اور یہاں امام کی مخصوص جگہ کو مکروہ کہا ہے اور اس کی تائید میں کوئی اثر (حدیث) نہیں ہے، کیونکہ رسول اللہ ﷺ کے عہد سے مساجد میں محاریب بنائی گئی ہیں اور اگر محاریب نہ بنائی گی ہوں تب بھی سنت یہ ہے کہ امام اس کی محاذات میں صف کے وسط میں سب سے آگے کھڑا ہو اور یہی مطلوب ہے کیونکہ محراب کی محاذات (سیدھ) کے بغیر امام کا کھڑا ہونا مکروہ ہے اور امام کے محراب میں کھڑے ہونے سے زیادہ سے زیادہ یہ لازم آئے گا کہ دو ملتوں کے بعض احکام متفق ہوجائیں اور اس میں کوئی بدعت نہیں ہے۔ علاوہ ازیں اہل کتاب امام کے لیے خصوصیت کے ساتھ بلند چبوترہ بناتے ہیں اور جب امام محراب میں فرش پر کھڑا ہوگا تو اس میں اہل کتاب کے ساتھ کوئی مشابہت نہیں ہے۔ (فتح القدیر ج 1 ص 25 مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت، 1415 ھ)
نیز علامہ ابن ھمام لکھتے ہیں کہ تشبہ اس وقت ہے جب امام بلند جگہ پر کھڑا ہو کیونکہ اہل کتاب امام کو چبوترے پر کھڑا کرتے ہیں، اس صورت میں امام کا محراب میں کھڑا ہونا مکروہ نہیں ہے کیونکہ کراہت کا مدار مشابہت پر ہے اور وہ امام کو نیچے (فرش پر) کھڑا نہیں کرتے۔ چبوترہ کی اتنی اونچائی جس پر کراہت موقوف ہے وہ آدمی کے قد کے برابر ہے اور مختار قول یہ ہے کہ وہ ایک ذراع اونچائی ہے یعنی ڈیڑھ فٹ۔ (فتح القدیر ج ١ ص 245، مطبوعہ دارالفکر بیروت، 1415 ھ)
علامہ سید محمد امین ابن عابدین شامی حنفی متوفی 1252 ھ لکھتے ہیں :
امام کا غیر محراب میں کھڑے ہونا مکروہ ہے کیونکہ اس سے پہلے علامہ علائی نے یہ کہا ہے کہ سنت یہ ہے کہ امام محراب میں کھڑا ہو اور ایک اور جگہ کہا ہے کہ سنت یہ ہے کہ امام وسط صف کے مقابل کھڑا ہو، کیا تم نہیں دیکھتے کہ محاریب کو مسجد کے وسط میں صرف اس لیے بنایا گیا ہے کہ امام کے کھڑے ہونے کی جگہ معین ہو۔ اور ظاہر یہ ہے کہ یہ حکم اس مام کے لیے ہے جو امام راتب ہو یعنی جماعت اولیٰ کثیرہ کا امام ہو نہ کہ جماعت ثانیہ کا امام کیونکہ وہ محراب کے دائیں یا بائیں کھڑا ہوتا ہے۔ (ردا المختارج 2 ص 266، مطبوعہ داراحیاء التراث العربی بیروت 1419 ھ )
بعض ناواقف لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ محراب مسجد سے خارج ہوتی ہے اس لیے امام کا محراب میں کھڑا ہونا مکروہ ہے، علامہ ابن ھمام کی تحقیق سے واضح ہوگیا ہے کہ امام کا محراب میں کھڑا ہونا اس وقت مکروہ ہے جب محراب میں امام کے لیے چبوترہ بنایا گیا ہو، ورنہ امام کا محراب میں کھڑے ہونا مکروہ نہیں ہے، نیز مسجد سے خارج وہ چیز ہوگی جس کو مسجد بناتے وقت مسجد سے خارج رکھا جائے اور عرف اس پر شاہد ہے کہ مسجد بناتے وقت محراب کو مسجد سے خارج رکھنے کا قصد نہیں کیا جاتا۔
امام ابن ھمام نے جو یہ لکھا ہے کہ امام کا محراب میں کسی بلند جگہ یا چبوترہ پرکھڑے ہو کر نماز پڑھانا مکروہ ہے اس کی دلیل ان احادیث میں ہے :
ھمام بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابوحذیفہ نے مدائن میں چبوترہ پر کھڑے ہو کر لوگوں کو نماز پڑھائی، حضرت ابو سعید (رضی اللہ عنہ)نے ان کو قمیض سے پکڑ کر نیچے کھینچ لیا اور جب وہ نماز سے فارغ ہوگئے تو کہا کیا تم کو معلوم نہیں ہے کہ مسلمانوں کو اس سے منع کیا جانا تھا ! انھوں نے کہا ہاں ! جب تم نے مجھے کھینچا تو مجھے اید آیا۔ (سنن ابو داؤد رقم الحدیث :597)
عدی بن ثابت انصاری بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے یہ حدیث بیان کی کہ وہ حضرت عمار بن یاسر (رض) کے ساتھ مدائن میں تھے، حضرت عمار آگے بڑھ گئے اور ایک چبوترے پر کھڑے ہو کر لوگوں کو نماز پڑھانے لگے اور لوگ ان سے نیچے تھے۔ حضرت حذیفہ نے آگے بڑھ کر ان کے ہاتھوں کو پکڑ لیا۔ حضرت عمار نے ان کی اتباع کی، حتیٰ کہ حضرت حذیفہ نے ان کو نیچے اتار لیا۔ جب حضرت عمار نماز سے فارغ ہوگئے تو حضرت حذیفہ نے ان سے کہا کیا تم نے یہ نہیں سنا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ فرماتے تھے کہ جب کوئی شخص لوگوں کا امام بنے تو لوگوں سے بلند جگہ پر کھڑا نہ ہو۔ حضرت عمار نے کہا اسی وجہ سے میں نے آپ کی اتباع کی تھی جب آپ نے میرا ہاتھ پکڑا تھا۔ (سنن ابوداؤد رقم الحدیث :958، سنن کبری للبیہقی ج ٣ ص 109)