مراتب وجود
کائنات کی کسی چیز کا ذکر کیا جائے ، بات وجود حقیقی (حق تعالی تک جائے گی کیونکہ علة العلل وہی ہے ۔ غایۃ الغایات اسی کو کہتے ہیں۔اس وجود کے بہت سے مراتب ہیں ان میں سے پہلا مرتبہ لا تعین،اطلاق یا ذات بحت کا ہے یہ نہیں کہ اطلاق کی قید یا پابندی اور سلب تعین کا مفہوم اس مرتبہ میں ثابت ہے ہے بلکہ یہ مرتبہ ان معنیٰ میں لاتعین ہے کہ وجود اس مرتبے میں ہر قسم کی صفات کی نسبت سے منزہ اور ہر قید سے حتی کے اطلاق کی قید سے بھی پاک ہے اس مرتبہ کو مرتبہ احدیت بھی کہا جاتا ہے اور حق سبحانہ و تعالی کی کنہ(حقیقت)ہے اس مرتبہ سے اوپر اور کوئی مرتبہ نہیں بلکہ جملہ مراتب اس کے تحت ہی ہیں
مرتبہ ثانی کو مرتبہ تعین اول کہتے ہیں اس سے مراد اللہ تعالی کا اپنی ذات و صفات کو ایک دوسرے میں امتیاز کیے بغیر اوراجمالی طور پر جاننا ہے اسے مرتبہ وحدت اور حقیقت محمدی بھی کہتے ہیں
مرتبہ ثالث کو مرتبہ تعین ثانی کہا جاتا ہے اس سے مراد اللہ تعالی کا یعنی ذات و صفات کو اور جملہ موجودات کو تفصیلی طور پر اور ایک دوسرے میں امتیاز کے ساتھ جاننا ہے اسے واحدیت اور حقیقت انسانیہ بھی کہتے ہیں
مذکورہ بالا تینوں مراتب قدیم ہیں ان کا آگے پیچھے ہونا عقلی ہے زبانی نہیں ہے۔
چوتھا مرتبہ مرتبہ ارواح ہے اس سے مراد وہ مجرد اوربسیط کونی اشیاء ہیں جو اپنی ذوات اور امثال پر ظاہر ہوتی ہیں
پانچواں مرتبہ عالم مثال کا ہے اس سے مراد اشیاء کونیہ مرکبہ لطیفہ ہیں جو نہ تو اجزاء میں تقسیم ہوتی ہیں نہ ان کے ٹکڑے کیے جا سکتے ہیں اور نہ وہ فرق والتیام یعنی پھاڑنے اور جوڑنے کا عمل قبول کرتی ہیں
چھٹا مرتبہ عالم اجسام کا ہے اور یہ ان اشیائے کو نیہ مرکبہ کثیفہ سے عبارت ہے جو تجزی اور الگ الگ ہونے کا عمل قبول کرتی ہیں
ساتواں مرتبہ ان تمام مراتب مذکورہ جسمانی، نورانی، روحانی، وحدت اور واحدیت کا جامع ہے یہ سب سے آخری تجلی اور سب سے آخری لباس ہے اسے انسان کہتے ہیں
مراتب کا ظہور
ان مراتب میں سے پہلا مرتبہ لا ظہور کا مرتبہ ہے باقی چھ مراتب ظہورکلیہ کے ہیں ان میں سے آخری مرتبہ یعنی انسان جب عروج کرتا ہے تو اس میں تمام مذکورہ مراتب اپنے پورے پھیلاؤ کے ساتھ ظاہر ہوجاتے ہیں اس کو انسان کامل کہا جاتا ہے یہ عروج اور جملہ مراتب کا پھیلاؤ کامل طور پر ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میں ظاہر ہوا اسی بنا پر آپ خاتم النبیین کہلائے
مراتب الوہیت کے اسماء کا مراتب کون وخلق پر بولنا جائز نہیں اسی طرح مرا تبہ کو ن خلق کا مراتب الوہیت پر اطلاق جائز نہیں ہے
من حيث ھو ھو (وہی میرا رب ہے یا ھو) میں نہ اعتبار دینی ہے نہ اعتبار خارجی – مرتبہ لا میں بشرط شے میں وجود نہ اطلاق میں مقید ہے نہ تقید میں۔ اس مرتبہ میں وہ نہ کلی ہے نہ جزوی نہ عام ہے نہ خاص۔ نہ واحد ہے نہ کثیر ہے۔ جملہ اعتبارات واضافات یہاں ساقط ہیں۔ یہ مرتبہ سب درجوں سے بلند ہے۔ رفیع الدرجات سے اس مرتبہ کی جانب اشارہ ہے۔
كان الله ولم يكن معه شي الآن كما كان نہ جوہر ہے نہ عرض ہے۔ بعینہ بذاتہ موجود ہے اور کسی دوسری چیز سے جو ذہنا یا خارجا اس سے مغائرت رکھتی ہو موجود نہیں۔ وہ ہدیہی ہے اور حقیقت و ماہیت میں سب چیزوں سے پوشیدہ ۔ ذہن اور خارج میں کوئی شے بغیر اس کے نہیں پائی جاتی ۔ پس وہ بالذات سب کا محیط ہے۔ اس سے اشیا کا توارد ہے۔ وہی اشیاء کا عین ہے۔ وہی اپنے مرتبوں میں تجلی فرماتا ہے اور علم اور عین میں اپنی حقیقتوں سے اور صورتوں سے ظہور فرماتا ہے پھر اسی کا نام ماہیت اور اعیان ثابتہ ہو جاتا ہے اور ہر مرتبہ میں اس کا نام بدلتا رہتا ہے۔ وہی ضدین میں ظہور کرتا ہے اور اس سے مثلین قائم
ہوتی ہیں حالانکہ وہ بے مثل و بے مثال ہے اور وجود ذہنی اور وجود خارجی سب اس کے اظلال ہیں۔
الم تر الی ربک كيف مد الظل ( الفرقان: 45) یعنی وجود اضافی (ذہنی) کو ممکنات پر کیسے پھیلایا۔ اسما و صفات کے لباس ہی میں پھیلایا۔