مسئلہ اشارہ سبابہ
مولوی سید احمد علی شاہ نقشبندی مجددی
فاضل دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک سکنہ شالپین ضلع سوات سرحد خیبر پختونخواہ
اولیاء کرام کا خادم فقیر سید احمد علی شاہ عرض پرداز ہے ہے کہ استدلال کرنے والا مجتہد ہوگا یا مقلد اگر مجتہد ہوگا تو وہ استدلال کرے گا قرآن مقدس سے یا سنت رسولﷺ سے یا اجماع یا قیاس سے جو ان تمام سے مستنبط (نتیجہ اخذ کرنا)ہے اور اس کی تفصیل اصول فقہ شریف میں مذکور ہے اس کو بیان کرنے کی حاجت نہیں ہے اور اگر استدلال کرنے والا مقلد ہو تو اس کی دلیل اپنے مجتہد کا قول ہے جیسا کہ صاحب(محمد بشیر الدین قنوجی) کشف المبہم (شرح مسلم الثبوت)نے صفحہ 11 میں اپنے قول میں کہا ہے
واما المقلد فعندہ قول مجتھدہ اور جو مقلد ہے تو اس کا استدلال اپنے مجتہد کا قول ہوگا۔
شرح طریقہ محمدیہ (جلد 1 صفحہ 168)کے مؤلف(محمد بن مصطفے خادمی) لکھتے ہیں۔
وَلِذَا كَانَ دَلِيلُ الْمُقَلِّدِ هُوَ قَوْلُ الْمُجْتَهِدِ اور اس لئے کہ مقلد کی دلیل مجتہد کا قول ہے۔
جب تمہیں مذکورہ بالا بیان سے معلوم ہوا کہ مقلد کی دلیل صرف اور صرف اپنے مجتہد کا قول ہوتا ہے بس جاننا چاہیئے کہ اگر تعارض تمہیں معلوم ہو جائے نص(قطعی حکم) اور فقہاء کے قول کے درمیان تو مقلد کی دلیل فقہاء کا قول ہے کیونکہ ان کا قول وہ نص سے ہوگا اور نہ وہ اپنے علم کے مطابق۔
نص سے استنباط کرے گا کیونکہ احکامات کا نصوص سے نکالنا مجتہد کا کام ہے نہ کہ مقلدکا کیونکہ اگر کوئی نص ہو تو اس نص کا دوسرا نص معارض ہوگا یا اس کے لئے کوئی تاویل یا تخصیص ہوگی یا اس کے لئے کوئی ناسخ و غیرہ ہوگا اس قبیلہ سے جو خاصہ مجتہد کا ہوگا اور مقلد کے خیال کی رسائی اس کی طرف ممکن نہیں ہے تویہ نص کےمقابل رائے پر عمل کرنا ہے جیسا کہ بریقہ شرح طریقہ محمدیہ نے اپنے ان الفاظ سے ذکر کیا ہے وہ لکھتے ہیں
وَلِذَا كَانَ دَلِيلُ الْمُقَلِّدِ هُوَ قَوْلُ الْمُجْتَهِدِ لَا النُّصُوصُ إذْ اسْتَخْرَجَ الْأَحْكَامَ مِنْهَا لَيْسَ إلَّا مَنْصِبُ الْمُجْتَهِدِ وَقَدْ قَالُوا إذَا تَعَارَضَ النَّصُّ وَقَوْلُ الْفُقَهَاءِ يُؤْخَذُ بِقَوْلِ الْفُقَهَاءِ إذْ يُحْتَمَلُ كَوْنُ النَّصِّ اجْتِهَادِيًّا وَلَهُ مُعَارِضٌ قَوِيٌّ وَتَأْوِيلٌ وَتَخْصِيصٌ وَنَاسِخٌ وَغَيْرُهَا مِمَّا يَخْتَصُّ بِمَعْرِفَتِهِ الْمُجْتَهِدُ وَأَنَّ ذَلِكَ كَالرَّأْيِ فِي مُقَابَلَةِ النَّصِّ (بريقۃ محموديۃ فی شرح طريقۃ محمديۃ وشريعۃ نبويۃجلد 1 صفحہ 168)
اور مقلد کی دلیل مجتہد کا قول ہوتا ہے نہ کہ نصوص کیونکہ احکامات کا نکالنا یہ مجتہد کا مرتبہ ہے نہ کہ دوسرے کا ۔اس لیے کہا گیا ہے کہ جب نص اور فقہاء کے قول کے درمیان تعارض(مقابل ) واقع ہو جائے تو فقہاء کا قول لیا جائے گا کیونکہ نص اجتہادی یا اس کے مقابل قوی دلیل ہو یا وہ تاویل کے باب سے ہو یا تخصیص اور ناسخ کے قبیل سے ہو وغیرہ تو اس کا جاننا مجتہد کا کام ہے یہ اس کے ساتھ خاص ہے ،اگرچہ ان کی رائے مقابلہ نص میں واقع ہو۔
اور اسی مؤلف بریقہ نے ذکر کیا ہے
وَكَأَنَّ احْتِجَاجَ الْمُعْتَرِضِ بِالْحَدِيثِ وَالْكُتُبِ الضَّعِيفَةِ كَانَ رَأْيًا فِي مُقَابَلَةِ النَّصِّ وَتَرْجِيحِ الْمَرْجُوحِ عَلَى الرَّاجِحِ وَقَدْ كَانَ دَلِيلُ الْمُقَلِّدِ هُوَ قَوْلُ مَنْ قَلَّدَهُ لَا غَيْرُ فَإِنَّ الِاحْتِجَاجَ بِالنَّصِّ هُوَ مَنْصِبُ الِاجْتِهَادِ(بريقۃ محموديۃ فی شرح طريقۃ محمديۃ وشريعۃ نبويۃجلد 2 صفحہ 464)
اور جب احتجاج (حجت)معترض کا حدیث سے ہو اور رائے نص کے مقابلے میں ہو اور مرجوح کی راجح پر ترجیح (فوقیت)ہو تو مقلد کی دلیل اسی کی ہوگی جس کی وہ تقلید کرتا ہے کیونکہ احتجاج اجتہاد کے قبیلہ سے ہے۔
آگے لکھتے ہیں
وَأَنَّ أَدِلَّةَ الْمُقَلِّدِ لَيْسَتْ إلَّا قَوْلَ الْمُجْتَهَدِ وَلِهَذَا إذَا ظَهَرَ التَّعَارُضُ بَيْنَ أَقْوَالِ الْفُقَهَاءِ وَبَيْنَ آيَةٍ أَوْ حَدِيثٍ فَيُقَدَّمُ قَوْلُ الْفُقَهَاءِ ؛ لِأَنَّ مَعْرِفَتَهُ عَلَى وَجْهِ التَّحْقِيقِ لِلْمُجْتَهِدِ فَلَعَلَّ لِتِلْكَ الْآيَةِ مَثَلًا مُعَارِضًا أَوْ مُخَصَّصًا أَوْ تَأْوِيلًا أَوْ نَاسِخًا اطَّلَعَ عَلَيْهِ الْمُجْتَهِدُ وَلَمْ تَطَّلِعْ أَنْتَ(بريقۃ محموديۃ فی شرح طريقۃ محمديۃ وشريعۃ نبويۃجلد 2 صفحہ 126)
اور کیونکہ مقلد کے دلائل مجتہد کی دلیل کی طرح نہیں ہوسکتے بلکہ وہ مجتہد کا قول ہوتا ہے اس لئے جب اقوال فقہاء اور آیات و حدیث کے درمیان تعارض پیدا ہوجائے تو فقہاء کے قول کو مقدم رکھوگے کیونکہ اس کا جاننا اور تحقیق مجتہد کے لئے ہے تو شاید وہی آیت معارض ہوگی یا مخصص یا اس میں تاویل ہوگی یا اس کے لئے ناسخ ہوگی جب کہ مجتہد کو اس پر اطلاع مل گئی ہو اور تمہیں اس پر اطلاع نہ ہو‘‘
اور مقلد اپنے قول سےخروج نہیں کریگا جیسا کہ اس کو امام شعرانی نے میزان الکبریٰ میں ذکر کیا وہ لکھتے ہیں
ومن شان المقلد ان لا یخرج عن قول امامہ(میزان الکبریٰ صفحہ 13)
مقلد کی شان یہ ہے کہ وہ اپنے امام کے قول سے نہ نکلے اور مقلد پر واجب ہے کہ وہ اپنے مجتہد کے قول پر اعتراض نہ کرے اور اس پر جزماً (پکا)یقین رکھے کہ وہ اپنے رب کی طرف سے ہدایت پر ہے۔
اور اسی بات کو امام شعرانی اپنی کتاب میزان الکبری میں لکھتے ہیں
فیجب علی کل مقلد ان لا یعترض علی قول مجتھد الی ان قال وکذالک یجب علیہ الاعتقاد الجازم بان ذالک الامام علی ھدی من ربہ فی ذالک (میزان الکبریٰ جلد 1 صفحہ 5)
تو ہر مقلد پر واجب ہے کہ وہ مجتہد کے قول پر اعتراض نہ کرے
آگے لکھا ہے
اور اس طرح اس پر جزمی یقین واجب ہے کہ وہ امام اس مسئلہ میں اپنے رب کی طرف سے ہدایت پر ہے۔
آگے امام شعرانی نے مزید لکھا۔
فاعتقادک یا اخی الصحۃ فی کلام ائمۃ الھدی واجب علیک (میزان الکبریٰ جلد 1 صفحہ 62)
تو اے میرے بھائی ہدایت کے اماموں کے کلام کی صحت پر یقین رکھنا تم پر واجب ہے اور مقلد کو یہ جائز نہیں کہ وہ مجتہد کے قول میں الجھے۔
اور یہی بات ملا جیون تفسیر احمدی میں لکھتے ہیں
ولیس للمقلد ان ینازع المجتھد فی حکمہ (تفسیرات احمدیہ صفحہ 209)
اور مقلد کے لئے یہ جائز نہیں کہ وہ مجتہد کے قول میں جھگڑے اور کسی کو یہ زیبا نہیں کہ وہ مجتہد کو خطاوار ٹھہرائے اور نہ اس کے کلام میں طعن کرے کہ وہ اللہ کی شریعت کو اچھی طرح جانتے ہیں اور اللہ نے ان کا حکم ماننا لازم کیا ہے (کہ وہ اولوالامر میں داخل ہیں) پس جس نے کسی مجتہد کی طرف خطا کی نسبت کی تو اس نے گویا شارع (شریعت بتانے والا)کی طرف خطا کی نسبت کی کیونکہ شارع نے اس کے حکم کو ثابت کیا ہے۔
اور اسی بات کو امام شعرانی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب میزان الکبری میں یوں لکھا ہے۔
لا ینبغی لاحد قط ان یخطئی مجتھد او یطعن فی کلامہ لان الشرع الذی ھو حکم اللہ تعالی وقد قرر حکم المجتھد فصار شرع اللہ تعالیٰ بتقریر اللہ تعالیٰ ایاہ فکل من خطاء مجتھد بعینہ فکانہ خطا الشارع فیما قررہ حکما۔
کسی کو یہ زیبا نہیں کہ وہ کسی مجتہد کو مخطی (خطاکار)سمجھے یا اس کے کلام میں طعن کرے کیونکہ وہ شرع اللہ کا حکم ہوتا ہے تو مجتہد کا قول قرار پایا گیا تو یہ اللہ تعالی کی تقریر(حجت) سے شرح اللہ کا ہوا خاص اس لئے تو مجتہد کو خطاوار سمجھا تو گویا اس نے اس نے شارع کو خطا وار سمجھا اس نے اس کے حکم کو مقرر کیا ہے۔
اشارہ بسبا بہ تشہد میں تحقیق
جاننا چاہیئے کہ ہمارے ملک میں علمائے کرام اس مسئلہ ’’ا شارہ‘‘ میں مختلف ہیں ہیں بعض دعوی کرتے ہیں کہ اشارہ سنت ہے اور بعض کہتے ہیں کہ یہ حرام ہے اس وجہ سے دونوں میں افراط و تفریط ہوئی ہے وہ ایسا ہے کہ اشارہ شہادت کی انگلی سے بہت سی احادیث اور بے شمار روایات میں مختلف کیفیات کے ساتھ وارد ہے تو اس وجہ سے مذاہب ثلاثہ کے علماء اس کی سنت کی طرف گئے ہیں لیکن امام اعظم کوفی رحمۃ اللہ علیہ سے اس کی سنت اشارہ منقول نہیں نہ قولاً اور نہ فعلاً یا ان احادیث کے ضعیف ہونے کی خاطر یا بوجہ اختلاف جو کہ متن میں واقع ہے جو موجب ہو اضطر اب کے لئے ایسا اضطراب جو توقف کو موجب بناتا ہے یہ اس وجہ سے ہے کہ وہ منسوخ ہوچکی ہے تو کتب ستہ اور امام محمد بن حسن جو مسمی (نام رکھا گیا)ہے ظاہر المذہب اور ظاہر الروایت کے ساتھ تو یہ اشارہ شہادت کی انگلی کے ساتھ تعرض سے خالی ہیں اور متون جووضع کی گئی ہیں مذہب کے نقل کرنے میں وہ بھی خالی ہیں اس بات سے کہ اشارہ سنت ہے یہ کوئی اعتراض نہیں کر سکتا کہ ظاہرالروایات کی کئی کتابیں جب ساکت ہیں اشارہ شہادت کی انگلی سے تویہ نفی اشارہ کے لئے دلیل کس طرح ہو سکتی ہے ؟
تو ہم جواب دیتے ہیں کہ علمائے اصول فقہ نے اقسام بیانات ذکر کی ہیں کہ حاجت کی جگہ سکوت بیان کے لیے بیان ہے جیسا کہ شفیع کا ساکت ہونا علم البیع کے وقت شفع کی طلب سے تو یہ دلیل تسلیم کی ہے اور صاحب شرع کا ساکت ہونا جس وقت وہ دیکھے اور اس کی طاقت اس کے منع پر بھی ہو اور یا حکم بھی دے سکتا ہوں تو یہ دلیل ہے کہ وہ کام جائز ہے ۔
اگر کوئی یہ اعتراض کرے کہ ثبوت اشارہ امام اعظم ابو حنیفہ رحمتہ اللہ علیہ سے منقول نہیں ہے لیکن ثابت ہوا صاحب اشارہ سے تو مومن کے لئے جائز ہے کہ وہ اعتراض کرے عما ثبت رسول اللہ ﷺ سے۔ تو یہ کام مجتہد کا ہے اور ہمیں اس بارے میں کوئی علم نہیں ہے استخراج کی طرف ان کی طرح اور مجتہد کی دلیل کتاب و سنت اجماع صحابہ اور قیاس ہے اور جو مقلد ہیں دلیل اس کی مجتہد کا قول ہے ۔
میں یہ مانتا ہوں کہ ایک حدیث حضور معلم و مقصود کائنات ﷺ سے امام محمد رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے نقل کی ہے جس سے اشارہ تشہد میں ثابت ہوتا ہے اور امام محمد رحمۃ اللہ علیہ نے اس جگہ فرمایا ہے۔
وبضع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ناخذ ھذاقولی وقول ابی حنیفۃ (المحیط البرھانی)
کہ حضور ﷺ کے کرنے سے اس پر عمل کرتے ہیں یہ میرا اور امام ابو حنیفہ کا قول ہے۔
لیکن یہ روایت ظاہر الروایۃ میں مندرج نہیں ہے تو ان کی کتب کا مقابلہ ظاہر الروایات کے ساتھ روایت مع المذہب کا ہے پس لازم ہے مفتی مقلد پر کہ وہ مذہب پر فتوی دے نہ روایت پر۔
محقق ابن عابدین شامی نے فرمایا ہے
کل مایخالف ظاہر الروایۃفھو دلیل برجوع الامام عنہ فلا ینبغی ان یفتی بہ وان العمل والافتاء بالاقوال الضعیفۃ والروایات المرجوحۃ جھل و خرق الاجماع
جو روایت ظاہر الروایات کی مخالف ہو تو وہ امام کے اس سے رجوع کی دلیل ہے تو اس کے لیے یہ صحیح نہیں ہے کہ اس پر فتوی دے کیونکہ عمل اور افتاء دینا اقوال ضعیفہ اور مرجوحہ روایات پر اجماع کو توڑنا ہے۔
تو احناف کے معمولات میں سے یہ ہے کہ وہ عدم اشارہ پر فتوی دے کیونکہ مقلدین کی کتب مختلف ہیں اشارہ کے کرنے اور نہ کرنے کے بارے میں۔لیکن اشارہ کی ممانعت فتوی کے ساتھ پیوست ہے۔
دیکھو فتاویٰ عالمگیری وہ لکھتے ہیں
نقلا عن الْخُلَاصَةِ وَعَلَيْهِ الْفَتْوَى. كَذَا فِي الْمُضْمَرَاتِ نَاقِلًا عَنْ الْكُبْرَى وَكَثِيرٌ مِنْ الْمَشَايِخِ لَا يَرَوْنَ الْإِشَارَةَ (جلد اول صفحہ 74) وَلَا يُشِيرُ بِسَبَّابَتِهِ عِنْدَ الشَّهَادَةِ وَعَلَيْهِ الْفَتْوَى(خلاصہ صفحہ 55 رد المختار جلد دوئم صفحہ 80)
’’خلاصہ الفتوی‘‘ سے نقل کرتے ہیں اور اس پر فتویٰ ہے ایسا ہی ’’مضمر ات‘‘ میں ہے وہ’’ کبریٰ‘‘ سے نقل کرتے ہیں اور زیادہ مشائخ اشارہ نہیں کرتے تھے اور’’ شامی‘‘ میں ہےکہ جم غفیر کا اعتماد اس پر ہے کہ اشارہ نہیں کرتے تھے۔یہ بات انہوں نے پسند کی ہے۔
اور ایسا ہی ’’فتوی غوثیہ‘‘ میں اشارہ کے نہ کرنے کو مختار کہا ہے وہ کتابیں جن میں اشارہ سبابہ ( انگلی) سے منع لکھا ہے وہ یہ ہے۔
’’شرح الیاس‘‘ جلد اول صفحہ 128’’ فتاوی قاضی خان‘‘ ’’ سراجیہ‘‘ صفحہ 11نے مکروہ کہا ہے اور شیخ بدر الدین سرہندی نے اس کو مذہب امام ابوحنیفہ حرام اور منع لکھا ہے۔
اگر ان دونوں روایتوں کو برابر تسلیم کیا جائے تو بھی اشارہ کا ترک کرنا بہتر ہے’’ در المحتار‘‘ جلد اول صفحہ 150 کے اس قول کے مطابق
إذَا تَرَدَّدَ الْحُكْمُ بَيْنَ سُنَّةٍ وَبِدْعَةٍ كَانَ تَرْكُ السُّنَّةِ رَاجِحًا
جب کسی حکم میں سنت اور بدعت کے درمیان تردد واقع ہو جائے تو اس سنت کو ترک کرنا بہتر ہے۔
اور بہتر بیان مجدد الف ثانی امام ربانی کا ہے(مکتوبات جلد دوم صفحہ 216)
نوٹ: حدیث اشارہ خبر واحد ہے اور خبر واحد علمائے اصول کے نزدیک مشروط ہے دس شرائط پر
پہلی شرط یہ ہے کہ وہ عام حادثہ سے مخالف نہ ہو گا اور اشارہ اثبات والی حدیث عام حادثہ سے مخالف ہے پانچ وقت کی نماز کیلئے ہر وقت حاضر ہونا ضروری ہے اور دوسرے ساتھی بھی حاضر ہوتے ہیں تو وہ وہ کچھ نہیں کہتے اور صرف ایک صاحب کہتا ہے یہی بات( نبراس شرح العقائد نے لکھی ہے صفحہ 44،81)
اور اشارہ اس لئے نہیں کرنا چاہئے کہ تمام احادیث اشارہ کے اثبات والی وہ تمام کی تمام مضطرب ہیں بغیر امکان توفیق کے اور مضطرب کے متعلق حکم یہ ہے کہ یہ احادیث موقوف العمل ہیں تو ایسا ہوا کہ اس دنیا میں یہی احادیث موجود نہیں ہیں۔
وَإِن وَقع فِي إِسْنَاد أَو متن اخْتِلَاف من الروَاة بِتَقْدِيم أَو تَأْخِير أَو زِيَادَة أَو نُقْصَان أَو إِبْدَال راو مَكَان راو آخر أَو متن مَكَان متن أَو تَصْحِيف فِي أَسمَاء السَّنَد أَو أَجزَاء الْمَتْن أَو بِاخْتِصَار أَو حذف أَو مثل ذَلِك فَالْحَدِيث مُضْطَرب
فَإِن أمكن الْجمع فبها وَإِلَّا فالتوقف(مقدمۃ المشکوۃ الشیخ عبد الحق محدث الدھلوی)
اگر اسناد یا متن میں راویوں کے اختلاف ہو،یا اس کی تقدیم یا تاخیر ،یا زیادت وکمی، یا ایک راوی کی جگہ دوسرا راوی، یا متن کی جگہ متن ،یا اسماء سند میں تصحیف(تحریر کی غلطی)،یا متن کے اجزاء میں،یا اختصار یا حذف میں ،یا ان جیسا تو یہ حدیث مضطرب کہلاتی ہے۔ مقدمہ شیخ عبد الحق محدث دہلوی نے یہی بات لکھی ہے اور اگردونوں کا اکٹھا ہونا مناسب ہو تو ٹھیک ہے اور اگر دونوں کو اکٹھا کرنا مناسب نہ ہو تو پھر اس میں توقف ہے۔
اضطراب کی وجوہات
پہلی وجہ
حدیث ابن عمر مؤطا امام مالک صفحہ 96 موطا امام محمد صفحہ 108 تمام انگلیوں کو بند رکھے
دوسری وجہ
ابو داود، دار می ثم مشکاۃ صفحہ 77 یعنی دو انگلیوں کو بند رکھے اور باقیوں سے حلقہ بنائے
تیسری وجہ
۵۳ کا عقد بنائے حدیث ابن عمر و مسلم ثم مشکاۃ صفحہ 77
چوتھی وجہ
۲۳ کا عقد بنائے حدیث ابن زبیر مسلم ثم مشکاۃ صفحہ 77
پانچویں وجہ حدیث وائل بن حجر ابو داود دار می ثم مشکاۃ صفحہ 77
دائیں کف کو کھینچے دائیں ران پر۔
موطا امام مالک صفحہ96 و موطا امام محمد صفحہ 108
دائیں کف کو کھینچے دائیں ران پر رکھنا۔
چھٹی وجہ
حدیث وائل بن حجر ابن ماجہ ثم مشکاۃ صفحہ 77
انگوٹھے کو درمیان والی انگلی پر رکھنا
ساتویں وجہ
یحرکھاحدیث وائل بن حجر ابوداؤد دارمی م ثم مشکاۃ صفحہ 77 کہ اس پر سبابہ انگلی کو ہلائے اس میں اثبات تجددی حرکت ہے لایحرکھا
ابن زبیر ابو داؤد نسائی ثم مشکاۃ صفحہ 77 کہ اس انگلی کو نہ ہلائے
اس حدیث نفی دو ام تجددی حرکت ہے اور ان وجوہات کی بنا پر ان دو آیات کی موافقت ممکن نہیں ہے مجدد الف ثانی سرہندی رحمۃ اللہ علیہ نے حکم کیا ہے ’’ اشارہ بسبابہ کی تمام احادیث مضطرب ہیں ‘‘
مولانا بحرالعلوم عبدالجلیل رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب’’ تنبیہ الاخوان ‘‘میں لکھا ہے کہ اشارہ کے بارے میں احادیث تشہد میں ’’مشکوۃ شریف‘‘ صفحہ 85 میں عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہما اور حضرت عبداللہ بن زبیر اور وائل بن حجر اور پھر عبداللہ بن زبیر فصل ثانی اور نافع سے مختلف روایات ذکر ہیں اور کیفیت اس کی پانچ یا سات طورہیں تو تحقیق اس مسئلہ میں یہ کہ مشکوۃشریف صفحہ 101 میں فرمایا گیا ہے
حضرت انس رضی اللہ عنہ کی روایت ہے
قال الحميدي قوله وَإِنَّمَا يُؤْخَذُ بِالْآخِرِ فَالْآخِرِ، مِنْ فِعْلِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هذا لفظ البخاری
حمیدی نے فر ما یا اس کا قول کہ حضور کے آخری فعل سے اخذ کیا جاتا ہے ، اور وہ آخری فعل حضور علیہ الصلوة والسلام سے ہو۔
یہ بخاری کے الفاظ ہیں۔ تو حاصل یہ ہوا کہ اس میں اس بات کی طرف اشارہ ہے۔
أن الذي يجب به العمل هو ما استقر عليه آخرالامر من النبی صلی الله علیه و آله وسلم وما كان قبله من ذالک مرفوع الحكم وهو الذي ذهب اليه ابو حنيفة والشافعي والثوري وجمهور السلف (بخاری شریف جلد اول ص 66 حاشیہ صفحہ2)
وكذا قال اشعة اللمعات (ترجمہ مشکوۃ ، جلد اول ص 488)
وعمل کرده نمی شود مگر بہ آخر پس از فعل پیغمبر کہ ناسخ فعل اول است وكذا (219عمدة القاری عینی الجزء الخامس )
وہ جس پرعمل واجب ہے تو وہ حضور کا آخری حکم ہے، اور اس سے جو پہلا حکم ہو اس کا حکم اٹھایا جاتا ہے، اس بات کی طرف امام ابو حنیفہ اور امام شافعی اور امام ثوری اور جمہور سلف گئے ہیں ، اور ’’اشعۃ اللمعات‘‘ میں بھی ایسا ہی فرمایا گیا ہے کہ عمل حضور علیہ الصلوة والسلام کے آخری فعل پر ہو گا ، اور وہ فعل اول کا ناسخ ہے، ایسا ہی’’ عمدة القاری‘‘میں ہے۔
تو مطلب یہ ہے کہ حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے آخری فعل سے اشارہ کے متعلق معلومات کسی کو نہیں ہیں ۔ تو اس وجہ سے فقہاء اور اکابرین کے درمیان اشاره کے متعلق اختلاف ہے۔ بعض اس کو مکروہ کہتے ہیں بعض اس کو حرام کہتے ہیں جیسا کہ ’’ظہیری‘‘ اور’’ خلاصۃ الفتاویٰ‘‘ اور ’’عتابیہ‘‘ اور’’ بزازیہ‘‘ و ’’تاتار خانیہ‘‘ و’’جامع المضمرات‘‘ میں ہے۔
اور فتاویٰ عالمگیری صفحہ58 میں ذکر کیا گیا ہے
وَالْمُخْتَارُ أَنَّهُ لَا يُشِيرُوَعَلَيْهِ الْفَتْوَى وَكَثِيرٌ مِنْ الْمَشَايِخِ لَا يَرَوْنَ الْإِشَارَةَ وَ وَكَرِهَهَا كَذَا فِي التَّبْيِينِ
مختار یہ ہے کہ اشارہ نہیں کرنا چاہیے اور اس پر فتویٰ ہے اور بہت سے مشائخ اشارہ کو سنت نہیں جانتے تھے اور اس کو مکروہ جانتے تھے ایسا ہی ’’تبیین‘‘ میں لکھا ہے تو یہ اختلاف کیفیت اشارہ میں صحابہ سے بھی ہے اور ایساہی اختلاف اکابر علماء سے کیفیت کے بارے میں ہے تو تحقیق اس بارے میں یہ کہ اشارہ نہ کرے اس لئے کہ صلوۃ حضور علیہ الصلوۃ واسلام کایہ عام ہے اور حادثہ بھی عام ہے اور ہر صحابی کی روایت میں کیفیت کی خصوصیت نہیں ہے مگر یہ خبر واحد ہے اور خبر واحد حادثہ عامہ غیر مقبول ہے اور اس پر عمل کرنا حرام ہے۔
قال في فصول الشاشي ومن صور مخالفه الظاهر عدم اشتهار الخبر فيما یحم به البلوى في الصدور الاول والثاني فاذا لم يشتهر الخبر مع شھرۃ الحاجه وعموم البلوى كان ذلك علامه عدم الصحۃ(ص 77) فصول الشاشي وهو مختار ابي حسن الكرخي من اصحابنا المتقدمين وهو مختار المتاخرين منهم(فصول الشاشی صفحہ272)
فصول الشاشی میں ہے ظاہر کی مخالفت کی شکل یہ ہے کہ جہاں عام بلوی(بہت سے لوگ) ہو اور خبر کی شہرت نہ ہو پہلے اور دوسرے زمانوں میں اور جب سخت حاجت اور بلوی کے ساتھ بھی خبر کی شہرت نہ ہو تو یہ عدم صحت کی علامت ہے۔
پھر آگے لکھتا ہے
یہاں ابی حسن کرخی متقدمین سے مختار روایت ہے اور متاخرین میں بھی یہ اختیار کیا گیا ہے۔
اور ایسا ہی مولوی علی الحسامی صفحہ291 نے لکھا ہے ۔
حتى لو كان وروده فيما يعم به البلوى يعني ورود الخبر الواحد لا يقبل لان خبر النبي صلى الله عليه واله وسلم فيما به البلوى لم يقتصر على مخاطبه الاحاد بل يلقیہ الى عدد قد يحصل به التواتر في الشياعه يشتهر علم انه سهو و منسوخ
(مولوی شرح حسامی صفحہ291 حاشیہ نمبر 1 وکذا صفحہ 91)
یہاں تک کہ عام میں وہ وارد ہو یعنی خبر واحد کے ورد ہو تو وہ قبول نہیں کیا جائے گا کیونکہ حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی حدیث اس معاملہ میں جہاں بلوی ہو تو خبر واحد پر اقتصار (اکتفاء)نہیں کیا جائے گا بلکہ وہ کئی ان احادیث کی طرف رجوع کیا جائے گا جس شیاعت(اشاعت) میں تواترحاصل ہواور ان کا جاننا مشہور ہوتو وہ سہو میں سے ہوگا یا منسوخ ہوگا۔
اختلاف صحابہ اشارہ کی کیفیت کے بارے میں ثبوت ہوا خبر واحد کے لئے اور خبر واحد حادثہ عامہ میں غیر مقبول ہے اگر بعض صاحبان یہ کہیں کہ تعدد خبر واحد میں نقل کے طریقہ سے یہ شہرت پیدا کر دیتا ہے تو ہم کہتے ہیں کہ خبر واحد میں تعدد خبر کو مشہور بنا دیتا ہے لیکن جب کیفیت واحدہ میں ہوں اور جب کیفیت مختلف ہو اور وہ احادیث مذکورہ کیفیت میں مختلف سے ہو تو ہر ایک کیفیت اپنے ہاں الگ الگ خبر واحد بنا اور خبر واحد حادثہ میں غیر مقبول ہے تو ثابت ہوا اشارہ کا ترک کرنا۔
حضرت مجدد الف ثانی سرہندی رحمۃ اللہ علیہ نے مکتوبات حصہ اول میں لکھا ہے’’بحث الاشاره فعلی المنكرين اي يطالعها‘‘
اشارہ سبابہ انگلی سے مذہب حنفی میں حرام ہے۔
جیسا کہ قول خلاصہ کیدانی ہوا’’والاشاره بسبابۃ اي حرام‘‘
یعنی سبابہ انگلی سے اشارہ کرنا حرام ہے
’’کاھل الحديث الذين لا يفرقون بين الناسخ والمنسوخ والراجح والمرجوح ويغفلون من المعني الفقهی فيقع لهم الغلط كثيرا‘‘
یعنی اہل حدیث وہ ہیں جو فرق نہیں کرتے ناسخ اور منسوخ کے درمیان یعنی اشارہ کی۔ احادیث منسوخ ہیں یا مر جوح اور اورعمل مر جوح یا منسوخ پر حرام ہے اوردوسرا معنی اہل حدیث کا یہ ہے کہ وہ فقہ کے معنی سے غافل ہیں یعنی علت کو نہیں جانتے اور اشارہ کی علت ابتدائے اسلام میں یہ تھی کہ اعتقاد کے ساتھ اور زبان سے اور عضاء سے توحید کی طرف اشارہ کیا جائے اب اسلام مضبوط ہے تو اس کی حاجت نہیں اور ابتداء اسلام میں نماز کے اندر سلام اور کلام جائز تھا تو اشار بھی ثابت تھا اب سلام و کلام منسوخ ہے تو اشارہ بھی منسوخ ہے تو ضد سے کام نہیں لینا چاہیے ہم حق کو دیکھیں گے۔
اگر کوئی یہ سوال کرے کہ ملا علی قاری نے’’ خلاصہ کیدانی‘‘ پر رد کیا ہے اور کہا ہے کہ صاحب خلاصہ کیدانی نے اپنی کتاب میں ایک بات ذکر کی ہے جیسا کہ ڈھول میں آواز پیدا ہو جائے اس لئیےکہ حضور ﷺ کے فعل کو حرام کہنا ناجائز ہے۔
تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ صاحب خلاصہ کیدانی کی بے ادبی ہے اگر خلاصہ کیدانی معتمد کتاب نہ ہوتی تو میر سید السند الجرجانی شرح کیوں لکھتے اور دوسری کتاب یعنی شرح علامہ تفتازانی کی نہ ہوتی اس لیے کہ وہ بھی بڑے علامہ تھے اور اس نے خلاصہ کیدانی کی شرح لکھی ہے کہ اس کا نام ’’سعدیہ شرح خلاصہ کیدانی‘‘ ہے اور ان دونوں علماء نے اس مسئلہ کر رد نہیں لکھا ہے اور دوسری بات حضور معلم کائنات ﷺ کے فعل کو حرام کہنا نسخ کے بعد ہے یا ترجیح کے بعد ہے نہ کہ مطلق ۔اگر آیت منسوخ ہو جائے تو اس پر بھی عمل کرنا حرام ہے فقہ کی بہت سی کتابوں میں مکروہ اور حرام بھی کہا ہے جیساکہ’’فتاویٰ عالمگیری‘‘ میں ذکر کیا ہے۔
’’قیل يشير وقيل لا يشیر والمختار لا يشير‘‘
کسی نے کہا ہے کہ اشارہ کیا جائے اور کسی نے کہا ہے کہ اشارہ نہ کیا جائے لیکن مختار یہ ہے کہ اشارہ سبابہ انگلی سے نہ کیا جائے۔
اور فتاوی عالمگیری 400 علماء نے اتفاق سے مرتب کیا ہے اور آٹھ سال میں مرتب ہوا اور اس وقت اس پر دو لاکھ روپے خرچ ہوئے تھے۔
اور بہت سے فقہاء نے اس پر فتویٰ دیا ہے کہ اشارہ نہ کریں جیسا کہ صاحب ’’تنویرالابصار ‘‘نے لکھا ہے’’ولا يشير بالسبا بۃاتي عند التشهد وعليه الفتوى‘‘
’’تنویر الابصار‘‘ و ’’در المختار‘‘ جلد اول صفحہ 242’’ ہندیہ‘‘ جلد نمبر 1صفحہ 150 ’’بحر الرائق‘‘ جلد اول صفحہ نمبر 324 شبلی جلد اول صفحہ 121
تشہد کے وقت سبابہ انگلی سے اشارہ نہ کریں اور اس پر فتویٰ ہے۔
’’جامع الرموز ‘‘میں بھی لکھا ہے کہ’’اشارہ نہیں کرنا چاہیے اس پر فتویٰ ہے‘‘
صاحب واقعات نے لکھا ہے’’ان الاشارۃحرام وعليه الفتوى‘‘ کہ بے شک اشارہ حرام ہے اس پر فتویٰ ہے
صاحب غرائب نے بھی لکھا ہے
والصحیح ان الاشارۃحرام صحیح یہ ہے کہ بےشک اشارہ حرام ہے
محیط میں بھی لکھا ہے کہ’’ اشارہ نہ کرے اور اس پر فتوی ہے‘‘
خلاصہ الفتاوی میں لکھا ہے ’’ والمختار انه لا يشير‘‘کہ مختار یہ اشارہ نہ کیا جائے
فتاوی غیاثیہ میں بھی لکھا ہے ’’ولا يشير بسبابۃ عند التشهد وهو المختار وعليه الفتوى‘‘
تشہد میں سبا بہ انگلی سے اشارہ نہ کرے یہی قول مختار ہے اور اس پر فتوی ہے۔
’’تاتارخانیہ‘‘ میں لکھا ہے ’’ کہ اشارہ نہ کرے اور اس پر فتوی ہے‘‘
زاہدی میں لکھا ہے’’لا يشير وعليه الفتوى‘‘
مفاتیح الجنان میں بھی لکھا ہے’’لا يشير وعليه الفتوى‘‘
منظومہ نامی کتاب میں لکھا ہے’’ولا شك في تحريمه‘‘کہ اس کی حرمت میں کوئی شک نہیں۔
تو معلوم ہوا کہ اشارہ کرنا نماز میں منع ہے مذہب حنفی میں اب اگر کوئی امام صاحب کا مذہب چھوڑ دیں تو امام صاحب قیامت کے دن اس کو گلے سے پکڑیں گے کہ تم نے میرا مسلک کیوں چھوڑ دیا ۔
حضور علیہ الصلاۃ والسلام نے فرمایا ہے’’من اشارۃ بالسبابۃ فهو من الخاطئين‘‘(بحوالہ مفاتح القلوب فی بیان السلوک صفحہ 34)
جس نے سبابہ انگلی سے اشارہ کیا تو وہ خطا کاروں میں سے ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے خلیفہ حضرت ابوبکر صدیق حضرت عمر فاروق حضرت عثمان غنی اور حضرت علی رضی اللہ عنہم اجمعین نے بھی اشارہ نہیں کیا ہے۔
ان مقدس حضرات سے بھی اشارہ منقول نہیں کہ ان حضرات نے بھی اشارہ کیا ہے اگر یہ زیادہ ضروری ہوتا تو یہ حضرات حضور علیہ الصلاۃ والسلام کے زیادہ قریب تھے اور دوست تھے اور حقیقت یہ ہے کہ ان حضرات نے اشارہ نہیں فرمایا ہے۔
اگر کوئی یہ پوچھے کہ شیطان اس پر خفا ہوتا ہے تو شیطان منسوخ کام کے چھوڑنے پر خفا ہوتا ہے نہ کہ منسوخ کام کے کرنے پر اور شیطان کو اس پر بھی خفا کیجئے کہ اشارہ کو ترک کردو اور تہجد سے بھی، اس کو خفا کیا جائے نماز اشراق پر، نماز ضحی پر ،کم کھانے پر بھی خفا کرو اور سنت کے بعد دعا پر بھی اس کو خفا کرو۔ اس طرح نماز جنازہ کے بعد دعا اورعمامہ پر اسے خفا کرو تو ان میں سے کوئی بھی نہ کریں اور منکر کے زعم میں کہ شیطان اس کے کرنے پر خفا ہوتا ہے یہ پہلے کی بات ہے کہ ابتدائے اسلام میں وہ خفا ہوتا تھا لیکن جب اشارہ منسوخ ہوا تو اب اس کے کرنے پر خوش ہوتا ہے۔
جب امام صاحب نے کوئی کام نہیں کیا ہو اور خلفائے راشدین نے بھی چھوڑ دیا ہو تو اگر یہ اشارہ سنت ہوتا تو یہ حضرات کرتے اور یہ بھی کسی کو گمان نہیں کرنا چاہیے کہ میں مانکی خیل ہو یں یا مانکی شریف کے ماننے والوں میں سے نہیں ہوں ہم تو امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے مقلد ہیں اس مسئلہ میں میں نے بہت تحقیق کی ہے اور معلوم ہوا ہے کہ اشارہ منع ہے۔
اس کے علاوہ مولانا نظام الدین بریلوی نے بھی اشارہ کو منع لکھا ہے حالانکہ وہ اپنے وقت کے مناظر تھے اور اشارہ کرنے کے بارے میں کئی دلائل نقل کئے ہیں
’’جامع الفتاوی‘‘ جلد دوم صفحہ 113 حصہ چہارم المعروف انوار شریعت
فقہ شریف کی کتابوں میں درج ہے کہ تمام اعضاء کعبہ شریف کی طرف کرنے چاہیئے اور اللہ تعالی نے فرمایا ہے کہ
قَدْ أَفْلَحَ الْمُؤْمِنُونَ الَّذِينَ هُمْ فِي صَلَاتِهِمْ خَاشِعُونَ ای خائفون بالقلب ساكنون بالجوارح(تفسیر مدارک)
تحقیق کامیاب ہیں مومنین جو اپنی نمازوں میں عاجزی کرتے ہیں تفسیر مدارک میں اس کی تفصیل یہ ہے کہ وہ اعضا کو آرام سے رکھتے ہیں اور دل سے ڈرنے والے ہوتے ہیں۔
اللہ تعالی کے بہت سے دوستوں نے اشارہ نہیں کیا ہے اور نہ پسند کیا ہے جیسا کہ یہ قول ہے۔كثير من المشايخ لا يرون الاشاره (عالمگیری جلد اول صفحہ 104)
بہت سے مشائخ نے اشارہ کو پسند نہیں فرمایا ہے۔
’’زیلعی‘‘ جلد اول صفحہ 121 ۔’’فتح القدیر ‘‘جلد اول صفحہ 129 شبلی جلد اول صفحہ 120 رسالہ ’’رفع التردد‘‘ صفحہ 121 صفحہ 124 ، 142
فان اختلفوا يؤخذ بقول الاكثرين)شامی جلد اول صفحہ 48 49 مکتوبات مجدد الف ثانی صفحہ 212(
اگر وہ اختلافات کرے تو اکثر علماء کے قول پر عمل کیا جائے گا.
آخوند د رویزہ بابا رحمتہ اللہ علیہ نے ’’مخزن الاسلام ‘‘میں باب المحرمات میں فرمایا ہے ۔
’’اشارہ سبابہ سے یہ مذہب شافعی رحمتہ اللہ علیہ ہے اور یہ خیال حنفیوں پر حرام ہے۔‘‘
فوائد شریعت صفحہ96 میں ہے کہ’’اشھد ان لا الہ اللہ کے وقت اشارہ کرنا سبابہ انگلی سے حرام ہے اور یہ مذہب امام شافعی کا ہے‘‘۔
تو میں کہتا ہوں کہ اس مسئلہ میں بہت بسط اور تفصیل کی ضرورت ہے لیکن اس میں اس کا خلاصہ ذکر کرتا ہوں کہ ’’خیر الکلام ما قل ودل ولم یمل‘‘
اشارہ کی حرمت کے بارے میں صرف’’ خلاصہ کیدانی ‘‘نے اکیلے نہیں لکھا ہے بلکہ تقریبا 120 کتابوں میں حرمت و کراہت کا بیان موجود ہے اور جن کتابوں میں مستحب لکھا ہے تو انہوں نے روایت کو لیا ہےتوروایت میں مستحب لکھا ہے تو جو حرام کہتے ہیں وہ بھی صحیح ہے اس لیے کہ مذہب حنفی میں نہیں ہے۔
’’شرح وقایہ‘‘ کی عبارت سے بھی یہ معلوم ہوتا ہے ’’ومثل هذا جاء عن علماءنا ايضا عند الشافعي‘‘
عن روایت کے لئے آتا ہے اور عند مذہب کے لئے آتا ہے تو یہ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کا مذہب ہیں۔
دوسری بات یہ ہے کہ مؤطاسے معلوم ہوتا ہے کہ یہ روایت ہے جو اس نے ذکر کی ہے وہوقول ابی حنیفہ اس لیے کہ قول اور روایت مذہب کے مقابل ہے۔
خلاصہ کیدانی میں لکھا ہے’’والاشاره بالسبابه کاهل الحديث‘‘
یعنی کاف علت کے لئے ہے معنی یہ ہے کہ اشارہ حرام ہے اس لئے کہ اہل حدیث اس منسوخ روایت پر عمل کرتے ہیں اور کاف تشبیہی نہیں ہے اور یہ معنی خلاصہ کیدانی کی شروح جیساکہ’’ بدریہ ‘‘اور’’ میر سید السند‘‘ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ حضرات اہل حدیث کی تشریح کرتے ہیں۔
’’الذين يعملون بظاهر الحديث ولا يفرقون بين الناسخ والمنسوخ فيقع لهم الغلط كثيرا‘‘
تو اس قول کی بنا پر جو اشارہ کرتے ہیں کیونکہ ظاہر حدیث پر عمل کرتے ہیں اور مجتہد کی طرف نہیں جاتے۔
مولانا شیخ القران حمداللہ صاحب نے ’’البصائر ‘‘میں ذکر کیا ہے
الاخذ بظواهر الكتب والسنه من اصول الكفر(البصائر صفحہ 52 صاوی ،تنویر الایمان)
کتاب اور سنت کے ظاہر سے مسائل اخذ کرنا اصول کفرسے ہے۔
تو جب احادیث اشارے کی منسوخ یا مرجوح ہوگئیں بنا بر قول میر سید السند کو منسوخ یا مرجوح پر عمل کرنا حرام ہے اس لیے صاحب خلاصہ کیدانی نے حرام کہا ہے۔
اب اگر کوئی اپنے آپ کو حنفی کہے اور اشارہ کرے تو اس کے پاس کوئی دلیل نہیں ہے بلکہ محض بغض اور حسد ہے نعوذ باللہ ۔
ابوداؤد شریف میں یہ حدیث ہے
’’مَنْ أَشَارَ فِي صَلَاتِهِ إِشَارَةً تُفْهَمُ عَنْهُ، فَلْيَعُدْ لَهَا ‘‘
جس نے نماز میں اشارہ کیا جس سے کوئی معنی سمجھ میں آجائے تو اس نماز کو وہ دوبارہ پڑھے۔
اور اس میں شک نہیں کہ اشارہ میں نفی اثبات کی طرح اشارہ ہے یعنی انگلیوں کے اٹھانے میں نفی کی طرف اشارہ ہے لاالہ ہے اور نیچے کرنےمیں اثبات کی طرف اشارہ ہے جو الا اللہ ہے تو یہ معنی سمجھ آ سکتا ہے تو پھر اعادہ کرنا چاہیے تو اس لئے حرام ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ مجدد الف ثانی رحمتہ اللہ علیہ نے مکتوبات میں ذکر کیا ہے کہ تیرہ قسم کی کیفیت کا احادیث میں ذکر ہے اور ترجیح ایک کی دوسرے پر نہیں تو حدیث مضطرب ہوتی تو اس پر عمل نہیں کیا جاسکتا اور ہدایہ میں بھی اشارہ نہیں ہے اور ہدایہ معتمد کتاب ہے اب ہم چند کتابیں بطور حوالہ ذکر کرتے ہیں جن میں اشارہ کو حرام یا مکروہ کہا ہے۔
فتاوی عالمگیری صفحہ 104 برجندی جلد اول صفحہ 109 فتاوی سراجیہ جلد اول صفحہ 58 ،زیلعی جلد اول صفحہ 121 فتح القدیر جلد اول صفحہ 129 شبلی 120 رسالہ رفع الترد دصفحہ 121 ، بحر الرائق جلد اول صفحہ 324 مجموعہ خانی صفحہ 65 تنویر الابصار صفحہ 242 مکتوب صفحہ 312 شامی جلد اول صفحہ 344 ولباب قدوری صفحہ 54 فتوی مالا بدمنہ صفحہ 46 خلاصہ کیدانی حرام کی بحث میں خلاصہ مزیل الشبہات فی تبطیل الاشارات صفحہ 2 فتاوی برہنہ صفحہ-17 تنبیہ الضمائر علی رد الذخائر مولانا شیخ القرآن والحدیث مفتی اعظم پاکستان شائستہ گل صاحب نور اللہ مرقدہ نے اپنی کتاب الحجۃ المنذرہ فی الاسئلۃ المبتدرہ میں صفحہ 2 تا 5کہ اشارہ کرنا نماز میں شرعا ممنوع ہے بہت سی وجوہات کی بنا پر
(1) پہلی وجہ یہ ہے کہ معتبر کتابوں کے متون میں اشارہ کو منع کیا گیا ہے صراحتاً جیسا کہ ’’خلاصہ کیدانی ‘‘ ’’تنویر الابصار یا تبادراً (سبقت)جیسا کہ ’’کنز‘‘ کا قول اور’’ ہدایہ‘‘، ’’قدوری ‘‘اور’’ مختصر الوقایہ‘‘ وغیرہ کا
بسط اما بعد انگلیوں کو کھولنا والمتبادر منها انه يبسط اصابعۃ من اول التشهد الى اخره بدون عقد واشاره عند التلفظ بالشھادۃ( رسالۃ رفع الترد صفحہ 120 جامع الرموز جلد اول صفحہ 71) ونھر ثم رسالہ رفع الترد صفحہ 125 )
المشهور في المذهب بسط الاصابع بدون اشاره(شامی جلد اول صفحہ 54)
والمذهب ما في المتون لانه ظاهر الروايۃ( ردالمحتار جلد اول بحث ستر العورۃ)
فالاشاره خلاف المتون فيكون خلاف المذهب فظهر ان البسط حقيقه فيه لان التبادر الى الفھم من اقوىمن اماراۃالحقيقه (مختصر المعانی بحث الامام صفحہ 234) فلا یجوز العدول منہ
متبادر(بہترین عمل) ان میں سے یہ ہے کہ وہ تشھد کی ابتدا سے آخر تک انگلیوں کو کھلا رکھے اور اشارہ شہادت کے لفظ کے وقت کرنا چاہیئے یہی بات’’ رفع التردد‘‘ اور ’’جامع الرموز‘‘ و’’ نہر‘‘ میں نقل کیا ہے۔
پھر سالہ رفع التردد میں لکھا ہے مذہب میں یہ مشہور ہے کہ اشارہ کے بغیر انگلیوں کو کھلا رکھیں شامی ولباب القدوری میں بھی اسی طرح نقل ہے مذہب وہ ہے جو متون میں ہوں کیونکہ وہ ظاہر روایت ہوتا ہے شامی بحث ستر العورۃ تو اشارہ متون کے خلاف ہے خلاف مذہب ہوا تو ظاہر ہوا کہ حقیقت میں بسط ہے کیونکہ تبادر فہم کو امارات حقیقت کے جاننے کے لئے بہت قوی ہے تو اس عدول سے جائز نہیں ۔
2 دوسری وجہ ہے کہ منع اشارہ کا لفظلا يشير بالسبابه عند الشهاده وعليه الفتوى )تنویر الابصار و مضمرات فتاوی کبری ثم عالمگیری جلد اول صفحہ 105 والمنیہ والواقعات ثم شبلی جلد اول صفحہ 121 ولوالجیہ ثم جامع الرموز و ابو المکارم جلد نمبر 1 صفحہ 61 مجموعہ سلطانی صفحہ 56 مجموعہ خانی صفحہ 65 سالہ رفاقت 120 وغیرہا(
لفظ المتون اکدمن جميع العلامات الفتوی اذا ديلت روايته باللفظ عليه الفتوی لم يفت مخالفته
)در مختار جلد اول رسم المفتی صفحہ 50 وشرح رسم المفتی صفحہ 38(
3 تیسری وجہ یہ ہے کہ منع اشارہ لفظ لایشیر کے لفظ سے ہے وہ ظاہر الروایت ہے لباب القدوری صفحہ 54 وذخیرہ و کا کی ثم شبلی صفحہ 121 معراج الدرایہ ثم سالہ رفع الترد صفحہ 33و عینی والھدایہ و شرح سفر السعادت وقفایہ و مکتوبات المجدد الف ثانی وغیرہ
4 چوتھی وجہ یہ ہے کہ منع اشارہ لفظ لایشیر ہے وھو ظاہر اصول اصحابنا
جامع الرموز جلد اول صفحہ 71 وہ ہمارے اصحاب یعنی حنفیوں کے ظاہری اصول ہیں ثم رسالہ رفع التردد صفحہ 124
هذا اللفظه مرادف بلفظه ظاهرا الروايۃ فثبتهما يكون واحدا في البحر باب المصرف ان اختلف تصحيح وجب الفحص عن ظاهر الروايۃ والرجوع اليها(شامی جلد اول صفحہ 49)
5 پانچویں وجہ یہ ہے کہ منع اشارہ کا لفظ مشہور
في المذهب بسط الاصابع بدون الاشارۃ
(شامی جلد اول صفحہ 342 ولباب القدوری صفحہ 54 وفتا وی مالا بد منہ صفحہ 46
اقوال فالاشاره خلاف المذهب الذي هو ظاهر الروايۃ وخرج عن ظاهر الروايۃ فهو مرجوع عنه ولم مرجوع عنه ليس قولاله وفيه عن التوشيح انما وجع عنه المجتهد لا يجوز الاخذ به(بحر ثم شامی جلد اول صفحہ 46، وشرح رسم المفتی صفحہ52)
6چھٹی وجہ یہ ہے کہ منع اشارہ لفظ لایشیر ہے اور وہوالمختار و مختار قول ہیں خلاصہ جلد اول صفحہ صفحہ 59 عالمگیری صفحہ 104 برجندی جلد اول صفحہ 109 ابو المکارم جلد اول صفحہ 61 ت ونھر وفائق وابن امیر حاج ثم رسالہ رفع الترددصفحہ 125 فتاوی سراجی فصل المکروہ صفحہ 58
ومانحن فعلينا اتباع ما رجعوا وصححوه (در مختار و شامی جلد1 رسم المفتی صفحہ 52)
7ساتویں وجہ یہ ہے کہ اشارہ کی ممانعت ثابت ہے لفظ
كثير من المشايخ لا يرون الاشاره سے کہ بہت سے مشائخ اشارہ کو سنت خیال نہیں کرتے تھے تھے( عالمگیری جلد اول صفحہ 104 تبعیین جلد اول صفحہ 121 ثم رسالہ رفع التردد 121)
فان اختلفوا يؤخذ بقول الاكثرين اور اگر اختلاف دونوں اقوال میں موجود ہو تو اکثر علماء کے قول پر عمل کیا جائے (شامی جلد اول ،رسم المفتی صفحہ 48 و رسالہ رسم المفتی صفحہ 43)
8 آٹھویں وجہ یہ کہ منع اشاره وكرهھا في منيه المفتي كذا في تبين منیۃ المفتی میں اشارہ کو مکروہ لکھا ہے ایسا ہی تبیین میں ہے عالمگیری صفحہ 104 معراج الدرایۃ ثم رساله رفع التردد فصل المکروہ البحر الرائق النهر فائق ترك المكروه مقدم على فعل السنه در مختار باب ادراک الفریضۃصفحہ 481 مکروہ کو ترک کرنا سنت فعل پر مقدم ہے یعنی جب بعض علماء نے کسی چیز کو مکروہ کہا ہو اور بعض نے اس کو سنت کہا ہو تو عمل اس پر کرنا چاہیے کہ جنہوں نے مکروہ کہا ہو یہ اس پر مقدم ہے جنہوں نے اس کو سنت کہا ہو
9 نویں وجہ کہ منع اشارہ کا سبب حکم نسخ الاشاره الامام کرخی مبسوط مفید قاعدی والکرمانی والسراج الہدایہ بحرمه الاشارۃ او کراھتهما از المراد بالمنسوخيۃ عدم المعموليۃ ولا يصح الحكم في الحرمه والكراهه مع معموليۃ تلك الاحاديث ومن المعلومات ان العمل بالمنسوخ حرام (اس ہرکتاب میں جس میں اشارہ کی حرمت یا کراہت کا حکم دیا گیا ہے تو ان کی مراد اشارہ والی احادیث کی منسوخیت ہے اور ان پر عمل نہیں کیا جاتا کیونکہ معمولیت کی وجہ سے ان احادیث پر حرمت یا کراہت کا حکم صحیح نہیںاور یہ معلومات سے ہے کہ منسوخ پر عمل حرام ہے۔
10 دسویں وجہ یہ کہمنع اشاره لفظ كان القول بعدمها الاقوى من حيث نقل عن اهل المذهب
(رساله رفع التردد صفحہ 128) کہ عدم والا قول قوی ہے اہل مذاہب کی نقل سے
ولا يشير بالسبابه عند الشهاده وعليه الفتوى كما في الوالجيۃ والتجنيس وعمدۃ المفتي وعامه الفتوى
سبابہ انگلی سے شہادت کے وقت اشارہ نہ کرے اور اس پر فتوی ہے( تنویر الابصار و در مختار جلد اول صفحہ 341)ولا يخفى ان مسائل هذا الكتاب مذكوره على الوجه الحق وثابتۃ بدلا يلها عند المجتهد ولا يلزم من اثبات الشيء بدليله ان يكتب دليله معه حتى يرد انه لم يذكر في المتن الالله(شامی جلد اول صفحہ 131)
فَإِنِّي أَرْوِيهِ عَنْ شَيْخِنَا الشَّيْخِ عَبْدِ النَّبِيِّ الْخَلِيلِيِّ ، عَنْ الْمُصَنِّفِ عَنْ ابْنِ نُجَيْمٍ الْمِصْرِيِّ بِسَنَدِهِ إلَى صَاحِبِ الْمَذْهَبِ أَبِي حَنِيفَةَ ، بِسَنَدِهِ إلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمُصْطَفَى الْمُخْتَارِ ، عَنْ جِبْرِيلَ ، عَنْ اللَّهِ الْوَاحِدِ الْقَهَّارِ ، كَمَا هُوَ مَبْسُوطٌ فِي إجَازَاتِنَا بِطُرُقٍ عَدِيدَةٍ ، عَنْ الْمَشَايِخِ الْمُتَبَحِّرِينَ الْكِبَارِ(در مختار جلد اول صفحہ 14)
اقول فلماثبت ام مانع الاشاره حديث ومذهب فلا مفر منه فلا يجوز للمقلد خلافه لان منع الاشاره متعين للمقلد الحنفي
کسی پر پوشیدہ نہیں کہ اس کتاب ’’تنویر الابصار‘‘ میں جو مسائل مذکور ہیں وہ حق ہے مجتہدین کے نزدیک وہ دلائل سے ثابت ہے کسی چیز کے اثبات کے لئے یہ ضروری نہیں کہ شے کے اثبات کے دلائل بھی اس کے ساتھ لکھے جائیں اور جاننا چاہیے کہ متن میں دلائل کا ذکر نہیں ہے( شامی) تو میں نے روایت کیا ہے اسے اپنے استاد عبد الغنی خلیلی سے اس نے مصنف سے اس نے ابن نجیم مصری سے صاحب اپنی سند سے صاحب مسلک ابو حنیفہ سے اس نے اپنی سند سے حضور معلم کائنات علیہ السلام سے روایت ہے آپ نے جبرئیل سے انہوں نے اللہ تعالی واحد قہار سے یہ ہماری اجازتوں میں بسط سے مختلف طریقوں سے نقل ہے(در مختار جلد اول صفحہ 14)
میں کہتا ہوں کہ جب ثابت ہوا کہ اشارہ منع حدیث و مذہب سے تو اس سے بھاگنا نہیں چاہیے اور مقلد کے لئے اس کے خلاف جائز نہیں کیونکہ اشارہ کی ممانعت مقلد حنفی کے لئے متعین ہیں۔
مزید دیکھیں
اشاره سبابہ کی تحقیق مکتوب نمبر 312 دفتراول
امام ربانی مجدد الف ثانی اور رفع سبابہ
جہان امام ربانی اقلیم ہشتم صفحہ 147 امام ربانی فاؤنڈیشن کراچی
3 تبصرے “مسئلہ اشارہ سبابہ(مسئلۃ الاشارۃ بالسبابۃ فی التشھد فی الصلوۃ)”