حضرت شیخ المشائخ، قطب ربانی، غوث صمدانی ، محبوب سبحانی، سیدنا عبد القادر جیلانی رضی اللہ تعالی عنہ وارضاہ نے تصوف و طریقت پر مشتمل کتاب” آداب السلوک والتواصل الی منازل الملوک“ میں فرمایا :
اہل مجاہدہ و محاسبہ اور اولو العزم ہستیوں کی دس خصلتیں۔ تم بھی انہیں اپناؤ۔ ان دس خصلتوں کو اختیار کرو گے اور باذن الله ان پر کار بند ہو جاؤ گے توبار گاه الہی سے منازل شریفہ پاؤ گے۔
1۔ ان دس خصلتوں میں سے پہلی خصلت یہ ہے کہ انسان اللہ تعالی کے نام کی سچی ہو یا جھوٹی قسم نہ اٹھائے۔ نہ ہی جان بوجھ کر اس گناہ کاار تکاب کرے اور نہ بھول کر کیونکہ جب وہ قسم نہ اٹھانے کا پختہ ارادہ کر لے گا اور اس کا اپنے آپ کو عادی بنا لے گا تو اس سے سہواً بھی یہ غلطی نہیں ہوگی۔ اور اللہ تعالی اس کے لیے اپنے انوار و تجلیات کے دروازے کھول دے گا۔ وہ اس کے فوائد کو اپنے دل میں محسوس کرے گا۔ اور زیادہ پرعزم ہو جائے گا۔ جاننے والے اس کی تعریف کریں۔ پڑوسی تکریم بجا لائیں گے۔ حتی کہ دوست و آشنا اقتداء کرنے لگیں گے اور دیکھنے والے مرعوب ہو جائیں گے۔
2۔ دوسری خصلت یہ ہے کہ جھوٹ سے اجتناب کرے۔ نہ کسی کو دھوکہ دینے کی غرض سے جھوٹ بولے اور نہ ہی مزاح کے طور پر۔ کیونکہ جب انسان جھوٹ سے مکمل اجتناب کر لیتا ہے۔ اور دل میں عہد کر لیتا ہے کہ خلاف واقع بات نہیں کرے گا تو وہ سچ کا عادی بن جاتا ہے۔ ہر صورت اس کے منہ سےسچ صادر ہو تا ہے۔ جس کی وجہ سے اللہ تعالی اس کے سینے کو کھول دیتا ہے۔سچائی . اس کے علم کو صاف و شفاف کر دیتی ہے۔ اور کذب سے یوں لا تعلق ہو جاتا ہے کہ گویا وہ اس برائی سے واقف ہی نہیں۔ جب وہ کسی دوسرے شخص سے جھوٹی بات سنتا ہے تو اسے بڑی معیوب لگتی ہے۔ اور دل میں اسے بہت برا سمجھتا ہے۔ اگر وہ جھوٹ سے احتراز کی دعا کر تا ہے تو اللہ تعالی اسے اس کابد لا عطا فرماتا ہے۔
3۔ تیسری خصلت یہ ہے کہ جب انسان کسی سے وعدہ کرے تو اسے پورا کرے اور وعدہ خلافی نہ کرے۔ یا پھر کسی سے وعدہ ہی نہ کرے ۔ ایفائے عہد ایک مفید خصلت ہے۔ اور یہ چیز بہترین روئیے کی غمازی کرتی ہے۔ وعدہ خلافی جھوٹ ہے۔ جب بندہ ایفائے عہد کی خصلت کو اپنالیتا ہے تو اس کیلئے سخاوت اور محبت کا دروازہ کھل جاتا ہے۔ دوست اسے پسند کرتے ہیں اور اللہ تعالی اپنی زبان قدرت سے اس کی مدح و ستائش کرتا ہے۔
4۔ چوتھی خصلت یہ ہے کہ انسان خلق خدا کو ملامت نہ کرے۔ چھوٹی سے چھوٹی مخلوق کو بھی تکلیف نہ دے۔ کیونکہ ملامت سے اجتناب ابرار وصديقين کے اخلاق میں سے ہے ایسے شخص کا انجام اچھا ہو تا ہے۔ وہ دنیا میں الله کی امان میں رہتا ہے۔ اور آخرت میں اس کے لیے بڑے درجات تیار رکھے جاتے ہیں۔
اسے ہلاکت کے گڑھوں میں گر نے سے بچالیا جاتا ہے۔ مخلوق کے شر سے اللہ کریم اسے سلامتی عطا فرماتا ہے۔ اپنے بندوں پر مہربانی کرتے ہوئے اسے رزق عطا کر تا ہے۔ اور اسے اپنا قرب بخشتاہے۔
5۔ پانچویں خصلت یہ ہے کہ انسان کسی کیلئے بد دعانہ کرے۔ اگر وہ زیادتی کر دے تو بھی اس سے سلسلہ کلام بند نہ کرے۔ نہ اس سے انتقام لے۔ اللہ تعالی کی خاطر اس پر صبر و عمل کرے۔ اپنے قول و فعل سے اس سے بدلہ نہ لے۔ یہ خصلت انسان کو اعلى منازل پر فائز کرتی ہے۔ جب بندہ اس خصلت کو اپنا لیتا ہے تو وہ دنیا و آخرت میں بلند مرتبہ حاصل کر لیتا ہے۔ دور و نزدیک کے سب لوگ اس سے محبت و مؤدت کا سلوک کرتے ہیں اس کی دعا قبول ہوتی ہے۔مخلوق میں اسے سربلندی ملتی ہے اور دنیامیں وہ ایمان والوں کے دلوں میں عزت پاتا ہے۔
6۔ چھٹی خصلت یہ ہے کہ اہل قبلہ کو کافر، مشرک اور منافق نہ کہے۔ یہ خصلت رحمت کے بہت قریب اور درجہ میں بہت بلند ہے۔ یہ سنت کا کمال ہے۔ اور علم الہی میں دخل اندازی سے کمال پر ہیز ہے۔ اس ذریعہ سے انسان اللہ کی ناراضگی سے بچ جاتا ہے۔ اللہ کی رضا اور رحمت کے بہت قریب پہنچ جاتا ہے۔ یہ اللہ کریم تک پہنچانے کے لیے گویا دروازہ ہے جو انسان کو پوری مخلوق کی رحمت و محبت کا وارث بنادیتاہے۔
7۔ ساتویں خصلت یہ ہے کہ انسان گناہوں سےبچے۔ اپنے اعضاء کو غلط کاریوں سے باز رکھے۔ یہ وہ عمل ہے جس کا اس دنیا میں دل اور اعضاء کو فوری بدلا دیا جاتا ہے اور آخرت کیلئے بھی نیکیاں ذخیر ہ کی جاتی ہیں۔ ہم اللہ تعالی سے دعا کرتے ہیں کہ وہ ہم سب پر احسان فرمائے۔ ہمیں یہ خصلتیں اپنانے کی توفیق دے اور ہمارے دلوں سے سب کدورتوں کو نکال باہر کرے۔
8۔ آٹھویں خصلت یہ ہے کہ انسان اپنا بوجھ کسی دوسرے کے کندھوں پر مت ڈالے یہ بوجھ تھوڑا ہو یا زیادہ اسے خود اٹھائے۔ بلکہ دوسری تمام مخلوق کے بوجھ بھی اٹھانے کی کوشش کرے ان کی ضروریات کا خیال رکھے اور ان سے کسی قسم کا لالچ نہ رکھے یہ چیز عبادت گزاروں کیلئے کمال عزت اور متقیوں کے لیے کمال شرف ہے۔ اس چیز سے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا حوصلہ پیدا ہوتا ہے اور انسان کے نزدیک پوری مخلوق ایک جیسی بن جاتی ہے۔ جب بندے میں یہ وصف پیدا ہو جاتا ہے تو رب قدوس اس میں غنا، اور ایمان و یقین کا نور پیدا فرما دیتا ہے۔ وہ کسی کو کسی پر ترجیح نہیں دیتاسب مخلوق حق میں اس کے نزدیک برابر ہوتی ہے اسے اس بات پر کامل یقین ہو جاتا ہے کہ اسی میں اہل ایمان کی عزت اور اہل تقوی کا شرف ہے۔یہی اخلاص کا قریب ترین دروازہ ہے۔
9۔ نویں خصلت یہ ہے کہ انسانوں سے کسی قسم کالا لچ نہ رکھے۔ اور ان کے ہاتھوں میں جو کچھ ہے اسے حرص کی نگاہ سے نہ دیکھے۔ دنیا سے بے نیازی بہت بڑی عزت کی بات ہے۔ میں غناء خالص ہے۔ ایسا شخص بہت بڑا بادشاہ ہے۔اسی میں فخر ہے۔ اس سے صافی یقین حاصل ہو تا ہے۔ یہی کامل و صریح توکل ہے۔ یہ اللہ تعالی پر یقین کا دروازہ ہے۔ زہد کے دروازوں میں سے ایک دروازہ یہ بھی ہے۔ ایک سے زہد و ورع حاصل ہو تا ہے اور بزرگی کی تکمیل ہوتی ہے۔ اور یہی علامت ہے ان لوگوں کی جو دنیا سے کٹ کر اللہ تعالی کے ہورہے ہیں۔
10۔ دسویں خصلت یہ ہے کہ انسان تواضع اختیار کرے۔ کیونکہ اس کے ذریعے عابد کا عمل پختہ ہو تا ہے اس کی قدرت و منزلت میں اضافہ ہو تا ہے اللہ تعالی اور مخلوق کے نزدیک اس کی عزت و رفعت کی تکمیل ہوتی ہے اور دنیاو آخرت کے معاملے میں سے جو چاہتا ہے اس کی قدرت پاتا ہے۔ یہ خصلت تمام خصائل حمیدہ کی اصل ہے۔ اسی ایک خصلت کی باقی تمام خصلتیں گویا شاخیں ہیں اور اس کی تکمیل سے تمام دو سری خصلتیں جنم لیتی ہیں۔ اسی خصلت تواضع کے ذریے بندہ ان منازل کو حاصل کر لیتا ہے جو منازل صالحین کی ہیں اور ان محبوبان خدا کی ہیں جوتنگی و فراخی میں اللہ تعالی سے راضی رہتے ہیں۔ یہ خصلت تقوی کا کمال ہے۔
آداب السلوک شیخ عبد القادر الجیلانی صفحہ 191 ،مکتبہ دارالسنابل دمشق شام