ان سوالوں کے جواب میں جو معرفت و ایمان حقیقی کے درمیانی فرق کی نسبت کیے گئے تھے۔ مولاناطاہر بدخشی کی طرف صادر فرمایا ہے۔
حمد وصلوة اورتبلیغ و دعوات کے بعد واضح ہو کہ برادرم عزیز کاصحیفہ شریفہ جوشیخ سجاول کےہمراه ارسال کیا تھا۔ اللہ تعالیٰ کی حمد ہے کہ آپ سلامت و عافیت سے ہیں۔ چند سوال جو آپ نے درج کئے تھے۔ ان کے جواب میں جو کچھ دل میں آیا ہے لکھا جاتا ہے۔ اس پر اچھی طرح غور وتوجہ فرمائیں۔
سوال اول: معرفت اور ایمان حقیقی کے درمیان کیا فرق ہے؟
جواب: معرفت اور ہے اور ایمان اور کیونکہ معرفت کے معنی پہچاننے کے ہیں اور ایمان کے معنی گرویدہ ہونا اور یقین کرنا شناخت اور پہچان ہو سکتی ہے لیکن یقین نہیں ہوسکتا۔ اہل کتاب کو ہمارے پیغمبر علیہ الصلوة والسلام کے حق میں معرفت حاصل تھی۔ پہچانتے تھے کہ پیغمبر ہے۔ جیسے کہ الله تعالیٰ فرماتا ہے۔ يَعْرِفُونَهُ كَمَا يَعْرِفُونَ أَبْنَاءَهُمْ (اس کو پہچانتے ہیں جیسے کہ اپنے بیٹوں کو پہچانتے ہیں لیکن چونکہ دشمنی کے باعث گرویدہ نہ ہوئے اور یقین نہ لائے ۔ اس لئے ایمان بھی متحقق نہ ہوا۔ معرفت بھی ایمان کی طرح دوقسم پر ہے۔ ایک معرفت کی صورت ہے جس طرح کہ ایمان کی صورت ہے۔ دوسرے معرفت کی حقیقت ہے جیسے کہ ایمان کی حقیقت ہے۔ ایمان کی صورت وہی ہے۔ جس پر اللہ تعالیٰ نے اپنی کمال مہربانی اور رحمت سے شریعت میں آخرت کی نجات کے لئے کفایت فرمائی ہے اور وہ نفس امارہ(برائی کی طرف بہت امر کرنے والا) کے انکار اور سرکشی کے باوجود قلب کا گرویدہ ہوتا ہے۔ اسی طرح معرفت کی صورت بھی نفس امارہ کی جہالت کے باوجود اس لطیفہ پر موقوف ہے لیکن معرفت کی حقیقت یہ ہے کہ نفس امارہ اپنی جبلی اور پیدائشی جہالت کو چھوڑ کر شناسائی پیدا کرنے اور ایمان کی حقیقت یہ ہے کہ نفس امارہ اپنی طبعی اور پیدائشی امارگی اور سرکشی کو چھوڑ کر مطمئن ہو جائے اور شناسائی حاصل کر کے گرویدہ ہو جائے اگر کہیں کہ شریعت میں تصدیق قلبی کا اعتبار کیا ہے۔ یہ گرویدہ ہونا اس تصدیق کا عین ہے یا اس تصدیق کے ماسوا کوئی اور امر ہے اور اگر تصدیق کے ماسوا کچھ اور امر ہے تو لازم آتا ہے کہ ایمان میں تین چیزیں معتبر ہیں اقرار اور تصدیق اور گرویدہ ہونا اور یہ بات علماء کے مقررہ امر کے برخلاف ہے اور عمل جس کو بعض علماء نے ایمان معتبرسمجھا ہے۔ ایمان کی چوتھی جزوین جاتا ہے
تو اس کا جواب یہ ہے کہ گرویدن عین تصدیق ہے کیونکہ تصدیق جو حکم ہے اذعان یعنی مان لینے سے مراد ہے جس کو گرویدن سے تعبیر کرتے ہیں اگر پوچھیں کہ اہل کتاب ہمارے پیغمبر علیہ الصلوة والسلام کو جب نبوت کے طور پر جانتے تو ضرور کام بھی ان کی نبوت پرکرتے تھے اور اذعان اور گرویدن ( مان لینا اور فرمانبردار ہونا) ان کوحاصل تھا کیونکہ اس صورت حکم عین گرویدن ہے۔ پھر ایمان ان کے حق میں کیوں متحقق نہیں ہوتا اور کفر سے کیوں نہیں نکل سکتے تو اس کا جواب یہ ہے کہ گو نبوت کے طور پر جانتے تھے لیکن تعصب وعناد کے باعث ان کے دلوں کو اذعان و یقین حاصل نہ ہوتا تھا تا کہ نبوت کا حکم کرتے۔ ہاں معرفت وتصورتھالیکن اذعان حاصل نہ ہوا تا کہ تصدیق ہو کر ایمان تک نوبت پہنچی اور کفر سے نکل آتے ہیں۔ یہ بہت ہی دقیق اور بار یک فرق ہے اس کو غور سے سنیں اور اپنے وجدان سےسمجھیں۔ باوجود عناد اور دشمنی کے کہہ سکتے ہیں کہ نَبِیُّ اللهِ فَعَلَ كَذَا ( اللہ تعالیٰ کے نبی نے ایسا کام کیا) لیکن جب تک اذعان پیدا نہ ہو۔ تب تک نہیں کہ سکتے کہ اِنَّہٗ نَبِیُّ اللهِ (وہ واقعی اللہ تعالیٰ کا نبی ہے) کیونکہ صورت اول میں تصور ہے اور معرفت مشہورہ کا حوالہ ہے اور صورت دوم میں تصدیق ہے جو اذعان و گرویدن پرمبنی ہے جب تک اذعان نہ ہو۔ تصدیق کس طرح متصور ہوسکتی ہے۔ نیز صورت اول میں نبوت کا ثابت کرنا مقصود ہے جس کی تاب عناد و دشمنی نہیں لاسکتی اور اگر بالفرض اذعان کے حاصل ہونے کے بغیر تصدیق وحکم پیدا ہوجائے تو وہ بھی تصورات میں داخل ہے اور تصدیق کی صورت ہے جب تک اذعان حاصل نہ ہو تب تک تصدیق کی حقیقت متصور نہیں ہوتی اور ایمان حاصل نہیں ہوتا۔ یہ مسئلہ مسائل کلام کے اصول اور ضروریات میں سے ہے اور بہت دقیق ہے۔ بڑے بڑے علماء اس کے حل کرنے میں عاجز ہیں ان میں سے بعض نے مجبورا تیسرے رکن کو ایمان میں بڑھایا ہے اور گرویدن و تصدیق پر زیادہ کیا ہے۔ بعض نے تصدیق کو عین گرویدن کہا ہے لیکن کماحقہ اس کوحل نہیں کیا اور مجمل طور پر ہی چھوڑ دیا ہے۔ الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي هَدَانَا لِهَذَا وَمَا كُنَّا لِنَهْتَدِيَ لَوْلَا أَنْ هَدَانَا اللَّهُ (اللہ تعالیٰ کی حمد ہے جس نے ہم کو ہدایت دی اور اگر اللہ تعالیٰ ہم کو ہدایت نہ دیتا تو ہم بھی ہدایت نہ پاتے) واضح ہو کر مرکب اضافی جیسے کہ نَبِیُّ اللهِ(اللہ کا نبی) اور مرکب توصیفی جیسے کہ هٰذَا النَّبِيُّ (یہ نبی) اگرچہ بِاَنَّہٗ نَبِیٌّ(بے شک وہ نبی ہیں) کےحکم پرمشتمل ہیں اور نبوت کے طور پر اس کی معرفت پرمتضمن ہیں لیکن بِاَنَّہٗ نَبِیٌّ کی تصدیق کا حاصل ہونا اذعان پر موقوف ہے جو ایمان کو ثابت کرتا ہے۔ غُلَامُ زَيْدٍ فَعَلَ كَذَا (زید کے غلام نے ایسا کیا) اور رَجُلٌ صَالَحٌ حَكَمَ بَکَذَا(مردصالح نے ایسا کیا) دونوں اذ عان کے بغیر ثابت وصحیح ہیں اور دونوں میں غلامیت اور صلاحیت کے طور پر معرفت ثابت ہے لیکن اذعان نہیں ہے جس سے ہر ایک کی غلامیت اور صلاحیت کی تصدیق حاصل ہو اور اگر کہیں کہ تو نے قلب کے اذعان کے بعدنفس کا اذعان کہا ہے اور اذعان نفسی کو ایمان حقیقی سے تعبیر کیا ہے حالانکہ فلاسفہ اور معقول والوں نے تصدیق میں مطلق اذعان نفس کو لیا ہے اور اذ عان قلب کی نسبت گفتگونہیں کی تو اس کا جواب یہ ہے کہ معقول والے کبھی نفس سے روح مراد لیتے ہیں اور کبھی قلب ۔ غرض ان کی فلسفی تدقیقات کا مقام اور ہے جن میں سے اکثر لا طائل اور بیہودہ ہیں۔ اس جگہ وہ سب کی سب معطل و بیکار ہیں اور عوام کاحکم رکھتی ہیں۔ یہاں صوفیاء کی تحقیق و تدقیق کا موقع ہے جو ہر ایک لطیفہ کے احکام سے ملتبس ہوتے ہیں اور سیر و سلوک کے ساتھ ہر ایک لطیفہ سے اوپر ترقی کرتے ہیں اورنفس کو قلب سے جدا کرتے ہیں روح کو سر سے اور خفی کواخفیٰ سے الگ کر دیتے ہیں۔ معقول والوں کو ان کے ناموں کی معرفت و پہچان کے سوا کچھ بھی حاصل نہیں ۔ فلاسفہ نے نفس امارہ(برائی کی طرف بہت امر کرنے والا) کو بڑی شے جانا ہے اور اس کو مجردات سے شمار کیا ہے اور قلب و روح کا نام تک بھی نہیں لیا اورخفی واخفی کا کچھ پتہ نہیں دیا۔ إِنَّ لِلّٰهِ سُبْحَانَہٗ مَلِکاً يَسُوقُ الأهلَ إِلَى الأَهْلِ (اللہ تعالیٰ کا ایک فرشتہ ہے جو ہم جنس کو ہم جنس کی طرف لے جاتا۔ ہے اس کا دوسرا جواب یہ ہے کہ معقول والوں نے عادی اور عرفی احکام پرنظر کر کے اذ عان نفس کو جوان کی سمجھ کے قریب ہے۔ ذکر کیا ہے لیکن ہماری گفتگو احکام شرعیہ کی تصدیقات میں ہے جن سےنفس کو ذاتی طور پر انکار ہے۔ پھراذعان کیسے ہو گا بلکہ یہ ایسا انکار ہے جو منکر کو ان احکام کے صاحب کا دشمن بنا دیتا ہے نَعُوذُ بِاَللَّهِ مِنْ شُرُورِ أَنْفُسِنَا وَمِنْ سَيِّئَاتِ أَعْمَالِنَا (ہم اس بات سے اور اپنے نفسوں کی شرارتوں اور برے اعمال سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگتے ہیں) اور حدیث قدسی میں آیا ہے۔ عَادِ نَفْسَك فَإِنَّهَا انْتَصَبَتْ لِمُعَادَاتِي (اپنے نفس کو دشمن جان کیونکہ وہ میری دشمنی پر اڑا ہوا ہے) ارحم الراحمین جل شانہ نے اپنی کمال مہربانی سے ابتدا حال میں اذ عان نفس کو منظور نہ رکھا اور اذعان قلب پر نجات کو وابستہ کیا۔ پھر اگر حق تعالیٰ کےمحض کرم سے اذ عان نفس بھی میسر ہوجائے۔ تو نُوْرٌ عَلىٰ نُوْرٌ اور سُرُوْرٌ عَلىٰ سُرُوْرٌ اور درجات ولایت پروصول اور حقیقت اور ایمان کا حصول ہے۔ آپ نے لکھا تھا کہ جواب فقیر کےفہم و دانش کے موافق لکھا جائے تا کہ معلوم ہو سکے۔ کیا کیا جائے مسئلہ بہت دقت رکھتا ہے۔ اس کا حل بھی بغیردقت کے مشکل ہے بلکہ نفس حل دقت چاہتا ہے۔ عبارت کا کوئی گناہ نہیں۔ آپ کو چاہیئے تھا کہ پہلے اس بات کافکر کرتے اور اس قسم کے پیچدار اور معما سوال کا حل طلب نہ کرتے۔
فَلَا تَلُومُونِي وَلُومُوا أَنْفُسَكُمْ (اب مجھے ملامت نہ کرو بلکہ اپنے آپ کو ملامت کرو۔)
سوال: عابد اور زاہد ایمان حقیقی سے مشرف ہیں یا نہیں؟
جواب : اگر مرتبہ مقربین تک پہنچ جائیں اور ان کے نفس مطمئنہ ہوجائیں تو ایمان حقیقی سے مشرف ہوجاتے ہیں۔
سوال سوم: معرفت اجمالی والے شخص کو جس کا منشاءکفرحقیقی ہے۔ کس معنی سے عارف کہہ سکتے ہیں۔
جواب: اس عبارت کے معانی اچھی طرح معلوم نہیں ہوئے کہ کیا ہیں؟
کیا خوب! خود پیچیدہ اور مغلق عبارت لکھتے ہیں اور دوسروں کو منع کرتے ہیں اگر اس عبارت سے آپ کا مقصود یہ ہے کہ کافر طریقت کو کس اعتبار سے عارف کہہ سکتے ہیں تو اس کا جواب یہ ہے کہ کافر طریقت نے بھی چونکہ اللہ تعالیٰ کو واحد اور یگانہ پہچانا ہے اور اس کے ماسوا . محوولاشی کہا ہے اس لئے عارف ہے لیکن مطلق عارف نہیں کیونکہ تمیز سے نکل چکا ہے جب تمیز میں آجائے تو عارف مطلق کہلاتا ہے اور ایمان حقیقی سے مشرف ہوجاتا ہے۔ والسلام۔
مکتوبات حضرت مجدد الف ثانی دفتر سوم صفحہ271ناشر ادارہ مجددیہ کراچی