بسم الله الرحمن الرحیم
مقاله نمبر 1
مومن کی تین لازمی صفات
حضرت قطب ربانی نے ارشاد فرمایا :-
” ہر مومن کے لیے تمام اقوال میں تین صفات لازمی ہیں
:- پہلی یہ کہ اوامر یعنی احکام خداوندی کی تعمیل کرے۔
دوسری یہ کہ نواہی یعنی محرمات وممنوعات سے بچے
اور تیسری یہ کہ مشیت الہی اور تقدیر پر راضی رہے ۔
پس مومن کی ادنی حالت یہ ہے کہ وہ کسی بھی وقت ان تین چیزوں کی پیروی سے غافل نہ ہو اور اس کا دل ان کے ارادہ و نیت کو لازمی قرار دیدے۔ وہ نفس کو ہمیشہ ان کی تلقین کرے اور تمام احوال میں اپنے اعضائے جسم کو اُن کا پابند و مکلف بنائے ۔
مقالہ نمبر 2
راه نجات
حضرت قطب ربانی نے ارشاد فرمایا:سنت نبوی کی پیروی کرد، بدعات میں نہ پڑو ۔ خدا اور اس کے رسول ﷺ کی اطاعت کرو۔ ان کے فرمودات سے باہر قدم نہ رکھو۔ اللہ تعالی کو ایک جانو، اس کے ساتھ شریک مت ٹھہراؤ ، اس کی پاکیزگی پر ایمان رکھو اس پر تہمتیں نہ دھرو ، اس کی تصدیق کرو اور شک کو راہ نہ دو ،صبر اختیار کرو ، دل برداشتہ مت بنو ثابت قدم رہو ، پیچھے نہ ہٹواسی سے سوال کرو اور رنجیدہ خاطر ہونے کی بجائے انتظار کرورحمت خداوندی کے امیدوار رہو ، نا امید مت بنو عبادت میں اکٹھے رہو منتشر نہ ہو جاؤ، باہمی محبت و خلوص روا رکھو، اور ایک دوسر کے لیے دل میں غصہ پیدا نہ ہونے دو۔ اپنے دامن کو گناہوں سے داغدار ہونے سے بچاؤ اور اپنے رب کی اطاعت سے خود کو آراستہ کرو، اس کے در فیض سے دوری اختیار نہ کرو، اور نہ ہی اس کی طرف متوجہ ہونے سے جی چراؤ – بارگاہ خداوندی میں تو بہ کرنے اور اپنے گناہوں کی مسائی چاہنے میں رات ہو یادن ہر گز تاخیر نہ کرو، اور نہ ہی اس سلسلے میں ملول ہو ، شاید رحمت خداوندی کا سایہ تمھیں اپنی پناہ میں لے لے، اور جہنم کے بھڑکتے شعلوں سے نجات پا کر خوش و خرم جنت کی مسرتوں سے شاد کام ہوجاؤ اور تمھیں وصال خدا حاصل ہو جائے اور اس جائے امن و سکون میں تجھے طرح طرح کی نعمتوں سے نواز دیا جائے اور تمھیں یہ انعامات سدا حاصل رہیں وہاں تمھیں بہترین سواریاں ، خوب صورت حوریں ، عطریات اور خوش آوازی جیسی نعمتیں میسر ہوں گی اور تمھیں جنت میں انبیاء، صدیقین، شہداء اور صالحین کے ہمراہ مقام علیین سے مشرف کیا جائیگا۔
مقالہ نمبر3
آغاز و انجام مومن
حضرت قطب ربانی نے ارشاد فرمایا:جب بندہ کسی مصیبت میں مبتلا ہو جاتا ہے تو اس سے چھٹکارا پانے کے لیے پہلے وہ اپنی سی سعی کرتا ہے ، اگر اس طرح نجات نہیں پاتا تو دوسروں مثلاً بادشا ہوں ، حکام اور دنیا داروں سے مدد طلب کرتا ہے اور اگر بیمار ہو تو دکھ درد سے بچنے کی خاطر معالجوں سے رجوع کرتا ہے۔ اگر یہ بھی اس کو نجات نہ دلا سکیں تو وہ اپنے رب ذوالجلال کے حضور میں گڑ گڑا کر دُعا کرتا ہے ۔ الغرض جب تک وہ خود اپنی مشکل سے نجات پاسکتا ہے ، اس وقت تک دو سرے لوگوں سے مدد طلب نہیں کرتا اور جب تک مخلوق سے اس کی مقصد بر آری ہوتی رہے وہ اپنے خالق کی طرف توجہ نہیں کرتا ، جب خالق بھی اس کو نجات نہ دے تب وہ اس کے در پر دائم پڑا ہوا آہ وزاری کرتا رہتا ہے اور سدا اسی سے اُمید رحمت باندھے ہوئے خوف و رجاء کی کیفیت سے دو چار رہتا ہے۔ جب اس پر بھی خدائے بزرگ و برتراس کی دعا کو قبولیت نہیں بخشا تو وہ تمام ظاہری اسباب سے ناطہ توڑ بیٹھتا ہے۔ ایسے میں اس پر قضا و قدر کا عمل جاری ہو جاتا ہے جو اسے تمام اسباب و علائق سے بے نیاز کر دیتا ہے۔ اس کے بعد وہ خود مٹ جاتا ہے اور روح باقی رہ جاتی ہے وہ جو کچھ دیکھتا ،کرتا ہے، اسے فاعل حقیقی ہی کا عمل سمجھتا ہے اور اس طرح وہ توحید کامل کے مقام پر فائز ہو جاتا ہے ، الغرض وہ یہ یقین کر لیتا ہے کہ فاعل حقیقی صرف ذات خداوندی ہے اور ہر حرکت و سکون اسی کی مشیت کے تابع ہے خیر وشر ، سود و زیاں اور جو دو سخا اسی کے ہاتھ میں ہے۔ اسی طرح بست و کشاد ، موت وحیات،عزت و ذلت اور غربت و ثروت اسی کے قبضہ قدرت میں ہے ایسی صورت میں بندہ خود کو دست قضا و قدر میں اس طرح جملہ اختیارات بشری سے عاری پاتا ہے جیسے دایہ کے ہاتھوں میں طفل شیر خوار -غسال کے ہاتھوں میں میت اور چوگان سوار کے سامنے گیند، بالکل اسی طرح بندہ اپنے طور پر کوئی حرکت نہیں کر سکتا اور نہ ہی کسی دوسری چیز کو حرکت میں لاسکتا ہے، بلکہ اسے توخود ایک حالت سے دوسری حالت ، ایک صفت سے دوسری صفت اور ایک وضع سے دوسری وضع میں تبدیل کیا جاتا ہے وہ تو اپنے مالک حقیقی کے حکم کا تابع اور اپنے آپ سے بے خبر ہو تا ہے اور اس کی حالت یہ ہو جاتی ہے کہ اپنے رب کے حکم اورذات کے سوا نہ کچھ اور دیکھتا ہے نہ سمجھتا ہے ، وو دیکھتا ہے تو اسی کی نگاہ قدرت سے اور جو کچھ بھی سنایا جاتا ہے وہ اسی کا کلام اور علم ہوتا ہے وہ اس کی نعمت سے سرفراز، اس کی قربت سے سعادت مند ، اس کی نزدیکی سے آراستہ و مشرف اُس کے وعدے پر شاداں، اس سے مطمئن ، اس کی گفتگو سے مانوس اور غیر کی باتوں سے بیزار ہوتا ہے ، وہ اس کے ذکر کا طالب ، اس کی پناہ کا چاہنے والا ، اس سے استحکام پانے والا، اس پر توکل کرنے والا، اس کے نور معرفت سے ہدایت یافتہ ، اس کے جامہ نور میں ملبوس ، اس کے عجیب و غریب علوم کا جاننے والا اور اس کی قدرت کے اسرار و رموز سے باخبر ہوتا ہے ۔ بندہ ذات حق ہی سے سنتا اور یاد رکھتا ہے ، یہاں تک کہ اپنے رب کی ان عطا کردہ نعمتوں پر اس کی حمد وثنا کرتا ہے اور شکر بجالاتے ہوئے دعا میں مشغول رہتاہے۔
مقالہ نمبر 4
فنائے خواہشات کا ثمرہ
حضرت قطب ربانی نے ارشاد فرمایا:جب تو مخلوق کے تمام احوال سے اس طرح کٹ جائے کہ گویا تو ان کے لیے مرگیا ہے تو تجھے ذات حق کی جانب سے یہ القاء کیا جائے گا کہ خدا نے تجھے اپنی رحمت کی آغوش میں لے لیا ہے اور تجھے تمام نفسانی خواہشات سے بے نیاز کر دیا ہے ، جب تو خواہشات نفس سے اپنا رابطہ منقطع کرے تو تجھے پردہ غیب سے یہ الہام ہو گا کہ تیرے رب نے اپنی رحمت سے نوازتے ہوئے تجھے تیرے ارادے اور آرزو سے بھی مبرا کر دیا ہے۔ جب تو اپنے ارادے اور آرزو سے بھی ناطہ توڑ بیٹھے تو تجھے اپنے رب سے یہ مژدہ سنایا جائے گا کہ اس نے تجھے اپنی رحمت سے مشرف کر کے حیات جاوداں بخش دی ہے، الغرض جس وقت (تو) اپنے ارادے آرزو سے خود کو بالا کر دے تو تجھے ایک ایسی زندگی بخش دی جائے گی کہ جس کے بعد کوئی موت نہیں،تجھے ایسی تو نگری عطا کی جائے گی جس کے بعد کوئی افلاس نہیں ہوگا، تجھے بخشش و عطا کی ایسی دوا سے مالا مال کیا جائے گا جو ہمیشہ باقی رہے گی، تجھے ایسی مسرتوں سے ہمکنار کیا جائے گا کہ ان کے بعد غم و الم کا نشان تک باقی نہیں رہے گا، تجھے ایسے نازو نعمت سے مالامال کیا جائے گا کہ اس کے بعد کوئی محنت و سختی نہ ہوگی ، تجھے علم کی وہ لازوال دولت بخش دی جائے گی کہ اس کے بعد۔ ساری جہالتیں کا فور ہو جائیں گی مجھے اس طرح مامون ومصئون کر دیا جائے گا کہ اس کے بعد خوف کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہے گی ۔ تجھے نیک بخت بنایا جائے گا بد بخت نہیں ، تجھے عزت بخشی جائے گی ذلت نہیں ، تجھے بارگاہ رب العزت میں قرب حاصل ہو گا دوری نہیں، تجھے رفعت عطا ہو گی پستی نہیں ، تیری تعظیم کی جائے گی تحقیر نہیں اور تجھے پاکیزہ بنایا جائے گا آلودہ نہیں ، اس کے بعد لوگوں کی وہ تمام مرادیں اور آرزو ئیں جو وہ تجھ سے چاہیں گے پوری ہوں گئی اور لوگ جو کچھ بھی تیری مدح و ثنا میں کہیں گے وہ درست ہوگا ۔ پس تو (ایسا ) اکسیر بن جائے گا کر مس خام کو بھی کندن بنا دے گا، پھر تو اس مقام کو پالے گا کہ کوئی تیرے رتبے کو نہیں پائے گا اور تو ایسا نیک بخت اور صاحب عظمت ہوگا کہ کوئی تیری مثل نہ ہوگا ، اور ایسا یگانہ روزگار ہوگا کہ کوئی تیرا ہمسر نہ ہوگا، اور ایسا بے نظیر و بے مثال ہوگا کہ کوئی تجھ جیسا نہیں ہو گا۔ تو بیگانوں کا یگا نہ تن تنہا ، مستور سے بھی مستور اور رازوں کا راز ہو جائے گا ، ایسی صورت میں تو ہر رسول نبی اور صدیق کا وارث بن جائے گا ، تجھے ولایت میں درجہ کمال حاصل ہوگا ۔ ابدال تجھ سے کسب فیض کریں گے، تجھ سے لوگوں کی مشکلات حل ہوں گی ۔ تیری ہی دُعا سے باران رحمت کا نزول ہوگا ۔ تیری برکت سے کھیتیوں کو نموحاصل ہوگا ، تیری ہی امداد سے ہر خاص و عام ، اہل سرحد ، رعایا و حکام ، قائدین قوم ، افرا دملت الغرض تمام مخلوقات کی آفات وبلیات رفع ہوں گی ۔ ایسے میں تو شہروں اور ان کے باشندوں کا امیر و منظم ہوگا ، پس لوگ تجھ سے فیض حاصل کرنے کے لیے تیری طرف جوق در جوق دوڑے چلے آئیں گے ۔ اُن کےہاتھ حکم خداوندی سے تیرے آگےعطیے اور نذرانے پیش کرنے اور خدمت بجا لانے کے لیے دراز ہونگے اور اُن کی زبانیں ہر جگہ تیری مدح و ثنا بطریق احسن کرتی پھریں گی ۔ تیرے کمال (ولایت کا ملہ) میں اہل ایمان کو کوئی اختلاف نہیں ہوگا۔ اے آبادیوں اور ویرانیوں کے باشندوں میں سے بہترین شخص یہ (تمام نعمتیں )خدا کا فضل ہیں اور اس کی ذات بڑے فضل والی ہے ۔
مقالہ نمبر 5
حقیقت دنیا
حضرت قطب ربانی نے ارشاد فرمایا:جب تو دنیا کو اس کے تمام تر سازو سامان آرائش ، دل لبھا دینے والے مکر وفریب
طلبگاروں کو فوری بلاکت میں ڈالنے اور عہد شکنی کے معمول کے ساتھ دنیا داروں کے ہاتھوں میں دیکھے تو ان میں اپن آپ کو ایسے شخص کی طرح جان کہ جو قضائے حاجت کی جگہ میں گندگی و غلاظت کے ڈھیر پر اس حالت میں بیٹھا ہوا ہے کہ اس کی شرمگاہ بر ہنہ اور اس کے چاروں طرف بدبو اور تعفن پھیلا ہوا ہے، ایسے میں تو جب اسے دیکھتا ہے تو آنکھوں کو اس کی برہنہ شرمگاہ دیکھنے سے بند کر لیتا ہے اور تعفن سے بچنے کے لیے ناک پر ہاتھ رکھ لیتا ہے ۔ جب تو دنیا داروں کے پاس مال و متاع دنیا دیکھے تو اسی طرح اس کی زینت و آرائش سے نگاہیں اٹھالے اور اس کے شہوات و لذات کی بدبو سے اپنا ناک بند کر لے تاکہ تجھے اُس سے اور اس کی آفات سے نجات حاصل ہو، تجھے دنیا میں جس قدر حصہ مقدر ہے مل جائے گا ۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی مصطفی ﷺ سے فرمایا وَلَا تَمُدَّنَّ عَيۡنَيۡكَ إِلَىٰ مَا مَتَّعۡنَا بِهِۦٓ أَزۡوَٰجٗا مِّنۡهُمۡ زَهۡرَةَ ٱلۡحَيَوٰةِ ٱلدُّنۡيَا لِنَفۡتِنَهُمۡ فِيهِۚ وَرِزۡقُ رَبِّكَ خَيۡر وَأَبۡقَىٰ اے سننے والے ! اپنی آنکھیں اس مال متاع پر مت ٹکا جو ہم نے کفار کو اس دنیا میں برتنے اور آسائش کے لیے دی ہیں ہم نے انھیں یہ مال و متاع اس لیے عطا کیا ہے تاکہ اس کے سبب انہیں فتنے میں ڈ ال دیں اور تیرے رب کا رزق سب سے اچھا اور دیر پا ہے
مقالہ نمبر 6
مخلوق سے بے تعلقی
حضرت قطب ربانی نے ارشاد فرمایا:خود کو خلق سے اس طرح منقطع کرلے کہ کائنات میں جو کچھ ہو تو اسے تقدیر و مشیت ایزدی سمجھے، اپنی خواہشات کو امرخدا وندی و علی الله فتو حلوا ان گنتم مومنین ان کے ذریعے ترک کر دے اور اپنے ارادوں کو افعال و تدبیر خداوندی میں فنا کر دے تو تیرے اندر علم خدا کا محل بن جانے کی صلاحیت پیدا ہو جائے گی۔ خلق خدا سے فنا ہو جانے کی علامت ، ان سے تیراکٹ جانا ، ان کے ہاں آنے جانے سے اجتناب کرنا اور ان کی چیزوں کے حصول سے خود کو مایوس کر دینا ہے، تیرے خواہشات سے فنا ہونے کا مطلب حصول نفع اور دفع ضر رکے سلسلے میں سبب اور کسب کو چھوڑ دینا ہے ، اس کے بعد تیری حالت ایسی ہو جانی چاہیے کہ تو اپنے لیے کوئی حرکت، اپنے اوپر کسی قسم کا بھروسہ ، خود سےضرر کو دور کر دینے کی کوشش ، اور اپنے نفس کی کوئی مدو نہ کرے بلکہ ان تمام امور کو اپنے رب کے حوالے کردے کیونکہ وہی پہلے بھی ان کا ذمہ دارتھا اوراب بھی رہے گا جیسے کہ یہ تمام امور اس وقت بھی اسی کے ذمے تھے جب کہ تو رحم مادر میں پوشیدہ اور گہوارے میں پڑا دودھ پیتا بچہ تھا، اپنے ارادے کو فعل خداوندی میں فنا کردینے کا مفہوم یہ ہے کہ تو نہ کسی مراد کا ارادہ کرے اور نہ تیری کوئی غرض ہو اسی طرح نہ تیری کوئی حاجت باقی رہے اور نہ کوئی آرزو کیونکہ ایسے میں تو ارادہ خدا کے
ساتھ ارادہ غیر خدا کا قصد نہ کرے گا۔ بلکہ اللہ کا فعل تجھ میں جاری ہوگا۔ پھر تواللہ کے ارادہ اور فعل کے وقت ساکن الجوارح بلا حرکت اعضا اور قلب مطمئن اور فراخ و کشادہ سینہ چہرہ روشن باطن آباد اور تعلق خالق کے سبب تمام چیزوں سے بے پروا ہو جائے گا، دست قدرت تجھے پھرائے گا۔ زبان قدرت تجھے پکارے گی اور پروردگا عالم تجھے علم سکھائے گا۔ خلعت نورانی اور لباس معرفت پہنائے گا ۔ اور تجھے سلف صالحین اور عارفین اولین کے مقامات پر پہنچائے گا۔ پھر تو ہمیشہ دل شکستہ رہے گا، اور تجھ میں خواہش و ارادہ کچھ باقی نہ رہے گا جیسے کہ ٹوٹے ہوئے برتن میں پانی اور میل کچھ نہیں ٹھہرتا ہے ۔ پھر تو اخلاق بشریت سے پاک ہو جائے گا۔ اور تیرا دل ارادہ الہی کے سوا کسی چیز کو ہر گز قبول نہ کرے گا ۔ پھر اس وقت کرامات و تصرفات کی نسبت تیری طرف کی جائے گی۔ پس یہ تصرفات فعل و حکم میں ظاہراً تو تجھ سے دیکھے جائیں گے۔ پر حقیقت میں وہ خدا کا فعل وارادہ ہوں گے ۔ پھر تو ان شکستہ دلوں کے زمرہ میں شامل کیا جائے گا، جن کی خواہشات نفسانی اور ارادہ بشری ٹوٹ گئے تھے۔ اور پھرا ز سر نو ان میں ارادہ ربانی اور روزمرہ کی خواہشیں پیدا کی گئیں۔ جیساکہ نبی ﷺ کا ارشاد ہے
تمہاری دنیا سے تین چیزیں میری طرف محبوب کی گئی ہیں۔ خوشبو، عورت، اور آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں ان اشیاء کی نسبت آپ کی طرف خواہشات کے لکھنے اور دور ہونے کے بعد کی گئی۔
جیسا کہ ہم نے پیشتر اس کی طرف اشارہ کیا ہے۔ اللہ تعالٰی نے فرمایا
میں ان کے پاس ہوں جن کے دل میری ہی وجہ سے شکستہ ہیں ۔ پس اللہ تعالیٰ تیرے پاس نہ ہوگا۔ جب تک تیری سب خواہشیں اور تیرے سب ارادے ٹوٹ نہ جائیں پھر جب سب (کچھ) ٹوٹ جائے اور اس کے بعد تجھ میں کچھ باقی نہ رہے اور ذات باری کے سوا تو کسی شے کے قابل نہ رہے ۔ تو پھر اللہ تجھے نئے سرے سے پیدا کرے گا ، اور تجھ میں نئے ارادے پیدا کرے گا اور تو انہی ارادوں سے ارادہ کرے گا۔ پھر جب وہ ارادہ تجھ میں پیدا کیا ہوا پایا جائے گا۔ تو اسے (بھی تیرے تزکیہ کامل کے لئے اللہ تعالیٰ تو ڑ دے گا۔ بس تو شکستہ دل رہے گا۔ پھر اسی طرح سمجھ میں نیا ارادہ پیدا کرتا اور اس میں تیرا علاقہ پائے جانے کی وجہ سے (اس علاقہ کو) تو مر تا رہے گا ، یہاں تک کہ تقدیر اپنی مدت کو پہنچ جائے۔ پھر دیدار حاصل ہوگا۔ یہی معنی ہیں۔ انا عند المنكسرة قلوبهم من اجلی کے اور ہمارے قول عند وجودك فيها کے معنی ہیں تیرا ارادہ نو پیدا میں مطمئن اور مضبوط ہو جانا ” حدیث قدسی میں وارد ہے، میرا بندہ مومن عبادات نافلہ سے، ہمیشہ میری نزدیکی چاہتا ہے۔ یہاں تک کہ میں اسے دوست کر لیتا ہوں۔ اور جب دوست کر لیتا ہوں تو اس کا کان ہو جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے، اور آنکھ ہو جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے اور اس کا ہاتھ ہو جاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے اور اس کا پاؤں ہو جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے، اور ( اس کا مفہوم) دوسرے لفظوں میں یوں ہے کہ ” مجھ ہی سے سنتا ہے مجھ ہی سے دیکھتا ہے مجھ ہی سے پکڑتا ہے اور مجھ ہی سے سمجھتا ہے فنا کی کوئی اور حالت اس کے سوا نہیں ہے ۔ جب کہ تو اپنے سے اور مخلوق سے فانی ہوا اور مخلوق یا نیک ہے یا بد ہے۔ اسی طرح تو بھی نیک ہے یا بد ہے۔ پس جب تو مخلوق سے بہتری کی امید نہ کرے گا۔ اور مخلوق کے شر سے نہ ڈرے گا تو اللہ ہی اللہ باقی رہ جائے گا ۔ جیسے کہ پیدا کرنے سے سے پہلے تھا۔ خیرو شر بس اللہ ہی کی قدرت میں ہے۔ اور اللہ تجھے قدر کے شر سے بے خوف کر دے گا۔ اور خیر کے دریا میں ڈبو دے گا۔ پھر تو ہر خیر کا محل اور ہر نعمت د سرور و خوشی و نور دنیا و امن و آرام کا سر چشمہ بن جائے گا بس سالکوں کی آرزو و مطلوب و منتہی اور حد اور واپسی کی جگہ یہی فنا ہے، اور یہیں اولیاء اللہ کی سر کا اختتام ہے، اور انپے اس ارادہ سےفناہو کر خدا کے ارادے سے (کامل طور پر) بدل جانے کی استقامت کو اگلے اولیار و ابدال علیہم السلام نے طلب کیا ہے۔ وہ تا وفات ہمیشہ ارادہ حق کے ساتھ (ہی ) ارادہ کرتے ہیں۔ اس لئے ان کے نام ابدال رکھے گئے۔ رضی اللہ عنہم دعنا
پس ان حضرات کے نزدیک اراد حق میں اپنے ارادہ کو شریک کرنا گناہ ) ہے اور سہود نسیان اور غلبہ حال دخوف کی صورت میں خدائے پاک ان کو یاد دلانے اور ہوشیار کرنے کے ساتھ خبر دار کر دیتا ہے پھر وہ اس سے باز آتے ہیں اور در بار الہی میں استغفار کرتے ہیں، کیونکہ فرشتوں کے سوا ارادہ سے کوئی معصوم نہیں فرشتے ارادہ سے پاک اور انبیاء خواہش نفس ہے بری رکھے گئے ہیں اور باقی مخلوق مختلف، جن اور انسان ارادہ اور خواہش نفس سے معصوم نہیں۔ لیکن یہ بات ضرور ہے کہ اولیاء خواہش نفس سے نفس سے معصوم نہیں۔ لیکن یہ بات ضرور ہے کہ اولیا ء خواہش نفس سے اور ابدال ” ارادہ سے ” محفوظ ہیں۔ معصوم نہیں ہیں اور اس معنی پر جائز ہے، ان کے حق میں ان دونوں کی طرف کسی وقت مائل ہو جانا اور خدائے پاک کا ، اپنی رحمت سے بیداری میں اُن کو بتلا دینا داور تدارک
فرما دینا۔
مقالہ نمبر 7
نفس خواہش اور ارادے کو ترک کرنا عظمت تو بہ
حضرت قطب ربانی نے ارشاد فرمایا اپنے نفس سے باہر آ۔ اور اس سے کنارہ کر اور اپنی ہستی سے بیگانہ ہو جا۔ ہر چیز اللہ کو سونپ دے اور اپنے دل کے دروازہ پر ان کا دربان بن جا۔ وہ دل میں آنے کا جسے حکم دے ، اسے آنے دے اور جسے منع کرے، اسے روک دے۔ پس ہوائے نفس کو دل سے نکل جانے کے بعد (پھر) دل میں آنے نہ دے۔ خواہشات نفسانی کا دل سے نکالنا( مطلب اس کا یہ ہے کہ )ہر حال میں ان کی مخالفت کرنا، اور ان کی پیروی نہ کرنا اور خواہش کا دل میں داخل کرنا ( مطلب اس کا یہ ہے کہ) اس خواہش نفس کی پیروی اور موافقت کرنی (بس) ارادہ حق کے سوا کسی ارادہ کی خواہش مت کر۔ ارا دہ حق کے سوا تیرا ارادہ آرزو ہے اور آرزو و خواہش بیوقوفوں اور احمقوں کا جنگل ہے ۔ اس (جنگل میں پڑ جانا تیری موت اور ہلاکت اور خدا کی نظر رحمت سے گر جانے اور تیرے حجاب میں پڑ جانے) کا سبب ہے ہمیشہ احکام الہی کی حفاظت کر۔ اور اس کی منہیات سے اجتناب کر۔ اور اس کے مقدرات کو اسی کی طرف حوالہ کر۔ اور اس کی مخلوقات سے کسی چیز کو اس کا شریک نہ کر۔ تیرا ارادہ اور خواہش اور آرزو سب اسی کی مخلوق ہیں پس ارادہ نہ کر خواہش نہ کرمت چاه – تاکہ تو مشرک نہ ٹھہر ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ” جو خدا تعالیٰ کے دیدار کا امیدوار ہوا میں اسے چاہیئے کہ عمل صالح (اچھے کام کرے) اور عبادت میں کسی کو (بھی) اپنے رب کا شریک نہ بنائے۔ صرف بت پرستی ہی شرک نہیں بلکہ اپنی ہوائے نفس کی پیروی کرنی اور خدائے عز وجل کے ساتھ دین ودنیا میں سے کسی چیز کا اختیار کرنا بھی شرک ہے پس جو اللہ تعالیٰ کے سوا ہے، وہ غیر اللہ ہے پس جبکہ تو اس کے سوا اس کے غیر کی طرف مشغول ہوا تو بیشک تو نے غیر (خدا) کو اللہ تعالی کا شریک ٹھہرایا پس پر ہیز کر آرام نہ لے۔ خوف کر بے خوف نہ رہ تلاش کر غافل نہ رہ پھر مطمئن ہوجا۔ اور کسی حال یا کسی مقام کی نسبت اپنے نفس کی طرف مت کر۔ اور ان میں کسی چیز کا دعوی نہ کر پھر اگر تجھے کوئی حال دیا جائے، اور تو کسی مقام پر قائم کیا جائے تو کسی کو اس کی خبر نہ دے اس لئے کہ حالات کے بدلنے میں ” ہر دن اللہ تعالیٰ کی نئی شان ہے ؟ اوراللہ تعالی بندے اور اس کے قلب کے درمیان حائل ہے، شائد کہ جس چیز کی تو نے خبر دی اس سے تجھے دُور کر دے ۔ اور جس چیز کی پائیداری اور بقا کا تو نے خیال کیا اُس سے (تجھے) بدل دے تو پھر تو نے جس سے کہا ہوگا، اس کے روبرو شرمندہ ہوگا بلکہ اس(حال یا مقام کے معاملہ) کو دل میں محفوظ کر کسی ہے کہہ نہیں۔ پھر اگر وہ قائم ، اور برقرار رہ ہے، تو اسے خدا کی بخشش جان ۔ اور شکر بجالانے کی توفیق اور زیادتی نعمت کا سوال کر۔ اور اگر وہ باقی نہ رہا تو اس میں (تیرے لئے) ترقی علم معرفت و نور و ہوشیاری اور زیادتی ادب ہوگی۔ خدا تعالیٰ نے فرمایا یہ ہم جس آیت کو منسوخ کرتے یا بھلاتے ہیں تو اس سے بہتر یا اس کے مثل (دوسری آیت لاتے ہیں کیا تم نہیں جاتے کہ اللہ ہر شئے پر قادر ہے۔ پس اللہ کو اس کی قدرت میں عاجز نہ جان اور اس کو تقدیر اور تدبیر میں متہم نہ کر۔ اس کے وعدہ میں شک نہ کریں۔ تجھے لازم ہے کہ رسول اللہ ﷺ وسلم کا اسوہ حسنہ اختیار کرے سمجھ لے کہ آپ پر نازل کی ہوئی آیتیں اور سور تیں، جن پر عمل کیا گیا اور محرابوں میں پڑھی، اور مصحفوں میں لکھی گئیں، پھر منسوخ کی گئیں اور بدل دی گئیں اور ان کی بجائے دوسری آیتیں لائی گئیں اور آنحضرت ﷺ ان نئی نازل کی ہوئی آیتوں اور سورتوں کی طرف متوجہ کئے گئے اور یہ حال شریعت ظاہرہ میں ہے لیکن تغیر حال باطنی اور علم باطنی جو خدا اور آنحضرت ﷺ کے درمیان میں تھا اس کی نسبت آپ فرماتے ہیں یہ البتہ میرے دل پر پردہ کیا جاتا تھا اور میں ہر دن میں ستر بار طلب مغفرت کرتا تھا اور ایک روایت میں ہے کہ سو مرتبہ آپ ایک حالت سے دوسری حالت پر پہنچائے جاتے تھے۔ اور ایک حالت دوسری حالت میں بدل دی جاتی تھی۔ اور آپ منازل قرب اور میدان غیب میں پہنچائے جاتے تھے اور نورانی خلعت آپ پر بدلے جاتے تھے پھر پہلی حالت دوسری حالت سے کمتر، اور تاریک ظاہر ہوتی تھی اور حالت اولی میں حفظ حدود ادب کا نقصان ظاہر ہوتا تھا، پھر آپ کو استغفار کی تعلیم ہوتی تھی (اور یہ) اس لئے کہ استغفا نہ بندے کا بہتر حال ہے، اور تو بہ تمام احوال میں بہتر ہے۔ اس واسطے کہ تو بہ میں بندے کی طرف سے گناہ و قصور کا اقرار ہے۔ اور توبہ و استغفار ہر حال میں بندے کی دو صفتیں ہیں اور یہ دونوں صفتیں، حضرت ابو البشر آدم برگزیدہ کی میراث ہیں ۔ جب ان کی صفائی حال پر نسیان عہد و پیمان کی تاریکی آئی اور انہوں نے ہمیشہ جنت میں رہنے کا اور قرب الہی کا اور تحیت وسلام کے ساتھ فرشتوں کے اپنے پاس آنے کا یہ ارادہ کیا اور اس کی خواہش کی تو اس وقت خواہش نفسانی و اراده آدم ارادہ الہی کے ساتھ شریک ٹھہرا پس یہ ارادہ تو ڑ دیا گیا۔ اور پہلی حالت مٹادی گئی اور وہ ولایت معزول کردی گئی۔ وہ منزلت جاتی رہی ۔ وہ انوار تاریک ہو گئے۔ اور وہ صفائی مکدر ہوگئی۔ پھر حضرت آدم خبردار کیئے گئے اور یاد دلائے گئے اور گناہ و نیسان کا اقرار کرایا گیا۔ اور قصور و نقصان کا اعتراف کرنے کی تلقین کی گئی۔ اور آدم علیہ السلام نے کہا ۔ اے ہمارے رب ہم نے اپنے نفس پر ظلم کیا ، اگر تو ہماری مغفرت نہ فرمائے گا اور رحم نہ کریگا تو ہم ضرور خسارہ پانے والوں میں ہو جائیں گے پھر ان میں انوار حیات اور علوم تو بہ اور اُس کے معارف اور مصالح مدفونہ جو اس سے قبل ظاہر نہ تھے تو بہ کے بعد ظاہر اور منکشف ہو گئے پھر (جیسا کہ قرآن مجید میں فرمایا گیا اللہ تعالیٰ نے توبہ کی توفیق دی تاکہ توبہ کریں ۔ پھر وہ ارادہ حق کے ساتھ اور وہ پہلی حالت بہتر حالت کے ساتھ بدل دی گئی ۔ پھر ولایت گہری اور دنیا و عقبی میں رہنے کی جگہ ملی۔ پس دنیا ان کی اور ان کی اولاد کے رہنے کی جگہ ہوگئی اور عقبی اُن کی پناہ اور واپسی اور ہمیشگی کی منزل ہو گئی پھر تجھے (بھی) اعتراف قصور اور استغفار اور ہر حال میں نیازمند کے لئے اپنے برگزیدہ رسول ﷺ اور ان کے باپ حضرت آدم علیہ السلام کے خصائل اختیار کرنے چاہئیں جو محبین اور دوستان خدا کی اصل ہیں ۔
مقالہ نمبر 8
اختیار غیر کی نفی اور اللہ کے فعل کی اثبات
حضرت قطب ربانی نے ارشاد فرمایا تو جس حالت پر ہو اس کے سوا کسی اور بلند یا پست حالت کی آرزو نہ کر جب تو شاہی محل کے دروازہ پر ہو تو محل میں داخل ہونے کی آرزونہ کر۔ یہاں تک کہ جبرا بے اختیار تجھے داخل نہ کیا جائے ۔ “جبر” سے مراد وہ حکم ہے جو سخت اور تاکیدی، اور باربار ہو محض حکم داخلہ پر قناعت نہ کر ہو سکتا ہے کہ یہ اس بادشاہ کی طرف سے امتحان اوردھوکا ہو لیکن اُس وقت تک صبر کر کہ تو داخل ہونے پر مجبور کر دیا جائے، پھر جب تو محض جبر و فعل شاہی سے داخل کیا جائے گا تو تجھ کو بادشاہ اپنے فعل کی وجہ سے عذاب نہ کیے گا۔ بلکہ تجھے اپنے قلت صبرا اور اختیار حرص اور بے ادبی اور اپنی حالت موجودہ کے قیام پر ترک رضاء کے سبب عذاب ہوگا ۔ پس جب تو محل شاہی میں جبر سے داخل کیا جائے۔ تو خاموش، سرنگوں، مودب اور نیچی نظر کئے ہوئے رہ ۔ اور بلا طلب ترقی مرتبت جس خدمت پر اور جس شغل پر کہ تو مامورہے، اس کا محافظ ہو جا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے برگزیدہ نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے فرمایا گھور گھو کر نہ دیکھوان (اقسام چیزوں) کی طرف جو ہم نے کافروں کو زندگانی دنیا کی آسائش کے لئے دی ہیں تاکہ ان کو ہم آزمائیں اور اس طرح ہم ان کا امتحان کریں اور آپ کو آپ کے رب کا دیا ہوا رزق بہت بہتر اور باقی رہنے والا ہے۔ پس اپنے اس قول کو وَرِزۡقُ رَبِّكَ خَيۡروَأَبۡقَىٰ اپنے نبی مختار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حفاظت حال کا اور اپنی دی ہوئی نعمت پر راضی رہنے کا ادب سکھایا ہے۔ یعنی ہم نے جو خیر اور نبوت اور علم وقناعت اور صبر اور سلطنت دین اور غزوہ دین یہ چیزیں کہ تجھے عطا کی ہیں اوروں کو دی ہوئی چیزوں سے بہترین ہیں۔ پس موجودہ شے کی حفاظت اور اس پر رضا مندی اور اس کے ماسواہ کی طرف سے ترک التفات میں (ہی) تمام بھلائیاں ہیں اس لئے کہ وہ غیر موجودہ (شے) یا تو تیری قسمت کی ہے یا کسی غیر کے لئے ہے یا کسی کا حصہ نہیں بلکہ اسے اللہ نے بندوں کی آزمائش کے لئے پیدا کیا ہے پس اگر وہ تیرا حصہ ہے تو خواہ تو اسے چاہے یا نہ چاہے تجھے پہنچے گا۔ پھر اس کی طلب میں تجھ سے لالچ اور سوء ادب کا ظاہر ہونا زیبا نہیں، کیونکہ از روے حکم علم وعقل (یہ طلب و طمع ) نا پسندیدہ ہے۔ اگر وہ دوسرے کی قسمت میں ہے تو تو اُسے نہ پائے گا۔ اور تجھے نہ ملے گی ۔ پھر اس کے لئے کیوں سختی جھیلتا ہے اور اگر وہ کسی کی (بھی) قیمت میں نہیں بلکہ وہ فتنہ اور امتحان ہے تو کوئی ذی عقل اپنے لئے کیوں حصہ طلب کرے گا ۔ اور کیوں اُسے مستحسن جانے گا اور کیوں اس پر راضی ہوگا ۔ بس یہ بات ثابت ہوگئی کہ خیر و سلامتی حفاظت حال میں ہے۔ پھر جب تو بالا خانے، اور وہاں سے غرفہ (چھت پر چڑھایا جائے تو جیسا کہ ہم نے کہا نگہبان، خاموش اور مودب رہ بلکہ ان امور میں زیادتی کر اس لئے کہ تو بادشاہ سے نزدیک ترا اور خطرہ سے قریب تر ہے، پھر اس سے ادنیٰ و اعلیٰ ثبات و بقا اور تغیر حال موجودہ کی آرزو نہ کر اور (چاہیے) کہ اس میں تیرا ہر گز کوئی اختیار نہ رہے۔ اس لئے کہ نعمت موجودہ کی یہ ناشکری ہے، اور ناشکری نا شکر گزار کو دنیا و آخرت میں ذلیل و خوار کرتی ہے ہیں جس طرح ہم نے بیان کیا ہمیشہ عمل کرتا کہ تو ایسے مقام پر ترقی دیا جائے کہ وہاں تو قائم ہو جائے اور وہ تیرا مقام ہور اور تو جان لے کہ وہ مقام علامات و آیات ظاہرہ کے ساتھ (ایک )بخشش حق ہےپس وہاں سے نہ ہٹ اور اس کی حفاظت کری پس احوال اولیاء کے لئے ہیں اور مقامات ابدال کے لئے
مقالہ نمبر 9
افعال میں کشف مشاہدہ
حضرت قطب ربانی نے ارشاد فرمایا کشف و مشاہدہ اور افعال میں اولیاء اور ابدال کے واسطے افعال الہی سے ایسی چیز ظاہر ہوتی ہے، جو عقلوں کو مغلوب کر لیتی ہے۔ اور عادت ورسوم کو چیرتی اور ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالتی ہے، یہ افعال الہی دو قسم کے ہیں، جلالی اور جمالی پس ظہور جلال و عظمت (کیا ہے؟) (یہ) بے آرام کرنے والے خوف اور جگہ سے اکھاڑ دینے والے ڈر میں جو قلب پر غلبہ عظیم لاتے ہیں جس سے اعضائے بدن (پردہشت اور خوف )کے آثار ظاہر ہوتے ہیں جیسا کہ نبی کریم ﷺ سے روایت کی گئی ہے کہ آپ کے سینہ مطہر سے نماز میں جوش مارنے کی آواز جوش کھانے والی دیگ کی آواز کی طرح سنائی دیتی تھی اس لئے کہ آپ اللہ تعالیٰ کے جلال کو دیکھتے تھے اور آپ پر عظمت و جبروت الہیہ کا انکشاف ہوتا تھا اور اسی کے مثل حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السّلام اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے حال میں منقول ہے لیکن مشاہدہ جمال (کیا ہے) دلوں پر انوار و سرور و الطاف کے ساتھ کلام لذیذ اور محبت بھری باتوں اور بڑی بڑی بخششوں اور بلند منزلوں اور قرب و نزدیکی مولی کی بشارتوں کے ساتھ تجلی الہی ہے۔(یہی چیزیں ہیں )جن کی طرف آخر کار ان کی بازگشت ہے۔ اور ازل میں قلم ان چیزوں کو ان کے حق میں لکھ کر خشک ہو گیا ہے (اب ان میں تبدیلی نہیں) اللہ کا اپنے فضل اور رحمت سے ان (نعمت یافتگان مشاہدہ جمال) کو اس دنیا میں وقت معین اجل کے آنے تک قائم اور باقی رکھنا یہ ان کے لئے فضل خاص ہے تاکہ فرط شوق کے سبب ان کی محبت حد سے گزر کر ان کی قوتیں شکستہ اور قیام عبودیت میں سست اور ہلاک نہ ہو جائیں ۔ اور خدائے پاک کا اپنی رحمت و لطف سے ان پر تجلی فرمانا ، ان کے دلوں کے معالجہ اور تربیت اور نرمی کے لئے ہے ، یہاں تک کہ ان کو یقین یعنی موت آجائے کہ یہ اللہ تعالی حکیم اور دانا اور ان پر مہربان و رؤف رحیم ہے اسی لئے حضرت نبی کریم صلی الہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کی گئی ہے کہ آپ ” حضرت بلال موذن سے فرمایا کرتے تھے اے بلال ہم کو راحت پہنچا اذان وتکبیر سے ، تاکہ ہم نماز میں داخل ہو جائیں۔ مشاہدہ جمال الہی کے لئے ان صفات کے ساتھ جن کا ہم نے ذکر کیا۔ اسی لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا میری آنکھوں کی ٹھنڈک اور میرا آرام نماز میں رکھا گیا ہے۔
مقالہ نمبر 10
نفس کی مخالفت – رزق کے اقسام ہدیہ ا و رصدقہ کا فرق جبریہ عقائد
حضرت قطب ربانی نے ارشاد فرمایا اس کے سوا نہیں کہ اللہ اور تیرا نفس ہے۔ اور تو مخاطب ہے اور نفس اللہ کا دشمن اور مخالف ہے۔ اور سب چیزیں اللہ کی فرماں بردارہیں اور نفس حقیقتا اللہ کی مخلوق اورملک (ضرور) ہے لیکن نفس کے لئے شہوت اور لذات اور جھوٹا ادعا اور آرزو( اور بڑ اگھمنڈ) ہے کیونکہ یہ چیزیں اس کی مناسب طبع ہیں پھر اگر تو نفس کی مخالفت و عداوت میں اللہ کے ساتھ موافقت اختیار کرے گا تو اللہ کے واسطے تو اپنے نفس کا دشمن ہو جائیگا ۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت داؤد سے فرمایا ” اے داؤد ! میں تیرا لازمی چارہ کا رہوں، اپنے چارہ کار کو بخوبی گرفت کرلے عبودیت یہ ہے کہ تو میرے لئے نفس کا دشمن ہو جا۔ اس وقت اللہ کے ساتھ (تیری موالات اور عبودیت ثابت ہوگئی اور (تجھے ) پاک وصاف خوش گوار حصے ملیں گے اور توعزیزو مکرم بنایا جائے گا اور تمام اشیاء تیری تابع ہوں گی اور تیری خدمت گزاری اور تعظیم (تیرا احترام کریں گی ۔ اس لیے کہ سب چیزیں اللہ کی تابع اور اسی کی موافقت میں ہیں۔ اللہ ان کا خالق اور انہیں از سر نو پیدا کرنے والا ہے۔ اور سب چیزیں اس کی وحدانیت اور عبودیت کی مقربیں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے ، ” ہر چیز حد کے ساتھ اللہ کی تسبیح کرتی ہے لیکن تم ان کی تسبیح کو نہیں سمجھتے ہوں یعنی وہ ذکر اور عبادت کرتی ہیں۔ اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا اللہ نے آسمانوں اور زمین سے کہا کہ میری فرماں برداری میں طوعاً و کرہاً(خوشی یا زبردستی) کے ساتھ آؤ تو وہ کہنے لگے کہ کرفرماں بردار ہو کر آئے ۔پس پوری عبودیت اپنے نفس اور خواہش کی مخالفت میں ہے قرآن شریف میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت داؤد علیہ السلام سے فرمایا: ” اتباع ہوا نہ کر۔ یہ(خواہش کی پیروی تجھے اللہ کے راستہ سے گمراہ کر دے گی) اور حدیث قدسی میں ہے ، کہ حضرت داؤد سے فرمایا گیا ” اپنی خواہش کو چھوڑ دے کیونکہ میرے ملک میں نفس کی خواہش کے سوا کوئی جھگڑنے والا نہیں ہے اور ایک حکایت مشہور حضرت بایزید بسطامی سے ہے کہ جب انہوں نے خواب میں رب العزت کو دیکھا تو کہا یا اللہ تیری طرف پہنچنے کا راستہ کیا ہے ؟ تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا یہ اپنے نفس کو چھوڑدے اور آجا ۔ حضرت بایزید بسطامی فرماتے ہیں کہ میں سانپ کی کینچلی کی طرح اپنے نفس کو چھوڑ دیا ” خلاصہ یہ کہ ہر حال میں بہتری ہے اپنے نفس کے ساتھ دشمنی رکھنے میں ، پس اگر تو پرہیزگار ہے تو اسی طرح (تو بھی اپنے نفس کا مخالف ہو جا کہ مخلوق کےمال حرام و شبہ سے اور لوگوں کے احسان اور ان پر ٹیک لگانے اور بھروسہ رکھنے سے اور ان سے ڈرنے اور امید رکھنے اور تھوڑا مال دنیا جو لوگوں کے پاس ہے اس کا لالچ رکھنے سے (تو) نکل جائے اور بطریق ہدیہ یا زکوۃ یا صدقہ یا کفارہ یا نذر دینے کی (اہل دنیا سے مطلق) اُمید نہ رکھے اور اپنے ارادہ کو ہر طرح مخلوق کے اسباب سے منقطع کرلے یہاں تک کہ اگر تیرا کوئی عزیزمالدار ہے جس سے تجھے ترکہ ملنے کی امید ہے تو اس کی موت کی آرزو نہ کر۔ کوشش کر کے مخلوق سے کنارہ کش ہوجا اور ان کو (ایسے) دروازوں کی طرح جو کھلتے اور بند ہوتے ہیں اور درخت کی طرح جو کبھی پھلتا ہے اور کبھی نہیں پھلتا سمجھ لے ۔ یہ سب امور فاعل کے فعل اور مدبر کی تدبیر سے ہوتے ہیں اور وہ (فاعل و مرتبہ) اللہ ہے اور بہ این ہمہ مخلوق کے کسب کو بھول نہ جانا تا کہ مذہب ” جبریہ ” سے نجات پائے ۔ اور اعتقاد رکھ کہ مخلوق کے افعال بغیر خدا کے پورے نہیں ہوتے (اور یہ اس لئے تا کہ (تو) اللہ کے سوا مخلوق کی پرستش نہ کرنے لگے ۔ اور خدا کو نہ بھول جائے۔ اور یہ مت کہہ کہ مخلوق کا فعل بغیر قدرت خدا ہے۔ اور (پھر تو کافر ہو جائے اور قدریہ بن جائے بلکہ کہہ کہ یہ افعال خدا کے پیدا کئے ہوئے مخلوق کے لئے کسب ہیں۔ جیسا کہ عذاب و ثواب کی سزا و جزا کے بیان کے مواقع میں حدیثیں آئی ہیں۔ اور بندوں کے معاملہ میں (صرف) خدا کا حکم بجالااور اپنے حصہ کوبہ امرالہی مخلوق سے جدا کر لے حکم خدا سے تجاوز نہ کر کیونکہ اللہ کا حکم قائم ہے۔ تجھ پر اور تمام مخلوق پر وہی حکم کرتا ہے کسی امر میں خود حاکم نہ بن بیٹھے اور مخلوق کے ساتھ تیرا ہونا یہ مقدر ہے۔ اور مقدر تاریکی (میں) ہے ۔ پس ظلمت میں چراغ کے ساتھ داخل ہو۔ وہ چراغ کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی الہ علیہ وآلہ وسلم ہے اور یہی (کتاب وسنت) حاکم ہیں۔ ان دونوں کے حکم سے باہر نہ جا۔ اگر تیرے دل میں کوئی خطرہ گذرے۔ یا الہام پایا جائے تو اس کو قرآن وحدیث سے ملا ۔ اگر قرآن و حدیث میں اس کی حرمت پائے جیسے وسوسه،زنا و سود اور فاسق و فاجر کے ساتھ میل جول اور دوسرے گناہ (ہیں) پس ایسی باتوں کو اپنے دل سے دور کر۔ اور ان سے الگ رہ۔ اِن کو قبول نہ کر ان پر عمل نہ کر۔ اور یقین کر کہ ایسے وسوسے شیطان کی جانب سے ہیں۔ اور اگر اس خطرہ کو قرآن و حدیث میں مباح پائے جیسے کھانے پینے پہننے اور نکاح کرنے کی خواہشیں، تو ان کو بھی چھوڑ دے اور قبول نہ کر۔ اور جان کہ یہ خطرہ نفس اور نفس کی خواہشات ہیں اور تو مخالفت اور عداوت نفس پر مامور ہے۔ اور اگر قرآن و حدیث میں حرمت واباحت نہ پائے۔ بلکہ وہ ایک ایسی بات ہے کہ جسے تو نہیں سمجھتا جیسے تجھ سے کہا جائے کہ فلاں فلاں جگہ جا۔ اور فلاں مرد صالح سے ملاقات کر حال آنکہ خدائے پاک کی عطاء کی ہوئی نعمت علم و معرفت کی وجہ سے تو بے نیاز ہے ۔ اور تجھے وہاں جانے اور مرد صالح سے ملاقات کرنے کی حاجت اور غرض نہیں ہے (تب) تو وہیں ٹھہر جا ۔ اور جانے میں جلدی نہ کر۔ اور دل میں سوچ کہ آیا یہ خدا کی طرف سے الہام ہے یا تا کہ میں اس پر عمل کروں (اور اس طرح تو اس کے اختیار کرنے میں ” انتظار کر۔ اور فعل الہی یہ ہے کہ وہ الہام بارہار ہو۔ اور تجھے جلد جانے کی کوشش کرنے کا حکم دیا جائے۔ یا ایسی نشانی ہو ۔ جو عالم باللہ لوگوں پر ظاہر ہوتی ہے۔ اور اسے ذی فہم اولیاء اللہ اور ابدال جنھیں قوت و ادراک عطا فرمائی گئی ہے ۔ معلوم کراتے ہیں۔ پس اس میں جلدی نہ کر۔ اس لئے کہ تو انجام کار اور فشائے امرالہی اور اس بات کو نہیں جانتا کہ کس میں فتنہ اور بلا کی اور مکر و امتحان اللہ (کی طرف) سے ہے۔ اس وقت تک صبر کر کہ اللہ تعالیٰ تجھ میں فاعل ہو جائے۔ اور جب خاص فعل حق باقی رہ گیا۔ اور اس مقام میں تیری باریابی ہوگئی۔ اُس وقت اگر کوئی فتنہ (بھی) پیش آئے گا تو تو محفوظ اور بری رکھا جائے گا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ اپنے فعل پر تجھے عقوبت نہیں کرے گا ۔ اور عذاب تجھے کسی کام میں تیرے دخل کی وجہ سے پہنچنا ہے۔ اگر تو حالت حقیقت یعنی حالت ولایت پر ہو۔ تو نفس کی مخالفت کر اور امرحق کا پورامتبع اور پیرو ہو جا۔ اور پیروی امر کی دو قسمیں ہیں۔ پہلی قسم دنیا کے مال سے کفایت نفس کے بقدر خورد نوش کا حق لینا اور لذات نفسانی سے اجتناب کرنا اور ادائے فرض اور ترک گناہ ظاہر و باطن کی مشغولی کرنی ہے، دوسری قسم امر باطن سے مامور ہونا ہے اور یہ خدا کا وہ حکم ہے جس سے (وہ) بندہ کو حکم کرتا اور روکتا ہے۔ یہ امرباطن اس مباح میں پایا جاتا ہے جس کا شرع میں کوئی حکم نہیں ہےاس معنی میں کہ نہ وہ سخت منع ہے کہ حکم وجوب میں ہے۔ بلکہ وہ مہمل ہے، اور اس میں بندہ کو اختیار دیا گیا ہے، خواہ وہ تصرف کرے یا نہ کرے۔ بس اسی کا نام “مباح ہے۔ بندہ اس میں اپنی طرف سے کچھ پیدا نہ کرے بلکہ انتظار حکم کرے۔ جب حکم کو پائے۔ تب اسے بجا لائے ۔ پھر اس وقت بندے کے تمام حرکات و سکنات اللہ کیجانب سے ہونگے جس کا حکم شریعت میں ہے ان کو شرع سے، اور شرع میں جس کا حکم نہ ہو اس کو امر باطن سے (بندہ) بجالا ے گا۔ پھر اس وقت بندہ کامل اہل حقیقت سے ہو جائے گا اور جس (معاملہ) میں کہ امر باطن نہیں وہ مجرد فعل الہی ( تقدیر محض) اور حالت تسلیم ہے اور اگر تو حق الحق کی حالت میں ہے جو مٹ جانے اور فنا ہو جا کی حالت ہے اور یہ حالت ابدال کی ہے جن کے دل خدا کے لئے شکستہ ہیں۔ اور (وہ) موحد ہیں، عارفین صاحب علم و عقل اور امراء کے سردار اور خلق کے کوتوال ونگہبان اور نائبان خدا اور خاصان و محبان الہی ہیں (علیہم السلام)پس اس حالت میں امر کی پیروی یہی ہے کہ تو خود اپنا مخالف ہو جائے اور اپنے حول و قوت(طاقت و ہمت) سے بیزار ہو ۔ اور دنیا و آخرت کی کسی چیز کی طرف تیرا قطعاً قصد و ارادہ نہ ہو پھر تو اس وقت ” بندہ بادشاہ” ہوگا۔ نہ کہ بندہ ملک امر حق کا بندہ ہو گا خواہش کا نہیں، اوردایہ کے ہاتھ میں شیر خوار بچہ کی طرح اور غسال کے ہاتھ میں نہلائے جانے والے مردہ کی مانند اور طبیب کے روبرو بیہوش بیمار کے مثل (تو) ہو جائے گا۔ اور (اللہ ) کے امر و نہی کے علاوہ تو اور(تمام ) امور میں بیہوش (و بے اختیار) ہوگا۔
مقالہ نمبر 11
حالت فقرمیں خواہش نکاح کا علاج
حضرت قطب ربانی نے ارشاد فرمایا جب فقر( غریبی و محتاجی )کی حالت میں خواہش نکاح تجھ میں پیدا ہو، اور تو اس کے بوجھ اٹھانے سے عاجز (اور قاصر) ہو تب تو اللہ سے کشائش و فراخی کی امید رکھتے ہوئے صبر( اختیار) کر جس کی قدرت سے (یہ) خواہش تجھ میں پیدا ہوئی۔ اس کو یا (تو) وہی تیری حفاظت کرتے ہوئے تجھ سے زائل و نابود کردے گا یا پھر وہی تیری اس خواہش کے پورا کرنے کا سامان (تیرے ثقل دنیادی اور تعب اخروی اٹھائے بغیر (تجھے) بطریق بخشش پہنچائے گا جو (تیرے لئے) کفایت و مبارک باد ہوگی ۔ پس اگر وہ تیری قسمت میں ہے۔ تو اللہ (تیرا) یہ حصہ تری طرف پہنچائے گا ، جو برکت والا اور کفایت کرنے والا ہوگا، اور اب تیرا صبر بدل جائے گا، شکر کے ساتھ اور اللہ عز وجل نے نے شاکرین سے وعدہ فرمایا ہے زیادتی عطا کا (چنانچہ اللہ نے فرمایا: اگر تم شکر بجالاؤ گے تو ہم (اور) زیادہ دیں گے۔ اگر نا شکری (کفران نعمت) کروگے تو پھر ہمارا عذاب شدید ہے؟ اور اگروہ خواہش (تیری قسمت ہیں نہیں ہے (اور کشائش نہ آئے )تو اس کا خیال (ہی) دل سے مٹا دے خواہ نفس چاہے نہ چاہیے، اور ہر حال میں اپنے لئے صبر کو لازم کرے۔ اور مخالف ہو جا، خواہش کا اور مضبوط پکڑ لے امر حکم حاکم اور راضی ہو جاحکم قضاء و قدر پر اور امید بھروسہ) رکھے، اس پر کہ (آخر تیرا) پروردگار تجھ پر فضل و عطاء کرے گا۔ اور خواہش پرصبر اور قیمت پر رضا مند رہنے کے سبب سے اللہ عز وجل تیرا نام صابر شاکر رکھے گا اور تجھے گناہوں سے بچنے کی عصمت اور طاعت پر قائم رکھنے کی قوت زیادہ عطا فرمائے گا: اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ” بیشک صبر کرنے والوں کو اجر بے حساب دیا جائے گا ” !
مقالہ نمبر 12
مال داروں کی عبادت و ترک عبادت کے نتائج
حضرت قطب ربانی نے ارشاد فرمایا جب اللہ عز وجل تجھے مال عطا کرے اور تو اس کی طاعت و عبادت سے مال کی وجہ سے منہ پھیر لے تو خدا اپنے قرب سے تجھے دنیا و آخرت میں محجوب کر دے گا ، اور ممکن ہے کہ اس مال کو تجھ سے چھین لے تیرا حال بدل دے اور تجھے فقیر کر دے منعم سے پھر کر نعمت (مال) کی طرف مشغول ہو جانے کی۔ یہی سزا ہے اور اگر تو مال سے عبادت کی طرف مشغول رہا ، تو اللہ تعالیٰ اس مال کو تیرے لئے عطا و بخشش کر دے گا ( اور ) اس مال سے ایک دانہ (ایک حبہ) کم نہ ہوگا ،مال تیرا خادم ہوگا۔ اور تو مولی کا خادم پھر تو دنیا میں نازونعم کے ساتھ عیش کرے گا او عقبی میں کریم خوش حال اور جنت الماوی میں صدیقین، شہداء اور صالحین کا ساتھی ہوگا۔
مقالہ نمبر 13
قضاء و قدر میں تسلیم و رضا ہی مفید ہے
حضرت قطب ربانی نے ارشاد فرمایا نعمتوں کے حاصل اور بلاؤں کے دُور کرنے کو مت اختیار کر نعمت اگر تیری قسمت میں ہے، تو خواہ تو اسے طلب کرے یا نا پسند کرے تجھے پہنچے گی ۔ اسی طرح اگر مصیبت تیری قسمت میں ہے اور تجھ پر اس کا حکم ہوچکا تو (اب) اسے تو خواہ نا پسند کرے یا دعا سے دفع کرنا چاہے ، یا صبر سے یا تیز قدمی سے رضائے مولیٰ کی طرف جلدی کرے وہ تجھے پر آئے گی بلکہ (یہ چاہیے) کہ ہر کام میں سر تسلیم جھکا دے تاکہ اس فاعل (حقیقی )کا فعل تجھ میں جاری ہو پھر اگر نعمت ہو تو شکر میں مشغول رہا کر اگر بلا (ہو تو صبر (اختیار) کر یا بہ تکلف صبر پیدا کر یا خدا کی خوشنودی اور موافقت کے لئے بلا کو نعمت سمجھ یا اس میں معدوم اور فنا ہو جا (اور یہ) ان عطا ہونے والے حالات کے اندازہ کے موافق (ہو) کہ جن (حالات) میں تجھے الٹ پلٹ کیا جا رہا ہے اور تو مولیٰ کے راستہ میں منازل کی سیر کر رہا ہے۔ تجھے حکم کیا گیا ہے، مولی کی طاعت و موالات کا تاکہ تو رفیق اعلی سے مل جائے اور تجھے سلف صالحین اور شہداء وصدیقین کے مقام پر قائم کیا جائے یعنی زیادتی قرب خداوند تعالے کے مقام پرتا کہ بارگاہ الہی میں اگلے بزرگوں کے مقامات معائنہ کرے جو بادشاہ سے قریب ہوئے، اور (جنہوں نے خدا وند جل و علی شانہ سے سرور اور امن اور کرامت اور نعمتوں کو ہر طریقہ سے پایا پس بلا کو چھوڑ دے تا کہ تجھ پر آئے بلا کا راستہ خالی کردے اور اس کے ” مقابل ” اپنی دعاؤں سے کھڑا نہ ہو اور اس کے نازل ہونے، اور آجانے پر بے صبری نہ کر کیونکہ اس کی آگ دوزخ کی آگ سے بڑھ کر نہیں ہے اور بلا شک حدیث سے ثابت ہے جو مروی ہے بہترین مخلوق اور بہترین اُن سب سے جن کو زمین نے اٹھایا اور جن پر آسمان سایہ افگن ہوا (اور دہ) حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ( ہیں آپ) نے فرمایا: دوزخ کی آگ مومن سے کہے گی کہ اے مومن ، جلدی گزر جا کہ تیرا نور مجھے بجھائے دیتا ہے۔ کیا مومن کا نورجونار دوزخ کو بجھا سکتا ہے۔وہی نور نہیں ہے، جو دنیا میں موسن کے ساتھ تھا ؟ اور اسی نور سے فرماں بردار اور اس کے احکام کا ماننے والا ہو جا اور اپنے حق میں یا غیر کے حق میں ایسی کوئی بات مت نکال جو امر ونہی سے باہر ہو۔ اور جب ( تو ) امر حکم خدا کو پائے۔ تب سن اور سرعت اور جلدی کر قوت دکھلا اورحرکت کر اور آرام نہ لے اور تقدیر اور فعل الہی کی محض تسلیم پر ہی نہ رہ بلکہ اپنی کوشش اور طاقت کو خرچ کر تا کہ امر الہی تجھ سے ادا ہو جائے پھر اگر تو عاجز ہوگیا تو اپنے مولیٰ کی پناہ پکڑ اس سے التجا کر گریہ وزاری کر۔ اور اس سے معذرت کر اور ادائے امرمیں اپنے عجز و درماندگی) اور شرف طاعت و بندگی میں رکاوٹ پیش آنے کے سبب کی تفتیش کر۔ شاید کہ یہ (حالت) تیرے دعاوی کی نحوست اور اطاعت و بندگی میں تیرے سوء ادب اور اپنے حول وقوت پر (تیرے) بھروسہ کرنے اور اپنے عمل (و عبادت) پر اترانے اورگھمنڈ کرنے اور اپنے نفس کو اور خلق کو خدا کے ساتھ شریک کرنے کے سبب سے ہو، اور (شاید) کہ اللہ نے تجھے اپنے دروازہ سے دور کر دیا ہو اور اپنی طاعت و خدمت کے (منصب سے معزول کر دیا ہو۔ اور توفیق کی مدد ( تجھ سے) قطع کر دی ہو اور اپنا وجہ کریم (پیارا چہرہ )تیری طرف سے پھیر لیا ہو۔ اور تجھ پر اسکا غصہ و خفگی ہو اور (تجھے) دشمن رکھا ہوا در تجھ کو تیری بلا دنیا، اورہواء ( خواہش نفس )اور ارادہ اور آرزو میں مشغول کر دیا ہو۔ کیا تو نہیں جانتا کہ یہ سب چیزیں تجھے تیرے مولیٰ کی مشغولی (محبت) سے باز رکھنے والی، اور جس نے تجھے پیدا کیا، اور تیری (پرورش) و تربیت کی اور دنیا کے سامان کا مالک بنایا ۔ عطا کیا اور بخشش کی، اس کی نظر رحمت سے تجھ کو گرانے والی ہیں (پس) عذر کہ (پرہیز کر) تاکہ تجھے تیرےمولی سے غیر مولی (ماسوا الله کی طرف) نہ پھیر دیں اور جو چیز کہ اللہ کے سوا ہے وہ ” غیر مولیٰ ہے پس تو اس مولی پر اس کے غیر کو مت قبول کر۔ اس لئے کہ اللہ نے تجھے اپنے لئے پیدا کیا ہے پس اپنے نفس پر اس طرح ظلم نہ کر کہ غیرا للہ کے باعث اللہ کے امرے پھر جائے(ور نہ ) پھر وہ تجھے اپنی ایسی آگ میں داخل کریگا۔ اور جھونک دے گا جس کا ایندھن آدمی اور پتھر ہیں، پھر تو شرمندہ ہوگا ۔مگر ند امت کچھ نفع نہ دیگی اور تو عذر کرے گا۔ پر تو معذور نہ رکھا جائیگا۔ تو فریاد کرے گا پر تیری فریاد سنی نہ جائے گی۔ اور تو رضا و خوشنودی مانگے گا پر خدا تجھ سے راضی نہ ہوگا اور دنیا میں اپنی متاع گم گشتہ کو حاصل اور خراب کو درست کرنے کے لئے واپسی چاہے گا مگر دنیا میں دوبارہ واپسی تجھے نصیب نہ ہوگی (پس) اپنے نفس پر رحم کھا اور شفقت کر اور جو آلات عقل و علم و ایمان و معرفت تجھے عطا ہوئے ہیں انہیں اپنے مولیٰ کی طاعت و بندگی میں لگا دے اور انہیں (عقل و ایمان و معرفت و علم) کے انوار سے مقدرات (الہیہ) کی ظلمات (تاریکیوں) میں روشنی (کی راہ) حاصل کر اور امرونہی سے تمسک اختیار کر اور (امرونہی) کے موافق راہ مولی میں چل اور ان دونوں کے سوا ہر چیز کو اس (ذات) کے سپرد کر دے جس نے تجھے پیدا کیا، اور بنایا۔ اور جس نے تجھے مٹی سے پیدا کیا اور تیری پرورش کی تو نطفہ تھا اور تجھے پورا انسان بنایا (پس) اس سے کفر (و کفران) اور اس کے حکم کے خلاف ارادہ نہ کر۔ اور اس کی نہی (ممنوعات) کے سوا کچھ مکروہ نہ جان اور اسی مراد ( طلب مولی) پر دنیا و آخرت میں قناعت کر اور نہی الہی کو دونوں جہاں میں بڑا جان پس تیری ہر مراد اسی مراد کے تابع ہو اور تیری ہر کراہت اسی مکروہ کے تابع ہو جب تو حکم خدا کا مطیع ہو جائے گا۔ تو ( تمام ) کائنات تیرے حکم کی پابندہ ہو گی ۔ جب تو اس کی نہی سے کراہت کرے گا تو جہاں کہیں (بھی) تو رہے گا سب نا خوشیاں تجھ سے دور ہوں گی۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی بعض کتابوں میں فرمایا: اے بنی آدم میں اللہ ہوں میرے سواء کوئی الہ (معبود) نہیں ہے میں جس شئے کو کہ دیتا ہوں، ہو جا، پس وہ ہو جاتی (اور عدم سے وجود میں آجاتی ہے میری (ہی) خدمت و اطاعت کر تاکہ میں تجھے ایسا بنا دوں کہ تو بھی جس چیز کو کہے ہو جا وہ ہو جائے اور (یہ بھی فرمایا ” اے دنیا ، جو میری خدمت کرے تو اسکی خدمت کر اور جو تیری خدمت کرے اُسے تعب اور سختی میں رکھ ” (پس) جب خدا کی نہی تجھ پر آئے تو آس وقت اس طور پر ہو جا گویا کہ توڈ ھیلے اور سُست جوڑوں والا ہے جو اس زخمی دل تنگ سینہ مردہ جسم بے خواہش رسوم طبیعت سے پاک، علامات بشریت سے معدوم نشانی شہوت سے مفقود (ایک اندھیرا )صحن ایک بنیاد منہدم ایک مکان خالی ایک گری ہوئی چھت اور اک غیر محسوس اور بےنشان ہستی ہے یا اور چاہیئے کہ تیرے کان ایسے ہوں گویابہرے پیدا کئے گئے ہیں اور تیری آنکھ ایسی ہوگی یا پٹی بندھی ہوئی دکھیاری اور پیدائشی نابینا اور نادید ہے اور تیرے دونوں ہونٹ گو یا زخمی اور سوجھے ہوئے (جنبش سے قاصر) اور تیری زبان گویا گونگی ۔ اور (تیرے کندھوں اور تیرے دانتوں کی جڑیں گویا پیپ بھری ہوئی ہے اور وہ پر در دو پراگندہ ہیں اور تیرے دونوں ہاتھ گویا ، پکڑنے سے قاصر خشک اور سکڑے ہوئے ہیں اور تیرے دونوں پاؤں گو یا لرزیدہ اور مجروح ہیں اور تیری شرم گاہ میں گویا نا مردی واز کار رفتگی ہے اور تیراشکم گویا پر اور خواہش طعام سے بے نیاز ہے۔ تیری عقل گویا مجنوں کی سی مجہول (عقل) ہے اور تیرا جسم گویا مردہ ہے اور قبر کی طرف لایا گیا ہے۔ پس یہ تیری حالت ہو اور اس طرح تو امر(حکم مولی) کوسن اور اس کی بجا آوری) میں جلدی کر مگرنہی،(آنے کی حالت )میں ٹھہر جا اور سستی نرمی اور کو تاہی کر اور اپنے کو مردہ سمجھ اور حکم قضاء وقدر میں فانی اور معدوم ہو جا، پس اس شربت کوپی اور اس دوا سے (اپنا) علاج کر اور اس غذا سے تغذیہ حاصل کر( تو آسودہ ہو جائے گا) اور گنا ہوں کے امراض اور خواہشات نفسانی کی بیماریوں سے شفا اور عافیت حاصل کرے گا۔
مقالہ نمبر 14
بندہ نفس کے لئے و اصل حق ہونے کا دعوی مناسب نہیں
حضرت قطب ربانی نے ارشاد فرمایا اسے خواہش نفس رکھنے والو حق کے طالبوں اور واصلوں کی حالت کے دعویدار نہ بنو تم تو نفس کی پسندیدہ چیزوں کی بندگی و پرستش کرنے والے ہو جبکہ وہ مولا کریم کے پرستار ہیں ۔ آپ دنیاوی مال و جاہ کے راغب ہیں جب کہ وہ اخروی اجر و ثواب کے طالب ہیں ۔ تم دنیا وی صورت کو دیکھتے ہو اور وہ زمین و آسمان کے خالق کی طرف نظر جمائے ہوئے ہیں تم مخلوق سے آرام طلب کرتے ہو وہ حق تعالیٰ سے، تمہارا دل دنیا وی اسباب سے معلق اور سفلیات کی طرف مائل ہے ان کے قلوب رب العرش کے ساتھ آویختہ(مشغول) ہیں
عالم صورت میں تم جس کی طرف دیکھتے ہو وہ دلر بابن کر تمہیں شکار کر لیتا ہے اور وہ ان کی طرف دیکھتے ہی نہیں ہے بلکہ وہ ان اشیاء کے خالق کی طرف دیکھتے ہیں جو چشم کے ساتھ دکھائی نہیں دیتا انہوں نے تو رہائی پائی اور نجات حاصل کر لی ہے اور تم دنیا دی خواہشات کے مرہون و محبوس رہ کر ان کے قیدی ہو، پس وہ مخلوق اراده و آرزو سے فانی ہو کر قرب الہی سے واصل ہو چکے ہیں جو تمام سے بلند تر اور سلسلہ ایجاد و علیت کا منتہا ہے ۔ اللہ تعالی نے ان کی محبوب و مطلوب چیز یعنی اطاعت اور دل و جان سے ذات و صفات باری کی ستائش کو واضح کر دیا ہے یا توفیق عنایت فرما دی یہ اللہ کا فضل و کرم ہے جسے چاہتا ہے نوازتا ہے انہوں نے اس کی توفیق اور رحمت سے مشقت و زحمت سمجھے بغیر حمدو ثنا اور اطاعت کو لازم کر لیا ہے اطاعت ان کے لیے روح اور غذا بن گئی ہے اور دنیا ان کے حق میں نعمت و سرور ہوگئی گویا کہ یہ ان کے حق میں جنت الماوی ہے کیونکہ وہ جب بھی کوئی چیز دیکھتے ہیں تو اس سے پہلے اس کے پیدا کرنے اور عدم سے وجود میں لانے والے کے فعل کی طرف دیکھتے ہیں انہیں کے دم قدم سے زمین و آسمان قائم ہیں اور مردوں اور زندوں کو قرارحاصل ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان کو لوگوں کا مالک و بادشاہ اور بچھی ہوئی زمین کے لیے میخوں کی طرح بنا دیا ہے۔ ان میں سے ہر ایک اپنی جگہ قائم پہاڑ کی طرح ہے۔ لہذا آپ ان کی راہ سے ایک طرف ہٹ جائیں۔ ان کے طرق واحوال کا دعویٰ نہ کریں جن کو ان کے والدین اور اولاد حق کے قصد وطلب سلوک طریق اور وصول شہود میں رکاوٹ نہ بن سکے یہ میرے رب کی زمین پر بکھری اور پھیلی ہوئی مخلوق میں سب سے بہتر ہیں ان پر اللہ تعالی کی رحمتیں برکتیں اور سلامتی نازل ہو جب تک زمین و آسمان قائم ہیں
مقالہ نمبر 15
مخلوق سے قطع تعلق کرنے والوں کیلئے تعلیم
حضرت قطب ربانی نے ارشاد فرمایا : میں نے خواب میں خود کو مسجد کی طرح ایک جگہ میں دیکھا اس میں کچھ لوگ مخلوق سے قطع تعلق کیے حق سے پیوستہ بیٹھے ہیں۔ میں نے ایک سے کہا کہ اگر فلاں شخص ہو تو وہ انہیں آداب سکھائے اور حق کی طرف راہنمائی کرے۔ فلاں سے میں نے ایک صالح بزرگ کی طرف اشارہ کیا تو وہ میرے ارد گرد جمع ہو گئے ۔ ایک نے کہا آپ خود ہی گفتگو کیوں نہیں فرماتے ، میں نے کہا اگر تم پسند کرو تو میں گفتگو کے لیے تیار ہوں ۔ پھر کہا جب تم خلق سے قطع تعلق کر کے حق کی طرف متوجہ ہو تو زبان کے ساتھ کسی سے سوال نہ کرو ۔ جب زبان سے سوال چھوٹ جائے تو دلوں کے ساتھ سوال نہ کرو کیونکہ دل کے ساتھ سوال زبان کے سوال کی طرح ہی ہے پھر یقین کر لو کہ اللہ تعالی ہر زمان و ہر آن نئی شان میں ہے یاد رکھو کہ وہ احوال خلق میں تغیر و تبدل کرتا ہے کہ ایک مقام سے دوسرے مقام پر لے جاتا ہے ایک کا مرتبہ بلند کرتا ہے دوسرے کا پست ایک گروہ کو مقامات بلند اور مراتب ارجمند پر فائز کرتا ہے اور ایک قوم کو اسفل السافلین میں گراتا ہے۔ پہلے طبقے کو اسفل السافلین میں گرا دینے کا خوف دلایا اور اس رفعت پر فائز اور محفوظ رکھنے کی امید دلائی اور دوسرے گروہ کو اس تکلیف میں باقی اور ہمیشہ رہنے سے ڈرایا اور علیین میں رفعت بخشنے کا امیدوار بنایا پھر میں بیدار ہو گیا
مقالہ نمبر 16
اسباب پر بھروسہ اور خلق سے اُمید و سوال ” شرک ہے
حضرت قطب ربانی نے ارشاد فرمایا : اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم اور اس کی نعمتیں حاصل ہونے سےتمہیں محجوب اور محروم اس لیے کر دیا گیا کہ تم نے مخلوق، اسباب ، پیشوں اور اپنے تصرفات پر بھروسہ کر لیا ہے مخلوق اور ان سے طمع انبیائے کرام علیہم السلام کی سنت کے مطابق کھانے سے مانع اور حجاب ہے ۔کسب(اکل مسنون) کے مطابق کھانے سے مراد سے محروم کر دے گا جو کہ دنیا میں کسب حلال ہے ۔ اپنے کسب اور قوت بازو سے کما کر کھانا جب تک تم خلق کے ساتھ قائم رہو گے یعنی انسان کی بخشش و کرم کے امیدوار ان کے دروازوں پر سوال کی خاطر پھر نے والے نہ ہو گے تو ان کو رزق د عطا میں خدا کا شریک و ٹھہراؤ گے اور تمہیں اس کی سزا دے گا کہ سنت کے مطابق روزی کھانے پھر جب تم مخلوق کے ساتھ قیام اس سے سوال و لالچ اور رب کریم کے ساتھ ان کو شریک ٹھہرانے سے توبہ کر کے کسب کی طرف رجوع کرو گے تو اپنے کسب سے کھاؤ گے اور اس پر بھروسہ کر کے اطمینان پاؤ گے اور اپنے رب کی صفت رزاقیت اور اس کا فضل وکرم بھول جاؤ گے تو یہ بھی شرک کی ایک قسم ہے جو پہلے سے اخفی ہے تو اللہ تعالیٰ تمہیں سزاد یتے ہوئے اپنے فضل سے اور بے واسطہ سبب فضل وکرم کی ابتداء کرنے سے محروم کر دے گا جب تم اس سے بھی تو بہ کر لو گے اور درمیان سے شرک کو زائل کسب اور اپنی قوت اور حیلے پر اعتماد ختم کر دو گے تو یقین کے ساتھ جانو گے کہ اللہ تعالیٰ ہی رزاق ہے وہی اسباب پیدا کرنے اور آسمان بنانے والا ہے، کسب پر توانائی بخشنے اور ہر نیکی کی توفیق دینے والا ہے بندوں کی روزی اسی کے دست قدرت و کرم میں ہے کبھی وہ مخلوق کے عطیات کے ذریعے پہنچائے گا کہ تم ابتلا ور یا ضت کی حالت میں ان سے سوال کرو گے یا تم اللہ عزوجل کی بارگاہ میں سوال و و دعا کرو گے اور کبھی سوال کے بغیر بطریق کسب و سبب کے معاوضہ کے طور پر روزی دے گا کبھی بلا سوال و کسب محض اپنے فضل سے رزق عطا کرتا ہے ، جب تم کسی واسطہ اور سبب کو تلاش نہ کرو بلکہ تمام اسباب سے کٹ کر خود کو بارگاہ خداوندی میں گراد و گے تو اللہ تعالے تمہارے اور اپنے فضل کے درمیان حجاب اٹھا دے گا اور تمہارے حال کے مطابق ہر ضرورت کے وقت بے واسطہ و سبب ابتداء فرمائے گا اور اپنے فضل سے رزق عطا کرے گا۔ یہ اس طرح ہے جیسے ایک طبیب کا عمل جو مریض پر مہربان بھی ہوا اور مریض کا رفیق اور دوست بھی ہو یہ انعام و اکرام تمہاری حمایت اور ماسو ی کی طرف میلان سے بچانے کے لیے ہے اور وہ تمہیں مسلسل اور بالدوام فضل و کرم سے راضی کر دے گا تواس وقت تمہارا دل ہر ارادہ و خواہش لذت نفس اور خدا کے سوا محبوب و مطلوب سے منقطع ہو جائے گا اور دل میں اس کے ارادے کے سو اکچھ نہیں رہے گا۔ جب وہ تمہارے لیے ضروری روزی پہنچانا چاہے گا جو مخلوق سے کسی اور کا رزق نہیں ہے تو وہ اس کی خواہش تمہارے دل میں پیدا فرما دے گا اسے تمہاری طرف چلائے گا اور ضرورت کے وقت پہنچا دے گا پھر وہ تمہیں شکر کی توفیق دے گا اور بتائے گا کہ وہی روزی رساں اور روزی دہندہ ہے پس تم اس وقت شکر بجا لاؤ گے اس نعمت کا علم و عرفان حاصل کر لو گے تو مخلوق سے زیادہ خارج اور لوگوں پر اعتقاد اور ان سے اختلاط سے زیادہ دور اور باطن کو غیر حق سے بالکل خالی کر دے گا۔ پھر جب تمہارا علم و یقین قوی ، شرح صدر حاصل ہو جائے گا اور تیرا قلب (نور نسبت سے) منو راور تیرا قرب اپنے مولی سے زیادہ اور تیری قدر (تیرا) مرتبہ اسکے نزدیک بلند ہوجائے گا۔ اور اسرار خداوندی کی حفاظت (کرنے) میں تیری امانت و اہمیت زیادہ ہو جائے گی (تو) پھر اُس کے فضل وکرم اور ہدایت سے تیرے اجلال اور تیری کرامت کے سبب (قبل اس کے کہ تیرا حصہ آئےتجھے بتا دیا جائیگا کہ وہ (تیرا حصہ ) کب آئے گا ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: “ہمنے (بنی اسرائیل) میں سے ائمہ (پیشوا) بنائے کہ ہمارے امر کی ہدایت کریں، جب کہ اُن لوگوں نے صبر کیا، اور ہماری آیات (نشانیوں پر یقین کرنے والے ہوئے؟ اور (یہ بھی فرمایا : جو لوگ ہماری راہ میں مجاہدہ کرتے ہیں۔ یقیناً ہم انہیں اپنا راستہ دکھا دیتے ہیں اور اللہ عزوجل نے فرمایا اللہ سے ڈروده تمہیں اپنے احکام سکھاتا ہے
اس کے بعد نظام تکوین تمہارے سپرد کر دیا جائے گا اور تم شک و شبہ کی آمیزش کے بغیر اذن صریح اور چمکتے ہوئے آفتاب کی طرح واضح دلائل دل آویز کلام جو سب لذائذ سے زیادہ لذیذ ہو بلا التباس و اشتباہ سچے الہام سے کائنات میں تصرف کر سکو گے اور وہ الہام تمام نفسانی خطروں اور شیطان لعین کے و سوسوں سے پاک وصاف ہوگا ۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی بعض کتابوں میں ارشاد فرمایا : اے ابن آدم ! میں اللہ ہوں میرے سوا کوئی معبود نہیں میں جس شے کو حکم دوں کہ ہو جا” وہ ہو جاتی ہے تو میری اطاعت کرے گا توتجھے ایسا ہی بنادوں گا کہ جس چیز کو کہو گئے ” ہو جا وہ ہو جائے گی بے شک اللہ تعالے نے اپنے اکثر انبیاء و اولیاء اور خاص بندوں کو اس نعمت سے نوازا ہے ہے علیہم الصلوات والتسلیمات
مقالہ نمبر 17
مرشد کے ذریعے خدا تعالیٰ تک رسائی
حضرت شاہ بغداد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب آپ واصل باللہ ہو جائیں گے تو اس کی طرف سے قریب کرنے اور توفیق دینے سے تمھیں قریب کر دیا جائے گا۔ وصول الی اللہ کے معنی خلق ، خواہش، ارادہ ، نفس اور آرزوں سے باہر آنا اور اللہ تعالے کے فعل اور ارادہ کے ساتھ ثابت رہنا ہے، جبکہ تمھاری طرف سے تدبیر و خواہش میں کسی قسم کی حرکت نہ پائی جائے۔ تدبیر نہ تمھاری ذات کے متعلق ہو نہ ہی خلق خدا کے متعلق بلکہ حرکت و تدبیر اس کے حکم ، فعل اور تدبیر ہے ہونی چاہئے ۔ پس یہی حالت فنا ہے ۔ اصطلاح صوفیہ میں جسے وصول سے تعبیر کرتے ہیں ۔ لیکن اللہ تعالے تک رسائی بندوں تک رسائی کی طرح ہر گز نہیں ہے، جسے عقل عامہ پالیتی ہے اور معلوم معہود ہے کیونکہ اس کی مثل کوئی نہیں اور وہ سننے والا دیکھنے والا ہے وہ خالق اس بات سے برتر ہے کہ مخلوق کے ساتھ اس کی تشبیہ دی جائے یا اس کی صنعت پر قیاس کیا جائے تو وصول الے اللہ اللہ تعالے کے بتانے سے اہلِ وصول کے نزدیک معروف ہے ہر ایک کا قرب الہی میں جدا گانہ مرتبہ ہے اور دریافت وصول میں اس کا اور کوئی شریک نہیں ہے اس کا رسولوں ، انبیاء کرام اور اولیاء عظام علی جميع الانبياء وعلى اتباعهم الصلاة و السلام میں سے ہر ایک کے ساتھ ایک راز ہے جس پر دوسرا مطلع نہیں کبھی یہ احوال کی جدائی اور اسرار کا تفاوت اس قدر ہوتا ہے کہ مرید کا راز شیخ پر نہیں کھلتا اور شیخ کے راز پر مرید مطلع نہیں ہوتا جو کہ سیر و سلوک میں مقام شیخ کی دہلیز تک پہنچ چکا ہے اور مرید جب شیخ کی حالت پر پہنچ جائے تو اسے شیخ سے علیحدہ اور جدا کر دیا جاتا ہے تو اللہ تعالے اپنے فضل و کرم سے اس کا معاملہ اپنے ہاتھ میں لیتے ہوئے تمام مخلوق سے منقطع کر دیتا ہے پس شیخ بمنزلہ دایہ کے ہے اور دو سال کے بعد شیر خوارگی نہیں ہے اور نہ ہی ارادہ و خواہش کے بعد مخلوق سے تعلق رہتا ہے کیونکہ جب تک سالک کے باطن میں ارادہ اور خواہش کا وجود تھا انہیں توڑنے کے لیے شیخ کی ضرورت تھی لیکن ان کے زوال کے بعد نہیں کیونکہ اب کدورت اور نقصان نہیں ہے اور جب تم ہمارے بیان کے مطابق واصل باللہ ہو جاؤگے تو ماسوائے حق اور اس سے استقامت پانے سے مامون ہونا پس حق تعالی کے غیر کا وجود اور غیر کی قدرت کی طرف نہ کرنا نہ سود و زیاں میں نہ منع و عطا میں اور نہ امید و بیم میں، بلکہ وہ اللہ تعالے ہی اس بات کے لائق ہے کہ اس سے ڈرا جائے اور اس کی بخشش کی امید کی جائے اس کے فعل کی طرف دیکھا جائے اس کے حکم کا منتظر رہنا چاہئیے اس کی اطاعت میں مشغول رہو باطن سے ہر مخلوق سے دور رہو خواہ نفس ہو یا غیر نفس دنیا ہو یا آخرت ، دل کو مخلوق کی کسی چیز کے ساتھ معلق نہ کرو، ساری کی ساری خلقت کو قدرت الہی میں مقہور و اسیرا ور تختہ دار پرلٹکی ہوئی جانو نیز قدرت خداوندی کو اس طرح جا نو ) جیسے سلطان وقت صاحب تسلط و قہرمان جس کی مملکت بہت وسیع ہو ، امرسخت ہو اور اس کے سخت حملے سے ڈرایا گیا ہو نے کسی آدمی کو گرفتار کر رکھا ہو ، پھر اس کی گردن میں طوق اور پاؤں میں بیڑیاں پہنا رکھی ہوں پھر اسے بہت طویل و سیدھے صنو بر درخت کے ساتھ پھانسی پر لٹکا دے اور وہ درخت ایک مواج ، اتھاہ گہرے چوڑے اور تیز رو دریا کے کنارے پر واقع ہو، پھر بادشاہ ایسے درخت پر بیٹھ جائے جو بہت عظمت و رفعت والا ہے اس تک رسائی بہت مشکل ہے ، بادشاہ نے ایک طرف تیروں نیزوں کمانوں اور مختلف قسم کے ہتھیاروں کے انبار لگا رکھے ہوں جن کی تعداد صرف بادشاہ ہی جانتا ہو وہ سلطان پھانسی پر لٹکے ہوئے شخص کی طرف جس ہتھیار کو چاہے پھینک دے ، کیا ایسے میں کوئی ایسا آدمی بھی ہو سکتا ہے جو اس کو دیکھنے اور اس قدر غالب و قہار سے منہ موڑے اور نہ اس کا خوف ہو اور نہ ہی اس سے امید، اس کے بجائے سولی پر لٹکے ہوئے مقہور و مغلوب آدمی سے ڈرے اور نفع کی امید رکھے ؟ کیا یہ خیال رکھنے والا ہے عقل، دیوانہ، حیوان اور خارج از انسانیت نہ ہوگا ، پس اللہ تعالے کی پناہ مانگو بصیرت کے بعد کوربینی ہے. وصول بارگاہ قدس کے بعد افتراق سے قرب کے بعد دوری سے ، ہدایت کے بعد گمراہی سے اور ایمان کے بعد کفر سے ، چنانچہ گزشتہ بیان کے مطابق دنیا ایک بہتے ہوئے دریا کی طرح ہے اور روز بروز اس کا پانی بڑھ رہا ہے یہ بنی آدم کی لذات و شہوات دنیا دی ہیں جو انھیں حاصل ہو رہی ہیں ، لیکن یہ نیزے، تیرا اور طرح طرح کا اسلحہ وہ مصائب ہیں جنہیں تقدیر لے کر بندوں تک پہنچتی ہے ۔ دنیا میں بندوں پر اس کی مشقتیں ، آفتیں ، نامرادی اور درد و آلام غالب ہیں اور قدرے جو کچھ لذت و راحت پاتے ہیں وہ بھی مصیبتوں سے لبریز ہے ۔ جب بھی عاقل آدمی دنیا کی لذات و نعم کا آخرت کی لذات ونعم سے مقابلہ کرتا ہے تو اگر وہ صاحب یقین ہو تو معلوم کر لیتا ہے کہ زندگی تو بس آخرت کی ہی ہے جیسا کہ رسول اللہ صل اللہ تعالی علیہ وسلم نے فرمایا زندگی صرف آخرت کی ہے خصوصا مومن کے حق میں ۔ چنانچہ رسول اللہ صلے اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا : دنیا مومن کے لیے قید خانہ اور کافر کے لیے جنت ہے۔ سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے مزید فرمایا، پر ہیز گار کے منہ میں لگام دی گئی ہے ۔ ان اخبار و مشاہدات کے باوجود کس طرح دنیاوی عیش و آرام کی خواہش کی جاسکتی ہے ساری کی ساری عیش تو مخلوق سے منقطع ہو کر بارگاہ الہی عزوجل کی طرف توجہ احکام قضا و قدر سے موافقت اور خود کو حکم الہی کے سامنے ڈال دینے میں ہے اس طرح آپ دنیا سے خارج ہو جائیں گے تو اس وقت ناز و وقار اور حسن منظر تمھارے لیے راحت و چین ، نرمی و آسائش اور فضل بن جائے گا
مقالہ نمبر 18
نقصان و بلا میں شکوہ، دوری رحمت الہی کا باعث ہے
حضرت سیدنا غوث اعظم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ تمھیں جو بھی گزنداور تکلیف پہنچے تو کسی دوست یا دشمن کے سامنے شکایت نہ کرو ۔ اور تمھارے پر وردگار نے جو کیا ہے اور جو بلا اتاری ہے اس میں اسے متہم نہ کرو کہ خیروشر کا اظہار کرو، کیونکہ تمھارے گمان کے مطابق بغیر نعمت کے شکر کرنے کا جھوٹ تمھارے سچ اور حال کی شکایت کرنے سے بہتر ہے ۔ کوئی شخص بھی کسی لمحہ بھی نعمت خداوندی سے خالی نہیں ۔ ارشاد خداوندی ہے ، اگر تم اللہ کی نعمتوں کو گنو تو شمار نہیں کرسکو گے ” بے شمار نعمتیں ایسی ہیں جن کا تمھیں علم نہیں ہے ۔ تمھیں چاہئے کہ مخلوق میں سے کسی کے ساتھ سکون حاصل نہ کرو ، کسی سے الفت نہ پکڑو اورکسی کو اپنے حال پر اطلاع نہ دو، بلکہ تمھارا انس و سکون اُس سے ہونا چاہئے اور شکوہ بھی اسی کی بارگاہ میں کسی دوسرے کی طرف نہ دیکھو کیونکہ سود و زیاں، نفع و نقصان ، عزت و ذلت ، بلندی دینا اور پستی میں گرانا اور فقر و غنا اسی کی طرف سے ہے اور حرکت و سکون وہی دے سکتا ہے ۔ تمام اشیاء اس کی مخلوق اور اس کے قبضہ و اختیار میں ہیں ۔ یہ اس کے حکم و اجازت سے چلتی ہیں ۔ ہر چیز اللہ تعالی کے حکم سے مقررہ مدت تک جاری رہتی ہے اور ہر چیز اس کے نزدیک ایک اندازے کے مطابق ہے؟ جس کو اس نے موخر کر دیا اسے کوئی مقدم کرنے والا نہیں اور جسے اس نے مقدم کر دیا اسے پیچھے ہٹانے والا کوئی نہیں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ، اگر اللہ تعالیٰ تجھے کسی نقصان میں مبتلا کردے تو اسے کھولنے والا اس کے سوا کوئی نہیں اور وہ اگر تیری بھلائی کا ارادہ کرے تو اس کے فضل وکرم کو رد کرنے والا کوئی نہیں
اگر تم عافیت اور نعمت کے باوجود اپنی دانستہ کو رچشمی کی بنا پرا در انھیں حقیر جانتے ہوئے اور زیادہ طلب کی خاطر اللہ تعالے کا شکوہ کرو گے تو وہ تم پر غضب نازل کرتے ہوئے انھیں زائل کر دیگا اور اب تمھارا شکوہ بجا ہوگا ۔ تمھاری تکلیف دو گونہ اور سزا سخت ہو جائے گی اور خدائی غضب و قہر اور دشمنی میں آجاؤ گے ۔ وہ نظر عنایت سے گرا دے گا۔ تمھیں چاہئے کہ اگرچہ تمھارے جسم کے قینچیوں سے ٹکڑے ٹکڑے بھی کر دیئے جائیں تو بھی شکوہ نہ کرو، خود کو شکایت سے دور رکھو، اللہ تعالے سے متواتر ڈرتے رہو، حکم الہی پر عدم رضا سے مکمل احتراز کرد. کیونکہ انسانوں پر اکثر مصیبتیں ان کے شکوہ و شکایت کی وجہ سے نازل ہوتی ہیں، بندہ پرور دگار کا گلہ کیسے کر سکتا ہے جبکہ وہ سب مہربانوں سے بڑا اور تمام عالموں سے بہتر ہے ، بڑا حوصلے والا ہر چیز سے باخبر ہے، بندوں پر مہربان ، رحم کرنے والا اور نرمی فرمانے والا ہے۔ وہ بندوں پر ظلم نہیں کرتا، جیسا کہ حلیم الطبع طبیب جو کہ دوست شفیق، نرم خو اور قریب ہو، کیا مشفق والداور مشفقہ و مهربان والده پر تہمت لگائی جا سکتی ہے ؟ حضور اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے فرمایا : اللہ تعالیٰ اپنے بندے پر اس کی ماں سے زیادہ مہربان ہے ۔ بارگاہ خداوندی کے آداب بجا لاؤ ۔ اے مساکین ! نزول بلا کے وقت اگر صبر سے عاجز ہو تو تکلف کے ساتھ صبر اختیار کرو ، اگر رضا وموافقت کی طاقت بھی ہوتو بھی صبر کرو ، ار تمھارا وجود باقی رہے تو رضا موافقت کو شعار بنالو، اور اگر وجود گم ہوچکا ہے تو یہ مقام فنا ہے؟؟ ایسا مقام فنا تو سرخ گندھک کا حکم رکھتا ہے تو کہاں ہے تو کس مقام میں پایا جاتا ہے ، کیا تم ارشادِ خداوندی نہیں سنتے کہ کافروں کے ساتھ جہاد کرنا تم پر فرض کیا گیا ہے اور وہ طبیعی طور پر تمھارے لئے شاق و مکر وہ ہے ۔ قریب ہے کہ تم کسی چیز کو مکروہ جانو وہ تمھارے لئے بہتر ہو اور قریب ہے کہ تم کسی چیز کو پسند کرو اور وہ تمھارےحق میں بری ہو ، اور اللہ جانتا ہے تم نہیں جانتے۔ اس نے حقیقت اشیاء کا علم تم سے لپیٹ لیا اور چھپالیا ہے۔ اس لئے خواہ کوئی چیز تمہیں پسند ہو یا نا پسند بے ادبی نہ کرو اگر تم حالت تقوی میں ہو جو کہ طریق حق کے سلوک کا قدم اول ہے تو نعمت و بلا خیرو شر اور محبوب و مکروہ کے اترنے پر شریعیت کی پیروی کرو ، اور اگر حالت ولایت میں ہو اور آتش خواہش فرو ہو چکی ہو جو کہ قدم ثانی ہے تو امر باطن کی اتباع کرو اور حد سے تجاوز نہ کرو ۔ اور اگر حالت بدلیت ، غوثیت اور صدیقیت میں ہو جو کہ مراتب کی انتہا اور بلند مقامات میں بلند تر ہے تو فعل خداوندی پر خوشی اور موافقت کرتے ہوئے اس میں فنا ہو جاؤ، قضا و قدر کی راہ سے یکسو ہو جاؤ، اس سے معارض و مزاحم نہ بنو، نفس و خواہش کو مسترد کر دومخلوق کے سامنے قضا و قدر کے حوادثات و نوازل کی شکایت نہ کر و پس جب تم ایسا کر لو گے تو اگر قضا و قدر تمھارے حق میں ہوئی تو خدا و ندکریم تمہیں پاکیزہ زندگی اور لذت وسرور میں اضافہ سے نواز دے گا، اور اگر شر ہوئی تو اللہ تعالے اس حال میں بھی اپنی طاعت میں تمہاری حفاظت فرمائے گا اور علامت دور کر دے گا اور تمہیں تم سے دُور غائب کر دے گا حتی کہ وہ مصیبت ٹل جائے گی جیسا کہ رات ختم ہوتی ہے تو صبح نمودار ہو جاتی ہے اور جاڑے کے بعد گرمی کا موسم آتا ہے یہ تمہارے لیے ایک نمونہ ہے اس سے عبرت حاصل کرو ، پھر آدمی کے اندر گناہ اور جرم موجود ہیں طرح طرح کی مصیبتوں اور خطاؤں سے آلودہ ہے ، تمام نقائص و عیوب سے پاک ذات خداوندکریم کی ہم نشینی کے لائق اس وقت ہوگا جب تمام صغیرہ و کبیرہ گنا ہوں اور لغزشوں سے پاک ہو جائے گا، اور اس کی چوکھٹ کو وہی بوسہ دے سکتا ہے جو دعووں کی میل سے پاک ہو ، جیسا کہ دنیا کے بادشاہوں کی کچہری میں نجاست اور میل کچیل سے پاک آدمی ہی بیٹھ سکتا ہے پس بلائیں گنا ہوں کا کفارہ ہیں اور گناہوں کی میل سے پاک کرنے والی ہیں کہ نبی کریم رؤوف رحیم علیہ الصلوۃ والتسلیم نے سچ فرمایا کہ ایک دن کا بخار سال بھر کے گناہوں کا کفارہ ہے۔
مقالہ نمبر 19
ایفائے عہدکی تاکید
حضرت شاہ جیلاں رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ جب تمھارا ایمان اور یقین ضعیف ہوگا تو جو وعدہ کیا جائے گا وہ پورا ہوگا اس کے خلاف نہیں ہوگا تا کہ تمھا را ایمان اور یقین زائل نہ ہو، اور جب ایمان ویقین کو اپنے دل میں پختہ کر لو گے اور اس میں محکم ہو جاؤ گے تو تمھیں یوں خطاب ہوگا ۔ آج آپ ہمارے ہاں صاحب منزلت و مرتبت اور امانت دار ہیں۔ یہ خطاب وقتاً بعد وقت حالا بعد حال تکرار سے ہوتا رہے گا ، حتی کہ تم خواص بلکہ اخص لوگوں میں شامل ہو جاؤ گے اور تمھاری کوئی خواہش و آرزو باقی نہیں رہے گی نہ عمل رہے گا جسے تم پسند کرو نہ کوئی عبادت رہے گی جسے تم اپنی طرف سےسمجھو اور نہ کوئی ایسا ایسا مرتبہ ہوگا کہ جس کی طرف دیکھ کر خوشی محسوس کرتے ہوئے وہاں جانے کا قصد کرو تو اس وقت تم اس سوراخ والے برتن کی طرح ہو جاؤ گے جس میں کوئی بسنے والی چیز نہیں ٹھہرتی ، تمھارے اندر دنیا و آخرت کی کسی چیز کا قصہ وارادہ اور کوئی خصلت نہیں رہے گی اور اللہ عز وجل کے سوا ہر چیز کی آلائش سے پاک ہو جاؤ گے ، رضائے الہی حاصل ہوگی اور اس کے راضی ہونے کی نویدسن لو گے تمھیں اس کے تمام اقبال میں لذت و نعمت محسوس ہوگی ۔ اس وقت تم سے کوئی وعدہ کیا بنا ئے گا ، جب تم اس وعدے اور موجود چیز کے موصول ہونے کے شوق پر اطمینان پاؤ گے اور خواہش کی ادنی نشانی پائی جائے گی تو اس سے اعلیٰ مقام کے وعدہ کی طرف منتقل کر دیا جائیگا اور زیادہ شریف و مرغوب مقام کی طرف لے جایا جائے گا ۔ یہ پہلے وعدہ سے استغنا کی وجہ سے ہے ، تمھارے لئے علوم و معارف کے دروازے کھول دئے جائیں گے کا رہائے سخت اور راز ہائے سربستہ ، حقائق حکمت اور ایک وعدہ سے دوسرے وعدہ کی طرف انتقال کی مخفی مصلحتوں پر مطلع کر دیا جائے گا ۔ قدر و مرتبہ کے حال کی حفاظت زیادہ کی جائے گی ، پھر مقام میں اور حفظ اسرار سے متعلق امانت میں اضافہ کر دیا جائے گا۔
شرح صدر دل کی نورانیت زبان کی فصاحت حکمت بالغہ اور تمہارے ساتھ مخلوق کی محبت میں اضافہ کر دیا جائیگا اور تمام مخلوق کے محبوب بنا دئیے جاؤگے خواہ وہ جن و انس ہوں یا دنیا و آخرت کی کوئی دوسری مخلوق جب آپ محبوب خدا بن جائیں گے اور خلق حق تعالیٰ کے تابع ہے اور ان کی محبت محبت خدا میں مندرج ہے جس طرح کہ ان کا بغض اس کی دشمنی میں داخل ہے اور اسی طرح جب تمھیں اس مقام پر پہنچا دیا جائے گا جس میں تمھاری خواہش قطعاً نہیں ہے تو تمھارے لیے کسی چیز کی خواہش پیدا کی جائے گی اور جب اس چیز کی خواہش ثابت ہو جائے گی تو اس چیز کو زائل معدوم کرتے ہوئے تمھیں اس سے ہٹا لیا جائے گا وہ دنیا میں تو نہیں ملے گی البتہ اس کا اجر آخرت میں نصیب ہوگا۔ جس سے تمھا را تقرب خداوندی اوربڑھے گا اور جنت الماوی اور فردوس اعلیٰ میں تمھاری آنکھیں روشن ہوں گی اور گر تم اس چیز کی تمنا اور آرزو نہ کرو گے اور اس تکلیف سے بھر پور فانی دنیا میں موجودر ہو بلکہ دنیا میں رہ کر تمھارا مقصودخالق و مالک ہی ہو ، جس نے کسی کو محروم رکھا اورکسی کو نوازا ، زمین کو بچھایا اور آسمان بلند کیا کیونکہ یہی مقصود اور متمنی و مطلوب ہے تو کبھی دنیا میں اس سے کم یا اس کے برابر عطا کر دیا جائے گا۔ یہ صورت شکستہ دل ہوتے ، خود کو اس مطلوب و مراد سے روکنے اور ہمارے ذکر و بیان کے مطابق آخرت میں عوض متحقق ہونے کے بعد ہوتی ہے ۔
مقالہ نمبر 20
شکوک و شبہات میں نہ پڑو
حضرت محبوب صمدانی رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں حضور سرور عالم صلی الہ عالی علیہ و آلہ سلم کا ارشاد مبارک ہے ” تم مشکوک چیزوں کو چھوڑ کر غیر مشکوک کو اپنالو ۔ یعنی جب مشکوک کہ یہ حرام ہے یا حلال اور غیر مشکوک جمع ہو جائیں تو تم عزیمت پر عمل پیرا ہوتے ہوئے غیر مشکوک کام کو اختیار کر و اور جس میں شک شبہ کی آمیزش ہو اسے چھوڑ دو اور اگر صرف شک وشبہ والی ہی چیز ہے جس کی علامت یہ ہے کہ دل میں اس کی طرف سے خلجان کھٹکے اور جلن سے خالی وصاف نہ ہو جیسا کہ حدیث شریف میں آتا ہے کہ گناہ دل کو کاٹنے والا ہے ۔ ایسی صورت میں توقف کرو ، حکم خداوندی کا انتظار کرو ، پھر اگر پکڑنے کا حکم ہو تو لے لو اور اگر روک دیا جائے تو رک جاؤ، اور یوں ہو جاؤ گویا وہ چیز تھی ہی نہیں، پھر اللہ تعالے کے دروازے پر آجاؤ اور اس سے رزق کے طلبگار ہو ۔ یہ اس وقت ہے کہ تم نے صبر سے یا ارادہ الہی سے موافقت اور تسلیم قضاسے اور فنا سے کمزوری کا مظاہرہ کیا ہو کیونکہ اللہ تعالے یا ددہانی کرانے کا محتاج نہیں ، وہ تمھارے اور دوسروں کے حالات سے واقف ہے وه تو کفار و منافقین اور اس کی اطاعت سے روگردانی کرنے والوں کو بھی رزق دیتا ہے۔ تو پھراے مومن ! توحید پرست ، مطیع ، شب و روز کی ساعتوں میں اس کے حکم پر قائم رہنے والے تجھے وہ کیسے فراموش کر دے گا۔ اس حدیث شریف کی ایک اور توجیہ بھی ہے کہ مخلوق کے ہاتھوں میں موجودچیز کو چھوڑ دو اسے طلب نہ کرو ۔ اپنا دل اس کے ساتھ معلق نہ کرو، نہ مخلوق سے امید رکھونہ خوف اللہ تعالیٰ کا فضل جس کا حصول غیر مشکوک ہے حاصل کرو۔ تمھارا مطلوب معطی اور مقصود ایک ہی ہونا چاہئے۔ وہ تمھارا رب ہے جس کے ہاتھوں میں بادشاہوں کی پیشانیاں اور مخلوقات کے قلوب ہیں جو کہ اجسام میں حاکم و متصرف ہے لوگوں کے مال اللہ تعالے کے ہیں اور لوگ صرف ان کے وکیل اور امین ہیں ، ان کے ہاتھوں کی حرکت عطیہ الہی ہے ۔ اور اس کی اجازت حکم اور حرکت دینے سے ہے اور تمھیں کچھ عطا کرنے اور اسی طرح مخلوق کا ہاتھ روک دینے کا اختیار اس کے پاس ہے ۔ اللہ تعالیٰ غالب و برتر نے فرمایا : اللہ تعالے سے اس کا فضل مانگو ۔ اور فرمایا : من دون اللہ جن کو تم پوجتے ہو وہ تمھارے رزق کے مالک نہیں پس اللہ تعالے سے رزق طلب کرو ، اس کی عبادت کرو اور شکر بجا لاؤ۔ ایک مقام پر فرمایا، اے حبیب ! جب آپ سے میرے بندے میرے بارے میں پوچھیں تو فرما دیجے میں بہت قریب ہوں اور میں پکارنے والے کی پکار کو سنتا ہوں جب بھی مجھے کوئی پکارے ۔ اور فرماتا ہے ، تم مجھ سے مانگو میں تمھاری دعا قبول کروں گا ۔ اور فرمایا : بے شک اللہ تعالے بڑا رزق دینے والا، مضبوط اور قوت والا ہے ایک اور مقام پر یوں فرمایا : بے شک اللہ تعالی جسے چاہے بے حساب رزق دیتا ہے۔
مقالہ 21
ابلیس سے مکالمہ
حضرت غوث الثقلین رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں میں نے ایک رات خواب میں ابلیس لعین کو دیکھا، اور میرے ساتھ کافی لوگ ہیں ۔ میں نے اسے مار ڈالنے کا ارادہ کیا تو اس نے کہا آپ مجھے کسی گناہ کے بدلے میں قتل کرتے ہیں ؟ اگر تقدیر شر کے ساتھ جاری ہوتی ہے تو میں اسے خیر میں تبدیل کرنے کی طاقت نہیں رکھتا اور نیکی کی طرف منتقل نہیں کر سکتا اور اگر تقدیر میں خیر ہے تو مجھ میں یہ طاقت نہیں کہ اس کو شرے بدل سکوں اور اس طرف لے آؤں ، پھر میرے اختیار میں ہے کیا ؟ میں نے دیکھا کہ اس کی شکل ہیجڑوں کی سی ہے ، نرمی سے آہستہ آہستہ گفتگو کرتا ہے ، چہرہ لمبوترا ٹھوڑی پر تھوڑے بال ہیں ، صورت مکروہ اور شکل ذلیل ہے ، خوف اور شرمندگی کی وجہ سے میری طرف دیکھ کر زیر لب مسکراتا ہے ، میں نے یہ خواب 12 ذو الحجہ ۱491ھ کو اتوار کی رات دیکھا۔
مقالہ نمبر 22
ابتلاء مومن بقدر ایمان
حضرت سید ناشیخ عبد القادر جیلانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فر مایا کہ اللہ تعالے ہمیشہ اپنے مومن بندے کو اس کے ایمان کی پختگی کے لحاظ سے آفت میں مبتلا کرتا رہتا ہے، جس کے ایمان کی بنیاد قوی ہوگی اور اس سے ایمان کے احکام و نشانات کثرت سے صادر ہوں گے اور ایمان کے انوار و ثمرات زیادہ ظاہر ہوں گے تو اتنی ہی بڑی اس پر مصیبت آئے گی۔ رسول کی بلا نبی کی بلا سے زیادہ ہوتی ہے کیونکہ اس کا ایمان نبی کے ایمان زیادہ مضبوط ہوتا ہے اور نبی پر مصیبت ابدال پر مصیبت سے سخت اور ابدال کی آزمائش ولی کی آزمائش سے گراں ہوتی ہے۔ انبیاء ورسل اور ابدال و اولیاء میں سے ہر ایک اپنے ایمان وایقان کے مطابق امتحان میں ڈالا جاتا ہے۔ اس کی دلیل سرور انبیاء علیہ وعلیہم السلام کا یہ ارشاد مقدس ہے کہ ابتلاء و آزمائش کے اعتبار سے گروہ انبیا ء علیهم الصلاة و السلام لوگوں کی نسبت زیادہ مبتلا ہوتا ہے ۔ ان کے بعد مخلوق میں درجوں کے اعتبار سے بلا کا نزول ہوتا ہے ، اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان سادات کرام کو ہمیشہ امتحان میں مبتلا رکھا ، یہاں تک کہ وہ ہمیشہ کے لیے مجلس قرب اور خلوت حضور میں مقیم رہیں اور شہود حق سے غافل نہ رہیں کہ اللہ تعالیٰ ان سے محبت رکھتا ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کے محب بھی ہیں اور محبوب بھی ، اور محب سے محبوب کی جدائی برداشت نہیں ہوتی ، آزمائش و ابتلاء ان کے قلوب کو حق کی طرف مائل رکھتی ہے ان کے نفوس کے لیے قید ہے اور غیر مطلوب کی طرف اور غیر خالق کی طرف التفات سے باز رکھتی ہے ، جب بلا کا نزول تسلسل سے ہوتا ہے تو ان کی خواہشات ختم ہو جاتی ہیں ان کے نفوس ٹوٹ جاتے ہیں اور حق باطل سے ممتاز ہوجاتا ہے پھرشہوات ، ارادے ، لذات کی آرزوئیں اور دنیاو آخرت کی تمام را حتیں نفس کی طرف سمٹ آتی ہیں اور وعدہ حق سے سکون ، قضاء الہی سے رضا عطاء خداوندی پر قناعت ، بلا پر صبر اور مخلوق کے شر سے امن ایسی صفات دل کی طرف لوٹ آتی ہیں ۔ ان کے دل کی شوکت قوی ہو جاتی ہے اور دل کی تمام اعضاء پر حکومت ہوتی ہے۔ کیونکہ ابتلاء دل اور یقین کی تقویت سے ایمان اور صبر کو برقرار رکھتی ہے اور نفس و ہوا کو ضعیف کر دیتی ہے کیونکہ بندہ مومن کو جب بھی تکلیف لاحق ہو گی تو اس میں صبر اور فعل خدا وندی پر تسلیم و رضا پائی جاتی ہے، تو اللہ تعالیٰ اس سے خوش ہو جاتا ہے اور شکر کی جزا عطا فرماتا ہے ، خداوند قدوس کی طرف سے اسے مزید توفیق اور امداد نصیب ہوتی ہے، ارشاد خداوندی ہے ، اگر تم شکر گزار بنو گے تو تمہیں اور زیادہ نعمت عطا کروں گا ، جب نفس دل سے اپنی خواہشات ولذات میں سے کسی خواہش لذت کی طلب کرتے ہوئے حرکت کرے اور دل اللہ تعالیٰ کے حکم واذن کے بغیر نفس کو اس کا مطلوب دے دے، تو اس کی وجہ سے حق تعالی سے غفلت شرک اور معصیت جیسے امراض پیدا ہوں گے ، تو اللہ تعالے نفس اور دل دونوں کو رسوائی ، مصائب ، مخلوق کے تسلط ، ایذا ، تشویش ، دردوں اور مرضوں میں مبتلا کر دے گا ، دل اور نفس اپنے اپنے حصے کی سزا بھگتیں گے۔ اور اگر دل نفس کا مطلوب پورا نہ کرے یہاں تک کہ اللہ تعالے کی طرف سے اذن حاصل ہو جائے جو کہ اولیاء کرام علیہم الرحمہ کے حق میں الہام ہے اور مرسلین و انبیاء علیہم السلام کے حق میں وحی صریح ہے ، جس پر عطا اور منع کے اعتبار سے عمل کیا جاتا ہے، تو اللہ تعالی دل اور نفس دونوں کو رحمت ، برکت ، جمیع مکروہات و علل سے عافیت تمام احوال و اوضاع میں رضا ، ایمان وایقان کے کامل ہونے کے نور ، اپنی ذات و صفات کی معرفت بارگاہ کرامت و مشاہدہ کے قرب ، اللہ تعالیٰ کے ما سوائے استغنا اور تمام آفات سے سلامتی سے نوازتا ہے اسے جان لو اور یاد کر لو ۔ اتباع نفس و ہوا میں جلدی کر کے خود کو بلا میں ڈالنے سے بچو، بلکہ توقف کرو ، اور اس معاملہ میں مولیٰ کریم کے اذن کا انتظار کرو تا کہ دنیا و آخرت میں سلامتی پاسکو ، ان شاء اللہ تعالے ۔
مقالہ نمبر 23
اپنی قسمت پر رضا
حضرت شیخ السموات والارض رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں : تھوڑے رزق پر خوش رہو اور ہمیشہ اس کو لازم رکھو، حتی کہ نوشتہ تقدیر کی معینہ مدت پوری ہو جائے تو تمہیں بہترین اور اعلیٰ مقام پر فائز کر دیا جائے گا ، اور تمھیں مبارکباد دی جائے گی اور کسی دنیوی و اخروی تکلیف کے بڑے انجام اور حد سے تجاوز کے بغیر اس مقام پر با حفاظت باقی رکھا جائے گا پھر تمہیں اس منزل سے مزید ترقی دے کر اس مقام کی طرف منتقل کر دیا جائے گا جو زیادہ خوش گوار ہے جس سے تمھاری آنکھیں ٹھنڈی ہوں گی ۔ اور یقین کر لو کہ طلب نہ کرنے کی وجہ سے تمھارا مقدر ضائع نہیں ہوگا ۔ اور جو چیز تمھاری قسمت میں نہیں وہ کسی طلب کوشش اور قوت سے نہیں پاسکوگے اس لئے صبر کو اپنا شعار بنالو، اللہ تعالے جس حالت میں رکھے اسے لازم کر لو اور اس پر خوش رہو ۔ حکم الہی کے بغیر لین دین نہ کرو ، از خود حرکت نه کرو نہ سکون. ور نہ شامت اختیار سے بدترین مخلوق کے حال میں مبتلا کر دیئے جاؤ گے کیونکہ ایسا کر کے تم اپنی جان پر ظلم کرو گے اور ظالم کو معاف نہیں کیا جاتا۔ اللہ تعالی نے فرمایا ، اور اسی طرح ہم ظالموں کے بعض کو بعض کے حوالے کر دیا کرتے ہیں۔ تم بادشاہ کے محل میں ہو، وہ بادشاہ بلندشان کا مالک ہے، بڑی شوکت والا ہے ، اس کا لشکر بہت بڑا ہے ، اس کا حکم چلتا ہے، اس کا فرمان غالب ہے ، ملک باقی اور سلطنت دائمی ہے۔ ہر چیز اس کے علم میں ہے، اس کی حکمت کامل ہے ، اس کی قضا درست ہے ، اس سے زمین و آسمان کا کوئی ذرہ پوشیدہ نہیں ، کسی ظالم کا ظلم اس سے آگے نہیں بڑھ سکتا ، تم دوسروں سے بڑھ کر ظالم ہو ، کیونکہ تم نے اپنی ذات اور مخلوقات کے حوالے سے اپنی خواہش میں تصرف کیا ہے ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : اللہ تعالے اسے معاف نہیں کرے گا کہ اس کے ساتھ شرک کیا جائے ،مشرک کے علاوہ جس کی چاہیے مغفرت فرما دے۔ شرک سے پوری طرح بچو اور اس کے قریب نہ جاؤ ، صبح و مسا خلوت و جلوت میں اپنی تمام حرکات و سکنات میں اس سے بچو۔ تمام احوال و اوقات میں دل اور دیگر اعضاء و جوارح کو گنا ہوں سے بچاؤ اور ظاہر وباطن میں گناہوں سے آلودہ کرنے والی اشیاء کو ترک کر دو ۔ خدا سے فرار اختیار نہ کرو وہ تمھیں پکڑے گا، اس کی فضامیں جھگڑا نہ کرو، وہ تمھیں ٹکڑے ٹکڑے کر دے گا ۔ اس کے حکم پر کوئی تہمت نہ تراشوور نہ وہ ذلت ورسوائی تمھارا مقدر کر دے گا ، اس کی یاد سے غفلت نہ بر تو کہ وہ تمھیں چھوڑ دے گا ، رنج و بلا میں مبتلا کر دے گا اور اس کے گھر اور ولایت و قدرت میں کوئی نئی بات نہ کر و، پس وہ تمھیں ہلاک کر دے گا ۔ اس کے دین میں اپنی خواہش سے کوئی بات نہ کرو کہ وہ تباہ کر دے گا اور تمھارے دل کو تاریک کر دے گا۔ تمھارا ایمان د معرفت چھین لے گا اور شیطان کو ، نفس کو ،شہوات و لذات کو ، تمھارے اہل خانہ کو ، ساتھیوں اور ہمسایوں اور سب مخلوق کوحتی کہ گھر میں رہنے والے بچھو ، سانپ ، جنات اور دیگر موذی جانوروں کو تم پر مسلط کر دے گا ۔ تمھاری دنیاوی زندگی تاریک اور آخرت کا عذاب طویل کر دے گا۔
مقالہ نمبر 24
خدا کی چوکھٹ پر ملازمت
حضرت سرکار بغداد رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ کی نافرمانی سےکلی طور پر احتراز کرو، اس کا دروازہ مضبوطی سے تھام لو۔ اس کی بندگی میں اپنی توانائی صرف کرو ، اپنی کوتاہیوں پر معذرت پیش کرتے رہو ، عبادت کی قبولیت کے لیے زاری کرو ۔ بے نیا ز ذات کی بارگاہ میں حاجتمندی ظاہر کر دو ، جاہ و جلال خداوندی کا مشاہدہ کرتے ہوئے خشوع و خضوع سے پیش آؤ جمعیت و حضور کی وجہ سے نگاہ جھکائے رکھو ، اور نہ مخلوقِ خدا کی طرف دیکھو نہ اپنی خواہش کی پیروی کرو، نہ دین و دنیا میں عبادت کا بدلہ چاہو نہ بلند مقام اور اونچی منزل کی تمناکرو اور یقین کرو کہ تم اس کے بندے ہو ، بندہ اور اس کی ہر چیز مولی کے لیے ہوتی ہے، بندہ کوئی چیز طلب کرنے کا حق نہیں رکھتا ر بوبیت کا حق ادا کرتے ہوئے عبودیت کا ادب ملحوظ رکھو خداوند کریم پر اتہام نہ تراشو۔ اس کے یہاں ہر چیز اندازے کے مطابق ہے۔ اس نے جسے موخر کر دیا اس کو مقدم کرنے وا لاکوئی نہیں، اور وہ جسے مقدم کر دے اے موخر کرنے والا کوئی نہیں ، اور جو چیز تمھارے مقدر میں ہے وہ اپنے وقت او مدت پر تمہیں مل جائے گی خواہ تم خواہش رکھو یا انکار کر و۔ جو چیز تمہیں مستقبل میں ملنی ہے اس کی حرص نہ رکھو اور جو چیز کسی اور کے لیے ہے اس کی خواہش نہ کر و او را ظہار تا سف نہ کرو ۔ جو چیز تمہارے پاس نہیں ہے اس کی دو صورتیں ہیں ، یا تو وہ تمہاری قسمت میں ہے یا کسی دوسرے کی ۔ اگر قسمت میں ہے تو تمہیں مل جائے گی اور تمہیں کھینچ کر وہاں لایا جائے گا ، عنقریب تمہاری اپنی قسمت سے ملاقات ہونے والی ہے اور جو چیز تمہاری قسمت میں نہیں تو تم اس سے اور وہ تم سے پھیر دی گئی ہے تمہاری باہم ملاقات کیسے ہو سکتی ہے، چنانچہ تمہیں جو چیز مطلوب ہو اس کے حصول میں حسن ادب ملحوظ رکھتے ہوئے اس موجود وقت میں طاعت مولی تعالی میں مشغول ہو جاؤ، نہ خدا کے سامنے سر اٹھاؤ اور نہ ماسوا کے سامنے گردن جھکاؤ ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد مقدس ہے، اور اے سننے والے ! اپنی آنکھیں نہ پھیلا اس کی طرف جو ہم نے کافروں کے جوڑوں کو برتنے کے لیے دی ہیں۔ جیتی دنیا کی تازگی کہ ہم اس کے سبب فتنے میں ڈالیں اور تیرے رب کا رزق اچھا ہے سب سے دیر پا ۔تجھے اللہ تعالے نے جس حال میں رکھا ہے اور عبادت و طاعت کی جس قدر دولت عطا کی ہے اس کے ماسوا کی طرف نہ دیکھو اس نے قسمت رزق اور فضل سے سرفراز فرمایا ہے اور تمہیں خبردار کیا ہے کہ ماسوا تمہارے لیے فتنہ ہے اور تم اپنے پر راضی رہو یہ تمہارے لیے زیادہ بہتر ، پائیدار، مبارک اور لائق و مناسب ہے ، تمہارا طریقہ یہی ہونا چا ہئیے اپنی واپسی کی جگہ ، جائے سکون ، شعار(عام پہننے والا کپڑا)و د ثار(سجاوٹ کے کپڑے) آرزووں کا مطلوب و مقصود اس کو جانو ، اس کے ذریعہ تم تمام مطلوب حاصل کر لو گے ، ہر مقام تک رسائی میسر ہو گی ، اسی طرح ہر نیکی، نازونعمت و تازگی اور ہر عمدہ چیز کی طرف ترقی ورفعت پا لو گے ۔ اللہ تعالے نے فرمایا : از خود کوئی نہیں جانتا کہ اس کے لیے کیا چھپا رکھا گیا ہے ؟ یعنی آنکھوں کی ٹھنڈک یہ ان کے اعمال کا بدلہ ہے ۔ عبادات خمسہ، بجالانے اور گناہ ترک کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ کے نزدیک ہمارے ذکر کردہ عمل سے بڑا کمرہ اور کوئی عمل اشرف واعظم، محبوب و مرغوب اور پسندیدہ نہیں ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اور آپ سب کو اپنے احسان سے اُن کاموں کی توفیق مرحمت فرمائے جو اسے پسند اور محبوب ہیں
مقالہ نمبر 25
شجر ایمان
حضرت سیدناشیخ جیلان رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں ، اے دنیا اور سامان دنیا سے خالی ہاتھ ، دنیا اور اہل دنیا کے راندے ہوئے ، اے گمنام اےبھو کے پیاسے برہنہ جسم والے ، تشنہ جگر، اے زمین کے ہر گوشہ مسجد ویرانہ میں پراگندہ رہنے والے ، ہردر کے ٹھکرائے ، مراد دنیا سے محروم ، شکستہ قلب اور خواہشوں اور حاجتوں سے بھرے ہوئے دل والے ، یہ ہرگز نہ کہہ کہ اللہ تعالے نے مجھے فقیر بنا دیا ہے، مجھ سے دنیا کو ہٹا دیا ہے مجھے گرا دیا ہے ، مجھے چھوڑ دیا ہے ، مجھ سے دشمنی رکھتا ہے ، مجھے پراگنده کیا ہے ، دلجمعی کی دولت نہیں بخشی ذلت و رسوائی دی ہے ، دنیا میں گزارے کی چیز نہیں دی، مجھے گم نام کر دیا ہے مخلوق اور میرے بھائیوں میں شہرت نہیں دی اور دوسروں کو نعمت کامل سے نوازا ہے، جس میں وہ دن رات پھر تا ہے انہیں مجھ پر اور میرے اہل وطن پر فضیلت دی ہے جو کہ ہم سب مسلمان مومن نہیں سب کی ماں حضرت حوا اور باپ حضرت آدم خیر الانام علیہ السلام ہیں ۔ اللہ تعالے نے تمہارے ساتھ یہ سلوک اس لئے روا رکھا ہے کہ تمہارا خمیراچھا ہے ۔ اس میں رحمت خداوندی کی نمی یعنی صبر و رضان یقین ، امرونہی کی موافقت اور صفات جلال کا علم متواتر پہنچتا رہے گا ۔ توحید و ایمان کے انوار برستے رہیں گے۔ چنانچہ ایمان کے درخت کی جڑ مضبوط ، شاخیں بلند، کثرت سے میوہ دار، سایہ فگن اور فضا میں پھیلی ہوئی ہیں اور دن بدن پروان چڑھ رہی ہیں تو اس کی تربیت و افزائش کے لیے کھاد کی ضرورت نہیں رہی اللہ تعالی تمھارے اس حال سے فارغ ہو چکا ہے اور آخرت میں دار البقا عطا کر کے اس کا مالک بنا دیا ہے اور تمہیں آخرت میں وہ نعمتیں عطا کی ہیں جنھیں نہ کسی نے دیکھا نہ کسی نے سنا ، ان کے حصول یا ان کی ماہیت کا نہ کسی کے دل نے تصو کیا ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ، از خود کوئی نہیں جانتا کہ اس کی آنکھوں کی ٹھنڈک کے لیے کیا کچھ چھپارکھا ہے ، جو ان کے اعمال کی جزا ہے یعنی اوامر کی ادائیگی اور منہیات ترک کرنے پر صبر سے کام لیا ۔ اپنے تمام امور تقدیر الہی کو تفویض کئے اور تمام احکام شرعیہ و قہر یہ کی تعمیل کی جب کہ دوسروں کو خدا تعالیٰ نے دنیا کی دولت کا مالک بنایا ، ناز و نعمت سے نوازا ، اور فضل و کرم کیا ، ان کے ساتھ ایسا اس لیے کیا کہ ان کے ایمان کی مٹی پتھریلی اور شور تھی جس میں پانی نہیں ٹھہر سکتا، درخت اگانے کی صلاحیت نہ تھی، نہ کھیتی باڑی ہو سکتی تھی نہ پھل لگ سکتے تھے، تو اللہ تعالیٰ نے طرح طرح کی کھاد ڈالی تا کہ گھانس پھوس اور درخت اگیں تو یہ دنیا اور اس کے اموال واسباب ہیں تا کہ اس کے ایمان کے درخت اور اعمال کی شاخیں محفوظ رہیں ۔ اور اگر کھا د نہ ڈالی جائے تو یہ خشک ہو کر رہ جائیں گے ، پھل گریں گے اور ملک ویران ہو جائے گا حالا نکہ خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ آباد ہو ۔ امیروں کے ایمان کا درخت کمزور ہے اور اس چیز سے خالی ہے جس سے اے فقیر ! تیرا دل بھرا ہوا ہے۔ امراء کے درخت کی تازگی اور بقا دنیا کی قسم قسم کی نعمتوں میں ہے پھر درخت کی کمزوری کے باوجود یہ انعامات بھی چھن جائیں تو درخت سوکھ جائے گا تو ان کا ایمان کفر و انکار میں تبدیل ہو جائے گا، اور امیر آدمی کفار د منافقین اور مرتدین کے گروہ میں شامل ہو جائے گا ، ہاں اگر اللہ تعال غنی کے پاس صبر و رضا ، یقین و علم و غیره انواع و اقسام کے لشکر بھیج دے تو ان سے ان کا ایمان مضبوط ہو جائے گا ، پھر مالدار کو مال و نعمت کے زوال پر کوئی پروا نہیں ہوگی۔
مقالہ نمبر 26
احوال کو پوشیدہ رکھو
حضرت سرکار بغداد رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا : اپنے چہرہ سے پردہ نہ اٹھاؤ جب تک مخلوق سے باہر نہ آجاؤ ، تمام احوال میں اپنے دل کی توجہ ان سے ہٹانہ لو، اور خواہش نفس ، پھر اراده و آراز و زائل نہ ہو ، پھر تمہیں دنیا د آخرت کی اشیا سے فنا عطا ہو جائے گی، تو اس سوراخ والے برتن کی طرح ہو جاؤ گے جس میں ارادہ خداوندی کے سوا کوئی ارادہ نہ ٹھہر سکے تو تمہارا دل نورخدا سے اس طرح بھر جائے گا کہ تمہارے دل میں اللہ تعالیٰ کی یاد رضا او را مرو ارادہ کے سوا کسی کی جگہ اور راہ نہیں ہوگی ، تمہیں اپنے دل کو دربان بنا دیا جائے گا اور توحید و عظمت اور کبریائی حق کی تلوار سے نوازا جائیگا تا کہ جب تمھارےسینے سے کوئی خواہش اُٹھ کر دل کے دروازے کے قریب آتے ہوئے دیکھو تو اس کا سرگردن سے جدا کرتے ہوئے اسے نیست و نابود کر دو۔ اس صورت نفس اور دنیا و آخرت کی کوئی خواہش ، کوئی آرزو اور کوئی ارادہ تمھارے سامنے سر نہیں اٹھا سکے گا، نہ اس کی کوئی بات سُنی جائے گی ، نہ ان کی کوئی رائے ہوگی جس کی اتباع کی جائے ، اس صورت میں صرف اللہ تعالی کی پیروی ، اس کے امر پر توقف ، اس کی قضا پر رضا ، بلکہ قضا و قدر میں فنا رہ جائے گی ۔ تو تم رب قدوس اور امر رب العزت کے عبد بن بجاؤ گے نہ کہ مخلوق اور ان کے اعتقادات کے غلام ۔ جب اس طرح خدا تعالے کے امر پر اندر مداومت پیدا ہو جائے گی تو تمھارے دل کے آس پاس غیرت کے نتیجے اور عظمت کی خندقیں تیار ہوں گی اور تم پر جبروت کا غلبہ ہو گا اور دل کو حقیقت اور توحید کے لشکر گھیر لیں گے اور حق کے پاسبان دل کے قریب کھڑے ہوں گے تاکہ وہاں مخلوق کی ، شیاطین کی خواہشات نفس کی ، باطل ارادوں اور غلط آرزووں کی رسائی نہ ہو سکے اور جھوٹے دعوے تو طبیعتوں اور نفس امارہ سے پیدا ہوتے ہیں ، اور خواہش نفس سے تخلیق ہونے والی گمرا ہیاں تمھارے دل تک نہ پہنچ سکیں ۔ زمرہ اولیا ء میں داخل ہونے اور اس مقام پر فائز ہونے کے بعد اگر تمہاری قسمت میں ہے کہ مخلوق جوق در جوق ، متواترہ اور لگا تار تمھارے پاس آئے تاکہ تمھارے انوار درخشان نشانہائے تاباں، حکمتہائے بالغہ اور مسلسل روشن کرامتیں دیکھے مشاہدہ کرامات کی وجہ سے مخلوق اپنے خدا کی عبادت میں مجاہدے ، مشقتیں، طاقتیں اور تربیتیں زیادہ بجا لائے گی اور ان میں تمھارے مقبول و محمود ہونے کی وجہ سے ان کے ضرور ، خواہش کی طرف نفس کے میلان ، خود پسندی اور اور فخر و مباہات سے محفوظ و مامون کر دیا جائے گا ۔ اسی طرح اگر خو بصورت اور نیک سیرت بیوی اپنی کفایت اور دیگر بوجھوں سمیت تمہاری قسمت میں ہے تو اس کے اپنے اور رشتہ داروں کے بوجھ اور ان کی شرارت سے حفاظت کی جائے گی ، وہ تمہارے پاس عطیہ الہی ، بے مشقت ، مبارک پاکیزہ ہوگی اور خیانت و کینہ ، پلیدی ، دغا اور غیظ و غضب سے پاک صاف ہو کر رہے گی اور تمہاری عدم موجودگی میں خیانت نہیں کرے گی وہ بیوی اور اس کے رشتہ دار تمہارے فرمانبردار ہوں گے ، اس کی مشقت سے محفوظ اور اذیت سے دور رکھا جائے گا ۔ اور اگر مقدر میں اس سے بیٹا لکھا ہے تو وہ صالح ، آب و خاک کی آلائش سے پاک اور تمہاری آنکھوں کی ٹھنڈک ثابت ہو گا ۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت ز کریا علیہ السلام کے متعلق ارشاد فرمایا ، ہم نے آپ کے لیے آپ کی بیوی کو نیک بنا دیا۔ ایک اور جگہ اپنے خاص بندوں کی دعا کا ذکر فرمایا کہ اے اللہ ! ہماری بیویوں اور اولاد کو ہماری آنکھوں کی ٹھنڈک بنا اور ہمیں متقین کا پیشوا بنا اللہ تعالے نےزکریا علیہ السلام کی دعا کا ذکر فرمایا ۔ انہوں نے عرض کیا ، اے پروردگار کہ میرے فرزند کو اپنا محبوب اور قول و عمل میں اپنا پسندیدہ بنا ہے ۔ ان آیات میں مذکورہ دعاوں پر عمل کیا جائے گا۔ یعنی تمھارے حق میں مستجاب و مقبول ہوں گی ۔ خواہ آپ دُعا کریں یا نہ کریں کیونکہ یہ نعمتیں برمحل اور اپنے اہل میں واقع ہیں۔ چنانچہ جو بھی ان نعمتوں کے لائق ہوگا اس مقام ومرتبہ پر فائز ہوگا ، اور یہ قرب وفضل اس کے مقدر میں ہو گا اس پر عنایات ہوں گی۔ اسی طرح دنیا کی کوئی چیز تمہارے مقدر میں ہوگی تو اس وقت کوئی نقصان نہیں دے گی ۔ کیونکہ وہ تمہاری قسمت میں لکھی جاچکی ہے ، اور اللہ تعالیٰ کے فعل وارادہ سے کدورتوں سے پاک کر دی گئی ہے، اور اسے تناول کرنے کاحکم بھی ہو چکا ہے ۔ اس لیے اس کا کھانا ضروری ہے، اسے کھانے میں تم حکم الہی بجالانے والے اور ثواب پانے والے ہوگے۔ جیسا کہ فرض نماز اور فرض روزوں کی ادائیگی پر ثواب حاصل ہوتا ہے، اور جو چیز قسمت میں نہیں اس کو اس کے حقدار دوستوں ، پڑوسیوں ، دینی وملی بھائیوں مستحقین زکوۃ اور حال کے تقاضے کے مطابق دیگر مصارف زکوۃ پر خرچ کرنے کا حکم دیا جائے گا ، پھر تم پر حالات منکشف کر دئیے جائیں گے اور تم ان میں تمیز کر سکو گے اور ہر ایک کو پہچان سکو گے ، اور سنی ہوئی بات دیکھی ہوئی کی مانند نہیں ہوسکتی ۔ تو اس وقت تم شک و شبہ کی تاریکی سے پاک اور نفس کی کدورت سے صاف اور روشن ملت و خصلت پر ہو جاؤ گے ، جس پر وہم و ابہام کی کوئی گرد نہیں ہوگی ۔ نہ اس میں التباس و اختلاط اور شک و شبہ کی گنجائش ہو گی ۔ پس تمہارے لیے ضروری ہے صبرو رضا حال کی نگہداشت اور گمنامی ، نرمی ، خاموشی ، پرہیز، دنیا سے فرار اور کنارہ کشی لازم کرلو، اللہ تعالے سے ڈرو، اس کی بارگاہ میں التجا کرو، سرجھکالو ، آنکھیں بند رکھو ، حیا کوشعار کر لو ، یہاں تک کہ کتاب اپنی مقررہ مدت پر پہنچ جائے ۔ پھر تمہاری دست گیری کرتے ہوئے تمہیں آگے بڑھایا جائے گا تم سے سختی اور بوجھ اٹھا لیا جائے گا۔ احسان ، رحمت اور فضائل و کمالات کے سمندروں میں غوطہ دے کر تمہیں انوار و اسرار کی خلعت زیب تن کرائی جائے گی اور امور لدنیہ سے فیضیاب کر کے مقرب بارگاہ الہی بنا دیا جائے گا اور الہام و اعلام سے نوازا جائے گا ۔ کلام خداوندی سے مستفید کیا جائے گا ۔ نعمتوں والے بے نیاز اور دلیر بنا دئیے جاؤ گے ۔ تمہا را مقام بلند اور نام مشہور کر دیا جائے گا اوراللہ تعالی کی طرف سے یوں خطاب ہوگا کہ یقیناً آج تم ہمارے پاس صاحب مرتبہ مقام اور امین ہو ۔ اس وقت تم حضرت یوسف علیہ السلام کے حال پر قیاس کرو ۔ جب انہیں مصر کے عظیم بادشاہ اور فرعون کی طرف سے یہی خطاب ملا تھا بظاہر اس خط کے قائل وہ فرعون تھا لیکن حقیقت و معرفت کی زبان میں حقیقتاً یہ بات خداوند قدوس کی تھی ۔ آپ کو بظا ہر مصر کی بادشاہت ملی تھی لیکن در حقیقت ملک نفس ، آسمان علم ومعرفت ، اقلیم قربت و خصوصیت اور بلند مرتبه باطنی سلطنت سونپ دی گئی ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ، جس طرح ہم نے شاہ مصر کے نزدیک مرتبہ بلند کیا اسی طرح زمین مصر میں آپ کو قدرت وتمکنت دی کہ جہاں جی چاہے قیام کریں ملک نفس کو حضرت یوسف علیہ السلام کے لیے سفر کرنے کے متعلق ارشاد ہوتا ہے، اور اسی طرح تاکہ ہم انہیں ہر برائی اور بے حیائی سے بچائیں یقینا وہ ہمارے مخلص بندوں میں سے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت یوسف علیہ السلام کو ملک علم و معرفت سونپنے کے متعلق بزبان یوسف علیہ السلام ارشاد فرمایا: یہ تمہارے خوابوں کی تعبیران جملہ معلومات سے ہے جس کی میرے رب نے مجھے تعلیم دی ۔ بے شک میں نے اس قوم کا راستہ چھوڑا ہوا ہے جو خدا پر ایمان نہیں رکھی ۔ لہذاا جب تم سے اس طرح کا خطاب کیا جائے گا اے دوسروں سے بڑھ کر صدیق ! تمہیں بڑے علم سے وافر حصہ عطا کیا جائے گا اور توفیق و احسان ، دنیا کے بڑے بڑے کاموں پر قدرت ، ولایتِ عامہ اپنے نفس اور دیگر سب اشیا پر حکومت کی خوشخبری سنائی جائے گی اللہ تعالی کے حکم سے اشیاء کو عدم سے وجود میں لانے کی طاقت سے سرفراز کیا جائے گا۔ یہ تمام نعمتیں اور کرامتیں دنیا میں دی جائیں گی اور آخرت میں تمام آفات و بلیات سے محفوظ بہشت بریں میں ٹھہرائے جاؤ گے ، اللہ تعالے کے دیدار سے مشرف ہو گے ۔ مزید انعامات و احسانات حاصل ہوں گے ۔ یہ دیدار باری عزاسمہ ہی سب سے ” بڑھ کر مقصود ہے جس کی نہ کوئی انتہا ہے اور نہ ہی اس سے بڑھ کر کوئی نعمت ہے۔
مقالہ نمبر 27
خیر و شر ایک ہی درخت کے دو ثمر ہیں
حضرت غوث اعظم رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں ، خیر و شر ایک ہی درخت کی دوٹہنیوں کے پھل جانو ۔ ایک شاخ کا پھل میٹھا ہوتا ہے دوسری کا کڑوا اس لیے ان شہروں ملکوں اور زمین کے ان گوشوں کو چھوڑ دو جہاں اس درخت کے پھل پہنچتے ہیں۔ ایسی جگہوں اور ان کے باسیوں سے دور ہو جاؤ اور درخت کے لئے کے قریب ہو جاؤ۔ اس کے نگہبان اور خادم بنتے ہوئے اس کی نزدیکی کر لو۔ اس کی دو شاخوں اور ان کے دونوں طرف کے پھلوں کو اچھی طرح پہچان کر وہ پہلو اختیار کرو جس کا پھل میٹھا ہے۔ اس وقت تمہاری غذا اور پرورش میٹھے میوے سے ہوگی ۔ کڑوے پھل والی شاخ کی طرف بڑھنے سے اجتناب کرو کہیں ایسا نہ ہو کہ تم اُسے کھا لو اور اس کی تلخی تمہیں ہلاک کر دے۔ تم ہمیشہ اس طریقے پر قائم رہے تو راحت و آسودگی اور امن و سلامتی میں رہو گے کیونکہ تمام آفات و بلیات اس کڑوے پھل سے پیدا ہوتی ہیں اور اگر تم نے اس درخت سے دوری اختیار کی اور ادھر ادھر حیران و سرگرداں پھرتے رہے تو یہ ملے جلے پھل سامنے آئیں گے ان میں میٹھے اور کڑدے کا امتیاز نہیں ہو گا تو تم اسے کھانے کے لیے پکڑو گے تو کبھی تمہارا ہاتھ کڑوے پھل پر جا پڑے گا ، پھر تم اسے اپنے منہ کے قریب کرتے ہوئے کھاؤ گئے اور چباؤ گے تو اس کی تلخی تمہارے حلق ، دماغ اور ناک میں سرایت کر جائیگی اور اپنا اثر دکھا ئے گی اور تمہارے رگ و ریشے اور تمام جسم میں داخل ہو جائے گی جس کے نتیجے میں تم ہلاک ہو جاؤ گے پیراگر تم پھل کا باقی حصہ منہ سے نکال کر منہ دھو لو تو ایسا کرنا جسم میں رچی ہوئی کڑواہٹ کے لیے مفید نہیں ہوگا۔ اور اگرتم ابتداء ہی ثمر شیریں تناول کرو اور اس کی حلاوت تمہارے جسم میں رچ جائے اور تم اس سے نفع و مسرت پاؤ تو یہ ایک بار ثمر شیریں کھانا کافی نہیں اسے دوبارہ کبھی کھانا پڑے گا۔ لہذا دوسری بار بھی کڑوا پھل کھانے سے مامون نہیں ہو تو اس صورت میں مذکورہ نقصان اٹھانا پڑے گا ۔ لہذا درخت سے دور اور اس کے پھل سے بے خبر رہنے میں بھلائی نہیں ہے بلکہ سلامتی اس کے قریب رہنے میں ہے۔ معلوم ہونا چا ہیے کہ خیر و شر دونوں اللہ تعالیٰ کے فعل و تقدیر ہیں اور اللہ تعالیٰ ان کا خالق و متصرف اور بندوں میں انہیں جاری کرنے والا ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اللہ تمہیں اور تمہارے عملوں کو پیدا کیا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے ذبح کرنے والے اور ذبح ہونے والے دونوں کو پیدا کیا ہے۔ بندوں کے اعمال اللہ تعالے کی مخلوق اور بندوں کا کسب نہیں ۔ اللہ تعالیٰ فرما رہا ہے ، جنت میں داخل ہو جاؤ یہ تمھارے اعمال کا بدلہ ہے ۔ اللہ سبحانہ کس قدر رحم و کرم والا ہے کہ عمل کی نسبت بندوں کی طرف کرتے ہوئے انھیں عمل کی وجہ سے دخول جنت کا مستحق ٹھہرا رہا ہے جبکہ یہ بھی اسی کی توفیق و رحمت سے ہے۔ چنانچہ حدیث شریف میں رسول اللہ صلے اللہ تعالیٰ علیہ وسلم فرماتے ہیں، کوئی شخص اپنے عمل کی وجہ سے جنت میں داخل نہیں ہو سکے گا ۔ عرض کیا گیا ، آپ بھی نہیں یا رسول الله ؟ فرمایا ، میں بھی اپنے عمل کی وجہ سے جنت میں داخل نہیں ہوں گا مگر یہ کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت مجھے ڈھانپ لے یہ فرما کر آپ نے اپنا دست مبارک اپنے سر پر رکھ لیا۔ یہ حدیث حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے۔ جب تم حکم خداوندی کے مطیع اور امر خدا کے فرمانبردار اس کی نہی سے رک جاؤ گے اور قضا و قدر کو تسلیم کر لو گے تو اللہ تعالے شر سے تمہیں محفوظ رکھے گا اورخیر کے ذریعے تم پر اپنا فضل فرمائے گا اور دین و دنیا کی تمام آفتوں سے بچائے گا ۔ دینی معاملہ میں حفاظت کے متعلق فرمانِ الہی ہے ہم نے یوسف علیہ السلام سے یہ معاملہ کیا تا کہ ہم آپ سے زنا اور اس کے مقدمات دور رکھیں یقینا وہ ہمارے مخلص بندوں سے ہیں ۔ دنیا دی حمایت کے متعلق ارشاد باری تعالیٰ ہے، اگر تم شکر گزار مومن بندے ہو تو اللہ تعالیٰ تمہیں عذاب کیوں دے گا ۔ شاکر مومن کے پاس مصیبت کیا کرے گی ؟ جبکہ وہ بلا کی نسبت عافیت کے زیادہ قریب ہے اور شکر گزار ہونے کی وجہ سے زیادتی نعمت کے مقام میں ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ، اگر تم شکر کرو گے تو تمہیں زیادہ دوں گا۔ جب تمہارا ایمان آخرت کی آگ کو سرد کر دیتا ہے جو کہ ہر گنہ گار کے لیے عذاب ہے تو دنیا آتش بلا ور غضب الہی کو کیوں نہ بجھائے گا۔ اللہم مگر کہ بندہ مجذوبوں سے ہو جسے اللہ تعالیٰ نے ولایت خلوص محبت و صفائے مودت، مراتب علیہ ادور مناصب سنیہ کے لیے چن لیا ہو تو اس کے لیے بلائیں ضروری ہیں تاکہ اسے خواہشات نفس، میلان طبعیت ، نفس کی لذات و شہوات ، مخلوق سے آرام و سکون ، ان کے قرب میں خوشنودی حاصل کرنے اور ان کے ساتھ ثبوت و فرحت پانے سے خالی کر دیا جائے ۔ اس عبد مجذوب کو مبتلا کیا جاتا ہے یہاں تک کہ تمام آلا ئشیں اس سے خارج ہو جاتی ہیں اور دل تمام آلودگیوں سے پاک کر دیا جاتا ہے۔ پھر اس کا دل خدا کی وحدانیت ، حق کی معرفت اور علوم غیب کی آمد کا محل بن جاتا ہے جس میں طرح طرح کے اسرار و علوم اور انوار قرب جلوہ گر ہوتے ہیں کیونکہ یہ دل ایسا گھر ہے جس میں دوئی کی گنجائش نہیں ہے ۔ قرآن حکیم میں ہے ، اللہ تعالیٰ نے کسی کے سینے میں دو دل نہیں بنائے ۔ نیز فرمایا کہ یقینا سلاطین جب کسی بستی میں داخل ہوتے ہیں تو اسے خراب کرتے ہیں اور وہاں کے عزت والوں کو ذلیل بنا دیتے ہیں۔ ان معزز لوگوں کو خوب صورت منازل اورستھری زندگی سے نکال دیتے ہیں ۔ اس سے قبل دل پر نفس شیطان اور خواہش کی حکمرانی تھی اور اعضا ان کے حکم کے مطابق متحرک تھے کہ طرح طرح کی برائیوں اور گمراہیوں میں مصروف تھے جب ان کی سلطنت زائل ہوگئی تو جوارح نے سکون حاصل کر لیا اور دل جو کہ شاہی محل سے خالی ہوگیا اور سینہ جو کہ صحن ہے غیر کے غبار سے صاف ہو گیا لیکن دل وہ توحید اور معرفت و علم کا مرکز بن گیا اور سینہ عجائبات غیبی اور واردات کے نزول کا مقام بن گیا ۔ یہ آفات بلیات کا نتیجہ اور ثمر ہے ۔ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہماری انبیاء کرام کی آزمائش سب سے سخت ہوتی ہے۔ اس کے بعد ان لوگوں جو صلاح و فضیلت میں ان کے نزدیک ہیں۔ اللہ کے حبیب صلی اللہ تعالے علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ میں تم سے زیادہ خدا کی معرفت رکھنے والا اور اس سے ڈرنے والا ہوں ۔ جو بادشاہ کے زیادہ قریب ہوگا اس کے لیے خوف وخطر بھی زیادہ ہو گا اس لیے کہ دہ بادشاہ کی نگاہ میں ہوتا ہے اس کے تمام تصرفات حرکتیں اور ادھر ادھر دیکھنا بادشاہ پر ظا ہر ہوتا ہے ۔
اعتراض : اللہ تعالے کے سامنے تمام لوگ ایک آدمی کا علم رکھتے ہیں اس پر بندوں کی کوئی چیز مخفی نہیں تو اس کلام کا کیا فائدہ ہوگا ؟ جواب : یہ درست ہے کہ اللہ کاعلم تمام کو محیط ہے لیکن جب اس آدمی کی قدر و منزلت اللہ کی بارگاہ میں بڑھ گئی رتبہ زائد ہو گیا تو اس کے لیے خطرات بھی بڑھ گئے ہیں کیونکہ اس کی اس قدر عظیم نعمت و فضل کا شکر ادا کرنا بھی لازم ہے اور اس کی اطاعت میں ادنی سی بے احتیاطی ادائے شکر میں کوتا ہی ہے اور یہ اطاعت خداوندی میں کمی کا سبب ہے ۔ رب کائنات جل شانہ نے فرمایا : اے نبی کی بیو یو تم میں سےجو کھلی نافرمانی کرے گی اسے اوروں سے دگنا عذاب دیا جائے گا ۔ حضور سرور عالم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی ازواج کو یہ اس لیے کہا کہ اُن پر قرب ومعیت نبی کی وجہ سے نعمتوں کا تمام ہو چکا ہے ، تو اس آدمی کی کیا حال ہوگا جسے اللہ تعالے کا قرب و اتصال میسر آچکا ہے ۔ اللہ تعالے اس بات سے بہت بلند ہے کہ اسے اپنی مخلوق میں سے کسی سے تشبیہ دی جائے ۔ اس جیسی کوئی چیز نہیں اور وہ سننے جاننے والا ہے
مقالہ نمبر28
احوال مرید کی تفصیل
غوث اعظم رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا کیا تم نفس کشی، خواہشوں کے کھلانے اور دنیا و آخرت کی مرادات و مرغوبات کی بھٹی میں پڑے ہونے کے باوجود راحت و سرور و آسودگی و چین، امن و سکون اور ناز و نعمت کے طالب ہو۔ تم میں ابھی مرادات اور اعراض کی طلب باقی اورظا ہر وباہر ہے۔ اے جلد باز!ٹھہر جا ۔ اے فتح باب کی امید لگائے انتظار کرنے والے آہستہ ہو جا ، جب تک خواہشات کا کچھ حصہ بھی باقی ہوگا یہ دروازہ بند ہی رہے گا اور ابھی تم میں کچھ آرزوئیں موجود ہیں، مکا تب کے ذمہ ایک درہم بھی ہو تو غلام ہی ہوتا ہے۔ جب تک تم میں کھجور کی گٹھلی چوسنے کے برابر طلب دنیا باقی ہے قرب وقبول خداوندی کا دروازہ بند ہے۔ دنیا کی خواہش و آرزو اور دنیا کی کسی چیز کو بطریق میل و محبت اور بطور عجب دیکھنا حظ نفس و حکم طبیعیت کے مطابق عز و جاہ کسی چیز کی طرف توجہ اور دنیا و آخرت کے کسی عمل پر اجر کی آرزو یہ سب وصول سے مانع ہیں ان میں سے کوئی چیز بھی تم میں موجود ہے تو تم ابھی ان کے فنا کر نے کے دروازے پر ہو لہذا بہ تمام و کمال فنا حاصل ہونے تک ٹھہر و اور صبر کرو یہاں تک کہ تم بھٹی سے پاک ہو کر نکل آؤ اور تمہاری صیاغت مکمل ہو جائے پھر تمہیں اچھےلباس سے آراستہ دیدہ زیب زیور سے مزین کر کے خوشیوں میں بسا کر سب سے بڑے بادشاہ کے حضور پہنچا دیا جائے گا اور تمہیں اس طرح خطاب کیا جائے گا، آج کے دن سے آپ ہمارے ہاں صاحب مرتبہ و امانت ہو پھر مو انست و ملاطفت سے گفت گو کی جائے گی ۔ لطف و کرم کی فراوانی کے ساتھ کھلایا پلایا جائے گا، اللہ تعالی کا انتہائی قرب میسر ہو گا ۔ اسرار اور حقائق و امور پر اس طرح مطلع کیا جائے گا کہ کوئی چیز مخفی نہیں رہے گی۔ نعمتوں کی موجودگی میں باقی ہر چیز سے مستغنی ہو جاؤ گے۔ کیا تم نے سونے کے بھکرے ہوئے ٹکڑے نہیں دیکھے جو عطاروں ، بقالوں ، قصابوں ، چمڑا رنگنے والوں، تیل بیچنے والوں ، خاکروبوں اور دیگر اعلی صنعتوں اور گھٹیا پیشے والوں کے ہاتھوں میں صبح و شام گردش کرتے ہیں پھرا نہیں جمع کر کے سنار کی بھٹی میں گھلا دیا جاتا ہے۔ بعد میں نکال کر ہتھوڑی سے نرم کرتے ہوئے جسم کی صورت میں ڈھال دیا جاتا ہے۔ زیورات کی صورت میں ڈھال کر جلا دی جاتی ہے خوشبو میں بسایا جاتا ہے پھر اعلیٰ و محفوظ مقامات پر مقفل خزانوں اور محفوظ صندوقوں میں بند کر دیا جاتا ہے یا دلہنوں کو ان زیورات کے ساتھ جلوہ دے کر مزین و مکرم کیا جاتا ہے اور کبھی وہ دلہن بادشاہ کی ملکہ بن جاتی ہے۔ اس طرح یہ سونے کے ٹکڑے رنگریزوں کے ہاتھوں ہوتے ہوئے پگھلنے اور کوٹنے کے بعد بادشاہ کے قریب یا اس کی مجلس میں پہنچ جاتے ہیں اسی طرح اے اہل ایمان ! تم قضا و قدر پر صابر ہو کہ تمام احوال میں فیصلوں پر راضی ہو جاؤ تو تمہیں دنیا میں اپنے مولیٰ کے قرب کی دولت سے نوازتے ہوئے معرفت ، علوم اور اسرار کی نعمتوں سے سرفراز کیا جائیگا آخرت میں تمہارا مسکن وہ دار السلام بنے گا جہاں انبیاء ، صدیقین، شہدا اور صالحین علیہم السلام کی ہمراہی نصیب ہوگی اور اللہ تعالی کی ہمسائیگی ، اس کے مقام خاص اور قرب معنوی وعندیت حقیقی سے سرفراز کئے جاؤ گے خداکے ذکر و شہو دسے چین پاؤ گے ۔ چنانچہ عجلت سے کام نہ لو صبر و تحمل کو اختیار کرو ، قضا سے راضی ہو ، خدا تعالے پر بخل اور عدم اطلاع کا اتہام نہ تراشو اسی طرح عفو کی خنکی ، معرفت کے تلطف ، خدا کے اکرام کے سامنے اور اس کے احسان کی حلاوت سے فیضیاب ہو سکو گے۔
مقالہ نمبر 29
فقر کفر کے قریب کر دیتا ہے
حضرت غوث الثقلین رضی اللہ تعالی عنہ نے رسول اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے ارشاد گرامی قریب ہے کہ فقر کفر میں گرنے کا سبب بن جائے ” کی تشریح میں فرمایا کہ جب بندہ اللہ پر ایمان لے آئے اور اپنے تمام امور اس کے سپرد کر دے اور یہ یقین کرلے کہ رزق آسان کرنے اور پہنچانے والا وہی ہے جو اسے ملا ہے، وہ غلطی سے کسی اور کے پاس نہیں جا سکتا اور جو حاصل نہیں وہ حاصل نہیں ہو سکتا ، اور بندہ مومن اس پر یقین رکھتا ہے کہ اللہ سے ڈرنے والے کے لیے وہ تمام تنگیوں اور سختیوں سے آسانی کی راہیں پیدا کر دیتا ہے اور وہاں سے رزق دیتا ہے جس کا گمان تک نہ ہو یہ جو اللہ تعالے پر بھروسا کرے اللہ اس کے لیے کافی ہے۔ بندے کا یہ اعتقا در نج و بلا سے عافیت و سلامتی کی حالت میں ہوتا ہے پھر اللہ تعالی اسے آزمائش اور فقر میں مبتلا کر دیتا ہے تو وہ گریہ زاری کے ساتھ خدا سے سوال شروع کر دیتا ہے لیکن اللہ اس کی تنگی دور نہیں فرماتا تو اس وقت پیغمبر خدا کا یہ قول ثابت ہو جاتا ہے کہ قریب ہے کہ نعمت کفربن جائے مگر جس کسی پہ اللہ تعالے مہربان ہو جا تا ہے تو اس سے آزمائش اٹھا لیتا ہے تو اور عنایت و تونگری سے نواز کرشکر اور حمد وثنا کی توفیق دے دیتا ہے اللہ تعالے اسے تمام عمر عافیت و غنا کی اسی کیفیت میں رکھتا ہے اگر اللہ تعالے کسی شخص کو آزمائش میں رکھنا چاہتا ہے تو ہمیشہ اسے فقر و بلا میں رکھتا ہے یہاں تک کہ اس کے ایمان کی مدد منقطع ہو جاتی ہے تو خدا پر اعتراض کرکے جہالت بخل اور سفاہت کی تہمت لگا کر اور وعدہ الہی میں خلاف ورزی کا شک کر کے کافر ہو جاتا ہے تو اسی حالت کفر میں آیات ربانی کا اور اپنے رب پر ناراضی کی حالت میں مرجاتا ہے ۔ اسی حقیقت کی طرف رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ قیامت کے دن لوگوں میں سب سے زیادہ سخت عذاب اس پہ ہو گا جس کو اللہ تعالے نے دنیا کی احتیاج اور آخرت کے عذاب میں مبتلا رکھا ایسے فقر سے رسول خدا نے پناہ مانگی ہے اور ہم بھی خدا کی پناہ چاہتے ہیں۔ تیسر ا انسان وہ ہے جس کے متعلق اللہ تعالے نے ظاہری و باطنی نعمتوں اور کمال حسی و عقلی کے ذریعے برگزیدہ بنا لینے کا ارادہ فرمایا تو اسے خاصان درگاہ اپنے ظاہر و باطن کے اور دنیا و آخرت کے دوستوں میں داخل کر لیا ۔ انبیاء علیہم السلام کے علم کا وارث ، انبیاء پر ایمان کی قوت او ران کی اتباع میں کمال کی بنا پر اولیاء کا سرخیل اور اپنےبزرگ ، با عظمت علماء، حقائق اشیا سے آگاہ راست گفتار و درست کردار حکماء ، بارگاہ رب العزت میں شفاعت کنندگان میں شامل کر لیا، اور اسے خلقت کے امور کا والی ان کا پیشرو معلم اور بادی و مولی بنا یا تا کران کی سنن ہدی کی طرف رہنمائی کرے اور چاہ ضلالت میں گرانے والے راستے سے بچائے۔ پھر اللہ تعالے اسے صبر کے پہاڑوں کی رفعت اور رضا کے دریاوں کی گہرائی عطا کرتا ہے اور فعل مولی میں فنا اور اس سے موافقت کی نعمت سے نوازتا ہے پھر اسے اللہ کریم کی طرف سے عطائے جزیل ملتی ہے ۔ صبح و شام کی تمام ساعتوں میں خلوت و جلوت میں اور ظاہر و باطن میں ناز و نعمت کے ساتھ طرح طرح کی عطاؤں اور نوازشوں کے ساتھ اس کی پرورش کی جاتی ہے اور انعام خاس کا یہ سلسلہ وصال خدا وندی تک مسلسل جاری رہتا ہے۔
مقالہ نمبر 30
عمل اور ترک حیلہ
حضرت سرکار بغدا د رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا : یہ بات باعث تعجب ہے کہ تم اکثر کہتے ہو کہ کون ساعمل کروں اور کون سی تدبیر کروں ؟ تمہیں یہی کہا جائے گا کہ اپنی جگہ پر ٹھہرے رہو ، اپنی حد سے تجاوز نہ کرو جب تک اس مقام پر ٹھہرانے والے کی طرف سے کشادگی نہ آجائے رب کریم فرماتا ہے: صبر کرو، جنگ کی سختیوں پر صبر کرنے میں دشمن پر غالب رہو، کفار کے ساتھ جنگ کرنے کے لیے اپنے گھوڑوں کو سر حد پر تیار رکھو اور اللہ سے ڈرو اے بندہ مومن ! اللہ کریم نے تمہیں صبر پھر صبر پر دلبستگی اور مبالغہ کے ساتھ اس کی حفاظت کا حکم دیا اور انھیں چھوڑ دینے پر وعید سنائی کہ انہیں چھوڑنے پر اللہ سے ڈرو ، یعنی صبر کرو کیونکہ دنیا و آخرت کی ہر آفت سے امن وسلامتی صبرہی میں ہے ۔ رسول خدا صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا ، ایمان میں صبر کا مقام اس طرح بلند ہے جس طرح جسم میں سرکا۔ صبر کی فضیلت میں اس طرح بھی کہا گیا ہے کہ : ہر چیز کے ثواب کی ایک حد متعین ہے سوائے صبر کے صبر کا اجر ہے حدو بے اندازہ ہے ، جیسا کہ رب کریم نے ارشاد فرمایا ، صبر کرنے والوں کو اس کے بے حساب اجر دیا جائے گا۔ جب تم صبر کی حفاظت اور حدود کی نگہداشت میں اللہ تعالے سے ڈرو گے تو اللہ تعالے اپنی کتاب میں درج وعدہ پورا فرمادیگا وہ و عدہ یہ ہے کہ جو شخص اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہے تو اللہ تعالے اس کے لیے ہر تنگی سے آسانی کی راہ پیدا فرما دیتا ہے اور اسے وہاں سے روزی پہنچاتا ہے جس کا اُسے گمان تک نہیں ہوتا۔ چنانچہ اگر تم کشائش نصیب ہونے تک صبر کرتے رہے تو تمہارا شمار متوکلین سے ہوگا ۔ اور اللہ تعالیٰ نے توکل کی بنا پر تمہارے لیے اپنے کافی ہونے کا وعدہ فرما رکھا ہے کہ جو آدمی اللہ تعالیٰ پر بھروسا کرے تو وہ اس کے لیے کافی ہے ۔ اگر تم صبر کے ساتھ اس کے لازم تو کل کو ہی اپنائے رکھو گے تو تم محسنین میں داخل ہو جاؤ گے ۔ اور یقین اللہ تعالی نے محسنین کے ساتھ جزا کا وعدہ کر رکھا ہے، فرمایا ہے ، ہم محسنوں کو اس طرح جزا دیتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھہ تم محبوب خدا بن جاؤ گے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ، بے شک اللہ تعالے محسنوں سے محبت رکھتا ہے۔ لہذا صبر ہی دنیا و آخرت کی ہر بھلائی اور سلامتی کی بنیاد ہے اور مومن اسی سے ترقی کرتے ہوئے رضا و موافقت کی حالت میں جاگزیں ہوتا ہے اور وہاں سے افعال خداوندی میں فنا حاصل کر لیتا ہے جو کہ بدلیت اور غیبت کی حالت ہے۔ اس حالت کو ترک کرنے اورتر قی حاصل نہ کرنے ہے بچو ورنہ دنیا و آخرت میں نصرت و قبول اور توفیق کے مقام سے گرا دئیے جاؤ گے اور خیر و فلاح سے محروم ہو جاؤ گے ۔
مقالہ نمبر 31
محبت وبغض صرف خدا کے لئے ہو
حضرت غوث الثقلین رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا : اگر تم کسی کے بارے میں اپنے دل میں محبت یا نفرت پاؤ تو اس کے اعمال کتاب و سنت کی کسوٹی پر پر کھو، اگر تم نفرت رکھتے ہو اور کتاب وسنت میں بھی اس کے اعمال باعث نفرت قرار دیئے گئے ہیں توخدا اور سول جل وعلا وصلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی موافقت پر خوش ہو جاؤ اور اگر کتاب و سنت کے موافق اس کے اعمال پسندیدہ ہیں اور تم نفرت رکھتے ہو تو تم ہوائے نفس کے غلام ہو کہ نفسانی خواہشات کے مطابق اس سے عداوت رکھتے ہو۔ تم اپنے اس فعل کی بنا پر ظالم اور اللہ تعالی ور سول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے نافرمان و مخالف ہو۔ تمہیں اس فعل سے خدا تعالے کی بارگاہ میں تائب ہونا چاہئے ، خدا سے اس کی اور خدا کے دوسرے محبوبوں ، ولیوں ، برگزیدہ اور نیک بندوں کی صحبت کا سوال کرنا چاہئے تاکہ تم اس کی محبت رکھنے میں خدا کے موافق بن جاؤ ، اسی طرح جس سے تمہارا محبت والا معاملہ ہے۔ اس کے اعمال کتاب وسنت کی روشنی میں پر کھو ۔ اگر کتاب و سنت کے موافق ہیں تو اسی سے محبت رکھو اگر کتاب وسنت میں نا پسندید ہیں تم بھی اس سے دشمنی رکھو تا کہ ہوائے نفس کی بنا پر محبت و نفرت کرنے والے نہ ہو کیونکہ تمہیں اپنی خواہشات نفس کی مخالفت کا حکم دیا گیا ہے۔ رب کا ئنات نے فرمایا، خواہشات کی پیروی نہ کر و وہ تمہیں راہ خدا سے بہکا دیں گی۔
مقالہ نمبر 32
خدا کی محبت میں کسی کو شریک نہ کرو
حضرت غوث الثقلین رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا اکثر تم اپنی محبت کی پائیداری کی شکایت کرتے ہو کہ جس سے محبت کرتا ہوں تو ہمارے درمیان کوئی چیز حائل ہو جاتی ہے یا وہ کہیں غائب ہو جاتا ہے یا فوت ہو جاتا ہے یا آپس میں دشمنی ہو جاتی ہے یا اموال ضائع یا گم ہو جانے کی وجہ سے پردہ بن جاتے ہیں ۔ اس کا سبب ذکر کرتے ہوئے تمہیں کہا جائے گا کہ تم خدا کے محبوب ہو ، تمہیں عنایت خداوندی حاصل ہے ، تم خدا کے منظورِ نظر ہو ، تمھارے لیے اور تم پر غیرت کی گئی ہے تاکہ دوسروں کی طرف متوجہ نہ ہو ۔ کیا آپ نہیں جانتے کہ اللہ تعالے غیور ہے اس نے تمہیں اس لیے پیدا کیا کہ تم اُسی کے ساتھ مشغول رہو اور تم ما سوی اللہ کے ہو جانے کا ارادہ کرتے ہو کیا تم نے یہ ارشاد باری تعالے نہیں سنا ” اللہ ان سے دوستی رکھتا ہے اور وہ خدا سے ” نیز فرماتا ہے میں نے جنوں اور انسانوں کو فقط اس لیے پیدا کیا ہے کہ وہ میری پرستش کریں ۔ کیا تم نے اس سلسلہ میں رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کا فرمان نہیں سنا کسی بندے کو جس وقت خدا محبوب بنا لیتا ہے تو اسے آزمائش میں ڈال دیتا ہے ، اس پر اگر بندہ صبر کرے تو خدا اسے حفاظت سے رکھ لیتا ہے۔ صحابہ کرام علیہم الرضوان نے عرض کیا ما اقتناه(اسے محفوظ کر لیتا ہے ) کا کیا معنی ہے تو جناب رسالتمآب صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ نہ تو اس کا مال چھوڑتا ہے نہ اولاد۔ کیو نکہ اگر وہ مال و اولاد کی محبت میں پھنس جائے گا تو خدا سے محبت تقسیم ہو کر کم اور ٹکڑے ٹکڑے ہو جائے گی، اور محبت خدا اور غیر خدا کے درمیان مشترک حیثیت اختیار کرے گی جب کہ اللہ تعالے غیور ہے اور ہر شے پر غالب بھی ۔ اور اس کی قدرت ہرشئی کو وسیع ہے تو وہ اپنا شریک قبول نہیں کرتا بلکہ اسے تباہ و برباد کر دیتا ہے ۔ یہ اس لیے ہوتا کہ بندے کا دل بلا شرکت غیرے خالص خدا کے لیے ہو جائے ۔ جب بندے کا دل اغیار کی محبت سے خالی ہو جائے تو اللہ تعالی کا یہ فرمان اس کے حق میں ثابت ہو جاتا ہے اللہ ان سے محبت رکھتا ہے اور وہ اس سے محبت کرتے ہیں۔ جب بندے کا دل تمام شریکوں ، ہمسروں ، اہل و عیال ، مال ، خواہشات و شهوات، تصرفات حکومت کرامات و حالات ، منازل و مقامات اور جنات و درجات اور زلفات کی طلب سے پاک ہو جائیگا تو اس میں کوئی ارادہ و آرزو باقی نہیں رہے گی اور یہ دل اس سوراخ والے برتن کی طرح ہو جائیگا جس میں کوئی بہنے والی چیز نہیں ٹھہرتی، اس لیے کہ دل فعل الہی کی وجہ سے شکستہ ہو چکا ہے جب بھی اس میں کوئی ارادہ جنم لیتا ہے تو اللہ تعالے کا فعل اور اس کی غیرت ایسے کاٹ کے رکھ دیتی ہے پھر اس کے دل کو عظمت و قہر اور بزرگی و ہیبت کے پردوں میں ڈھانپ لیا جاتا ہے اور اس کے گرد سطوت و کبریائی کی خندقیں کھود دی جاتی ہیں جس کی وجہ سے کسی چیز کی آرزو دل کی طرف راہ نہیں پاتی ۔ پھر اس وقت اسباب دنیا سے تعلق رکھنے والی اشیاء ، اہل و عیال اور مال و احباب اسی طرح اسباب دین سے متعلق کرامات اور علوم و عبارات وغیرہ کوئی چیز دل کی جمعیت پر اثر انداز نہیں ہوسکتی کیونکہ یہ تمام اشیاء دل سے باہر ہیں لہذا اللہ تعالے ان اشیاء کے ہلاک کرنے کے لیے بندے پر غیرت نہیں کرتا بلکہ یہی اشیاء اللہ کی طرف سے بندے کے لیے تکلف و کرامت مزید توفیق ، نعمت ورزق اور حاضر ہونے والوں کے لیے منفعت کا ذریعہ بن جاتی ہیں ۔ اس طرح حاضر ہونے والوں کی تعظیم و تکریم کی جاتی ہے۔ اس بندے کی حرمت کے پیش نظر ان پر رحمت ہوتی ہے اور وہ آفات و بلیات سے محفوظ کر دیئے جاتے ہیں اور یہ ان کا نگہبان ، ان کے امورکا والی اور دنیا و آخرت میں پناہ گاہ اور شفیع بن جاتا ہے۔
مقالہ نمبر 33
لوگوں کی قسمیں
حضرت فرماتے ہیں لوگ چار طرح کے ہیں ، ایک وہ جن کے پاس نہ زبان ہوتی ہے نہ دل ۔ ایسے عامی ، غافل غبی اور ذلیل شخص کی اللہ تعالٰی کے ہاں کوئی قدر و منزلت نہیں۔ ظاہر و باطن کے اعتبار سے اس میں ذرہ بھلائی نہیں ، ایسے لوگ تو بھو سے کی مانند ہیں ۔ بارگاہ الہی میں اس کی قیمت نہیں مگر یہ کہ اللہ تعالی انہیں اپنی رحمت میں لے لے ، ان کے دلوں کو ہدایت سے منور کر دے اور ان کے اعضاء کو اپنی اطاعت میں متحرک کر دے ۔ ایسے آدمیوں سے بچو، ان کی پناہ میں نہ آؤ ، ان کا اعتبار نہ کرو اور ان میں مت کھڑے ہو کیونکہ یہ عذاب اور غضب کے مستحق میں اور جہنم کے قابل میں ہم ایسوں سے خدا کی پناہ چاہتے ہیں ۔ اگر تم دین خدا کے عالم نیکی کی تعلیم دینے والے ، دین کے ہادی و قائد ہو اورلوگوں کو دین کی طرف بلاتے ہو تو بے شک اپنے لوگوں کی صحبت اختیار کرو۔ انہیں اطاعت الہی کی دعوت دو گنا ہوں سے ڈرو تو تم مجاہد قرارپاؤ گے تمہیں انبیاء ورسل علیہم السلام کی طرح ثو اب ملے گا۔ رسول اللہ صلے اللہ تعالی علیہ وسلم نے حضرت علی رضی الله عنہ سے فرمایا اگر تمہاری وجہ سے خدا تعالے کسی ایک آدمی کو ہدایت دے تو تمہارے لیے یہ اس چیز سے بہتر ہے جس پر آفتاب طلوع ہوا۔ دوسری قسم ان لوگوں کی ہے جن کے پاس زبان ہے دل نہیں ۔ علم وعمل کی نصیحت کے سلسلے میں بڑی حکیمانہ گفتگو کرتے ہیں مگر وہ خودان پر عمل نہیں کرتے ، وہ دوسروں کو خدا کی طرف بلاتے ہیں لیکن خود اس سے بھاگتے ہیں ۔ دوسروں کے عیب ذکر کرنے کو بر اگر دانتے ہیں لیکن خود ہی وہ عمل کرتے ہیں ۔ لوگوں کے سامنے اپنی پارسائی کا اظہار کرتے ہیں اور خود بڑے بڑے گناہوں کا ارتکاب کرتے ہوئے خدا کے ساتھ اعلان جنگ کرتے ہیں ۔ جب وہ خلوت میں کسی کے پاس جاتے ہیں تو گویا وہ آدمی کے لباس میں ملبوس بھیڑیئے ہیں ۔ یہ وہ لوگ ہیں جن سے پر ہیز کرنے کے لیے رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا : مجھے اپنی اُمت کے لیے جس چیز کا زیادہ خوف ہے وہ بے عمل علماء ہیں۔ ہم ایسے لوگوں سے خدا کی پناہ چاہتے ہیں ۔ ایسے لوگوں سے دور بھا گو تا کہ وہ تمہیں اپنی طلاقت لسانی سے قریب نہ کرلیں اور تمہیں ان کے گناہوں کی آگ نہ جلا دے اور ان کے قلب و باطن کی بدبو تمہیں ہلاک نہ کر دے ۔ تیسری قسم ایسے لوگوں کی ہے جن کے دل ہیں ز بان نہیں ۔ یہ ایما ندار لوگ ہیں ، اللہ تعالے نے ایسوں کو مخلوق سے چھپا رکھا ہے اور ان پر پردہ ڈال دیا ہے اور انہیں ان کے نفس کے عیوب دکھا دیئے ہیں ،عجب و ریا ءکی باریکیوں سے آگاہ کرتے ہوئے ان کے دل روشن کر دیئے ہیں اور لوگوں سے اختلاط کی وجہ سے پیدا ہونے والی برائیاں اور گفتگو کی خرابیاں بتادی ہیں اور انہیں یقین ہو چکا ہے کہ خا موشی اور عزلت نشینی میں ہی سلامتی ہے، جیسا کہ حضور اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے فرمایا : جس نے خاموشی اختیار کی وہ ہر آفت سے نجات پاگیا ۔ ایک اور حدیث شریف میں ہے ، عبادت کے دس حصوں میں سے نو حصے خاموشی میں ہیں؟ یہ آدمی سرالہی کا حامل، خدا کا دوست، آفات نفس وخلق سے حفاظت و سلامتی والا ، عقل تمام کا مالک ، رب کریم کا ہم جلیس، مقرب بارگاہ اور نعمتوں والا ہے ۔ تمام بھلائیاں اس کی صحبت میں ہیں ، اس لیے تم اس کی مصاحبت اور خدمت کو لازم کر لو، اور اس کے کام کرنے اور اسے نفع پہنچانے میں صدق دل سے کوشاں رہو ۔ اس طرح تمہیں اللہ تعالے اپنا برگزیدہ اور محبوب بناتے ہوئے اپنے نیک بندروں میں شامل کر لے گا۔ یہ تمام سعادات و کمالات اس مرد صالح کی برکت سے حاصل ہونگے ان شاء اللہ تعالے ۔ لوگوں کی چوتھی قسم وہ ہے جو صاحب قلب و لسان میں جنھیں عالم ملائکہ وارواح میں عزت و بزرگی کے ساتھ بلایا جاتا ہے ۔ جیسا کہ حدیث پاک میں ہے، جس نے علم حاصل کیا اس پر عمل کیا ، دوسروں کو اس کو اس کی تعلیم دی اسے عالم ملکوت میں عظیم کہہ کر بلایا جائے گا۔ ایسے لوگ اللہ تعالی اور اس کی آیات کو جانتے ہیں ان کے دل میں علوم غریب ودیعت رکھے گئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے دوسروں سے مختفی اسرار پر انھیں مطلع فرما دیا ہے اور انہیں اپنا برگزیده و مقبول بنا کر اپنی جانب متوجہ کر لیا ہے اور علوم و معارف سے آگاہ کرتے ہوئے اپنے قرب خاص میں بلندی عطا کی ہے اور ان کے سینوں کو ان علوم و اسرار کے قابل بناتے ہوئے کھول دیا ہے، انھیں دانشمند اور نقاد خیر کر کے بندوں کو نیکی کی طرف دعوت دینے ، برائی سے ڈرانے والے ، اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات اور اس کے دین و ملت پر حجت ، بادی ہدایت یافتہ شفیع شفاعت قبول کیے ہوئے راست گو اور تصدیق کیے ہوئے بنا کر انبیاء و رسل عليهم الصلوات والتحیات والبرکات کا خلیفہ و جانشین کے اعزاز سے نوازا گیا ہے۔ ان صفات کے حامل بنی آدم کے جو ہر خاص اور مقصود حقیقی ہیں ۔ ان سے اوپر صرف نبوت کا مرتبہ ہے ۔ تمہیں چاہیے کہ ان کی عقیدت و غلامی کو لازم کر لو۔ ان سے نفرت اور مخالفت کرنے کنارہ کشی اختیار کرنے سے اجتناب کرو اور ان کی دشمنی اور حکم عدولی سے بچو اور ان کی نصیحتوں سے روگردانی سے پر ہیز کر واس لیے کہ سلامتی انھی کے پاس اور انھی کی باتوں میں ہے اور ان کے غیر کے پاس گمراہی اور ہلاکت ہے مگر جسے اللہ تعالے توفیق دیتے ہوئے اپنی رحمت اور دوستی کے ساتھ امداد فرمائے وہ ان سے نفرت کرنے اور مخالفت سے محفوظ رہتا ہے۔ میں نے انسانوں کی چاروں قسمیں تمہارے سامنے بیان کر دی ہیں اگر صاحب نظر و فکر ہو تو ان میں تامل کرو، اگر پرہیز گار ہو اپنے آپ پر مہر بانی کرنا چاہتے ہو اور اسے مکروہات سے بچانے کا خیال تو اپنے نفس کی نگہداشت کرو۔ اللہ تعالے ہمیں اور آپ کو ایسی باتوں کی ہدایت دے جو دنیا و آخرت میں اس کی محبوب اور پسندیدہ ہیں ۔
مقالہ نمبر 34
فعل خداوندی پر ناراض نہ ہو
حضرت محبوب سبحانی رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں ، کس قدر تعجب کی بات ہے کہ تم اپنے پروردگار سے ناراض ہو کر اس پربخل ، حماقت اور جہالت کی اتہام تراشی کرو اس پر اعتراض کرتے ہوئے اس کی طرف ظلم کی نسبت کرو ، رزق و غنا اور آفات و بلیات کے دور کرنے میں تاخیر سمجھو کیا تمہیں معلوم نہیں کہ ہر چیز کی مدت مقر رہے اورہر مصیبت کی انتہا ہوتی ہے جس میں کسی تقدیم و تا خیر کی گنجائش نہیں، نہ مصیبتوں کا وقت تبدیل ہوتا ہے کہ آفت عافیت بن جائے، تکلیف کا وقت راحت سے نہیں بدل سکتا اور فقر کی حالت غنا سے تبدیل نہیں ہو سکتی اس لیے با ادب رہ کر خاموشی ، صبر و رضا اور پروردگار کی موافقت لازم کر لو ۔ اس کے کاموں پر ناراضی اور بہتان سے توبہ کرو کیونکہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ ایسی نہیں کہ کسی سے پورا پوراحق لیا جائے اور بغیر گناہ کے انتقام لیا جائے بلکہ یہ تو بندوں کا کام ہے ۔ بلکہ اللہ تعالیٰ کی ذات ازل سے یگانہ ہے ، اس کا وجود تمام چیزوں سے پہلے ہے ، اس نے اشیاء کو اور ان کی اچھائیوں اور برائیوں کو پیدا کیا ہے ۔ ان کے آغاز و انجام کو جانتا ہے وہ اپنے فعل میں حکیم مطلق ہے ، اپنی تخلیق میں مضبوط ہے ، اس کے کاموں میں تضاد نہیں ہوتا۔ وہ کوئی بے فائدہ کام نہیں کرتا نہ ہی باطل اور لغو چیز پیدا کرتا ہے اس کی طرف نقص و عیب کی نسبت نہیں ہو سکتی اور نہ اس کے افعال پر ملامت کی جاسکتی ہے، اگر تم اس کے افعال پر رضاو موافقت اور اس کے فعل میں فنا سے عاجز ہو تو کشائش اور فراخی کا انتظار کرو یہاں تک کہ نوشتہ تقدیر اپنی مدت کو پہنچ جائے ، پھر زمانہ گزرنے اور میعاد پوری ہونے پر تمہاری بات بدل جائے گی جس طرح سردی ختم ہونے پر گرمی آجاتی ہے اور رات ختم ہونے پر سحر طلوع ہوتی ہے چنانچہ اگر تم مغرب اور عشاء کے درمیان ہی دن کے اجالے اور نور کے متمنی ہوتویہ چیز تمہیں کیسے حاصل ہوسکتی ہے بلکہ ابھی تو رات کی تاریکی میں اضافہ ہوگا اور جب ظلمت اپنی انتہا کو پہنچ جائے گی اور فجر طلوع ہو جائے گی تو دن اپنی روشنی لائے گا، اس وقت اس کی طلب کر ویا نہ کرو ، خواہ اسے مکروہ جانو یا خاموشی اختیار کرو اور اگر اس وقت رات کے اعادے کے طلب گار ہو تو تمہاری دعا مستجاب نہیں ہوگی اور یہ چیز تمہیں نہیں ملے گی کیونکہ تم نے بے وقت طلب کی ہے ، پس تم حسرت زدہ مقصود سے عاجز ، ناخوش اور شرمندگی کی وجہ سے دہشت زدہ ہو کر جاؤ گے۔ لہذا ان سب باتوں کو چھوڑ دو ۔ اللہ تعالے کے حکم اور اس کے فعل سے موافقت ، اس کے بارے میں حسن ادب اور صبر جمیل کو لازم کر لوتمہارے نصیب کی کوئی چیز تم سےچھینی نہیں جائے گی اور جو تمہاری قسمت میں نہیں ہے وہ تمہیں نہیں ملے گا۔ مجھے اپنی زندگی کی قسم ہے کہ تم اطاعت عبادت جانتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے حضور خشوع و خضوع اور تضرع کے ساتھ دعائیں مانگتے ہو اور اللہ تعالیٰ کے اس حکم کی تعمیل کرتے ہو، میرے حضور دعا کرو میں اُسے شرف قبولیت بخشوں گا۔ نیز فرمایا : اللہ تعالیٰ سے اس کا فضل مانگو۔ اس کے علاوہ اور بہت سی آیات واحادیث میں یوں مضمون بیان کیا گیا ہے ، اور جب تم اس سے دعا کرو گے تو وہ اپنے وقت مقر پر قبول فرمائے گا اورجب تمہاری طلب کے بعد تمہاری دعا قبول ہوگی تو اس میں دنیا اور آخرت کے اعتبار سے تمہاری بھلائی ہوگی ، یا یہ دعا قضا اور معینہ وقت پر ہو جائیگی اس لئے دعا قبول ہونے میں تاخیر پر اللہ تعالے پر ہرگز تہمت نہ تراشو اور نہ دعا کرنے میں سستی کرو ، کیونکہ دعاکے اثر میں مدعا اور خواہش نفس کے مطابق فائدہ حاصل نہیں ہو گا تو نقصان بھی نہ کرو ۔ اگر عجلت کے ساتھ قبول نہ ہوئی تو آخرت میں اس کا اجر پاؤ گے حدیث شریف میں ہے کہ بندہ حشر کے دن اپنے نامہ اعمال میں ایسی بہت سی نیکیاں دیکھے گا جنہیں وہ پہچانتا نہ ہو گا تو اسے بتایا جائے گا یہ زائد نیکیاں تمہارے اُن سوالوں کا بدلہ ہے جو دنیا میں مقبول ہونی تمہارے مقدر میں نہ تھیں ۔ یا جس طرح کہ حدیث پاک کے لفظ ہیں ، پس دعا کرنے کا ادنی فائدہ یہ ہو گا کہ تم اپنے رب کو وحدہ لا شریک سمجھتے ہوئے اسے رحمت و جود اور فضل و کرم کی صفت کے ساتھ یاد کرو گے اور اسی سے مانگو گے اور اس کے علاوہ کسی اور سے طلب نہیں کرو گے اور اپنی حاجت کسی اور کے سامنے نہ لے جاؤ گے ۔ صبح و مسا ، صحت اور مرض میں مشقت اور نعمت میں ، سختی اور نرمی کی حالت میں تمہاری ان دو حالتوں میں سے ایک حالت ضرور ہوگی، یا تو تم بالکل سوال نہیں کروگے اور قضا پر رضا و موافقت کے باعث فعل خداوندی کے سامنے سرتسلیم اس طرح جھکا دو گے جس طرح غسال کے ہاتھ میں مردہ یا دایہ کے ہاتھ میں بچہ یا سوار کے سامنے گیند ہوتی ہے کہ اسےہاکی کے ساتھ جس طرح چاہتا ہے چلاتا ہے، پس تمہیں بھی تقدیر جس طرح چاہے گی اس طرت پلٹے گی ، اگر تمہارے نصیب میں ناز و نعمت ہے تو شکر بجا لاؤ اس طرح اللہ تعالے تمہیں زیادہ دے گا اس نے خود فرمایا ہے کہ اگر تم شکر کروگے تو میں تمہیں زیادہ دوں گا۔ اگر تمہاری قسمت میں تنگی ہے توتم سے مطلوب یہ ہے کہ صبر کر و ارادہ و فضل خدا کی اس کی توفیق سے موافقت کرو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کے فضل سے ثابت قدمی نصرت اور صلوۃ ورحمت عطا ہو گی اللہ تعالے خود فرماتا ہے یقینا اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے یعنی مددکرنے اور ثابت قدم رکھنے کے اعتبار سے اللہ تعالے صابرین کے ساتھ ہے۔ نیز فرماتا ہے اگر تم اللہ کی مد دکر گے تو اللہ تمہاری مددکرے گا اور مقام ہدایت داستقامت میں تمہیں ثابت قدم رکھے گا ۔ یعنی جب تم اپنی خواہش کی مخالفت ہیں اللہ تعالے کی مددکر دو گے اس کے افعال میں عیب تونی اور ناراضی کا طریقہ ترک کرو گے اور بندا کی طرف سے اپنے نفس کے دشمن بن کر اس پر تلوار سونت لو گے تو جب بھی نفس کفران نعمت اور شرک خفی کے لیے سر اٹھائے گا تو تم سبز خدا کی موافقت اور اس کے فعل و وعدہ پر سلمانیت و رضا کی بنا پر اس کا سر قلم کرو گے اور ندا پاک تمہیں توفیق اور مدد سے کہ فراز کرے گا لیا لیکن صلاح درست کا ترنب اس کی دلیل یہ آیہ کریمیہ ہے و الے جب صبر کرنے والوں کو بشارت دے دیجئے یہ وہ لوگ ہیں جب انھیں کوئی صیبت پہنچتی ہے تو کہتے ہیں بے شک ہم اللہ ہی کے لیے نہیں اور اسی کی طرف ارٹنے والے ہیں اور اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں۔ انہی لوگوں پر ان کے رب کی سےبرکتیں اور رحمتیں ہیں اور یہی لوگ ہدایت پانے والے ہیں ۔ دوسری حالت یہ ہے کہ دعا و تضرع کے ساتھ اپنے رب کی بارگاہ میں گڑ گڑا اور اس کی خواب کو پیش نظر رکتے ہوئے اس حکم کی تعمیل کرو کہ اپنے رب کو پکارو ۔ کیوی اقدام به محمل ہے ، کیونکہ اللہ تعالے نے تمہیں سوال کرنے اور اس کی بارگاہ میں رجوع کی ترغیب دی ہے اور اسے راحت بنا کر تمہاری طرف سے قاصد، پیوستگی کا سبب اور ملاقات کا وسیلہ بنا دیا ہے شرط یہ ہے دعا کی معینہ مدت تک تاخیر کی صورت میں خدا پر تہمت نہ تراشو اور اس پر ناراضی کا تصور نہ کرو سوال کرنے اور خاموش رہنے کی مذکورہ دو حالتوں کے فرق کا اندازہ کر لو ۔ اور ان کی حدود سے ہرگز تجاوز نہ کرو کیونکہ یہاں تعبداور مولی کریم کے تقرب کے مقام میں ان دو کے سوا اور کوئی حالت نہیں ہے ۔ پس حد سے گزرنے اور ظلم کرنے والوں کے زمرے میں داخل ہونے سے ڈرو۔ اگر یہ ہو تو اللہ تعالیٰ پہلی امتوں کی طرح تمہیں ہلاک کر دے گا اور تمہاری پر وا نہیں کرے گا دنیا میں سخت ابتلا میں اور آخرت میں درد ناک عذاب میں گرفتار کرے گا ، میں اللہ تعالی عظمت والے کی پاکی بیان کرتا ہوں اے میرے حال کو جاننے والے تجھی پر میرا بھروسہ ہے۔
مقالہ نمبر35
زہد و ورع
حضرت غوث الثقلین رضی اللہ تعالے عنہ نے فرمایا ، تقویٰ کو لازم کرلو ور نہ ہلاکت کا پھندا تمہارے گلے میں یوں پڑ جائے گا کہ خدا کی رحمت میں ڈھانپ لیے جانے کے علاوہ اس سے نکلنے کی کوئی صورت نہ ہوگی ۔ حبیب خدا صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی حدیث شریف سے یہ بات ثابت ہے کہ ورع دین کی بنا ہے اورطمع دین کی ہلاکت ہے ۔ ایک حدیث میں ہے ، جو شخص شاہی چرا گاہ کے گرد پھرے تو بعید نہیں کہ اس میں گر جائے ، جس طرح کھیتی کے آس پاس چرانے والے مویشیوں کا کھیتی میں منہ مارنا بعید نہیں اور کھیتی کا ان سے محفوظ رہنا ممکن نہیں اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا ہم محل شبہ میں دس نئی چیزوں سے نو کو حرام میں پڑ جانے کے خوف سے چھوڑ دیتے تھے اور حضرت سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ہم مباح کے ستر دروازے اس ڈر سے چھوڑ دیتے ہیں کہ کہیں گناہ میں ملوث نہ ہو جائیں۔ ان حضرات کی اس قدر احتیاط رسول اللہ صلے اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے اس فرمان کی روشنی میں تھی کہ ” آگاہ ہو جاؤ کہ یقیناً ہر بادشاہ کی ایک مخصوص چراگاہ ہوتی ہے ، اور اللہ کی چراگاہ اس کی حرام کی ہوئی چیزیں ہیں ۔ پس جو شخص اس کے ارد گرد پھرے گا ہو سکتا ہے اس میں جا پڑے ۔ جو شخص بادشاہ کے قلعے میں داخل ہو اور پہلے ، دوسرے تیسرے دروازے سے گزر کر بادشاہ کی چوکھٹ کے قریب ہو جائے یہ آدمی اس شخص سے ہر لحاظ سے بہتر ہے جو پہلے دروازے سے باہر میدان میں کھڑا ہے۔ اس لیے اس پر اگر تیسرا دروازہ بند بھی کر لیا جائے تو اسے کوئی ضرور نہیں ہو گا کیونکہ وہ تینوں دروازے عبور کر کے اس جگہ پہنچ چکا ہے جس کے قریب شاہی خزانہ اور فوج ہے۔ لیکن اگر پہلے دروازے پر کھڑے آدمی پر دروازہ بند کر دیا جائے تو وہ چٹیل میدان میں تنہا رہ جائے گا اور اسے کوئی بھیٹر یایا دشمن پکڑلے گا اس طرح وہ ہلاک ہو جائے گا۔ اور اس طرح جس آدمی نے عزیمت کی راہ اختیار کی اور ثابت قدمی سے اس پر عمل کیا اگر اس سے توفیق اور حال کی نگہداشت کی امداد روک لی جائے اور اس سے عنایت الہی منقطع ہو جائے تو اسے رخصت حاصل ہو گئی، لیکن وہ دائرہ شریعت سے نہیں نکلا جب وہ اس حالت میں فوت ہو جائے گا تو اسے طاعت و عبادت ہی پر تصور کیا جائے گا اور اس کے عمل صالح کی شہادت دی جائے گی ۔ اور جو شخص ہمیشہ رخصت پر ہی رہا عزیمت کی طرف نہ بڑھاگر اس سے توفیق اور اعانت سلب کر لی جائے اس پرشهوات و خواہشات نفس غالب آجا ئیں جس کے نتیجے میں حرام چیز کھالے تو وہ شریعیت سے نکل کر شیاطین خدا کے دشمنوں اور گمراہوں کے گردہ میں داخل ہو جائیگا اور اگر تو بہ سے پہلے فوت ہو جائے تو وہ ہلاک ہونے والوں میں شمار ہوگا مگر یہ کہ اللہ تعالے اسے اپنے فضل ورحمت میں ڈھانپ لے، یادرکھو کہ رخصتوں پر عمل کرنے میں سراسر خطرہ ہے اور عزیمیت پر عمل کرنے سے مکمل سلامتی ہے۔
مقالہ نمبر 36
دین راس المال ہے اور دنیا اس کا نفع
حضرت غوث صمدانی رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں: دین کے کاموں کو جن کا ثواب آخرت میں حاصل ہوتا ہے اپنا راس المال بنا لو اور دنیا کے کاموں کو جن کے ساتھ زندگی بسر کی جارہی ہے اس کا نفع جانو ۔ پہلے اپنے وقت کو آخرت حاصل کرنے میں خرچ کر وہ پھر جو وقت فارغ ہو اسے اسباب معیشت کی طلب میں دنیا حاصل کرنے کے کام میں لاؤ اس کے برعکس دنیا کو راس المال اور آخرت کو اس کا نفع نہ بناؤ ۔ پھر اگرکچھ وقت ملے تواسے آخرت کے کاموں میں صرف کرو اور اس فارغ وقت میں پنجگانہ نماز اس طرح جلدی کے ساتھ ادا کرو کہ ارکان مکمل ادا نہ ہوں اس کے واجبات غیر معتدل باہم مخالف ہوں رکوع و سجود مکمل ادا نہ ہوں اور ارکان کی ادائیگی کے وقت اطمینان مفقود ہو، یا نماز ادا کرنے کے وقت سستی اور تھکاوٹ کا بہانہ بنا کر نمازوں سے رات کو ایسے سور ہو جس طرح مردا ر پڑا ہوتا ہے اور دن کو بیکار رہو ، نفس و ہوا اور اپنے شیطان کی پیروی کرتے رہو اور اپنی آخرت کو دنیا کے بدلے بیچ ڈالو ۔ اے نفس کی غلامی کرنے والے اس کی سواری اور مرکب بننے والے تمہیں تو حکم دیا گیا ہے کہ اس کی تہذیب و اصلاح کرواریاضت کے ذریعے اسے رام کرو اور اس پر سوار ہو کر سلامتی کے راستوں پر چلو جو کہ آخرت کے اور مولیٰ کریم کی اطاعت کے راستے ہیں۔ تم نے یہ بڑا ظلم کیا ہے کہ حق کو چھوڑ کر نفس کی غلامی قبول کرلی نفس کی لگام اس کو تھمادی اور خواہشات و لذات کی پیروی کرتے ہیں ۔ شیطان کی موافقت اختیار کر لی ۔ یوں تم سے دنیا و آخرت دونوں کی بہتری فوت ہوگئی ، اس کی جگہ خسارے نے لے لی قیامت کے روز اس طرح آؤ گے کہ عمل کے اعتبار سے مفلس ترین اور دین کے حوالے سے سب سے زیادہ خسارے والے ہوگے اور نفس کی اتباع کی وجہ سے دنیا میں بھی تمہیں قسمت سے زیادہ کچھ نہ ملا ۔ اور اگر تم دین کے راستے پر چلتے ہوئے آخرت کو اپنا راس المال بنا لیتے تو تمہیں دنیا و آخرت میں نفع ہوتا اور تمہاری قسمت کا جو کچھ تمہیں دنیا میں ملنا تھا وہ تمہارے لیے خوشگوار اور خوش آئند ہوتا اور تم آفات دنیا سے محفوظ عزت و کرامت کے ساتھ زندگی گزارتے ۔ جس طرح کہ حضور اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اللہ تعالے آخرت کے ثواب کی نیت پر دنیا میں نعمت و راحت عطا کرتا ہے اور دُنیا کے ارادے پر آخرت کا ثواب نہیں دیتا اور ایسا کیوں نہ ہو حالانکہ آخرت کی نیت اللہ تعالیٰ کی عبادت ہے کیونکہ نیت عبادت کی بہ نسبت روح کا حکم رکھتی ہے ، بلکہ نیت عین عبادت اور حقیقت عبادت ہے ۔ پس جب تم دنیا سے بے رغبتی اور آخرت کی طلب کرتے ہوئے اللہ تعالے کی اطاعت کرو گے تو تم اللہ تعالے کے خاص اہل طاعت و محبت میں شامل ہو جاؤ گے اور تمہیں ثو اب آخرت بھی حاصل ہوگا جو کہ جنت اور اللہ تعالے کا قرب خاص ہے اور دنیا تمہاری چا کری کرے گی ۔ اس طرح تمہیں دنیا کا نصیب بھی پورا پورا مل جائے گا کیونکہ ہر چیز اپنے خالق و مالک اللہ عز وجل کے تابع ہے اور اگر تم آخرت سے روگردانی کرتے ہوئے دنیا میں مشغول ہو گئے تو خدا تم سے ناراض ہوگا آخرت کی بھلائیوں سے محروم ہو جاؤگے اور دنیا سرکشی کرتے ہوئے تم پر تنگ ہو جائے گی ، اور خدا کے قہر کی وجہ سے دنیا کا نصیب تم تک پہنچنے میں تمہیں خوب مشقت میں ڈالے گا، کیونکہ دنیا خدا کی مملوک ہے اس کے نافرمان کی توہین کرتی ہے اور اس کے فرمانبردار کی غلامی کرتی ہے ؟ اس وقت رسول معظم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا یہ قول صحیح ثابت ہوگیا کہ دنیاو عقبے دوسوکنیں ہیں اگر ایک کو خوش کرو گے تو دوسری کو ناراض کر بیٹھو گے ۔ رب کریم کا ارشاد ہے کہ تم میں سے کچھ دنیا کے طالب میں اور کچھ آخرت کا ارادہ رکھتے ہیں ، اسی لیے دنیا کے طالبوں کو ابناء دنیا اور آخرت کی خواہش رکھنے والوں کو ابناء آخرت کہا جاتا ہے ۔ پس تمہیں غور کرنا چاہئے کہ تم ابناء دنیا سے ہو یا ابناء آخرت سے ، اور دنیا میں رہتے ہوئے کس گروہ میں شامل ہونا پسند کرتے ہو، پھر جب تم آخرت کی طرف لوٹو گے تو اس دن ایک گروہ جنت میں ہوگا اور دوسرا دوزخ ہیں، اور ایک گروہ اپنے حساب کی طوالت کی وجہ سے حشر کے میدان میں کھڑا رہ جائیگا اس دن کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے وہ دن تمہارے شمار کے مطابق پچاس ہزار سال کا ہوگا ۔ اور بعض نسخوں میں اس طرح ہے اس دن میں جو تمہاری گنتی کے مطابق ہزار سال کا ہوگا ۔ اور ایک گروہ عرش رحمن کے سایہ میں مقیم ہو گاجن کے سامنے دستر خوان پر انواع و اقسام کے کھانے اور برف سے زیادہ سفید شہد ہوگا۔ جیسا کہ حدیث پاک میں آیا ہے وہ لوگ میدان محشر میں کھڑے اپنی جنت کی منازل دیکھ رہے ہوں گے ۔ جب اللہ تعالیٰ مخلوق کے حساب سے فارغ ہوگا تو یہ لوگ جنت میں داخل ہو کر اپنے مکانوں کی طرف اس طرح بڑ ھیں گے جس طرح کوئی آدمی دنیا میں رہتے ہوئے اپنے گھر کی طرف جاتا ہے ۔ یہ مقام و مرتبہ ان لوگوں کو اسی لیے حاصل ہوا کہ وہ دنیا کو چھوڑ کر خدا اور آخرت کی طلب میں مشغول ہو گئے۔ اور جن لوگوں کو حساب کتاب کے وقت مختلف سختیاں اور ذلتیں سہنی پڑیں اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ آخرت کو چھوڑ کر اس کی پروا کیے بغیر دنیا کی رغبت کرتے ہوئے اس میں مشغول ہو گئے۔ قیامت کو اور کتاب و سنت کے بیان کے مطابق کل کو جس طرف جانا تھا اسے بھول بیٹھے ۔ اس لیے نفس کی رحمت و شفقت کی نظر کرتے ہوئے دیکھو۔ ان دونوں گروہوں میں سے افضل کو اختیار کرو اور اسے شیاطین جن وانس ایسے برے ساتھیوں سے علیحدہ رکھو، اور کتاب و سنت کو اپنا پیشوا بنا لو، ان میں غور و فکر کرتے ہوئے ان پر کار بندر ہو ۔ قیل و قال اور ہوس پر مغرور نہ ہوگا اللہ عز وجل نے ارشا د فرمایا کہ یہ رسول جو تمہیں دیں وہ لے لو اورجس چیزسے روکیں اس سے رک جاؤ ” خدا کی نافرمانی سے بچو اور رسول کی مخالفت نہ کرو کہ آپ کے لائے ہوئے احکام پر عمل کرنا نہ چھوڑ دو ۔ اور اپنے لیے رسولِ خدا صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے فرمودات کے علاوہ کوئی عمل اور عبادت اختیار نہ کرو جو لوگ اپنی طرف عمل و عبادت کی اختراع کرتے ہوئے راہ راست سے ہٹ گئے ، ان کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ” اہل کتاب نے اپنی طرف سے رہبانیت نکال لی جو ہم نے ان پر فرض نہیں کی تھی پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو پاک کر دیا ہے اور باطل سے دور رکھا ہے اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا یہ نبی اپنی خواہش سے کوئی بات نہیں کرتے آپ کی بات وہی ہے جس کی آپ کی طرف وحی کی گئی ہو۔ یعنی یہ نبی تمہارے پاس جولے کہ آئے ہیں وہ میری طرف سے ہے اس میں ان کی خواہش اور نفس کا دخل نہیں ہے اس لیے آپ کی پیروی کرو ۔ پھر فرمایا ، اے میرے محب اور اے میرے محبوب ! کہہ دیجئے کہ اگر تم اللہ ہے سے محبت رکھتے ہوں تو میری پیروی کرو تا کہ وہ تمہیں اپنا دوست بنائے۔ پس اللہ تعالے نے بیان فرما دیا کہ محبت خدا تک پہنچانے والا راستہ قول و فعل میں آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی اتباع ہے۔ آقائے دو عالم نے ارشاد فرمایا کسب میرے ظاہر کی سنت ہے اور تو کل میرے باطن کی حالت ہے او کما قال ، اس لیے اسے طالب آخرت ! تم آپ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی سنت اور حالت کے درمیان کھڑے رہو اگر تمہارا ایمان کمزور ہے تو کسب کو وظیفہ بنا لو جو کہ سنت ہے اور اگر تمہارا اعتقادمحفوظ ہے تو تم آپ کی حالت یعنی تو کل پر عمل پیرا ہو جاؤ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: اور اللہ پر بھروسا کرو نیز فرماتا ہے ، جو شخص اللہ پر بھروسا کرے گا اللہ اسے کافی ہے۔ نیز فرماتا ہے : یقینا اللہ تعالے تو کل کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے ہی۔ چنانچہ اس نے تو کل کا حکم دے کر تنبیہ کر دی ہے جیسا کہ اس کے نبی نے تو کل کرنے کا حکم دیا ہے۔ اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے ایسا عمل کیا جس کے متعلق ہمارا حکم نہیں تو وہ عمل مردود و باطل ہے یہ یہ ارشا د نبوی تمام اقوال ، اعمال اور رزق کے لیے عام ہے؟ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بغیر ہمارا کوئی نبی نہیں ہے جس کی پیروی کریں اور نہ ہی کوئی کتاب ہے جس پر عمل پیرا ہوئی ۔ اے طالب و سالک ان سے باہر نہ نکلو ور نہ ہلاک ہو جاؤ گے اور نفس و شیطان تمہیں گمراہ کر دیں گے ۔ فرمان باری تعالے ہے ؟ اور خواہش کی پیروی نہ کر پس وہ تجھے اللہ کے راستے سے گمراہ کر دے گی ۔ نفس وشیطان کی آفات اور ضلالت و رسوائی سے سلامتی کتاب سنت پر عمل کرنے سے حاصل ہو گی۔ ان سے ہٹنے میں ہلاکت و تبا ہی ہے اور مومن کتاب وسنت کے احکام پر عمل کرکے ہی ولایت ، ابدالیت اور غوثیت کے مرتبے تک ترقی کر سکتا ہے۔
مقالہ نمبر 37
حسد کی مذمت
حضرت غوث اعظم رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا : اے تقدیر الہی اور قسمت ازل پر ایمان رکھنے والے ! میں تمہیں اپنے ہمسائے کے کھانے پینے لباس ، مکان ، نکاح اور اس کی نعمتوں اور غنا پر حسد کرتے کیوں دیکھتا ہوں اس کی قسمت میں وہی چیزیں ہیں جو تقسیم ازلی کے اعتبار سے اس کے حصے میں آچکی ہیں ، کیا تمہیں معلوم نہیں کہ حسد تمہارے ایمان کو کمزور کرنے والی چیزوں میں سے ایک ہے جو تجھے مولا کریم کی نظر عنایت سے گرا کر مبغوض بنا دے گی ۔ کیا تم نے رسول اللہ صلے اللہ تعالی علیہ وسلم کا ارشاد گرامی نہیں سنا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ حسد کرنے والا میری نعمت کا دشمن ہے اور کیا یہ حدیث بھی نہیں سنی کہ حسد نیکیوں کو اس طرح کھا جاتا ہے جس طرح آگ لکڑیوں کو کھا جاتی ہے۔ پھر اسے ضعیف الایمان اور سرمایہ فضل و رحمت سے محروم ! تو کس چیز پر حسد کرتا ہے اپنے نصیب پر یا دوسرے کے نصیب پر ۔ اگر تو اس بندے کے بارے میں خدا کی تقسیم پر حسد کرتا ہے جیسا کہ قرآن حکیم میں ہے ہم نے دنیا کی زندگی کے بارے میں ان میں ان کی معیشت کو تقسیم فرمایا ۔ تو اس پر ظلم کرتا ہے کیونکہ یہ آدمی تو اللہ تعالیٰ کی نعمت سے چلتا پھرتا ہے جس کی وجہ سے یہ فضیلت رکھتا ہے یہ صرف اس کے مقدر میں ہے اس میں کسی دوسرے کا حصہ نہیں ہے ۔ چنانچہ اسی صورت میں تم سے بڑا ظالم ، بخیل ، احمق اور کم عقل کون ہوگا ، اور اگر اپنی قسمت پر حسد کرو گے تو تمہاری انتہائی نادانی ہو گی کیونکہ تمہاری قسمت کا حصہ کسی دوسرے کو نہیں مل سکتا اور نہ ہی اس کی طرف منتقل ہو سکتا ہے ۔ ذات باری تعالیٰ اس بات سے پاک ہے اس کا ارشاد ہے ، میرے نزدیک حکم تبدیل نہیں ہوتا اور نہ میں اپنے بندوں پرظلم کرتا ہوں ۔ یقین رکھو کہ اللہ تعالے تم پر کبھی ظلم نہیں کرے گا کہ تمہاری قسمت اور مقدر کی چیزلے کرکسی اور کو عطا کرے۔ یہ محض تمہاری نادانی اور اپنے بھائی پر ظلم ہے ۔ پھر تمہیں اپنے بھائی پر حسد کرنے کی بجائے زمین پر حسد کرنا چاہیے جو کنوز و خزائن ، سونا چاندی اور انواع واقسام کے جواہر کی معدن ہے جوعادو ثمود ، قیصر و کسری اور دوسرے بادشاہوں سے جمع کئے تھے ، تمہاری مثال اس آدمی کی سی ہے جو پادشاہ کا غلبہ حشمت لشکر اراضی پر تسلط اور خراج کے مال کے انبارجمع ہوتے دیکھتا ہے اور پادشاہ کو ہر طرح کی نعمت اور لذات و شہوات میں کامران پاتا ہے، اس کے باوجود اس پر حسد نہیں کرتا پھر ایک جنگلی کتا دیکھتا ہے جو بادشاہ کے کتوں کی خدمت کے ذریعے ان کے ساتھ صبح وشام رہتا ہے ، بادشاہ کے مطبخ سے کتوں کا بچا ہوا کھانا کھا کہ زندگی گزارتا ہے اور تم اس سے حسد اور عداوت کا اظہار کرتے ہوئے اس کی موت کی تمنا کرتے ہو اور اپنی خست و دناءت (بخیلی و کمینہ پن) کے سبب اس جنگلی کہتے کی جگہ پر قائم ہونے اور جھوٹا کھانے میں اس کا جانشین ہونے کی آرزو کرنے لگا۔ تو کیا زمانہ میں اس (شخص) سے زیادہ احمق اور نادان اور جاہل کوئی مرد ہو گا ؟ اے مسکین ! اگر تو جان لے کہ تیراپڑوسی عنقریب کل قیامت کے دن درازی حساب سے کس چیز کو پہنچے گا ، اگر اس نے اللہ کی دی ہوئی نعمت پر اس کی اطاعت نہیں کی ہے، اور اس نعمت سے اس کا حق ادا نہیں کیا اس کا حکم بجا نہ لایا۔ اور اس کی منع سے اس کی دی ہوئی نعمت میں باز نہ رہا ۔ اور اس نعمت سے خدا کی طاعت و عبادت میں (اس نے) مددنہ لی تو وہ ایسی حالت کو پہنچے گا کہ قیامت کے دن آرزو کرے گا ، کاش کہ اس نعمت سے اُسے دنیا میں ذرہ برابر بھی نہ دیا جاتا اور وہ کسی نعمت کو کبھی کسی دن نہ دیکھتا کیا تو نے اس قول کو نہیں سنا جو حدیث میں وارد ہوا ہے کہ اصحاب بلیات کے ثواب کو دیکھ کر جماعتیں قیامت کے دن (یہ) آرزو کریں گی کاش ان کا جسم دنیا میں قینچیوں سے کاٹا جاتا ” پس تیراپڑوسی کل اپنی درازی حساب اور جھگڑے اور دنیا میں قسمت سے (اپنے) نفع اٹھانے کے سبب قیامت کے دن پچاس ہزار برس آفتاب کی گرمی میں اپنے کھڑے رہنے کو دیکھ کر آرزو کرے گا کاش کہ دنیا میں وہ تیری جگہ مصیبت. کا مارا ہوتا، مگر تو ( اس دن) ان تکالیف (و آفات) سے علیحدہ عرش کے سایہ میں اکل و شرب کرنے والا ناز و نعمت یافته آسوده (فرحان و شادان) رہے گا دنیا کے شدائد تنگی اور آفات اور محتاجی پر مہر اور اپنی قسمت پر (بہر حال) راضی رہنے کی وجہ سے اور تیرے (دنیا میں جن امور کو اللہ نے تدبیر و حکم کیا تھا مثلاً) تیری ذلت (تیرے غیر کی عزت، تیری تنگی غیر کی فراخی تیری بیماری غیر کی تندرستی تیری محتاجی غیر کی تونگری (ان سب) میں اپنے پروردگار (کی مرضیات سے تیرے موافق رہنے کے سبب سے (تو زیر سایہ عرش اس قدر راحت و انعام یافتہ ہو گا پس اللہ ہمیں اور تمہیں اُن لوگوں میں سے بنائے جنھوں نے بلا پر صبر اور نعمتوں پر شکر کیا۔ اور (اپنے تمام کام کوما لک زمین و آسمان پر چھوڑا اور اسی کے سپرد کیا ۔
مقالہ نمبر 38
صدق و نصیحت
حضرت غوث اعظم رضی لله تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ جس شخص نے اپنے مولا کے ساتھ سچائی اور خلوص کے ساتھ معاملہ کر لیا وہ صبح و شام ماسوی اللہ سے نفرت کرتا ہے ۔ اے قوم! اس چیز کا دعوی نہ کرو جو تمہارے پاس موجود نہیں ہے ، خدا کی وحدانیت پر یقین رکھو ، دنیا و آخرت اور نفس وخلق سے کسی چیز کو اس کا شریک نہ ٹھہراؤ ، قضا و قدر کے تیروں کا نشانہ بن جاؤ جو تمہیں صرف زخمی کرنے کے لیے پہنچتے ہیں ہلاک کرنے کے لیے نہیں، اور اگر ہلاک ہو بھی گئے تو جو شخص خدا کی یاد طلب محبت اور اس کے دین میں ہلاک ہو جائے تو اس کا اجر و بدل اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم کے ذمے لازم ہے۔
مقالہ نمبر 39
وفاق ، شقاق، نفاق
حضرت سرکار بغداد رضی اللہ تعالی عنہ نے ارشاد فرمایا کہ کوئی چیز حکم خداوندی کے بغیر لینا گمراہی اور حق تعالی کی مخالفت ہے، اور خواہشات کے بغیرلینا خدا کی موافقت اور سازگاری ہے۔ اور ایسی چیز کو چھوڑ دینا ریاء و نفاق ہے۔
مقالہ نمبر 40
روحانی لوگوں میں داخلے کا طریقہ
حضرت شاہ جیلان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ جب تک سارے احکام بشریت اور صفات جسمانیت کے مخالف اپنے اعضاء و جوارح سے جد ااپنے وجود ، حرکات و سکنات سننے دیکھنے، بولنے ، پکڑنے سعی اور عمل سے تنہا نہ ہو جاؤ ۔ روحانی لوگوں کی جماعت میں داخل ہونے کی امید نہ رکھوان میں داخل ہونے کے لیے اپنی عقل ، روح پھونکے جانے سے قبل کی اشیاء اور نفخ روح کے بعد پیدا ہونے والی چیزوں سے علیحدہ ہونا ضروری ہے کیونکہ یہ سب اشیا رب کریم کے قرب سے حجاب بنتی ہیں ۔ جب تم خالص روح بن گئے تو ” سر السر اور غیب الغیب بن جاؤ گے اور اپنے اسرار میں ہر شے سے علیحدہ ہو کر اس کو دشمن اور ظلمت و حجاب جاننے لگو گے ، جیسا کہ حضرت ابراہیم خلیل الرحمان علیہ الصلوۃ والسلام نے بتوں کے بارے میں فرمایا کہ یہ بت میرے دشمن ہیں مگر پروردگار عالم میرا دوست ہے۔ اسی طرح تم وجود کے تمام اجزاء اور تمام مخلوق کو بت تصور کر کے ان میں سے ہرگز کسی کی اطاعت اور پیروی نہ کرو اس وقت تمہیں علوم لدنی اور اسرار و غرائب کا امین بنا دیا جائیگاتکوین اورخرق عادات کی طرح کے امور تمہیں سونپ دئیے جائیں گے جو قدرت الہی کے قبیل سے ہیں اور وہ اہل ایمان کو جنت میں ملے گی ، پھر تمہاری یہ حالت ہوگی جیسے تمہیں مرنے کے بعد دوبارہ آخرت میں زندہ کیا گیا ہے اور تمہارا سارا وجود اللہ تعالے کی قدرت کا مظہر بلکہ عین قدرت بن جائے گا۔ تم خدا کے ساتھ سنو گے ، اسی کے ساتھ دیکھو گے بولو گے ، اسی کے ساتھ پکڑو گے ، اسی کے ساتھ چلو گے ، اسی کے ساتھ غور وفکر کرو گے اور اسی سے اطمینان اور سکون حاصل کرو گے ، خدا کے ماسوا ہر چیز سے اندھے اور بہرے ہو جاؤگے حق تعالی کے سوا کسی کا وجود دیکھ نہیں سکو گے اس حالت کا صحیح طور پر اعتبار اس وقت ہوگا جب اس کے ساتھ حدود شرعیہ کی حفاظت اور اوامر نہی کی پابندی بھی ہوگی اور ان میں سے کوئی چیزگم ہوگئی تو جان لینا کہ تمہیں فتنے میں ڈال دیا گیا ہے اور شیاطین تمہارے ساتھ کھیل رہے ہیں ۔ چنانچہ تم اسی وقت شرعی حکم کی طرف رجوع کرو اور کبھی اس سے جدا نہ ہو اور ہوا و ہوس کو چھوڑ دوجس حقیقت پر شریعت گواہ نہ بنے اور اسے ثابت نہ کرے تو وہ حقیقت زند قہ ہے۔
مقالہ نمبر 41
غنا اور اس کی کیفیت
حضرت شاہ جیلانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ اے طالب !ہم تونگری کی ایک مثال بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہم نے اس بادشاہ کو نہیں دیکھا جس نے عوام الناس میں سے کسی آدمی کو شہر کی حکومت سونپی اس کو خلعت سے نوازا ، اس کے لیے چھوٹے اور بڑے پرچم بلند کئے ، نقارہ ، طبل اورلشکر عطا کیا ۔ ایک طویل مدت تک وہ اس منصب پر رہنے کے بعد سمجھا کہ یہ سب کچھ دائمی ہے ۔ خود پسندی کا شکار ہو کر مفلسی بے قدری، ذلت وفقر اور گمنامی کی پہلی حالت بھول بیٹھا ۔ اس کے نفس میں کبر و نخوت آگئی ۔ اس خوش وقتی میں بادشاہ کی طرف سے معزولی کا حکم آگیا، پھر بادشاہی کا امرو نہی میں تجاوز کر نے پر اور دوسرے بڑوں کے ارتکاب پر محاسبہ کیا گیا۔ اس کی سزا میں انتہائی تنگ و تاریک قید خانے میں طویل مدت کے لیے محبوس کر دیا ۔ اس کی تکلیف اور ذلت و فقر نے دوام پکڑلیا یہاں تک کہ اس کا کبر و نخوت جاتا رہا ، اس کا نفس شکستہ اور خواہشات کی آگ سرد ہوگئی ۔ یہ تمام معاملہ بادشاہ کے سامنے ہوا۔ پھر وہ اس پر رحمت رافت کی نظر کرتے ہوئے قید خانے سے نکالنے ، اس کے ساتھ احسان کرنے، اسے خلعت عطا کرنے اور اسے پہلی حکومت اور اس کی مثل اور حکومت دینے کا حکم دیتا ہے اور یہ اسے ہبہ کر دیتا ہے اور یہ ولایت اس کے پاس دائمی طور پر صاف با کفایت اور خوش گوار انداز میں مل جائے ۔ بالکل یہی حالت ایک مومن کی ہے اللہ تعالے جب اسے اپنا مقرب اور نعمت و کرامت کے ساتھ برگزیدہ بنا لیتا ہے تو اس کے دل کی نگاہ پر اپنی رحمت اور فضل و احسان کے دروازے کھول دیتا ہے وہ ایسی چیزوں کا مشاہدہ کرتا ہے جنہیں نہ کسی آنکھ نے دیکھا ہوتا ہے نہ کسی کان نے سنا ہوتا ہے اور نہ ہی کسی انسان نے اس کے متعلق تصور کیا ہوتا ہے۔ یہ انسان غیبی امور اور زمین و آسمان کی عجیب و غریب چیزوں کو دیکھتا ہے۔ اسے قرب خداوندی کی منزل ملتی ہے لذیذ و لطیف کلام ، وعدہ جمیل، محبو بیت اجابت دعا ، تصدیق ، ایفائے عہدہ اور کلمات حکمت اس کے دل پر القاء کیے جاتے ہیں۔ ان کلمات کو اللہ تعالے کی عظمت و کبریائی کے بلندمقام سے لا کر اس کی زبان پر ظاہر کیا جاتا ہے ۔ ان نعمتوں کے علاوہ اس کے ظاہر پر انعامات کئے جاتے ہیں اس کے جسم اور اعضا اس کے کھانے پینے ، پہننے نکاح بطریق عزیمیت و رخصت ، احکام دین اور جوارح کے ساتھ تعلق رکھنے والے اعمال پر نعمتوں کی بارش ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے مجذوب بندہ کو ہمیشہ اسی حالت پر رکھتا ہے یہاں تک کہ وہ مطمئن ہو کر مغرور ہو جاتا ہے اور اسے ہمیشہ قائم رہنے والی اعتقاد کر لیتا ہے تو اللہ تعالے اس پر طرح طرح کی آزمائشوں جان و مال اور اہل و عیال کی تکالیف کے دروازے کھول دیتا ہے پھر اس سے تمام نعمتیں منقطع ہو جاتی ہیں تو وہ حیران ، حسرت زدہ دل شکستہ اور دوستوں سے کٹ کر رہ جاتا ہے ۔ اگر اپنی ظاہری حالت دیکھتا ہے تو اُسے برا محسوس کرتا ہے اور اگرقلب و باطن کی طرف توجہ کرتا ہے تو وہ اندوہناک نظر آتی ہے ، اگر اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں مصائب و آلام ختم کرنے کی دعا کرتا ہے تو شرف قبولیت نہیں پاتا اور اگر وعدہ جمیل کی طلب کرتا ہے تو اس کی جلد تکمیل نہیں ہوتی ۔ اگر بالفرض کسی چیز کا وعدہ کیا جاتا ہے تو اس کے پورا ہونے کے متعلق مطلع نہیں کیا جاتا ۔ اگر کوئی خواب دیکھتا ہے تو اس کی تعبیر و تصدیق پر کامیابی نہیں پاتا ۔ اگر اپنے درد کے علاج و تدبیر کی خاطر مخلوق کی طرف توجہ کرتا ہے تو اس کا راستہ نہیں پاتا ، اگروہ حکم شریعت میں توفیق واشارہ کے ساتھ رفعت ملنے پر عمل کرتا ہے تو اس کی سزا جلد ہی پا لیتا ہے لوگوں کے ہاتھ اس کے جسم کی طرف اور زبانیں اس کی عزت کی طرف بڑھتی ہیں اگر وہ قرب و برگزیدگی اورظاہر و باطن کی نعمتوں سے پہلے والی حالت کی طرف لوٹنا چاہتا ہے تو اس کی یہ خواہش پوری نہیں ہوتی ۔ اور اگر موجودہ تکلیف اور بلا کی حالت میں راضی اور خوش رہنے اور اس سے لطف اندوز ہونے کی آرزو کرتا ہے تو یہ بھی پوری نہیں ہوتی ۔ ایسے میں نفس پگھلنے لگتا اور ہوائے نفس زائل ہونے لگتی ہے ارادہ و خواہشات کوچ کرنا شروع اور ہستیاں نابود ہونے لگتی ہیں ۔ پھر اس کے لیے مسلسل یہ حالت رہتی ہے بلکہ اس میں مزید اور اضافہ کیا جاتا ہے یہاں تک کہ اس کی طبیعت کے لوازمات اور بشری تقاضے فنا ہو کر محض روح باقی رہ جاتی ہے اور اپنے باطن میں اس ندا کو سنتا ہے۔ جیسا کہ حضرت ایوب علیہ السلام کو ندا کی گئی تھی : اپنے پاوں کو حرکت دو اور زمین پر مارویہ نہانے اور پینے کا ٹھنڈا پانی ہے پھر اللہ تعالیٰ اس کے دل پر اپنی رحمت، توفیق عصمت اور انعامات کے دریا بہا دیتا ہے ، پھراللہ تعالیٰ اسے اپنی طرف سے راحت ، باد نسیم ، معرفت کی خوشبو اور اپنے علوم کے دقائق سے زندہ فرمائے گا اور اس پر اپنی رحمتوں اور نعمتوں کے دروازے کھول دے گا اور عامتہ الناس کو اس کی طرف متوجہ کر دے گا وہ ہر حال میں مال و دولت خرچ کر کے اس کی خدمت کریں گے لوگوں کی زبانوں پر ہر جگہ اس کی تعریف اور ذکر خیر ہوگا ۔ پاؤں ملاقات اور حصول برکت کے لیے اس کی طرف بڑھنا شروع ہو جائیں گے۔ لوگوں کی گردنیں اس کے سامنے جھک جائیں گی، بادشاہ اور ان کے مصاحب اس کے سامنے سرنگوں ہوں گے اور اسے ظاہری و باطنی نعمتوں سے کامل طور پر سرفراز کرتے ہوئے اس کے ظاہر کی تربیت مخلوق اور اس کی نعمتوں کے ذریعے کرے گا اور باطنی تربیت اپنے اطاعت وکرم سے کرے گا ۔ اور اس کا یہ مرتبہ مقام موت تک برقرار رہتا ہے پھر اللہ تعالی اسے وہ مقام عطا فرمائے گا جسے نہ کسی آنکھ نے دیکھانہ کسی کان نے سنا اور نہ کسی آدمی کے دل پر اس کا احساس ہوا جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے خود فرمایا، کسی کو اس بات کا علم نہیں کر ان کے اعمال کی جزا کے طور پر ان کے لیے آخرت میں کیا چھپایا گیا ہے جس سے ان کی آنکھیں روشن ہوں گی اور دل خوش ہوں گے۔
مقالہ نمبر 42
نفس کی دو حالتیں
حضرت شاہ جیلان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا : نفس کی دو حالتیں ہیں تیسری نہیں ، ایک عافیت کی حالت ہے ، دوسری بلاء و تکلیف کی ۔ جب نفس بلا کی حالت میں ہو تو گھبرا جاتا ہے شکایت کرتا ہے اور قضائے الہی سے ناخوش ہوتا ہے اعتراض کرتا ہے ۔ اور باری تعالیٰ پر اتہام تراشی کرتا ہے؟ اس میں صبر و رضا اور ارادہ الہی سے موافقت نہیں ہے بلکہ وہ بے ادبی کرتا ہے مخلوقات اور اسباب کو خدا تعالیٰ کا شریک ٹھہراتا اور کفر کرتا ہے، اور جب انتہائی مسرت و خوشی کرنا اور لذات و شہوات میں کھو جاتا ہے ۔ ایک خواہش کی تکمیل کے بعد دوسری کی تمنا کرنے لگتا ہے۔ اپنے پاس موجود نعمتوں کو حقیر سمجھتا ہے ان میں عیوب و نقائص نکال کر ان سے اعلیٰ اور روشن تر نعمتوں کی طلب ظاہر کرتا ہے اپنی قسمت کی چیز سے اعراض کرتا ہے ایسی چیز کی خواہش کرتا ہے جو اس کی قسمت میں نہیں ہوتی۔ اس طرح نفس انسان کو بڑی لمبی مصیبت میں ڈال دیتا ہے اور جو چیز اس کے پاس ہے اور اس کی قسمت میں ہے اس پر راضی نہ ہو کر سختیوں کا مرتکب ہو جاتا ہے اور ہلاکتوں کی جگہوں میں جا گرتا ہے دنیا میں جن کی سختیوں کی انتہا نہیں، پھر آخرت کی مشقت میں مبتلا ہوگا جیسا کہ کہا گیا ہے کہ سب سے زیادہ سخت عذاب یہ ہے کہ آدمی وہ چیز طلب کرے جو اس کی قسمت میں نہیں ہے اورجب نفس مصیبت میں مبتلا ہوتا ہے تو اس مصیبت سے نجات کے سوا کوئی اور خواہش نہیں کرتا ۔ تمام نعمتوں اور لذات و شہوات کو بھول جاتا ہے ان میں سے کسی کی آرزو نہیں کرتا اور جب اسے عافیت مل جاتی ہے تو پھر اس رعونت ، نشاط ، تکبر ، اطاعت مولیٰ سے اعراض اور گناہوں میں انہماک کی حالت کی طرف پھر جاتا ہے اور تمام گزشتہ مصیبتوں کو بھول جاتا ہے اسی صورت میں اسے پہلی سے زیادہ سخت تکلیفوں اور مصیبتوں میں ڈال دیا جاتا ہے تا کہ اس کی سرکشی اور اتنے بڑے گناہوں کی سزا دی جائے اور اسے آئندہ گناہوں سے روکا جائے کیونکہ یہ نفس نعمت عافیت کے لائق ہی نہیں بلکہ اس کی حفاظت مصائب و آلام کے شکنجے میں ہی ہوسکتی ہے پھر اگر تم نے مصیبتوں سے نجات کے وقت حُسن ادب سے کام لیتے ہوئے اطاعت و شکر اور اپنی قسمت پر رضا کو لازم کر لیا تو یہ دنیا و آخرت میں بہتر ہوگا نفس کے لیے نعمت و عافیت میں اضافہ ہوگا، اللہ تعالیٰ کی رضا و خوشنودی اور اسباب خیر کی توفیق کا مستحق بن جائے گا ۔ لہذا جو شخص دنیا و آخرت کی سلامتی چاہتا ہے تو اسے صبر و رضا سے کام لینا ہوگا اور مخلوق کے سامنے حق تعالیٰ کا شکوہ ترک کرنا ہوگا اس کی بجائے اپنی حاجات کو اللہ تعالے کے سامنے پیش کرنا طاعت و عبادت کا التزام کام کی کشادگی کا انتظار اور مخلوق سے انقطاع کرتے ہوئے مولا تعالیٰ کی طرف رجوع ہو گا کیونکہ اللہ تعالے باقی سب سے بہتر ہے بالفعل نعمت کا نہ پانا در حقیقت عطا ہے اس کا عذاب بندے کے لیے نعمت ہے، بلاؤں کا نزول نفس کا علاج ہے اور خدا کا وعدہ نقد ہے ، اس کا ادھار بھی نقد ہے اور اس کا قول فعل ہے ، وہ جب کسی شے کا ارادہ کرتا ہے تو وہ کہتا ہے” ہو جا ” تو وہ چیز ہو جاتی ہے ۔ تمام افعال خداوندی حسن اور حکمت و مصلحت کے عین مطابق ہیں لیکن ان حکمتوں اور مصلحتوں کو بندوں سے پوشیدہ رکھا ہے اور وہ انہیں جاننے میں یکتا ہے اس لیے بندے کے حال کے لیے لائق اور اس کے لیے اولی یہی ہے کہ حق تعالیٰ کے کاموں پر راضی رہے اور قضاء و قدر کے سامنے اپنی گردن جھکا دے ۔ اوامر و نواہی کی پابندی کرتے ہوئے حق عبودیت میں مشغول رہے احکام قضا و قدر کو تسلیم کرلے اور لوازم ربوبیت کو ترک کردے جور بوبیت جہاں میں اقدار کے وجود ان کے جاری ہونے کے مقامات اور ان کے اصول کی علت اور مقتضیٰ ہے اپنی تمام حرکات و سکنات میں لم ( کیوں ہوگا)۔ کیف (کیسے ہوگا )، اور متی (کب ہوگا) قسم کے سوال کرنے سے اور اللہ تعالے پر تہمت لگانے سے خاموشی اختیار کر ے۔ ہماری اس ساری گفتگو کا استناد حضرت عطا کے واسطے سے مروی حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالٰے عنہما کی اس روایت سے ہوتا ہے کہ آپ فرماتے ہیں کہ میں حضور صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے پیچھے اُونٹنی پر سوار تھا آپ نے اچانک فرمایا : اے غلام ! تم خدا کے حق کی حفاظت کرو اللہ تعالی تمہارے حق کی حفاظت کرے گا۔ علم و حضور او رمعیت باری تعالے کے مراقبے کے ساتھ خدا کی حفاظت کرو تو اس کو امداد و اعانت اور سعادت کے ساتھ سامنے پاؤ گے۔ اگر کسی حاجت کا سوال کرنا چاہتے ہو توخدا سے سوال کرو ۔ اور جب اپنے کاموں میں امداد چاہتے ہو توخاد سے طلب کرو ، تقدیرات اور احکام قضا و قدرلکھ کر قلم خشک ہو چکا ہے اگر ساری مخلوق احکام قضا و قدر کے خلاف تجھے کچھ نفع پہنچانا چاہے تو نہیں پہنچا سکتی ۔ اور اسی طرح اگر نقصان پہنچانے کی بھر پور کوشش کریں تو اس کی استطاعت نہیں رکھتے۔ اگر تمہارے اندر یقین صادق کے ساتھ خدا کے لیے کام کرنے کی استطاعت ہے تو کام کرو اور اگر استطاعت نہیں تو مکروہات پر صبر میں بہت زیادہ بھلائی ہے ۔ یہ جان لینا چا ہئیے کہ نصرت حق مصیبت پر صبر و ثبات سے حاصل ہوتی ہے اور دنیا و آخرت کے کام میں کشادگی غم و اندو ہ پر موقوف ہے اور یقینا تنگی کے ساتھ آسانی ہے اس لیے ہر مومن کو چاہیئے کہ اس حدیث کو اپنے دل کا آئینہ اپنے حال کا شعار و لباس اور موضوع سخن بنا لے اور اپنی تمام حرکات و سکنات میں عمل کرے یہاں تک کہ اللہ تعالی کے فضل و کرم دنیا و آخرت کی جمیع آفاق اور انفسی آفات سے محفوظ ہو جائے اور جہانوں میں کامیابی حاصل کرے۔
مقالہ نمبر43
غیر اللہ سے سوال کی مذمت
حضرت غوث اعظم رضی اللہ تعا لی عنہ نے فرمایا ، مخلوق سے وہی سوال کرتا ہے جو خدا تعالے سے بے خبر ہو، اس کے ایمان ، عرفان اور یقین میں ضعف ہو اور صبر کا مادہ کم ہو، اور غیر اللہ سے سوال کرنے سے وہی پر ہیز کرے گا جسے اللہ تعالی اور اس کی صفات کی کامل علم و معرفت حاصل ہوگی اس کے ایمان ویقین میں قوت ہو گی ایسا شخص اپنے رب کی معرفت اور یقین و ایمان کی اس حد تک پہنچ چکا ہے کہ ایک لمحہ بھر کے لیے بھی اس سے غافل نہیں ہوتا اور ماسوی اللہ سے سوال کرنے میں خدا و رسول جل جلالہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم سے حیا کرتا ہے۔
مقالہ نمبر 44
اہل معرفت کی دُعائیں کیوں قبول نہیں ہوتیں
حضرت شاہ جیلان رضی اللہ عنہ نے فرمایا : اہلِ معرفت کی تمام دعاؤں کی قبولیت اور ان سے کئے گئے تمام وعدوں کی تکمیل اس لیے نہیں ہوتی کہیں ان پر امید غالب نہ آجائے اور وہ ہلاک نہ ہو جائے کیونکہ امیدوبیم ہر حالت اور ہر مقام پر موجود ہیں اور یہ خوف و رجا پرندے کے دوپروں کی طرح ہیں جو ان کے بغیر کمال نہیں پاسکتا اس طرح کسی حال اور مقام میں خوف و رجا کے بغیر کمال و بقا نہیں آسکتا۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ ہر حال کا خوف و رجاء اس کے مطابق ہوگا چونکہ عارف اللہ تعالی مقرب ہوتا ہے اس لیے اس کا حال اور مقام یہ ہونا چاہئے کہ اس کے سوا کسی کا ارادہ و میلان نہ کرے ، نہ غیر کے ساتھ آرام و سکون نہ غیر سے انس رکھے۔ پس اپنے مدعا کے حصول اور وفائے عہد کی طلب کرنا طالب کا منصب نہیں ہے اور نہ ہی اس کے حال کے لائق ہے ، دُعا کی قبولیت اور ایفائے عہد نہ ہونے کی دو وجوہ ہیں ، ایک یہ کہ اُمید کا غلبہ نہ ہو اللہ تعالی کے استدراج سے غافل و مغرور نہ ہوا اور وہ پاس ادب سے غافل نہ ہو جا ئےاس طرح وہ ہلاک ہوجائیگا ۔ دوسری وجہ اللہ تعالے کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرانا ہے کیونکہ جہان میں بظاہر انبیاء کرام علیہم السلام کے سوا کوئی معصوم نہیں ہے ۔ چنانچہ اللہ تعالے اس کی دعا قبول نہیں کرتا اور وعدہ پورا نہیں کرتا تا کہ وہ بطریق عادت اور بشری تقاضے کے مطابق سوال نہ کرے اور دعا کے متعلق امر الہی کی طرف اس کا خیال نہ آئے کیونکہ اس طرح سوال کرنا شرک ہےاور شرک خفی طالبین و عارفین کی راہ میں قدم قدم پر اور ہر حال میں موجود ہے۔ البتہ جب سوال تعمیل حکم کے لیے ہو تو یہ نماز، روزہ اور دیگر فرائض و نوافل کی طرح قرب حق میں اضافہ کا سبب ہے کیونکہ عارف کا حکم ہونے کی صورت میں سوال کرنا تعمیل حکم ہے۔
مقالہ نمبر 45
نعمت وابتلاء
حضرت غوث الثقلین رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا : جان لو کہ لوگ دو طرح کے ہوتے ہیں ایک وہ جنہیں نعمتیں عطا کی گئی ہیں، دوسرے وہ جنہیں خدا کے حکم سے مصائب میں مبتلا کیا جاتا ہے لیکن جنہیں نعمتیں ملتی ہیں وہ ان نعمتوں میں کدورت اور تیرگی سے خالی نہیں ہیں ۔ وہ ان نعمتوں سے بہت آسائش کی حالت میں ہوتے ہیں کہ اچانک تقدیر خداوندی سے طرح طرح کی بلائیں ۔ مصیبتیں ، مرضیس ، دردیں ، مال و جان اور اہل و عیال کی تکالیف شروع ہو جاتی ہیں جس سے ان کی زندگی مکدر ہو جاتی ہے وہ اس طرح ہو جاتا ہے گو یا کہ انہیں کوئی نعمت ملی ہی نہیں ، پھروہ نعمتوں اور ان کی حلاوتوں کو فراموش کر دیتے ہیں، اور اگر وہ مال وجاہ ، لونڈیوں اور غلاموں کے ساتھ غنی ہوں اور دشمنوں سے بے خوف ہوں تو وہ نعمتوں کی حالت میں اس طرح مگن ہوتے ہیں گویا کہ مصیبت کا وجود ہی نہیں، اور مصیبت کی حالت میں اس طرح مگن جاتے ہیں گویا کہ راحت بالکل ناپید ہے ۔ یہ سب مولا کریم سے بیخبری کی دلیل ہے ۔ اگر اسے یہ معلوم ہو جائے کہ اللہ تعالے جو چاہتا ہے کرتا ہے حالات واشیاء میں تغیر و تبدل کرنا ، تلخ و شیریں اور غنی و محتاج کرنا، بلندی پستی عزت و ذلت ، زندگی اور موت اور تقدیم و تاخیر سب اسی کے ہاتھ ہی ہے تو موجودہ نعمتوں پر کبھی اطمینان اور غرور نہ کرتا، اور مصائب و آلام کی حالت میں کبھی خوشحالی اور آرام سے مایوس نہ ہوتا ، نیز اس کی اس کیفیت میں دنیا کی حقیقت حال سے جہالت کا بڑا دخل ہے۔ دنیا کی حقیقت بلاؤں کا گھر ہے جو تلخیوں ، جہالت، تکلیفوں اور کدورتوں کی جگہ ہے ۔ دُنیا کی اصل مصیبت ہے اور بخلاف نعمت کے وہ ایک عارضی حال ہے۔ دُنیا مصبر کے درخت کی مانند ہے کہ ابتداء سخت تلخ ہے اور انتہائی منفعت اور خاصیت کے اعتبار سے میٹھا شہد ہے۔ کوئی آدمی اس کی شیرینی کو اس وقت تک نہیں پا سکتا جب تک اس کی تلخی کو نوش جان نہ کر لے ۔ کوئی شخص زہراب پئے بغیر شہد کو نہیں پا سکتا۔ جس شخص نے اس کی آفات پر صبر کیا اس کے لیے اس کی نعمتیں میسر ہوئیں، کیونکہ مزدور کی مزدوری اس وقت دی جاتی ہے جب اس کی پیشانی عرق آلود ہو ، اس کا جسم تھک جائے روح غمگین ، سینہ تنگ اور قوت زائل ہو ، اپنے جیسی مخلوق کی خدمت کرنے پر نفس خوار اور نفسانیت شکستہ ہو جائے ۔ جب مزدوران سب کڑواہٹوں کو پی لے تو یہ تلخیاں اس کے لیے اچھے کھانوں ، میووں، لباسوں اور راحتوں کی نوید لاتی ہیں اگرچہ بہت ہی کم ہوں ۔ دنیا کی ابتداء تلخی ہے جس طرح کہ شہد سے بھرے ہوئے برتن کے کناروں پر کڑواہٹ لگی ہو تو برتن کے نچلے حصے اور خالص شہد تک پہنچنے کے لیے اوپر کی تلخیوں سے گزرنا ضروری ہے اسی طرح جب بندہ اللہ تعالے کے اوامر کی پا بندی اور منہیات سے اجتناب پر صبر کرتے ہوئے تقدیر الہی کے سامنے سرتسلیم خم کر دے اور خود کو خدا کے سپر د کر دے۔ ان تلخیوں کو برداشت کرے اور ان کے بوجھ اٹھائے ، خواہش کی مخالفت کرتے ہوئے اپنی مراد کو چھوڑ دے ۔ اللہ تعالے اس کی آخری عمر پاکیزہ ، ناز و نعمت اور آرائش والی بنا دیتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ اسے اپنے لطف و کرم کے ذمے لے لیتا ہے دنیا و آخرت میں اس کی پرورش اس طرح کرتا ہے جیسے شیر خوار بچے کو ہر قسم کی تکلیف اور مشقت سے بچا کر اس کی پرورش کی جاتی ہے اور جس طرح کہ شہدکے اوپر لگی ہوئی تلخیوں کو برداشت کر کے اس کی تہہ میں میٹھے شہد تک پہنچ جاتا ہے لہذا انعام یافتہ آدمی کو اللہ تعالے کی خفیہ تدبیر و استدراج سے بے خوف اور اس کی نعمت پر مغرور ہو کر ان کے ہمیشہ رہنے کا جزم نہیں کرنا چاہئیے اور نہ ہی نعمت کے شکر سے غافل ہو کر نعمت کی زنجیر کو ڈھیلا کرنا چاہئے جیسا کہ حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نعمت ایک وحشی جا نور ہے اسے شکر کے ذریعے اسیر کر لو۔ چنانچہ مالی نعمتوں کے شکریہ میں اللہ تعالے فضل و انعام والے کے سامنے ان کا اعتراف اور ہر حال میں انھیں اپنے نفس سے بیان کرتے رہنا اور اسے محض اس کا فضل و احسان جاننا چاہئے۔ نعمت مال کا شکریہ ہے کہ بندوں کے سامنے اس پر اپنی ملکیت و فوقیت اور تکبر کا اظہار نہ کرے ، خداوندی حدود سے تجاوز نہ کرے اور مال کے بارے میں حکم خدا کو ترک نہ کر لے ، پھر مالی حقوق ، مثلاً کو ، کفارہ ، نذریں ، صدقہ ، مظلوم کی فریاد رسی محتاجوں کی مصیبت میں مبتلی حاجتمندوں کی امداد کرتا رہے ، حالات کی تغییر اور نیکیوں کی بدیوں کے ساتھ تبدیلی کے وقت یعنی نعمت و فراخی اور تنگ دستی و بیماری کی حالت میں یہ کام جاری رہے۔ اپنے اعضاء وجوارح میں عافیت کا شکر یہ ہے کہ طاعات میں ان سے مدد لے، اور حرام برے اور گناہ کے کاموں سے انہیں باز رکھے ۔ یہ نعمت کو کوچ کرنے سے روکنے والی قید ہے ، اور اس کے درخت کو سیراب کرنے والا پانی ہے اور شکر نعمت کے درخت کی شاخیں اور پتے نکالتا ہے ، پھل پکاتا ہے اللہ شیریں بناتا ہے۔ آخر تک درخت کو سلامت رکھتا ہے اور اس کے پھل کو چبانے اور نگلنے کو آسان اور لذیذ بناتا ہے۔ انجام کے اعتبار سے اسے خوش گوار اور جسم میں نشو و نما کا باعث بنتا ہے ۔ پھر اس کی برکت کے آثار اعضاء پر بے شمار طاعات و قربات اور اذکار کی صورت میں ظاهر ہوتے ہیں ۔ پھر آخرت میں اسے انبیاء ، صدیقین، شہدا ءاور صالحین جیسے بہترین رفقا کے ساتھہ اللہ تعالے کی رحمت اور ہمیشہ کی جنتوں میں ٹھہرایا جائے گا اور اگر آدمی شکر کرنے کی بجائے دنیا کی ظاہری زیب و زینت پر مغرور ہو جائے اس کی لذات اور ظاہری تروتازگی پر ذوق و اطمینان حاصل کرے ۔ ظاہری چمک دمک سے آرام پائے ۔ چونکہ دنیا کی ابتدا ذوق و سرور اور انجام میں شدت و محنت ہونے سخت موسم گرما کی صبح کی باد نسیم کی طرح ہے اور یہ ظاہر میں نقش و نگار اور نرمی رکھنے اور باطن میں تکلیف دہ ہونے میں سانپوں اوربچھوؤں کی طرح ہے تو وہ آدمی دنیا کے اندر پوشیدہ زہر ہائے قاتل اس کے مکروں ، لذتوں اور شہوتوں سے ولی مردم کوشکار کرنے والے جالوں سے بے خبر رہے گا جو کہ طالب دنیا کو گرفتار کر کے ہلاک کرنے کے لیے بچھائے گئے ہیں ایسے شخص کوکوہ عظمت و رفعت سے سیاہ تنزل میں گرنے کی مبا ر کبا د دی جانی چاہئے اسے ہلاکت اور دنیا میں ذلت و رسوائی کے ساتھ جلد ہی محتاجی اور آخرت میں بھڑکتی ہوئی آگ میں عذاب کی خوش خبری دی جانی چاہئے۔ لیکن مصیبت میں مبتلا آدمی کی بھی کئی صورتیں ہیں ، کبھی تو جرائم کی سزا کے طور پر مصیبتوں میں مبتلا کیا جاتا ہے، کبھی گناہوں کو مٹانے اور ان کے میل سے پاک وصاف کرنے کے لیے کفارے کے طور پر ایسا ہوتا ہے کبھی ارفع درجات اور علم دین و معرفت و قرب الہی کے اعلیٰ مراتب تک پہنچانے کے لیے ابتدا میں ڈالا جاتا ہے تاکہ اس طرح وہ قرب و معرفت الہی میں صاحبان احوال و مقامات علما کے زمرے میں شامل ہو جائے جن پر انواع واقسام کی مخلوقات کے رب نے کرم کیا اور آفات و بلیات کے میدانوں میں رفق اور الطاف خفیہ کی سواری عطا کی، اور ان کی حرکات و سکنات میں اپنی نظر لطف و کرم کی خنک ہواؤں سے آسائش بخشی ، کیونکہ ان کی اس ابتلاسے زجر و قہر کے ساتھ ہلاک کرنا مقصود نہیں تھا ، نہ انھیں جہنم کی پستیوں کی نذر کرنا مطلوب تھا لیکن اس کے ساتھ برگزیدہ اور اعلیٰ مراتب پر فائز کیا ۔ ان کے ایمان کی حقیقت کو آشکارا اور شرک خفی توحید اور تجرید و خفا کے کھوکھلے دعووں اور نفاق سے پاک کر دیا اور صفات قہر یہ جلالیہ نیز لطفیہ جمالیہ کے علوم اور اسرار اور انوار سے آراستہ کر دیا ۔ پھر جب یہ لوگ ظاہر و باطن کے اعتبار سے خالص اور ان کے اسرار پاکیزہ ہو گئے تو انھیں مخصوص مخلصوں میں شامل کر دیا جو کہ دنیا آخرت کے اعتبار بارگاہ رب العزت کے ملازم اور مجلس رحمت کے ہم نشین ہیں، دنیا میں اپنے قلوب کے ساتھ اور آخرت میں اپنے اجسام کے ساتھ کیا پس یہ آفتیں ان کے دلوں کو شرک خفی ، اسباب خلق کی آمیزش اور ارادہ و خواہشات کی میل سے پاک کرتی ہیں ۔ نفس و طبیعت کو سونے اور چاندی کی طرح پگھلا کر دعووں ، ہوسوں ، اطاعت کے عوض جنت الفردوس اور دیگر جنتوں میں درجات و منازل عالیہ کی طلب سے خالی کر دیتی ہیں جو ابتلا گناہوں کی سزا کے لیے ہوگی اس کی صورت میں ابتلا پر صبر کی بجائے مخلوقات کے سامنے شکوہ و شکایت کرے گا جو ابتلا معاصی اور جرائم کو مٹانے کے لیے کفارہ کے طور پر ہو اس میں دوستوں اور پڑوسیوں کے سامنے شکوہ و شکایت کی بجائے صبرجمیل سے کام لیتا ہے احکام کی پابندی اور اطاعت کی ادائی سے ملول نہیں ہوتا ہے اور جو ابتلاء بلندی در حیات اور حصول قرب و مراتب عالیہ کے لیے ہو، اس کی علامت یہ ہے کہ اللہ تعالی کے فعل و ارا دہ سے رضا و موافقت پائی جائے گی، اور نفس ذکر مولے سے اطمینان اور زمین و آسمان کے خالق و مالک کے فعل پر سکون پائے گا اور ایام و ساعات کے گزرنے کے ساتھ مصائب کے دُور ہونے تک ان میں فنا ہو جا ئے گا۔
مقالہ نمبر 46
حدیث قدسی سے ذکرو شغل کی فضیلت
حضرت شهنشاه بغداد رضی اللہ تعا لی عنہ نے فرمایا حدیث قدسی میں ہے، جس شخص کو میرا ذکر مجھ سے سوال کرنے سے روک دے تو میں اسے سوال کرنے والوں سے زیادہ دوں گا ۔ یہ اس لیے کہ جب اللہ تعالے کسی مومن کو مقبول و برگزیدہ بنانا چاہتا ہے تو اُسے مختلف احوال کی راہ پرچلاتا ہے اور طرح طرح کی بلا و مصیبت کے ذریعے اس کا امتحان لیتا ہے اور اسے تونگری کے بعد فقیر بنا دیتا ہے ، اس پر روزی کی راہیں بندکر کے مخلوق سے سوال کرنے پر مجبور کر دیتا ہے پھر اسے سوال سے بچا کر مخلوق سے قرض لینے پر مجبور کر دیتا ہے۔ پھر قرض لینے سے محفوظ کر کے کسب کی طرف مضطر کر کے اس پر کسب آسان کر دیتا ہے تو وہ سنت کے مطابق اپنے ک سب سے کھاتا ہے پھر یہ بھی اس پر دشوار کر دیتا ہے پھر اس کے بعد لوگوں سے سوال کرنے کا الہام کرتا ہے ۔ اس کا حکم امر باطن سے ہوتا ہے جسے مومن پہچان لیتا ہے۔ یہ حکم بجالانا اس کے لیے عبادت اور اسے چھوڑ دینا گناہ بنا دیتا ہے تا کہ اس طرح اس کی خواہش زائل اور نفس شکستہ ہو جائے ۔ یہ ریاضت کی ایک حالت ہے اس وقت اس کا سوال کرنا امر اور جبر کی وجہ سے ہوگا نہ کہ جبار کے ساتھ مشرک کے طریقے پر ، پھر اس کو سوال سے محفوظ کر کے پہلے کی طرح قرض مانگنے کا حتمی حکم دیتا ہے پھر اسے قرض مانگنے سے ہٹا کر مخلوق سے بالکل لا تعلق کر دیتا ہے اور صرف اللہ ہی سے سوال کرنے میں لگا دیتا ہے تو وہ اپنی تمام ضرورتیں اسی سے مانگتا ہے جو اس کو عطا کی جاتی ہیں اور اگر سوال کرنے سے اجتناب کرے اور چپ رہے تو اسے نہیں دیا جاتا پھر اسے زبان سے سوال کرنے کی بجائے دل سے سوال کرنے کی طرف پھیر دیا جاتا ہے تو وہ دل میں اپنی ہر حاجت طلب کرتا ہے جو اسے مل جاتا ہے اور اگر زبان سے سوال کرے یا مخلوق سے طلب کرے تو نہیں ملتی ، پھر اسے اپنی ذات اور زبان و دل سے کسی قسم کا سوال کرنے سے غائب کر دیا جاتا ہے اس کے بعد سوال، قرض کسب کے بغیر اور دل پر اس کا خطرہ آئے بغیر اس کو کھانے پینے اور پہننے کی اور انسانی زندگی کے لیے تمام ضروری چیزیں اس کو دی جاتی ہیں جس سے اس کی حالت بہتر اور کام درست ہوں ۔ اللہ تعالی اس کے کا موں کو اپنے ذمے لے لیتا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : بے شک میرا دوست اللہ ہے جس نے قرآن نازل کیا اور وہ نیکوکاروں کے کام کا اپنے لطف وکرم سے والی ہے ، اس وقت مقالہ کے شروع میں مذکور حدیث قدسی بھی متحقق ہو جاتی ہے ۔ یہی وہ حالت فنا ہے جو اولیا ء و ابدال کے حال کی انتہا ہے، پھر کبھی اسے تکوین اشیاء کی قوت دی جاتی ہے، تو تمام ضرورت کی چیزیں اللہ تعالے کے اذن سے پیدا ہو جاتی ہیں ا ور ایسے اللہ تعالے نے پہلی نازل کردہ کتابوں میں فرمایا : اے فرزند آدم ! میں ہی اللہ ہوں، میرے سوا کوئی معبود نہیں ، میں کسی شے کو کہتا ہوں” ہو جا“تو وہ ہو جاتی ہے، تو میری فرمانبرداری کر جس چیز کو کن ( ہو جا ) کہے گا تو چیز ہو جائے گی۔
مقالہ نمبر 47
تقرب الی الله
حضرت شاہ جیلان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ مجھ سے خواب میں ایک بوڑھے شخص نے سوال کیا کہ کس طریقے سے بندہ اپنے رب کا قرب حاصل کر سکتا ہے ؟ میں نے جواب دیا کہ تقرب حاصل کرنے کی ابتدا بھی ہے اور انتہا بھی ۔ اس کی ابتدا ورع و تقوی ہے یعنی حتی الوسع محرمات و مکروہات سے پر ہیز کرنا ، اور اس کی انتہا ء رضا ، تسلیم اور توکل ہے
مقالہ نمبر 48
مومن کے لائق اعمال
حضرت غوث اعظم رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا کہ مومن کو چاہیے کہ پہلے فرائض و واجبات ادا کرے ، فرائض کے بعد سنن مؤکدہ میں مشغول ہو پھران کے بعد نوافل و فضائل میں مشغول ہو۔ لیکن فرائض ادا کئے بغیر سنن و نوافل میں مصروف رہنا حماقت اور رعونت ہے۔ اگر فرائض سے پہلے سنن و نوافل میں مصروف ہوگا تو نا مقبول ہوں گے بلکہ اُسے ذلیل کیا جائے گا۔ اس آدمی کی مثال اس شخص کی ہے جسے بادشاہ اپنی خدمت پر مامور کرائے اور وہ اس کی بجائے اس امیر کی خدمت پر مستعد ہو پائے جو خود بادشاہ کا غلام ہے اور اس کےحکم و ولایت کے زیر نگین ہے۔ حضرت علی کرم اللہ وجہ سے روایت ہے حضرت رسالتماب صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ فرائض سے قبل نفل ادا کرنے والا اس حاملہ عورت کی مثل ہے جو بچہ ہونے کے قریب زمانے میں اسقاط حمل کرا دے ، وہ عورت نہ حاملہ ہے نہ ہی صاحب اولاد یہی حال ایسے نمازی کا ہے جس کے فرض ادا کئے بغیر تو افل قبول نہیں ہوتے۔ اسی طرح فرائض چھوڑ کر نفل پڑھنے والا تاجر کی طرح ہے جب تک وہ راس المال حاصل نہ کرے اسے نفع نہیں ہوگا ۔ اسی طرح جب تک فرائض ادا نہ کرے اس کے نوافل قبول نہیں ہوں گے۔ یہی حال اس شخص کا ہے جو سنت چھوڑ کر ان نوافل میں شروع ہو جائے جو فرائض کے لیے وظیفہ دائمی نہیں۔ نہ شارع علیہ السلام کی طرف سے ان پرنص کی گئی ہے اور نہ ہی انھیں ادا کرنے کی تاکید کی گئی ہے ۔ مسلمان پر فرض ہے حرام اور شرک سے مکمل اجتناب کرے ۔ اللہ تعالیٰ کی قضا و قدر پر اعتراض معصیات میں مخلوق کی فرمانبرداری اور اللہ تعالیٰ کی بندگی سے روگردانی مکمل طور پر ترک کردے۔ حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرتے ہوئے مخلوق کی اطاعت جائز نہیں ہے۔
مقالہ نمبر49
نیند کی برائی
حضرت شاہ جیلان رضی اللہ عنہ نے فرمایا ، جو شخص آگاہی کے سبب بھی بیداری کی بجائے نیند کو اختیار کرے وہ نہایت ادنی اور ناقص چیز کو پسند کرتا ہے ۔ اور نیند چونکہ موت کی بہن ہے اس لیے وہ تمام مصلحتوں سے بے خبر ہو کر مردوں سے پیوستگی چاہتا ہے اس لیے خداوند قدوس نیند سے ماورا ہے کیونکہ وہ تمام نقائص سے پاک ہے۔ ملائکہ بھی بارگاہ رب العزت کے قریب ہونے کی وجہ سے نیند سے دور نہیں، اور اسی طرح جنتی بہت بلند پاکیزہ نفیس اور اعلی مقام پر فائز ہوں گے تو اس پر نیند طاری نہیں ہوگی کیونکہ یہ ان کی حالت میں نقصان دہ ہے ۔ سب بھلائیاں بیداری میں اور سب برائیاں اور مصلحتوں سے بے خبری نیند میں ہے جو شخص اپنی خواہش کے مطابق ضرورت سے زیادہ خورد و نوش اور نیند میں مصروف رہے گا تو اس کے ہاتھ سے بہت سی بھلائیاں نکل جائیں گی جس نے تھوڑا سا بھی حرام کھایا تو وہ غفلت و ظلمت میں اپنی خواہش کے زیراثر بہت سا حلال کھانے کی طرح ہے، کیونکہ حلال ایمان کے حسن و جمال کو ڈھانپ لیتا ہے جس طرح کہ شراب عقل کو لپیٹ کر تاریک کر دیتی ہے ، اور جب ایمان بے نور ہو گیا۔ تو نہ نماز ہے نہ کوئی عبادت اور نہ ہی اخلاص ، اور جو شخص امر خداوندی سے بہت زیادہ کھائے ۔ گویا اس نے عبادت وقوت کی خوشی میں بہت تھوڑا کھایا ۔ پس حلال نور علی نور ہے اور حرام سراسر ظلمت ہے۔ اس میں ذرہ بھر بھلائی نہیں ہے۔ امرالہی کے بغیر اپنی خواہش سے حلال کھانا فی الجملہ حرام کھانے کی طرح ہی ہے جو نیند لاتا ہے لہذا اس میں خیر نہیں ہو سکتی۔
مقالہ نمبر 50
بعد دُور کرنے کا طریقہ
حضرت غوث صمدانی رضی اللہ عنہ نے فرمایا : تمھارا معاملہ دو قسموں سے خالی نہیں ہے یا اللہ عز وجل کا قرب نہیں ہوگا یا قرب و وصال حاصل ہوگا۔ اگر تقرب حاصل نہیں حظ وافر ، دائمی عزت و نعمت ، کفایت عظمی، سلامتی و تونگری اور دنیا و آخرت کی محبوبی حاصل کرنے میں اس قدر کوتا ہی اور سستی کیوں کرتے ہو ؟ اُٹھو اور اپنے دونوں بازووں کے ساتھ قرب خداوندی کی منزل کی طرف تیزی سے پرواز کرو – تمھارا ایک بازو حرام و مباح تمام لذات و شہوات اور ہر طرح کی آسائشوں سے کنارہ کش ہونا ہے ۔ اور دوسرا بازواذیتوں، سختیوں کو برداشت کرنا ، عزیمت اور مشکل تر کام بجالانا اور مخلوق ، خواہشات نفس اور دنیا و آخرت کے ارادوں سے نکل جانا ہے اس پرواز کے ساتھ تمھیں قرب و وصال خدا وندی حاصل ہو گا اور اس وقت تمہاری تمام تمنائیں پوری ہوں گی کرامتوں اور عزت و عظمت سے سرفراز ہو گے، اور اگر تم مقربین اور واصلین سے ہو جنہیں عنایت رعایت خداوندی حاصل ہے اور انہیں محبت الہی نے اپنی طرف کھینچ رکھا ہے اور انہیں رحمت و رافت نے لپیٹا ہوا ہے ۔ بارگاہ رب العزت کے آداب بجا لاؤ اس حالت پر مغرور نہ ہو جاؤ ۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ خدمت اور آداب میں تقصیر ہو جائے اور تم اپنی اصلی رعونت یعنی انجام کار سے بے خبری اپنی جان پر ظلم اور بے تامل امور میں عجلت کی طرف لوٹ آؤ ۔ قرآن حکیم میں ہے، بار امانت کو انسان نے اٹھا لیا بے شک وہ بڑا ظالم جاہل ہے ۔ نیز ارشاد ہوتا ہے؟ اور انسان جلد باز ہے۔ اور اپنے دل کو ترک شدہ چیزوں یعنی گرفتاری خلق ، خواہش نفس ، ماسوا کا ارادہ ، کسی فعل کا اپنے نفس کے لیے اختیار و تفکر اور نزول بلا کے وقت صبر ورضا اور موافقت کو ترک کرنا ، ایسے کاموں کی طرف مائل ہونے سے بچاؤ ، بلکہ خدا وند قدوس کے سامنے اس طرح ہو جاؤ جیسے گھڑ سوار کے سامنے گیند کہ وہ ہاکی کے ساتھ جس طرف چاہے پھینک سکتا ہے یا جس طرح غسل دینے والے کے سامنے مردہ یا ماں کی آغوش میں طفل شیر خوار اور چاہئے کہ غیر حق تعالے سے آنکھیں موند لو کہ تمھاری بصیرت کے مشاہدہ میں اللہ تعالیٰ کی ذات وصفات کے سوا کوئی اور نظر نہ آئے اور یہ یقین کر لو کہ غیر حق کا نفع و نقصان اور عطا و منع قطعاً داخل نہیں ہے تکلیف اور اذیت کے وقت اسباب دنیا اور مخلوق کو خدا تعالے کا تازیانہ سمجھو جس سے تمھیں مارپڑتی ہے، اور نعمت و عطا کے وقت اسباب دنیا اور مخلوق کو اس طرح جانو گویا خدا تعالے نے خود اپنے دست قدرت سے تمھیں کھلا دیا ہے۔
مقالہ نمبر 51
زہد کی حقیقت
حضرت شاہ جیلان رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ زاہد کو اقسام کے سبب دو ثواب ملتے ہیں، پہلا ترک اسباب پر، کیونکہ وہ اپنی خواہش اور موافقت نفس سے کچھ نہیں لیتا بلکہ محض امر کی تعمیل کرتا ہے۔ جب نفس سے اس کی مخالفت اور دشمنی ثابت ہو جاتی ہے ۔ اس کو محققین اہل ولایت میں شمار کرتے ہوئے ابدال و عرفاء کی صف میں داخل کر دیا جاتا ہے ۔ اس وقت اسے حکم ہوتا ہے کہ اپنی قسمت کی چیزیں پکڑ لو، کیونکہ وہ اس کے لیے تخلیق ہوئی ہیں اور خامہ قدرت سے اس لیے تحریر ہو چکی ہے اور روشنائی خشک ہوچکی ہے اورعلم ازلی میں ایسا ہی تھا۔ زاہد جب حکم کی تعمیل کرے یا باطنی علوم سے واقف ہو جائے تو اپنی قسمت کی چیزلے لیتا ہے کیونکہ تقدیر اور حکم الہی اسی طرح ہے اور اس میں اس کی ذات اور خواہش و طلب کا دخل نہیں ہے پھر اسے حکم الہی کی تعمیل یا اپنے علم کے مطابق لینے میں حق تعالی کے ساتھ موافقت پر ثواب کا دوسرا حصہ بھی مل جاتا ہے)
اعتراض ، جو شخص تمہارے ذکر کردہ بلند تر مقام پر فائز ہو ابدالوں عرفاء اور مقبولوں میں شمار ہو اور نفس اور مخلوق سے دُور ہو گیا ہو ۔ ارادوں خواہشات و لذات کو تج دے کر اعمال پر ملنے والے صلے سے خالی ہو گا ہو اور اپنی تمام عبادات و طاعات کو اللہ تعالیٰ کا فعل ، اس کی نعمت رحمت اور توفیق و تیسیر جانتا ہو اور اپنے آپ کو خدا کا غلام تسلیم کرتے ہو ، اور غلام کا آقا پر کسی قسم کاحق نہیں ہوتا اور غلام کی ہر حرکت و سکون اور ہر کسب صرف آقا ہی کے لیے ہوتا ہے اور وہ آقا کی ملک ہوتا ہے اس پر تم ثواب کا حکم کس طرح لگا سکتے ہو ، جبکہ وہ خود ثواب طلب نہیں کرتا اور اپنے اعمال کا معاوضہ نہیں چاہتا اور کسی عمل کو اپنی طرف سے نہیں دیکھتا بلکہ وہ سمجھتا ہے کہ وہ ناکارہ ہے اور اعمال سے بالکل خالی ہے
جواب ، تم ٹھیک کہتے ہو حقیقت یہی ہے مگراللہ تعالیٰ محض اپنے فضل و کرم سے اس کو ثواب عطا کرتا ہے ، ناز و نعمت سے رکھتا ہے اور اپنے لطف و کرم اور کمال مہربانی سے اس کی تربیت فرماتا ہے یہ اس لئے ہے کردہ اپنے نفسی مصالح اور دنیا وی تدابیر چھوڑ چکا ہے آخرت میں رکھے ہوے حظ نفس کے سامان لذت و منفعت کے حصول اور ضرر و نقصان کے دفعیے سے اس طرح جدا ہے جس طرح کہ طفل شیر خوار اپنی مصلحتوں کے لیے کچھ نہیں کر سکتا کر اللہ تعالے اپنے فضل و کرم سے اس کے والدین کو اس کا رزق عطا کرکے انہیں اس کی کفالت کا ذمہ دار بنا دیتا ہے۔ جب بندہ ذاتی مصلحتوں سے بالکل فانی ہو جاتا ہے ۔ اس پر مخلوق خدا کی رغبت دلائی جاتی ہے اور لوگوں کے دلوں میں اس کے لیے رحمت ور افت پیدا کر دی جاتی ہے اور تمام لوگ اس کے ساتھ مہر بانی کا سلوک کرتے ہیں اور رغبت و احسان کے ساتھ پیش آتے ہیں ، اور یہ عطائیں ہر اس شخص کے لیے ہیں جو فعل خداوندی اور امرالہی کے سوا کسی اور کی طرف متوجہ نہیں ہوتا اور دنیا و آخرت میں اللہ تعالی کے ساتھ واصل ہوں، اسے اذیتوں سے بچا کرنا زو نعمت کے ساتھ رکھا جاتا ہو اور اللہ تعالیٰ تو اس کے امور کا متولی ہوا۔ اللہ تعالے نے اپنے حبیب مکرم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کو حکم دیا کہ یوں کہئے؟ بے شک میرا دوست اللہ ہے جس نے کتاب اتاری ۔ اور وہ صالحین کو دوست رکھتا ہے “
مقالہ نمبر 52
ابتلاء مومنین
حضرت سرکار بغداد رضی اللہ عنہ نے فرمایا : اللہ تعالے مومنین کے ایک گروہ کو جو محبوبان الہی اور صاحبان ولایت و معرفت ہیں اس لیے ابتلا میں ڈالتا ہے تاکہ وہ بلا کے وسیلہ سے دُعا و سوال میں مشغول ہوں اللہ تعالی ان کے سوال کو پسند کرتا ہے ۔ جب وہ سوال کرتے ہیں تو قبولیت کو پسند کرتا ہے تا کہ اپنی صفت جود و کرم کو ان کے حق یعنی اجابت و عطا سے نوازے کیونکر یہ دونوں صفتیں (جود و کرم )اللہ تعالے سے بندے کی قبولیت کا مطالبہ کرتی ہیں اور کبھی اجابت حاصل ہو جاتی ہے لیکن فوری طور پر نہیں ہوتی کیونکہ تقدیر الہی میں اس کا حصول کسی اور وقت پر موقوف ہے اسے محرومی یا عدم قبولیت نہیں کہا جاسکتا، اس لیے ضروری ہے کہ نزول بلا کے وقت ادب کا لحاظ رکھے اور اوامر و نواہی کے سلسلے میں جتنے ظاہری و باطنی گناہ اس سرزد ہوئے ہیں ۔ ان پر غور کرے، اور یہ بھی سوچے کہ کہیں اس نے تقدیر سے نزاع تو نہیں کیا ہے کیونکہ غالب یہی ہے کہ گناہ کی وجہ سے مصیبت میں مبتلا کیا جاتا ہے ، اس کے بعد ابتلاء و آزمائش کی یہ کیفیت ہو جائے تو بہتر ، ور نہ مسلسل تضرع ، دعا اور معذرت میں مصروف رہنا چاہیے ، کیونکہ ہو سکتا ہے کہ ابتلا اس لیے ہو کہ وہ خدا سے سوال کرے اور اجابت دعا میں تاخیر پر خدا پر تہمت نہ لگائے ، جیسا کہ ہم بیان کر چکے ہیں۔
مقالہ نمبر 53
رضائے الہی کی طلب
حضرت رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا، خدا سے اس کی قضا پر رضا یا فعل الہی میں فنا ہونے کا مقام طلب کرو، کیونکہ یہی سب سے بڑی آسائش ہے اور یہ دنیا میں بہشت بریں ہے اور یہی اللہ تعالے کے قرب کا سب سے بڑا دروازہ اور بندے کو خدا کا محبوب بنا دینے والا سبب ہے اور اللہ تعالیٰ جسے اپنا محبوب بنائے اس پر دنیا و آخرت میں عذاب نہیں ہوتا ، اس سے آدمی کو خدا تک رسائی ہوتی ہے اور وصل اور انس الہی کی منزل ملتی ہے اس لیے نفس کے حصوں اور قسموں کی طلب نہ کرو خواہ وہ تمہاری قسمت میں ہوں یا نہ ہوں جو چیز تمہاری قسمت میں نہیں اس کی تلاش کرنا حماقت ، رعونت اور جہالت ہے اور یہ سخت ترین عذاب ہے جیسا کہ کہا گیا ہے عذاب میں سخت عذاب اس چیز کی خواہش ہے جو تقسیم از لی میں اس کے حصے کی نہیں ۔ اور جو چیز تمہاری قسمت میں ہے اس کی تلاش لالچ اور حرص ہے اور عبودیت ، محبت اور حقیقت کے باب میں شرک ہے اس لیے خدا کے سوا کسی اور شے میں مشغول ہونا شرک ہے اپنے مقسوم کی تلاش کرنے والا خدا تعالیٰ کی محبت و دوستی میں صادق نہیں ہے اور جس نے ماسوی اللہ کو اختیار کیا وہ کذاب ہے اور مخلص تو محض اس لیے عبادت کرتا ہے کہ وہ اپنے ذمے لازم حق ربوبیت ادا کر رہا ہے اور اسے اپنا مالک ، عبادت اور ہر عمل و اطاعت کا مستحق جانتا ہے۔ کیونکہ بندہ اور اس کی تمام حرکات و سکنات اس کی تمام چیزیں اور سب کمائیاں اورملکیتیں در حقیقت اللہ تعالے کی ملک ہیں ایسا کیوں نہ ہو ، ہم کئی جگہ بیان کر چکے ہیں کہ ساری عبادتیں بندے پر اللہ تعالیٰ کا فضل و احسان ہیں کہ اس نے عبادت کرنے کی توفیق بخشی اور اس کے لائق کیا اس پر قا در بنایا ۔ پس تمہارے لیے عبادت پر معاوضہ اور اجر طلب کرنے کی بجائے شکر میں مشغول ہونا زیادہ مناسب ہے ، پھر تم دنیا میں اپنے نفس کی طلب میں کیوں مشغول ہوتے ہو جبکہ خلق کثیر کو دیکھتے ہو جن کو مسلسل دنیا کی لذتیں ، نعمتیں اور دنیا کے حصے ملے مگر ان کی خدا سے ناراضی اندوه و غم کی وجہ سے چیخنے چلانے اور کفران نعمت میں اضافہ ہوا ان کے ہم و غم پہلے سے بڑھ گئے اور جو چیزیں ان کی قسمت میں نہیں ان کی احتیاج محسوس کرنے لگے اور جو پاس ہیں انہیں حقیر، قلیل اور قبیح جاننے لگے ، اور جو دوسروں کو حاصل ہیں وہ ان کی آنکھوں اور دلوں میں زیادہ ، حسین اور معظم نظر آنے لگیں اور ان چیزوں کی طلب میں جو ان کی قسمت میں نہیں عمریں گزار دیں ، ان کی قوتیں مجروح ہوگئیں ۔ حوادثات زمانہ اور فسق و فجور میں مال ضائع ہو گئے ، بڑھاپا آگیا ، جسم تھک گئے ، پیشانیاں عرق آلود ہو گئیں اور ان حصوں کی طلب میں بڑے بڑے گناہوں کا ارتکاب کرنے اور اللہ تعالیٰ کے احکام چھوڑنے کے باعث اپنے نامہ ہائے اعمال سیاہ کر بیٹھے اور حاصل کبھی کچھ نہ ہوا۔ انجام یہ کہ مفلس اور خالی ہاتھ ہو گئے نہ ادھر کے رہے نہ اُدھر کئے ، اللہ تعالے نے انھیں جو کچھ ان کے حصے کا دیا تھا اس کا انھوں نے شکر ادا نہ کیا ۔ انھیں چاہیے تھا کہ ان کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی عبادت میں مدد حاصل کرتے انہوں نے دوسروں کی قسمت کی چیزیں طلب کیں وہ بھی انہیں نہ ملیں بلکہ دنیاوآخرت کو ضائع کر بیٹھے یہی لوگ مخلوق میں بدترین احمق ، اجہل ، عقل و بصیرت سے عاری ہیں۔ اگر یہ لوگ قضا پر راضی رہتے ، رب کی عطا پر قناعت کرتے اور احسن طریقے سے اطاعت خداوندی کرتے تو دنیا کی نعمتیں بآسانی میسر آجاتیں پھرا نہیں بلند تر ذات کے جوار رحمت میں منتقل کیا جاتا جہاں ان کی ہر مراد اور آرزو پوری ہوتی۔ اللہ تعالیٰ ہمیں قضا پر راضی ہونے والوں میں داخل کرے جنہوں نے رضا وفنا، حفاظت حال اور خدا کی محبوب و مرضی چیز کی توفیق کو اپنا سوال بنا لیا ۔
مقالہ نمبر 54
خدا تک رسائی کیسے حاصل ہو
حضرت غوث اعظم رضی اللہ عنہ نے فرمایا، آخرت کے طلب گار کے لیے ضروری ہے کہ دنیا کو چھوڑدے اور خدا کے طلب گار کے لیے لازم ہے کہ آخرت کو چھوڑ دے پس وہ آخرت کے لیے دنیا کو اور خدا کے لیے آخرت کو ترک کر دے جب تک دنیا کی لذتوں اور راحتوں میں سے کوئی لذت یا راحت مثلا کھانے پینے ، پہننے ، نکاح ، سواری، حکومت و ولایت کی راحتوں سے کوئی یا علم و فنون میںسے کوئی ایک علم مثلا عبادات خمسہ سےزائد علم فقہ ، روایت حدیث قرآن پاک کی روایتوں اور نحو ، لغت ، فصاحت بلاغت میں سے کچھ یا محتاجی کے ختم ہونے یا تونگری کی خواہش اور بلاؤں کے جانے اور عافیت کے آنے کی خواہش بالجملہ نقصان سے بچنے اور نفع حاصل ہونے کی تمنا ۔ ان سب میں سے کسی کی خواہش دل میں موجود ہو تو آدمی صحیح معنوں میں زاہد نہیں ہے کیونکہ ان میں سے ہر ایک میں نفس کی لذت خواہش کی موافقت اور طبیعت کی راحت و محبت موجود ہے ، یہ سب چیزیں دنیا میں وہ جن میں رہنا پسند کرتا ہے اور ان میں سکون و اطمینان پاتا ہے،اس لیے مومن کو چاہئے کہ ان کو دل سے نکالنے کے لیے کوشش کرے ان کی بیخ کنی کے لیے اپنے نفس کا مواخذہ کرے۔ نیستی ، تنگدستی اور احتیاج مسلسل پر راضی رہے۔ پس اس کے دل میں کسی شے کی چھوہارے کی گٹھلی چوسنے جتنی محبت نہ رہے تاکہ اس دنیا سے اس کا زہد خالص ہو ۔ جب اسے یہ کیفیت مکمل طور پر حاصل ہو جائے گی تو اس کے دل سے پریشانیاں اور دکھ اور اس کے باطن کی سختی زائل ہو جائے گی اور اسے مسرت ، آرام اور اللہ تعالیٰ کے ذکر و قرب سے انس نصیب ہوگا، جیسا کہ حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا ، دنیا میں زہد جسم و جان اور دل کو راحت پہنچاتا ہے ، اس لیے جب تک اس کے دل میں مذکورہ بالا چیزوں میں سے کوئی باقی ہے اس کے دل میں خوف او غم اور پریشانیاں رہیں گی اور ذلت ان کو لازم ہو جائے گی اور قرب خداوندی کی راہ میں تہہ بہ تہہ حجابات حائل رہیں گے مگر یہ کہ دنیا کی محبت مکمل طور پر زائل ہو جائے اور علائق سے پوری طرح انقطاع ہو جائے ۔ دنیا کے زہد کے بعد آخرت میں زہد اختیار کرے یعنی آخرت کے بلند مدارج حور و غلمان ، محلات و اعلیٰ رہائش گاہیں باغات ، سواریاں ، لباس ، زیور، اکل و شرب اور دوسری وہ تمام چیزیں جو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے لیے جنت میں تیار کر رکھی ہیں ان میں سے کچھ طلب نہ کرے اور اپنے کسی عمل کا اجر دنیا و آخرت میں نہ چاہے اس وقت وہ خدا کو پالے گا وہ اپنے فضل و کرم سے پورا اجر عطا فرمائیے گا اور اسے منزل قرب پر پہنچائے گا اپنے لطف خاص سے توفیق و عصمت سے نوازے گا ۔ اللہ تعالے جس طرح اپنے رسولوں ، نبیوں ، ولیوں ، بارگاہ خداوندی کے خاص لوگوں اور دیگر اہل علم دوستوں کے ساتھ الطاف اور تجلیات صفات سے شناسا کراتا ہے ۔ اس طرح اس بندے کو بھی اپنے الطاف و احسان سے واقف کر دے گا اور وہ اپنی زندگی کے آخری دم تک ترقی پاتا رہے گا پھر آخرت میں ایسی نعمتیں ملیں گی جنھیں نہ کبھی کسی آنکھ نے دیکھا نہ کسی کان نے سنا نہ کسی کے دل پر ان کا خیال گزرا ، جن کو سمجھنے سے عقلیں عاجز ہیں اور جن کے اظہاروبیان سے عبارات قاصر ہیں۔
مقالہ نمبر 55
نفسی لذات سے کنارہ کشی
حضرت رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا حظوظ نفس چھوڑنے کے تین مرتبے ہیں ، پہلا مرتبہ یہ ہے کہ بندہ جہالت طبع کی تاریکی میں سرگرداں مخبوط الحواس رہے ۔ اور تمام احوال میں اپنے طبعی تقاضوں کے مطابق تصرف کرے اور رب کریم کی عبادت سے گریزاں رہے ، اسے اپنے طبعی تصرفات سے نہ شریعت کی مہاررو کے نہ اس کے لیے حدود شرع میں سے کوئی حد ہو جہاں جا کر وہ ٹھہر جائے ۔ اسی دوران اللہ تعالے اس پر نظر رحمت فرمائے اور اپنی مخلوق کے نیک بندوں میں سے کسی ایک کو اس کے لیے واعظ بنا دے اور اس کے اپنے واعظ کا ساتھی بنا دے ، اور یہ دونوں واعظ مل کر اس کے نفس اور خلاف شرع کام کرنے والی طبیعت پر اثر کرنے میں اس طرح کا میاب ہو جائیں کہ طبیعت نصیحت کو قبول کرنے لگے اور اس پر وہ تمام برائیاں اور گناہ ظاہر ہو جائیں ، جن کی وجہ سے وہ طبع اور حکم شرع کی مخالفت کی سواری پر سوار تھا ۔ پھر وہ بندہ اپنے تمام تصرفات میں شریعت کی طرف مائل ہو جائے تو وہ بندہ سچا مسلمان شریعت پر کاربند ہو کر طبیعت کی خواہش کو فنا کر دیتا ہے ۔ دنیا کی حرام اور مشتبہ چیزیں اور مخلوق کا احسان چھوڑ دیتا ہے اور کھانے پینے کے پہننے ، نکاح ، قیام گاہ اور سب ضروریات کی چیزیں جو شرعاً حلال و مباح ہیں ان کو اختیار کرتا ہے تا کہ اپنے جسم کو مضبوط کرے اور اپنے رب کی عبادت کی طاقت حاصل کرے اور اپنی قسمت کا پورا پورا حصہ لے ، وہ مقسوم اپنی حد سے تجاوز نہیں کر سکتی، اور اسے حاصل کئے اور پوری طرح اس سے مستفید ہوئے بغیر دنیا سے نکل جانے کی کوئی راہ نہیں ہے ۔ پس بندہ تمام احوال میں شریعت کی حلال و مباح کردہ چیزوں کی سواری کرتا ہوا سفر جاری رکھتا ہے یہاں تک یہ سواری اسے آستانِ ولایت تک پہنچا دیتی ہے اور وہ بندہ محققین خواص کی جماعت میں داخل ہو جاتا ہے جو کہ عزیمت اور افضل پر عمل کرنے اور اپنے تمام کاموں میں خدا کی رضا کے طالب ہیں ۔ پھر جب وہ مرتبہ ولایت پر فائز ہو جاتا ہے تو امر باطن سے کھاتا ہے اور وہ اپنے اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ نداسنتا ہے کہ اپنے نفس کو چھوڑ دو اور قریب ہو جاؤ ۔ اگر اپنے خالق کو چاہتے ہو تو نفس کی خواہشوں اور مخلوق کو چھوڑو اور اپنے جوتوں کو اتار دو یعنی دنیا و آخرت تمام موجودات اور آئندہ پیدا ہونے والی اشیا اپنی تمام آرزووں سے آزاد ہو جاؤ اور تمام کائنات سے بیگانہ اور ہر چیز سے فانی ہو جاؤ ، توحید سے خوش ہو کر شرک کو ترک کر کے اور ارادوں میں صادق ہو کر گردن جھکائے ہوئے خاموشی اور ادب کے ساتھ بساط قرب میں داخل ہو جاؤ – دائیں طرف یعنی آخرت اور بائیں طرف یعنی دنیا ، مخلوق اور نفس کی لذتوں کی طرف نظر اٹھا کر نہ دیکھو ۔ جب بندہ اس مقام میں داخل ہو جائے اور وصول الی اللہ کی منزل متحقق ہو جائے تو اسے خدا کی طرف سے خلعت عطا ہو گی اور طرح طرح کے علوم و معارف اور فضل کرم کے انوار اس کا احاطہ کرلیں گے پھرا سے کہا جائے گا فضل و نعمت ہے استفادہ کرو اسے چھوڑنے اور رد کرنے سے بے ادبی نہ کرو کیونکہ شاہی نعمت کو چھوڑنا بادشاہ پر دباؤ ڈالنے اور اس کی توہین کے مترادف ہے۔ اِس وقت بندے کی مداخلت کے بغیر جب کہ پہلے وہ تمام کام نفس و خواہش کے مطابق کرتا تھا فضل خداوندی اور اس کی تقسیم سے اس کا اختلاط ہوتا ہے پس اسے کہا جاتا ہے کہ فضل و نعمت سے تلبس کر و قسمتوں اور لذتوں کو حاصل کرنے میں بندے کی چار حالتیں ہیں :
اپنی طبع کے مطابق لینا اور کرنا ، یہ حرام ہے ۔
شریعت کے مطابق لینا ، یہ حلال اور مباح ہے
امر باطن سے کچھ حاصل کرنا، یہ ولایت اور ترک خواہش والی حالت ہے.
محض فضل خداوندی سے تناول کرنا یہ زوال ارادہ اور مقام ولایت سے بلند مقام بدلیت ، خدا تعالیٰ کی مراد بننے اور قدرت یعنی فعل خداوندی کے ساتھ قائم ہونے کی حالت ہے ۔ یہ تقدیر الہی کے علم کے حصول اور اصلاح کی صفت سے متصف ہونے کی حالت ہے۔ جو شخص اس مقام پر پہنچے گا وہی حقیقتا صالح ہے اللہ تعالی کے اس فرمان کا یہی مقصود ہے بے شک اللہ تعالے میرا دوست ہے جس نے قرآن نازل کیا اور وہ صالحین کے امور کا متولی ہے ، چنانچہ یہ وہ آدمی ہے جس نے اپنے مصالح و منافع حاصل کرنے اور ضرر و فساد سے بچنے سے اپنے ہاتھ روک لیے میں یہ دایہ کے سامنے طفل شیر خوار یا غسال کے سامنے مردے کی طرح ہے ، قدرت کا ہاتھ اس . کی تربیت کا ذمہ دار ہے، کسی فعل میں اس بندے کی تدبیر و اختیار کا دخل نہیں ہے یہ مذکورہ تمام امور سے فانی ہے نہ اس کا کوئی حال و مقام ہوتا ہے نہ ہی ارادہ ، بلکہ اس کی تقدیر الہی کے ساتھ اس طرح موافقت ہوتی ہے کہ کبھی اس پر بسط کی اور کبھی قبض کی حالت ہوتی ہے کبھی اسے غنی وبے نیاز کر دیتے ہیں کبھی محتاج وہ ان چیزوں کے زوال و تغیر کی آرزو نہیں کرتا بلکہ وہ قضائے الہی سے ہمیشہ خوش رہتا ہے اور فعل الہی سے موافقت کی کیفیت میں رہتا ہے ، اور اولیا ، و ابدال کی حالات کی انتہاء یہی ہے
مقالہ نمبر56
مخلوق سے فنائیت
حضرت شیخ رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا، جب بندہ مخلوق ، ہویٰ نفس کے تمام احکام اور دنیا و آخرت کی خواہشات اور ارادوں سے فانی ہو جاتا ہے اور اس کا دل ما سوا سے خالی ہو جاتا ہے اور صرف مولیٰ کریم کی رضا و قرب کا ارادہ باقی رہ جاتا ہے تو وہ واصل باللہ ہو جاتا ہے اللہ تعالے اُسے ظاہر و باطن میں ولایت و بدلیت پر فائز کر دیتا ہے اور اسے برگزیدہ بندہ اور محبوب بنا لیتا ہے اور مخلوق کے دلوں میں اس کی محبت پیدا کردیتا ہے اور اللہ اس میں یہ وصف پیدا فرما دیتا ہے کہ وہ صرف اللہ اور اس کے قرب سے محبت کرتا ہے اور اللہ کے فضل و کرم سے ملنے والی نعمتوں سے متمتع ہوتا ہے اور اللہ تعالے اپنی رحمت کے دروازے کھول دیتا ہے اور کبھی بند نہ کرنے کا وعدہ بھی فرما دیتا ہے پھر بندہ صرف خدا کو اختیار کرتا ہے ، وہ خدا کے ارادہ و تدبیر سے ارادہ اور تدبیر کرتا ہے۔ مشیت خداوندی میں اس کی مشیت ہوتی ہے ، اس کی رضا پر راضی رہتا ہے اس کے احکام مانتا ہے، نفس وخلق سے کسی کی متابعت نہیں کرتا اور وہ نظر شہود سے صرف اللہ تعالیٰ کی ذات اور اس کے فعل کو دیکھتا ہے ۔ ایسے میں جائز ہے کہ اللہ تعالے کسی چیز کا وعدہ فرمائے اور بندے کے سامنے اس کے ایفاء کا اظہار نہ ہوا اور جس کا بندے نے خیال کیا ہو وہ نہ ملے کیونکہ خواہشوں ارادوں حظوظ نفس کے زوال کے ساتھ ہی غیریت زائل ہو چکی ہے اور بندہ بذات خود اللہ تعالیٰ کا فعل و ارادہ اور اس کی مراد بن چکا ہے” تو بندے کی طرف کسی وعدے یا خلاف وعدہ کی نسبت نہیں کی جا سکتی کیونکہ وعدہ یا خلاف وعدہ کا تصور ایسے آدمی کے حق میں ہوتا ہے ۔ جس کی اپنی خواہش و آرزو باقی ہو۔ اس طرح بندے کے حق میں اللہ تعالیٰ کا وعدہ ایسا ہو جاتا ہے جیسے اللہ تعالیٰ نے خود اپنی ذات سے وعدہ کیا ہو ، یہ اس طرح کہ ایک بندہ اپنی ذات کے لیے کسی فعل کا ارادہ کرے پھر کسی اور فعل کا ارادہ کرلے یہ وعدہ اور وفا کا عدم ظہور ناسخ و منسوخ کی طرح ہو جائے گا جیسا کہ ہمارے نبی صل اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی طرف وحی کی گئی کہ ہم جو آیت منسوخ کر دیتے ہیں یا فراموش کرا دیتے ہیں تو اس سے بہتر یا اسی کی مثل لے آتے ہیں ۔ کیا آپ نہیں جانتے اللہ تعالے ہر چیز پر قادر ہے۔ جب رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے خوا ہش اور ارادہ ختم کر دیا گیا سوائے ان چند مقامات کے جن کا قرآن حکیم میں ذکر ہوا، مثلاً اسیران بدر کے متعلق حکم ہوتا ہے : تم دنیا کے سامان کا ارادہ کرتے ہو اور اللہ تعالے آخرت کا ، اگر پہلے سےحکم اس طرح نہ ہوتا تو تمھیں اس فدیہ لینے کے بدلے بڑا عذاب ہوتا ، اور آپ اللہ کے محبوب و مراد تھے آپ کو ایک حالت، ایک شئی اور ایک وعدے پر نہیں چھوڑا بلکہ اپنی تقدیر کی طر ف لے گیا اور اس کی لگام آپ کی طرف چھوڑوی اور آپ کو اعمال و احکام میں پھرایا ، پلٹایا اور احوال کے تغیر اور احکام کے تبدل پر آگاہ فرمایا کہ اے میرے مراد، محبوب ، مطلوب اور مقصود ! کیا آپ نہیں جانتے کہ اللہ تعالے ہرشے پر قادر ہے ، یعنی آپ تقدیر خداوندی کے سمندر میں ہیں اور اس کی موجیں آپ کو ادھر سے اُدھر سیر کرانے کے لیے لے جاتی ہیں۔ بس ولی کے مقام کی انتہا نبی کے مقام کی ابتدا ہے اور ولایت و ابدالیت کے آخری مقام کے بعد نبوت کے علاوہ کوئی مقام نہیں۔
مقالہ نمبر 57
تقدیر سے عدم منازعت
حضرت علیہ الرحمۃ والرضوان نے فرمایا : احوال میں ہر چیزقبض ہے ، کیونکہ صاحب احوال ولی کو اس کی حفاظت کا حکم دیا جاتا ہے اور جس چیز کی حفاظت کا حکم دیا جائے وہ قبض ہوتی ہے اور تقدیر کے ساتھ قائم رہنا تمام” بسط ” ہے کیونکہ یہاں کوئی ایسی چیز نہیں ہے ۔ بندے کو جس کی حفاظت کا حکم دیا جائے سوائے اس بات کے کہ تقدیر اور احکام تقدیر میں بندہ موجود ہے ، چنانچہ ولی پر لازم ہے کہ تقدیر سے منازعت نہ کرے بلکہ تمام احوال تلخ و شیریں اور لطف و قہر میں تقدیر سے موافقت کرے ۔ احوال مخصوص حدود و قیود کے ساتھ محدود نہیں اس لیے ان کی حفاظت کا حکم دیا گیا ہے اور فعل الہی یعنی تقدیر کی کوئی حد نہیں ہے۔ اور بندے کے مقام قدر وفعل میں داخل ہونے اور اسےبسط حاصل ہونے کی علامت یہ ہے کہ پہلے جن حظوظ نفس کو ترک کرنے اور زہد اختیار کرنے کا حکم دیا گیا تھا اب ان سے بعض کو طلب کرنے کا حکم دیا جاتا ہے کیونکہ جب اس کا باطن ہر قسم کی نفسانی خواہش سے خالی ہوگا اور اس میں خدا وند قدوس کے سوا کچھ نہ رہا اور مقام بسط مل گیا تو بعض خواہشات طلب کرنے کا حکم دے دیا گیا تو اس نے اپنی قسمت کی چیزیں طلب کی ہیں جن کا لینا اور ان تک پہنچنے کے لیے سوال کرنا ضرور ی تھا تاکہ اللہ تعالے کے حضور اس کا مقام و مرتبہ اور دعا قبول کرنے سے بارگاہ خداوندی کا فضل و احسان متحقق ہو جائے اور قبض کے بعدبسط کی بیشتر علامتوں میں سے ایک نشانی لذتیں عطا کرنے کے لیے سوال کرنے کی اجازت ہے اور دوسری علامت احوال و مقامات کی قید اور نگہداشت حدود کے تکلف سے باہر آتا ہے ۔
اعتراض : تمھاری یہ بات تو ولی سے تکلیف شرعی کے زوال اور زندقہ و الحاد ، اسلام سے خروج اور اللہ تعالیٰ کے اس قول کے رد و انکار پر دلالت کرتی ہے، ارشاد ہوتا ہے ، اپنے رب کی عبادت کر یہاں تک کہ تجھے یقین یعنی موت آجائے ۔
جواب ، تمہارا یہ وہم درست نہیں ہے اور نہ ہمارے کلام میں اس پردلالت ہے ، نہ اس سے یہ بات لازم آتی ہے بلکہ اللہ تعالیٰ بہت عزت و کرامت والا ہے اور اس نے ولی کو اپنا دوست بنا لیا ہے اس لیے اسے معصیت اور نقص کی جگہ گرنے نہیں دیتا اور نہ شریعت و دین کے معاملہ میں قبیح کام کرنے دیتا ہے بلکہ وہ ان قبائح سے اس کے دل کو محفوظ و مامون رکھتا ہے اور اسے ان قبائح سے پھیر دیتا ہے اور اسے ورطہ ضلالت و غفلت میں گرنے سے آگاہ فرما دیتا ہے ۔ حدود شرعیہ کی حفاظت کے لیے اس کا کردار اور گفتار درست کر دیتا ہے ۔ پھر بندے کو گناہوں سے عصمت حاوی ہو جاتی ہے اور وہ تکلف و مشقت کے بغیر حدود شرعیہ سے محفوظ رہتا ہے اور وہ ولی حصول عصمت اور حفظ حدود کی وجہ سے قرب باری تعالے میں غائب ہو جاتا ہے۔ اللہ تعالے یوسف علیہ السلام کی عصمت و حفاظت سے متعلق فرماتا ہے ہم نے یوسف علیہ السلام کو ہم وقصد سے دور رکھنے کے لیے اس طرح اپنی مہربانی دکھائی تا کہ آپ کو برائی اور بدکاری سے باز رکھیں، بے شک وہ ہمارے مخلص بندوں سے ہیں ۔ نیز فرماتا ہے بیشک جو ہمارے خاص بندےہیں تیرا ان پر غلبہ نہیں ہوگا۔ ایک مقام پر ارشاد فرمایا : اے شیطان ! تو تمام لوگوں کو گمراہ کرے گا مگر میرے مخلص بندوں کو ۔ اے مسکین؟! وہ ولی رب العزت کا بلند کیا ہوا ہے خدا کی محبوب و مراد ہے اور اسے اپنے قرب و لطف کی آغوش میں ان کو پالتا ہے اس لیے وہاں شیطان کی رسائی کیسے ہو سکتی ہے ؟ اور جو باتیں شریعت میں قبیح اور مکروہ ہیں وہ اس بندے کی طرف کیسے راہ پا سکتی ہیں ، گویا تو نے طعام وشراب کو چھوڑ دیا اور مرتبہ قرب کی بہت تعظیم کی ہیں تو نے بہت بڑی بات کہی ایسی ذلیل ، خسیس ،کمینی ہمتوں، ناقص ، دور از کار عقلوں اور فاسد و کا سد آرا پر تف ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اور ہمارے بھائیوں کو اپنی قدرت مشاملہ، الطاف کا ملہ اور رحمت واسعہ سے ایسی باہم مخالف گمراہیوں سے محفوظ فرمائے، اپنے کامل حجابات کرم میں چھپائے جو گنا ہوں سے روکنے اور حفاظت کر نیوالے ہیں، اور اپنی کامل نعمتوں اور دائمی فضیلتوں سے اپنے احسان وکرم سے ہماری تربیت فرمائے۔
مقالہ نمبر 58
ہر جہت سے نظریں پھیرلو
حضرت شیخ السموات والارضین علیہ الرحمہ نے فرمایا : ہر طرف سے آنکھیں موند لو کسی کی طرف آنکھ کھول کر نہ دیکھو ، جب تک تم کسی جہت کی طرف دیکھتے رہو گے اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم اور قرب کی طرف راستہ نہیں کھلے گا اس لیے توحید خداوندی اور اپنے نفس کے مٹانے پھر اپنی فنا اور محدود علم مٹادینے کے ذریعے تمام اطراف بند کر دو ، تو تمہاری چشم قلب میں خدائے عظیم کے فضل کی جہت کھل جائے گی تم اس جہت کو اپنے سر کی آنکھوں سے قلب و ایمان اور یقین کے انوار کی روشنی میں دیکھوگے اس وقت تمہارے باطن کا یہ نور تمہارے ظاہر کو منور کر دے گا جیسا کہ اندھیری رات میں اندھیرے گھر میں شمع کا اجالا ہوتا ہے تو وہ روشنی گھر کے روزن اور سوراخوں سے ظاہر ہوتی ہے تو اس گھر کے اندر کے نور سے گھر کا بیرونی حصہ روشن ہو جاتا ہے تو دنیا و سفلیات سے تعلق رکھنے والے نفس و جوارح بغیر کے وعدہ وعطا پر سکون کی بجائے اللہ تعالے کے وعدہ و عطا پر سکون و آرام کی دولت پائیں گے۔
مقالہ نمبر 59
نعمتوں پر شکر اور بلاؤں پر صبراختیار کرو
حضرت شاه جیلان رضی اللہ عنہ نے فرمایا ، تمھاری حالتوں میں سے ایک ضرور ہوگی یا تو نعمت والی ہوگی یا بلا والی ۔ اگر آزمائش والی حالت ہے تو تجھ سے تصبر(زور زبردستی صبر) کا مطالبہ کیا جائے گا اور یہ ادنی درجہ ہے ۔ پھر صبر کا مطالبہ کیا جا ئیگا جو کہ اعلیٰ مرتبہ ہے ۔ اس کے بعد فعل باری تعالے پر رضا و موافقت کا درجہ ہے پھر فنا کا مقام ہے جو ابدال اللہ تعالے کی ذات و صفات کا علم شہودی رکھنے والے عرفاء کا مقام ہے۔ اگر تم حالت شکر میں ہو تو تم سے شکر کا مطالبہ کیا جائے گا اور شکر زبان کے ساتھ بھی ہوتا ہے اور دل و اعضا کے ساتھ بھی ، زبانی شکر کرنا نعمتوں کے اعتراف کے طور پر ہوتا ہے کہ یہ اللہ تعالے ہی کی طرف سے ہیں اور مخلوق یا نفس یا اپنی قوت و طاقت اور حرکت و کسب کی طرف ان کی نسبت ترک کرنا ہے نہ کہ اور کی طرف نسبت کی جائے جس کے ہاتھوں پر نعمت ظاہر ہوتی ہو۔ کیونکہ تم اور یہ مذکورہ اشیار سب اسباب آلات و وسائل ہیں ان کا قاسم ، جاری کننده ، موجد، فاعل اور مسبب اللہ تعالیٰ ہے ۔ لہذا جو قاسم ، جاری کنندہ اور موجد ہو تو غیر کی نسبت وہی شکر کا حقدار ہوگا۔ جیسا کہ تحائف لانے والے غلام کی بجائے تحفے بھیجنے والے آقا کی طرف نظر کی جاتی ہے اور جو لوگ یہ نظر نہیں رکھتے اور حقیقت حال کو نہیں پہچانتے ان کے متعلق اللہ تعالے فرماتا ہے : وہ دنیا کی ظاہری زندگی ( اور عالم مجاز ) کو جانتے ہیں اور وہ آخرت کی زندگی ( اور حقیقت حال) سے غافل ہیں۔ چنانچہ جو لوگ ظاہر اور سبب کی طرف متوجہ رہیں ان کا علم و عرفان حقیقت حال اور مسب الاسباب تک نہ پہنچ سکیں ۔ ایسے لوگ جاہل ، ناقص اور عقل سے کو رے ہیں عاقل کو عاقل اسی لیے کہتے ہیں کہ وہ انجام کا رپر نظر رکھتا ہے ۔ قلبی شکریہ ہے کہ بندے کا ہمیشہ کے لیے محکم اور مضبوط عقیدہ ہو کہ تمام نعمتیں ظاہر و باطن کی تمام لذتیں اور منفعتیں تمام حرکات و سکنات اللہ تعالے کی طرف سے ہیں نہ کہ غیر کی طرف سے ۔ اور تمھارا زبان کے ساتھ شکر ادا کرنا دل کی شکر گزاری سے تعبیر ہوگا۔ اللہ تعالیٰ ارشادفرماتا ہے : تمھارے پاس جو بھی نعمت ہے وہ اللہ عز وجل کی طرف سے ہے ۔ پھر فرمایا ، اس نے تمھارے اوپر اپنی ظاہری اور باطنی نعمتوں کا اتمام کر دیا ۔ مزید فرماتا ہے ، اور اگر تم اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو گننا چاہو تو ان کا احاطہ نہیں کر سکتے۔ ان دلائل کی موجودگی میں ایک عبد مومن کے لیے نعمت دہندہ اللہ تعالے ہی ہے ۔ لیکن اعضا کے ساتھ شکر گزاری یہ ہے کہ انھیں اللہ تعالے کی اطاعت میں استعمال کیا جائے نہ کہ کسی مخلوق کی فرمانبرداری میں ۔ لہذا تم مخلوق کی ایسی کوئی بات نہ ما نوجس میں باری تعالیٰ سے اعراض پایا جاتا ہو۔ مخلوق نفس وہ ہوی اور ارادہ و خواہشات اور تمام مخلوقات کو شامل ہے۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ تم خدا تعالیٰ کی اطاعت اصل متبوع اور پیشوا بنا لو۔ باقی سب کو فرع ، تابع اور پس رو یقین کرو اور اگر اس کے خلاف کردے تو راہ راست سے روگردانی ، نفس پر ظلم ، اور ایمان دار بندوں کے لیے اللہ تعالیٰ کے وضع کر دہ حکم کے خلاف حکم دینے والے بن جاؤ گے اور تمہارا شمار صالحین کی راہ سے ہٹنے والوں میں سے ہوگا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ، جو لوگ خدا کی نازل کر دہ چیز کے ساتھ (نفس و خلق پر) حکم نہ دیں وہ کافر ہیں ۔ دوسری آیت میں ہے : جو لوگ خدا کی نازل کر دہ چیز کے ساتھ حکم نہ دیں وہ ظالم ہیں ۔ تیسری آیت میں ہے ، وہ فاسق ہیں ایسے لوگوں کا ٹھکانا جہنم ہے جس کا ایندھن آدمی اور پتھر ہیں دنیا میں تیرے لیے تو ایک لمحے کے لیے بخار اور چھوٹی سی چنگاری برداشت کرنا ممکن نہیں پھر جہنم کے طبقے ہاویہ میں دوسرے جہنمیوں کے ساتھ ہمیشہ رہنے پر کیسے صبر کر سکو گے اس لیے خبردار ہو جاؤ۔ متوجہ ہو جاؤ اللہ تعالے کی پناہ میں آ جاؤ۔ دونوں حالتوں کی ان شرائط سمیت حفاظت کرو کیونکہ تمام عمر میں ان دونوں حالتوں (بلا و نعمت ) میں سے ایک ضرور ہو گی کبھی بلا کی اور کبھی نعمت ، اس لیے ہمارے بیان کردہ طریقے کے مطابق ہر حالت کو صبر و شکر اس کا حصہ عطا کرو۔ بلا کی حالت میں کسی مخلوق کی طرف شکایت نہ لے جاؤ اور اپنی بے قراری ظاہر نہ کرو اور اپنے باطن میں رب کریم پر تہمت نہ لگاؤ اور اس کی حکمت پر شک وشبہ نہ کرو اور اس میں بھی شک نہ کرو کہ اس نے دنیا و آخرت میں تمہارے لیے زیادہ مفید چیز اختیار کی ہے اور بلا سے بچنے کے لیے مخلوق کی طرف رخ نہ کرو۔ اگر ایسا کرو گے تو تمہارا یہ عمل شرک ہوگا ۔ خدا کے ملک میں اس کے سوا کوئی مالک نہیں ، اس کے سوا نہ کوئی نقصان پہنچا سکتا ہے نہ نفع دے سکتا ہے ، نہ کوئی مصیبت ٹال سکتا ہے نہ عطا کر سکتا ہے نہ کوئی بیماری و تکلیف دے سکتا ہے نہ کوئی تندرست و بے نیاز بنا سکتا ہے اس لیے ظاہری و باطنی طور پر مخلوق کے ساتھ مشغول ہونا ، کیونکہ مخلوق تمہیں کسی چیز میں بھی خدا سے بے نیاز نہیں کر سکتی۔ بلکہ فعل خداوندی میں صبر و رضا اور موافقت وفنا کو لازمی سمجھو اور اگر تمھیں (ان کے صبر و رضا وغیرہ سے )محروم کر دیا جائے تو خدا سے مدد طلب کرو ، اس سے فریاد کرو ۔ اپنے گناہوں کا اعتراف کرو، شرک خفی سے بیزاری ظاہر کرو صبر و رضا اور موافقت حق کے خواہاں رہو ، یہاں تک کہ نوشتہ تقدیر اپنے وقت کو پہنچ جائے ، مصائب و آلام ختم کر دئیے جائیں ، ان کی جگہ نعمت و فراخی اور فرحت و سرور آجائے جیسا کہ نبی اللہ حضرت ایوب علیہ الصلوۃ و السلام کے ساتھ ہوا ۔ جس طرح کہ رات کی تاریکی کے بعد دن کی روشنی اور موسم سرما کے بعد موسم بہار کی نسیم اور خوشی آتی ہے کیونکہ ہر چیز کی ضد وخلاف غایت و انتہا اور مدت ہوتی ہے ؟ پس صبر کشاکش کار کی کنجی اور آغاز ہے اور اس کی انتہا اور جمال ہے۔ جیسا کہ حدیث شریف میں آیا ہے جس طرح جسم میں سر کا مقام ہے اس طرح ایمان میں صبر کا درجہ ہے۔ ایک حدیث میں ہے صبر ہی پورا ایمان ہے اور کبھی ان نعمتوں کے ساتھ تلبس و اختلاط ہی شکر بن جاتا ہے یہ تمھاری قسمت کی نعمتیں ہیں ۔ فنا زوال ہوا ، پرہیز اور شریعت کے احکام و حدود کی حفاظت کی حالت میں ان نعمتوں سے تلبس و اختلاط ہی شکر ہے اور یہ ابدالوں کی حالت ہے۔ یہی سلوک طریق ولایت کی انتہا ہے جو راہ میں نے تمہارے لیے بیان کر دی ہے اس سے نصیحت حاصل کرو ان شاء اللہ تعالے راہ راست کے راہرو بن جاؤگے۔
مقالہ نمبر 60
ابتداء و انتہاء
حضرت علیہ الرحمۃ والرضوان نے فرمایا : سلوک کی ابتدا یہ ہے کہ بندہ عادات اور طبعی تقاضوں سے نکل کر شریعت کی طرف آجائے پھر قضا و قدر کی طرف آجائے ، اس کے بعد پھر حدود شرعی کی نگہداشت کرتے ہوئے عادات کی طرف پلٹ آئے ۔ اس طرح تم کھانے پینے ، لباس ، نکاح ، مکان ، طبع اور عادات طبع سے نکل کو شریعت کے حکم و نہی کی طرف آجاؤ گے اور کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرو گے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے ، رسول جو چیز تمھیں دیں اس کو لے لو ( اس کی پیروی کرو اور جس سے منع کریں اس سے باز رہو ۔ اور فرمایا اے جبیب ! اپنی اُمت سے کہہ دیجئے اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری پیروی کرو تا کہ خدا تمھیں اپنا محبوب بنائے۔ پس تم ظاہر و باطن میں نفس اس کی خواہشات اور غیر مشروع امور میں نفس کی رعونت سے اس طرح فانی کردئیے جاؤ گے کہ تمہارے باطن میں توحید خداوندی اور ظاہر میں اللہ تعالے کی طاعت وعبادت کے سوا کچھ نہ رہے گا ۔ یہ حرکت و سکون ، سفرو حضر، خوشی و غم ، مرض و صحت میں شبانہ روز تمھاری یہی حالت ہونی چاہئے اور شعار و دثار ہونا چاہئے ۔ پھر تمہیں قضا و قدر پر بلند کیا جائے گا اور تقدیر تم میں تصرف کرے گی اور تم اپنی کوشش اور مشقت اور حول وقوت سے فانی کر دئیے جاؤ گے اور جو کچھ تمہارے مقدر میں لکھا ہوا ہے وہ اللہ تعالی کے علم میں ہے اور اس کے متعلق قلم لکھ کر خشک ہو چکا ہے ۔ اس کی طرف تمھیں لے جایا جائے گا ۔ اس سے تمہارا تلبس و اختلاط ہوگا اور اس میں تمہیں تحفظ و سلامتی عطا کی جائے گی اور شریعت کے احکام و حدود کی حفاظت کی جائے گی ۔ فعل خداوندی سے تمھیں موافقت حاصل ہوگی ۔ قاعدہ شرعی کو توڑ کر زندقہ اور اباحت حرام اور مامورات کی توہین کی طرف نہیں کھینچا جائے گا ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : بے شک ہم نے قرآن کو نازل کیا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کریں گے ۔ ایک مقام پر فرمایا : اس طرح ہم نے کہا تا کہ (حضرت یوسف (علیہ السلام ) سے برائی اور بے حیائی پھیر دیں یقینا وہ ہمارے مخلص بندوں میں سے ہیں پھرحمیت و حفاظت رحمت خداوندی سے قیامت تک اس کے حال کو لازم رہے گی۔ یہ مذکورہ اشیاء تیرے لیے ہی تیار کی گئی ہیں ۔ طلب حق کی راہ پر طبیعت کے صحرا اور خواہش و مرغوب کے بیابانوں میں چلتے وقت تجھ سے روک دی گئی ہیں کیونکہ یہ راستے میں دشواری پیدا کرنے والا بار گراں ہے جسے دُور کیا گیا ہے کہ کہیں یہ اپنے ثقل کی وجہ سے تمھیں کمزور کر کے اپنے مقصد و مطلوب سے مشغول نہ کرے ۔ فنا کی چوکھٹ تک رسائی کی یہ کیفیت رہے گی اور یہ فنا ہی قرب حق تک رسائی، معرفت الہی اسرار و علوم دینیہ سے اختصاص اور بحر انوار میں غوطہ زن ہونے کا ذریعہ اور وسیلہ ہے ، اس طرح طبائع کی ظلمت انوار کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکے گی۔ جب تک جسم میں روح موجود ہے طبیعت اپنے ان حصوں کو پورا کرنے کے لیے باقی رہتی ہے کیونکہ اگر آدمی کی طبیعت زائل ہو جائے تو وہ فرشتوں سے جاملے اور نظام عالم بر قرار نہ رہے اور حکمت خداوندی باطل ہو جائے ۔ تمھاری طبیعت اسی لیے باقی ہے کہ یہ اپنی قسمت اور حصے کی چیزیں پوری پوری لے۔ اس کا باقی رہنا اصلی طور پر نہیں فقط وظیفے کے طور پر ہے ، جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تمہاری دنیا سے تین چیزیں مجھے محبوب بنادی گئی ہیں خوشبو ، عورتیں اور نماز میری آنکھوں کی ٹھنڈک ہے جب حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو دنیا و مافیہا سے فنا حاصل ہو گئی تو جو اشیاء سیر الی اللہ کے وقت روک دی گئی تھیں انھیں واپس لوٹا دیا گیا جنھیں آپ نے اپنے رب کی موافقت ، اس کے فعل پر رضا اور تعمیل حکم کے لیے پورا پورا حاصل کیا ۔ اسماء باری تعالیٰ مقدس( نقص زوال کے وہم سے پاک )ہیں اس کی رحمت عالم ہے اور اس کا فضل انبیاء و اولیاء کے شامل حال ہے پس اسی طرح ولی کو فنا کے بعد اس کا مقسوم اور مقتضیات طبع حدود شرع کی حفاظت کے ساتھ لوٹا دئیے جاتے ہیں اور انتہا سے ابتدا کی طرف رجوع کے یہی معنی ہیں۔
مقالہ نمبر 61
ہرشئے پر توقف
حضرت غوث اعظم رضی اللہ عنہ نے فرمایا ، جب مقسومات مومن تک پہنچیں تو انھیں لینے اور قبول کرانے میں تفتیش ضروری ہے کہ حکم شریعت ان کا مباح ہونے اور علم شریعت اس کا کھانا جائزہونے کی گواہی دیں، جیسا کہ حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مومن رزق یا تمام دینی کاموں میں بہت تفتیش و جستجو کرتا ہے اور منافق بلا تحقیق لے لیتا ہے ۔ ایک حدیث میں ہے : اللْمُؤْمِنُ وَقَاف (مومن توقف کرنیوالا ہے) یک اور مقام پر فرمایا ، جوشئی مشکوک ہو اسے چھوڑ دو اور جس میں شک نہ ہو اسےلے لے ۔ چنانچہ مومن کھانے پینے ، پہنے ، نکاح کے متعلق اور تمام دوسری قسمت کی پیری جو اس پر ظاہر ہوتی ہیں تحقیق و تفتیش کے لیے ان پر توقف کرتا ہے جب وہ تقویٰ کی حالت میں تم کو شرع کے جو ازکے حکم کے بغیر اور جب وہ ولایت کی حالت میں ہو امر باطن کے بغیر وہ چیز نہیں لیتا، اورجب وہ بدلیت و غوثیت کی حالت میں ہو تو تقدیر کا علم یا فعل الہی سے لینے کا کرتا ہے جو کہ قدرمحض ہے اور یہ حالت بدلیت و غوثیت محض فنا کی حالت ہے اس کے بعد مومن پر دوسری حالت آتی ہے اس میں جو کچھ اس کے پاس آتا اور ظاہر ہوتا ہے اسے اس وقت لیتا رہتا ہے جب تک حکم شریعت یا امر باطن یا تقدیر کا علم اس پر اعتراض نہ کرے اور جب ان چیزوں میں سے کوئی چیز اعتراض کرتی ہے تو وہ اسے لینے سے باز آجاتا ہے اور چھوڑ دیتا ہے ۔ یہ حالت پہلی حالت کی ضد ہے۔ پہلی حالت میں توقف تثبت غالب ہوتا ہے اور دوسری حالت میں ظاہر ہونے والی چیز کو لینا ، تناول کرنا اور اس سے تلبس غالب ہوتا ہے ۔ پھر تیسری حالت طاری ہوتی ہے اس میں شریعت یا امر باطن یا عظیم تقدیر میں سے کسی کا اعتراض نہیں ہوتا، اور یہ حقیقت فنا ہے اس میں مومن آفات سے اور حدود شریعت توڑنے سے محفوظ و مامون ہے اور اسے برائیوں سے بچالیا جاتا ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے : ہم نے یوسف علیہ السلام کے یہ معاملہ اس طرح کیا تا کہ آپ سے برائی اور بیحیائی کو دور رکھیں یقیناً وہ ہمارے مخلص بندوں میں سے ہیں۔ اس وقت بندہ حدود توڑنے کی حفاظت کی حالت میں اس طرح ہوتا ہے جیسا کہ کام اس کے سپرد کر دیئے گئے ہوں اور اسے مولا کریم کے اذن سے اس کے مباہات کی قیود وشروط اٹھالی گئی ہوں، اور نیکی آسان کر دی گئی ہوں۔ اس حالت میں مومن کو جو کچھ ملتا ہے وہ دنیا و آخرت کی کدور توں ، آفتوں اور انجام بد سے پاک وصاف ہوتا ہے اللہ تعالیٰ کے فعل اور ارادہ و رضا کے موافق ہوتا ہے۔ اس حالت سے بڑھ کر کوئی حالت نہیں ہے ۔ یہی انتہاء کا رہے اور یہ ان کی حالت ہے جو اولیاء کبار کے سادات ارادہ فعل اور تقدیر سے منازعت کے شائبہ سے خالی اصحاب اسرار ہونے کے باعث جنہیں انبیا ء کرام کی چوکھٹ تک رسائی حاصل ہوتی ہے صلوات اللہ علیہم اجمعین ۔
مقالہ نمبر 62
محبت و محبوب
حضرت قطب ربانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا ، تعجب ہے تم اکثر یہ کہتے ہو فلاں مقرب بنا دیا گیا ہے اور مجھے دور رکھا گیا ہے فلاں کو عطا کیا گیا اور میں محروم ہوں، فلاں کو غنی بنا دیا گیا ہے اور مجھے محتاج ، فلاں عافیت ہے نوازا گیا ہے اور میں بیمار ہوں ، فلاں بزرگ ہے اور مجھے حقیر کیا گیا ہے، فلاں کی تعریف کی گئی ہے اور میری مذمت ، فلاں کی تصدیق کی گئی ہے اور میری تکذیب ۔ کیا تم نہیں جانتے کہ اللہ تعالے ذات وصفات میں یکتا ہے اس کا کوئی شریک نہیں ہے اور واحد دوستی میں بھی وحدت کو پسند کرتا ہے اور اسی کو دوست بناتا ہے جو دوستی میں یگانہ ہو اور جب اللہ تعالی غیر کے ذریعے اپنے فضل و نعمت سے قریب کرے تو خدا سے تمہاری محبت کم ہو جائے گی اور بٹ جائے گی ۔ بسا اوقات جس کے ذریعے اور جس کے ہاتھوں پر نعمت ظاہر ہوتی ہو اس کی طرف میلان پیدا ہو گا تو تمہارے دل میں اللہ تعالیٰ کی محبت کم ہو جائے گی ۔ اللہ تعالے غیور ہے وہ محبت میں کسی شریک کو گوارا نہیں فرماتا ، وہ غیر کے ہاتھوں کو تمہاری امداد و احسان سے اس کی زبان کو تمہاری تعریف و ستائش سے اور اس کے پاؤں کو تیری طرف آنے سے روک دے گا تا کہ ان کی وجہ سے تم خدا سے اعتراض نہ کرو ، کیا تم نے رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا یہ قول نہیں سنا انسانی قلوب کو طبعاً اس طرح پیدا کیا گیا ہے کہ وہ اپنے احسان کرنے والے سے محبت اور برائی کرنے والوں سے نفرت رکھتے ہیں۔ چنانچہ اللہ تعالے لوگوں کوتم پر کسی قسم کا احسان کرنے سے روک دے گا یہاں تک کے تمھاری محبت اسی سے رہے گی اور ظاہر و باطن کے ساتھ تمام حرکات و سکنات میں اللہ ہی کے لیے ہو جاؤ گے اور خیر و شر کو صرف اس کی طرف سے دیکھو گے۔ خلق، نفس و ہوا ، اراده و آرزو اور جمع ما سو الله سے فانی ہو جاؤ گے پھر تمھاری طرف عطا و بخشش کے ہاتھ حمد و ثنا کیلئے زبانیں کھول دی جائیں گی اور اللہ تعالے دنیا و آخرت میں تمھیں ناز و نعمت اور ولایت و کرامت کے ساتھ رکھے گا ۔ پس بے ادبی نہ کرو جو تمہاری طرف انعام اکرام کی نگاہ کر تا ہے تم اس کی طرف ادب و احترام اور حق کی رعایت کے ساتھ دیکھو اور جو کرم و عطا کے ساتھ تمھاری طرف متوجہ ہوتا ہے تم اس کی طرف طلب امید کے ساتھ متوجہ ہو جو تمھیں دنیا و آخرت کی بھلائی کی طرف بلاتا ہے تم اس کا جواب دو، اور تم اپنا ہاتھ اس کی طرف بڑھاؤ جو تمھیں بچاتا ہے اور جہل کی تاریکیوں سے نکالتا ہے ہلاکت سے نجات دیتا ہے گندگی دور کرتا ہے، آلائشوں سے پاک کرتا ہے ، تمھارے نفس مراد اور اس کی بدبو اور ناقص اور گھٹیا ارادوں سے ، اور برائی کا حکم دینے والے نفس اور بھٹکے ہوئے گمراہ کرنے والے ساتھیوں یعنی شیاطین اور تمھاری خواہش سے تمھارے جاہل دوستوں سے جو راہ حق کے ایسے راہزن ہیں کہ تمہارے اور ہر اچھی قیمتی اورعزیز چیز کے درمیان حائل ہیں ان سب سے تمھیں پاک اور خالص کرتا ہے، کب تک رسم و رواج ، خلق و خواهش ، سرکشی و سبکی دنیا و آخرت اور ما سوا اللہ میں مقید رہو گے۔ تم ہرشئے کے پیدا کرنے والے اور وجود بخشنے والے سے کہاں دور جا پڑے ہو وہ اول و آخر ہے ظاہر و باطن ہے اس کی طرف سب کو لوٹنا ہے تمام دل اس کے تصرف و اختیار میں ہیں ارواح کی طمانیت اس سے ہے تمام اسی کے لطف و کرم کے دروازے پر اتر تے ہیں وہی عطا اور احسان فرماتا ہے۔
مقالہ نمبر 63
معرفت کی ایک قسم
فرماتے ہیں میں نے ایک دفعہ خواب میں دیکھا کہ میں کہہ رہا ہوں اے اپنے باطن میں اپنے نفس کو ، ظاہر میں خلق کو اور عمل میں اپنے ارادے کو خدا کا شریک بنانے والے ۔ اس پر ایک شخص نے جو میرے پاس کھڑا تھا کہا یہ کیسی بات ہے ؟ میں نے جواب دیا کہ یہ معرفت حق کی ایک قسم ہے۔
مقالہ نمبر 64
وہ موت جس میں زندگی نہیں
حضرت شیخ السموات والارض رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا مجھے ایک دن کام میں دشواری پیدا ہوئی میرے نفس نے اس کے بوجھ سے نکلنے کے لیے حرکت کی ، راحت اور کشادگی کی طلب کی تو مجھے کہا گیا : تم کیا چاہتے ہو؟ میں نے کہا ایسی موت جس میں حیات نہ ہو اور ایسی حیات جس میں موت نہ ہو۔ پوچھا گیا : وہ کون سی موت ہے جس میں حیات نہ ہو اور کون سی حیات ہے جس میں موت نہ ہو ؟ میں نے کہا ، ایسی موت جس میں حیات نہ ہو میرا اپنی ہم جنس مخلوق سے مرجانا ہے کہ میں نفع و نقصان ان کی طرف سے نہ دیکھوں اور دنیا و آخرت میں اپنے نفس و خواہش اور اراده و آرزو سے مرجاؤں ان چیزوں میں میری حیات اور میرا وجود نہ رہے اور لیکن وہ حیات جس میں موت نہ ہو وہ یہ کہ اپنے پروردگار کے فعل میں زندہ رہوں اور میرا وجود مزاحمت نہ کرے اور اس حالت میں میری موت وجود دستی کے ساتھ میری حیات ہے جب سے میں اس معاملہ کی حقیقت سے واقف ہوا ہوں میری یہ خواہش نفیس ترین خواہش ہے ؟
مقالہ نمبر 65
دعا کی تاخیر قبولیت خدا کی ناراضگی کومستلزم نہیں
حضرت سرکا ر بغداد رضی اللہ عنہ نے فرمایا : اجابت دعا میں تاخیر ہونے کی صورت میں ناپسندیدگی کیسی ؟ تم کہتے ہو کہ مخلوق سے سوال کرنا حرام ہے اور خدا سے مانگنا فرض ہے اور جب دُعا کرتا ہوں تو قبول نہیں ہوتی ۔ اس سلسلہ میں تجھ سے پوچھا جائے گا کیا تو آزاد ہے یا غلام ؟ اگر کہو میں آزاد ہوں تو کافر ہوا اور اگر کہو کہ غلام ہوں تو کہا جائے گا کیا تم دعا کی اجابت میں تاخیر کی صورت میں اپنے آقا پر تہمت لگاتے ہو۔ اپنے اور تمام مخلوق کے متعلق اس کی حکمت ورحمت اور ان کے احوال سے باخبری کے متعلق شک کرتے ہو ، یا تو تم اپنے رب پر تہمت نہیں لگاتے۔ اگر تہمت نہیں لگاتے اور اس حکمت ، اراد ے اور قبولیت دعا میں تاخیر کو اپنے لیے مصلحت سمجھتے تو تم پر شکر لازم ہے کیونکہ اس نے تمھارے حال کے زیادہ لائق نعمت اختیار کی ہے اور تمہارے فساد کو دُور کیا ہے اور اگر تم تا خیر قبولیت میں تہمت لگاتے اور اس کی حکمت ورحمت میں شک کرتے ہو تو تم تہمت لگانےکی وجہ سے کافر ہو کیونکہ اس طرح تم نے خدا کی جانب ظلم کی نسبت کی ہے جبکہ وہ بندوں پر ظلم نہیں کرتا ، نہ ہی ظلم کو پسند کرتا ہے۔ مخلوق پر ظلم کرنا اللہ تعالی کے لیے محال ہے، کیونکہ وہ تیرا اور ہر چیز کا مالک ہے اور مالک کو اپنی ملک میں جس طرح چاہے تصرف کرنے کا اختیار ہوتا ہے۔ لہذا اس پر ظلم کا اطلاق نہیں ہو سکتا اور ظالم کی تعریف یہی ہے کہ وہ غیر کی ملک میں اجازت کے بغیر تصرف کرے چنانچہ اللہ تعالے کے تمہاری ذات کے متعلق فعل پر جو تمھاری طبیعت اور خواہش نفس کے خلاف ہے ۔ ناراضگی کا دروازہ بند کر دو اگرچہ بظا ہر وہ تمھاری مصلحت کے خلاف ہے۔ تم پر واجب ہے کہ شکر ، صبر، موافقت اور رضائے الہی کو اختیار کرو اور ناراضی، تہمت تراشی ان کے رذائل کے ارتکاب میں نفس کی سرکشی کے ساتھ اپنے قیام اور خدا سے گمراہ کرنے والی ہر خواہش کو چھوڑ دو ہمیشہ دعا کرتے رہو ۔ صدق و خلوص سے اس کی پناہ ڈھونڈو اپنے رب پر حسن ظن رکھو۔ اس سے کشائش کی امید رکھو۔ وعدہ الہی کی تصدیق کرو ۔ وعدہ الہی میں جلد بازی سے کام لینے سے جہاد کرو۔ اور اس کے حکم کی موافقت کرو۔ اس کی ذات و صفات میں وحدانیت کی حفاظت کرو اس کے حکم کی تعمیل جلدی کرو۔ جن کاموں سے منع کیا ہے انہیں نہ کرو ، تمہارے بارے میں جب تقدیر اور فعل خداوندی کا نزول ہو تو اس کے سامنے خود کو مردہ سمجھو اور اگرتم تہمت تراشی اور سوء ظن پر مجبور ہو تو تمہارا نفس امارہ رب کریم کا نا فرمان اس کا زیادہ مستحق ہے اور اپنے مولا کریم کی بجائے نفس کی طرف ظلم منسوب کرنا زیادہ مناسب ہے اس لیے ہر حال میں نفس کی موافقت و دوستی اور اس کے قول و فعل پر رضا مندی سے بچو کیونکہ یہ خدا کا اور تمھارا دشمن ہے۔ تمہارے اور خدا کے دشمن شیطان لعین کا مخلص دوست بدنِ انسان میں اس کا خلیفہ اور جاسوس ہے اللہ تعالے اور اس کے عذاب سے ڈرو، پھر خدا سے ڈرو ، پر ہیز کرو پرہیز کرو اپنے نفس کو عذاب سے خلاصی دینے کے لیے جلدی بہت جلدی کرو نفس پر عداوت کی تہمت لگاؤ۔ اس کی طرف ظلم کی نسبت کر و اللہ تعالے کا یہ قول سناؤ ما يفعل الله بعذابكم ان شكرتم وأمنتم اور یہ قول باری عزا سے بھی پڑھو ذلك بما قدمت ايديكم ان الله لیس بظلام للعبید اور یہ قول باری تعالیٰ بھی پڑھو ان الله لا يظلم الناس شيئا و لكن الناس انفسهم يظلمون اور اس طرح کی دیگر آیات و احادیث بھی پڑھو تا کہ تمھیں معلوم ہو جائے کہ اللہ تعالی ظلم سے منزہ و مبرا ہے ، اور اللہ تعالے کے لیے اپنے نفس کے دشمن بن جاؤ خدا کی طرف سے اس کے ساتھ جدال و محاربہ کرو اور اس کے لیے تلوار نکال نفس کے قہر و شکست کے لیے اللہ تعالٰی کے لشکری بن جاؤ کیونکہ یہ خدا کا بدترین دشمن ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت داؤد علیہ السلام سے فرمایا
اے داؤد ! ہوائے نفس کو چھوڑ دو کیونکہ میرے ملک میں اس کے سوا مجھ سے جھگڑا کرنے والا کوئی نہیں ہے ۔
مقالہ نمبر 66
دعا کرنے کا حکم اوردعا چھوڑنے سے ممانعت
حضرت شاہ بغدا و رضی اللہ عنہ نے فرمایا : یہ نہ کہو کہ میں خدا سے دعا نہیں مانگتا اس لیے کہ اگر وہ چیز میری قسمت میں ہے تو مل ہی جائے گی سوال کروں یا نہ کروں ۔ اور اگر وہ میری قسمت میں نہیں تو میرا سوال مجھے نہیں دے سکتا بلکہ دنیا و آخرت کی بھلائی سے جس چیز کی ضرورت یا خواہش ہو اس کا سوال کرو جب کہ وہ چیز حرام یا باعث فسادنہ ہوا کیونکہ خدا نے تمھیں مانگنے کا حکم دیا ہے اور ترغیب دلائی ہے ۔ ارشاد ہوتا ہے و ادعونی استجب لکم نیز فرمایا ، واسئلوا الله من فضله – حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم فرماتے ہیں، اللہ تعالی سے اس حال میں دعا کرو کہ تمھیں اجابت دعا کا یقین ہو۔ ایک حدیث شریف میں ہے: اللہ تعالیٰ سے اپنے ہاتھوں کے باطن کے ساتھ سوال کرو۔ اس سلسلہ میں اور بھی احادیث وارد ہیں۔ یہ مت کہو کو میں خداسے مانگتا ہو ں وہ مجھے دیتا نہیں، اس لیے اب نہیں مانگوں گا، بلکہ تم ہمیشہ دعا مانگتے رہو کہ اگر وہ چیز تمہارے مقدر میں ہے اور دعا کرنے کے بعد ملی ہے تو تمہارا ایمان و یقین اور عقیدہ توحید پختہ ہوگا مخلوق سے سوال نہ کرنے ، تمام احوال میں خدا کی جانب رجوع کرنے اور حاجات پیش کرنے میں اضافہ ہوگا اور اگر مطلوب چیز تمھارے مقدر میں نہیں تو تمھیں دُعا ۔ کہ بعد اس سے بے نیاز کر دیا جائے گا اللہ تعالیٰ کی طرف سے تمھارے لیے فقر اختیار کرنے پر راضی کر دے گا اور اگر دُعا کے ذریعے مرض و فقر دُور نہیں فرمائے گا تو تمھیں اس حالت میں خوش رکھے گا اور اگر قرض دار ہوا تو اللہ تعالی قرضخواہ کے دل کو تمھارے ساتھ درشتی کی بجائے نرمی کرنے ، فراخی تک مہلت دینے اور آسا نی کرنے یا قرض معاف کرنے یا کم کرنے پر آمادہ کر دے گا اور اگر قرض خواہ تمھارا قرض معاف یا کم نہ کر دت گا تو اللہ تعالے دنیا میں سوال پورا نہ کرنے کے بدلے آخرت میں تمھیں بے حساب اجر دے گا کیونکہ وہ کریم ، غنی اور رحیم ہے ، وہ سوال کرنے والے کو دنیا و آخرت میں مایوس نہیں لوٹاتا چنانچہ دعا کرنے میں فائدہ اور عطا ضرور ہے خواہ اس جہان میں ہو یا اس عالم میں ۔ حدیث شریف میں ہے : مومن قیامت کے روز اپنے نامہ اعمال میں ایسی نیکیاں بھی دیکھے گا جنھیں اس نے نہ دنیا میں کیا تھا اور نہ ان کے متعلق علم رکھتا ہوگا۔ اس سے پوچھا جائے گا : کیا ان نیکیوں کو جانتے ہو؟ وہ عرض کرے گا مجھے تو معلوم نہیں یہ کہاں سے آگئیں ، اسے بتایا جائے گا کہ یہ نیکیاں تیرے ان سوالوں کا بدلہ ہے جنہیں خدا سے دنیا میں طلب کرتا تھا اور یہ بدلہ اس لیے ہے کہ مومن دُعا کے وقت خدا کا ذاکر اور اس کی توحید پر کار بند رہتا ہے ہر چیز کو اس کے محل پر رکھنے والا ، حق دار کو حق دینے والا ، اپنے حول وقوت سے بیزار ، تکبر و تعظیم اور ننگ و عار کو ترک کرنے والا تھا ۔ یہ سب اعمال حسنہ ہیں جن پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے ثواب ملتا ہے ۔
مقالہ نمبر 67
نفس سے جہاد اور اس کی تفصیل
حضرت علیہ الرحمہ فرماتے ہیں ، جب تم اپنے نفس کے ساتھ جہاد کرتے ہو اس پر غلبہ پا کر اسے شمشیر مخالفت سے قتل کرتے ہو تو اللہ تعالے اسے زندہ کر دیتا ہے وہ تم سے جھگڑا کر تا ہے اور حرام و مباح چیزوں کی لذات شہوات طلب کرتا ہے تاکہ تم اسی مجاہدہ و ریاضت و مسابقت کی حالت کی طرف لوٹ آؤ اور دائمی ثواب کے حق دار بن جاؤ ۔ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے اس ارشاد کا یہی مطلب ہے ہم نے جہادِ اصغر سے جہاد اکبر کی طرف رجوع کیا ہے۔ جہاد اکبر سے مراد مجاہدہ نفس ہے کیونکہ یہ ہمیشہ لذات و شہوات اور گناہوں میں مشغول رہتا ہے۔ اللہ عز و جل کے اس قول کے بھی یہی معنی نہیں کہ اپنے رب کی عبادت کرو یہاں تک کہ تمھیں موت آجائے۔ اللہ تعالے نے اپنے نبی مکرم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کو عبادت کاحکم دیا جو کہ مخالفت نفس ہی ہے کیونکہ ہر قسم کی عبادت میں نفس سرکشی کرتا ہے اور ان عبادتوں کی ضد چاہتا ہے یہاں تک کہ اسے یقین موت آجائے ۔
اعتراض ، حضور اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کا نفس عبادت سے کسی طرح انکار کر سکتا ہے جبکہ آپ میں خواہش نفس ہی نہ تھی، اللہ تعالٰے فرماتا ہے : وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوَى إِنْ هُوَ إلا وحي يوحى”.
جواب اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو حَتى يَأْتِيك الیقین سے خطاب فرما یا تا کہ حکم شریعت قرار پائے اور یہ کہ قیامت تک آپ کی ساری اُمت کے لیے عام ہے۔ اللہ تعالی نے اپنے حبیب اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو نفس اور خواہش نفس پر غلبہ دیا ہے تاکہ وہ نقصان دہ نہ ہوں اور مجاہدہ کی ضرورت پیش نہ آئے بخلاف امت کے نفوس کے مومن جب زندگی بھر نفس سے جہاد کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ اُسے موت آجاتی ہے اور وہ نفس و خواہش کے خون سے بھری ننگی تلوار لے کر اپنے رب سے ملاقات کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے بدلے جنت عطا کرتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ، وأما من خاف مقام ربه ونهى النفس عن الهوى فان الجنة هي المادى – جب اللہ تعالے اسے جنت میں داخل کرے گا جنت کو اس کا گھر ۔ ٹھکانا اور جائے بازگشت بنا دے گا جنت سے باہر آنے اور اس کے علاوہ کسی اور جگہ منتقل ہونے اور دنیا کی طرف واپس آنے کے خوف سے بے پروا کر دے گا تو اُ سے ہردن ہر آن طرح طرح کی نعمتیں ملیں گی اوراسے انواع و اقسام کے زیور اور لباس پہنائے جائیں گے ان کی کوئی حدو وغایت نہیں اور نہ ہی وہ ختم ہونے والے ہیں جیسا کہ یہ دنیا میں ہر روز ہر لحظہ نفس اور اس کی خواہشات کے خلاف نئے نئے مجاہدے کیا کرتا تھا لیکن کافر، منافق اور گنہ گار جب نفس اور اس کی خواہشات کے خلاف مجاہدہ کرنا چھوڑ دیتے ہیں اور اس کی متابعت اور شیطان کی موافقت کرتے ہوئے کفر و شرک اور ان کے علاوہ طرح طرح کے دوسرے افعال قبیحہ اور اخلاق ذمیمہ کا ارتکاب کرنے ہیں مشغول ر ہتے ہیں تو اللہ تعالے انہیں آگ میں داخل کر دیتا ہے جو کافروں کے لیے تیار کی گئی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے : واتقوا النار التي اعدت للكفرين پھر جب اللہ تعالے انھیں آگ میں داخل کرے گا تو اسے کافروں کا مستقل ٹھکانا ، جائے بازگشت اور ماوی بنا دے گا آگ ان کے گوشت اور کھال کو جلا دے گی تو اللہ تعالیٰ ان کے بدلے نیا گوشت اور کھال پہنا دے گا ۔ جیسا کہ ارشاد رب قدوس ہے:
كلما نضجت جلودهم بدلناهم جلودا غيرها انھیں یہ عذاب اس لیے ہوگا کہ وہ دنیا میں نفس و خواہشات نفس کی موافقت اور خدا کی نافرمانی کرتے تھے ۔ چنانچہ اہل جہنم کو درد و عذاب میں مبتلا رکھنے کے لیے ان کے گوشت پوست کو تبدیل کیا جاتا رہے گا اور اہل جنت کو ہر وقت تازہ اور جدید نعمتوں سے نوازا جاتا رہے گا تاکہ ان کی لذات و خواہشات دو چند ہوں اس کا سبب مجاہدہ نفس ہے جیسا کہ اہل ایمان کرتے ہیں اور موافقت نفس ہے جیسا کہ کفار و نافرمانوں کا طریقہ ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشا و گرامی کا بھی یہی مفہوم ہے کہ دنیا آخرت کی کھیتی ہے۔
مقالہ نمبر 68
خدا تعالی ہر آن نئی شان
حضرت سیدنا غوث اعظم رضی اللہ عنہ نے فرمایا ، جب اللہ تعالے بندے کے سوال کو پورا کر کے طلب کر دہ چیز عطا فرما دیتا ہے اس سے نہ خدا کا ارادہ تبدیل ہوتا ہے نہ قسمت میں فرق آتا ہے جسے لکھ کر قلم خشک ہو چکا ہے اور اس پر علم خداوندی سبقت کر چکا ہے لیکن مقررہ وقت پر بندے کا سوال اللہ تعالیٰ کے ارادے کے موافق ہو جاتا ہے تو اسے اجابت دعا اور قضاء حاجت کے لیے پہلے سے مقررہ وقت کے پہنچنے پر دعا قبول اور حاجت پوری ہو جاتی ہے جیسا کہ علماء نے اللہ تعالیٰ کے اس قول کی تشریح میں فرمایا ہر روز یعنی ہر وقت وہ نئی شان میں ہے یعنی تقادیر کو ان کے اوقات مقرہ پر چلاتا ہے ۔ چنانچہ جس طرح کسی بندے کو صرف اس کی دعا کی وجہ سے اللہ تعالٰی کوئی چیز عطا نہیں فرماتا اسی طرح محض دعا کے ذریعے کسی چیز کو رو بھی نہیں فرماتا ۔
ایک شبہ کا ازالہ
حدیث شریف میں ہے کہ قضا کو صرف دعا ہی ٹال سکتی ہے۔ اس کی توجیہ میں کہا جائے گا اس سے مراد یہ ہے کہ قضا کو وہ دعا ہی رد کر سکتی ہے جس کے متعلق قضا میں فیصلہ ہو چکا ہے کہ اس دعا کے ساتھ قضار د کر دی جائے گی۔ اور اس طرح اپنے عمل کے ذریعے کوئی شخص آخرت میں جنت میں داخل نہیں ہوگا بلکہ جنت میں ہرشخص اللہ تعالیٰ کی رحمت سے داخل ہوگا۔ لیکن اللہ تعالیٰ آدمیوں کو ان کے اعمال کے مطابق جنت میں درجات عطا کرے گا ۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا کی روایت میں ہے ۔ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کوئی آدمی محض اپنے عمل کی وجہ سے جنت میں داخل ہوگا ؟ آپ نے فرمایا : نہیں بلکہ محض اللہ کی رحمت میں داخل بہشت ہوگا ۔ عرض کیا آپ بھی ؟ فرمایا : ہاں ، میں بھی اس وقت تک جنت میں داخل نہیں ہو گا جب تک رحمت خداوندی مجھے ڈھانپ نہ لے ، یہ فرما کر آپنے اپنا ہاتھ سر پر رکھ لیا محض اعمال کی وجہ سے جنت میں داخل ہونے کا مستحق نہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ واجب تعالی پر کسی کا حق لازم نہیں ہے نہ ہی اس کے لیے وعدہ کی تکمیل ضروری ہے ، بلکہ وہ جو چاہتا ہے کہتا ہے جسے چاہتا ہے عذاب دیتا ہے اور جسے چاہے معاف فرماتا اور رحم کرتا اور انعام سے نوازتا ہے وہ جو چاہے کرے اس بارے میں کوئی سوال نہیں کر سکتا اور بندوں سے سوال کیا جاتا ہے۔ جسے چاہے وفورِ رحمت و احسان سے بے حساب رزق عطا کرتا ہے اور جسے چاہے اپنے انصاف کے ذریعے دونوں جہانوں میں کچھ نہیں دیتا۔ ایساکیوں نہ ہو جبکہ تمام کائنات میں عرش بریں سے لے کر زمین کے ساتوں طبقوں کے نیچے تحت الثری تک کی تمام مخلوق اس کی ملک ہے اور اسی کی بنائی ہوئی ہے ان سب چیزوں کا خالق و مالک اس کے سوا کوئی نہیں ۔ خالق اکبر خود فرماتا ہے، کیا خدا کے سوا کوئی خالق ہے؟ نیز فرماتا ہے ، کیا خدا کے ساتھ کوئی اور خدا ہے ؟ ایک اور مقام پر فرمایا کیا تو اللہ کے کسی (شریک) کو جانتا ہے جو اس کا ہمنام ہو ۔ ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا : (اے حبیب ) یوں عرض کر ! اے ملک کے مالک اللہ تو جسے چاہے سلطنت دے اور جس سے چاہے سلطنت چھین لے اور جسے چاہے عزت دے اور جسے چاہے ذلت دے ساری بھلائی تیرے ہی ہاتھ میں ہے۔ بے شک تو سب کچھ کر سکتا ہے۔ تو دن کا حصہ رات میں ڈالے اور رات کا حصہ دن میں ڈالے اور مُردہ سے زندہ نکالے اور زندہ سے مُردہ نکالے اور جسے چاہے بے حساب دے ۔
مقالہ نمبر 69
خدا سے مغفرت طلب کرو
حضرت شاہ جیلان رضی اللہ عنہ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ سے صرف یہ چاہو کہ گزشتہ گناہ بخشے جائیں موجودہ اور آئندہ دنوں میں گنا ہوں سے محفوظ رہیں حسن طاعت ، تعمیل حکم نا فرمانی سے بچنے ، نفس و طبیعت کے خلاف قضا و قدر کی تلخی پر راضی رہنے ، بلاؤں کی شدت پر صبر کرنے ، رحمتوں اور عطاؤں پیش پرشکرکرنے پھر خاتمہ بالخیر ہونے کی امید اور انبیاء و صدیقین شہداء و صالحین کی مصاحبت و رفاقت جو کہ بہت اچھی ہے ، مانگو۔ اللہ تعالے سے دنیا طلب نہ کرو۔ عافیت و تونگری مانگتے ہوئے فقر و بلا سے نجات نہ چا ہو بلکہ خدا کی تدبیر کے مطابق قسمت میں لکھے ہوئے پر رضا کے طالب بنو ، جس حال میں رکھا ہے اور جس مصیبت میں مبتلا کیا ہے اس پر اس وقت تک دائمی حفاظت کا سوال کرو جب تک خدا تمہیں موجودہ حال کے برعکس مخالف حال کی طرف نہ لوٹا دئے۔ کیونکہ تمہیں معلوم نہیں کہ بھلائی کس بات میں ہے ، فقر میں ہے یا غنا میں ، بلا میں ہے یا عافیت ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے تم سے اشیاء کے احوال کی حقیقت کا اور صلاح و فساد کا علم پوشیدہ رکھا ہے ، اللہ تعالے ہی ان کی مصلحتوں اور مضر توں کو بہتر جانتا ہے۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا : مجھے اس بات کی قطعاً پروا نہیں کہ میری صبح کس حال میں ہوگی ، اس حال میں جو مجھے نا پسند ہے یا ایسے حال میں جو پسند ہے اس لیے کہ مجھے یہ معلوم نہیں کہ میری بہتری کس میں ہے ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اس فرمان کی وجہ یہ ہے کہ آپ اللہ تعالی کی تدبیر پرحسن رضا اور اس کی قضا و اختیار پر آرام و قرار کی نعمت سے مالا مال تھے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : اس لیے تمہیں چاہئے اس وقت تک اس مذکورہ حال پر قائم ر ہو جب تک تمہاری خواہشیں ختم نہ ہو جائیں ۔ تمھارا نفس شکستہ ہو کر ذلیل ، مطیع اور مغلوب نہ ہو جائے پھر تمہارا ارادہ اور خواہشیں مٹ نہ جائیں اور تمام کائنات اور اس کے تعلقات تمہارے دل سے نکل نہ جائیں ، اور تمہارے دل میں خدا کے سوا کچھ بھی باقی نہ ر ہے پھر تمہارا دل محبت الہی سے لبریز ہو جائے گا۔ طلب خدا میں تمھارا ارادہ صادق قرار پائیگا حکم خداوندی سے دنیا و آخرت کے حصوں سے اپنا حصہ طلب کرنے کا ارادہ تمہاری طرف لوٹا دیا جائے گا اور تم امر خداوندی کی اتباع و موافقت میں اپنا حصہ طلب کروگے اگروہ تمہیں عطا کرے تو شکر کے ساتھ قبول کر لو گے اور اگر نہ دے گا تو تم اپنے رب سے ناراض نہیں ہو گے ۔ تمہارے باطن میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی اور اس سلسلہ میں تم اللہ تعالے پر بخل وغیرہ نامناسب بات کی تہمت نہیں لگاؤ گے اس لیے کہ تم نے اپنے ارادہ خواہش سے کچھ بھی طلب نہیں کیا کیونکہ تمہا را دل ان سے بالکل خالی ہو چکا ہے بلکہ تم نے توصرف حکم خداوندی بجالانے کے لیے طلب کیا ہے ۔ والسلام
مقالہ نمبر 70
شکر اور اعتراف قصور
حضرت غوث اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا : تمھاری اپنے اعمال میں خود بینی ، اپنے نفس کو پیش نظر رکھنا اور اعمال پر معاوضہ طلب کرنا کیسے اچھا ہو سکتا ہے ، جبکہ یہ سب اللہ تعالی کی توفیق و امدا د خداوندی ، قوتِ ایزدی اور ارادہ الہی کی وجہ سے ہیں۔ اگر تمھارا گناہ چھوڑنے کا سبب بھی اس کی نگہبانی اور حفاظت و حمایت ہے اللہ تعالے نے تمہیں جو نعمتیں عطا کی ہیں ان کے اعتراف شکر گزاری سے مفر کیوں ؟ یہ رعونت اور جہالت کیسی کہ غیر کی شجاعت و سخاوت اور اس کا مال خرچ کرنے پر عجب و خود پسندی کا شکا ر ہو رہے ہو جبکہ تو غیر کی معاونت کے بغیر اپنے دشمن کو قتل نہیں کر سکتے پہلے اس شجاع نے زخمی کیا پھر تم قتل کرنے کے قابل ہوئے اگروہ شجاع مرد تمھارا معاون نہ ہو تو تم اپنے دشمن کی بجائے خود شکست کھا جاتے اور قتل ہو جاتے، اگر صادق وکریم اور امین کی ضمانت نہ ہوتی جس نے پہلے بدلہ دینے کی ضمانت دی ہے تو تم اپنی قلیل دولت خرچ نہ کر سکتے، اگر ضامن کا قول نہ ہوتا اور اس کے عہد وضمان پر تمہیں لالچ نہ ہوتا تو تم اس مال سے ایک پیسہ بھی خرچ نہ سکتے پھر اپنے فعل پر خو دبینی کیسی ، تمہارا بہترین حال یہی ہے کہ تم ہر حال میں مددگار و توفیق دہندہ کا شکر ادا کرتے رہواور ہمیشہ اس کی حمد وثنا میں مصروف رہو اور اپنے اعمال کو اس سے منسوب کرد البتہ شر، معاصی ، ملامت کی نسبت اپنے نفس سے رکھو اور اپنے نفس کو ظلم سوء ادبی کی طرف منسوب کرتے ہوئے اسے متہم رکھو اس لیے کہ یہ اس کا مستحق ہے کیونکہ یہ ہر برائی اور سخت و دشوار کام کا حکم دیتا ہے اگرچہ تمہارے کسب ، وجود اور تہار افعال کا خالق اللہ تعالیٰ ہی ہے اور تم کا سبب و فاعل ہو جیسا کہ بعض علماء نے فرمایا ہے کہ فعل تخلیق خدا اور کسب بندہ ہے اورر سول الله صلی اللہ تعال علیہ وسلم کا قول بھی دونوں امروں کا مثبت ہے کہ عمل کرو اور طاعت و عبادت کیلئے خدا کا قرب ڈھونڈو اور درستی اختیار کرو۔ پس جو آدمی جس کام کے لیے تخلیق کیا گیا ہے وہی کام اس کے لیے آسان بنا دیا گیا ہے۔
مقالہ نمبر 71
مُرید و مراد
حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا : تم دو حال سے خالی نہیں ہو، تم مرید ہوگے یا مراد ۔ اگرتم مرید ہوتو تم پر بوجھ ڈالا جائے گا اور تمھیں ہر قسم کی مشقت اور سختی برداشت کرنا ہو گی کیونکہ تم طالب ہو اور طالب پر مشقت اور رنج کا بوجھ ڈالا جاتا ہے حتی کہ مطلوب تک وصول اور محبوب کے حصول پر کامیاب ہو اور اپنا مقصود پالے تمہارے لیے یہ مناسب نہیں کہ تمہاری جان و مال اور آل و اولاد پر جو بلائیں نازل ہوں ان سے فرار اختیار کر و یہاں تک کہ تم سے بوجھ اٹھا لیے جائیں اور کمر توڑ سختیوں سے آزاد کر دیا جائے پھر تمام اذیتیں تکلیفیں اور ذلتیں رفع کر دی جائیں، پھر ہر قسم کی رذالتوں ظاہری باطنی میل کچیل ، اہانتوں، دکھ درد ، بیماریوں اور مخلوق کے سامنے پیش آنے والی حاجتوں سے محفوظ و مامون کر دئیے جاؤ گے۔ پھر ناز و نعمت والے محبوبوں اور مرادین میں داخل کر دیئے جاؤ گے اور اگر تم خدا کے محبوب و مراد ہو تو بلائیں نازل ہونے پر ہرگز اللہ تعالے پر تہمت نہ لگاؤ۔ اور اس کے نزدیک تو تمہاری قدر ومنزلت ہے اسے شک کی نگاہ سے نہ دیکھو ۔ وہ تمھیں ابتلاء، و آزمائش میں اس لیے مبتلا کرتا ہے کہ تمہیں مرد ان راہ کے درجے تک پہنچائے اور تمہیں اولیاء و ابدال کے منازل و مقامات تک رسائی دے کر رفعت بخشے کیا تمہیں یہ پسند ہے کہ تمھاری منزل و درجہ دوسروں کے درجات و منازل سے نیچے رہے اور تم لباس نوازش، ایمان و معرفت کے اقدار اور ناز و نعمت میں دوسروں سے کم رہو، اگرتم مرتبہ کی کمی کو پسند کرو تو خداوند تعالی کو یہ پسند نہیں ہے ۔ اللہ تعالے جانتا ہے اور (خیرو برکت کی حقیقت جانتا ہے اور تم نہیں جانتے ۔ وہ تمہارے لیے دنیاوی لحاظ سے اعلیٰ، دینی لحاظ سے اسنی، آخرت کے اعتبار سے ارفع اور تمہارے حال کے زیادہ لائق مقام وحیثیت کو پسند کرتا ہے اور تم انکار کرتے ہو
سوال اگر تم یہ کہو کہ اس تقسیم و بیان کے مطابق ابتلا و مصائب تو طلاب و مرید کے لیے ہیں اور ناز پروردہ محبوب مراد کے لیے ابتداء کیسے درست قرار پائے گی۔
جواب ، اولا مذکور قول اکثرو اغلب وقوع پذیر ہوتا ہے اور دوسرا قول کم اور نا در واقع ہونے کے متعلق ہے ۔ اس بات میں کوئی اختلاف نہیں کہ رسول اللہ صلے اللہ تعالی علیہ وسلم تمام محبوبوں کے سردار ہیں اور تمام لوگوں سے سخت ترین بلاؤں میں رہے اور آقائے دو عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ خدا کے دین کی تقویت و تائید میں جس قدر مجھے ڈرایا گیا ہے کسی اور کو نہیں اور خدا کی عبادت اور اس کے دین میں جتنی تکلیفیں میں نے برداشت کی ہیں کسی اور نے نہیں کیں بیشک تیس دن اور راتیں مجھ پرایسی گزریں کہ ان میں ہمارے کھانے پینے کے لیے اتنا ہوتا جو حضرت بلال رضی اللہ عنہ کی بغل میں سما جائے ۔
حضور اکرم صلی الہ علیہ وسلم نے مزید فرمایا کہ ہم انبیاء کا گروہ بلاوں کے نزول کےاعتبار سے دوسرے لوگوں سے سخت ہیں پھر اس طرح دوسرے فضیلت والے اور پھران کے بعد والے مرتبے والے ۔ اور آپ نے یہ بھی فرمایا ، میں تم سب سے زیادہ خدا کو پہچاننے والا ہوں اور تم سب سے زیادہ اس سے ڈرنے والا ہوں۔ اس سے ظاہر ہوگیا کہ ناز پروردہ اور بارگاہ رب العزت کے محبوب و مراد کو کس طرح مبتلا ئے آفات کیا جاتا ہے اور کس طرح ڈرایا جاتا ہے ۔ یہ خوف و بلا جیسا کہ ہم نے قبل ازیں اشارہ کیا ہے بہشت بریں کی اعلی منازل تک پہنچانے کے لیے ہی ہے۔ کیونکہ دنیا کے اعمال کے ذریعے ہی جنت میں مراتب اور درجات بلند کیے جاتے ہیں، دنیا آخرت کھیتی ہے۔ اور انبیاء اولیاء علیہم السلام کے اعمال یہ ہیں کہ وہ او امرکی بجا آوری اور نواہی سے اجتناب کے بعد حالت بلا میں صبر ورضا اور موافقت سے کام لیتے ہیں۔ پھر ان سے اللہ تعالے کے فضل و کرم اور اس کی سنت جاریہ کے مطابق بلائیں دور کی جاتی ہیں اور دیدار الہی کی نعمت سے فیضیاب ہونے تک ابد الآباد تک ناز و نعمت اور فضل سے نوازے جاتے ہیں۔
مقالہ نمبر 72
بازار میں جانے والوں کے احوال
حضرت سرکار بغداد رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا : اہل دین عبادت گزاروں میں سے جو لوگ احکام خدا و ندی کی بجا آوری مثل نماز جمعہ ، نماز با جماعت اور پیش آمدہ حوائج کے وقت بازاروں میں داخل ہوتے ہیں وہ پانچ قسم کے ہیں :
پہلی قسم وہ لوگ ہیں جو بازاروں میں داخل ہو کر طرح طرح کی لذات دیکھ کر ان میں پھنس جاتے ہیں ایسی چیزیں ان کے دلوں پر اثر انداز ہوتی ہیں اور وہ فتنے میں مبتلا ہو جاتے ہیں اور یہ چیز ان کی ہلاکت ، دین و عبادت ترک کرنے طبیعت کی موافقت اور اتباع ہوا کی طرف رجوع کا سبب بن جاتی ہے مگر کہ اللہ تعالے کی رحمت اسے پہنچ جائے ، ان لذتوں پر صبر عطا کر دے اور آدمی اتباع ہوا اور موافقت طبع کی آفت سے رہائی پائے ۔
دوسری قسم ایسے لوگوں کی ہے جو ان لذتوں کو دیکھتے ہیں اور اس کی وجہ سے ان کی ہلاکت قریب ہوتی ہے تو اپنی عقل و دین کی طرف رجوع کرتے ہیں بزور صبر و تکلف سے کام لیتے ہوئے ان لذات کے ترک کی تلخی نوش کر جاتے ہیں ۔ یہ لوگ اس مجاہد کی طرح ہیں کہ اللہ تعالے اسے نفس وطبع اور ہو او خواہش پر مدد فرماتا ہے اور اس کے لیے اجر عظیم لکھ دیتا ہے جیسا کہ بعض احادیث میں وارد ہے ، رسول اللہ صلے اللہ تعالی علیہ وسلم نے فرمایا ، بندہ مومن کے لیے قدرت پا کر عاجز ہونے کی وجہ سے شہوت نفس چھوڑنے پر ستر نیکیوں کا ثواب ملتا ہے ، یا جن الفاظ سے حدیث وارد ہے
تیسری قسم ایسے لوگوں کی ہے جو لذات و شہوات سے تلبس اختلاط کرتے ہیں انہیں اللہ تعالیٰ کے فضل و انعام سے مال دنیا کی فراوانی حاصل ہے وہ انہیں لیتے ہیں اور خدا کا شکر بجالاتے ہیں ۔
چوتھی قسم وہ حضرات ہیں جو بازاروں میں جاتے وقت اس قسم کی لذات و شہوات کی طرف نظر بھی نہیں اٹھاتے اور نہ ہی انھیں اس کا احساس ہوتا ہے اور یا د خدا میں اس طرح مشغول ہوتے ہیں گویا کہ وہ ہر ما سوا اللہ سے نابینا ہیں غیراللہ کو دیکھ ہی نہیں سکتی ماسوا اللہ سے بہرے ہیں غیر کی بات نہیں سن سکتے اور انھیں غیر محبوب کی طرف دیکھنے اور اس سے رغبت رکھنے کی دلچسپی ہی نہیں، اور وہ جہان کی چیزوں سے صرف نظر کیے ہوئے ہیں اگر تم انہیں بازار میں داخل ہوتے دیکھو اور پوچھو تم نے کیا دیکھا ہے ؟ تو وہ جواب دیں گے ہم نے کچھ بھی نہیں دیکھا کیونکہ انہوں نے بازار کی اشیاء کو سر کی آنکھوں سے دیکھا ہے دل کی آنکھوں سے نہیں دیکھا ان پر اچانک نظر پڑی ہے۔ میل و محبت کی نگاہ ہے نہیں دیکھا ۔ انہیں یہ چیزیں صورت میں نظر آتی ہیں معنی میں نہیں ، ظاہر میں دیکھی ہیں باطن میں نہیں ۔ وہ ظاہری طور پر بازار کی طرف دیکھ رہے ہوتے ہیں مگر ان کے دل دیدار خداوندی میں مشغول ہوتے ہیں کبھی وہ صفات جلالیہ قہریہ کی دیکھتے ہیں اور کبھی صفات جمالیہ لطیفہ کے انوار و آثار کا مشاہدہ کرتے ہیں ۔
پانچویں قسم وہ لوگ ہیں جو بازار میں داخل ہوتے ہیں تو بازار والوں کی حالت پر رحم کرتے ہوئے ان کے دل خدا تعالیٰ کے فعل وارادہ سے شفقت و مہربانی سے بھر جاتے ہیں وہ اس کے باعث ان چیزوں کا مشاہدہ نہیں کر سکتے جو ان کے لیے ہوتی ہیں اور ان کے سامنے ہوتی ہیں وہ بازار میں داخل ہونے کے وقت سے لے کر باہر نکلنے کے وقت ان کے دنیا و آخرت کے کاموں میں شفقت و رحمت بن جاتے ہیں ان کے لیے دعا و استغفار اور شفاعت میں مشغول رہتے ہیں ، ان کی بہتر ی اور دفع شر کے لیے ان کے دل کڑھتے ہیں ان کے ورطہ غفلت اور مغازه وحشت میں گرے ہونے پر ان کی آنکھیں اشکبار رہتی ہیں اور اہل بازار بلکہ تمام مخلوق پہ خدا کے فضل و کرم ہونے پر ان کی زبانیں حمد ثنا میں مصروف رہتی ہیں یہ وہی لوگ ہیں جنہیں شہروں اور بندوں پر خدا کا کو توال کہا جاتا ہے۔ ان لوگوں کو تم عارف ، ابدال ، زاہد ، عالم ، غائب حاضر ، محبوب مراد ، زمین پر خدا کے نائب ، سفیر، لوگوں تک علوم، فیضان ، احکام پہنچانے والے ، شیریں زبان ،ہادی ، مہدی، رہنما اور مرشد کے ناموں سے یا دکر سکتے ہو ، یہی حضرات کبریت احمر ہیں اور عقیق کے انڈے کی طرح کمیاب ہیں ۔ ایسے لوگوں پر اور تمام مومنوں پر جو اللہ کے مرید اور بلند مقام پر فائز ہیں اللہ تعالے کی رحمتیں نازل ہوں اور اللہ تعالیٰ ان سے راضی رہے۔
مقالہ نمبر 73
اولیاء کرام کی قسمیں
حضرت غوث اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا ، کبھی اللہ تعالیٰ اپنے اولیاء کو لوگوں کے گنا ہوں ، جھوٹوں ، دعووں ، افعال و اقوال میں ان کے شرک ، باطنی برائیوں اور دلی نیتوں سے آگاہ کر دیتا ہے۔ پس اللہ کا ولی خدا تعالیٰ و رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور دین اسلام کے لیے غیرت کرتا ہے ۔ باطن میں اسے بہت غصہ آتا ہے پھر غصے کے آثار اس کے ظاہر پر رونما ہوتے ہیں ظاہری و باطنی امراض کے باوجو دحال کی صحت و سلامتی کا دعوی کیسے درست ہو سکتا ہے ؟ اور شرک کی موجودگی میں توحید کا دعوی کیسے صحیح ہو سکتا ہے ، اور شرک کفر ( طریقت )ہے جو قرب خداوندی سے دور کر دیتا ہے اور شرک دشمن خدا شیطان لعین اور منافقین کی صفت ہے جن کے لیے جہنم کا سب سے نچلا درجہ تیار کیا گیا ہے اور انھیں ہمیشہ اس میں رہنا ہے۔ اس سے اولیاء کی زبان پر ان کے عیوب ، افعال خبیثہ ، انتہائی بے حیائی ، مردان خدا صدیقین کے احوال کے حامل ہونے کے ،قضا و قدر اور فعل خدا وندی میں فانی مرا دین کے زمرے میں شامل ہونے سے دعووں کا ذکر آ جاتا ہے، کبھی یہ تذکرہ خدا کے لیے غیرت کی بنا پر ہوتا ہے اور کبھی ایسے شخص کے انکار اور لوگوں کو نصیحت کرنے کے پیش نظر کبھی فعل خداوندی ، اراده ایزدی کے غلبہ اور جھوٹے دعویدار اور احکام دین کو جھٹلانے والے پر شدت غضب کی وجہ سے ایسا ہوتا ہے پھر ولی اللہ کی طرف عیوب بیان کرنے کی وجہ سے غیبت کی نسبت کی جاتی ہے اور کہا جاتا ہے کہ ولی غیبت کرتا ہے حالانکہ وہ لوگوں کو اس گناہ سے منع کرتا ہے ۔ کیا ولی حاضر و غائب کے ایسے عیوب بیان کر سکتا ہے جو خواص و عوام کی نظروں سے پوشیدہ ہوں ؟ یہ اعتراض ان لوگوں کے حق میں اس ارشاد خداوندی کا مصداق ہے کہ ان کا گناہ اس کے نفع سے زیادہ ہے۔ بظاہر ولی پر یہ انکار اچھا ہے کہ یہ ایک ایسے عیب کا انکار ہے جو شریعت میں نا پسند ہے مگر حقیقتا اللہ تعالے پر اعتراض ہے اور اسے ناراض کرنا ہے اور اور اس منکر ولی کا حال( تعارض کی وجہ سے)حیرت و توقف بن جاتا ہے اس حال میں منکر پر خاموشی تسلیم، اس کی تاویل اور شریعت میں اس کے جواز کی تلاش فرض تھی نہ کہ وہ مفتری و کذاب پر طعنہ زنی کرنے والے ولی اور خدا پر اعتراض کرتا ۔ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ ولی کا اس شخص کے عیوب بیان کرنا ہی اس کے جھوٹے دعووں سے تو بہ کرنے اور نفاق کے درخت کی بیخ کنی کاسبب بن جاتا ہے اور وہ اپنی جہالت و حیرت سے واپس لوٹ آتا ہے۔ ایسے میں قباحتوں کا ذکر ولی کی طرف سے جہاد اور حملہ قرار پاتا ہے اور مغرور و رعونت میں ہلاک ہونے والے کے لیے نفع رساں ثابت ہوتا ہے اور خدا جسے چاہتا ہے صراط مستقیم کی ہدایت دیتا ہے۔
مقالہ نمبر 74
عقل سے وحدانیت کا ثبوت
فرمایا ، عاقل پہلے اپنی ذات کے احوال اور اس کی ہیبت ترکیبی دیکھتا ہے پھر ساری مخلوقات اور ایجادات میں غور کرتا ہے، تو اپنے خالق اور از سر نو پیدا کرنے والے پر استدلال کرتا ہے کیو نکہ صنعت کی صانع پر اور قدرت محکمہ میں فاعل حکیم پر دلالت موجود ہے ۔ تمام چیزوں کا وجود قا در قیوم کی صنعت و قدرت سے ہے ۔ قرآن حکیم میں ہے ،
اس آیت کی تفسیر میں حضرت عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے فرمایا ہر چیزمیں اللہ تعالے کے اسماء گرامی میں سے کوئی اسم ہے، اور ہر چیز کا نام و نشان اسم الہی کا اثر ہے تم تواللہ تعالے کے اسماء وصفات اور افعال کا اثر ہو ۔ باطنی طور پر اس کی قدرت کا اور ظاہری طور پر حکمت کا ۔ اللہ تعالی ذات کے اعتبار سے باطن ہے اور صفات کے اعتبار سے ظاہر۔ اس نے اپنی ذات کو صفات میں اور صفات کو افعال میں پوشیدہ کر رکھا ہے۔ اس نے علم کو ارادے سے اور ارا دے کو حر کات کے ذریعے ظاہر فرمایا اور کمال وصفت کو چھپایا اور صفت کو ارا دے کے ذریعے ظاہر فرمایا ۔ اور اللہ تعالے اپنی غیب ذات میں باطن اور اپنی حکمت و قدرت کے آثار میں ظاہر ہے ۔ کوئی شے اس کی مثل نہیں اور وہ سننے والا جاننے والا ہے ؟ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہا نے اس کلام میں ایسے اسرار و معرفت ظاہر فرمائے ہیں جو صرف شمع نور عرفان سے منور سینے کے مالک سے ہی ظاہر ہو سکتے ہیں، آپ کی یہ شان اس لیے ہے کہ ان کے حق میں معصوم ہاتھ دُعا کے لیے بلند ہوئے تھے اور رحمت دو عالم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے ان کے بچپن میں دعا کی تھی ، اے اللہ ! اسے دین کی فہم عطا کر اور قرآن کی تاویل کا علم عطا فرما ” اللہ تعالیٰ ہمیں بھی ان کی برکتیں عطا کرے اور ان کے گروہ میں ہمارا حشر کرے۔
مقالہ نمبر 75
تصوف کا منبع و مخزن
حضرت سرکا ر بغداد رضی اللہ عنہ نے فرمایا : میں تمھیں وصیت کرتا ہوں خدا سے ڈرو ، اس کی طاعت کرو ، ظاہری شریعت کی پیروی کرو ، سینے کو پاک رکھو، نفس کی سخاوت اور چہرے کی بشاشت کا اہتمام کرو ، مصرف میں آنے والی چیزوں کو خرچ کرو ، مخلوق کو ایذا دینے سے ہاتھ روک لو ، ان کی تکالیف برداشت کرو ، فقر لازم کر لو، مشائخ کا احترام کرو ، بھائیوں سے حسن معاشرت کا برتاؤ کرو ، چھوٹوں کو نصیحت کرتے رہو ، دوستوں سے خصومت ترک کردو اور ایثار کو شعار بنا لو ذخیرہ اندوزی سے احتراز کرو ، اور جولوگ سالکین راه مولی اور طالبین درگاہ حق نہیں ان کی صحبت ترک کر دو، مسلمانوں کی ان کے دینی اور دنیاوی معاملات میں مدد کر و ۔ حقیقت فقر یہ ہے کہ اپنے جیسی مخلوق سے احتیاج نہ رکھو ۔ حقیقت غنا یہ ہے کہ اپنے جسموں سے استغنا اختیار کر وا اور تصوف قیل و قال سے نہیں لیا گیا بلکہ بھوک اور پسندیدہ و محبوب چیزوں کو چھوڑ دینے سے لیا گیا ، جو فقیر طلب کے لیے حاضر ہو اس کا آغاز علم کے ذریعے نہ کرو بلکہ نرمی سے اس کی ابتداء کرو ، کیونکہ ابتداء صحبت میں احکام علم کا مطالبہ وحشت کا باعث ہوگا اور نرمی الفت پیدا کرے گی تصوف کی بنیاد آٹھ چیزوں پر ہے حضرت ابراہیم علیہ السلام جیسی سخاوت حضرت اسحاق علیہ السلام کی طرح قضا پر رضا ، حضرت ایوب علیہ السلام جیسا صبر، حضرت زکریا علیہ السلام کی طرح مناجات ، حضرت یحیی علیہ السلام جیسی غربت و مسافر ، حضرت موسیٰ علیہ السلام کی طرح صوف کا لباس پہننا ، حضرت عیسی علیہ السلام کی طرح سیر و سیاحت ، عالم قدس کے بادشاہ حضرت محمدصلی اللہ تعالیٰ علیہ و آلہ وسلم کا فقر ۔ اللہ تعالی کی آپ پر اور تمام انبیاء پر رحمتیں اور برکتیں نازل ہوں ۔
مقالہ نمبر 76
وصیت غوث اعظم رضی اللہ عنہ
حضرت شیخ عبد القادر جیلانی رضی اللہ عنہ نے فرمایا : میں تمہیں وصیت کرتا ہوں کہ اگر اغنیاء اور دنیا داروں سے ملنے کا اتفاق ہو تو عزت و وقار سے ملو اور فقراء سے ملو تو عاجزی اور تواضع کے ساتھ عاجزی اور اخلاص کو ہمیشہ کے لیے لازم کر لو ۔ اخلاص کے معنی ہمیشہ اللہ تعالے اور اغراض و اعراض کی طلب کے بغیر اس کی محبت و رضا ملحوظ رکھنا ہیں ۔ اسباب میں خدا تعالے پر تہمت نہ لگاؤ۔ ہر حال میں اللہ تعالے کے سامنے اپنی بیچارگی کا اظہا ر کرو تم اپنے اور اپنے بھائی کے درمیان دوستی پر اعتماد کرتے ہوئے اس کے حقوق ضائع نہ کرو تواضع حسن ادب اور سخاوت کے ساتھ صحبت فقراء لازم کر لو۔ موت اختیاری کے ذریعے اپنی نفس کشی کرو یہاں تک کہ حیات معنوی سے زندہ کر دیا جائے۔ جو شخص خلق کے اعتبار سے اچھا ہے وہ خدا کے زیادہ قریب ہے ؟ حصول ثواب اور قرب الہی میں افضل ترین عمل اپنے باطن کو ما سوالله کی طرف التفات سے محفوظ رکھنا ہے لوگوں کو حق اور صبر کی تلقین کرنا اپنے اوپر ضروری قرار دے تو تمھیں فقیر کی صحبت اور ولی کی خدمت کافی ہے ۔ فقیر وہ ہے جو اللہ تعالے سے کسی چیز سے بے نیاز نہ ہو ۔ اور اپنے سے چھوٹے پر حملہ کرنا نامردی ہے اور اپنے سے بڑے پر حملہ کرنا بے حیائی اور شوخی کے مترادف ہے اور اپنے برابرو الے پر حملہ کرنا بد اخلاقی ہے۔ فقر و تصوف مجاہدہ ہے اسے کسی بیہودہ چیز سے نہ ملاؤ اللہ تعالے ہم سب کو اس بات کی توفیق دے ۔ اے خدا کے ولی ! تم ہر حال میں خدا کا ذکر کرو، کیونکہ ذکر تمام نیکیوں کا جامع ہے، اور اللہ تعالیٰ کے عہدو پیمان کی درستی کو مضبوطی سے پکڑ لو اور اس کی پناہ میں آجاؤ کیونکہ اللہ کی رسی سے تمسک ہر قسم کے خسارے کو دور کرنے والا ہے تمہارے لیے قضائے الہی سے پیش آنے والے موقعوں کے لیے ہر وقت تیار رہنا لازم ہے ۔ جان لو کہ ہر حرکت اورہرسکون پر تمہاری پرسش ہو گی اس لیے وقت کی مناسبت سے جو کام سب سے اچھا ہے اس میں مشغول رہو اور اپنے اعضاء کو فضول کاموں سے بچائے رکھو ۔ اللہ تعالی اور رسول اللہ صلے اللہ تعالیٰ علیہ وسلم اور حاکم کی اطاعت تمہارے لیے لازم ہے اور حاکم کا حق ادا کرو اور اس سے کسی ایسی چیز کا مطالبہ نہ کرو جو اس پر واجب ہے۔ اور ہر حال میں اس کے لیے طلب توفیق کی دعا کرتے رہو ۔ مسلمانوں کے بارے میں حسن ظن رکھنا ، ان کے متعلق نیک نیتی سے کام لینا اور ان کے ساتھ نیکی کے کاموں میں شریک رہنا لازم ہے تمھاری کوئی رات ایسی نہیں گزرنی چاہئے کہ تمھارے دل میں کسی کے بارے میں برائی، کینہ اور دشمنی ہو، اور جو شخص تم پر ظلم کرے اس کے لیے نیک دعا کرو ۔ اللہ تعالیٰ کی طرف توجہ رکھو، تمہارے لیے ضروری ہے کہ رزق حلال کھاؤ اور جس چیز کے بارے میں علم نہ ہو اہل علم سے سوال کرو، اللہ تعالے سے حیا کرو اور اس کی صحبت اختیار کرو ماسوا الله کی صحبت محض صحبت خدا کے پیش نظر رکھو، ہر صبح اپنے مال و اسباب سے صدقہ کرو اور ہر شام کو اس دن فوت ہونے والے مسلمانوں کی نماز جنازہ ادا کرو، اور نماز مغرب کے بعد نماز استخارہ پڑھا کر و، اور صبح و شام سات مرتبہ یہ دعا پڑھو، اللهُمَّ أَجِرْنَا مِنَ النَّارِ (اے اللہ ! ہمیں آگ سےبچا ) اور یہ آیات ہمیشہ سورہ حشر کے آخر تک پڑھا کرو : اَعُوذُ باللهِ السَّمِيعِ العليمِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّحِيمِ هُوَ اللَّهُ الَّذِي لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ عَالِمُ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ هُوَ الرَّحْمَنُ الرَّحِیم ۔ اور اللہ ہی توفیق دینے والا ہے اور وہی مدد گا رہے کیونکہ معصیت سے بچانے والا اور نیکی کی قوت دینے والا وہی خدائے بزرگ و برتر ہے۔
مقالہ نمبر 77
وقوف مع اللہ
حضرت شاہ جیلان رضی اللہ عنہ نے فرمایا ، خدائے یگانہ کے ساتھ اس طرح اخلاص و حضور کے ساتھ رہو گو یا مخلوق کا وجود ہی نہیں اور رعایت حق اور حفاظت حدود شرع کرتے ہوئے مخلوق کے ساتھ اس طرح رہو گویا نفس نا پید ہے۔ پس جب تم مخلوق کے وجود کو نظر انداز کرتے ہوئے خدا کے ساتھ رہو گے تو اسے پالوگے اور ہر چیز سے فانی ہو جاؤ گے ، اور جب نفس کی مداخلت کے بغیر مخلوق کے ساتھ رہو گے تو عدل و انصاف سے کام لو گے اور حق پر استقامت اور خلاف حق سے پر ہیز کرو گے ، انجام بد سے محفوظ ہو جاؤ گے ، خلق و نفس خلوت کے دروازے پر چھوڑ کر خلوت میں تنہا داخل ہو جاؤ ۔ تم خلوت کی تنہائیوں میں چشم باطن سے اپنے مونس کو دیکھ لوگے اور چشم سر سے نظر آنے والی موجودات اعیان و اشخاص کے ماوراء کا عین الیقین سے مشاہدہ کر لو گے اور نفس زائل ہو جائے گا، اور اس کی جگہ اللہ تعالی کا قرب وامر لے لے گا۔ اس حالت میں تمہارا جہل علم بن جائے گا اور بعد قرب کی جگہ لے لے گا ۔ تمہاری خاموشی ذکر کی حیثیت اختیار کرلے گی اور وحشت کی جگہ انس وچین حاصل ہوگا۔
اے آدمی ! اس جگہ صرف خلق اور خالق ہیں، اگر تم خالق کو اختیار کرتے ہو تو مخلوقات سے کہہ کہ رب العالمین کے سوا یہ سب تیرے دشمن ہیں۔ پھر حضرت غوث اعظم رضی اللہ عنہ نے دوران گفت گو فرمایا جس نے قرب خداوندی کا مزا چکھا وہی اس لذت سے آشنا ہے۔ آپ سے کسی نے سوال کیا جس شخص پر صفرا کی کڑواہٹ غالب ہے وہ ذوق حلاوت کیسے پائے ؟ آپ نے فرمایا : کوشش و تکلف کے ساتھ خواہشات سے دور رہنے کی سعی کرے ۔ اے آدمی! صاحب ایمان جب نیک اعمال کرتا ہے تو اس کا نفس اپنا حال چھوڑ کر صفات و نورانیت میں قلب کا حکم حاصل کرلیتا ہے اور معارف قلب کا ادر اک کرتا ہے پھر اس کا دل ذات وصفات حق کے کشف میں سر کے حکم میں تبدیل ہوتا ہے پھر سر منقلب ہو کر فانی ہو جاتا ہے اور پھر فنا تبدیل ہو کر وجود و بقا بن جاتی ہے پھر فرمایا حق تعالیٰ کے دوستوں کے لیے ہر دروازے میں گنجائش ہے۔ اے شخص فنا کے معنی ہیں مخلوقات کو اپنی چشم شہود سے معدوم کر دینا اور طبع انسانی کا طبع ملائکہ بن جانا اور پھر طبع ملائکہ سے فانی ہو جانا اور پھر پہلے طریقے سے مل جانا ہے۔ اس وقت اللہ تعالے تمہاری استعداد کی زمین کو جو پانی دینا چاہے گا دے گا، اور جو کاشت کرنا چاہے گا کاشت کرے گا۔ اگر تم اس مقام کے حصول کا ارادہ رکھتے ہو تو تم پر واجب ہے کہ پہلے مسلمان ہو جاؤ ۔ پھر قضا و قدر کے سامنے سرتسلیم خم کر دو پھر اوامر و نواہی کا علم حاصل کرو پھر رب کریم کی ذات وصفات کی معرفت حاصل کر و، پھر اپنے وجود سے فانی ہو کر وجو د حق کے ساتھ بقا پا لو، اور جب تمہا را وجود وجود حق کے ساتھ ہو گا تو تمہاری ہر چیز اسی کے لیے ہو گئی اور زہد ایک ساعت کا کام ہے اور تقوے دو ساعت کا، اور معرفت خداوندی دائمی کام ہے۔
مقالہ نمبر 78
سالکین راہ خدا کی دس خصلتیں
فرمایا ، اہل مجاہده و محاسبہ اور اولوالعزم سالکوں کے لیے دس خصلتیں ہیں جن پر انہوں نے مواظبت کی ہے، جب ان پر قائم رہتے ہوئے انہیں اللہ کے حکم سے مضبوط کر لیتے ہیں تو منازل ارفع تک رسائی حاصل لیتے ہیں۔
پہلی خصلت یہ ہے کہ بندہ کسی طرح بھی خدا کی قسم نہ کھائے،سچی نہ جھوٹی اور نہ عمداً نہ سہوا جس نے اپنی ذات میں اسے پختہ کر لیا اور اپنی زبان کی عادت بنا لیا تو وہ عمداً یا سہواً قسم کھانے سے بچ جاتا ہے اور جب بندہ ترک حلف کا عادی ہو جائے تو اس پر انوار خداوندی کے دروازوں میں سے ایک دروازہ کھل جاتا ہے اور بندہ اپنے دل میں اس کی منفعت معلوم کر لیتا ہے اس کا درجہ بلند ہو جاتا ہے۔ اپنے عزم وصبر میں قوت پاتا ہے بھائی اس کی تعریف میں رطب اللسان ہوتے ہیں اور پڑوسی اس کا احترام کرتے ہیں یہاں تک کہ اسے پہچاننے والے اس کی تقلید کرتے ہیں اور دیکھنے والے اس سے خوف کھاتے ہیں ۔
دوسری خصلت یہ ہے کہ بندہ قصداً یا مذاقاً جھوٹ کہنے سے بچے ، کیونکہ جب بندہ ترک کذب کی عادت پختہ کرلے گا اور اپنی زبان کو اس کا عادی بنائے گا تواللہ تعالے اس کا شرح صدر فرما دے گا اور اس کے علم کو اتنا روشن کرے گا گویا وہ کذب کو جانتا ہی نہیں اور جب کسی دوسرے سے جھوٹی بات سُنے گا تو تو اسے قبیح جانے گا اور اپنے دل میں جھوٹے کو برا سمجھے گا اور اگر جھوٹے سے جھوٹ بولنے کی عادت چھوٹ جانے کی دُعا کرے گا تو ثواب کا حقدار ہوگا۔
تیسری خصلت یہ ہے کہ کسی سے وعدہ کرتے وقت وعدہ خلافی سے ڈرے یا وعدہ ہی نہ کرے ، کیونکہ وعدہ خلافی سے احتراز بہت قوی امر ہے اور راہِ سلوک میں میانہ روی یہی ہے کیونکہ وعدہ کو نہ نبھانا جھوٹ کی ایک قسم ہے اور جب بندہ ایسا کرے گا تو اس کے لیے سخاوت کا دروازہ کھل جائے گا اور ا سے حیا کا درجہ مل جائے گا اور صادقین کے دل میں اس کی محبت پیدا ہو جائے گی اور دربار خداوندی میں اسے رفعت حاصل ہو گی۔
چوتھی خصلت یہ ہے کہ مخلوق میں کسی چیز پر لعنت کرنے یا ذرہ بھر بھی اذیت دینے سے اجتناب کرے کیونکہ یہ صفت ابرار و صد یقین کے اخلاق سے ہے ۔ ایسے شخص کا انجام بخیر ہو گا دنیا میں وہ آفات سے خدا کی حفاظت میں رہے گا ، اس کے ساتھ اللہ تعالے اس کے لیے آخرت میں درجات ذخیرہ فرمائے گا اور ہلاکت کے قعر اور مخلوق کی گزند سے محفوظ رہے گا ۔ بندوں پر شفقت اور اپنا قرب عطا فرمائے گا ۔
پانچویں خصلت یہ ہے کہ بندہ مخلوق میں سے کسی کے لیے بد دعا نہ کرے، اگرچہ کسی نے اس پر ظلم کیا ہو اور زبان سے قطع تعلق نہ کرے اور اس کے کرد اربد کا انتقام بھی نہ لے۔ خدا کی رضا اور طلب ثواب کے لیے اس کی اذیتیں برداشت کرے، قول و فعل سے اس کا بدلہ نہ لے، کیونکہ جس شخص میں یہ صفت ہوگی اس کے درجات بلند ہوں گے اور جب بندہ اس خصلت کا عادی ہو جاتا ہے تو دنیا و آخرت میں بلند درجے پاتا ہے اور قریب و بعید کی تمام مخلوق میں ظاہری و باطنی محبت اور مقبولیت پیدا ہو جاتی ہے اور وہ مستجاب الدعوات بن جاتا ہے۔ نیکی کے کاموں میں اس کا مرتبہ بلند ہوتا ہے اور اہلِ ایمان کے دلوں میں عزیز ہو جاتا ہے ۔
چھٹی خصلت یہ ہے کہ اہل قبلہ میں سے کسی پر یقین کے ساتھ کفر و شرک اور نفاق کی گواہی نہ دے کیونکہ اہل قبلہ کی عدم تکفیر مخلوق پر رحمت و شفقت کے زیادہ قریب ہے اور درجہ علیا کے حصول کا سبب ہے اور یہ خصلت اتباع سنت کا کمال ہے اور اللہ کے علم میں دخل دینے اور اس کے غضب سے بہت زیادہ دور رکھتی ہے اور اللہ عز وجل کی رضا و رحمت کے بہت زیادہ قریب ہے، اور یہ خصلت خدا تک رسائی کے لیے بہت بڑا دروازہ ہے، اور اس کا نتیجہ مخلوق پر مہربانی کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے ۔
ساتویں خصلت یہ ہے کہ بندہ اپنے ظاہر و باطن میں گناہوں کی طرف میلان سے بچائے رکھے اور اپنے اعضاء و جوارح کو معاصی سے روکے رکھے ، کیونکہ اس خصلت کی موجودگی میں بندے کو بہت جلد قلب وجوارح میں اعمال کا ثواب ملتا ہے، دنیا کی زندگی میں بھی اجر پاتا ہے اورخیر آخرت بھی ذخیرہ کی جاتی ہے ہم اللہ تعالے سے سوال کرتے ہیں کہ ہم پر احسان کرتے ہوئے ہمیں ان خصلتوں پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمارے دلوں سے خواہشات کو نکال دے۔
آٹھویں خصلت یہ ہے کہ کسی آدمی پر کم یا زیادہ بوجھ ڈالنے سے احتراز کرے بلکہ اپنا بو جھ تمام مخلوق سے اُٹھالے خواہ اسے اس کی احتیاج ہو نہ ہو ، کیونکہ یہ خصلت عابدین کی عزت کا کمال اور متقین کا شرف ہے اس خصلت کی وجہ سے عزت و ہیبت حاصل ہونے کی وجہ سے امر بالمعروف و نہی عن المنکر پر قوت پاتا ہے اس شخص کے نزدیک تمام لوگ اغنیاء و فقراء ایک جیسے ہو جاتے ہیں، جب مومن اس خصلت پر راسخ ہو جاتا ہے تو اسے غنایقین اور وثوق باللہ کی منزل پر منتقل کر دیا جاتا ہے ، اللہ تعالیٰ کسی کو اس کی خواہش سے بلند نہیں کرتا ، پھر اس مومن کے نزدیک حق کہنے میں تمام مخلوق برا بر ہو جاتی ہے اور یقین کر لینا چاہئے اس دروازے میں داخل ہونا مسلمانوں کی عزت اور متقین کے شرف کا سبب ہے اور یہ اخلاص تک پہنچنے کا قریب ترین راستہ ہے ۔
نویں خصلت یہ ہے کہ سالک لوگوں سے حرص و طمع ختم کر دے اور ان کے ہا تھوں میں جو چیز موجود ہے نفس کو اس کے لالچ سے بچائے ، کیونکہ یہ خصلت بڑی عزت ، خالص استغنا ، ملک عظیم ، فخر جلیل ، یقین صافی، اور شرک اور غیر پر اعتماد کی بیماری سے نجات دہندہ اور خالص تو کل ہے اور وثوق باللہ اورزہد کے دروازوں میں سے ایک دروازہ ہے اسی کی وجہ سے تقوی کی دولت ملتی ہے۔ اور عبادات کی تکمیل ہوتی ہے اور یہ ان لوگوں کی علامت ہے جو سب رشتے توڑ کر اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہیں ۔
دسویں خصلت تواضع ہے اس خصلت کی وجہ سے عابد کا محل آراستہ اور مضبوط ہوتا ہے اور اس کا مقام بلند ہوتا ہے، عند اللہ اور عند الناس اس کی عزت بڑھتی ہے اور مراتب بلند ہوتے ہیں اور دنیا و آخرت کی جس چیز کا ارادہ کرتا ہے اس پر قادر ہو جاتا ہے۔ سب اطاعتوں کی اصل، ان کی فرع اور ان کا کمال یہی خصلت ہے۔ اسی کے ذریعے بندہ صالحین کے مقامات حاصل کرتا ہے جو تنگی و آسانی کی حالت میں خدا سے خوش رہتے ہیں اور صفت تواضع ہی کمال تقوی ہے۔ تواضع کی ایک علامت یہ ہے کہ آدمی جس سے ملے اس کو اپنی ذات سے بڑا سمجھے اور کہے شاید شخص خدا کے نزدیک مجھ سے بہتر اور مرتبے میں مجھ سے بڑا ہو. اگر ملنے والا چھوٹا ہے تو کہے کہ اس نے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی نہیں کی اور میں نافرمانی کا مرتکب ہوا ہوں ، اس لیے بلاشبہ یہ مجھ سے بہتر ہے ۔ اگر ملنے والا عمر میں بڑا ہے تو کہے کہ اس نے مجھ سے پہلے رب کی عبادت کی ہے اور اگر ملنے والا عالم ہے تو کہے کہ اسے وہ چیز عطا کی گئی ہے جس تک میری رسائی نہیں اور اس نے وہ کچھ پایا ہے جو میں نہیں پاسکا، اور اسے وہ علم ہے جو مجھے نہیں اور وہ علم کے ساتھ عمل بھی کرتا ہے ۔ اگر ملنے والا جاہل ہے تو کہے اس نے تو نادانی میں خدا کی نافرمانی کی ہے اور میں جانتے بوجھتے جرم کا مرتکب ہوا ہوں اور مجھے یہ علم نہیں کہ میرا انجام کیسا ہو گا اور اس کا خاتمہ کس حال میں ہوگا ۔ اور اگر ملنے والا کا فر ہے تو کہے ممکن ہے اسے دولت ایمان نصیب ہو جائے اور اس کا خاتمہ بالخیر ہو اور ممکن ہے کہ میں کافر ہو جاؤں اور میرا خاتمہ برے حال میں ہو ۔ یہ د و سروں پر شفقت اور اپنے نفس پر خوف کا باب ہے اور یہ چیز مصاحبت کے زیادہ لائق ہے اور یہ آخری چیز کا اثر بندوں پر باقی رہے گا۔ جب بندہ صفت تواضع سے متصف ہو جائے گا تو اللہ تعالے اسے نفسانی اور اچانک پہنچنے والے شیطانی وسوسوں سے محفوظ رکھے گا اور اسے خدا کےخیر خواہ اور حقوق خدا ادا کرنے والے کے مقام عطا کرے گا اور وہ اللہ تعالے کے برگزیدہ دوستوں سے ہو جائے گا اوردشمن خدا یعنی ابلیس کے دشمنوں سے ہوگا۔ تواضع رحمت کا دروازہ ہے اس کے ساتھ تکبر کا دروازہ ٹوٹ جاتا ہے اور خود پسندی کی رسی کٹ جاتی ہے اور اس سے دین و دنیا اور آخرت میں بندے کے نفس کی بڑائی کا درجہ گھٹ جاتا ہے ۔ تواضع عبادت کا مغز ہے ۔ زہاد و عباد کی انتہائی بزرگی پر دلالت کرتی ہے ۔ کوئی چیز اس سے افضل نہیں ہے اس خصلت کے ساتھ انسان کی زبان اہلِ عالم کے ذکر اور بے فائدہ باتوں سے رک جاتی ہے اس کے بغیر بندے کا کوئی عمل پایہ تکمیل تک نہیں پہنچتا، یہ خصلت تمام احوال میں کینہ تکبر اور حد سے گزر جانے کی خواہش میں اس کی زبان ، اس کا چاہنا اور اس کا کلام کرنا ظاہر و باطن میں ایک ہو جانا ہے اور پوری مخلوق خیر خواہی اور حقوق کی ادائی میں ایک ہو جاتی ہے وہ مخلوق خدا میں سے کسی کو نصیحت کرتے ہوئے برائی سے یا د نہیں کرتا اور کسی کو مصلحت و نصیحت کے بغیر سرزنش نہیں کرتا ۔ وہ اسے پسند نہیں کرتا کہ اس کے سامنے کسی کا برائی سے ذکر کیا جائے اس سے اس کا دل راحت نہیں پاتا بلکہ رنجیدہ ہوتا ہے اور یہ صفت غیبت عابدوں کے لیے آفت اور زاہدوں اور اطاعت گزاروں کے حق میں ہلاکت ہے۔ اللہ تعالٰے اپنی رحمت سے جس کی زبان اور دل کی حفاظت فرمائے وہی بچتا ہے ۔
مقالہ نمبر 79
تکملہ مرض وصال اور وصایا
مرض وصال میں آپ کے صاحبزادے شیخ سیف الدین عبدالوہاب نے آپ کی خدمت میں عرض کیا مجھے وصیت فرمائیں آپ کے بعد کیا عمل کروں ؟ آپ نے فرمایا ، تم پر خدا سے ڈرنا واجب ہے اس کے سوا کسی سے نہ ڈرنا نہ کسی سے کوئی امید رکھنا اپنی تمام حاجات خدا کے سپرد کر دینا اس کے سوا کسی پر اعتماد نہ کرنا ہر چیز اس سے طلب کرنا اس کے سوا کسی پر وثوق نہ کرنا ، توحید اور فقط توحید پر قائم رہنا ، اس پر سب کا اجماع ہے۔
فرمایا : جب دل کا تعلق خدا سے درست ہو جاتا ہے تو علوم ضروریہ سے کوئی چیز اس سے خالی اور جدا نہیں ہوتی ۔
فرمایا ، میں ایسا مغز ہوں جس کا پوست نہیں ۔ اپنے پاس بیٹھی ہوئی اولاد کو حکم دیا ، مجھ سے ذرا ہٹ جاؤ کیونکہ میں بظاہر تمہارے ساتھ ہوں مگر باطن کسی اور کے ساتھ ۔ فرمایا ، تمہارے سوا اور بھی لوگ حاضر ہوئے ہیں ان کے لیے جگہ خالی کرو اور ان کا ادب کرو، اس جگہ بڑی رحمت ہے ، ان پر جگہ تنگ نہ کرو ۔ آپ ملائکہ اور ارواح مقربین کو سلام کہتے ہوئے مسلسل فرماتے جاتے تھے ؟
وَعَلَيْكُمُ السَّلَامُ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكاتُه غَفَر الله لى ولكم و تاب الله عَلَى وَعَلَيْكُمْ بِسْمِ اللهِ غَيْرَ مُوَدِّعِينَ – اور تم پر اللہ کی سلامتی، رحمتیں اور برکتیں ہوں اللہ تعالے میری اور تمہاری مغفرت اور توبہ قبول فرمائے ، بسم اللہ بغیر رخصت کئے ہوئے آؤ
آپ مسلسل ایک رات دن ملائکہ کے سلام کے جواب میں یہی فرماتے رہے۔ پھر فرمایا ، تم پر افسوس ہو مجھے کسی چیز کا ڈر نہیں، نہ کسی عام فرشتے کا نہ ہی ملک الموت کا ۔ اے ملک الموت ! تجھے تو اس نے عطا کیا ہے جو تیرے سوا میرے امور کا والی ہے ۔ جس شام کو آپ کا وصال ہوا اس صبح آپ نے زوردار نعرہ مارا ۔ راقم الحروف کو آپ کے صاحبزادوں شیخ عبدالرزاق اور شیخ موسی رحمتہ اللہ علیہم اجمعین نے خبردی کہ آپ مصافحہ کرنے کے انداز میں دونوں ہاتھ بلند کرتے اور کہتے وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ وبرکاتہ اپنے باطن سے خدا کی طرف رجوع کرو اور صف میں داخل ہو جاؤ میں بھی تمھاری طرف آ رہا ہوں۔ آپ فرماتے تھے : نرمی سے کام لو۔ پھر آپ کے پاس حق اور موت کی مستی آگئی
مقالہ نمبر 80
وصال مبارک
حضرت قطب ربانی غوث صمدانی نے فرمایا ،
مجھے کسی شے ، فرشتے اور ملک الموت کاخوف نہیں ! اے ملک الموت !
تیرے سواجس نے ہمیں دوست بنایا ، اس نے ہمیں عطا کیا ۔
اس کے بعد آپ نے بلند آواز سے ایک نعرہ لگایا ، یہ اس دن کا واقعہ ہے جس کی شام کو آپنے وصال فرمایا، ہمیں آپ کے صاحبزادگان شیخ عبدالرزاق اور شیخ موسی نے بتایا کہ آپ اپنے دونوں ہاتھوں کو اٹھاتے اور دراز فرماتے تھے اور فرماتے تھے : وعلیکم السلام ورحمة الله و برکا ته تو بہ کرو اورصف ( اصفیا ء)میں داخل ہو جاؤ ، اب میں تمہاری طرف آتا ہوں۔
اور فرماتے تھے : ٹھہرو ! اس کے بعد آپ پر وصال کے آثار نمودار ہونا شروع ہو گئے۔ اس کے بعد آپ نے فرمایا :
میرے اور تمہارے اور تمام مخلوق کے درمیان زمین و آسمان کا فرق ہے مجھے کسی پر قیاس کرواور نہ کسی کو مجھ پر ۔ آپ کے صاحبزادے عبدالعزیز نے آپ سے در و تکلیف کا حال پو تھا ، آپ نے فرما یا :
مجھ سے کوئی شخص کچھ نہ پو چھے میں علم الہی میں ایک حال سے دوسرے حال کی طرف پلٹاجا رہا ہوں ۔
راوی کا بیان ہےکہ اس کے بعد آپ کے صاحبزادے شیخ عبدالعزیز نے آپ سے مرض کے متعلق سوال کیا ، آپ نے فرمایا جنات ، انسانوں اور فرشتوں میں سے کوئی میرامرض جا نتا ہے اور نہ سمجھتا ہے اللہ کے حکم سے اللہ کا علم نہیں بدلتا حکم تبدیل ہوتا ہے علم تبدیل نہیں ہوتا ،حکم منسوخ ہوتا ہے علم منسوخ نہیں ہوتا ، يَمْحُو اللَّهُ مَا يَشَاءُ وَيُثْبِتُ وَعِنْدَهُ أُمُّ الْكِتَابِ لَا يُسْأَلُ عَمَّا يَفْعَلُ وَهُمْ يُسْأَلُونَ اللہ جو چاہے مٹاتا اور ثابت کر تاہےاور اصل لکھا ہوا اسی کے پاس ہے ، صفات کے بارے میں جس طرح بتایا گیا ہے کہ وہ جاری ہو کر رہیں گی ۔
آپ صاحبزادے عبدالجبار نے دریافت کیا کہ جسم کے کون سے حصے میں زیادہ تکلیف محسوس ہوتی ہے ؛ فرمایا میرے دل کے بغیر جو اللہ کے ساتھ شاغل ہے ، سب اعضا مجھے تکلیف دے رہے ہیں۔ اس کے بعد وصال بہت قریب آ گیا ۔
اس وقت آپ یہ الفاظ دہرا رہے تھے ۔ استعنت بلا اله الا الله سبحانه وتعالى والمحى الذي لا يخشى الفوت سبحان من تعزز القدرة وقهر العباد بالموت لا الله الا الله محمدرسول الله –
میں لا الہ الا اللہ کے ساتھ اس ذات سرمدی سے مددچا ہتا ہوں جیسے موت کا کوئی خوف نہیں ، پاک ہے وہ ذات جو اپنی قدرت کے ساتھ غالب ہے اور جس نے بندوں کو موت سے مغلوب کر رکھا ہے لا الہ الا الله محمد رسول الله )
ہمیں آپ کے صاحبزادے شیخ موسی نے بتایا کہ وصال کے وقت آپ کی زبان مبارک لفظ تعزز کا صحیح لفظ ادا نہیں کر سکتی تھی، آپ بار بار یہ لفظ ادا کرنے کی کوشش کرنے لگے بالآخر اسے ادا فرما لیا البتہ ذرا کھینچ کر اور لمبا کر کے زبان مبارک سے اس لفظ کا صحیح تلفظ فرمایا پھر فرمایا اللہ ، اللہ ، اللہ اس کے بعد آواز نرم ہوگئی اور زبان مبارک تالو سے مل گئی اور یہ شہباز قدس اپنی منزل کی طرف پرواز کر گیا ، رضوان اللہ علیہ ۔ اللہ تعالی ہمیں آپ کی برکات سے مستفید ہونے کی توفیق ارزانی کرے ۔