مقام تنزیہ کی تحقیق مکتوب نمبر 9 دفتر دوم

  کلمہ طیبہ لا إله إلا الله کے فضائل اور مقام تنزیہ کی تحقیق اور اس بیان میں کہ ایمان بالغیب اس وقت متحقق ہوتا ہے جب کہ معاملہ اقربیت تک پہنچ 

جائے کیونکہ یہ معاملہ و ہم خیال کےضبط سے باہر ہے۔ ملاعارف ختنی کی طرف صادر فرمایا ہے۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ وَسَلَامٌ عَلٰی عِبَادِہِ الَّذِیْنَ اصْطَفٰی (الله تعالی کی حمد ہے اور اس کے برگزیدہ بندوں پر سلام ہو) 

مولانا محمد عارف ختنی کو چاہئے کہ پہلے باطل خداؤں کی نفی کر کے معبود برحق جل شانہ کا اثبات کرے اور جو کچھ چونی اور چندی (کمیت و کیفیت)کے داغ سے موسوم ہو، اس کو لا کے نیچے داخل کرکے خدائےبیچون کے ساتھ ایمان لائے۔ سب سے بڑھ کر عبادت کلمہ طیبہ لا إله إلا الله کی نفی و اثبات میں ہے۔ رسول علیہ الصلوة والسلام نے فرمایا ہے کہ تمام ذکروں سے افضل ذکر لا إله إلا الله ہے۔ نیز رسول اللہ ﷺنے فرمایا ہے کہ اللہ تعالی نے اس طرح فرمایا ہے کہ اگر میرے سوا سات آسمانوں اور سات زمینوں کو ایک پلہ میں اور کلمہ لا إله إلا الله کو دوسرے پلہ  میں رکھا جائے تو کلمہ والا پلہ(اپنی بزرگی کی وجہ سے) بھاری ہوگا۔ کیوں افضل وراجح نہ ہو جبکہ اس کا ایک کلمہ تمام ماسواے حق یعنی آسمانوں، زمینوں اور عرش و کرسی ولوح وقلم و عالم و آدم کی نفی کرتا ہے اور اس کا دوسراکلمہ معبود برحق کا اثبات کرتا ہے۔ جو زمینوں اور آسمانوں کا پیدا کرنے والا ہے۔ حق تعالی کے ماسوا جوکچھ انفس و آفاق میں ہے سب چونی اور چندی کے داغ سے لتھڑا ہوا ہے۔ پس جو کچھ آفاق و انفس کے آئینوں میں جلوہ گر ہو، بطریق اولی چند و چون(کتنا اور کیسا) ہوگا جونفی کے لائق ہے۔ 

اس سے معلوم ہوا کہ جو کچھ ہمارے علم وو ہم میں آ سکے اور جو ہمارا مشہود محسوس ہو، سب چونی اور چگونی سے متصف اور حدوث و امکان کے عیب سے عیب ناک ہے کیونکہ ہمارا معلوم و محسوس ہمارا اپنا تراشا اور بنایا ہوا ہے۔ وہ تنزیہ جس کا تعلق ہمارے علم سے ہے، عین تشبیہ ہے اور وہ کمال جو ہمارےفہم میں آ سکے عین نقص ہے۔ پس جو کہ ہم پرمتجلی اور مکشوف اور مشہود ہو،. وہ سب حق تعالی کا غیر ہے۔ حق تعالی اس سے  وراء الوراء ہے۔ حضرت خلیل علیہ الصلوة والسلام فرماتے ہیں أَتَعْبُدُونَ مَا تَنْحِتُونَ   وَاللَّهُ خَلَقَكُمْ وَمَا تَعْمَلُونَ ( کیا تم ان چیزوں کی عبادت کرتے ہو جو تم اپنے ہاتھ سے بناتے ہو۔ حالانکہ اللہ تعالی نے تم کو اور تمہارے عملوں کو پیدا کیا ہے۔) ہمارا اپنا تراشا ہوا اور بنایا ہوا خواہ ہاتھ کے ذریعے ہو، خواہ عقل ووہم کے ساتھ، سب حق تعالی کا مخلوق ہے جو عبادت کے لائق نہیں ۔ عبادت کے لائق وہی خدائے بیچون وبیچگون ہے جس کے دامن ادراک سے ہماری ادراک سے ہماری عقل ووہم کا ہاتھ کوتاہ ہے اورہماری کشف و شہود(مشاہدہ)  کی آنکھ اس کی عظمت و جلال کے مشاہدے سے خیرہ اور تباہ ہے۔ ایسے خدائے بیچون وبیچگون  کے ساتھ غیب کے طریق کے سوا تمام ایمان میسر نہیں ہوتا کیونکہ ایمان شہود حق تعالی کے ساتھ ایمان نہیں ہے بلکہ اپنی تراشیدہ اور بنائی ہوئی چیز کے ساتھ ہے کہ دہ بھی حق تعالی کی مخلوق ہے۔ گویا ایمان شہود(مشاہدہ)  غیر کے ایمان کو حق تعالی کے ایمان کے ساتھ شریک کرنا ہے بلکہ صرف ایمان بغیر ہے۔ اعاذنا الله سبحانه عن ذلک (اس سے اللہ تعالی ہم کو بچائے۔) ایمان بالغیب اس وقت میسر ہوتا ہے جبکہ تیز رفتار وہم کی جولانی نہ ر ہے اور وہاں کی کوئی چیز قوت متخیلہ میں منقش نہ ہو اور یہ بات حق تعالی کی اقربیت میں ثابت ہوتی ہے جو وہم و خیال کے احاطہ سے باہر ہے کیونکہ جس قدر زیادہ دور ہوں، اسی قدر وہم کا جولان زیادہ ہوتا ہے اور اسی قدر زیادہ خیال کا غلبہ پڑتا ہے۔ یہ دولت انبیا علیہم الصلوۃ والسلام کے ساتھ مخصوص ہے اور ایمان بالغیب بھی انہیں بزرگواروں کا نصیب ہے اور جس کسی کو کہ چاہتے ہیں ان کی تبعیت و وراثت کے سبب اس دولت سے مشرف کرتے ہیں اور وہ ایمان غیب جو عوام کو حاصل ہے، وہم کے احاطہ سے باہر ہیں کیونکہ وراء الوراء عوام کے نزدیک بعد اور دوری کی جانب میں ہے جو وہم کا جولانگاہ ہے اور ان بزرگواروں کے نزدیک وراء الوراء قرب کی جانب میں ہے جہاں وہم کی مجال نہیں۔ جب تک دنیا قائم ہے اور حیات دنیا کے ساتھ زندہ ہیں، ایمان بالغیب سے چارہ نہیں کیونکہ ایمان شہود(مشاہدہ)  اس جگہ معلول ہے۔ جب عالم آخرت پر تو ڈالے گا اور وہم و خیال کی صورت کو توڑ دے گا تو پھر ایمان شہودی(مشاہدہ) مقبول ہوگا اور تراشنے اور بنانے کی علت سے پاک و مبرا ہوگا۔

 میرے خیال میں جب حضرت محمد رسول اللہ دنیا میں دولت رؤیت(شب معراج حق تعالیٰ کے دیدار) سے مشرف ہوئے تو ان کے حق میں اگر ایمان شہودی(مشاہدہ)  ثابت کریں تو زیبا اور محمود ہے اور اپنی طرف سے بنانے اور تراشنے سے صاف آزاد ہے کیونکہ جس چیز کا اوروں کے لیے قیامت کا وعدہ ہے، ان کو اسی جگہ میسر ہے۔ ذَلِكَ فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يَشَاءُ وَاللَّهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيمِ

جاننا چاہئے کہ کلمہ نفی کو حضرت خلیل علے نبینا وعلیہ الصلوة والسلام نے پورا کیا تھا اور شرک کے دروازوں میں سے کوئی دروازہ نہ چھوڑا جس کو بند نہ کیا جائے۔ اسی واسطے انبیا علیہم الصلوة والسلام کے امام اور پیشوا بن گئے کیونکہ اس جہان میں نہایت کمال اس نفی کے کامل کرنے پر وابستہ ہے اور کلمہ طیبہ کے اثبات کے کمالات کا ظہور عالم آخرت پر موقوف ہے۔ 

حاصل کلام یہ کہ جب حضرت خاتم الرسل علیہ الصلوة والسلام اس جہان میں رؤیت کی دولت سے مشرف ہوئے تو انہوں نے کلمہ اثبات کے کمالات سے بھی کامل حصہ پالیا۔ اس صورت میں کہہ سکتے ہیں کہ کلمہ اثبات اس جہان کے اندازے کے موافق ان کی بعثت سے کامل و تمام ہو گیا۔ یہی وجہ ہے کہ تجلی ذات ان کے حق میں اس جہان میں ثابت کرتے ہیں اور دوسروں کے حق میں آخرت پر موعود جانتے ہیں۔ والسلام علی من اتبع الهدى والترم متابعة المصطفے علیه وعلى جميع اخوانه من الأنبياء والمرسلين والملئكة المقربين من الصلوات افضلها وبن التسلیمات اكملها (سلام ہو اس شخص پر جس نے ہدایت اختیار کی اور حضرت مصطفی ﷺ کی متابعت کو لازم پڑا۔) 

مکتوبات حضرت مجدد الف ثانی دفتر دوم صفحہ44 ناشر ادارہ مجددیہ کراچی


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں